Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 84
وَ یَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا ثُمَّ لَا یُؤْذَنُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ لَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَبْعَثُ : ہم اٹھائیں گے مِنْ : سے كُلِّ : ہر اُمَّةٍ : امت شَهِيْدًا : ایک گواہ ثُمَّ : پھر لَا يُؤْذَنُ : نہ اجازت دی جائے گی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا (کافر) وَ : اور لَا هُمْ : نہ وہ يُسْتَعْتَبُوْنَ : عذر قبول کیے جائیں گے
اور جس دن ہم ہر امت میں سے گواہ (یعنی پیغمبر) کھڑا کریں گے تو نہ تو کفار کو (بولنے کی) اجازت ملے گی اور نہ ان کے عذر قبول کئے جائیں گے۔
ذکر قیامت قال اللہ تعالیٰ : ویوم نبعث من کل امۃ شھیدا .... الیٰ .... وبشری للمسلمین۔ (ربط) یہاں تک حق تعالیٰ نے اپنے انعامات اور احسانات کا ذکر فرمایا اور یہ فرمایا کہ بہت سے لوگ اللہ کی نعمت کو خوب پہچانتے ہیں۔ پھر اللہ کی نعمت کے منکر بنے ہوئے ہیں اب قیامت کا ذکر فرماتے ہیں کہ اس دن ان کافروں کو جنہوں نے دیدہ دانستہ حق تعالیٰ کے انعمات و احسانات کا کفر کیا اور انکار کیا۔ کیا حال اور مآل ہوگا اس دن سب کا حساب و کتاب ہوگا اور سب سے باز پرس ہوگی۔ اور سب ذلیل و خوار ہوں گے اور انبیاء کی گواہی سے ان کا جرم ثابت ہوگا۔ گواہی کے بعد کفار اجازت چاہیں گے کہ ہم کو دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تو یہ درخواست منظور نہ ہوگی اور ان کے فرضی معبود ان کی تکذیب کردیں گے غرض یہ کہ ان آیات میں کفار کی دار آخرت میں ذلت و رسوائی کا بیان ہے کہ یہ لوگ اس دن ذلیل و خوار ہوں گے اور ان کو عذر کا موقع بھی نہیں ملے گا کیونکہ اتمام حجت کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب مبین نازل فرما دی ہے جس میں دین و دنیا کے تمام امور کو بتلا دیا گیا ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور یاد کرو اس دن کو جس دن ہم کھڑا کریں گے ہر امت میں سے ایک گواہ جو ان منکرین نعمت کے انکار کا پردہ چاک کرے گا اور ان کے کفر و شرک پر گواہی دے گا کہ ہم نے ان کو خدا کا حکم پہنچا دیا تھا پھر بھی یہ نہ مانے یہ گواہ انبیاء کرام (علیہ السلام) ہوں گے جو اپنی امت پر ان کے اچھے اور برے اعمال پر گواہی دیں گے اور ان کی گواہی پر نہ کوئی جرح کرسکے گا اور نہ قدح جو وہ کہہ دیں گے۔ اسی کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ پھر انبیاء کرام کی شہادت کے بعد ان کافروں کو کچھ بولنے کی اجازت نہ دی جائے اور نہ ان سے کوئی معذرت اور توبہ طلب کی جائے گی۔ یعنی ان کا کوئی عذر مسموع نہ ہوگا اس لیے کہ عذر اور توبہ کا وقت گزر چکا ہے۔ آخرت تو دار الجزاء ہے نہ کہ دار العمل۔ اب وقت سزا کا ہے نہ کہ کسی عمل کا۔ اور جب وہ لوگ جنہوں نے کفر اور شرک اور گناہ کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور گواہوں کی گواہی کے بعد ان کے حق میں عذاب کا فیصلہ ہوگیا۔ یہ لوگ جب عذاب دوزخ کو دیکھیں گے اور دوزخ میں داخل کر دئیے جائیں گے تو بلبلائیں گے اور چلائیں گے اور مالک (دوزخ کے مہتمم) سے تخفیف عذاب کی درخواست کریں گے تو ان سے نہ عذاب میں تخفیف کی جائے گی کہ ان سے عذاب کچھ ہلکا اور کم کردیا جائے اور نہ وہ مہلت دئیے جائیں گے۔ کہ چند روز کے وقفہ کے بعد عذاب شروع ہو نہیں سکتا اور جب وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں شرک کیا تھا قیامت کے دن اپنے مقرر کیے ہوئے شریکوں یعنی بتوں اور معبودوں کو دیکھیں گے جنہیں خدا کا شریک کہتے تھے تو بطور اقرار جرم و خطا اپنے اوپر سے الزام اٹھانے کے لیے یہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار یہ ہمارے مقرر کیے ہوئے شریک ہیں جنہیں ہم تیرے سوا معبود کہہ کر اپنی حاجت روانی کے لیے پکارا کرتے تھے انہیں کی وجہ سے ہم گمراہ ہوئے اور انہیں کی وجہ سے ہم مارے گئے۔ ورنہ ہم تو بےقصور ہیں۔ شاید یہ کہنا اس غرض سے ہوگا کہ اس بہانہ سے عذاب میں کچھ کمی واقع ہوجائے یا عذاب تقسیم ہوجائے۔ ڈوبتا ہوا تنکے کا سہارا ڈھونڈتا ہے اور اپنی خفت اور ندامت دور کرنے کے لیے اس قسم کی باتیں کرتا ہے تو وہ شرکاء ڈر جائیں گے کہ ہم سے باز پرس نہ ہونے لگے۔ اپنی نے تعلقی ظاہر کرنے کی غرض سے بات انہیں کی طرف ڈال دیں گے اور فورا ان کے جواب میں کہیں گے۔ بلاشبہ تم جھوٹے ہو اور تمہارا ہم پر گناہ کا حوالہ کرنا اور اپنے جرم کا ہم کو سبب قرار دینا سب جھوٹ ہے ہم نے تم سے کب کہا تھا کہ ہم خدا کے شریک اور تمہارے حاجت روا ہیں تم ہماری پرستش کرو تم ہماری پرستش نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی خواہشوں کی پرستش کرتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں۔ ” جو لوگ پوجتے ہیں بزرگوں کو وہ بزرگ بےگناہ ہیں ایک شیطان اپنا وہی نام رکھ کر آپ کو پجواتا ہے اسی سے ان کو کہیں گے کہ تم جھوٹے ہو “۔ غرض یہ کہ معبود، عابدوں کی تکذیب کریں گے اور اپنی براءت اور بےتعلقی کا اظہار کریں گے تاکہ ہم پر کوئی آفت اور مصیبت نہ آئے۔ انبیاء اور ملائکہ اور شیاطین جن کو مشرکین نے معبود بنایا ہوا تھا۔ وہ تو ان کی تکذیب کردیں گے اور کہہ دیں گے کہ تم جھوٹے ہو اور بت اگرچہ دنیا میں نہیں بول سکتے مگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کو گویائی عطا کردے گا تاکہ کفار اور مشرکین پشیمان ہوں کہ ہمارے معبود خود ہم کو جھوٹا بتلا رہے ہیں اور جب پیغمبروں اور فرشتوں کی تکذیب سے یہ بدنصیب ذلیل و خوار ہوجائیں گے۔ اور ان پر اللہ کا الزام قائم ہوجائے گا تو دوسری فکر کریں گے اور وہ یہ کہ اللہ کی طرف اطاعت اور فرمانبرداری کو ڈالیں گے یعنی جب اپنے معبودوں کی شفاعت سے ناامید ہوجائیں گے تو اپنے گناہ کا اقرار کرکے حکم الٰہی کے سامنے گردن ڈال دیں گے مگر اس وقت کی اطاعت اور انقیاد کچھ نفع نہ دے گی۔ چوں کار زدست رفت فریاد چہ سود اور ان کی ساری افتراء پردازی جاتی رہے گی۔ یعنی دنیا میں جو افتراء کرتے تھے کہ بت ہماری شفاعت اور دستگیری کریں گے۔ وہ سب بیکار ثابت ہوگا۔ بلکہ اس کے برعکس وہ ان کی تکذیب کریں گے۔ اور کہیں گے کہ یہ سب جھوٹے ہیں ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں یہ تو کمبخت خود ہی کافر ہوئے اور دوسروں کو بھی خدا کی راہ سے باز رکھا ہم ان پر عنقریب عذاب زیادہ کریں گے ایک عذاب تو ان کے ذاتی کفر کے مقابلہ میں ہوگا اور دوسرا عذاب بمقابلہ ان کے فساد کے ہوگا کہ دوسروں کو اسلام لانے سے روکتے تھے خود بھی طریق حق کو اختیار نہ کیا اور دوسروں کو بھی اس راہ پر چلنے سے روکا اس لیے دوہرے عذاب کے مستحق ہوئے کفر کرنا اور لوگوں کو خدا کی راہ سے روکنا اور مسلمان کو ستانا اور اس کی تحقیر کرنا اور احکام شریعت کے اجراء و تنفیذ میں مزاحمت کرنا یہی سب سے بڑا فساد ہے کفر اور شرک سے بڑھ کر کوئی فساد نہیں غرض یہ کہ ہر نبی اپنی امت کے اعمال اور احوال پر گواہ ہوں گے۔ اب آئندہ آیت میں مضمون ہذا کی تاکید ہے البتہ اتنی بات زیادہ ہے کہ آئندہ آیت میں آنحضرت ﷺ کی گواہی کا ذکر ہے چناچہ فرماتے ہیں اور یاد کرو اس دن کو جس دن ہر امت میں سے ان پر ایک گواہ کھڑا کریں گے یعنی اس امت کا پیغمبر جو ان پر گواہی دے گا اور وہ گواہ ان ہی میں سے ہوگا یعنی انہی کی قوم میں سے ہوگا تاکہ ان پر حجت پوری ہوجائے اور عذر و معذرت کی گنجائش نہ رہے اس دن کافروں کی مٹی بہت خراب ہوگی۔ اور ہم لائیں گے تجھ کو اے محمد ﷺ ان لوگوں پر یعنی تیری امت پر گواہ کہ تو مومنوں کے ایمان کی اور کافروں کے کفر کی گواہی دے اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ھؤلاء سے انبیاء سابقین (علیہ السلام) مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن جب امتیں اپنے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کریں گے اور یہ کہیں گی کہ ہم کو اللہ کا پیغام نہیں پہنچا تو اس وقت آنحضرت ﷺ گواہی دیں گے کہ تمام احکام کو صاف صاف اور اچھی طرح پہنچا دیا۔ اور یہ فار اور منکرین جھوٹے ہیں اس وقت آنحضرت ﷺ کی فضیلت بلکہ افضلیت اور کافروں کی فضیحت ظاہر ہوگی بہر حال یہ قیامت کے دن تمام انبیاء (علیہ السلام) اور امم پر آپ ﷺ کی نبوت و رسالت اور آپ ﷺ کی سیادت و افضلیت کی دلیل ہے۔ اور علاوہ ازیں آپ ﷺ کی نبوت و رسالت اور آپ کی سیادت و افضلیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ ہم نے آپ ﷺ پر یہ کتاب یعنی قرآن اتارا جس میں دنیا و دین کی سب چیزوں کا بیان ہے یعنی تمام علوم و ہدایت اور اصول دین اس جامع کتاب میں صراحۃً یا اشارۃ اور کنایۃً یا بطور حوالہ اس میں موجود ہیں بعض چیزیں صراحۃً قرآن کریم میں مذکور ہیں اور بعض چیزیں قرآن کریم میں اجمالاً اور اشارۃً مذکور ہیں لیکن ان کی تفصیل و تشریح کو خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کے حوالہ کیا ما اتکم الرسول فخذوہ وما نھکم منہ فانتھوا اور حکم دیا کہ ہمارے نبی کا اتباع کرو وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی۔ گفتہ او گفتہ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبد اللہ بود اگر سنت نبوی ﷺ میں کوئی اشتباہ پیش آئے تو علماء ربانیین اور راسخین فی العلم کا جس چیز پر اجماع اور اتفاق ہوجائے اس کا اتباع کرو جیسا کہ امام شافعی (رح) سے منقول ہے کہ یتبع غیر سبیل ال مومنین میں سبیل ال مومنین سے اہل علم کا اجماع اور اتفاق مراد ہے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی سنت کے اتباع کا حکم دیا ہے اور خلفائے راشدین ؓ اور صحابہ کرام ؓ نے ان امور میں جن کا حکم صراحۃً کتاب و سنت میں نہ پایا وہاں قیاس اور اجتہاد سے کام لیا جیسا کہ قرآن کریم میں ہے فاعتبروا یاولی الابصار اسی طرح سے اجماع اور قیاس بھی علوم قرآنیہ سے ہوگا جس طرح حدیث نبوی ﷺ قرآن کریم کی تفسیر ہے اس کا غیر نہیں اسی طرح اجماع صحابہ ؓ اور قیاس صحابہ ؓ حدیث نبوی ﷺ کی شرح اور اس کی توضیح ہے اور تلویح ہے اس کا غیر نہیں اس طرح سے تمام چیزوں کا بیان قرآن میں ہے اور یہ جامع کتاب یعنی قرآن خدا کے فرمانبردار بندوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے اور بشارت ہے۔ یعنی یہ کتاب مستطاب سارے عالم کے لیے مشعل ہدایت ہے راہ حق دکھاتی ہے اور فرماں برداروں کے لیے باران رحمت اور جنت کی بشارت ہے۔
Top