Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 120
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًا١ؕ وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ
اِنَّ
: بیشک
اِبْرٰهِيْمَ
: ابراہیم
كَانَ
: تھے
اُمَّةً
: ایک جماعت (امام)
قَانِتًا
: فرمانبردار
لِّلّٰهِ
: اللہ کے
حَنِيْفًا
: یک رخ
وَ
: اور
لَمْ يَكُ
: نہ تھے
مِنَ
: سے
الْمُشْرِكِيْنَ
: مشرک (جمع)
بیشک ابراہیم (لوگوں کے) امام (اور) خدا کے فرمانبرادار تھے۔ جو ایک طرف کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔
بیان حقیقت ملت ابراہیمیہ برائے ترغیب اتباع ملت محمویہ قال اللہ تعالیٰ : ان ابراہیم کان امۃ قانتا للہ حنیفا .... الیٰ .... فیما کانوا فیہ یختلفون۔ (ربط) ابتداء سورت سے یہاں تک مشرکین کی شرکیات اور کفریات کا ابطال فرمایا اور توحید کے دلائل بیان کیے۔ مشرکین عرب چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا مقتدا اور پیشوا مانتے تھے ان کی ملت اور شریعت کے اتباع کو واجب سمجھتے تھے اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) خدا کے کیسے موحد اور شکر گزار اور فرمانبردار بندہ تھے۔ سرتاپا توحید و تفرید میں غرق تھے۔ معاذ اللہ مشرک نہ تھے لہٰذا مشرکین عرب اور اہل کتاب کا یہ سمجھنا کہ ہم ملت ابراہیمی پر ہیں بالکل غلط ہے بلکہ اصل ملت ابراہیمیہ کے پیرو اور متبع یہ محمد رسول اللہ ﷺ ہیں تم اگر اصل دین ابراہیمی پر چلنا چاہو تو آپ ﷺ کا طریقہ اختیار کرو۔ توحید و تفرید میں سرور عالم محمد ﷺ کا وہی طریقہ ہے جو ابراہیم علیہ الالسام حنیف کا تھا۔ اور مشرکین کے سنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ابراہیم (علیہ السلام) کے چند اوصاف ذکر فرمائے را کہ ان کے عقائد شرکیہ اور خیالات فاسدہ کا رد ہو۔ (1) امۃ : پیشوا تھے اور مقتدائے عالم تھے۔ (2) قانتا : خدا تعالیٰ کے حکم بردار اور فرمانبردار بندے تھے۔ (3) حنیفا : سب سے مڑ کر ایک خدا کے ہو رہے تھے سوائے جمال حق کے کسی طرف مائل نہ تھے۔ (4) ولم یک من المشرکین : شرک سے پاک اور منزہ تھے خالص موحد تھے بچپن سے لے کر اخیر عمر تک توحید پر قائم رہے۔ (5) شاکر الا نعمہ : خدا کے شکر گزار بندے تھے سرتاپا شکر تھے۔ (6) اجتبہ : اللہ کے برگزیدہ بندے تھے خدا نے ان کو اپنے لیے چن لیا تھا۔ غیر اللہ کی ان میں کوئی گنجائش نہ رہی تھی۔ (7) وھدہ الیٰ صراط مستقیم : راہ راست پر تھے یعنی اسلام اوردین حق پر تھے۔ (8) واتینہ فی الدنیا حسنۃ : اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا کی عزت و کرامت عطا کی اور ان کی نسل میں برکت دی اور سارا عالم ان کو خیر کے ساتھ یاد کرتا ہے۔ (9) وانہ فی الاخرۃ لمن الصلحین : اور آکرت میں بھی وہ بلاشبہ نیکیوں میں سے ہے۔ (10) خاتم الانبیاء کو ملت ابراہیمی کے اتباع کا حکم دیا۔ یہ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک فضیلت ہے کہ آنحضرت ﷺ جیسے شخص کو ملت ابراہیمی کے اتباع کا حکم دیا گیا اور چونکہ یہ فضیلت گزشتہ فضائل سے بڑھ کر ہے اس لیے تفاوت رتبی ظاہر کرنے کے لیے لفظ ثم لایا گیا اور اس طرح فرمایا ثم اوحینا۔ اشارہ اس طرف ہے کہ یہ فضیلت تمام فضائل سے بڑھ کر ہے اور ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراہیم سے یہ بتلایا کہ مشرکین عرب کا یہ سمجھنا کہ ہم ملت ابراہیمی پر ہیں غلط ہے۔ اصل ملت ابراہیمی پر ہمارے نبی ﷺ ہیں جن کو یہ حکم دیا گیا ہے ملت ابراہیمی کی پیروی کریں لہٰذا جو شخص ملت ابراہیمی کی پیروی کا مدعی ہو اس کو چاہئے کہ ملت محمدیہ کا اتباع کرے کیونکہ ملت ابراہیمیہ اور ملت محمدیہ باہم متحد اور متفق ہیں۔ اور انما جعل السبت میں یہود کا رد ہے کہ جو اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا پیرو بتلاتے تھے۔ ملت ابراہیمیہ میں جمعہ کی تعظیم تھی ہفتہ کا دن یہود کے اختلاف کی وجہ سے مقرر ہوا۔ ورنہ ہر نبی نے جمعہ کے دن عبادت کرنے کا حکم دیا ہے جمعہ کی تعظیم ملت ابراہیمی ہے اور ہفتہ کی تعظیم ملت ابراہیمی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نبی آخر الزمان ہیں۔ اپنے جد امجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ملت کے پیرو ہیں۔ نہ یہودی ہیں نہ نصرانی ہیں اور نہ مشرک ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف آپ ﷺ بھی موحد اور حنیف ہیں۔ مشرکین اور اہل کتاب دونوں کا یہ دعویٰ کہ ہم ملت ابراہیمی پر ہیں بالکل غلط ہے ملت ابراہیمی کے پیرو یہ مسلمان ہیں جو توحید پر ہیں چناچہ فرماتے ہیں (1) بیشک ابراہیم ایککامل امت تھے۔ یعنی وہ ایسے امام اور ہادی اور پیشوا تھے کہ ان کے تنہا ذات میں وہ تمام صفات و کمال جمع تھیں جو متفرق طور پر ایک امت میں جمع ہوں گویا کہ وہ تنہا ایک کامل امت کے قائم مقام تھے۔ لیس علی اللہ بمستنکر ان یجمع العالم فی واحد جانا تو یگانہ دلے ذات تو ہست مجموعہ آثار کمالات ہمہ ! ! ! اور بعض کہتے ہیں کہ اس وقت روئے زمین پر سوائے ابراہیم (علیہ السلام) کے کوئی مومن نہ تھا وہ تنہا امت تھے اس لیے ان کو امت کہا گیا۔ (2) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے مطیع اور فرماں بردار تھے یعنی اللہ کے حکموں پر چلنے والے تھے اپنے طرف سے کسی چیز کو حلال حرام کرنے والے نہ تھے۔ (3) اور سب کو چھوڑ کر ایک خدا کی طرف ہوگئے تھے سب سے منہ موڑ کر ایک خدا کی طرف منہ کرلیا تھا۔ (4) اور کبھی بھی مشرکین میں سے نہ ہوئے، بڑے پکے موحد تھے بچپن سے لے کر آخر عمر تک توحید پر قائم رہے۔ (5) اور وہ اللہ کی نعمتوں کے بڑے شکر گزار تھے۔ (6) اللہ تعالیٰ نے روز ازل میں ان کو اپنی نبوت و رسالت و خلت کے لیے چن لیا تھا جس کا ظہور دنیا میں ہوا۔ (7) اور اللہ نے ان کو سیدھی راہ کی طرف چلایا جس طرف اور جس طرح خدا تعالیٰ ان کو چلاتا تھا اس طرف اور اسی طرح چلتے تھے۔ (8) اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی بھلائی دی۔ یعنی دنیا میں ہم نے ان کو رسالت اور خلت اور صدق گفتار اور ذکر جمیل اور قبول عام دیا کہ کل اہل ادیان ان سے محبت رکھتے ہیں اور یہود اور نصاری اور مشرکین سب ان کو خیر کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اور مسلمان اپنی نمازوں میں یہ پڑھتے ہیں اللہم صلی علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید نیز اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا میں یہ خوبی اور بھلائی دی کہ ان کے بیٹے اور پوتے بھی نبی ہوئے۔ (9) اور بیشک ابراہیم (علیہ السلام) آخرت میں بڑے اچھے لوگوں میں سے ہیں۔ جو درجات عالیہ کے سزاوار ہیں۔ (10) پھر من جملہ فضائل ابراہیمی کے یہ ہے کہ اے نبی کریم ﷺ ہم نے آپ ﷺ کی طرف وحی بھیجی کہ ملت ابراہیم کا اتباع کریں جو حنیف تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے۔ یہ امر بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے فضائل میں سے ہے کہ خاتم الانبیاء اور سید الاولین والآخرین کو آپ ﷺ کی ملت کے اتباع کا حکم دیا گیا۔ اگر ملت ابراہیمی صحیح اور درست نہ ہوتی تو افضل الانبیاء کو اس کے اتباع کا حکم نہ ہوتا۔ آخر کو اول کے ساتھ نسبت اور وابستگی ہوتی ہے۔ توحید خالص اور اسلام یعنی اللہ کے سامنے گردن اطاعت ڈال دینا اور اپنے آپ کو خدا کے حوالہ اور سپرد کردینا۔ اس کی ابتداء حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ الصلوۃ والسلام) سے ہوئی جس کی وجہ سے ان کو دنیا اور آخرت میں نیکی اور بھلائی ملی۔ اب اس توحید کامل کی انتہاء خاتم الانبیاء ﷺ پر ہوئی اور جو اصول اور عقائد اور قواعد کلیہ دربارہ حلال و حرام ملت ابراہیمی میں تھے وہ آخری ملر یعنی شریعت محمدیہ میں باقی رکھے گئے درمیان میں یہود اور نصاریٰ کو ان کے حالات کے مناسب بعض مخصوص احکام دئیے گئے آخر میں دعاء ابراہیمی کے مطابق ربنا وابعث فیہم رسولا منھم یتلوا علیہم ایتک ویعلھم الکتب والحکمۃ۔ خاتم الانبیاء مبعوش ہوئے تو ملت ابراہیمی کو دوبارہ زندہ کردیا تاکہ توحید خالص اور اسلام یعنی خداوند ذوالجلال کی فرماں برداری ازسرنو زندہ ہوجائے اور شرک کو بیخ دبن سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے چناچہ شاہ عبد القادر (رح) فرماتے ہیں۔ ” یعنی حلال و حرام میں اور دین کی باتوں میں اصل ملت ابراہیم (علیہ السلام) ہے عرب کے لوگ آپ (علیہ السلام) کو حنیف کہتے ہیں اور شرک کرتے ہیں اس کی راہ پر نہیں اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا کی خوبی اور آسودگی اور قبولیت سارے جہان میں دی تھی۔ درمیان میں یہود اور نصاریٰ کو موافق ان کے حال کے اور حکم بھی ہوئے آخر پیغمبر بھی اسی ملت پر آئے (انتہٰی) لہٰذا اے مشرکین عرب تم کو چاہئے کہ اس برگزیدہ نبی کا اتباع کرو کیونکہ اس نبی کا راستہ وہی ہے جس کے اتباع کا تم دعویٰ کرتے ہو۔ آنحضرت ﷺ بلاشبہ فضل الانبیاء اور خاتم النبین ہیں اور نبوت و رسالت کے تمام فضائل و کمالات کے جامع ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو انبیاء سابقین کے اقتداء کا حکم دیا۔ اولئک الذین ھدی اللہ فبھدھم اقتدہ اور مطلب یہ تھا کہ دعوت اور تبلیغ میں ان کے طریقے پر چلے اسی طرح ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراہیم۔ کا مطلب سمجھے کہ اللہ نے آپ کو حکم دیا کہ توحید اور ابطال شرک میں ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کا اتباع کیجئے۔ اور ملت ابراہیمی بھی خدا ہی کی نازل کردہ ہے۔ آپ ﷺ نبوت و رسالت اور ملت و شریعت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تابع نہ تھے بلکہ مستقل نبی اور رسول تھے آپ ایسے نہ تھے جیسا کہ انبیاء بنی اسرائیل توریت اور شریعت موسویہ کے تابع تھے حق جل شانہ نے قرآن کریم میں انبیاء سابقین کی شریعتوں کے بعض احکام کا ذکر فرمایا ہے اور توریت و انجیل کے بھی بعض احکام کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور آپ ﷺ نے ان پر عمل بھی فرمایا ہے لیکن آپ ﷺ کا یہ عمل اس بنا پر نہ تھا کہ انبیاء بنی اسرائیل کی طرح آپ ﷺ شریعت موسویہ کے تابع تھے بلکہ بحکم خداوندی اور باتباع وحی الٰہی تھا براہ راست آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتی تھی اور جبرئیل امین (علیہ السلام) اللہ کا پیغام اور اس کے احکام لے کر آپ پر نازل ہوتے تھے۔ اسی طرح ملت ابراہیمی کا اتباع وحی ربانی اور حکم یزدانی کی بناء پر تھا نہ کہ اس بناء پر کہ آپ مستل نبی اور مستقل رسول نہ تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تابع تھے۔ آپ ﷺ تمام انبیاء ومرسلین سے افضل اور اکمل تھے اور بحکم خدا وندی انبیاء سابقین کے طریقے پر چلتے تھے۔ آپ کسی کے تابع نہ تھے بلکہ حکم خداوندی کے تابع تھے۔ آنحضرت ﷺ کو تمام انبیاء کے اتباع اوراقتداء کا حکم اس لیے دیا گیا کہ آپ سب کے بعد مبعوث ہوئے نہ کہ اس وجہ سے کہ آپ ﷺ ایگر انبیاء سے فضیلت اور رتبہ میں کم تھے۔ آپ ﷺ تو اللہ کے نزدیک اکرم الاولین والآخرین ہیں اور سب سے اکمل اور افضل ہیں اور فضیلت میں آپ کا حصہ سب سے زیادہ اور اشمل ہے۔ تو اصل و باقی طفیل تواند تو شاہی و مجموع خیل تواند ایک اشکال اور اس کے تین جواب اس مقام پر ایک اشکال ہے وہ یہ کہ ملت ابراہیمیہ اور ملت محمدیہ ﷺ کیا اصول فروع میں دونوں ملتیں متحد اور متفق ہیں اور وہ اعتبار سے یعنی اصول کے اعتبار سے بھی اور فروع کے اعتبار سے بھی باہم ایک دوسرے کا عین ہیں یا فقط اصول دین میں دونوں ملتیں متحد ہیں یعنی توحید اور نبوت اور معاد میں تو متفق ہیں مگر فروع میں مختلف ہیں۔ پس اگر شق اول کو اختیار کریں یعنی یہ کہیں کہ دونوں امتیں (ملت محمدیہ اور ملت ابراہیمیہ) اصول و فروع دونوں میں متفق اور متحد ہیں تو یہ لازم آئے گا کہ پیغمبر آخر الزمان ﷺ مستقل نبی اور صاحب شریعت جدیدہ نہ ہوں بلکہ آپ کی شان انبیاء بنی اسرائیل کی سی ہو کہ جو شریعت موسویہ کی تجدید اور ترویج کے لیے مبعوث ہوئے تھے اسی طرح آپ ﷺ بھی ملت ابراہیمیہ کی تجدید و ترویج کیلئے مبعوث ہوئے تھے اور یہ امر صریح ابطلان ہے۔ اور اگر شق ثانی کو اختیار کریں یعنی یہ کہیں کہ دونوں ملتیں اصول دین میں تو متحد ہیں اور فروع میں مختلف ہیں تو ایسی صورت میں یہ اشکال لازم آتا ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی کیا خصوصیت کہ آپ ﷺ کو ان کی ملت کے اتباع کا حکم دیا گیا۔ اسول دین میں تو انبیاء کرام کی شریعتیں اور ملتیں متحد اور متفق ہیں دین تمام انبیاء کا ایک ہے اور شریعت ہر ایک کی جداگانہ ہے کما قال تعالیٰ ۔ شرح لکم من الدین ما وصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک وما وصلنا بہ ابراہیم وموسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الذین ولا تتفرقوا فیہ اس اعتبار سے تو یہودی اور نصرانی بھی ملت ابراہیمی کے متبع ہیں مسلمانوں کی کیا خصوصیت۔ اس اشکال کے لئے جواب ہیں۔ جواب اول : ہر شریعت میں تین باتیں ہیں۔ اول : اصول و عقائد۔ یعنی خدا کی ذات وصفات پر ایمان لانا اور انبیاء اور رسل کو حق سمجھنا اور قیامت کو حق جاننا۔ دوم : قواعد کلیہ۔ جو احکام جزنیہ اور مسائل فرعیہ کا ماخذ ہوتے ہیں اور تمام جزئیات میں انہی کلیات کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ سوم : فروع اور مسائل جزئیہ اور احکام شرعیہ۔ قسم اول کا نام دین ہے جو تمام انبیاء کرام میں مشترک ہے اس میں زمانہ کے اختلاف سے کوئی تغیر اور تبدل نہیں ہوتا اور نہ اس میں نسخ واقع ہوتا ہے اس لیے کہ عقائد اور اصول دین ازقبیل خبر ہیں کہ اللہ ایک ہے اور قیامت برحق ہے اور خبر میں عقلاً نسخ جاری نہیں ہوسکتا ورنہ خبر کا کاذب ہونا لازم آئے گا۔ نسخ۔ عقلاً انشاء یعنی حکم اور امر اور نہی میں جاری ہوتا ہے۔ اور قسم ثانی کا نام ” ملت “ ہے۔ یعنی ملت ان اصول اور قواعد کلیہ کا نام ہے جن پر احکام جزئیہ کا دارومدار ہو۔ اور مجموعہ اعتقادیات اور اصول کلیات اور فروع جزئیات کا نام شریعت ہے جو ہر رسول کی جدا اور الگ ہے۔ پس ملت محمدی اور ملت ابراہیمی کا توافق اور اتحاد انہی اصول اور کلیات میں مراد ہے جن پر احکام جزئیہ کی بناء ہے باقی رہی شریعت۔ سو ہماری شریعت سب شریعتوں سے جدا اور الگ ہے اور مستقل ہے۔ اور دونوں ملتوں کے توافق کے معنی یہ ہیں کہ ملت ابراہیمی کے اصول اور قواعد کلیہ شریعت محمدیہ میں بتمام و کمال موجود ہیں۔ ان میں کوئی تفاوت نہیں اگر مبعض فروع مستخرجہ اور احکام جزئیہ میں بحسب مصلحت زمانہ کچھ فرق آگیا تو کوئی مضائقہ کی بات نہیں لہٰذا ہم یہ کہتے ہیں کہ ملت محمدیہ اور ملت ابراہیمیہ اصول احکام اور قواعد کلیہ میں متفق ہیں اور یہ نہیں کہتے کہ ہماری شریعت اور ہمارا دین و آئین بعینہٖ وہی دین و آئین ہے اور وہی شریعت ہے کہ جو ابراہیم (علیہ السلام) کا تھا اس لیے کہ شریعت اور دین و آئین میں لحاظ فروع اور جزئیات کا بھی ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ شریعت ابراہیمی کے تمام فروع اور جزئیات بعینہٖ شریعت محمدیہ میں محفوظ نہیں۔ خلاصہ جواب یہ ہے کہ ملت اور شریعت میں فرق ہے اتحاد اور اتفاق باعتبار ملت کے ہے نہ کہ اعتبار شریعت کے۔ ملت (یعنی اصول و احکام اور قواعد کلیہ) کے اعتبار سے دونوں ملتیں (یعنی ملت محمدیہ اور ملت ابراہیمیہ) باہم متوافق اور متحد ہیں اور شریعت کے اعتبار سے دونوں ملتیں جدا جدا ہیں اور علیحدہ علیحدہ ہیں۔ جواب دوم : اور بعض علماء نے یہ جواب دیا ہے کہ شریعت محمدیہ ابراہیمیہ ہے۔ ان حضرات نے ملت اور شریعت میں فرق نہیں کیا۔ اور یہ کہا ہے کہ دونوں شریعتیں اصول و فروع میں متفق اور متحد ہیں جیسا کہ ظاہر آیات اور احادیث سے مفہوم ہوتا ہے۔ ملۃ ابیکم ابراہیم۔ ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراہیم حنیفا اور حدیث اتیتکم بالخیفیۃ السمحۃ البیضاء وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کی آیات اور احادیث سے مفہوم یہی ہوتا ہے کہ دونوں ملتیں اور دونوں شریعتیں اصولا اور فروعا متفق اور متحد ہیں مثلا توحید اور بتوں کا توڑنا اور ختنہ اور عقیقہ اور قربانی اور ہدی اور مناسک حج اور خصال فطرت اور غسل جنابت اور اشہر حرم کی تحریم اور ابطال کہانت و نجوم اور ابطال بت پرستی اور رزق و شفا اور موت وحیات کو بلاواسطہ مسبب الاسباب کی طرف سے سمجھنا اور نجوم و کواکب کا معتقد نہ ہونا اور سعودت و نحوست کو من جانب اللہ جاننا اور اصول مکارم اخلاق یعنی صبر و رضاء بقاء اور تسلیم و تفویض وغیرہ وغیرہ یہ ملت ابراہیمی کے احکام ہیں جو شریعت محمدیہ میں بعینہٖ باقی ہیں لیکن خوب سمجھ لو کہ دونوں ملتوں کے متفق ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ملت ابراہیمی کے تمام فروع و اصول ملت محمدیہ میں بتمام و کمال محفوظ ہیں۔ اگرچہ صدہا بلکہ ہزار اصول و فروع شریعت محمدیہ میں زیادہ ہیں مگر مخالف نہیں بلکہ اسی کی شرح اور بسط اور تتمیم و تکمیل ہے۔ پس ملت ابراہیمی بمنزلہ متن کے ہے اور شریعت محمدیہ بمنزلہ شرح کے ہے اور ہزار ہا زوائد و فوائد پر مشتمل ہے اور مجمع الزوائد اور منبع الفوائد ہے اور اسی معنی کو شرح کو متن کے تابع کہا جاتا ہے کہ متن شرح کے لیے بمنزلہ اساس کے ہوتا ہے جیسا کہ صاحب مشکوٰۃ کو صاحب مصابیح کے تابع کہا جاتا ہے اس لیے کہ مشکوٰۃ اگرچہ صدہا زوائد پر مشتمل ہے مگر اس کی تاسیس اور بناء مصابیح السنہ پر ہے اس بناء پر مشکوۃ کو مصابیح کے تابع کہا جاتا ہے۔ اسی طرح سمجھو کہ شریعت محمدیہ ملت ابراہیمیہ کے تمام احکام کو مع احکام زائدہ اپنے اندر لیے ہوئے ہے اور ملت ابراہیمی کے احکام شریعت محمدیہ کے احکام زائدہ کے ساتھ ایسے مخلوط ہوگئے ہیں کہ شدت اختلاط اور کثرت امتزاج کی وجہ سے دونوں ملتوں کے احکام میں تمیز اور فرق نہایت دشوار ہے اور شریعت موسویہ میں نہ تو ملت ابراہیمی کے اصول و قواعد کی رعایت ہے اور نہ وہ ملت ابراہیمی کے تمام احکام کو اپنے اندر لیے ہوئے ہیں۔ پس حضور پر نور ﷺ کے مستقل نبی اور صاحب شریعت جدیدہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ کی شریعت اگرچہ ملت ابراہیمی کے اصول اور فروع کو حادی ہے لیکن ہزار ہا زوائد اور فوائد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ایک جدید شئے ہے آپ کی شریعت میں ہزارہا احکام ملت ابراہیمی پر زیادہ کیے گئے ہیں اور انبیاء بنی اسرائیل نے شریعت موسویہ اور احکام تورات پر کسی حکم کا اضافہ نہیں کیا وہ فقط دین موسوی کے مروج تھے اس لیے وہ مستقل نبی اور رسول نہ تھے بخلاف شریعت محمدیہ کے کہ اس میں ملت ابراہیمی کے احکام پر بیشمار احکام کا اضافہ ہوا۔ الغرض شریعت محمدیہ میں ملت ابراہیمیہ کے تقریبا تمام اصول اور احکام بعینہٖ باقی ہیں گویا کہ شریعت محمدیہ شریعت ابراہیمیہ کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اس کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے مگر امتداد زمانہ کی وجہ سے ملت ابراہیمی کے تمام احکام بالکل مندرس ہوچکے تھے۔ صفحہ ہستی پر کہیں ان کا نام و نشان نہ رہا تھا سوائے جدید وحی کے ان کے معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ پس حق جل شانہ نے آنحضرت ﷺ کو جدید وحی کے ذریعے سے ملت ابراہیمیہ کے احکام پر مطلع کیا اس لیے آپ صاحب شریعت جدیدہ کہلائے۔ شریعت کے جدید ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس شریعت کے احکام جدید ہوں کہ جو اس سے پہلے نازل نہ ہوئے ہوں بلکہ شریعت کے جدید ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ اس کا نزول جدید ہو اور ازسر نو عالم غیب سے اس کی تلقی ہوئی ہو۔ اس وجہ سے حضرت یوشع اور حضرت عزیز علیما السلام کو صاحب کتاب جدید اور صاحب شریعت جدیدہ نہیں کہہ سکتے اس لیے کہ شریعت موسویہ ان میں موجود اور محفوظ تھی۔ ازسرنو عالم غیب سے بذریعہ وحی جدید اس کا نزول نہ ہوا تھا اور توریت ان سے پہلے نازل ہوچکی تھی اور انبیاء بنی اسرائیل پر سوائے احکام تورات کے دوسرے احکام بذریعہ وحی جدید نازل نہیں ہوتے تھے سابق وحی کے تابع تھے اور آنحضرت ﷺ کسی سابق وحی کے تابع نہ تھے۔ عالم غیب سے ہر روز جدید وحی نازل ہوتی تھی اس لیے آپ صاحب شریعت جدیدہ ہوئے اور خاتم الانبیاء اور ناسخ الادیان ہوئے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ حکومت میں جب کسی کو جدید وزیر اعظم اور مدار المہام بنایا جاتا ہے تو اس وقت کے مناسب اس کو جدید آئین اور نئے قوانین دئیے جاتے ہیں پس اگر بادشاہ کسی کو وزیر اعظم بنائے اور اس کا یہ حکم دے کہ تم موجود آئین اور قانون کو منسوخ سمجھو اور تم سے تیس سال پہلے فلاں وزیر کے زمانہ میں جو دستور ہماری بارگاہ سے عطا ہوا تھا اس کا اتباع کرو اور طریق پر چلو تو اس حکم کے یہ معنی نہیں کہ یہ وزیر مستقل وزیر نہیں پہلے وزیر کا تابع اور ماتحت ہے بلکہ یہ جدید وزیر بلاشبہ مستقل وزیر ہے حکم شاہی کا متبع ہے بلاوسطہ بادشاہ کی طرف سے اس کو یہ حکم ملا۔ سابق وزیر کو جو دستور اور آئین عطا ہوا تھا وہ بھی حکومت کی طرف سے عطا ہوا تھا اب حکومت کی مصلحت یہ ہے کہ موجودہ آئین کو منسوخ کردیا جائے اور گزشتہ آئین اور دستور کو جاری اور نافذ کیا جائے لہٰذا یہ جدید وزیر گزشتہ آئین کے اتباع کی وجہ سے سابق وزیر کا متبع نہیں سمجھا جائے گا۔ بلکہ حکم شاہی کے متبع سمجھا جائے گا۔ جواب سوم : ملت ابراہیمیہ کے اتباع سے مراد یہ ہے کہ توحید اور صراط مستقیم اوردین اسلام کی دعوت اور تبلیغ اور کفار سے محاجہ اور مناظرہ میں اور کفر کا فری سے تبری اور بیزاری میں اور مکارم اخلاق یعنی رضا و تسلیم اور صبر و شکر میں اپنے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ اختیار کیجئے کہ نرمی کے ساتھ لوگوں کو صراط مستقیم کی دعوت دیجئے اور ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح دلائل اور براہین قاطعہ سے کفر اور شرک اور نجوم اور کہانت کا ابطال فرمائیے اور شعائر اسلام، جیسے استقبال کعبہ اور جمعہ کی تعظیم اور ختنہ اور قربانی اور مناسک حج کو صحیح طریقہ سے جاری فرمائیے اور ملت ابراہیمی میں جن مشرکانہ رسوم کی آمیزش ہوگئی اس سے ملت ابراہیمی کو پاک و صاف کر دیجئے چونکہ آنحضرت ﷺ کی بعثت دعاء ابراہیمی کی اجابت کا ثمرہ ہے بناء کعبہ کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا فرمائی تھی۔ ربنا وابعث فیہم رسولا منھم یتلوا علیہم ایتک ویعلمھم الکتب والحکمۃ ویزکیہم۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے۔ ابو العالیہ (رح) سے منقول ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جواب آیا اے ابراہیم (علیہ السلام) تیری دعا قبول ہوئی۔ اس شان کا نبی آخر زمانہ میں ظاہر ہوگا اس وجہ سے اس لیے یہی آخر الزمان ﷺ کو ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کی ملت کے اتباع کا حکم آیا جس کی دعا سے یہ نبی آخر الزمان ظاہر و مبعوث ہوا یہاں تک تو مشرکین عرب کا رد ہوا جو اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا متبع بتلاتے تھے اب آگے یہود کا رد ہے کہ جو یہ کہتے تھے کہ شریعت محمدیہ میں تو عبادت کے لیے جمعہ کا دن اختیار کیا گیا اور ملت ابراہیم (علیہ السلام) میں تو ہفتہ کا دن تھا۔ پس ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کہاں رہی جس کے آپ مدعی ہیں ابراہیم (علیہ السلام) کے دین میں ہفتہ کی تعظیم خاص تھی وہ آپ نے ترک کردی۔ اس کی جگہ جمعہ مقرر کرلیا اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ یہ محض غلط ہے ابراہیم (علیہ السلام) ہفتہ کی تعظیم نہیں فرماتے تھے۔ جزایں نیست کہ ہفتہ کی تعظیم اور اس دن شکار کی تحریم صرف ان لوگوں پر لازم کردی گئی تھی جنہوں نے اس میں اختلاف کیا تھا یعنی اصل ملت ابراہیمی میں ہفتہ کا حکم نہ تھا اور نہ اس آیت میں ہے البتہ درمیان میں جن لوگوں نے یعنی یہودیوں نے اس بارے میں بحث کی اور حکم خداوندی اور ارشاد پیغمبری سے اختلاف کیا اور بجائے جمعہ کے ہفتہ کا دن منتخب کیا تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اچھا اس دن کی تعظیم کیا کرو اور بطور آزمائش ساتھ ساتھ یہ حکم بھی دے دیا کہ اس روز مچھلی کا شکار نہ کیا کرو یہ حکم بھی کسی نے نہ مانا۔ بالآخر نہ ماننے والے دنیا میں بندر اور سور بنائے گئے باقی آخری فیصلہ آخرت میں ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ یوم سبت کی تعظیم کا حکم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت میں نہ تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک زمانہ دراز کے بعد یہود پر ہوا۔ احادیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو جمعہ کے دن مجتمع ہو کر عبادت کرنے کا حکم دیا۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی یہود کو جمعہ کی تعظیم کا حکم دیا تھا مگر انہوں نے نہ مانا۔ اور کہا کہ ہم تو ہفتہ کے دن کی تعظیم کریں گے کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ مخلوق کے پیدا کرنے سے فارغ ہوا تھا اس لیے اس دن کو ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے فارغ کریں گے اللہ تعالیٰ نے ان پر اس دن کی تعظیم فرض کردی اور جس روز کو کہ انہوں نے اپنے لیے پسند کیا اسی پر ان کو چھوڑ دیا۔ پھر جب عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تو انہوں نے بھی اپنی امت کو جمعہ کی تعظیم کا حکم دیا انہوں نے ان کا حکم نہ مانا اور یہ کہا کہ تخلیق عالم کی ابتداء یکشنبہ سے ہوئی ہے اس لیے ہم اتوار کے دن کی تعظیم کا دن بنائیں گے۔ خدا تعالیٰ نے اس پر اسی دن کی تعظیم فرض کردی۔ غرض یہ کہ یہود و نصاریٰ نے جو چیز اپنے لیے پسند کی اللہ نے وہی چیز ان پر لازم اور مقرر کردی پھر جب نبی آخر الزمان ﷺ مبعوث ہوئے تو آپ ﷺ نے جمعہ کے دن جمع ہو کر اللہ کی عبادت کی مگر ان کی امتوں نے اختلاف کرکے دوسرا دن بدل لیا اللہ کریم نے ہر فرقہ پر وہی لازم کردیا جو سن اس نے اپنی رائے سے اختیار کیا۔ مطلب یہ ہے ملت ابراہیمی میں ہفتہ کا دن مقرر ہوا تھا۔ یہ دن تو ایک مدت دراز کے بعد ان یہود پر مقرر ہوا جنہوں نے اپنے پیغمبر موسیٰ (علیہ السلام) کے ارشاد سے اختلاف کرکے یہ دن اپنے لیے منتخب کیا۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ اچھا یہی دن سہی اور ان پر سختی کردی گئی کہ اس دن ان پر مچھلی کا شکار حرام کردیا گیا۔ پھر جن لوگوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی وہ بندر اور سور بنا دئیے گئے۔ یہ تو دنیا میں ہوا اور آخری فیصلہ آخرت میں ہوگا اور بیشک تیرا پروردگار قیامت کے دن ان کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کر دے گا جس میں یہ دنیا میں اختلاف کرتے تھے۔ اس دن معلوم ہوجائے گا کہ کون غلطی پر تھا اور کون راستی پر جب ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزاء و سزا ملے گی تو معلوم ہوجائے گا کہ کون حق پر تھا لہٰذا لوگوں کو چاہئے کہ نبی کے حکم سے اختلاف نہ کریں۔ اب آئندہ آیات میں اپنے نبی کو حکم دیتے ہیں کہ لوگوں کو راہ حق کی دعوت دیں اور نیک طریقہ سے ان کو ہدایت کریں۔
Top