Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 3
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ؕ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
خَلَقَ : اس نے پیدا کیے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین بِالْحَقِّ : حق (حکمت) کے ساتھ تَعٰلٰى : برتر عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی برحکمت پیدا کیا اس کی ذات ان (کافروں) کے شرک سے اونچی ہے۔
ذکر دلائل توحید قال اللہ تعالیٰ : خلق السموت والارض بالحق .... الیٰ .... انہ لایحب المستکبرین۔ (ربط) گزشتہ آیات میں یہ بیان کیا کہ اللہ کی معرفت اور اس کی وحدانیت کا علم سب سے اول اور مقدم اور اہم ہے اور تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) اس کی تعلیم دیتے رہے۔ وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون۔ اور توحید کے بعد درجہ تقویٰ کا ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے تمام اولین اور آخرین کو وصیت فرمائی ولقد وصینا الذین اوتوا الکتب من قبلکم وایاکم ان اتقوا اللہ اس لیے اب آئندہ آیات میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور کمال قدرت و حکمت کے قسم قسم کے دلائل بیان فرماتے ہیں اور کمال قدرت کی ہر دلیل میں حق جل شانہ کی ایک خاص نعمت کا ذکر ہے جس میں اشارہ اس طرف ہے کہ وہ رب اکرم تمہارا خالق بھی ہے اور منعم بھی ہے اور باوجود تمہاری نافرمانیوں اور سرکشیوں کے تمہارے عذاب اور سزا میں جلدی نہیں کرتا تم کو چاہئے کہ نعمتوں سے منعم کو پہچانو اور اس سے ڈرو اور اس کی نافرمانی سے بچو اور یہ دلائل چند قسم کے ہیں۔ قسم اول : زمین و آسمان کے تغیرات اور اس کے عجائب وغرائب سے استدلال فرمایا کہ ان کا یک خاص اندازہ اور خاص مقدار پر پیدا کرنا حالانکہ اس کے خلاف بھی ممکن تھا۔ یہ اس کی کمال قدرت و حکمت کی دلیل ہے اور چونکہ تمام مخلوقات میں زمین و آسمان سب سے عظیم ہیں اس لیے سب سے پہلے آسمانوں اور زمین کی پیدائش کا ذکر فرمایا۔ قسم دوم : آسمان و زمین کے بعد انسان کی پیدائش اور اس کے احوال سے استدلال فرمایا۔ کما قال اللہ تعالیٰ خلق الانسان من نطفۃ فاذا ھو خصیم مبین۔ ایک قطرہ آب سے ایک عجیب و غریب چیز یعنی انسان کا اس طرح پیدا ہونا کسی مادہ اور طبیعت کا اقتضاء نہیں اس لیے کہ مادہ اور طبیعت کے افعال یکساں ہوتے ہیں۔ ان میں تفاوت نہیں ہوتا۔ انسان کی یہ عجیب و غریب پیدائش خدا کی کمال قدرت و حکمت کی دلیل ہے انسان کا مادہ ایک ہے مگر اس کے اعضاء اور اجزاء مختلف ہیں اور ہر ایک کے افعال اور خواص بھی مختلف ہیں۔ کوئی جز سر ہے اور کوئی کان اور آنکھ ہے اور کوئی دل ہے اور کوئی پیٹ ہے وغیرہ وغیرہ ظاہر ہے کہ یہ فعل مادہ اور طبیعت کا نہیں اس لیے کہ مادہ اور طبیعت بےشعور ہے بلکہ یہ کسی علیم و قدیر کی قدرت کا کرشمہ ہے اگر بالفرض طبیعت ہی کا فعل ہے تو طبیعت بھی اسی کی پیدا کردہ ہے رحم مادر میں نطفہ قرار پکڑ گیا اور اندر ہی بچہ تیار ہو رہا ہے اور ماں باپ کو خبر بھی نہیں کہ اندر ہی اندر کیا ہو رہا ہے۔ لہٰذا ماں باپ کو خالق نہیں کہا جاسکتا۔ قسم سوم : احوال انسانی کے بعد حیوانات کے احوال سے استدلال کیا جو انسان کے کام آتے ہیں۔ بھیڑ، بکری، اونٹ، گائے۔ پھر کسی کو کیا اور کسی کو کیا پیدا کیا کما قال اللہ تعالیٰ والانعام خلقھا لکم فیہا دفء ومنافع ومنھا تاکلون۔ الی قولہ تعالیٰ : ولو شاء لہدکم اجمعین۔ اور اس ضمن میں حیوانات کے جو فوائد اور منافع بیان فرمائے ان میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کی دلیل ہے اور ہر ایک مستقل نعمت ہے جس کا شکر بندوں کو واجب ہے اس ذیل میں اللہ تعالیٰ نے اولا حیوانات کے ان منافع کا ذکر فرمایا جس کی انسان کو ضرورت ہے اور انسان کے کھانے کے کام آتے ہیں جیسے بھیڑ، بکری، اونٹ اور گائے اور اس کے بعد ان چوپایوں کا ذکر جو سواری کے کام آتے ہیں۔ قسم چہارم : جس کو والخیل والبغال والحمیر میں ذکر فرمایا اس آیت میں ان چوپایوں کی پیدائش سے استدلال کیا جو انسان کے لیے ضروری اور لابدی تو نہیں مگر سواری اور زیب وزینت اور شان و شوکت کا ذریعہ ہیں۔ جب جنگل جاتے ہیں تو جنگل بھر جاتے ہیں اور جب شام کو گھر واپس آتے ہیں تو گھر میں رونق ہوجاتی ہے اور ویخلق ما لا تعلمون میں ان سواریوں کی طرف اشارہ فرمایا کہ جو ہنوز ظہور میں نہیں آئیں بلکہ آئندہ چل کر پیدا ہوں گی۔ جیسے ریل گاڑی اور دخانی جہاز اور موٹر اور بائیسکل یہ سواریاں نزول آیت کے وقت موجود نہ تھیں۔ اور لوگ اس وقت ان چیزوں سے واقف نہ تھے۔ قسم پنجم : عجائب حیوانات کے بعد عجائب نباتات سے اپنی قدرت و حکمت پر استدلال فرمایا۔ کام قال تعالیٰ : وھو الذی انزل من السماء ماء لکم الیٰ ۔ ان فی ذلک لایۃ لقوم یتفکرون۔ یہ قسم قسم کے نباتات اس کی قدرت کاملہ کی واضح اور روشن دلیل ہیں۔ جن کی ماہیت اور حقیقت اور ان کی خاصیت اور کیفیت دریافت کرنے سے بڑے بڑے حکماء کی عقلیں عاجز ہیں۔ قسم ششم : احوال نباتات کے بعد اب شمس و قمر و کواکب و سیارات کے احوال سے استدلال کرتے ہیں کہ کوئی نادان یہ نہ سمجھ جائے کہ کھیتوں اور پھلوں کا پکنا شمس و قمر اور کواکب و سیارات کی تاثیر سے ہے کما قال اللہ تعالیٰ وسخر لکم الیل والنھار ... الیٰ .... قولہ۔ لایت لقوم یعقلون۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے قدرت اور ارادہ سے ہے۔ قسم ہفتم : اس کے بعد اشجار و نباتات کے اختلاف الوان سے استدلال فرمایا کہ نباتات کے الوان (رنگتوں) کا مختلف ہونا طبیعت کا اقتضاء نہیں بلکہ کسی علیم و قدیر کے قدرت و حکمت کا کرشمہ ہے۔ قسم ہشتم : (استدلال باحوال کائنات بحریہ) کما قال اللہ تعالیٰ : وھو الذی سخر لکم البحر .... الیٰ .... ولعلکم تشکرون۔ ان آیات میں کائنات بحریہ اور ان کے احوال سے اپنی قدرت کا اظہار فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے دریا کو مسخر کیا کہ تم اس سے دریائی جانوروں کو پکڑتے ہو اور قسم قسم کے جواہر اس سے نکالتے ہو اور کشتیوں کے ذریعے اس میں سفر کرتے ہو۔ قسم نہم : (استدلال باحوال کائنات ارضیہ جیسے پہاڑ اور نہریں) کما قال تعالیٰ : والقی فی الارض رواسی ان تمیدبکم وانھرا وسبلا لعلکم تھتدون۔ ابتداء میں زمین جنبش کرتی تھی اللہ تعالیٰ نے اس پر پہاڑ پیدا کر دئیے جس سے اس کی جنبش اور اضطراب میں سکون آگیا۔ قسم دہم : (استدلال باحوام نجوم فلکیہ) کما قال تعالیٰ وبالنجم ہم یھتدون (فتلک عشرۃ کاملہ) اب ان دس دلائل کے بعد مشرکین کی مذمت فرماتے ہیں کہ جب ان دلائل اور براہین سے یہ واضح ہوگیا کہ ان تمام کائنات کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے اور بت کسی چیز کے خالق نہیں تو ان مشرکین کو کیا ہوا کہ خالق اور مخلوق میں فرق نہیں کرتے کیا ان نادانوں کو اتنی عقل نہیں کہ یہ سمجھیں کہ لائق عبادت وہ ذات پاک یا برکات ہے جو ان عجائب کا خالق ہے اور جو چیز کسی شئے کے پیدا کرنے پر قادر نہ ہو وہ کیسے لائق عبادت ہوسکتی ہے۔ نتیجہ دلائل مذکورہ : جب گزشتہ آیات میں وجود باری تعالیٰ پر احوال فلکیہ اور احوال انسانیہ اور احوال حیوانیہ اور احوال نباتیہ اور عناصر اربعہ سے استدلال فرمایا تو اخیر میں ان تمام دلائل کا نتیجہ بیان فرمایا والہکم الہ واحد۔ اور چونکہ اتباع حق سے تکبر مانع تھا اس لیے مضمون مذکورہ کو انہ لا یحب المستکبرین پر ختم فرمایا۔ تفصیل دلائل توحید قسم اول :۔ خلق السموت والارض بالحق علیٰ عما یشرکون۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو حکمت اور مصلحت کے ساتھ پیدا کیا جن کو دیکھ کر عقل حیران اور دنگ رہ جاتی ہے وہ بلند اور برتر ہے اس چیز سے جس کو یہ نادان خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ خداوند قدیر نے زمین کو اس عالم کا فرش بنایا اور آسمان کو چھت بنایا عقل ایسے عرش اور فرش بنانے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ آسمان کی یہ بےپناہ بلندی اور زمین کی یہ بےپناہ پستی کہ کوئی اس پر دوڑ رہا ہے یا اپنی سواری کو اس پر دوڑا رہا ہے یا اس پر پیشاب اور پاخانہ کر رہا ہے یا اس پر کدال چلا رہا ہے اور کھود کر اس میں یہ خانہ یا کنواں بنا رہا ہے کیا یہ آسمان اور زمین جن کا نہ مبداء معلوم نہ منتہیٰ معلوم خود بخود ہی غیر متناہی اجزاء سے مرکب ہو کر تیار ہوگئے اور ایک عظیم جسم خود بخود بلند ہو کر آسمان بن گیا اور دوسرا جسم خودبخود پست ہو کر زمین بن گیا۔ یا کوئی امر اتفاقی ہے کہ اتفاقی طور پر ایک جسم عظیم بن گیا اور دوسرا جسم زمین بن گیا۔ یا کسی مادہ اور طبیعت کا یا کسی ایتھر کا مقتضی ہے تو کوئی مدعی فلسلفہ اور سائنس بتلائے تو سہی کہ وہ کبھی مادہ اور طبیعت کا اقتضاء ہے فلسفی کو جب آسمان اور زمین کے مبداء اور منتہا کا پتہ چل سکا تو کہہ دیا کہ آسمان اور زمین قدیم ہیں انبیاء کرام (علیہم السلام) نے خبر دی ہے کہ یہ آسمان اور زمین مخلوق خداوندی ہیں اور قدرت قدیمہ کا کرشمہ ہیں۔ زمین و آسمان کا ہر جز اس کی خدائی اور یکتائی کی گواہی دے رہا ہے۔ قسم دوم :۔ خلق الانسان من نطفۃ فاذا ھو خصیم مبین۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا جو ایک بےحس اور بےشعور چیز ہے اور پھر اس کو عقل اور سمجھ دی۔ پس وہ نکلا بڑا جھگڑالو پیدا ہونے کے بعد خدا کی ذات وصفات میں جھگڑنے لگا اور اس کی تکذیب کرنے لگا اور جس نے پیدا کیا اسی میں جھگڑنے لگا اور یہ خیال نہ کیا کہ ایک بےشعور اور بےحس قطرہ آب سے ایسا ہوشیار اور سمجھدار انسان کیسے بن گیا اور یہ خیال نہ کیا کہ ایک نطفہ جو نو ماہ مادر شکم میں رہا اور خون حیض اس کی غزا رہی اور مختلف مراحل اور منازل طے کرنے کے بعد وہ پیدا ہوا اور پھر شیرخواری کی منزل سے جوان ہوا یہ کس مادہ اور طبیعت کا اقتضاء تھا بلاشبہ یہ کسی قادر حکیم کی تدبیر اور تصویر تھی۔ یہ آیت ابی بن خلف جمحی کے بارے میں نازل ہوئی جو مرنے کے بعد زندہ ہونے کا منکر تھا یہ شکص آنحضرت ﷺ کے حضور میں ایک بوسیدہ ہڈی لے کر آیا اور کہنے لگا کہ تیرا یہ خیال ہے کہ خدا اس ہڈی کو بوسیدہ ہونے کے بعد زندہ کرے گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مطلب یہ ہے کہ یہ جھگڑالو انسان اس بات پر غور نہیں کرتا کہ ہم نے اس کو ایک بےحس نطفہ سے پیدا کیا اور پھر اسے عقل اور دانائی اور گویائی دی اب یہ ہمارے ساتھ جھگڑتا ہے اور اپنی پیدائش سے دوبارہ پیدا ہونے پر دلیل نہیں پکڑتا بوسیدہ ہڈی سے انسان کا پیدا کرنا نطفہ سے انسان کے پیدا کرنے سے زیادہ عجب نہیں جو ذات تجھ کو نطفہ سے پیدا کرنے پر قادر ہے وہ تجھ کو بوسیدہ ہڑیوں سے پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ قسم سوم :۔ والانعام خلقھا لکم فیہا دفء .... الیٰ .... ان ربکم لرء وف رحیم۔ اور خدا تعالیٰ نے تمہارے لیے چوپایوں کو پیدا کیا ان میں تمہارے لیے گرمی کا سامان یعنی ان جانوروں کی اون اور بالوں سے ایسی پوشش تیار ہوتی ہیں جو تم کو جاڑے سے بچائے جسے جڑ اول کہتے ہیں اس کے علاوہ کتنے فائدے ہیں اور بعض کو تم ان میں سے کھاتے ہو یعنی ان کے گوشت اور چربی اور دودھ اور گھی کو کھاتے ہو اور تمہارے لیے ان جانوروں میں رونق اور زینت بھی ہے جب تم ان کو چرا کر شام کے وقت جنگل سے گھر واپس لاتے ہو اس وقت تروتازہ اور خوبصورت ہوتے ہیں اور ان کے تھن دودھ سے لبریز ہوتے ہیں اور گھر میں خوب رونق اور چہل پہل ہے اور جب صبح کے وقت ان کو چراگاہ کی طرف لے جاتے ہو اگرچہ اس وقت ان کے پیٹ خالی ہوتے ہیں مگر ان کا چراگاہ میں جانا بھی موجب زینت ہوتا ہے اور یہ جانور تمہارے بوجھ اٹھا کر اس شہر کی طرف لے جاتے ہیں جہاں تم بغیر مشقت کے نہیں پہنچ سکتے۔ بیشک تمہارا پروردگار شفقت کرنے والا مہربان ہے کہ اس نے تمہاری راحت کے لیے یہ سامان پیدا کیا جو تمہارے لیے سامان سفر بھی ہے اور سامان زراعت و حراثت بھی ہے اور ان کا دودھ اور گوشت تمہاری اعلیٰ ترین غذا ہے اور ان کا صوف اور بال تمہارا سامان لباس ہے۔ قسم چہارم :۔ والخلیل والبغال والحمیر لترکبوھا وزینۃ ویخلق مالا تعلمون۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے لیے گھوڑوں اور خچروں اور گدھوں کو پیدا کیا تاکہ تم ان پر سوار ہو اور تمہارے لیے زینت ہوں اور جس طرح وہ ان چیزوں کو پیدا کرتا ہے اسی طرح وہ ان عجیب و غریب چیزوں کو پیدا کرنا ہے جن کو تم نہیں جانتے۔ جیسے انواع و اقسام کے کیڑے مکوڑے یا دریائی جانور یا جو پہاڑوں کے کھڈوں میں ہیں جن کو کسی بشر نے نہیں دیکھا اور نہ سنا۔ نکتہ : اول حق تعالیٰ نے ان حیوانات کے منافع کا ذکر فرمایا جن کی انسان کو کھانے کے لئے ضرورت ہے دوم ان حیوانات کا ذکر کیا جن سے بجائے غذا کے سواری کا فائدہ ہوتا ہے اور پھر آخر میں ویخلق مالا تعلمون سے اجالا ان حیوانات کی طرف اشارہ فرمایا جن کی انسان کو ضرورت نہیں ہوئی۔ جملہ معترضہ برائے بیان اثر و دلائل مذکورہ وعلی اللہ قصدا لسبیل ومنھا جائر ولوشاء لھدکم اجمعین۔ اوپر سے دلائل توحید کا ذکر چلا آرہا ہے درمیان میں بطور جملہ معترضہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ یہ دلائل مذکورہ صراط مستقیم تک پہنچانے والے ہیں۔ اور اللہ ہی پر پہنچتا ہے سیدھا راستہ یعنی دین اسلام جو اس راہ پر چلے گا وہ اللہ تک پہنچ جائے گا۔ اور بعضے راستے ٹیڑھے ہیں جو خدا تک نہیں پہنچتے وہ وہ ہیں جو دین اسلام کے سوا ہیں مطلب یہ ہے کہ راہ توحید کے سوا کوئی راستہ ایسا نہیں کہ جس پر چل کر بندہ خدا تک پہنچ سکے۔ اسلام کے سوا جو راستے ہیں جیسے یہودیت اور نصرانیت اور مجوسیت اور نچریت اور بت پرستی وغیرہ وغیرہ یہ سب راستے ٹیڑھے ہیں ان پر چل کر خدا تک نہیں پہنچا جاسکتا اور بعض کہتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ سیدھے راستہ کا بیان کرنا اللہ کے ذمہ ہے کیونکہ وہ طریق ہدایت کو ظاہر کیے بغیر کسی کو عذاب نہیں دیتا۔ آگے فرماتے ہیں کہ خواہ کوئی سیدھی راہ پر چلے یا ٹیڑھی راہ پر چلے وہ سب اللہ کی قدرت اور اس کے علم اور مشیت کے ساتھ ہے اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر کردیتا اس نے جس کو چاہا ہدایت دی اور جس کو چاہا شہوات کے اور ظلمات کے بیابانوں میں گم گشتہ راہ بنایا اب آگے پھر اپنی نعمتوں کو بیان فرماتے ہیں۔ جو اس کی توحید پر دلالت کرتی ہیں پہلی آیت میں احوال حیوانات سے استدلال تھا اب احوال نباتات سے استدلال فرماتے ہیں۔ احوال نباتات سے استدلال ھو الذی انزل من السماء ماء لکم .... الیٰ .... ان فی ذلک لایۃ لقوم یتفکرون۔ وہی ہے رب تمہارا جس نے آسمان سے کچھ پانی اتارا۔ تمہارا اسی سے پینا ہے اور اسی سے تمہارے لیے درخت اور گھاس اگتے ہیں جس میں تم اپنے میویشی چراتے ہو اسی پانی سے اللہ تمہارے لیے کھیتی اور زیتوں اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل زمین سے اگاتا ہے بیشک اس میں سوچنے والے لوگوں کے لیے ہماری قدرت اور وحدانیت کی نشانی ہے۔ جو شخص اس میں غور کرے کہ دانہ زمین میں غائب ہوا اور تری سے پھول کر پھٹا اور اس سے سورگیں نمودار ہوئیں اور زمین میں پھیلیں اور اوپر شاخیں نکلیں اور مختلف قسم کے پھل اور پھول نمودار ہوئے جن کی صورتیں اور شکلیں بھی مختلف اور رنگتیں بھی مختلف اور خاصیتیں بھی مختلف اور مزے بھی مختلف۔ حالانکہ زمین اور پانی اور ہوا سب کی ایک ہے اور اسباب و علل بھی سب کے ایک ہیں اور تاثیرات فلکیہ اور تحریکات کو کبیہ کی نسبت بھی سب کے ساتھ ایک ہے جو اس میں غور وفکر کرلے گا وہ سمجھ جائے گا کہ یہ تمام تغیرات اور اختلافات کسی مادہ اور طبیعت کا اقتضاء نہیں بلکہ کسی قادر حکیم کی کاری گری اور کرشمہ سازی ہے۔ قسم ششم :۔ وسخرلکم الیل والنھار والشمس والقمر والنجوم مسخرت بامرہ ان فی ذلک لایت تقوم یعقلون۔ اور رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کردیا یعنی ان چیزوں کو تمہارے کام میں لگا دیا کہ دن اور رات کی آمدورفت اور چاند اور سورج کے طلوع و غروب سے اور اوقات کے بدلنے سے کارخانہ عالم چل رہا ہے اور سب اس کے حکم سے کام میں لگے ہوئے ہیں اور اللہ کے حکم سے ایسی چال پر چلتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے ان کے لیے مقرر کردی ہے اور انسان ان سے اوقات اور فصول کو معلوم کرتا ہے۔ پس فلاسفہ اور منجمین کا یہ قول کہ عالم سفلی کا کارخانہ، کواکب اور نجوم کی تاثیر اور تصرف سے چل رہا ہے، غلط ہے۔ سب اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے مقہور اور مسخر ہیں۔ سب اس کے بیگاری ہیں جس کام میں لگا دیا اس میں لگے ہوئے ہیں۔ بیشک اس میں عقل والوں کے لیے ہماری قدرت ویکتائی کی نشانیاں ہیں کہ آفتاب و ماہتاب اور کواکب و نجوم سب اجسام ہیں مگر سب مختلف اور متفاوت ہیں۔ حالانکہ من حیث الجسم ہونے کے لحاظ سے سب یکساں ہیں معلوم ہوا کہ یہ تفاوت جسمیت کی وجہ سے نہیں۔ بلکہ کسی قادر حکیم کے ارادہ اور مشیت سے ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ستارے کسی کے حکم کے تابع نہیں بذات خود عالم سفلی میں مدبر اور متصرف ہیں یہ لوگ بےعقل ہیں۔ ابر دباد دمہ و خورشید و فلک درکارند تاتونانے بکف آری و بہ غفلت نخوری ہمہ ازبہر تو سرگشتہ و فرما بنردار شرط انصاف نبا شد کہ تو فرماں نبری غرض جس کو اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم اور فہم مستقیم عطا فرمائی وہ سمجھتا ہے کہ چاند اور سورج اور ستارے خودبخود حرکت نہیں کر رہے ہیں پس جو ذات ان کو حرکت دے رہی ہے وہی خدا تعالیٰ ہے اور چونکہ آثار علویہ کی دلالت قدرت قاہرہ پر ظاہر دباہرے ہے اس لیے اس آیت کو عقل پر ختم فرمایا۔ قسم ہفتم :۔ وما ذرالکم فی الارض مختلفا الوانہ ان فی ذلک لایۃ لقوم یذکرون۔ اور مسخر کردیا اللہ تعالیٰ نے جو کس اس نے تمہارے لیے زمین میں پیدا کیا حالانکہ ان کے رنگ مختلف ہیں جتنی چیزیں اللہ تعالیٰ نے زمین میں پیدا کیں انسان ان سے فائدہ اٹھاتا ہے اور یہ چیزیں صورت اور شکل اور رنگ اور بو کے اعتبار سے مختلف ہیں اور ایک دوسرے سے ممتاز ہیں اس سے بھی خدا تعالیٰ کی کمال قدرت ظاہر ہوتی ہے اگر کواکب اور نجوم کی تاثیر ہوتی تو سب نباتات ایک رنگ کے ہوتے۔ ان مخلوقات میں اللہ کی قدرت اور الوہیت کی نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو نصیحت پکڑتے ہیں اور غافل نہیں ذرا غفلت کا پردہ اٹھا تو منصنوع کو دیکھ کر صانع کا پتہ چلا لیا اس لیے اس آیت کو تذکر پر ختم فرمایا۔ کیوں کہ ان کی دلالت اس قدر واضح ہے کہ اس میں دقیق نظر و فکر کی حاجت نہیں محض تذکر اور یاد دہانی کافی ہے۔ قسم ہشتم :۔ وھو الذی سخر البحر لتاکلوا منہ لحما طریا .... الیٰ .... ولعلکم تشکرون۔ حق جل شانہ نے اپنی الوہیت کے ثابت کرنے کے لیے اول اجرام سماویہ سے استدلال کیا اور پھر دوسری مرتبہ میں انسان کی پیدائش سے استدلال فرمایا اور تیسری مرتبہ میں عجائب حیوانات سے استدلال کیا اور چوتھے مرتبہ میں عجائب بناتات سے استدلال کیا اب احوال عناصر کے عجائب سے استدلال فرماتے ہیں عناصر میں اول پانی کا ذکر فرمایا چناچہ فرماتے ہیں۔ اور وہ وہ ہے جس نے دریا کو تمہارے لیے مسخر کیا تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ یعنی مچھلی نکال کر کھاؤ سمندر کا پانی شور ہے مگر مچھلی جو اس سے نکلتی ہے اسکا گوشت شور نہیں۔ یہ بھی خدا تعالیٰ کی کمال قدرت کی دلیل ہے کہ شور میں سے ایک لذیز چیز تمہارے کھانے کے لیے نکال دی اور تاکہ تم اس سمندر سے زیور نکالو یعنی موتی اور مرجان نکالو جس کو تم پہنچتے ہو یعنی تمہاری عورتیں۔ چونکہ عورتوں کی زینت مردوں کے لیے ہوتی ہے اس لیے حق تعالیٰ نے پہننے کی نسبت مردوں کی طرف کی اور دیکھتا ہے تو کشتیوں کو کہ چیرتی چلی جاتی ہیں، کشتی کا ایک ہی ہوا سے ایک جانب سے دوسری جانب پار ہوجانا یہ خدا کی کمال قدرت کی نشانی ہے اور کشتیوں کا سمندر میں چلانا اس لیے ہے تاکہ اس کے فضل سے روزی تلاش کرو۔ یعنی تاکہ تم کشتیوں پر سوار ہو کر تجارت کرو اور فضل الٰہی سے نفع کماؤ اور تاکہ اللہ عزوجل کی شکر گزاری کرو کہ یہ دریا کی تسخیر اور کشتی کی ترکیب اور تمہارا اس طرح سے سفریہ اللہ کی نعمت ہے، جس کا شکر واجب ہے۔ قسم نہم :۔ والقی فی الارض رواسی تمیدکم وانھرا و سبلا لعلکم تھتدون وعلمت۔ جب عنصر خاکی سے استدلال فرماتے ہیں اور اسی نے تمہارے لیے زمین میں مضبوط پہاڑ ڈال دئیے کہ وہ زمین تم کو لے کر حرکت نہ کرے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے زمین پر پہاڑوں کا بوجھ ڈال دیا اور پہاڑوں کو زمین کے لیے میخیں بنا دیا تاکہ زمین حرکت نہ کرسکے اس لیے زمین ٹھہر گئی یہ اس کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے کہ اس نے ایک جسم کو خفیف بنایا اور ایک جسم (پہاڑ) کو ثقیل بنایا اور اللہ نے زمین میں نہریں پیدا کیں جیسے لیل اور فرات اور جیحون اور سیحون اور اکثر دریا پہاڑوں سے نکلتے ہیں اور پیدا کی زمین میں راہیں اور راستے کہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچ سکو، ان دلائل میں غور کرو کہ شاید تم اپنے منزل مقصود کی راہ پالو اور راستوں کی شناخت کے لیے اللہ نے اور بھی نشانیاں رکھی ہیں جن سے چلنے والے راستہ معلوم کرتے ہیں اگر زمین کی ساری سطح یکساں ہوتی۔ کہیں درخت اور پہاڑ اور یہ نشان نہ ہوتے تو مسافر کو راستہ چلنا اور منزل پر پہنچنا مشکل ہوجاتا۔ قسم دہم : و بالنجم ہم یھتدون۔ اور علاوہ ازیں ستاروں سے بھی لوگ راستہ معلوم کرلیتے ہیں مطلب یہ ہے کہ صرف زمین ہی کی چیزیں راستوں کی علامتیں نہیں بلکہ لق ودق میدانوں میں ستارے بھی راستوں کی علامتیں ہیں کہ قافلے ان کی سیدھ میں چلتے ہیں سمت اور رخ اور راستوں کا پتہ ستاروں کے ذریعے چلتا ہے اگر یہ علامتیں نہ ہوتیں تو بہت مشکل پڑجاتی۔ تہدید براعراض از دلائل واضحہ یہاں تک توحید کے دلائل بیان فرمائے۔ اب آگے ان لوگوں کی مذمت فرماتے ہیں جو ان دلائل واضحہ میں ذرا بھی گور نہیں کرتے چناچہ فرماتے ہیں۔ پس کیا جو خدا ان اجرام علویہ اور سفلیہ اور حیوانات عجیبہ اور نباتات غربیہ اور مصنوعات عظیمہ کو پیدا کرتا ہے۔ مثل ان بتوں کے ہوسکتا ہے جو کچھ پیدا نہیں کرتے پس کیا تم سوچتے نہیں کہ خالق اور غیر خالق کا برابر ہونا عقلاً محال ہے اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنے لگو تو شمار بھی نہیں کرسکتے ہر لمحہ اور ہر لحظہ اس کی نعمتیں مبذول ہوتی رہتی ہیں صرف ایک اپنے ہی وجود پر نظر ڈال لو کہ اس نے تمہیں صحت دی۔ عقل دی سننے کے لیے کان دئیے اور بولنے کے لئے زبان دی اور پکڑنے کے لیے ہاتھ دئیے اور چلنے کے لیے پیر دئیے اس قسم کی بیشمار نعمتیں تم کو دیں جن کو تم گن نہیں سکتے۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے کہ اس نے باوجود تمہاری تقصیرات کے اپنی نعمتیں بند نہیں کیں۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے منعم کی پرستش کرو کہ جس کی نعمتوں کو تم شمار نہیں کرسکتے اور وہ ایسا مہربان ہے کہ باوجود تمہاری تقصیرات کے اپنی نعمتیں تم پر بند نہیں کرتا اور اللہ خوب جانتا ہے جو تم دلوں میں چھپاتے ہو اور جو تم زبان سے ظاہر کرتے ہو۔ وہ تمہارے نیک و بد کی تمہیں سزا دے گا وہی عالم الغیب ہے قابل عبادت ہے ظاہر و باطن اس کے نزدیک برابر ہے یہ بت جن کو نہ تمہاری بدی کی خبر ہے اور نہ نیکی کی۔ پوجنے کے لائق نہیں اور جن حقیر چیزوں کی یہ لوگ خدا کے سوا پرستش کرتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے اور وہ خود ہی مخلوق ہیں پس کیسے خالق کے برابر ہوسکتے ہیں۔ وہ تو مردے ہیں زندہ نہیں۔ وہ تو جمادات ہیں نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں اور نہ حرکت کرسکتے ہیں پس یہ بت معبود کیسے ہوسکتے ہیں۔ معبود کے لئے حیات ازلیہ اور علم محیط چاہئے اور تمہارے ان معبودین کو اتنی بھی خبر نہیں کہ ان کے عابدین یعنی جو ان کی عبادت کرتے ہیں۔ وہ قبروں سے کب اٹھائے جائیں گے یعنی ان کو قیامت کا علم نہیں اور نہ اپنے عابدین کی عبادت کا علم ہے لہٰذا جسے اپنے عبادت کرنے والے کا حال معلوم نہ ہو وہ معبود ہی کیا ہوا تو ایسوں کو پوجنا کمال بےوقوفی ہے خدا کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ خالق معبود اور عالم الغیب اور محیط کل ہو اور خدا تعالیٰ کے سوا نہ کوئی خالق ہے اور نہ کوئی عالم الغیب ہے پس ثابت ہوا کہ تمہارا معبود ایک اور یگانہ ہے۔ احد اور صمد ہے اس کے سوا کوئی معبود ہو ہی نہیں سکتا۔ سو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل ایک معبود ہونے سے انکار کرتے ہیں اور وہ متکبر ہیں اس لیے انہیں حق کے قبول کرنے سے عار ہے بلاشبہ اللہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں اس سے کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے۔ تحقیق اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک محبوب وہ ہے جو اس کے سامنے سرتسلیم خم کرے اور حق کو قبول نہ کرنا یہ تکبر ہے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک غایت درجہ مبغوض ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ متکبرین قیامت کے دن چیونٹیوں کی طرح ہوں گے تاکہ لوگ انہیں اپنے قدموں سے پامال کریں مطلب یہ ہے کہ میدان حشر میں ان کے اجسام صغیر اور حقیر ہوں گے تاکہ خوب ذلیل ہوں اور آگ میں ان کے اجسام کبیر (بڑے) ہوجائیں گے تاکہ عذاب شدید اور ضرب شدید و مدید کے مورد اور محل بن سکیں۔ اور چونکہ حق سے اعراض کا منشاء تکبر تھا اس لیے آیت کو متکبرین کی مذمت پر ختم فرمایا۔
Top