Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 13
وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓئِرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖ١ؕ وَ نُخْرِجُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا
وَ : اور كُلَّ اِنْسَانٍ : ہر انسان اَلْزَمْنٰهُ : اس کو لگا دی (لٹکا دی) طٰٓئِرَهٗ : اس کی قسمت فِيْ عُنُقِهٖ : اس کی گردن میں وَنُخْرِجُ : اور ہم نکالیں گے لَهٗ : اس کے لیے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت كِتٰبًا : ایک کتاب يَّلْقٰىهُ : اور اسے پائے گا مَنْشُوْرًا : کھلا ہوا
اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو (بصورت کتاب) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے اور قیامت کے روز (وہ) کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا
بیان سعادت و شقاوت و ہدایت و ضلالت وطالبین دنیا و طالبین آخرت قال اللہ تعالیٰ : وکل انسان الزمنہ طئرہ فی عنقہ .... الیٰ .... فتقعد مذموما مخذولا۔ (ربط) گزشتہ آیت میں یہ بتلایا کہ لیل و نہار اس کی قدرت کا کرشمہ ہیں اب اس آیت میں یہ بتلاتے ہیں کہ اسی طرح سمجھ لو کہ سعادت و شقاوت اور ہدایت و ضلالت سب اسی کی قدرت کے کرشمے ہیں جس طرح ظاہری نور اور ظلمت اس کے اختیار میں ہے اسی طرح باطنی نور اور ظلمت بھی اسی کے اختیار میں ہے اور سب مقدر ہوچکی ہے جن کا ظہور قیامت کے دن ہوگا پھر یہ بتلایا کہ جنہوں نے انبیاء و رسل کا مقابلہ کیا وہ ہلاک اور برباد ہوئے لہٰذا لوگوں کو چاہئے کہ ان نستیوں کو دیکھ کر جن پر اللہ کا عذاب نازل ہوا عبرت پکڑیں۔ بعد ازاں یہ بتلایا کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں ایک طالب دنیا اور ایک طالب آخرت پھر اس تمام مضمون کو لا تجعل مع اللہ الہا اخر فتقعد مذموما فخذولا۔ پر ختم فرمایا تاکہ معلوم ہو کہ ذلت و خواری کا سرچشمہ کفر ہے جس نے خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا وہ ذلیل و خوار ہوا چناچہ فرماتے ہیں اور ہر آدمی خواہ وہ مومن ہو یا کافر اس کی قیمت اس کی گردن میں لٹکا دی ہے اور چمٹا دی ہے قسمت کا لکھا ہوا ٹلتا نہیں آدمی جہاں آتا ہے وہیں قسمت اور تقدیر ساتھ ہوتی ہے۔ ” طائر “ اصل میں پرندہ کو کہتے ہیں اور محاورۃ عرب میں طائر کا لفظ بطور استعارہ بخت اور نصیبہ کیلئے استعمال ہوتا ہے اور اسی محاورہ کے مطابق آیت میں قسمت کے معنی مراد ہیں گویا کہ قسمت ایک پرندہ ہے جو آشیانہ ازل سے اڑ کر اس پر آبیٹھا ہے اور اس کی گردن میں کسی مضبوط تار سے باندھ دیا گیا ہے انسان جب تک پردہ عدم میں رہا بخت اس کا منتظر رہا پس جب انسان نے اپنا سرعدم سے باہر نکالا تو یہ پرند بخت اڑ کر اس کی گردن سے چمٹ گیا زندگی میں اور قبر میں اس کے گلے میں چمٹا اور لٹکا رہے گا۔ حتیٰ کہ جب قبر سے اٹھے گا تو یہ طوق اس کی گردن میں ہوگا دنیا کا طریقہ ہے کہ جس کی گردن میں جو چیز باندھ دی جاتی ہے وہ اس شخص کے لئے لازم و ملزوم بن جاتی ہے جیسے کہتے ہیں کہ قرض کا طوق میری گردن میں ہے اسی طرح سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے جو چیز مقدر کردی ہے وہ اس کو اڑکر پہنچے گی عرب کا طریقہ یہ تھا کہ کسی کام کا نیک و بد انجام معلوم کرنے کے لیے پرندہ اڑاتے اگر دائیں جانب سے اڑتا تو سمجھتے کہ خیر ہے اور اگر بائیں جانب سے اڑتا تو سمجھتے شر ہے اسی طرح سمجھو کہ بندہ کی قسمت یعنی سعادت اور شقاوت اور مبارک اور شوم بمنزلہ ایک پرندہ کے ہے جو اس کی گردن میں ڈال دئیے گئے ہیں۔ انسان اس سے تجاوز نہیں کرسکتا بظاہر یہی وجہ ہے کہ انسان پر دو فرشتے مقرر ہیں ایک دائیں جانب جو نیکیاں لکھتا ہے اور ایک بائیں جانب جو برائیاں لکھتا ہے۔ عن الیمین وعن الشمال قعید اور قیامت کے دن مومن کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں اور کافر کا بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور پھر قیامت کے دن اسی قسمت کو جو دنیا میں گلے کا ہار تھی ہر انسان کے لئے ایک کتاب بنا کر نکالیں گے۔ یعنی اس گلے کے ہار کو نامہ اعمال کی شکل میں ظاہر کریں گے تاکہ انسان اپنی قسمت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے وہ ہر انسان اس لکھی ہوئی کتاب کو اپنے ہاتھ میں کھلا ہوا اپنے سامنے دیکھے گا یہ کھلی ہوئی کتاب اس کا اعمالنامہ ہوگی جس میں اس کے تمام نیک و بد احوال مندرج ہوں گے اور یہ اس کی وہی قسمت ہوگی جو ابتداء ولادت سے اس کی گردن میں لٹکا دی گئی تھی اور اس سے کہا جائے گا کہ لے اپنے اعمالنامہ کو خود پڑھ لے ہر شخص اپنے اعمال نامہ کو خود پڑھ لے گا خواہ وہ دنیا میں پڑھا لکھا تھا یا نہیں تھا اور کہا جائے گا کہ آج اپنا حساب لینے کے لیے تو خود آپ ہی کافر ہے تو خود دیکھ لے کہ اس میں کیا لکھا ہے اور خود ہی فیصلہ کرلے کہ تو کس جزاء کا مستحق ہے اللہ نے تجھ پر حجت پوری کردی آج تجھ پر کوئی ظلم نہ ہوگا تمام عمر کے اعمال اس میں درج ہیں دیکھ لے اور پڑھ لے ینبوءا الانسان یؤمئذ بما قدم واخر اس وقت ہر ایک کو اپنے اعمال کا حسن و قبح آنکھوں سے نظر آجائے گا لہٰذا جو کوئی راہ ہدایت پر آتا ہے تو وہ اپنے ہی فائدے کے لیے آتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو وہ اپنی ہی تباہی اور بربادی پر گمراہ ہوتا ہے یعنی جو نیک عمل کرے گا اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا جو گناہ کا کام کرے گا اس کا ضرر اسی کو پہنچے گا کسی کا عمل دوسرے کے لیے نفع اور نقصان کا باعث نہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ کوئی گنہگار نفس جو گناہوں کے بوجھ سے بوجھل ہو وہ دوسرے گنہگار نفس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ مغیرہ کافروں سے کہتا تھا کہ تم میری متابعت کرو میں تمہارے گناہوں کا بوجھ اٹھا لوں گا۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس دن ہر شخص اپنا ہی بوجھ اٹھائے گا کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور جزاء سزا کے متعلق ہمارا قانون یہ ہے کہ ہم کسی امت کا عذاب دینے والے نہیں جب تک ہم ان کی ہدایت کیلئے کسی رسول کو نہیں بھیج دئیے کہ وہ اس قوم کو سیدھی راہ دکھلا دے خواہ بلاواسطہ یا بواسطہ اپنے نائبین کے یعنی علماء اور مبلغین کے واسطے سے ان کو اللہ کے احکام پہنچ جائیں اور ان پر اللہ کی حجت پوری ہوجائے۔ جب تک مخلوق کو اللہ کے احکام نہ پہنچ جائیں اس وقت تک ہم ان کو سزا نہیں دیتے مطلب یہ ہے کہ اتمام حجت سے پہلے کوئی عذاب نازل نہیں کرتے البتہ دعوت اور تبلیغ کے بعد جب مصیبت اور فسق و فجور اور غفلت حد سے گزر جائے تب اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل کرتا ہے اور جب ہم ارادہ کرتے ہیں کہ دنیا میں کسی قوم کو پاکیزہ زندگی عطا کریں اور آخرت میں اس کو عزت اور عروج کا مقام عطا کریں تو ان کے دلوں میں اطاعت اور فرمانبرداری اور رسولوں کی پیروی کا داعیہ ڈال دیتے ہیں اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس بستی کے دولت مندوں اور عیش پرستوں کو جو نفس امارہ کے اشاروں پر چلتے ہیں تکوینی اور تقدیری طور پر فسق و فجور کا حکم دیتے ہیں۔ یعنی ان کے دلوں میں فسق و فجور کا الہام اور القاء کرتے ہیں کما قال تعالیٰ فالھمھما فجورھا وتقوھا پھر وہ دل کھول کر فسق و فجور کرتے ہیں یعنی شریعت کی حدود اور قیود کو توڑ ڈالتے ہیں اور نفس امارہ کے اشاروں پر دوڑنے لگتے ہیں اس طرح ان کی طبیعت میں جو فسق و فجور کا مادہ پوشیدہ تھا وہ کھل جاتا ہے اور ان کا باطنی خبث اندر سے نکل کر باہر آجاتا ہے۔ پس جب ان کے کرم کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تو ان پر اللہ کی حجت قائم اور ثابت ہوجاتی ہے اور فرد جرم ان پر عائد ہوجاتی ہے اور شقاوت ازلیہ جواب تک مستور تھی وہ طاہر اور نمایاں ہوجاتی ہے تو پھر ہم اس بستی کو تباہ و برباد کر ڈالتے ہیں اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں خوب اچھی طرح تہ وبالا کرنا کہ تباہی اور بربادی میں کوئی کسر باقی نہ رہے مطلب یہ ہے کہ آیت ھذا یعنی اذا اردنا ان نہلک قریۃ میں ارادہ سے ارادہ ازلیہ مراد ہے اور امرنا مترفیہا میں امر سے حکم تکوینی اور تقدیری مراد ہے بیشک اللہ تعالیٰ تشریعی طور پر کسی کو فحشاء اور منکر کا حکم نہیں دیتے مگر تکوینی اور تقدیری طور پر سعادت اور شقاوت، ہدایت اور ضلالت سب اس کے حکم سے ہے کوئی خیر اور شر اس کی تقدیر وتکوین اور اس کے ارادہ اور مشیت سے باہر نہیں اور بعض علماء تفسیر بلکہ بہت سے علماء اس طرف گئے ہیں کہ مطلب آیت کا اس طرح ہے کہ جب ہم کسی بستی کو کفر اور معصیت کی وجہ سے ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو ہلاکت سے پہلے دہاں کے دولت مندوں کو پیغمبروں کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں پھر جب وہ لوگ پیغمبروں کا حکم نہیں مانتے اور کھلم کھلا فسق و فجور پر اتر آتے ہیں تو پھر اس پوری بستی کو ویران کر ڈالتے ہیں اور اسی قانون کے مطابق ہم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد کتنی ہی قومیں اور امتیں ہلاک کردیں مطلب یہ ہے کہ پچھلے لوگ پیغمبروں کی نافرمانی کے بدولت عذاب کا مزہ چکھ چکے ہیں منکرین اور مکذبین کو چاہئے کہ ان سے عبرت پکڑیں اور اے نبی ﷺ تیرا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں سے کافی خبردار ہے اور ظاہر و باطن کو دیکھنے والا ہے اسے خوب معلوم ہے کہ کون طالب دنیا ہے اور کون طالب آخرت ہے ؟ سب کے دل اس کی نظروں کے سامنے ہیں کسی کی نیت اور دل کا حال اس سے پوشیدہ نہیں اس لیے اب آئندہ آیت میں طالبان دنیا اور طالبان آخرت کا حال اور مال ذکر فرماتے ہیں کہ کس کے دل میں دنیا کی طلب ہے اور کس کے دل میں آخرت کی طلب ہے۔ ذکر طالبان دنیا و طالبان آخرت جو شخص ایسا خسیس اور پست ہمت ہوجائے کہ اس دنیائے فانی کی عیش و عشرت ہی اس کی مراد اور تمنا بن جائے اور اپنی ہمت کو اس دار عاجلہ (دنیا) پر مقصود کر دے اور آخرت کو اعتقادا یا عملا پس پشت ڈال دے تو ہم اس کو دار عاجلہ (دنیا) ہی میں جلد ہی اس کی مراد میں سے کچھ دیدیں گے جتنا چاہیں گے اور یہ سب کے لئے نہیں بلکہ جس کے لئے چاہیں گے اس کو دیں گے یعنی یہ ضروری نہیں کہ ہر عاشق دنیا کو اس کی تمنا اور آرزو کے مطابق مل جائے بلکہ جس کو ہم اپنی مرضی کے مطابق دینا چاہیں گے اور جس قدر چاہیں گے اور جس کے لیے چاہیں گے اتنی ہی مقدار ہم اس کو دنیا میں دیدیں گے کوئی طالب دنیا اس خیال میں نہ رہے کہ جو مانگے گا وہ اس کو مل جائے گا خوب سمجھ لے کہ دنیا کا عاشق بن جا نے سے کچھ زیادہ نہیں ملے گا بلکہ اسی قدر ملے گا جس قدر اللہ تعالیٰ نے اس کے نصیب میں لکھ دیا ہے اس کو اتنا ہی ملے گا نہ کم نہ زیادہ غرض یہ کہ طالب دنیا کو دنیا میں ہم حسب مشیت کچھ دے دیتے ہیں پھر ہم نے آخرت میں اس کے لیے دوزخ کو قرار گار بنا دیا ہے داخل ہوگا وہ اس میں درآنحالیکہ وہ بدحال اور راندہ رحمت ہوگا مذموما کا مطلب یہ ہے کہ ذلت اور خواری کے ساتھ بری باتیں سن کر اور بےآبرو ہو کر دوزخ میں داخل ہوگا اور مدحورا کے معنی یہ ہیں کہ راندہ درگاہ خداوندی ہوگا یعنی اس کی رحمت سے نکلا ہوا اور دور افتادہ ہوگا مطلب یہ ہے کہ طالب دنیا کو ہم دنیا ہی میں کچھ دیدیں گے مگر اتنا ہی دیں گے جتنا ہم چاہیں گے اور اسی کو دیں گے جس کو ہم دینا چاہیں گے جتنا ہم نے اس کے لیے مقدر کردیا ہے اتنا ہی اس کو مل جائے گا اس سے زیادہ نہیں مل سکتا پھر اس کے بعد وہ آخرت میں اللہ کی رحمت سے دور رہے گا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اس نے آخرت کو طلب ہی نہ کیا تھا اس لیے وہ آخرت کے درجات سے تو بالکلیہ محروم رہے گا اور دنیا میں بھی اس کو پوری مراد حاصل نہ ہوگی بلکہ کچھ دیدیا جائے گا اور جو شخص علو ہمت سے آخرت کا طلب گار بن جائے رہتا تو دینا میں ہے مگر منزل مقصود آخرت کو بنائے ہوئے ہے اور دن رات آخرت ہی کے لیے دوڑ رہا ہے جیسا کہ چاہئے دوڑنا یعنی جیسا آخرت کے لائق اور مناسب ہے اور جیسا کہ اس کا حق ہے اور جو اعمال بہشت میں لے جانے کا ذریعہ ہیں ان کی دھن میں لگا ہوا ہے۔ بشرطیکہ وہ شخص مومن بھی ہو یعنی بشرطیکہ وہ شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہو یہ قید اس لئے لگائی کہ بغیر ایمان اور اسلام کے کوئی عبادت اور کوئی عمل مقبول نہیں تو ایسے بلند ہمت لوگوں کی سعی اور دوڑ اللہ کے یہاں مشکور ہوگی یعنی مقبول اور کار آمد ہوگی اور اس پر انعام ملے گا غرض یہ کہ قبول اعمال کی تین شرطیں ہیں۔ اول یہ کہ نیت صحیح ہو جیسا کہ ومن اراد الاخرۃ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے۔ دوم : یہ کہ وہ عمل صحیح ہو یعنی قواعد شریعت کے مطابق ہو جیسا کہ وسعی لہا سعیہا سے معلوم ہوتا ہے اس لیے جو مجاہدہ اور ریاضت شریعت کے خلاف ہو وہ آخرت کا راستہ نہیں جیسے جو گیوں کی ریاضتیں کہ کوئی دن رات گنگا میں رہتا ہے اور کوئی کھانا پینا چھوڑ کر اپنے جسم کو سکھا لیتا ہے اس قسم کی ریاضتیں آخرت کا راستہ نہیں۔ سوئم : یہ کہ اس کا عقیدہ صحیح ہو جیسا کہ وھو مومن اس پر دلالت کرتا ہے۔ فائدہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ طالب دنیا کی کامیابی حق تعالیٰ کی مشیت پر موقوف سے اور طالب آخرت کی کامیابی حتمی اور قطعی وعدہ ہے لہٰذا عقل کا تقاضا یہ ہے کہ آخرت کی فکر کرے اور دنیا کی فکر میں زیادہ نہ پڑے۔ یہاں تک طالب دنیا اور آخرت کا ذکر کیا اب آگے اپنی عطاء عام کا ذکر فرماتے ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں ہم ہر ایک کی خواہ وہ طالب دنیا ہو یا طالب آخرت ہیں تیرے پروردگار کی عطاء اور بخشش سے ہر ایک کو مدد دیتے ہیں اور اس تلاش اور سعی کے مناسب اور مطابق سامان مہیا کردیتے ہیں ہر ایک کی سعی اور جدوجہد کے مناسب اس کو مدد دیتے ہیں کسی کو ناامید نہیں کرتے۔ طالب دنیا کو بقدر کفایت اور طالب آخرت کو بمقدار ہمت دیتے ہیں جو طالب جس چیز کا مستحق ہے سعادت یا شقاوت سے وہ اس کو دے دی جاتی ہے اور بمقتضائے حکمت جو اس کے لیے مقدر ہے وہ اس کو مل جاتا ہے بہرحال ہم کسی کو محروم نہیں رکھتے۔ بلکہ سب کی مدد کرتے ہیں اور تیرے پروردگار کی عطاء اور بخشش خواہ وہ عطاء دنیوی ہو یا اخروی کسی سے رو کی ہوئی اور باز رکھی ہوئی نہیں نہ مومن سے نہ کافر سے بلکہ جس کے لیے بمقضائے مشیت و حکمت جو عطاء مقدر ہے وہ اس کو ضرور ملتی ہے اور اس عطاء سے کرتے ہیں تاکہ مال و دولت کو آخرت اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا ذریعہ بنا سکے اور حسب منشاء اس سے متمتع اور مستفید ہو سکے اور کبھی اس پر دنیا کو تنگ کرتے ہیں تاکہ وہ اس دنیائے غدارہ اور مکارہ کے شر اور فتنہ سے محفوظ رہے اور دنیا کے کھیل اور تماشہ میں لگ کر آخرت سے غافل نہ ہوجائے اور ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ” عطاء رب “ سے قسمت اور تقدیر خداوندی مراد ہے یعنی جو خیر اور شر اللہ تعالیٰ نے بندہ کے لیے مقدر اور مقسوم فرمایا ہے وہ اس کو مل جاتا ہے جو مرید عاجلہ یعنی طالب دنیا ہے اس کی معاصی سے امداد کرتے ہیں کہ معصیت کا سامان اس کے لیے مہیا ہوجاتا ہے اور مرید آخرت یعنی طالب آخرت کی اطاعت کے ذریعے مدد کرتے ہیں کہ سامان طاعت اس کے لیے میسر ہوجاتا ہے (البحر المحیط ص 21 جلد 6) شیخ محی الدین ابن عربی (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت کا مفہوم وہی ہے جو حق تعالیٰ کے اس قول فالہمہا فجورھا وتقوھا کا مضمون ہے (دیکھو روح المعانی ص 49 جلد 15) اور بعض مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ آیت ھذا میں امداد سے دنیوی رزق مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ طالب دنیا ہو یا طالب آخرت اس دار دنیا میں عطاء دنیوی سے حسب حکمت و مصلحت ہر دو فریق کی امداد کرتے ہیں اور سب کو روزی دیتے ہیں۔ خواہ مومن ہو یا کافر دنیوی رزق سے سب کو حصہ ملتا ہے مگر عطاء اخروی، وہ مومن کے ساتھ مخصوص ہے عطاء دنیوی کسی فریق کے ساتھ مخصوص نہیں اس میں سب شریک ہیں مرنے کے بعد ہر ایک کا حال مختلف ہوگا۔ خواجہ حسن بصری (رح) اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں رزق سب کو دیتا ہے نیک ہو یا بد کفر اور عصیان کی وجہ سے رزق دنیوی کا دروازہ بند نہیں کرتا سب اللہ کے بندے ہیں سب کو رزق دیا جاتا ہے تاکہ سب پر اللہ تعالیٰ کی حجت پوری ہوجائے اور عذر کی گنجائش باقی نہ رہے۔ چناچہ آپ نظر اٹھا کر دیکھئے کہ ہم نے اس عطاء دنیوی میں بعض پر کیسے فضیلت اور فوقیت دی ہے مال و دولت میں اور عزت و وجاہت میں اور حسن صورت اور حسن سیرت میں مختلف بنایا بعض کو فقیر بنایا بعض کو امیر اور بادشاہ کیا کسی کو تندرست اور توانا بنایا اور بعض کو بیمار اور لاچار بنایا کسی کو عقل مند اور ہنرمند بنایا اور کسی کو نادان اور دیوانہ بنایا اور بعض کو خوبصورت اور بعض کو بدصورت بنایا وغیرہ وغیرہ۔ اور کسی کو مومن اور کسی کو کافر بنایا۔ لوگوں کو چاہئے کہ عطائے الٰہی کو نظر عبرت سے دیکھیں کہ اللہ نے دنیوٰ امور میں باہم کس قدر تفاوت رکھا ہے اور البتہ دار آخرت جو مقبولان خداوندی کے لیے مخصوص ہے طبقات اور درجات اور مراتب کے اعتبار سے دار دنیا سے بہت بڑا ہے اور فضیلت اور برتری کے لحاظ سے بھی بہت بڑا ہے۔ یعنی دار آخرت کا تفاوت دار دنیا کے تفاوت سے کہیں بڑھ کر ہے یا یہ معنی ہیں کہ بزرگی اور بڑائی دینے میں آخرت۔ دنیا سے بہت بڑی ہے جو نسبت دنیا اور آخرت کے مابین ہے وہ ہی نسبت ان کے درجات اور تفاضل میں ہے لہٰذا آخرت کے درجات اور فضائل میں کوشش کرنی چاہئے دنیا آخرت کے مقابلہ میں ہیچ ہے۔ اس آیت میں سعی کے مشکور ہونے کے لئے ایمان کو شرط قرار دیا اور ایمان کے اجزاء میں سب سے اعظم اور اشرت جز توحید اور کفر اور شرک سے تبری اور بیزاری ہے اس لئے سلسلہ کلام کو توحید پر ختم فرمایا چناچہ فرماتے ہیں اے انسان مت بنا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تو نکوہیدہ مذمت اور ملامت سننے کے لئے بےیارومددگار بیٹھا رہ جائے گا۔ یعنی شرک کرنے کا نتیجہ دنیا میں یہ ہوگا کہ ہر عاقل و دانا تجھ کو مذموم اور ملزم ٹھہرائے گا کہ تو نے ایسی ظاہر البطلان چیز (شرک) کو کیسے اختیار کیا اور جو چیز کسی نفع اور ضرر کی مالک نہیں اس کو کیسے معبود ٹھہرالیا اور آخرت میں جب کہ سخت مصیبت کا سامنا ہوگا اس وقت تیرا کوئی مددگار نہ ہوگا غرض یہ کہ کفر اور شرک کا نتیجہ اور انجام سوائے برائی اور بدنامی اور ذلت و خواری اور بےکسی اور کسمپرسی کے کچھ نہیں۔ کرنے سے پہلے انجام کو سوچ لو۔ لطائف و معارف (1) وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا : یعنی ہم عذاب دینے والے نہیں جب تک ہم رسول نہ بھیج لیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتے جب تک وہ احکام خداوندی سے باخبر نہ ہوجائے اور اللہ کی حجت اس پر قائم نہ ہوجائے بایں طور کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف رسول بھیجے اور وہ بندوں کو احکام خداوندی سے مطلع کرے اور یہ ضرورت نہیں کہ وہ رسول خود ہر ایک کے پاس جاکر اللہ کا پیغام پہنچائے۔ بلکہ یہ کافی ہے کہ وہ خود بیان کرے یا اس کی طرف سے کوئی عالم یا مبلغ اللہ کا پیغام پہنچا دے بہرحال اس کی رسالت اور شریعت کا علم ہوجانا کافی ہے خواہ وہ کسی طریقے سے ہوجائے اور آنحضرت ﷺ کی رسالت، رسالت عامہ ہے تمام عالم کے لیے صحابہ کرام وتابعین اور علماء امت کے ذریعے سے مشرق اور مغرب میں آپ ﷺ کی دعوت پہنچ چکی ہے اس لئے سب پر ایمان لانا فرض ہے۔ (2) امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت (یعنی وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا) سے معلوم ہوتا ہے جو شخص بعثت سے پہلے مرگیا یا اس کو نبوت کی دعوت نہیں پہنچی وہ عند اللہ معذور ہے اس پر عذاب ہوگا۔ اگرچہ وہ شرک کی حالت میں مرا ہو کیونکہ احکام خداوندی کی معرفت بدون شریعت کے ناممکن ہے اور احکام الٰہی کی معرفت کے لئے عقل انسانی کافی نہیں بغیر بعثت کے حجت تام نہیں اس لئے جس کو دعوت نہیں پہنچتی وہ معذور ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ وجود باری تعالیٰ اور توحید خداوندی اس قدر ظاہر و باہر ہے کہ جو معمولی عقل سے بھی معلوم ہوسکتی ہے اور اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کما قال تعالیٰ قالت رسلہم افی اللہ شک فاطر السموت والارض اس لیے انکار خداوندی اور شرک میں کوئی معذور نہ ہوگا اگرچہ اس کو نبی کی دعوت نہ پہنچی ہو ادنی عقل والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ عماعت بغیر معمار کے ممکن نہیں اور کتابت بغیر کاتب کے ممکن نہیں تو زمین سے لے کر آسمان تک یہ تمام عمارت بغیر کسی بنانے والے کے کیسے کھڑی ہوگئی جیسے کسی اعرابی نے کہا تھا کہ ” مینگنی اونٹ پر دلالت کرتی ہے اور نسان قدم رفتار پر دلالت کرتا ہے تو کیا یہ برج والا آسمان اور گردوغبار والی زمین کسی صانع خبیر پر دلالت نہیں کرے گی “۔ اور علیٰ ھذا توحید بھی امر بدیہی ہے اور شرک ایسی ظاہر البطلان چیز ہے جس میں کسی عاقل کو شک نہیں ہر شخص یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کے لئے یہ چیز سخت ذلت اور رسوائی کا باعث ہے کہ وہ کسی عاجز مخلوق کے سامنے سر جھکائے اس لیے قرآن کریم میں آیا ہے ان اللہ کا یغفران یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشاء تحقیق اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرتے اور جو گناہ شرک سے کم درجہ کا ہے وہ جس کے لیے چاہیں معاف کردیں معلوم ہوا کہ آیت مذکورہ وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا میں عدم عذاب کا حکم معاصی کے ساتھ مخصوص ہے کہ قبل بعثت ارتکاب معاصی پر عذاب نہ ہوگا اور کفر و شرک چونکہ امر بدیہی ہے عقل و فطرت سے بھی معلوم ہوسکتا ہے اس لیے انکار خداوندی اور شرک پر ہر حال میں مؤاخذہ ہوگا۔ غرض یہ کہ وجود باری تعالیٰ اور توحید کا مسئلہ ایسا واضح اور روشن ہے کہ عقل اور فطرت کی رہنمائی بھی اس کے لئے کافی ہے اور انبیاء کرام (علیہ السلام) نے دلائل اور براہین سے اس کی مزید تشریح اور توضیح کردی کہ انکار کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ اور علماء امت نے اپنی تقریروں اور تحریروں سے دلائل عقلیہ اور فطریہ کے ذریعہ وجود باری تعالیٰ اور توحید باری تعالیٰ کا سمئلہ روز روشن کی طرح واضح کردیا اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچا دیا لہٰذا اب کسی منکر خدا اور کسی مشرک کے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ (3) اصحاب فترۃ : یعنی جو لوگ زمانہ فترت میں مرگئے اور ان کو رسول کی دعوت نہیں پہنچی اور اطفال مشرکین یعنی جو لڑکے چھوٹی عمر میں گزر گئے ان کے ماں باپ کفار تھے اور احمق اور بےعقل اور مجنون جو جنون اور بےعقلی کی حالت میں مرگئے۔ ان کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ وہ جنت میں جائیں گے اور بعض کہتے ہیں کہ وہ جہنم میں جائیں گے اور بعض علماء نے ان کے بارے میں توقف کیا ہے یعنی یہ لوگ اللہ کی زیر مشیت میں ان کے بارے میں کوئی حکم کل نہیں لگایا جاسکتا ہے قول فیصل اس بارے میں یہ ہے کہ قیامت کے دن ان لوگوں کو امتحان ہوگا اور من جانب اللہ ان کے پاس ایک فرشتہ آئے گا اور کہے گا کہ اللہ کا حکم یہ ہے کہ دوزخ کی آگ میں داخل ہوجاؤ۔ پس جو حکم خداوندی کی اطاعت کرے گا آگ اس کے حق میں برد اور سلام بن جائے گی اور جو انکار کرے گا اس کو گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ حاصل کلام یہ کہ قیامت کے دن ان لوگوں کا اس طرح امتحان لیا جائیت گا جو اطاعت کرے گا وہ بہشت میں داخل کردیا جائے گا جو نافرمانی کرے گا وہ ذلت و خواری کے ساتھ داخل نار ہوگا امتحان سے مقصود یہ ہوگا کہ اندرون طبیعت و اطاعت اور معصیت کا مادہ پوشیدہ اور مستور ہے وہ ظاہر ہوجائے۔ اور اندرونی فرمانبرداری اور نافرمانی جب ظاہر ہوجائے تب اس کے مطابق جزا و سزا ان پر جاری کی جائے محض صلاحیت اور استعداد پر جزاء اور سزا مرتب نہیں ہوتی جب تک کہ عملی طور پر ان پر حجت نہ قائم ہوجائے اس امتحان کے بعد اندرونی اطاعت اور معصیت عملی طور پر سامنے آجائے گی اور علم ازلی میں جو سعادت اور شقاوت مقدر اور مضمر تھی وہ ظاہر اور منکشف ہوجائے گی اور اس اطاعت اور معصیت سے ان پر حجت قائم ہوجائے گی اور اس کے مطابق جزاء اور سزا مرتب ہوجائے گی۔ امام ابو الحسن اشعری (رح) سے اسی کو اہل سنت والجماعت کا قول قرار دیا ہے اور اسی کو امام بیہقی (رح) نے کتاب الاعتقاد میں اختیار کیا اور اسی کے دلائل وبراہین سے نصرت اور تقویت فرمائی اور اسی کو قول منصور قرار دیا۔ حضرات اہل علم اگر اس مسئلہ کی مزید تفصیل چاہیں تو اس ناچیز کا حاشیہ بخاری مسمیٰ بہ تحفۃ القاری ملاحظہ فرمائیں جس میں صحیح بخاری کی کتاب الجنائز باب ما قبل فی اولاد المشرکین کے ذیل میں اس مسئلہ کی تفصیل کردی ہے وہاں دیکھ لی جائے۔ (4) واذا اردنا ان نہلک قریۃ امرنا متر فیہا ففسقوا فیہا فحق علیہا القول : اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو تباہ و برباد کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے دل میں فسق و فجور کا داعیہ ڈال دیتے ہیں کہ وہ دل کھول کر فسق و فجور کریں تب عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے۔ لہٰذا دولت مندوں کو چاہئے کہ وہ خود اپنا امتحان کرلیں ان کی دولت و ثروت اگر ان کو اللہ کی اطاعت کی طرف لے جا رہی ہے تو اللہ کا شکر کریں کہ اللہ نے اس دولت کو آخرت کا ذریعہ بنایا اور اگر وہ دولت و ثروت ان کے فسق و فجور اور بدکاریوں پر آمادہ کر رہی ہے تو سمجھ لیں کہ اللہ نے ہمارے تباہ اور برباد کرنے کا ارادہ فرما لیا ہے۔ (5) اہل عمل کی تین قسمیں : اول : یہ کہ اس عمل سے اس کا مقصود دنیوی منفعت ہو۔ دوم : یہ کہ اس عمل سے اس کا مقصود فقط آخرت کی منفعت ہو اس آیت میں یعنی من کان یرید العاجلۃ اور من اراد الاخرۃ میں اللہ تعالیٰ نے ان دو قسموں کا حکم بیان کیا۔ سوم : یہ ہے کہ اس عمل سے دنیا اور آخرت دونوں ہی مقصود ہیں تو اس کی پھر تین قسیں ہیں۔ (پہلی قسم) یہ ہے کہ طلب آخرت غالب اور راجح ہو اور طلب دنیا مغلوب اور مرجوح ہو (دوسری قسم) اس کا عکس ہے وہ یہ کہ طلب دنیا غالب اور راجح اور طلب آخرت مغلوب اور مرجوح ہو۔ (تیسری قسم) یہ ہے کہ دونوں طلبیں اور دونوں خواہشیں برابر ہوں پہلی قسم یعنی جہاں طلب آخرت راضھ اور غالب ہو جمہور علماء کا قول اس بارے میں یہ ہے کہ ایسا عمل مقبول نہیں اس لیے کہ جس عمل میں غیر اللہ کی نیت شریک ہوگئی وہ عمل اللہ کے نزدیک مردود ہے اگرچہ نیت آخرت کی غالب ہو کیونکہ غیر اللہ کی نبت ثامل ہوجانے سے وہ شرک ہوگیا۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے انا اغنی الشرکاء عن الشرک من عمل عملا اشرک فیہ غیری ترکتہ وشرکہ : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں تمام ساجھیوں سے بڑھ کر بےپرواہ اور بےنیاز ہوں لہٰذا جس کسی نے کوئی ایسا کام کیا جس میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کرلیا تو میں اس کو اس کے شرک کے ساتھ چھوڑ دیتا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ بندہ جو عمل خالص اللہ کے لیے کرے گا وہ تو مقبول ہوگا اور ایسا عمل کہ جو دورضاؤں کا مجموعہ ہو تو وہ قابل قبول نہیں اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ جس عمل میں طلب آخرت کی راجح ہو تو وہ عمل بقدر نیت مقبول ہوجائے گا اور چونکہ طلب آخرت کی غالب ہے اس لئے وہ عمل بالکلیہ باطل اور مردود نہ ہوگا اگرچہ طلب دنیا کی آمیزش کی وجہ سے ناقص اور مکدر ہوجائے گا۔ اور دوسری قسم (یعنی طلب دنیا غالب اور راجح ہو) ایسا عمل بالاجماع مردود ہے (اور تیسری قسم) یعنی جس میں طلب دنیا اور طلب آخرت دونوں برابر ہوں وہ بھی باتفاق علماء مقبول نہیں یہاں ایک اور قسم باقی رہ گئی اور وہ یہ کہ اس کی کوئی نیت ہی نہ ہو نہ دنیا کی اور نہ آخرت کی سو اس کا یہ عمل اگر شرعا جائز ہے تو جائز ہے ورنہ نہیں کیونکہ اس صورت میں نیت تو کچھ ہے نہی صرف عمل ہے لہٰذا دیکھ لیا جائے کہ شریعت میں اس عمل کا کیا حکم ہے۔
Top