Maarif-ul-Quran - Al-Hijr : 85
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ وَ اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ
وَمَا : اور نہیں خَلَقْنَا : پیدا کیا ہم نے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَآ : ان کے درمیان اِلَّا : مگر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک السَّاعَةَ : قیامت لَاٰتِيَةٌ : ضرور آنیوالی فَاصْفَحِ : پس درگزر کرو الصَّفْحَ : درگزر کرنا الْجَمِيْلَ : اچھا
اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو (مخلوقات) ان میں ہیں اس کو تدبیر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اور قیامت تو ضرور آ کر رہے گی تو تم (ان لوگوں سے) اچھی طرح سے درگزر کرو۔
تلقین صبر بر ایذائے اہل استہزاء و تمسخر قال اللہ تعالیٰ : وما خلقنا السموت والارض .... الیٰ .... حتی یاتیک الیقین۔ (ربط) گزشتہ رکوعات میں پہلی امتوں کے معاندین کے حال اور مال کو بیان کیا۔ اب ان آیات میں آنحضرت ﷺ کو عفو اور صبر کی تلقین فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ اپنے زمانے کے معاندین کی ایذاء اور تمسخر پر صبر کریں اور کوئی حرف شکایت زبان پر نہ لائیں اور جو لوگ آپ ﷺ سے استہزاء اور تمسخر کرتے ہیں ان کی فکر نہ کریں ہم خود ان سے نپٹ لیں گے۔ آپ ﷺ بےخوف و خطر تبلیغ اور دعوت کو جاری رکھیں اور تسبیح وتحمید اور عبادت میں لگے رہیں چناچہ فرماتے ہیں۔ اور نہیں بنایا ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور ان کے درمیان کی چیزوں کو مگر حکمت اور مصلحت کے ساتھ تاکہ ان سے صانع عالم کے وجود باجود اور اس کی وحدانیت اور اس کی عظمت اور قدرت پر استدلال کریں اور اس کے احکام کی اطاعت کریں اور ان بستیوں کو دیکھیں جو نافرمانیوں کی وجہ سے تباہ اور برباد ہوئیں۔ اور دنیا ہی میں نافرمانی کے جرم میں پکڑ لیے گئے اور اگر بالفرض ہم کسی مجرم اور نافرمان کو دنیا میں نہ پکڑیں تو تحقیق قیامت ضرور آنے والی ہے وہاں سزا مل جائے گی اور اس کفر و تکذیب کا نتیجہ وہاں ظاہر ہوجائے گا۔ پس آپ ان معاندین سے خوبی کے ساتھ درگزر کیجئے اور ان کے حال کو اللہ کی مشیت پر چھوڑ دیجئے۔ بیشک تیرا پروردگار وہی بڑا پیدا کرنے والا جاننے والا ہے لہٰذا آپ ﷺ ان کے معاملہ کو خدا کے علم اور حکمت اور اس کے ارادہ اور مشیت کے سپرد کر دیجئے وہ خود ان سے بدلہ لے لے گا۔ اور آپ ﷺ ان کی طرف توجہ نہ کریں بلکہ اس نعمت کی طرف توجہ کریں جو ہم نے آپ ﷺ کو عطا کی ہے وہ یہ کہ دی ہے ہم نے آپ کو سورة فاتحہ کی سات آیتیں جو (ہر نماز) میں دہرائی جاتی ہیں اور سورة فاتحہ کے ساتھ ہم نے آپ کو قرآن عظیم دیا۔ جس کے ہر حرف کے نیچے علوم الٰہیہ کا ایک سمندر ہے اور یہ قرآن عظیم جو آپ ﷺ کو دیا گیا ہے۔ تمام کتب الٰہیہ اور صحف سماویہ کا خلاصہ اور لب لباب ہے اور سورة فاتحہ اس تمام قرآن کا اجمال اور خلاصہ ہے۔ پس یہ سورت فاتحہ اور یہ قرآن عظیم۔ وہ دولت عظمیٰ ہے کہ جس کے مقابلہ میں دنیا کی تمام دولتیں سچ ہیں پس آپ ﷺ خدا کی اس نعمت عظمیٰ پر نظر رکھئے اور اس دولت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھئے جو ہم نے مختلف قسم کے کافروں کو برائے چند سے نفع اٹھانے کے لئے وہی ہے ازواجا منھم سے انواع و اقسام کے کافر مراد ہیں جیسے یہود اور نصاری اور مشرکین اور صابئین وغیرھم اور مطلب یہ ہے کہ ہم نے دنیا میں یہود اور نصاری اور دیگر دشمنان خدا اور رسول کو دنیا کی چند روزہ زندگی کا جو سامان دیا ہے اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھئے وہ نہایت حقیر اور ذلیل ہے اور قرآن عظیم اور علم اور حکمت کی جو دولت ہم نے آپ کو دی ہے اس کے مقابلہ میں دنیا کی تمام دولتیں ہیچ ہیں۔ دنیا ہیج است و کار دنیا ہمہ ہیچ پیش دریائے قدز حرمت تو نہ محیط فلک حبا بےنیست داری آں سلطنت کہ در نظرت ملک کونین در حسا بےنیست جمہور مفسرین (رح) علیہم کے نزدیک اس آیت میں سبع مثانی سے سورة فاتحہ مراد ہے اور بعض احادیث مرفوعہ بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے اور ابن عباس ؓ کا ایک قول بھی یہ ہی ہے اور عبد اللہ بن مسعود ؓ اور عبد اللہ بن عمر ؓ اور عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت میں یہ ہے کہ سبع مثانی سے سبع طوال مراد ہیں۔ یعنی سات لمبی سورتیں ہیں۔ سورة بقرہ سے سورة اعراف تک چھ سورتیں ہیں اور ساتویں سورت کے بارے میں دو قول ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ سورة انفال اور سورة توبہ مل کر ایک سورت ہے اور اسی وجہ سے درمیان میں بسم اللہ نہیں لکھی گئی اور یہ دونوں سورتوں کا مجمو عہ طوال کی ساتویں سورت ہے اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ سبع طوال کی ساتویں سورت سورة یونس ہے اور ان سورتوں کو مثانی اس لیے کہتے ہیں کہ ان سورتوں میں فرائض حدود اور قصص اور احکام اور امثال عبرت کو مکرر بیان کیا گیا ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر بڑا فضل کیا کہ یہ ساتوں مثانی آپ ﷺ کو عطا کیں۔ آپ ﷺ کے سوا کسی پیغمبر کو یہ سورتیں عطا نہیں ہوئیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ان میں سے دو سورتیں دی گئیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو ان میں سے چھ عطا ہوئیں۔ جب انہوں نے الواح تورات کو زمین پر ڈالا تو دو سورتیں اٹھالی گئیں اور باقی چار رہ گئیں۔ (تفسیر ابن کثیر ص 557 ج 2) خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ ” سبع مثانی “ یعنی یہ سات سورتیں بمنزلہ سبع صحائف کے ہیں یعنی بمنزلہ سات صحیفوں کے ہیں کہ جو دیگر انبیاء کرام (علیہم السلام) پر متفرقاً نازل ہونے اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو سبع مثانی عطا کیں۔ جو بمنزلہ سات صحیفوں کے ہیں۔ اور ان سات کا مجموعہ سوائے آنحضرت ﷺ کے کسی اور نبی کو نہیں دیا گیا۔ اور قرآن عظیم تمام اولین اور آخرین کے علوم کا مجموعہ ہے اور یہ سبع طوال پورے قرآن کا اجمال ہے اور سورة فاتحہ سبع طوال کا اجمال اور متن ہے لہٰذا جن صحابہ کرام ؓ سے یہ منقول ہے کہ سبع مثانی سے پورا قرآن مراد ہے یا سات لمبی سورتیں مراد ہیں یا سات آیتوں والی سورت سورة فاتحہ مراد ہے سب اقوال اپنی اپنی جگہ پر صحیح اور درست ہیں مثانی کا لفظ اپنے مفہوم عام کے لحاظ سے سورة فاتحہ اور سبع طوال اور طوال کا نزول نہیں ہوا تھا۔ یہ سات لمبی سورتیں مدنی ہیں مدینہ میں جا کر نازل ہوئیں۔ لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ پورا قرآن مجید بھی مکہ میں نازل نہیں ہوا تھا مگر اس کے نزول کا وعدہ مکہ ہی میں ہوچکا تھا۔ اس لیے سبع مثانی سے سبع طوال مراد لینا باعتبار وعدہ نزول صحیح ہے کیونکہ اللہ کا وعدہ حق اور صدق ہے اور یہ بد نصیب اگر سبع مثانی اور قرآن عظیم جیسی نعمت کو قبول نہ کریں تو آپ ان کی محرومی پر رنجیدہ اور غم گین نہ ہوں یعنی آپ ﷺ ان کے حال پر رنج و غم نہ کریں اور بجائے ان کے درویشان اسلام یعنی اہل ایمان کے لیے اپنے بازوئے تواضع و شفقت کو جھکا دیجئے جنہوں نے قرآن عظیم جیسی دولت کو قبول کیا یہ اہل تواضع و مسکنت کا گروہ ہے یہ گروہ آپ ﷺ کی شفقت کا مستحق ہے اور جن متکبرین اور مغرورین نے مال و دولت کے نشہ میں قرآن کی دولت سے اعراض کیا آپ ﷺ ان سے اعراض کیجئے۔ اور جو آپ ﷺ سے اعراض کرے آپ اس سے صاف کہہ دیجئے کہ میں تو صاف ڈرانے والا ہوں۔ ڈرانا میرا کام ہے اور دل میں اتار دینا اور دل کا پھیر دینا اللہ کا کام ہے اور ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ تبلیغ کر دیجئے اور زیادہ فکر میں نہ پڑئے اور ہم نے آپ ﷺ پر یہ قرآن عظیم ایسا ہی نازل کیا جیسا کہ ہم نے گزشتہ زمانہ میں تقسیم کرنے والوں یعنی یہود اور نصاریٰ پر بہ توسط رسل ایسی کتاب نازل کی جسے وہ پڑھا کریں۔ جیسے توریت اور انجیل یہ کتاب ان کا قرآن تھی جس کو وہ پڑھا کرتے تھے جنہوں نے اپنے اس قرآن کے یعنی اپنی اس آسمانی کتاب کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے تھے اس طرح سے کہ اپنے قرآن یعنی اپنی کتاب الٰہی کی بعض باتون کو مانا اور بعض کو نہ مانا کتاب الٰہی کے کسی حصہ کو چھپایا اور کسی حصہ کو ظاہر کیا جیسی مصلحت دیکھی۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں۔ قول اول : یہ ہے کہ یہ آیت یعنی کما انزلنا علی المقتسمین الخ گزشتہ آیت یعنی ولقد اتینک سبعا من المثانی سے متعلق ہے اور مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن عظیم ہم نے آپ ﷺ پر اسی طرح اتارا ہے جیسے گزشتہ زمانہ میں یہود اور نصاریٰ پر ہم نے توریت اور انجیل نازل کی اور یہ ہی آسمانی کتاب ان کا قرآن تھی جس کو وہ پڑھا کرتے تھے لہٰذا آپ ﷺ پر قرآن عظیم اور وحی کا نازل ہونا کوئی انوکھی بات نہیں جس کا انکار کیا جائے جس طرح پہلے زمانہ میں کتب الٰہی کا نزول ہوا اور بندوں کو احکام کا مکلف بنایا گیا۔ اسی طرح قرآن کا بھی نزول ہوا لہٰذا نزول قرآن کو مستبعد نہ سمجھو۔ اس تشبیہ سے مقصود استبعاد ہے۔ اور مقتسمین کے معنی تقسیم کرنے اور بانٹنے والوں کے ہیں اور اس سے یہود اور نصاریٰ اس لیے مراد لیے گئے کہ اہل کتاب نے اپنی کتاب الٰہی کو تقسیم کرلیا تھا کہ اس کے بعض احکام پر عمل کرتے تھے اور بعض پر نہیں اور الذین جعلوا القران عضین لفظ المقتسمین کی صفت اور تفسیر ہے اور اس قول پر قرآن سے یہ قرآن مراد نہیں کہ جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا۔ بلکہ معنی لغوی مراد ہیں یعنی وہ کتاب الٰہی جس کی قراءت و تلاوت کی جائے اور اس جگہ قرآن سے اہل کتاب کا قرآن مراد ہے یعنی ان کی توریت اور انجیل مراد ہے جس کو وہ پڑھا کرتے تھے اور اہل کتاب نے اپنے قرآن کے یعنی توریت اور انجیل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے تھے۔ جو حصہ کتاب الٰہی کا ان کے ہوائے نفس کے مطابق ہوا اس پر ایمان لے آئے اور جو ان کے ہوائے نفس کے خلاف ہوا اس کا کفر اور انکار کیا۔ بڑے ہی نادان تھے کہ جو کتاب ان کی ہدایت کے لیے نازل کی اس میں قبول اور انکار کے اعتبار سے تقسیم جاری رکھی۔ حالانکہ کتاب منزل کا یہ حق تھا کہ بہ کمال و تمام بدون اقتسام کے اس کو قبول کرتے اور اس پر ایمان لاتے۔ اس جگہ اہل کتاب کو بعنوان اقتسام ذکر کرنا ان کی مذمت اور تقبیح کے لیے ہے کہ کتاب الٰہی میں کیوں تقسیم جاری کی اور کفار مکہ کی طرف تعریض ہے کہ گزشتہ اقتسام کی طرح تم بھی جرم اقتسام کے مرتکب ہو رہے ہو۔ لہٰذا ان کی طرح تم کو بھی عذاب سے ڈرنا چاہئے۔ ہوسکتا ہے کہ مقتسمین سے تو اہل کتاب ہی مراد ہوں مگر قرآن سے یہی قرآن مراد ہو جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا اور مطلب یہ ہوا کہ اہل کتاب نے اس اس قرآن کو تقسیم کرلیا ہے کہ اس قرآن کا جو مضمون ان کی تحریفات یا ان کی آراء اور اہواء کے موافق پڑجائے اس کو تو مان لیا جائے اور جو مضمون قرآنی ان کے خلاف ہو اس کو نہ مانا جائے اس طرح اہل کتاب نے قرآن عظیم کو حق اور باطل کی طرف تقسیم کر ڈالا قرآن عظیم کا جو حصہ ان کے توریت اور انجیل کے موافق ہوا اس کو تو حق کہا اور جو ان کی توریت اور انجیل کے خلاف ہوا اس کو باطل کہا۔ خلاصہ کلام یہ کہ اگر مقتسمین سے اہل کتاب مراد ہوں تو دوسری آیت یعنی الذین جعلوا القران عضین میں قرآن کی تفسیر میں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ قرآن سے یہ ہی قرآن مراد لیا جائے یا قرآن سے معنی لغوی یعنی ان کی کتاب مقرر مراد لی جائے۔ ولکل وجھۃ ھو مولیہا فاستبقوا الخیرت۔ قول ثانی : اور بعض علماء تفسیر یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت یعنی کما انزلنا علی المقتسمین اپنے ماقبل کی قریبی آیت یعنی وقل انی انا النذیر المبین سے متعلق ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ میں نذیر مبین ہوں اے قریش میں تم جو اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں اگر تم اس قرآن عظیم پر ایمان نہ لاؤ گے اور گزشتہ مقتسمین کی طرح اس قرآن کے حصے بخرے کرو گے اور اس کے بعض کو شعر اور بعض کو سحر اور بعض کو کہانت اور بعض کو اساطیر الاولین کہو گے تو پھر عجب نہیں کہ تم پر بھی ویسا نازل ہوجائے جیسا کہ گزشتہ مقتسمین پر نازل ہوا تھا ان کا جرم بھی یہ ہی اقتسام تھا اور تم بھی اسی جرم کے مرتکب ہو اور گزشتہ مقتسمین سے اہل کتاب مرد ہیں جنہوں نے اپنی آسمانی کتاب کے ٹکڑے ٹکڑے کیے کہ جو ان کی مرضی کے موافق ہو اس کو مان لیا اور جو ان کی مرضی کے خلاف ہوا اس کا انکار کردیا اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کی مخالفت و تکذیب کی جس کی سزا میں بندر اور سور بنائے گئے اور ذلت اور مسکنت کی مہر لگی۔ مطلب یہ ہے کہ اس قسم کا عذاب نازل ہونا مستبعد نہیں۔ پہلے زمانہ میں ہوچکا ہے تو اے اہل مکہ ! تم کو بھی اس سے ڈرنا چاہئے۔ غرض یہ کہ پہلے قول کی بناء پر کما انزلنا کی تشبیہ سے نزول وحی کے استبعاد کو دفع کرنا تھا۔ اور اس دوسرے قول پر تشبیہ سے مقصود آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ آیت میں مقتسمین سے قسم کھانے والے مراد ہیں جنہوں نے اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا اور باہم قسم کھائی کہ انبیاء کو قتل کریں گے اور ان کو ایذاء پہنچائیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قوم صالح کے حال سے آگاہ فرمایا۔ سموا باللہ لنبینہ واھلہ باہم مل کر قسم کھانی کہ رات میں جاکر صالح (علیہ السلام) کو اور اس کے گھر والوں کو قتل کردیں پس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ گزشتہ قوموں نے انبیاء کی مخالفت اور عداوت پر قسمیں کھائی تھیں اور انہوں نے کتب سماویہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے تھے پس جیسا عذاب ہم نے ان پر اتارا اسی طرح کے عذاب سے یہ نذیر مبین تم کو ڈراتا ہے اور قوم صالح کے مقتسمین پر عذاب کا نزول قطعی اور یقینی ہے اور منصوص قرآنی ہے لہٰذا اس کو معرض تشبیہ میں ذکر کرنے میں کوئی اشکال نہیں۔ اور بعض علمائے سلف نے مقتسمین سے کفار مکہ مراد لیے ہیں۔ جنہوں نے بطور استہزاء و تمسخر قرآن کی تقسیم کر رکھی ہے۔ جب سورتوں کے نام سنتے تو ہنس کر آپس میں کہتے کہ بقرہ یا مائدہ تو میں لے لوں گا اور نمل اور عنکبوت تو لے لینا یا مکہ کے راستے تقسیم کرلیے تھے کہ راستوں پر مختلف آدمی بٹھا دئیے تھے کہ جو کوئی آتا تو اس سے آنحضرت ﷺ کی برائی کرتے اور آپ ﷺ پر ایمان لانے سے اس کو روکتے تھے اور بعض علماء سلف کہیے ہیں کہ مقتسمین سے آپ ﷺ کے زمانہ کے یہود اور نصاریٰ مراد ہیں جنہوں نے قرآن کو اس طرح تقسیم کر رکھا تھا کہ جو مضمون قرآنی ان کی تحریفات کے مطابق ہو اس کو مان لیا جائے اور جو اس کے خلاف ہو اس کا انکار کردیا جائے مگر ان دونوں قوموں میں اشکال یہ ہے کہ یہ آیت اور یہ سورت مکی ہے اور اس وقت تک نہ کفار قریش پر کوئی عذاب نازل ہوا تھا اور نہ یہود بنی قریظہ اور نہ یہود بنی نضیر پر کوئی مصیبت اور آفت آئی تھی اور کما انزلنا میں کاف حرف تشبیہ ہے اور انزلنا صیغہ ماضی ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان مقتسمین پر گزشتہ زمانہ میں عذاب نازل ہوچکا ہے حالانکہ کفار مکہ اور یہود نبی قریظہ پر جو بھی آفت اور مصیبت آئی ہجرت کے بعد آئی۔ ہجرت سے پہلے نہ کفار مکہ پر کوئی عذاب آیا اور نہ یہود پر لہٰذا انذار میں ایسے عذاب سے تشبیہ دینا جو ابھی تک واقع نہیں ہوا۔ ذوق بلاغت کے خلاف ہے اور ان دو قوموں کو آیت کا شان نزول کہنا بہت مشکل ہے ان دونوں قولوں کی تاویل یہ ہوسکتی ہے کہ کفار مکہ اور یہود بنی قریظہ اور بنی نضیر پر اگرچہ اس وقت تک عذاب نازل نہ ہوا تھا مگر چونکہ مستقبل قریب میں اس کا وقوع یقینی تھا اس لیے اس کو لفظ انزلنا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ترجیح راجح اس آیت کی تفسیر میں حضرات مفسرین کے مختلف اقوال ہم نے ناظرین کے سامنے کر دئیے۔ محققین کے نزدیک سب سے راجح قول اول ہے وہ یہ کہ کما انزلنا علی المقتسمین الخ ولقد اتینک سبعا من المثانی والقران العظیم سے متعلق ہے اور مقتسمین سے اہل کتاب یعنی یہود اور نصاریٰ مراد ہیں اور الذین جعلوا القران عضین، مقتسمین کی صفت کا شفہ ہے یعنی مقتسمین کی تفسیر ہے اور قرآن سے یہی قرآن مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ اے نبی ہم نے آپ ﷺ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم عطا کیا ہے اور آپ ﷺ پر یہ کتاب مستطاب نازل کہ جیسا کہ آپ ﷺ سے پہلے ہم نے یہود اور نصاریٰ کو توریت اور انجیل عطا کی تھی مگر اس زمانہ کے اہل کتاب نے قرآن عظیم کی قدر نہ جانی اور اس قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے اور قرآن کی تقسیم و تحلیل کر ڈالی کہ جو مضمون قرآن کا ان کی تحریفات اور ان کی تیار کردہ توریت اور انجیل کے مطابق ہوا اس کو حق مان لیا اور جو اس کے خلاف پایا اس کو باطل کہہ دیا۔ ان اہل کتاب نے اپنے جہل اور عناد سے اس طرح قرآن کو حق اور باطل کی طرف تقسیم کرلیا۔ اور یہ معنی ابن عباس ؓ سے منقول ہیں اور اس معنی کو امام رازی (رح) نے تفسیر کبیر ص 292 جلد 5 میں اختیار کیا ہے اور اس آیت میں اہل کتاب یعنی یہود اور نصاریٰ کو مقتسمین (بانٹنے والے) کہا کہ انہوں نے قرآن کو حق اور باطل کی طرف تقسیم کیا اور اس کے بعد الذین جعلوا القران عضین مقتسمین کی صفت ذکر فرمائی کہ یہ مقتسمین وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے بعض پر ایمان لائے اور بعض کا انکار کیا اور شیخ الاسلام ابو السعود (رح) نے اور علامہ آلوسی (رح) نے بھی اسی معنی کو اختیار کیا ہے واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔ اور اس ناچیز کے نزدیک ان اقوال میں راجح قول یہ ہے کہ یہ آیت تشبیہ یعنی کما انزلنا علی المقتسمین اپنی قریبی آیت وقل انی انا النذیر المبین سے متعلق ہے اور مقتسمین سے مشرکین مکہ کے وہ چند شریر اور سرکش لوگ مراد ہیں جو ولید بن مغیرہ کے مشورے سے ایام حج میں مکہ کے راستے آپس میں تقسیم کرلیتے تھے جب حج کا موسم آتا اور لوگ باہر سے آتے تو ہر ایک راستہ پر ایک شخص بٹھلا دیا جاتا کہ جو لوگ اس راستے سے آئیں ان سے یہ کہہ دیا کریں کہ ہمارے شہر میں ایک شخص پیدا ہوا ہے اور اپنے کو بھی بتاتا ہے اس کی بات سے تم دھوکہ نہ کھانا وہ مجنون ہے یا جادوگر ہے یا کاہن وغیرہ وغیرہ ہے اور انہیں چند شریروں نے ازراہ تمسخر و استہزاء سورتوں کے نام سے قرآن کے حصے بخرے کئے ہوئے تھے کوئی کہتا کہ میں بقرہ لے لوں گا یا مائدہ اور عنکبوت تجھے دے دوں گا۔ یہ مستحزئین (تمسخر کرنے والوں کا ایک گروہ تھا) جن کا آئندہ آیت میں ذکر ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تسلی دی اور یہ کہا کہ اس گروہ کے شر سے آپ ﷺ کو کفایت کریں گے چناچہ یہ سب لوگ نہایت ذلت کی موت مرے پس مطلب آیت کا یہ ہوا کہ اے نبی ! آپ ﷺ حق تعالیٰ کی طرف سے کہہ دیجئے کہ میں تم کو اللہ کے قہر اور عذاب سے کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم تم پر ایسا عذاب نازل کریں گے جیسا ہم نے مقتسمین پر اتارا۔ یعنی جس طرح ہم نے مقتسمین (مکہ کے راستے تقسیم کرنے والوں) پر یا قرآن کو سحر اور شعر اور کہانت وغیرہ وغیرہ کی طرف تقسیم کرنے والوں پر اتارا۔ یعنی خاص قسم کی ذلت کی موت سے ان کو ہلاک کیا۔ اسی طرح تم کو بھی ہلاک کردیں گے۔ (دیکھو فتح الباری ص 289 جلد 8 و تیسیر القاری شرح صحیح البخاری بزبان فارسی مصنفہ شیخ نور الحق دہلوی (رح) ص 409 جلد 4 وشیخ زادہ حاشیہ بیضاوی ص 164 جلد 2) اور اس قول کو ہم نے اس لیے اختیار کیا کہ وقل انی انا النذیر المبین قریب ہے اور ولقد اتینک سبعا من المثانی ذرا بعید ہے نیز بقرینہ مقام ایسا مفہوم ہوتا ہے کہ کما انزلنا علی المقتسمین میں انزال سے انزال عذاب مراد ہے نہ کہ انزال کتاب نیز حضرت شاہ ولی اللہ (رح) نے جو ترجمہ فرمایا وہ بھی اسی قول پر مبنی ہے چناچہ فرماتے ہیں ” دبگو ہر آئینہ من بیم کنندہ آشکارم فرود خواہیم آور عذاب رامانندآں چہ فرود آور وہ بودیم بر تقسیم کنندگان آنان کہ سا غتند کتاب الٰہی را پارہ پارہ مترجم گوید یعنی بر اہل کتاب کہ بر بعض آیات عمل می کردند و بر بعض نہ دا ھ “۔ جاننا چاہئے کہ شاہ صاحب (رح) کا یہ ترجمہ ہمارے اختیار کردہ قول کا بتمام و کمال مؤید نہیں البتہ صرف اس بارے میں مؤید ہے کہ کما انزلنا کا تعلق اس کی قریبی آیت یعنی وقل انی انا النذیر المبین سے ہے نہ کہ ولقد اتینک سبعا من المثانی سے۔ حضرات اہل علم تفسیر بیضاوی اور اس کے حواشی کا مطالعہ فرمائیں ہماری یہ تفصیل انشاء اللہ اہل علم کے لیے مفید اور معین ہوگی۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔ پس قسم ہے تیرے پروردگار کی کہ قیامت کے دن ہم ان سب کے اعمال سے ضرور باز پرس کریں گے۔ اور ان مقتسمین سے بھی یہ سوال کریں گے تم نے قرآن عظیم اور صاحب قرآن کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ پس اے نبی ! آپ ﷺ صاف صاف ظاہر کر دیجئے اس بات کو کہ جس کے پہنچانے کا آپ کا حکم دیا جاتا ہے اور کسی کے استہزاء اور تمسخر کی پرواہ نہ کیجئے اور مشرکین سے منہ موڑ لیجئے یعنی ان کے مضحکہ اور استہزاء سے دلگیر نہ ہو جیئے تحقیق ہم تیری طرف سے مجھے تمسخر کرنے والوں کو کافی اور بس ہیں یعنی تو بےخوف خطر ہمارا حکم پہنچا ان ٹھٹھا کرنے والوں کے شر سے ہم تجھ کو محفوظ رکھیں گے آپ ﷺ ان کے انتقام اور بدلہ کی کوئی فکر نہ کیجئے ہم خود ان سے نمٹ لیں گے اور یہ بدبخت جو آپ صلی الہ علیہ وسلم کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ دوسرا معبود ٹھہراتے ہیں۔ سو عنقریب جان لیں گے شرک اور استہزاء کا کیا اور کیسا انجام ہے ؟ مخلوق کو خالق کے ساتھ شریک ٹھہرانا یہ خدا کے ساتھ استہزاء اور تمسخر ہے یہ مستہزئین جو آپ ﷺ کے ساتھ اور قرآن کے ساتھ ٹھٹھا کرتے تھے۔ صاحب قوت و وجاہت مشرکین کا ایک گروہ تھا یہ لوگ رؤساء قریش میں سے تھے ان کے نام یہ ہیں۔ (1) ولید بن مغیرہ (2) عاص بن وائل (3) حارث بن قیس (4) اسود بن عبد یغوث (5) اسود بن المطلب۔ جب ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ استہزاء اور تمسخر میں حس سے تجاوز کیا تو اللہ نے آپ ﷺ کو حکم دیا کہ آپ ان کے استہزاء اور تمسخر کی طرف التفات نہ کریں ہم آپ کی طرف سے ان کے لیے کافی اور بس ہیں۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ آنحضرت ﷺ مسجد حرام میں تشریف فرما تھے اور جبرئیل امین (علیہ السلام) بھی آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ یہ پانچ مستہزئین مسجد حرام میں داخل ہوئے اور آپ کو دیکھ کر ہنسے اور پھر طواف میں مشغول ہوگئے جبریل امین (علیہ السلام) بولے کہ مجھے حکم ہے کہ ان کے شر سے آپ ﷺ کو کفایت کروں پس ولید بن مغیرہ ادھر سے گزرا۔ جبریل امین (علیہ السلام) نے ولید کی پنڈلی کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے بعد ولید کا ایک تیر ساز پر گزرا ہوا جو تیر بنا رہا تھا ولید کی ازار اس میں الجھ گئی اس مغرور نے جھکنے کو عاد سمجھا اس لیے وہ تیر اس کی ساق (پنڈلی) میں لگا جس سے خفیف سازخم آیا مگر وہ ایسا پھوٹ نکلا کہ ولید اسی میں مرگیا۔ عاص بن وائل کا ادھر سے گزر ہوا جبرئیل امین (علیہ السلام) نے اس کے تلوے کی طرف اشارہ کیا اور حضور پر نور ﷺ سے فرمایا قدکفیت (آپ کفایت کئے گئے) یہاں سے نکلنے کے بعد عاص بن وائل کے تلوے میں ایک کا نٹا لگا جس سے اس کا پیر پھول گیا اور پھول کرچکی کے پاٹ کی طرح ہوگیا اور اسی میں مرگیا۔ اسود بن المطلب ادھر سے گزرا جبریل امین (علیہ السلام) نے اس کی آنکھ کی طرف اشارہ کیا اسی قوت نابینا ہوگیا اور مرگیا۔ بعض کہتے ہیں کہ جبرئیل (علیہ السلام) کے اشارہ کے بعد دیوانہ ہوگیا اور اسی دیوانگی میں اپنا سر ایک درخت سے جاکر مارنے لگا اور اسی میں مرگیا۔ اسود بن عبد یغوث کا ادھر سے گزر ہوا تو جبریل امین (علیہ السلام) نے اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا تو اس کا پیٹ پھول گیا اور استسقاء ہوگیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اس کو لو لگی اور تمام بدن اس کا سیاہ ہوگیا۔ جب گھر آیا تو گھر والوں نے اس کو پہچانا بھی نہیں اور اسی حالت میں مرگیا۔ اور حارث بن قیس ادھر سے گزرا تو جبریل امین (علیہ السلام) نے اس کے سر کی طرف اشارہ کیا جس سے اس کو سر پھول گیا۔ اور اس پر اس قدر ورم آیا کہ اسی میں مرگیا۔ اس طرح سے اللہ نے اپنے نبی کے ساتھ استہزاء اور تمسخر کرنے والوں کو ہلاک کیا۔ (دیکھو زاد المسیر ص 42 جلد 4 لابن الجوزی و تفسیر در منثور ص 107 جلد 4) تفسیر در منثور میں ان مستہزئین کی ہلاکت کی روایتیں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں اور یہ سب کے سب ایک ہی رات میں ہلاک ہوئے (فتح الباری ص 290 جلد 8) نکتہ : بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان استہزاء کرنے والوں میں سے کوئی اپنے سر سے آپ ﷺ کی طرف اشارہ کرتا ہوگا اور کوئی آنکھ سے اور کوئی اپنے پیٹ سے اور کوئی پیر سے جبرئیل (علیہ السلام) نے مستہزئین کے انہیں اعضا کی طرف اشارہ کیا جس کے اشارہ سے وہ حضور پر نور ﷺ کا مذاق اڑاتے تھے انہیں اعضا کی طرف اشاروں سے مستہزئین ہلاک کیے گئے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ اب پھر آنحضرت صلی اللہ علیہوسلمہ کی تشفی کی طرف توجہ فرماتے ہیں۔ اور اے نبی ! ہم خوب جانتے ہیں کہ تیرا سینہ ان کی تمسخر آمیز باتوں سے تنگ ہوتا ہے۔ جب یہ لوگ شرک کرتے اور قرآن پر ہنستے اور حضور پر نور ﷺ کے ساتھ استہزاء کرتے تو طبعاً یہ باتیں آپ کو ناگوار ہوتیں اور ان باتوں سے آپ ﷺ کا دل گھٹتا، سو اس کا علاج یہ ہے کہ اے نبی ! آپ اپنے پروردگار کی تسبیح وتحمید کرتے رہئے یعنی سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم کی تسبیح پڑھا کیجئے اور ہوجائے سجدہ کرنے والوں میں سے تسبیح وتحمید سے اور سجدہ سے سینہ کے سارے غم دور ہوجائیں گے۔ کما قال تعالیٰ واستعینوا بالصبر والصلوۃ۔ یعنی نماز پڑھنے والوں میں سے ہوجائے جس کی ابتداء قیام پر ہوتی ہے اور انتہاء سجود پر ہوتی ہے اور سجود قرب خداوندی کی آخری منزل ہے۔ کما قال تعالیٰ واسجدو اقترب۔ اور رکوع تعظیم خداوندی کی درمیانی منزل ہوتی ہے اور قیام اور سجدہ درمیانی ایک برزخی مقام ہے اور اپنے رب کی عبادت میں لگے رہو یہاں تک کہ تجھ کو موت آجائے یعنی جب تک جیتا رہے اس وقت تک دل و جان سے اپنے پروردگار کی بندگی کرتارہ جس درجہ آداب عبودیت بجا لائے گا اسی درجہ الطاف ربوبیت کا تجھ پر نزول ہوگا۔ جمہور مفسرین (رح) فرماتے ہیں کہ اس جگہ ” یقین “ سے مراد موت ہے کیونکہ موت کا وقوع امر یقینی ہے جس میں کسی کو شک نہیں ابو حیان (رح) کہتے ہیں کہ موت کا ایک نام یقین بھی ہے۔ اھ اور حدیث اور قرآن میں لفظ یقین بمعنی موت مستعمل ہوا ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ وکنا نکذب بیوم الدین حتی اتانا الیقین اور حدیث میں ہے کہ ایک میت کی نسبت آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا۔ وما ھو فقد جاء ہ الیقین انی لارجوالہ الخیر اور عارفین نے اس جگہ یقین سے کیفیت قلبیہ مراد لی ہے ع بدرد یقین پر دہائے خیال نماند سرا پردہ الاجلال مطلب یہ ہے کہ مرتے دم تک اپنے رب کی حمد و تسبیح میں اور اس کی عبادت میں لگے رہو اللہ تعالیٰ تمہارے سینہ کی تنگی اور گھٹن کو دور کرکے شرح صدر کی دولت سے تم کو نوازے ذکر الٰہی اور عبادت کی خاصیت ہی یہ ہے کہ اس سے سینہ کی تنگی زائل ہوجاتی ہے یا مغلوب ہوجاتی ہے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ حکم نہیں دیا کہ میں مال جمع کروں اور تاجروں میں سے ہوجاؤں ہاں خدا نے مجھے یہ حکم دیا کہ اپنے پروردگار کی تسبیح وتحمید کروں اور سجدہ کرنے والوں میں ہوجاؤں اور اپنے پروردگار کی عبادت کروں یہاں تک کہ مجھ کو موت آجائے۔ (تفسیر قرطبی ص 64 جلد 10) الحمدللہ آج بروز دو شنبہ بتاریخ 26 محرم الحرام 1389 ھ بوقت 8 بجے دن کے سورة حجر کی تفسیر سے فراغت ہوئی۔ وللہ الحمد وامنۃ۔
Top