Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ
: پاک
الَّذِيْٓ
: وہ جو
اَسْرٰى
: لے گیا
بِعَبْدِهٖ
: اپنے بندہ کو
لَيْلًا
: راتوں رات
مِّنَ
: سے
الْمَسْجِدِ
: مسجد
الْحَرَامِ
: حرام
اِلَى
: تک
الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا
: مسجد اقصا
الَّذِيْ
: جس کو
بٰرَكْنَا
: برکت دی ہم نے
حَوْلَهٗ
: اس کے ارد گرد
لِنُرِيَهٗ
: تاکہ دکھا دیں ہم اس کو
مِنْ اٰيٰتِنَا
: اپنی نشانیاں
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
هُوَ
: وہ
السَّمِيْعُ
: سننے والا
الْبَصِيْرُ
: دیکھنے والا
وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام (یعنی خانہ کعبہ) سے مسجد اقصی (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے
ذکر کرامت اسراء معراج بہ نبی اکرم ﷺ قال اللہ تعالیٰ : سبحن الذی اسری بعبدہ .... الیٰ .... انہ ھو السمیر البصیر۔ گزشتہ سورت کے ختم پر صبر کی فضیلت بیان فرمائی کما قال تعالیٰ ولئن صبرتم لھو خیرہ للصبرین اور اہل صبر اور اہل تقویٰ کے لیے اپنی معیت اور قرب کا وعدہ فرمایا کما قال تعالیٰ ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ہم محسنون اس لیے اس سورت کا آغاز واقعہ معراج کے بیان سے فرمایا کہ جو مکہ میں دس سالہ ہوشربا مصائب پر صبر جمیل کے بعد پیش آیا گویا مسلسل دس سال کے ذبر کے بعد حق تعالیٰ نے ایسی عزت و کرامت و رفعت و بلندی عطا فرمائی جس نے دس سالہ مصیبتوں اور ذلتوں کو عزتوں اور راحتوں سے بدل دیا۔ دانہ پست افتد زبردستش کنند خوشہ چوں سر برکشدپستش کنند حق جل شانہ نے آپ ﷺ کو اسراء اور معراج کی کرامت اور عزت سے سرفراز کیا اور ایک رات میں تمام آسمانوں کی سیر کرائی اور آیات کبریٰ کا مشاہدہ کرایا لقد رای من ایت ربہ الکبری اور صبر جمیل پر جس معیت سراپا خیر و برکت کا وعدہ فرمایا تھا وہ پورا کردیا اور اپنے قرب خاص سے آپ ﷺ کو نوازا۔ کما قال تعالیٰ ثم دنا فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی فاوحی الی عبدہ ما اوحی۔ اور اس خارق عادت واقعہ کو آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کی دلیل بنایا اور مسجد اقصی تک سیر کرانے میں اہل مکہ کی متنبہ کردیا کہ اب عنقریب مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کی تولیت اور امامت نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب و احباب کی طرف منتقل ہونے والی ہے اور عنقریب حضور پر نور ﷺ کو نبی القبلتین کا لقب ملنے والا ہے اور یہ سب اس وعدہ معیت کا اظہار ہے جس کا ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ہم محسنون میں خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ اپنے عباد متقین اور محسنین کو اپنی معیت خاصہ سے سرفراز فرمائے گا۔ اور چونکہ ایک رات میں عروج و نزول اور سیر سموت خداوند کریم کی قدرت و مرحمت کرشمہ تھا اس لیے اس کو تسبیح اور تنزیہ سے شروع کیا گیا تاکہ کوئی ملحد اور زندیق اس سیر سمٰوٰت کو قدرت خداوندی سے کا رج نہ سمجھے اور چونکہ کفار نے اس واقعہ کی تکذیب کی اور آپ ﷺ کا مذاق اڑایا اس لیے منکرین اور مخالفین کی تہدید کیلئے قوم نوح کے قصہ کی طرف اشارہ فرمایا اور بنی اسرائیل کی تباہی اور بربادی کا قصہ ذکر فرمایا کہ جس طرح خداوند قدیر نے پہلے معاندین کو سزا دی اسی طرح وہ اب بھی معاندین کو سزا دینے پر قادر ہے چناچہ فرماتے ہیں پاک اور بےعیب ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندہ محمد رسول اللہ ﷺ کو رات کے ایک حصہ میں مسجد حرام سے یعنی خانہ کعبہ سے مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس تک لے گیا ایسی مسجد جس کے گردا گرد ہم نے دینی اور دنیوی برکتیں رکھی ہیں دینی برکت یہ ہے کہ وہ سرزمین انبیاء کرام (علیہ السلام) کا مولدہ و مسکن اور ان کا مدفن ہے جس پر لیل و نہار اللہ کی وحی نازل ہوتی تھی اور فرشتوں کا نزول ہوتا تھا اور دنیوی برکت یہ ہے کہ وہ زمین چشموں اور نہروں اور میوؤں اور درختوں سے مالا مال ہے تو ہم اپنے خاص بندے محمد رسول اللہ ﷺ کو اس جگہ لے گئے تاکہ ہم اس کو اپنی قدرت کی بعض نشانیاں دکھائیں کہ تھوڑی ہی دیر میں مکہ معظمہ سے براق پر سوار ہو کر ملک شام پہنچ گئے اور مسجد اقصی میں انبیاء کرام (علیہ السلام) سے ملاقات فرمائی اور ان کی امامت فرمائی پھر وہاں سے ساتوں آسمانوں کی سیر کی اور بیت معمور اور سدرۃ المنتہیٰ پہنچے بلکہ اس سے بھی اوپر تاکہ اس آسمانی سیر سے آپ ﷺ کی کرامت اور علو مرتبیت طاہر ہو اور لوگوں کے سامنے آپ ﷺ کی نبوت و رسالت واضح طور پر ثابت ہوجائے بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے یعنی وہ اپنے نبی کے پاکیزہ اقوال کو سنتا ہے اور اس کے پسندیدہ افعال کو دیکھتا ہے اور اس کے مطابق اس کا اکرام ہوتا ہے اور فرش سے لے کر عرش تک اس کو اپنے عجائب ملکوت کا مشاہدہ کراتا ہے یا یہ معنی ہیں کہ اللہ اپنے بندوں کے اقوال کو سنتا ہے اور ان کے افعال دیکھتا ہے ان کے مطابق ان کو جزاء و سزا دے گا اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ انہ ھو السمیع البصیر، کی ضمیر آنحضرت ﷺ کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کا خاص برگزیدہ اور مقرب بندہ اللہ کی نشانیوں کو اللہ کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور اللہ کے کان سے سنتا ہے جیسا کہ بخاری کی ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے مقرب بندہ کا کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے (آخر الحدیث) اس حدیث کو امام بخاری (رح) نے جامع صحیح کی کتاب الرقاق باب التواضع میں ذکر کیا ہے۔ معاذ اللہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ خدا بندہ کا عین بن جاتا ہے بلکہ اس سے مقام قرب اور مقام فناء کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ مقام قرب میں اس منزل پر پہنچ جاتا ہے کہ بظاہر اگرچہ وہ اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہے اور اپنے کان سے سن رہا ہے مگر درپردہ تائید غیبی کار فرما ہوتی ہے کما قال تعالیٰ وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی، فلم تقتلوہم ولکن اللہ قتلہم اسی طرح آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے کان سے وہ سنا جو اللہ نے سنایا اور آنکھ سے وہ دیکھا جو اللہ نے دکھایا چوں در مکتب بےنشانی رسید چہ گویم کہ آں جاچہ دیدو شنید ورق در نوشتند و گم شد شبق شنیدن بحق بود و دیدن بحق (1): حق جل شانہ نے اس آیت میں واقعہ معراج کو نہایت اختصار کے ساتھ بیان فرمایا اس سے زیادہ وضاحت سورة نجم میں ہے اور احادیث میں اس کی پوری تفصیل ہے حق تعالیٰ نے جہاں جس قدر بیان کرنا مناسب جانا اسی قدر بیان کردیا اختصار مزید بیان کی نفی نہیں کرتا۔ (2): بیت المقدس کو مسجد اقصیٰ اس لیے کہتے ہیں کہ اقصیٰ کے معنی دورترکے ہیں اور مسجد بیت المقدس خانہ کعبہ سے بہت دور ہے۔ اور زمانہ نزول وحی میں مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے سوا روئے زمین پر اور کوئی مسجد نہ تھی اور روئے زمین پر اس وقت مسجد اقصیٰ سے زیادہ کوئی مسجد دور نہ تھی۔ (3): علماء کی اصطلاح میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کی سیر کو اسراء کہتے ہیں اور مسجد اقصیٰ سے لے کر ساتویں آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ کی سیر کو معراج کہتے ہیں اور بسا اوقات دونوں سفروں کے مجموعہ پر لفظ ” اسراء “ یا لفظ ” معراج “ کا بھی اطلاق کردیا جاتا ہے اسراء رات کے چلنے کو کہتے ہیں لیلا کا لفظ اس کے بعد صرف اس لیے لایا گیا کہ پوری رات اس سفر میں صرف نہ ہوئی بلکہ اس کا ایک قلیل حصہ صرف ہوا۔ (4): اسراء اور معراج سے مقصود حق تعالیٰ کا یہ تھا کہ اپنے برگزیدہ بندہ کو اپنے عجائب قدرت دکھائے اگرچہ یہ عالم بھی وجیب ہے مگر عالم ملکوت کے کرشمے وہم و گمان سے بالا اور برتر ہیں۔ آپ ﷺ نے سدرۃ المنتہیٰ کی سیر کی اور بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں جیسا کہ سورة نجم کی آیات سے ظاہر ہے لقد رای من ایت ربہ الکبری۔ (5): خدا تعالیٰ نے اس واقعہ کو لفظ ” سبحان “ سے شروع کیا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہر قسم کے عیب اور نقص اور عجز سے پاک ہے اس کو ایک رات میں اپنے بندہ کا مکہ سے بیت المقدس لے جانا کچھ مشکل نہیں جو لوگ اس کو مستبعد سمجھتے ہیں وہ خدا کو عجز اور نقص کا عیب لگاتے ہیں اور خدا تعالیٰ ہر عیب سے منزہ اور پاک ہے۔ (6): صحابہ اور تابعین اور علماء ربانین کے اتفاق سے یہ بات ثابت ہے کہ حضور پر نور ﷺ کو یہ معراج بحالت بیداری روح اور جسم دونوں کے ساتھ ہوئی اور یہ واقعہ اس قدر احادیث کثیرہ و صحیحہ و صریحہ سے ثابت ہے کہ جن کا نہ انکار ممکن ہے اور نہ ان میں کسی قدم کی تاویل ممکن ہے، اس درجہ کثیر ہیں کہ تواتر کو پہنچی ہیں جن کا انکار ناممکن ہے اور اس درجہ صریح اور واضح ہیں کہ ان میں ذرہ برابر تاویل کی گنجائش نہیں متواترات کا انکار فکر ہے اور نصوص محکمات میں تاویل الحاد اور زندقہ ہے اسی وجہ سے ہر زمانہ میں اہلا سلام کا اس پر اجماع رہا ہے اور یہی ان کا عقیدہ رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو معراج جسمانی ہوئی اور آپ صلی اللہ علی ہو سلم بیداری کی حالت میں بجسدہ العنصری آسمانوں پر تشریف لے گئے سلف اور خلف اور جمہور فقہاء و محدثین و متکلمین اور صوفیائے کرام اور اولیائے عظام سب کا یہی قول ہے اور حضرت عائشہ ؓ اور حضرت معاویہ (رح) کی طرف جو یہ منسوب کیا جاتا ہے کہ وہ معراج کو بحالت منام (نیند) ایک عجیب و غریب خواب مانتے تھے صحیح نہیں جیسا کہ عنقریب انشاء اللہ تعالیٰ واضح ہوجائے گا۔ (7): ظاہر قرآن سے یہی معلوم مفہوم اور معلوم ہوتا ہے کہ حضور پر نور ﷺ اس جسد عنصری کے ساتھ بحالت بیداری آسمانوں پر تشریف لے گئے کیونکہ خدا تعالیٰ یہ فرماتے ہیں۔ (1) ” پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے عبد (بندہ) کو آیت میں لفظ عبد واقع ہے جس کا ترجمہ بندہ ہے جو مجموعہ روح و جسد کا نام ہے اس کا اطلاق صرف روح پر صحیح نہیں قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی یہ لفظ آیا ہے ہر جگہ اس سے مراد روح مع الجسد ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتے ہیں ارایت الذی ینھی عبدا اذا صلی یعنی کیا تو نے ابوجہل کو بھی دیکھا ہے جو اس خاص بندہ کو جب وہ نماز پڑھتا ہے نماز پڑھنے سے روکتا ہے ظاہر ہے کہ اس آیت میں عبد سے مراد روح مع الجسد ہے نہ کہ صرف روح کیونکہ ابوجہل صرف روح کو نماز پڑھنے سے نہیں روکتا تھا نیز خدا تعالیٰ فرماتے ہیں وانہ کما قام عبد اللہ یدعوہ کادوا یکونون علیہ لبدا۔ یعنی جب اللہ کا بندہ محمد ﷺ نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے تو قرآن سننے کے لیے اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ صرف حضرت کی روح نماز پڑھنے کے لیے کھڑی نہیں ہوتی تھی نیز خدا تعالیٰ فرماتے ہیں ذکر رحمت ربک عبدہ زکریا اس آیت میں بھی عبد سے مراد زکریا (علیہ السلام) کی روح اور جسد دونوں ہی ہیں غرض یہ کہ اس قسم کی مثالیں قرآن کریم میں کثیر ہیں عبد سے مراد روح مع الجسد ہے نیز حق جل شانہ نے اس واقعہ کے بیان کو تسبیح و تنزیہ سے شروع فرمایا ہے اور ظاہر ہے کہ تسبیح امر عظیم اور امر عجیب کے وقت ہوتی ہے خواب جیسے معمولی واقعہ کے لیے ایسا عظیم لفظ کبھی استعمال نہیں ہوتا کیونکہ خواب کوئی ایسی بڑی بات نہیں جس کے لیے تسبیح کا لفظ استعمال کیا جائے۔ (2) نیز اسری بعبدہ کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ بحالت بیداری اپنے بندہ کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا اور اگر آیت کے یہ معنی لیے جائیں کہ خدا تعالیٰ اپنے بندہ کو بحالت خواب یا محض روحانی طور پر مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گیا تو پھر فاسر بعبادی لیلا میں یہ معنی لینے ممکن ہوں گے کہ اے موسیٰ ! میرے بندوں (بنی اسرائیل) کو خواب میں یا محض روحانی طور پر لے کر مصر سے نکل جاؤ اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے قصہ میں ہے فاسر باہلک بقطع من الیل اس آیت میں لوط (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ رات کے حصہ میں اپنے گھر والون کو لے کر یہاں سے چلے جاؤ اور ظاہر ہے کہ بیداری میں لے جانا مراد ہے خواب میں لے جانا کسی کے نزدیک بھی مراد نہیں۔ (3) نیز لنریہ من ایتنا سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسراء سے مقصود آیات قدرت کا مشاہدہ کرانا تھا کہ بحالت بیداری اس چشم سر سے عجائب قدرت کو دیکھیں روحانی طور پر یا بحالت خواب دکھانا مراد نہیں بلکہ جسمانی طور پر دکھلانا مرا د ہے اور سورة نجم میں مازاغ البصر کا لفظ آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مشاہدہ بصری تھا نیز سورة نجم میں حق تعالیٰ نے اس واقعہ کو آیات کبریٰ اور معجزات عظمیٰ میں سے قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ خواب نہ آیات کبریٰ ہے اور نہ معجزات عظمیٰ ہے۔ (4) نیز بتواتر منقول ہے کہ جب آپ ﷺ نے واقعہ اسراء و معراج کو لوگوں کے سامنے بیان کیا تو کافروں نے اس کو محال جانا اور آپ ﷺ کی تکذیب کی اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ ﷺ خواب کے مدعی نہ تھے اگر آپ ﷺ خواب کے مدعی ہوتے تو کافروں کے جھٹلانے کے کوئی معنی نہ تھے خواب میں ہر ایک سنان عجائبات دیکھ سکتا ہے کیا عرب کے کافر ایسے بیوقوف اور نادان تھے جو یہ کہتے تھے کہ خواب میں بیت المقدس اور آسمانوں پر جانا محال ہے۔ (5) نیز احادیث میں ہے کہ مشرکین نے اس واقعہ کو سن کر آپ ﷺ کی تکذیب کی اور آپ ﷺ کا مذاق اڑایا اور تالیاں بجائیں، بیت المقدس کی علامات دریافت کیں اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس آپ ﷺ کے سامنے کردیا آپ ﷺ نے اس کو دیکھ دیکھ کر ان کی باتوں کا جواب دیا اگر یہ واقعہ کوئی خواب یا کشف ہوتا تو مشرکین آپ ﷺ سے بیت المقدس کی علامتیں نہ پوچھتے خواب نیان کرنے والے سے نہ کوئی علامت پوچھتا ہے اور نہ مذاق اڑاتا ہے ایسے موقع پر کسی کا تالیاں بجانا اپنی کامیابی اور مخالفت کی ذلت کی علامت ہے اور کامیابی وہ اپنی اس میں سمجھتے تھے کہ آپ ﷺ کا جھوٹ ثابت کردیں اور یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ جب یہ واقعہ بیداری کا ہو اور امتحان کے وقت من جانب اللہ بیت المقدس کا سامنے کردینا اس امر کی دلیل ہے کہ صرف اتنا واقعہ کشفی ہے باقی پورا واقعہ بیداری کا ہے۔ (6) نیز اگر واقعہ اسراء و معراج کوئی خواب ہوتا تو حضور پر نور ﷺ کے معجزات میں شمار نہ ہوتا خواب میں تو ابوجہل اور ابو لہب بھی ایک رات میں مکہ سے بیت المقدس جاکر واپس آسکتا ہے۔ (7) نیز مستدرک حاکم میں باسناد صحیح اور امام بیہقی (رح) کی دلائل النبوۃ میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ جس رات آنحضرت ﷺ بیت المقدس جا کر واپس آئے تو صبح کو لوگوں سے یہ واقعہ بیان فرمایا تو کچھ لوگ مرتد ہوگئے اور کفار دوڑے ہوئے حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور ان سے جاکر کہا کہ تمہیں کچھ اپنے رفیق اور دوسرت کی بھی خبر ہے آپ کا دوست یہ کہتا ہے کہ آج رات اسے بیت المقدس کی سیر کرائی گئی۔ ابوبکر ؓ نے کہا کیا واقعی آپ ﷺ نے یہ بات کہی ہے لوگوں نے کہا ہاں کہی ہے ابوبکر ؓ نے کہا کہ ہاں میں تو بیت المقدس سے بھی دور کی تصدیق کرتا ہوں۔ آپ ﷺ صبح شام جو آسمانوں کی خبریں بیان کرتے ہیں (جو بیت المقدس سے بھی دور ہیں اور بعید ازعقل بھی ہیں) ان کی تصدیق کرتا ہوں۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اسی تصدیق کی وجہ سے ان کا نام صدیق رکھا گیا اگر یہ واقعہ خواب کا ہوتا تو کفار بھی اس کی تصدیق کردیتے کہ خواب میں اکثر دور دور کے شہروں کی سیر کر ہی لیا کرتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر ص 21 جلد 3 و تفسیر درمنثور ص 155 جلد 4 و خصائص کبریٰ ص 176 جلد 1) اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ سننے والے نے اس واقعہ کو بیداری کا واقعہ سمجھا اسی بناء پر بعض لوگ مرتد ہوگئے اور ابوجہل اور قریش نے اس واقعہ کو محال سمجھ کر آپ ﷺ کا مذاق اڑایا اور اسی کی تصدیق پر ابوبکر ؓ ملقب بصدیق ہوئے اور یہ سب باتیں اسی صورت میں ممکن ہیں جب کہ آپ ﷺ کا دعویٰ معراج جسمانی بحالت بیداری ہو۔ خواب میں مکہ سے بہت المقدس اور صبح کو مکہ واپس آجانا کسی عاقل کے نزدیک بھی محال اور ناممکن نہیں بنی تو بنی ایساخواب تو کافر بھی دیکھ سکتا ہے اور خواب سن کر بےاعتقاد اور مرتد ہونے کی کوئی وجہ نہیں اور محض خواب کی تصدیق پر صدیق کا لقب ملنے کی بھی کوئی وجہ نہیں پس معلوم ہوا کہ جس معراج کی ابوجہل اور کفار نے تکذیب کی اور جس کی ابوبکر صدیق ؓ نے تصدیق کی تھی وہ جسمانی ہی تھا لہٰذا اب جو معراج جسمانی کا انکار کرے وہ خود سمجھ لے کہ وہ کس گروہ سے ہے۔ اور اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بھی معراج جسمانی کی قائل ہیں لہٰذا کسی کا یہ کہنا کہ وہ معراج جسمانی کی قائل نہیں کس طرح درست اور صحیح ہوسکتا ہے۔ نیز عبد اللہ بن مسعود ؓ اور عبد اللہ بن عباس ؓ دونوں حضرات اس بات کے قائل تھے کہ واقعہ معراج بلاشبہ جسمانی تھا اور بحالت بیداری تھا مگر ان دونوں حضرات کا اس بارے میں اختلاف تھا کہ شب معراج میں آنحضرت ﷺ دیدار الٰہی سے مشرف ہوئے کہ نہیں عبد اللہ بن عباس ؓ سب معراج میں رؤیت باری تعالیٰ کے قائل تھے کہ حضور پر نور ﷺ نے اس شب میں اپنے رب اکرم کو بچشم سر دیکھا اور عبد اللہ بن مسعود ؓ اس کے منکر تھے اور ابن مسعود ؓ کی طرف ام ال مومنین حضرت عائشہ صدیقہ بھی شب معراج میں رؤیت باری کی منکر تھیں معلوم ہوا کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ کی طرح عائشہ صدیقہ ؓ بھی معراج جسمانی کی قائل تھیں صرف رؤیت کی منکر تھیں۔ حضرت عائشہ ؓ اور عبد اللہ بن مسعود ؓ کا دیگر صحابہ کرام ؓ سے اختلاف معراج کی جسمانی اور بحالت بیداری ہونے میں نہ تھا بلکہ اختلاف صرف اس بات میں تھا کہ حضور پر نور ﷺ اس سیر ملکوتی میں بچشم سردیدار خداوندی سے مشرف ہوئے یا نہیں اگر یہ واقعہ خواب کا ہوتا تو اختلاف کی کوئی وجہ نہیں اس لیے کہ بحالت خواب حق تعالیٰ کا دیدار بالا جماع جائز ہے معراج جسمانی ہونے کے بارے میں صحابہ کرام ؓ کا کوئی اختلاف نہیں بالفرض اگر کوئی اختلاف ہوتا تو وہ اختلاف کسی پر مخفی نہ رہتا سب کو معلوم ہوتا جن مسائل میں صحابہ کرام ؓ کا ایک دوسرے سے مناظرہ یا کوئی مباحثہ ہوا جیسے سماع موتی اور متعتہ الحج وغیرہ میں تو وہ ضرورت منقول ہوتا اسی طرح اگر مسئلہ معراج کے متعلق صحابہ وتابعین میں کوئی اختلاف ہوتا تو ضرور منقول ہوتا اور یہ ناممکن تھا کہ اگر صحابہ میں سے کوئی معراج جسمانی کا منکر ہوتا تو دوسرے صحابہ کرام جو معراج جسمانی کے قائل تھے وہ ان سے مناظرہ نہ رکتے۔ غرض یہ کہ حضرت عائشہ ؓ کی طرف یہ نسبت کرنا کہ وہ معراج جسمانی کی قائل نہ تھیں بالکل غلط ہے جو لوگ معراج کو روحانی یا خواب قرار دیتے ہیں اور معراج کے منکر ہیں وہ اپنے اس باطل دعوے کی تائید میں ام ال مومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا نام لیتے ہیں اور بطور استدلال یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ یہ فرمایا کرتی تھیں ما فقدت جسد رسول اللہ ﷺ ولکن اللہ اسریٰ بروحہٖ یعنی شب معراج میں میرے پاس سے آنحضرت ﷺ کا جسم غائب نہیں ہوا لیکن اللہ نے آپ ﷺ کی روح کو سیر کرائی۔ جواب : یہ حدیث محدثین کے نزدیک ثابت نہیں اس حدیث کی سند میں انقطاع ہے اور راوی مجہول ہے اور ابن وجبہ (رح) نے تنویر میں لکھا ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے کسی نے صحیح حدیث کو رد کرنے کے لیے اس کو وضع کیا ہے۔ (زرقانی شرح مواہب ص 4 جلد 6) ۔ علاوہ ازیں اس روایت کا صحیح ہونا نہایت دشوار ہے کیونکہ واقعہ معراج بالاجماع ہجرت سے تین سال یا پانچ سال پہلے کا ہے اس وقت اگر عائشہ صدیقہ ؓ پیدا بھی ہوچکی تھیں تو سن شعور کو نہ پہنچی تھیں اور آنحضرت ﷺ کے نکاح میں نہ آئی تھیں جو واقعہ ان سے پہلے گزر چکا ہے اس کی نسبت وہ کیسے فرما سکتی ہیں کہ آپ ﷺ کا جسم موجود تھا یا غائب تھا لہٰذا ان کا یہ کہنا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے جسم کو اپنے پاس سے منقود اور غائب نہیں پایا کیسے صحیح ہوسکتا ہے خاص کر جب حضرت عائشہ صدیقہ ؓ خود یہ روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے جب واقعہ معراج بیان کیا تو کچھ لوگ مرتد ہوگئے اور ابوبکر ؓ کو بوجہ تصدیق کے صدیق کا لقب ملا اگر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے نزدیک یہ معراج جسمانی نہ ہوتی تو اس بات کی تصریح فرما دیتیں کہ ارتداد اور استبعاد کی کیا ضرورت ہے یہ واقعہ تو خواب کا ہے یا روحانی واقعہ ہے کفار نے غلط سمجھ کر خواہ مخواہ آپ کی تکذیب کی اور آپ کا مذاق اڑایا حضرت عائشہ کی یہ حدیث جس میں کفار کی تکذیب اور لوگوں کا مرتد ہونا اور تصدیق کی وجہ سے ابوبکر صدیق ؓ کو صدیق کا لقب مذکور ہونا یہ حدیث مرفوع اور صحیح ہے اور ما فقدت جسدہ والی روایت موقوف اور غیر صحیح ہے۔ قاضی عیاض (رح) فرماتے ہیں کہ سب معراج میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا رؤیت بصری سے انکار اس بات کی دلیل ہے کہ وہ معراج جسمانی کی قائل تھیں ورنہ خواب میں دیدار خداوندی کے انکار کی کوئی وجہ نہیں منامی اور روحانی رؤیت کا انکار غیر معقول ہے اس لیے کہ رؤیت باری تعالیٰ خواب میں یا روحانی طور پر عقلا و نقلا جائز ہے معاذ اللہ کیا حضرت عائشہ ؓ آنحضرت ﷺ کے لیے خواب میں بھی دیدار خداوندی اور رؤیت باری تعالیٰ کو جائز نہیں سمجھتی تھیں اور اگر بفرض محال حضرت عائشہ ؓ کے اس قول کو صحیح بھی مان لیا جائے تو چونکہ یہ قول بیشمار احادیث صحیحہ اور صریحہ کے خلاف ہے اس لیے قابل قبول نہ ہوگا (شرح شفاء قاضی عیاض للعلامہ القاری ص 414 ج 1) نیز احادیث سے یہ امر ثابت ہے کہ جب فرشتے آنحضرت ﷺ کو اسراء و معراج کیلیے لینے آئے تو آپ اس وقت ام ہانی ؓ کے گھر میں تھے فرشتے آپ ﷺ کو ام ہانی ؓ کے گھر سے مسجد حرام میں لے گئے اور وہاں جاکر آپ ﷺ کا سینہ مبارک چاک کیا اور براق پر سوار کرکے بیت المقدس لے گئے معجم طبرانی میں ام ہانی ؓ سے روایت ہے : قالت بات رسول اللہ ﷺ لیلۃ اسری بہ فی بیتی ففقدتہ من اللیل فامتنع منی النوم مخافۃ ان یکون عرض لہ بعض قریش فقال رسول اللہ ﷺ ان جبریل اتانی فاخذ بیدی فاخرجنی الیٰ آخر الحدیث۔ (خصائص کبریٰ للسیوطی ص 177) ام ہانی ؓ کہتی ہیں کہ شب معراج میں آنحضرت ﷺ میرے گھر میں تھے درمیان شب کے میں نے آپ صلی اللہ علیسلم کو دیکھا تو آپ گھر میں موجود نہ تھے میری نیند اڑ گئی اور ڈر یہ ہوا کہ آپ ﷺ باہر تشریف لے گئے ہیں۔ مبادا قریش میں کوئی دشمن آپ کے پیچھے نہ لگ گیا ہو (جب صبح ہوئی اور آپ ﷺ گھر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ سے میں نے اپنی پریشانی بیان کی) تو آپ ﷺ نے مجھ سے اسراء اور معراج کا واقعہ بیان کیا تب میرے دل کو تسلی ہوئی۔ (دیکھو خصائص کبریٰ ص 177 جلد 1 و تفسیر در منثور ص 148 جلد 4) ام ہانی ؓ کی روایت کا یہ لفظ ففقدتہ من اللیل یعنی اس رات میں نے آپ کو گھر سے غائب پایا ام ہانی ؓ کا یہ لفظ عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت کے لفظ ما فقدت جسد رسول اللہ ﷺ کے صریح معارض اور مخالف ہے لہٰذا بوقت تعارض ترجیح ام ہانی ؓ کی روایت کو ہوگی اس لئے کہ معراج کا آغاز ام ہانی ؓ کے گھر سے ہوا اور واپسی بھی ام ہابی کے گھر پر ہوئی اور حضرت عائشہ ؓ اس وقت کم سن تھیں اور بعض اقوال کی بناء پر واقعہ اسراء و معراج حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی والدت سے پہلے کا ہے اس لئے اگر بالفرض عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت صحیح بھی ہو تو ام ہانی ؓ کی روایت کے مقابلہ میں اس کو ترجیح نہیں ہوسکتی ہے اس لئے کہ ام بانی ؓ خود اپنا مشاہدہ بیان کرتی ہیں اور عائشہ صدیقہ ؓ واقعہ معراج کے وقت آپ ﷺ کے نکاح میں نہ تھیں۔ نیز حضرت عائشہ ؓ سے خود ایک روایت ام ہانی ؓ کی روایت کے موافق آتی ہے جس میں اس بات کی تصریح ہے کہ اس رات آنحضرت ﷺ گھر سے غائب تھے۔ چناچہ شیخ جلال الدین سیوطی (رح) فرماتے ہیں کہ ابن سعد (رح) اور ابن عساکر (رح) نے حدیث معراج کو عبد اللہ بن عمر اور ام سلمہ ؓ اور عائشہ صدیقہ ؓ اور ام ہانی ؓ اور عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا ہے۔ اور اس طویل اور مفصل حدیث میں یہ لفظ آیا ہے۔ ففقد النبی ﷺ تلک اللیلۃ فتفرقت بنو عبد المطلب یطلبونہ ویلتمسونہ، وخرج العباس ؓ حتی بلغ ذا طویٰ فجعل یصرخ یا محمد یا محمد فاجابۃ رسول اللہ ﷺ لبیک لبیک فقال ابن اخی اعییت قومک منذ اللیلۃ فاین کنت قال اتیت من بیت المقدس قال فی لیلتک قال نعم قال اصابک خیر قال ما اصابنی الا خیر۔ (تفسیر درمنثور ص 149 ج 4) یعنی اس شب میں آنحضرت ﷺ اپنے گھر سے گم اور غائب ہوئے اور یہ نہ معلوم ہوسکا کہ رات کے وقت آپ ﷺ کہاں چلے گئے اس لئے بنی عبد المطلب آپ ﷺ کی تلاش میں نکلے اور حضرت عباس ؓ بھی آپ ﷺ کی تلاش میں نکلے یہاں تک کہ جب وادی طویٰ میں پہنچے تو حضرت عباس ؓ زور زور سے یامحمد یا محمد کہہ کر آواز دینے لگے اسی حالت میں تھے کہ آنحضرت ﷺ کی طرف سے جواب میں آواز آئی لبیک لبیک میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں۔ حضرت عباس ؓ نے کہا اے بھتیجے تم نے اس رات گھر والوں کو پریشان کیا اور ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے تھکا دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں بیت المقدس سے واپس آرہا ہوں کہا اس رات میں، آپ ﷺ نے کہا ہاں، پوچھا خیر تو ہے آپ ﷺ نے فرمایا ہاں خیر ہے۔ اس حدیث پر نظر ڈالیے کہ دیگر صحابہ کرام کی طرح حضرت عائشہ ؓ بھی واقعہ معراج کی روایت فرما رہی ہیں اور اس روایت میں ام ہانی ؓ وغیرہ بھی ان کے ساتھ شریک ہیں کہ دونوں متفقہ طور پر روایت کرتی ہیں کہ اس شب میں آنحضرت ﷺ کا جسم مبارک گھر سے غائب اور مفقود تھا لہٰذا حضرت عائشہ ؓ کی طرف منسوب کردو روایت ما فقدت جسد رسول اللہ ﷺ کیسے صحیح ہوسکتی ہے علاوہ اس کے کہ وہ روایت ام ہانی ؓ کی روایت اور دیگر صحابہ کرام کی روایت کے مخالف اور معارض ہے خود حضرت عائشہ ؓ کی بھی ایک روایت کے صریح معارض اور مخالف ہے معلوم ہوا کہ اس قول کی نسبت ام ال مومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی طرف کسی طرح صحیح نہیں اس بارے میں سب سے زیادہ موثق ام ہانی ؓ کی روایت ہے کہ جن کے گھر سے اس سفر کا آغاز ہوا اور ام ہانی ؓ کے گھر واپسی ہوئی۔ شبے رخ تافتہ زیں دار فانی بخلوت در سرائے ام ہانی رسیدش جبریل از بت معمور براق بر سیر آورد از دور قوی پشت و گراں سیر و سبک خیز براندن دور بیں وقت شدن تیز اور بیہقی اور طبرانی اور بزار کی روایت میں ہے کہ صبح کے وقت ابوبکر صدیق ؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا طلبتک یا رسول اللہ البارحۃ فی مکانک یا رسول اللہ میں نے گزشتہ شب آپ ﷺ کو تلاش کیا آپ ﷺ کو آپ کے مکان میں نہ پایا۔ (شرح شفاء للعلامۃ القاری ص 408 ج 1) اور ایک روایت میں لفظ ہیں یا رسول اللہ، این کنت یا رسول اللہ فقد طلبتک ابوبکر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ آج رات آپ ﷺ کہاں تھے جہاں جہاں گمان اور خیال کیا جاسکتا تھا وہاں سب جگہ آپ ﷺ کو تلاش کرلیا مگر آپ ﷺ کو نہ پایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا رات جبرئیل امین (علیہ السلام) آئے تھے اور براق پر سوار کرکے مجھے بیت المقدس لے گئے تھے الیٰ آخرہ (دیکھو خصائص کبریٰ سیوطی ص 159 جلد 1) صدیق اکبر ؓ کی یہ روایت اس امر کی روشن دلیل تھی کہ آپ ﷺ کا یہ اسراء جسمانی تھا اور بحالت بیداری تھا اور امام طبری (رح) نے اپنی تفسیر میں حضرت عائشہ ؓ کی طرف حضرت معاویہ ؓ کا قول نقل کیا اور پھر اس کو رد کیا کہ یہ قول صحیح نہیں اس لئے کہ دلائل واضحہ اور احادیث متواترہ کے خلاف ہے بیشمار روایتوں میں بتواتر یہ امر منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ براق پر سوار ہو کر مکہ سے بیت المقدس گئے اور ظاہر ہے کہ سواری پر جسم ہی سوار ہوتا ہے نہ کہ روح اور یہ کہنا کہ براق پر سوار ہونا بھی خواب ہی میں تھا صریح آیات قرآنیہ اور احادیث متواترہ کے خلاف ہے اور صحابہ وتابعین کی تصریحات کے بالکل برعکس ہے لہٰذا یہ قول کسی طرح قابل قبول نہیں۔ (تفسیر ابن جریر طبری ص 14 جلد 15) اور کیا مشرکین مکہ کا اس واقعہ کو سن کو مذاق اڑانا اور تعجب سے سر پر ہاتھ رکھنا اور تالیاں بجانا اور بیت المقدس کی علامتیں پوچھنا کیا یہ سب خواب ہی میں تھا یا روحانی طور پر تھا مقصود اس واقعہ سے آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کو ثابت کرنا تھا اور یہ جب ہی ممکن ہے کہ یہ واقعہ بحالت بیداری اسی جسم عنصری کے ساتھ مانا جائے ورنہ محض روحانی عروج یا خواب نبوت و رسالت کی دلیل نہیں بن سکتا ایک شبہ اور اس کا ازالہ : معراج جسمانی کے بعض منکرین نے اسی صورت کی اس آیت یعنی وما جعلنا الرؤیا التی اویناک الا فتنۃ للناس سے استدلال کیا ہے کہ یہ واقعہ خواب کا تھا چونکہ یہ آیت اسی سورت کی ہے۔ اس لیے اس شبہ کا لفظی جواب انشاء اللہ اسی آیت کی تفسیر میں آجائے گا مختصر یہ کہ اس آیت میں رؤیا سے معراج کا خواب مراد نہیں بلکہ واقعہ حدیبیہ کے متعلق حضور پر نور ﷺ نے جو خواب دیکھا تھا وہ مراد ہے اور اگر بالفرض والتقدیر اس سے معراج ہی کا واقعہ مراد لیا جائے تو صحیح بخاری میں ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ آیت میں رؤیا سے مراد رؤیت چشم ہے خواب میں دیکھنا مراد نہیں یعنی آنحضرت ﷺ نے شب معراج میں جو دیکھا وہ بچشم سر دیکھا وہ خواب نہ تھا۔ خلاصہ کلام : یہ کہ معراج جسمانی بحالت بیداری، دلائل قطیعہ اور احادیث متواترہ اور اجماع صحابہ سے ثابت ہے اسراء کا جتنا حصہ قرآن سے ثابت ہے اس کا انکار تو صریح کفر ہے اور احادیث متواترہ کا انکار بھی کفر ہے اور اجماعی امور کا انکار قریب بکفر ہے اور غیر ثابت شدہ اقوال کی آڑ لے کر نصوص صریح اور واضحہ میں تاویل کرنا یہ الحاد اور زندقہ ہے ایسا شخص ظاہر میں مسلمان ہے اور اور درپردہ کافر ہے امام مالک فرماتے ہیں کہ ملحد اور زندیق منافق کے حکم میں ہے۔ (8) ام ہانی ؓ کی اسی حدیث میں ہے کہ جب آنحضرت پر نور ﷺ نے واپسی پر ام ہانی ؓ سے سفر بیت المقدس کا واقعہ بیان کرکے یہ فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے اس رات دیکھا ہے وہ قریش سے بیان کردوں ام ہانی ؓ کہتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کا دامن پکڑ لیا اور کہا خدا کے لئے آپ ﷺ یہ کیا کرتے ہیں وہ لوگ تو پہلے ہی سے آپ ﷺ کی تکذیب کرتے ہیں مجھے خوف ہے کہ یہ واقعہ سن کر آپ ﷺ پر حملہ نہ کر بیٹھیں۔ آنحضرت ﷺ نے جھٹکا دے کر دامن چھڑا لیا اور مجمع میں جاکر سارا واقعہ بیان کیا پس اگر یہ واقعہ خواب کا ہوتا تو ام ہانی ؓ اس کے بیان نہ کرنے پر اس قدر اصرار نہ کرتیں۔ (9) احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو یقین تھا کہ لوگ سن کر اس واقعہ کی تکذیب کریں گے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ خواب کا نہیں کیونکہ خواب میں اکثر عجیب و غریب واقعات دیکھے جاتے ہیں مگر کسی کو یہ فکر نہیں ہوتا کہ لوگ سن کر اس کی تکذیب کریں گے۔ آنحضرت ﷺ بجائے اس کے کہ واقعہ معراج سے شاداں اور فرحاں ہوتے بیان کرنے سے پہلے ہی رنجیدہ اور غمگین تھے اس وجہ سے کہ کفار اس واقعہ کو خلاف عقل سمجھ کر میری تکذیب کریں گے اور میرا مذاق اڑائیں گے بظاہر باوجود اس رنجیدگی اور پریشانی کے آپ ﷺ نے یہ واقعہ سب کے سامنے اس لیے بیان کیا کہ آپ ﷺ اس واقعہ کے بیان کرنے پر من جناب اللہ مامور تھے۔ ولی کو اپنی کرامت کا چھپانا جائز ہے مگر نبی پر اپنے معجزہ اور کرامت کا اظہار فرض ہے تاکہ اس کی نبوت و رسالت ثابت ہو۔ فائدہ : اس وقت ہم منکرین معراج کا ایک اعتراض نقل کرکے جواب دینا چاہتے ہیں تاکہ قارئین کرام ملاحدہ اور زنادقہ کے دام تزویر میں آکر اسلام کے ایک متفق علیہ مسئلہ کا انکار نہ کریں۔ اعتراض : ایک رات میں مکہ سے بیت المقدس تک اور پھر وہاں سے سبع سمٰوٰت کا سفر طے کرنا اور صبح سے پہلے مکہ واپس آجانا عقلا محال ہے جواب : ایک رات میں اتنا طویل سفر طے کرلینا عقلا کوئی محال نہیں سرعت حرکت کی کوئی حد معین نہیں ہوائی جہازوں کی پرواز سامنے ہے۔ اور نہ معلوم آئندہ کس حد تک ترقی کر جائے۔ قرآن کریم میں ہے کہ ہوا سلیمان (علیہ السلام) کے لیے مسخر تھی تخت سلیمانی کو وقت قلیل میں ایک مہینہ کی مسافت پر پہنچا دیتی تھی۔ غدوھا شھر ورواحھا شھر قرآن کریم سے ثابت ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ میں ایک شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے کتاب کا علم عطا فرمایا تھا ایک پلک جھپکنے میں بلقیس کا تخت یمن سے لاکر شام میں سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے رکھ دیا۔ قال الذی عندہ علم من الکتب انا اتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک فلما راہ مستقرا عندہ قال ھذا من فضل ربی۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کا زندہ آسمان سے اترا جانا قرآن کریم سے ثابت ہے اور علیٰ ھذا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا رفع الی السماء اور نزول من السماء قرآن اور حدیث اور اجماع صحابہ وتابعین سے ثابت ہے اور چودہ سو سال سے تمام علماء ربانیین کا یہی عقیدہ چلا آرہا ہے معلوم ہوا کہ جسم عنصری کا آسمان پر جانا عقلاً و نقلاً بالاتفاق ممکن بلکہ واقع ہے اور اس زمانہ میں ہوائی جہازوں کی برق رفتاری سب کے سامنے ہے پس جب کہ اس زمانہ میں خدا کی مخلوق کو یہ قدرت ہے کہ صدہا اور ہزار ہا میل فی گھنٹہ کی رفتار کی سواری ایجاد کرسکے تو کیا خداوند عالم کو یہ قدرت نہیں کہ وہ اپنے کسی برگزیدہ کے لیے براق جیسی برق رفتاری پیدا کر دے کہ جو اس کو چند گھنٹہ میں بیت المقدس کا سفر طے کرا دے معاذ اللہ کیا خدائی قدرت یورپ کے کارخانوں کی قدرت سے بھی کم ہے۔ پس آنحضرت ﷺ کا اسی جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر عروج اور پھر اس جسم عنصری کے ساتھ نزول ممکن ہے اسی طرح سمجھو کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا رفع الی السماء اور اخیر زمانہ میں نزول من السماء بھی ممکن ہے اور جس طرح آنحضرت ﷺ کا یہ عروج اور یہ نزول جسمانی تھا اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا عروج الی السماء بھی جسمانی تھا اور قیامت کے قریب ان کا نزول من السماء بھی جسمانی ہوگا اور یہی تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے لہٰذا قادیان کے کسی دھقان کا یہ کہنا کہ کسی جسم عنصری کا زندہ آسمان پر جانا اور زندہ آسمان سے اترنا محال ہے اہل عقل کے نزدیک مجنونانہ ہذیان سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ معراج آسمانی اور مرزائے آنجہانی معراج کا مسئلہ اسلام میں ایک عظیم الشان مسئلہ ہے جو آیات قرآنیہ اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے اور آنحضرت ﷺ کے عظیم ترین معجزات اور آپ ﷺ کے دلائل نبوت اور براہین رسالت سے ہے جس پر ایمان لانا واجب ہے اور امت محمدیہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ اسراء و معراج کی عزت و کرامت سوائے ہمارے نبی اکرم ﷺ کے کسی نبی کو یہ فضیلت حاصل نہیں مگر مرزائے قادیان اپنی خود غرضی کی وجہ سے اس معجزہ سے انکار کرتا ہے۔ اور طرح طرح سے معراج جسمانی کے ماننے سے پہلو تہی کرتا ہے مرزائے قادیان کو ڈر یہ ہے کہ اگر معراج جسمانی شابت ہوجائے تو عیسیٰ (علیہ السلام) کا زندہ آسمان پر جانا ثابت ہوجائے گا اور پھر جب انکا رفع الی السماء ثابت ہوجائے گا تو ان کا نزول من السماء یعنی آسمان سے اترنا بھی ثابت ہوجائے گا کیونکہ رفع جسمانی اور نزول جسمانی دونوں ہم شکل ہیں اس لیے مرزائے قادیان کبھی تو معراج جسمانی کا انکار کردیتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک جسم عنصری کا آسمان پر جانا عقلا و نقلا محال ہے کوئی زندہ شخص آسمان پر جا ہی نہیں سکتا اور کبھی کہتا ہے کہ واقعہ معراج بیداری کا واقعہ نہ تھا بلکہ ایک خواب تھا اور کبھی کہتا ہے کہ واقعہ معراج ایک کشف تھا۔ آنحضرت ﷺ شب معراج میں مکہ سے باہر نہیں گئے بستر پر ہی لیٹے لیٹے بیت المقدس وغیرہ کا کشف ہوگیا۔ چناچہ مرازا ازالۃ الاوہام ص 47 میں لکھتا ہے کہ یہ معراج اس جسم کثیف کے ساتھ نہ تھا بلکہ وہ اعلیٰ درجہ کا کشف تھا اس کشف بیداری سے یہ ھالت زیادہ اصفیٰ اور اجلیٰ ہوتی ہے اور اس قسم کے کشفوں میں مؤلف خود صاحب تجربہ ہے “ (انتہٰی) ناظرین کرام اس عبارت کو غور سے پڑھ لیں اس میں اولا تو معراج جسمانی کا انکار کیا اور ثانیا اس کو ایک قسم کا کشف بنایا اور ثالثا سرور عالم ﷺ کی ہمسری بلکہ برتری کا دعویٰ کیا کہ واقعہ معراج اگر حضور پر نور ﷺ کو عمر میں ایک مرتبہ پیش آیا تو قادیان کے اس دہقان کو اس کا تجربہ ہے کہ بار ہا اس کو اس قسم کا کشف ہوچکا ہے مرزا کے نزدیک اگر یہ واقعہ خواب کی حالت میں ہوا تھا یا اعلیٰ درجہ کا کشف تھا تو جو واقعات احادیث صحیحہ اور صریحہ سے ثابت ہیں وہ سب کے سب کیا خواب تھے یا سب کشف و مکاشفے تھے واقعہ معراج سن کر مشرکین مکہ کا تعجب سے سروں پر ہاتھ رکھ لینا اور تالیاں بجانا اور بیت المقدس کی علامتیں دریافت کرنا وغیرہ وغیرہ کیا یہ سب باتیں کشف اور خواب کی آزمائش کے لیے تھیں یا واقعہ بیداری سمجھ کو یہ باتیں کی جا رہی تھیں۔ معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کا دعویٰ معراج جسمانی کا تھا نہ کہ روحانی اور منافی اور کشفی کا تھا اس لیے کہ روحانی یا منامی یا کشفی چیز کا کون انکار کرسکتا ہے اور نہ کوئی اس پر اعتراض کرسکتا ہے اور نہ اس کے جواب کی کوئی حاجت ہوتی ہے نیز کیا اس قسم کا کشف مرزا صاحب کے علاوہ کسی اور کو بھی ہوسکتا ہے یا صرف مرزا صاحب کے ساتھ مخصوص ہے۔ مرزا ازالۃ الاوہام میں لکھتا ہے کہ باوجودیکہ آنحضرت ﷺ کی رفع جسمی کے بارے میں کہ وہ جسم سمیت شب معراج آسمان کی طرف اٹھائے گئے تھے تقریبا تمام صحابہ کا یہی اعتقاد تھا لیکن پھر بھی حضرت عائشہ ؓ اس بات کو تسلیم نہیں کرتیں اور کہتی ہیں کہ رؤیائے صالحہ تھی (انتہٰی) ۔ اس تحریر سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ تقریبا کل صحابہ معراج جسمانی کے قائل تھے دوسرے یہ کہ عائشہ صدیقہ ؓ اس کی منکر تھیں۔ اول امر کے متعلق یہ گزارش ہے کہ کتب رجال وغیرہ سے یہ ثابت ہے کہ صحابہ کرام ایک لاکھ سے زیادہ تھے اور یہ تمام صحابہ معراج جسمانی کا عقیدہ رکھتے تھے اور یہ امر کسی ادنیٰ مسلمان پر مخفی نہیں کہ جس بات پر ایک لاکھ اعتقاد رکھتے ہوں اس کے موافق اعتقاد رکھنا مسلمان پر فرض ہے اور آیت شریفہ ویتبع غیر سبیل ال مومنین سے ان لوگوں کے لیے وعید ثابت ہے کہ جو مومنین اولین کے طریقہ سے انحراف کریں رہا امر دوم کہ عائشہ صدیقہ ؓ معراج جسمانی کی منکر تھیں سو وہ بالکل غلط ہے جیسا کہ تفصیل کے ساتھ پہلے گزر چکا ہے اور یہ بتلا چکے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ کی طرف ما فقد جسمہ ﷺ روایت منسوب کی جاتی ہے وہ قطعا موضوع ہے اور اگر بالفرض یہ روایت صحیح بھی ہو تو صرف ایک صحابی کا قول ہزار صحابہ کرام کے اجماع کے مقابلہ میں کیسے حجت ہوسکتا ہے۔ اجماع صحابہ کے بعد کسی ایک ایسے غیر صحیح اور غیر ثابت قول سے استدلال کرنا جو مجمل اور مؤول ہو الحاد اور زندقہ ہے۔ بہرحال مرزائے قادیان واقعہ معراج کو محض ایک مکاشفہ کہتے ہیں کہ گھر میں بیٹھے ہی بیٹھے بہت المقدس اور آسمانوں اور سدرۃ المنتہی کشف سے دیکھ رہے تھے۔ یہ انکار کا ایک نرالا طریقہ ہے کہ لفظ تو معراج کا باقی رہے مگر معنی اس کے بالکل بدل دئیے جائیں۔ مرزا ازالۃ الادہام کے صفحہ نمبر 48 میں لکھتا ہے۔ ” سیر معراج اس جسم کثیف کے ساتھ نہیں تھا بلکہ وہ اعلیٰ درجہ کا کشف تھا میں اس کا نام خواب ہرگز نہیں رکھتا اور نہ کشف کے ادنیٰ درجوں میں اس کو سمجھتا ہوں بلکہ یہ کشف کا بزرگ ترین مقام ہے جو درحقیقت بیداری بلکہ اس کشف بیداری سے یہ حالت زیادہ اصفیٰ اور اعلیٰ ہوتی ہے اور اس قسم کے کشفوں میں مؤلف خود صاحب تجربہ ہے “۔ سبحان اللہ مسیلمہ قادیان کی اس جسارت اور وقاحت کو تو دیکھئے کہ اپنے لے اعلیٰ درجوں کے کشفوں کے تجربہ کا دعویٰ کرتا ہے حالانکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہر کس و ناکس اس قسم کا دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں نے بھی گھر بیٹھے بیٹھے کشفی طور پر بیت المقدس اور سبع سموات کی سیر کرلی ہے کشف تو ایک قسم کی معنوی چیز ہے جو دوسرے کو محسوس نہیں ہوتی اور نہ اس کو نظر آتی ہے۔ البتہ آثار اور علامت سے اس کا ثبوت ہوسکتا ہے مگر مرزا صاحب پر جب نظر ڈالتے ہیں تو آثار تکذیب ہی کے نظر آتے ہیں اس لیے کہ مرزا صاحب کی بہت سء پیشن گوئیاں جھوٹی نکلیں اور ظاہر ہے کہ پیشین گوئیوں کا دار و مدار کشف پر ہے اور علماء کرام نے مرزا کی پیشین گوئیوں کے جھوٹ اور غلط ہونے کے متعلق مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ قصہ اسراء و معراج بمناسبت مقام، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اجمالی طور پر قصہ اسراء و معراج نہایت اختصار کے ساتھ ہدیہ ناظرین کردیا جائے تاکہ اجمالی طور پر از اول تا آخر قصہ کی ترتیب و قوعی معلوم ہوجائے باقی تفصیل کے لیے کتب سیرت دیکھیں اور بقدر ضرورت اس ناچیز نے اپنی تالیف سیرۃ المصطفیٰ حصہ اول میں واقعہ معراج کو مع اسرار و حکم لکھ دیا وہاں دیکھ لیا جائے۔ فاقول وباللہ التوفیق۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہجرت سے ایک سال پہلے یا دو سال یا پانچ سال پہلے یہ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ آنحضرت ﷺ مکہ مکرمہ میں بعد نماز عشاء ام ہانی ؓ کے مکان میں سو رہے تھے کہ جبرئیل امین (علیہ السلام) فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ آپ ﷺ کے پاس آئے اور ام ہانی ؓ کے مکان سے مسجد حرام میں لے گئے وہاں سینہ مبارک چاک کیا اور قلب مبارک کو زمزم کے پانی سے دھوکر اپنے مقام پر رکھ دیا اور پھر آپ ﷺ کو براق پر سوار کرکے بیت المقدس لے گئے راستہ میں کچھ واقعات پیش آئے جن کا ذکر کتب سیرت میں ہے۔ تھوڑی دیر میں آپ ﷺ بیت المقدس پہنچ گئے۔ آپ ﷺ براق سے اترے جبرئیل امین (علیہ السلام) نے براق کو ایک حلقہ میں باندھ دیا مسجد اقصیٰ میں انبیاء کرام علیہم الصلوٰہ والسلام آپ ﷺ کے انتظار میں جمع تھے اور آسمان سے کچھ فرشتے بھی نازل ہوئے تھے اور سب صف بستہ تھے۔ جبرئیل امین (علیہ السلام) نے حضور پر نور ﷺ کو امامت کے لیے آگے بڑھایا۔ آپ ﷺ نے ان سب کی امامت فرمائی (زرقانی ص 80 جلد 6) ۔ اور انبیاء کرام اور ملائکہ حاضرین نے آپ ﷺ کی اقتداء کی پھر آپ ﷺ کے لیے ایک معراج (سیڑھی) لائی گئی ابن سعد (رح) کی روایت میں ہے کہ یہ معراج (سیڑھی) جنت الفردوس سے لائی گئی (زرقانی ص 55) ۔ پھر اس معراج (سیڑھی) کے ذریعے آنحضرت ﷺ اور جبریل امین (علیہ السلام) دونوں آسمان پر پہنچے اور آسمان کا دروازہ کھوایا اور آسمان پر عروج اسی معراج (سیڑھی) کے ذریعہ ہوا اور براق کو بیت المقدس میں چھوڑ گئے پہلے آسمان میں حضرت آدم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی۔ پھر دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی جہاں ان کے ساتھ ان کے خالہ زاد بھائی حضرت یحییٰ (علیہ السلام) بھی تھے۔ پھر تیسرے آسمان میں حضرت یوسف (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی۔ پھر چوتھے آسمان میں حضرت ادریس (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی پھر پانچویں آسمان میں حضرت ہارون (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی۔ پھر چھٹے آسمان میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی۔ پھر ساتویں آسمان میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی بعد ازاں آپ ﷺ بیت معمور میں داخل ہوئے جو قبلہ ملائکہ ہے اور ستر ہزار فرشتے روزانہ اس کا طواف کرتے ہیں اور پھر قیامت تک عود نہیں کرتے اور یہ بیت معمور جس میں آپ ﷺ نے نماز پڑھی۔ ساتویں آسمان میں ایک مسجد ہے جو عرش کے نیچے ہے اور خانہ کعبہ کی محاذات میں ہے بالفرض اگر بیت معمور اپنی جگہ سے گرے تو خانہ کر بہ پر آکر گرے اس کا حکم وہی ہے جو خانہ کعبہ کا ہے (روقانی ص 80 جلد 6) پھر جبرئیل امین (علیہ السلام) آنحضرت ﷺ کو لے کر سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے۔ سدرۃ المنتہیٰ ایک درخت ہے جس کو انوار خداوندی ڈھانپے ہوئے ہیں۔ اور ہر طرف سے فرشتے اس کو گھیرے ہوئے ہیں یہ مقام اوپر سے اترنے والوں اور نیچے سے چڑھنے والوں کا منتہیٰ ہے اور کراما کاتبین کا بھی منتہیٰ ہے کراما کاتبین اس سے اوپر نہیں جاتے اور یہی مقام جبرئیل امین (علیہ السلام) کا مستقر اور ٹھکانا ہے۔ اسی جگہ آنحضرت ﷺ نے جبرئیل امین (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا چھ سو پر تھے (زرقانی ص 76 جلد 6) اور سدرۃ المنتہیٰ ہی کے قریب آپ نے جنت کا مشاہدہ فرمایا اور آپ ﷺ جنت میں داخل ہوئے اور وہ ان کی سیر کی۔ وہاں دیکھا کہ گنبد موتی کے ہیں اور مٹی مشک کی ہے حق جل شانہ کے اس ارشاد ولقد راہ نزلۃ اخری عند سدرۃ المنتہیٰ عندھا جنۃ الماوی اذ یغشی السدرہ ما یغشی سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت سدرۃ المنتہیٰ کے قریب ہے اور اسی مقام میں آپ ﷺ نے نہر کوثر کو دیکھا جس کا اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ سے وعدہ کیا ہے (زرقانی ص 75 جلد 6) اور وہ چار نہریں جن کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے فیہا انھر من ماء غیر اسن وانھر من لبن لم یتغیر طعمہ وانھر من خمر لذۃ للشاربین وانھر من عسل مصفی۔ یہ چاروں نہریں سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ سے نکلتی ہیں۔ آپ ﷺ نے اس مقام پر ان کا معائنہ فرمایا (زرقانی ص 79 جلد 6) بعد ازاں آپ ﷺ کو جہنم دکھلائی گئی جس میں آپ ﷺ نے اللہ کے قہر اور غضب کا مشاہدہ کیا پھر بند کردی گئی بعد ازاں آپ ﷺ کے لیے ایک سبز رفرف (جھولایا تخت) لایا گیا آپ اس پر بیٹھے اور جبرئیل امین (علیہ السلام) نے آپ ﷺ کو اس فرشتہ کے سپرد کیا جو رفرف کے ساتھ آیا تھا۔ آپ ﷺ نے برئیل امین (علیہ السلام) سے ساتھ چلنے کی درخواست کی جبرئیل امین (علیہ السلام) نے کہا مجھے گے جانے کی قدرت نہیں اگر ایک قدم بھی آگے بڑھوں تو جل جاؤں ہم میں سے ہر ایک کے لیے ایک مقام معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اپنی آیات دکھلانے کے لیے بلایا ہے (دیکھو زرقانی ص 95 جلد 6) پس آپ ﷺ نے جبرئیل امین (علیہ السلام) کو الوداع کہا اور رفرف میں بیٹھ کر اس کے فرشتے کے ہمراہ روانہ ہوئے یہاں تک کہ آپ ﷺ ایک مستوی (بلند جگہ) پر جہاں آپ صریف الاقدلام سنتے تھے یعنی ان قلموں کی کتابت کی آواز سنتے جو احکام الٰہیہ اور تقادیر ربانیہ کی کتابت کر رہے تھے۔ آنحضرت ﷺ اسی رفرف پر جا رہے تھے حضور پر نور ﷺ فرماتے ہیں کہ اسی اثناء میں یکایک ایک نورانی ابر نمودار ہوا جس نے مجھے اپنے اندر لے لیا اور میں تنہا رہ گیا اور وہ فرشتہ جو رفرف کے ساتھ تھا وہ پیچھے رہ گیا اور اس اثناء میں فرشتوں کی جو آوازیں سنائی دیتی تھیں وہ سب منقطع ہوگئیں اس طرح میں بارگاہ قدس اور مقام قرب میں عرش کے قریب پہنچا۔ کما قال تعالیٰ ثم دنا فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی فاوحی الی عبدہ ما اوحی اور مقام دنو اور تدلی میں یعنی مقام قرب میں حق تعالیٰ نے مجھ سے کلام فرمایا اور پچاس نمازیں مجھ پر فرض کیں بعد ازاں میں بارگاہ خداوندی سے واپس ہوا واپسی میں موسیٰ (علیہ السلام) کے مشورہ سے پھر بارگاہ خداوندی میں واپس گیا اور تخفیف کی درخواست کی جو منظور ہوئی اس طرح یہ دس معراجیں ہوئیں سات معراجیں تو سات آسمانوں تک ہوئیں اور آٹھویں معراج سدرۃ المنتہیٰ تک ہوئی اور نویں معراج مقام صریف الاقلام تک ہوئی اور دسویں معراج مقام دنی فتدلی تک ہوئی یعنی مقام قرب تک ہوئی جہاں آپ ﷺ لقاء خداوندی اور کلام خداوندی سے مشرف ہوئے۔ بعد ازاں آسمانوں سے بیت المقدس واپسی ہوئی اور حسب سابق آپ ﷺ براق پر سوار ہو کر صبح سے پہلے مکہ معظمہ پہنچ گئے اور صبح کی نماز مکہ معظمہ میں پڑھی اور صبح کی نماز کے بعد قریش کو اپنے سفر بیت المقدس اور عروج آسمانی کی خبر دی کسی نے مانا اور کسی نے نہ مانا۔
Top