Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 23
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا١ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا
وَقَضٰى : اور حکم فرمادیا رَبُّكَ : تیرا رب اَلَّا تَعْبُدُوْٓا : کہ نہ عبادت کرو اِلَّآ اِيَّاهُ : اس کے سوا وَبِالْوَالِدَيْنِ : اور ماں باپ سے اِحْسَانًا : حسن سلوک اِمَّا يَبْلُغَنَّ : اگر وہ پہنچ جائیں عِنْدَكَ : تیرے سامنے الْكِبَرَ : بڑھاپا اَحَدُهُمَآ : ان میں سے ایک اَوْ : یا كِلٰهُمَا : وہ دونوں فَلَا تَقُلْ : تو نہ کہہ لَّهُمَآ : انہیں اُفٍّ : اف وَّلَا تَنْهَرْهُمَا : اور نہ جھڑکو انہیں وَقُلْ : اور کہو لَّهُمَا : ان دونوں سے قَوْلًا : بات كَرِيْمًا : ادب کے ساتھ
اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سواء کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی (کرتے رہو) ، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ ہی انھیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا
تفصیل اعمال آخرت و احکام ہدایت قال اللہ تعالیٰ : وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ .... الیٰ .... کل ذلک سیۂ عند ربک مکروھا۔ (ربط) گزشتہ آیات میں آخرت کی سعی اور اس کی جدوجہد کا بیان تھا کہ جو آخرت کے لیے سعی کرے گا ہم اسے آخرت کی نعمتیں عطا کریں گے اب ان آیات میں ان اعمال کی تفصیل فرماتے ہیں کہ جن کے ذریعہ انسان آخرت کی نعمتیں حاصل کرسکے اور ان احکام کو بیان کرتے ہیں جن کے ذریعہ انسان ہدایت حاصل کرسکے اور آخرت کی سعی اور جدوجہد کا ذریعہ یہ اعمال ہیں اور ان احکامات کو توحید ہی سے شروع کیا اور توحید ہی پر ختم کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ تمام گناہوں میں شرک بڑے درجہ کا گناہ ہے اور درمیان میں زیادہ تر ان احکام کو بیان فرمایا کہ جو شعائر اسلام میں سے ہیں اور تمام ادیان اور شرائع میں مسلم ہیں اور سب کے سب محکم ہیں قابل نسخ نہیں اشارہ اس طرف ہے کہ اگر واقع میں تم آخرت کے طالب ہو اور اس کے لیے ساعی ہو تو ان اعمال کو بجالاؤ ان اعمال کے بجالانے سے وسعی لہا سعیہا کے مصداق بن سکو گے۔ قدم باید اندر طریقت نہ دم کہ اصلے ندارد دمے بےقدم اور گزشتہ آیات مثلا ان ھذا القران یھدی للتی ہی اقوم اور مثلا من اھتدی فانما یہتدی لنفسہ میں جس ہدایت کا ذکر تھا اب ان آیات میں ان اہم احکام ہدایت کو بیان کرتے ہیں جن پر عمل کرنے سے انسان کو ہدایت حاصل ہوتی ہے ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے تورات کی ساری اخلاقی تعلیم ان پندرہ آیتوں میں درج کردی ہے اور وہ پندرہ آیات اس رکوع سے شروع ہوتی ہیں۔ حکم اول توحید اور حکم دیا تیرے پروردگار نے تمام بندوں کو کہ سوائے اس معبود برحق کے اور کسی کو نہ پوجو اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے اس لیے کہ عبادت نام ہے غایت تعظیم کا اور غایت تعظیم کا مستحق وہی ہے کہ جو غایت درجہ کا منعم اور محسن ہو اور وہ اس کے سوا کوئی نہیں۔ حکم دوم، اکرام واحترام والدین اور حکم دیا اللہ تعالیٰ نے کہ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید اور عبادت کے بعد والدین کے ساتھ احسان کا حکم دیا۔ ان دونوں حکموں میں مناسبت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے وجود کا سبب حقیقی ہے اس لیے اول اس کا حکم دیا اور والدین انسان کے وجود کا سبب مجازی اور ظاہری ہیں اس لیے والدین کے ساتھ احسان کا حکم بعد میں دیا۔ نیز والدین کی شفقت رحمت خداوندی کا ایک نمونہ ہے والدین کی شفقت ہر وقت موجزن رہتی ہے کہ ہر طرح کی بھلائی اولاد کو پہنچا دیں اور ہر طرح کی برائی کو اولاد سے دور رکھیں اور والدین سے جس خیر اور بھلائی کا اولاد کو پہنچانا ممکن ہوتا ہے وہ اس سے دریغ نہیں کرتے اور سوائے جذبہ شفقت و محبت اور کوئی ان کی غرض نہیں ہوتی اس وجہ سے انعام اور احسان میں خدا کے بعد والدین کا درجہ ہے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں ماں باپ کے شکر کو اپنے شکر کے ساتھ واجب اور لازم گردانا ان اشکرلی ولوالدیک الی المصیر۔ پھر چونکہ حق جل شانہ علیم وخبیر ہے وہ خوب جانتا ہے کہ والدین بڑھاپے کے وقت اولاد پر گراں ہوجاتے ہیں لہٰذا بطور اہتمام حکم دیتے ہیں اگر ان میں سے ایک یا دونوں تیرے سامنے اور تیرے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں اور ضعف اور عجز سے ان کی وہ حالت ہوجائے جو بچپن میں تیری تھی اور ایسی حالت میں کوئی ایسی بات ظاہر ہو جو طبعا تم کو ناگوار ہو تو ایسی حالت میں بھی ان کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھنا اور ان کے سامنے ” اف “ بھی نہ کرنا یعنی ” ہوں “ اور ” چوں “ نہ کرنا یعنی زبان سے کوئی ایسا لفظ نہ نکالنا جو ان کے کانوں کو ناگوار گزرے اور کسی بات پر خواہ وہ تیرے لیے کیسی بھی خلاف طبع ہو ان کو نہ جھڑکنا۔ اظہار ناگواری میں زجر کا درجہ ” اف “ کہنے سے بڑھا ہوا ہے ” اف “ کہنا اظہار ناگواری کی ابتداء ہے اور زجر یعنی جھڑکنا اور ڈانٹنا یہ اس کی انتہا ہے۔ خلاصہ یہ کہ نہ ان کی بات سے ملول ہو اور نہ ان کی بات کو رد کرو اور ان کے سامنے نرمی اور ادب سے بات کرو جس سے ان کی تعظیم و تکریم اور ادب مترشح ہوتا ہو اور ازراہ شفقت و تواضع نہ ازراہ سیاست و مصلحت اور ان کے سامنے بازوئے ذلت کو پست کردو یعنی ان سے بکمال تواضع و انکسار کے ساتھ برتاؤ کرو۔ جناح الذل کے معنی ذلت کے بازو ہیں حالانکہ ذلت کے بازو نہیں ہوتے تو یہ کلام بطور استعارہ ہے کہ جس طرح پرندہ اپنے بچے کی تربیت کے وقت اپنے بازو پست کرکے اس کو اپنی آغوث میں لے لیتا ہے اسی طرح تم کو چاہئے کہ ایسی ہی تربیت اور شفقت کا معاملہ اپنے والدین کے ساتھ کرو اور ان کے لئے اس طرح دعا کرو کہ اے پروردگار ان دونوں پر ایسا خاص رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا اور کمال شفقت و رحمت سے میری پرورش کی جب کہ میں بالکل عاجز اور لاچار تھا۔ والدین اگر مسلمان ہوں تو ان کے حق میں دعائے رحمت کے معنی ظاہر ہیں اور اگر کافر ہیں اور زندہ ہیں تو ان کے حق میں دعاء رحمت کے معنی یہ ہیں کہ اے اللہ ان کو ایمان اور اسلام کی ہدایت نصیب فرما۔ کافر کے حق میں ہدایت سے بڑھ کر کوئی رحمت نہیں اور اگر والدین بحالت کفر مرچکے ہوں تو ان کے لئے دعائے مغفرت و رحمت جائز نہیں کما قال تعالیٰ : ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ولوکانوا اولیٰ قربی من بعد ماتبین لہم انھم اصحب الجحیم۔ اس آیت کی تفسیر سورة توبہ کے اخیر میں گزر چکی ہے وہاں دیکھ لی جائے غرض یہ کہ حق جل شانہ نے اس آیت میں اول والدین کے ساتھ احسان کا حکم دیا اور پھر اس کے بعد پانچ باتوں کا حکم دیا۔ اول : لا تقل لہما اف۔ ان کے سامنے اف مت کرو۔ دوم : ولا تنھرھما۔ ان کو جھڑکو مت اور ان کے سامنے آواز بلند نہ کرو۔ سوم : وقل لہما قولا کریما۔ ان کے سامنے ادب سے بات کرو۔ چہارم : واخفض لہما جناح الذل من الرحمۃ۔ یعنی کمال تواضع اور کمال شفقت کے ساتھ ان سے برتاؤ کرو۔ پنجم : وقل رب ارحمھما کما ربینی صغیرا۔ یعنی ان کے لئے دعائے مغفرت وحمت کرو۔ مطلب یہ ہے کہ خالی ادب اور تواضع اور شفقت پر اکتفا نہ کرو کیونکہ یہ سب چیزیں فانی ہیں بلکہ دعا کرو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت باقیہ اور دائمہ سے ان کو دستگیری کرے اور رحمت آخرت کی دعا مسلمان والدین کے لیے مخصوص ہے۔ یہاں تک والدین کی ظاہری توقیر اور احترام کے متعلق احکام بیان فرمائے۔ اب اگلی آیت میں باطنی ادب یعنی دل سے ادب اور احترام کو بیان فرماتے ہیں اور یہ بتلاتے ہیں کہ والدین کے سامنے فقط ظاہر میں ذلت کا بازو پست کردینا اور ان کے سامنے اف نہ کرنا یہ کافی نہیں بلکہ دل سے ان کا ادب کرنا اور باطنی طور پر ان کی اطاعت اور فرماں برداری اور ان کے ساتھ احسان کا قصد کرنا بھی ضروری ہے حتی کہ دل میں ان کی نافرمانی کا خیال بھی نہ آنے پائے چناچہ فرماتے ہیں۔ تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ والدین کے متعلق تمہارے دلوں میں کیا بات پوشیدہ ہے ممکن ہے کہ ظاہر میں تم نے ادب و احترام کو ملحوظ رکھا ہو لیکن دل میں کوئی گرانی اور ناگواری مضمر ہو سو اس کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر تم فی الواقع نیک بخت ہوگے یعنی دل سے ان کے مطیع اور فرماں بردار اور خدمت گزار ہو گے اور بتقاضائے بشریت ان کا پورا حق خدا مت ادا نہ ہو سکے گا اور اس پر نادم ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے توبہ کرو گے تو وہ بیشک خدا کی طرف رجوع کرنے والوں کی تقصیت کو بخشنے والا ہے بھول چوک یا عدم استطاعت کی بناء پر جو کمی اور کوتاہی ان کی خدمت میں واقع ہوگی اس کو وہ معاف فرما دے گا ” اواب “ کی تفسیر میں کئی قول ہیں جامع قول یہ ہے کہ جو شخص کثرت کے ساتھ بار بار بات بات میں شرمندہ ہو کر خدا کی طرف رجوع کرتا ہو وہ اواب ہے۔ ایک فلسفیانہ وسوسہ اور اس کا جواب وسوسہ یہ ہے کہ اگرچہ والدین اولاد کے وجود کا سبب ظاہری ہیں لیکن اس میں ان کی نفسانی خواہش کو بھی دخل ہے جس سے ایک فرزند تو لد ہوا اور پیدا ہو کر عالم آفات میں آپہنچا اور طرح طرح کی مشقتوں اور مصیبتوں میں آپہنچا تو والدین کا اولاد پر کیا احسان ہوا جس کا شکر واجب ہو اور اس احسان کے صلہ میں ان کی اطاعت اور خدمت فرض ہو حتیٰ کہ ایک فلسفی اپنے باپ کو مارا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ اسی نے مجھ کو عالم کون فساد میں داخل کیا اور اسی نے مجھ کو موت کا نشانہ بنایا اور فقر و فاقہ اور طرح طرح کے امراض و آلام کے دہانہ پر لاکر مجھے کھڑا کردیا۔ اسی قسم کا ایک فلسفی ابو العلام گزرا ہے اس سے پوچھا گیا کہ ہم تیری قبر پر کیا لکھیں تو اس نے کہا کہ میری قبر پر یہ شعر لکھ دینا۔ ھذا جناہ ابی علی وما جنیت علی احد یہ اس کے باپ کا اس پر ظلم ہے اور میں نے کسی پر ظلم نہیں کیا یعنی میں نے کوئی نکاح نہیں کیا اور کوئی بچہ نہیں جنوایا بلکہ سب کو پردہ عدم میں رہنے دیا تاکہ میری وجہ سے پردہ عدم سے نکل کر اس دار فانی کے آفات اور مصائب میں مبتلا نہ ہو۔ پردہ عدم میں رہنے کی وجہ سے اگرچہ اس دنیا کے عیش و آرام سے متمتع نہ ہوا تو اس دنیا کی آفات اور مصیبتوں سے تو محفوظ رہا۔ اسی طرح اسکندر سے پوچھا کہ تجھ پر تیرے والد کا حق زیادہ ہے یا تیرے استاد کا اسکندر نے جواب دیا کہ استاد کا حق زیادہ ہے اس نے میری تعلیم و تربیت میں طرح طرح کی سختیاں برداشت کرکے مجھے علم کی روشنی میں داخل کیا اور رہا والد تو اس کو اپنے لئے لذت جماع کی خواہش تھی اس طرح اس نے مجھ کو عالم کون و فساد میں لا نکالا۔ جواب : اس فلسفیانہ طویل تقریر سراپا تزویر کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ اول امر ہیں والدین کا مقصود لذت نفسانی کی تحصیل ہو مگر جب بچہ پیدا ہوگیا تو اس وقت سے لے کر اخیر تک دیکھو کہ ماں باپ نے اس فرزند دلبند کے ساتھ کیا معاملہ کیا اس کو اپنا لخت جگر جانا اور اس کی ولادت پر خوشیاں منائیں اور اس کی تربیت میں طرح طرح کی مشقتیں اٹھائیں اور اس کی تعلیم و تادیب میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا اور ضروریات زندگی میں اس کو اپنے سے مقدم رکھا اور اپنے اوپر تنگی برداشت کرکے دل وجان سے اس کے مصارف زندگی اور مصارف تعلیم پورے کیے اور اس بات کا پورا پورا اہتمام کیا طرح طرح کی خوبیاں اور بھلائیاں جو اس کو پہنچا سکتے تھے وہ اس کو پہنچا ڈالیں اور جس بلا اور آفت کو اس سے ہٹا سکتے ہوں وہ اس سے دور کردیں۔ اور دن رات اس کوشش میں لگے رہے کہ اس مولود کو ہم سے ہزار درجہ بڑھ کر نعمتیں اور عزیتیں اور راحتیں مل جائیں اور اس راہ میں جو مشقتیں پیش آئیں وہ والدین نے اپنے اوپر اٹھائیں یہاں تک کہ وہ سن بلوغ کو پہنچا اور جوان ہوگیا کیا اس والہانہ شفقت و محبت اور بےغرضانہ تربیت سراہا رحمت کا کوئی معمولی سا شمہ یا ادنی سا نمونہ سوائے والدین کے کسی اور جگہ بھی دکھلایا جاسکتا ہے۔ دیکھنا تو درکنار ایسی محبت اور شفقت کے تصور سے عقل بھی قاصر ہے۔ (دیکھو تفسیر سراج منیر ص 241 جلد 2 و روح المعانی ص 57 جلد 15) ایسی بےمثال شفقت و تربیت کا کہ جو ابتدائے ولادت سے لے کر بیس سال تک مسلسل جاری رہی ہو احسان مند نہ ہونا اور والدین کے اس حق تربیت کا منکر ہونا انسان کا بلکہ حیوان کا بھی کام نہیں حیوان بھی اس مادہ کا احترام کرتا ہے جس سے وہ پیدا ہوا ہے بہرحال جس میں ذرا بھی عقل ہے وہ والدین کے حق کا انکار نہیں کرسکتا۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے والدین بوڑھے ہو کر اس حد کو پہنچ گئے ہیں جس طرح والدین نے بچپن میں میری غورو پرداخت کی تھی ویسی ہی میں ان کی غوروپرداخت اور خبر گیری اور خدمت گزاری کر دہا ہوں تو کیا میں نے انکار حق ادا کردیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں کیونکہ وہ دونوں تیری غور و پرداخت کرتے تھے تو ان کی تمنا اور آرزو یہ ہوتی تھی کہ تو زندہ رہے اور تو ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتا ہے اور چاہتا یہ ہے کہ وہ مرجائیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ عالم، عالم اسباب ہے جس میں اللہ نے اپنی قدرت اور مشیت سے ایک شئی کو ایک شئی کا سبب بنایا۔ نسل انسانی اور حیوانی کے بقاء کا ذریعہ اور سبب اس نفسانی خواہش کو بنایا ہے اگر یہ نفسانی خواہش درمیان میں نہ ہوتی تو نسل انسانی اور حیوانی کا وجود نہ ہوتا۔ دنیا کی تمام لذائذ طیبات اور مرغوبات اور مطبوعات اور مشروبات بلاشبہ حق جل شانہ کی نعمتیں ہیں حالانکہ ان میں طبیعت کی رغبت اور نفس کی شہوت اور لذت ساتھ ساتھ ہے اور اس طبعی رغبت کی آمیزش کی وجہ سے ان کے نعمت ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس طبعی رغبت کی وجہ سے نعمت کی لذت دوبالا ہوجاتی ہے اور جس ہاتھ سے یہ نعمتیں کسی کو میسر آجاتی ہیں تو وہ شخص اس ہاتھ کا ممنون اور احسان مند ہوتا ہے اور فرط محبت سے اس ہاتھ کو بوسہ دیتا ہے اور جس ماں نے اس کو نو مہینہ اپنے پیٹ میں رکھا اور دو برس تک دودھ پلایا اور تین چار سال تک ماں باپ اسکو ازراہ شفقت و محبت اور بطور لذت و مسرت گود میں اٹھائے پھرے اور راتوں اسکے لئے جاگے اور اس کی راحت کے لیے طرح طرح کی مشقتیں اٹھاتے رہے اور یہاں تک کہ جو ان ہوگیا اب یہ نادان کہتا ہے کہ ماں باپ کا مجھ پر کوئی احسان نہیں۔ شیخ سعدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ سالہا بر تو بگذرد کہ گزر نکنی سوئے تربت پدرت تو بجاتے پدرچہ کردی خبر تاھماں چشم داری از پسرت حکم سوم، اداء حقوق دیگر اہل حقوق گزشتہ آیت میں والدین کے ساتھ احسان کا حکم دیا اب اس آیت میں تمام اہل قرابت اور عام اہل حاجت کے ساتھ احسان کا حکم دیتے ہیں اور قرابت دار اور رشتہ دار کو حسب قرابت اس کا حق ادا کر اور محتاج مسافر کو بھی دے ماں باپ کا حق چونکہ تمام رشتہ داروں سے بڑھا ہوا ہے اس لیے اول خدا تعالیٰ نے اس کی تاکید کی اس کے بعد دوسرے رشتہ داروں اور محتاج اور مسافروں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا۔ رشتہ داروں کا حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ رشتہ اور محبت قائم رکھے اور خوش حالی اور افلاس دونوں حالتوں میں اس کے ساتھ حسن معاشرت اور الفت برتے اگر انہیں مدد کی ضرورت ہو تو ان کی مدد کرے اور اگر وہ تنگ دست ہوں تو ان پر خرچ کرے اور محتاج اور مسافروں کی خیرات دے اور اگر محتاج اور مسافر رشتہ دار بھی ہو تو اس کے دینے میں دوہرا ثواب ہے۔ حضرات شیعہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت یعنی وات ذالقربی حقہ نازل ہوئی تو اس وقت پیغمبر خدا ﷺ نے جبرائیل امین (علیہ السلام) سے پوچھا کہ میرے قریب کون ہیں اور ان کا حق کیا ہے جبرئیل (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ قریب تمہارے فاطمہ ؓ ہے اور حق اس کا فدک ہے فدک اس کو دے دو رسول خدا ﷺ نے اسی وقت فاطمہ ؓ کو فدک دے دیا۔ یہ روایت سراسر موضوع اور ساختہ پر داختہ شیعہ ہے اور خلاف عقل و نقل ہے اس لیے کہ اس روایت کا حاصل تو یہ ہے کہ آیت ذالقربیٰ سے فقط حضرت فاطمہ ؓ مراد ہیں اور حقہ سے فدک مراد ہے اور یہ بالکل غلط ہے الفاظ قرآنی کو ان معنی سے کوئی مس اور مساس نہیں لفظ ذوالقربیٰ ایک لفظ عام اور امر کلی ہے جس کے معنی ” قرابت والے “ کے ہیں جو حضور پر نور ﷺ کے تمام قرابت داروں کو شامل ہے لہٰذا اس لفظ عام یعنی ذالقربیٰ کو فقط حضرت فاطمہ ؓ میں منحصر کردینا کیسے صحیح ہوگا حضور پر نور ﷺ کے قرابت دار کچھ ایک دو نہ تھے بلکہ ہزاروں تھے اور صاحبزادی بھی فقط ایک نہ تھی بلکہ حضرت فاطمہ ؓ کے علاوہ حضرت زینب ؓ اور حضرت رقیہ ؓ اور حضرت ام کلثوم ؓ یہ تین صاحبزادیاں اور تھیں جو قرابت میں حضرت فاطمہ ؓ کے برابر تھیں اور کچھ کم نہ تھیں حق جل شانہ کے ارشاد یایہا النبی قل لازواجک وبناتک ونساء ال مومنین یذنین علیہن من جلابیبھن : سے صاف ظاہر ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی متعدد صاحبزادیاں تھیں اور ایسا ہی کافی کلینی کی روایت کی روایت بھی ہے جو صاف اور واضح ہے کہ آنحضرت ﷺ کی متعدد بیٹیاں تھیں تو کیا معاذ اللہ نبی اکرم ﷺ نے سب قرابتداروں کو محروم کرکے سب کا حق حضرت فاطمہ ؓ کو دیدیا اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ صاحبزادیاں نزول آیت سے پہلے وفات پاچکی تھی تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ آیت مکی ہے اور وفات مدینہ میں ہوئی۔ اور علی سبیل الفرض والتسلیم حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ اور حضرت حسنین ؓ اور حضرت جعفر ؓ تو موجود تھے گویا کہ ایک حضرت فاطمہ ؓ کا حق تو دیدیا جائے اور باقی سب قرابت داروں کا حق تلف کردیا جائے آنحضرت ﷺ کو چاہئے تھا کہ مسکینوں اور مسافروں کے واسطے بھی کوئی چیز وقف کردیتے تاکہ پوری آیت پر عمل ہوجاتا۔ نیز یہ کہنا کہ حقہ سے فدک مراد ہے یہ بھی غلط ہے اس لیے کہ یہ آیت سورة اسراء کی ہے جو بالاتفاق مکی ہے اور مکہ میں فدک کہاں تھا فدک تو ہجرت کے ساتویں برس رسول اللہ ﷺ کے قبضے میں آیا تھا اور علیٰ ھذا سورة روم کی ایک آیت جس میں ذوالقربیٰ کا لفظ آیا ہے وہ بھی مکی ہے نیز اگر یہی مراد ہوتے تو مختصر کلام یہ تھا کہ ات فاطمۃ فدک فرما دیتے اس تطویل کی کیا حاجت تھی نیز لفظ حق کا استعمال جب مناسب ہے کہ جب اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے بیع یا ہبہ کے ذریعے حضرت فاطمہ ؓ کی ملکیت فدک ثابت ہوجائے اور رسول اللہ ﷺ سے اس کے دینے میں معاذ اللہ کچھ تقصیر ہوئی تو پھر یہ کہنا مناسب ہو تاکہ فاطمہ ؓ کو ان کا حق دیدو کیونکہ اگر کوئی چیز دبا لیتا ہے تو اس کو کہنا کرتے ہیں کہ فلانے کا حق دیدو۔ نیز اگر شیعوں کے نزدیک ذوالقربیٰ کے لفظ سے حضرت فاطمہ الزہراء ؓ ہی مراد ہوتی تھیں تو اس بناء پر آیت واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ وللرسول ولذی القربی : میں ذی القربیٰ سے حضرت فاطمہ ؓ ہی مراد ہوں گی جس کا مطلب یہ نکلے گا کہ مال غنیمت کا خمس صرف فاطمہ ؓ کے لیے ہے باقی حضرت فاطمہ ؓ کے علاوہ دیگر بنی ہاشم کو دینا اور لینا جائز نہیں اہل تشیع نے یہ سمجھا کہ اس آیت میں خطاب فقط نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو ہے خاص حضرت فاطمہ ؓ کو حق فدک دینے کے بارے میں بطور قبالہ آسمان سے نازل ہوئی ہے۔ اور یہ غلط ہے اور صحیح یہ ہے کہ اس آیت میں اس کے ماقبل اور مابعد میں تمام خطابات امت کو ہیں اور امت کو یہ بتلانا مقصود ہے کہ تم ان احکام کو بجالانا کیونکہ شروع آیت وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ اور ربکم اعلم بما فی نفوسکم اور لاتقتلوا اولادکم وغیرہ وغیرہ میں تمام ضمیریں جمع کی ہیں اور باقی رہا اما یبلغن عندک الکبر احدھما او کلاھما فلا تقل لہما اف یہ خطاب بھی اگرچہ لفظ مفرد ہے مگر اس سے بھی مراد امت ہی کا ہر فرد ہے نبی اکرم ﷺ کے ماں باپ تو بچپن ہی میں گزر گئے تھے۔ لہٰذا یہ حکم کہ ماں باپ کے سامنے اف نہ کرنا اور ان کے ادب کو ملحوظ رکھنا درحقیقت امتیوں کو سنانے کے لئے ہے آپ ﷺ کے لیے نہیں۔ اور علی ھذا ولا تبذر تبذیرا کا حکم بھی تمام امت کے لیے ہے اسی طرح سمجھو کہ وات ذالقربی حقہ میں بھی خطاب ہر شخص کو ہے کہ ہر شخص کو چاہئے کہ قرابت داروں کو حق ادا کرے اور صلہ رحمی سے دریغ نہ کرے اور علیٰ ھذا القیاس سورة روم میں اولم یروا ان اللہ یبسط الرزق ملن یشاء ویقدر کے بعد فات ذالقربی حقہ سے بھی صلہ رحمی کی ترغیب مقصود ہے کہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے تم اگر اہل قرابت کے ساتھ سلوک اور احسان کروگے تو اللہ تعالیٰ تمہارے رزق میں وسعت دے گا اس آیت میں بھی گو مخاطب خاص رسول اللہ ﷺ ہی ہیں لیکن فی الحقیقت خطاب عام ہے۔ غرض یہ کہ اس آیت کے شان نزول میں شیعوں نے جو ھبہ فدک کی یہ روایت نقل کی ہے وہ سراسر دروغ بےفروغ ہے۔ دشمنان دین نے آنحضرت ﷺ پر دنیا طلبی کی تہمت لگانے کے لیے گھڑی ہے کہ اپنی بیٹی کو دینے کے لیے جبرئیل (علیہ السلام) کا حوالہ دے دیا تاکہ اس ہبہ پر کوئی اعتراض نہ کرے استغفر اللہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ حکم چہارم : ممانعت از اسراف اور اپنی دولت کو ناحق اور بےجا نہ اڑا بیشک اپنے مال کو بیجا اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں اس لیے کہ اسراف فعل شیطانی ہے پس جس نے اسراف اور فضول خرچی کی وہ شیطان کے بھائیوں میں سے ہوگیا اور شیطان اپنے پروردگار کا ناشکرا ہے مال و دولت اللہ کی نعمت ہے راہ حق میں اس کو خرچ کرنا یہ اس کا شکر ہے اور ناحق خرچ کرنا یہ اس کی ناشکری ہے۔ حکم پنجم : تلطف درجواب سائل اور اگر تجھ سے اقرباء اور احباب سوال کریں اور اس وقت تیرے پاس دینے کو کچھ نہ ہو اور تو اپنے پروردگار کے فضل و رحمت کے انتظار میں جس کے ملنے کی تجھے امید ہو اور مجبوری کی وجہ سے تو ان غریبوں سے تغافل برتے تو ایسی حالت میں ان کے ساتھ نرمی اور حسن اخلاق سے بات کر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے پاس کوئی سائل آکر سوال کرتا ہے اور اس وقت اس کے پاس کچھ دینے کو نہیں ہوتا مگر اسے کہیں سے مال آنے کی امید ہوتی ہے ایسی صورت میں خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ نرمی سے ان کو جواب دو کہ اس وقت میرے پاس کچھ نہیں پھر آنا “۔ حکم ششم : اقتصاد و اعتدال در انفاق مال اور مال خرچ کرنے میں اعتدال کو ملحوظ رکھو نہ تو اپنے ہاتھ کو گردن سے بندھا ہوا رکھ یعنی نہ تو غایت بخل کی وجہ سے بالکل روک لو گویا کہ ہاتھ گردن سے بندھا ہوا ہے کسی کو کچھ دینے کے لیے کھلتا ہی نہیں اور نہ ہاتھ کو پورا ہی کھول دو کہ جوش میں آکر سب کچھ دے ڈالو اور آئندہ کا کچھ ہوش نہ رہے۔ پھر تو خالی ہاتھ گھر میں بیٹھا رہ جائے ملامت کیا ہوا درماندہ اور محتاج یعنی اگر بخل کی وجہ سے ہاتھ کو بالکل بند کرلیا تو ” ملوم “ ہوگا سب لوگ تجھے ملامت کریں گے اور تیری بھلائی سے ناامید ہوجائیں گے اور اگر ہاتھ کو کشادہ کردیا تو ” محسور “ یعنی درماندہ اور عاجز ہو کر بیٹھ جائے گا۔ ” حسر “ اصل میں اس چوپایہ کو کہتے ہیں کہ جو چلنے سے عاجز ہو کر بیٹھ رہا ہو اسی طرح جس نے اپنا کل مال خرچ کر ڈالا وہ بھی اسی سواری کے مشابہ ہے جو تھک کر بیٹھ رہا۔ منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا حدیث میں ہے کہ جو خرچ میں درمیانی چال چلے گا وہ کبھی مفلس نہ ہوگا۔ بیشک تیرا پروردگار کشادہ کرتا ہے رزق جس کے لیے چاہتا ہے اور تنگی کرتا ہے جس پر چاہے اس میں حکمتیں اور مصلحتیں ہیں مطلب یہ ہے کہ قبض اور بسط اللہ ہی کو زیبا ہے اس کے خزانے خالی نہیں ہوتے رہے بندے سو ان پر حکم کے مطابق میانہ روی واجب ہے بیشک اللہ اپنے بندوں کے باطن سے باخبر ہے اور ان کے ظاہر کو دیکھنے والا ہے وہ اپنی حکمت اور مصلحت سے جس بندہ کو چاہتا ہے تو انگر بنا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے فقیر بنا دیتا ہے۔ اللہ کو معلوم ہے کہ کون امیری کے لائق ہے اور کون فقیری کے لائق ہے تم بندے ہو تمہیں مصلحتوں اور حکمتوں کا علم نہیں لہٰذا تم کو جو میانہ روی کا حکم دیا گیا ہے تم اس کی تعمیل کرو۔ حضرت شاہ عبد القادر فرماتے ہیں یعنی ” محتاج کو دیکھ کر بےتاب نہ ہوجاؤ اس کی حاجت تیرے ذمہ نہیں اللہ کے ذمے ہے “ انتہیٰ کلامہ۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے ہاتھ روکنے سے تم غنی اور دوسرا فقیر نہ ہوجائے گا اور تمہاری سخاوت سے تم فقیر اور دوسرا غنی نہیں بن جائے گا امیر بنانا اور غریب بنانا سب اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے تمہارا کام میانہ روی ہے اللہ تعالیٰ نے تم کو جو حکم دیا وہی تمہارے حق میں بہتر ہے تم اللہ کے حکم پر چلو اور اپنی فکر کرو اور اپنے انجام کو سوچو۔ حکم ہفتم : ممانعت از قتل اولاد اور اے مشرکو ! افلاس کے ڈر سے اپنی اولاد کو مت قتل کرو ہم ہی تو ان کو روزی دیتے ہیں اور تم کو بھی رزق دینے والے ہیں نہ کہ تم۔ پھر تم اس فکر میں کیوں پڑے بیشک اولاد کا قتل کرنا بہرحال بہت بڑا گناہ ہے عرب کے مشرک اپنی لڑکیوں کو فقر کے خوف سے زندہ دفن کردیتے تھے۔ بعض عار کی وجہ سے اور بعض اس خیال سے کہ انہیں کھانے کو کہاں سے آئے گا اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ روزی رساں اللہ تعالیٰ ہے تم یہ بےرحمی کا کام نہ کرو۔ حکم ہشتم : ممانعت ازز نا اور زنا کے قریب بھی مت جاؤ بیشک وہ بڑی بےحیائی ہے جس کی قباحت اور شناعت بالکل ظاہر ہے اور بہت بری راہ ہے۔ زنا سے حسب و نسب گڑبڑ ہوجاتے ہیں اور طرح طرح کی عداوتیں اور لڑائیاں اور جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں اور یہ سب راستے زنا سے نکلے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں یعنی ” اگر یہ راہ نکلی تو ایک شخص دوسرے کی عورت پر نظر کرے تو کوئی دوسرا اس کی عورت پر نگاہ کرے گا “۔ انتہیٰ ۔ غرض یہ ہے کہ زنا بہت برہ راہ ہے خواہش پرستوں کی راہ ہے اللہ نے یہ حکم دیا کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ مطلب یہ ہے کہ کسی اجنبی عورت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھو اجنبی عورت کو بدون عذر شرعی کے دیکھنا زنا کے قریب جانا ہے۔ زنا سے حسب و نسب غلط ملط ہوجاتے ہیں یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ یہ لڑکا کس کا ہے پھر یہ کہ زنا سے جو اولاد ہوتی ہے اس کی پرورش کا کوئی کفیل نہیں ہوتا۔ زنا سے انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رہتا جس طرح حیوان جس مادہ سے چاہتا ہے اپنی خواہش پوری کرلیتا ہے اس طرح زنا کار بھی جس عورت سے چاہتا ہے اپنی مستی نکال لیتا ہے جس طرح جانور کو نکاح کی ضرورت نہیں اسی طرح زانی کو بھی نکاح کی ضرورت نہیں اور شیعوں کا متعہ بھی زنا کی ایک قسم ہے جیسا کہ سورة نساء کی تفسیر میں اس کی مفصل بحث گزر چکی ہے۔ حکم نہم : ممانعت از قتل ناحق اور مت قتل کرو اس جان کو جس کو اللہ نے محترم بنایا ہے مگر حق کے ساتھ اور قتل حق کی تین صورتیں ہیں۔ اول یہ کہ قاتل کو قتل کی سزا میں بطور قصاص قتل کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ زانی محصن کو زنا کی سزا میں قتل کیا جائے۔ تیسرے مرتد کو ارتداد کی سزا میں قتل کیا جائے یعنی جو دین اسلام سے مرتد ہوجائے وہ بھی واجب القتل ہے ان تین صورتوں کے سوا مسلمان کا قتل کرنا حرام ہے اور جو شخص ظلم سے ناحق مارا جائے تو اس کے وارث کو ہم نے قاتل پر غلبہ دیا ہے یعنی ولی مقتول کو اختیار ہے کہ چاہے قاتل سے قصاص لے لے یا دیت لے لے یا معاف کر دے لیکن اس وارث کو چاہئے کہ قتل میں زیادتی نہ کرے یعنی صرف قاتل ہی کو قتل کرے ایک کے بدلے میں دو کو قتل نہ کرے اور نہ مثلہ کرے اور نہ غیر قاتل کو قتل کرے بیشک اس ولی مقتول کی ہماری طرف سے مدد ہوتی ہے مظلوم کی حق تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی ہے اور حکام حکومت کو بھی حکم ہے کہ اس کی مدد کریں جہاں تک ممکن ہو مظلوم کا حق دلائیں رشوت اور سفارش سے کسی مظلوم کے دعوے کو خارج نہ کریں۔ حکم دہم : ممانعت از تصرف ناحق درمال یتیم اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جاؤ مگر اس طریقہ سے جو بہتر اور یتیم کے لیے مفید اور نافع ہو یعنی اصلاح اور حفاظت کو ملحوظ رکھو خردبرد کی نیت سے اس کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے اس وقت اس کا مال اس کے حالے کر دو ۔ حکم یاز دہم : ایفائے عہد اور عہد کو پورا کرو بیشک عہد کی بابت قیامت کے دن پوچھا جائے گا کہ عہد پورا کیا تھا یا توڑ ڈالا تھا سب سے پہلے عہد عہد الست ہے اور اس کے بعد ایمان ہے کہ وہ بھی ایک قسم کا عہد ہے کہ اللہ کے اوامر کو بجا لاؤں گا اور منہیات کو ترک دوں گا اور نذر بھی ایک قسم کا عہد ہے اور مخلوق سے جو عہد کیا ہے اسے بھی پورا کرو بشرطیکہ وہ عہد شریعت کے مطابق ہو اور کسی معصیت پر وہ عہد نہ کیا ہو غرض یہ کہ لفظ عہد عام ہے خالق سے ہو یا مخلوق سے اس کا ایفاء واجب ہے۔ حکم دوازدہم، ایفائے کیل اور جب دوسرے کے لیے ماپو تو پورا ماپو۔ مطلب یہ ہے کہ ناپ میں کمی نہ کرو اپنے لیے کم ماپنے میں کوئی حرج نہیں۔ حکم سیز دہم، ایفائے وزن اور جب دوسرے کے لیے وزن کرو تو سیدھی ترازو سے تو لو جس میں کجی اور جھکاؤ نہ ہو یعنی پورا تولو یہی حکم یعنی پوری ناپ تول تمہارے لیے بہتر ہے خیانت میں برکت نہیں اور دنیا و آخرت میں انجام کے اعتبار سے نہایت عمدہ ہے اور بہت خوب ہے پورا تولنا اور پورا ناپنا دنیا ہی میں نیک نامی کا ذریعہ ہے۔ حکم چہارم دہم، عدم جواز عمل بر امر نامعلوم یعنی جب تک کوئی بات پوری طرح معلوم نہ ہوجائے اس پر حکم لگانا جائز نہیں ولا تقف مالیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفؤاد کل اولئک کان عنہ مسؤلا اور جس بات کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ یعنی جس بات کی تجھے تحقیق اور خبر نہیں اس کے پیچھے نہ لگ بغیر سنے اور بغیر دیکھے اور بغیر سوچے سمجھے کوئی حکم نہ لگاؤ بیشک آنکھ، کان اور دل قیامت کے دن ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہوگی بندہ سے بھی ان اعضاء کے متعلق سوال ہوگا اور خود ان اعضاء سے بھی پوچھا جائے گا کہ تو نے کیا سنا اور کیوں سنا اور کیا دیکھا اور کیوں دیکھا اور دل سے پوچھیں گے کہ تو نے کیا جانا اور کیوں جانا مطلب یہ ہے کہ جس بات کی تحقیق نہ ہو اس کے متعلق دعویٰ کرکے یوں نہ کہے کہ یوں ہے اور بےتحقیق گواہی نہ دے۔ حکم پانز دہم، ممانعت از رفتار تکبر و تبختر اور مت چل تو زمین پر اتراتا ہوا اور اکڑتا ہوا یعنی ایسی چال مت چل جس سے بڑائی اور فخر معلوم ہو بلکہ نرم رفتار چلتے جس سے تواضع معلوم ہو تحقیق تو اپنی اس مفردورانہ رفتار سے زمین کو ہرگز نہیں پھاڑ سکتا کہ سوراخ کرکے اس کی انتہا کو پہنچ جائے اور بلندی اور لمبائی میں ہرگز پہاڑوں کو نہیں پہنچ سکے گا مطلب یہ ہے کہ اس مغرورانہ رفتار سے پہاڑوں کی بلندی کو نہیں پہنچ سکتا تمہارا یہ تکبر نہ زمین برداشت کرسکتی ہے اور نہ پہاڑ برداشت کرتے ہیں پھر کیوں اکڑ کر چلتے ہو یہ سب ممنوعات ہیں جن سے ممانعت کی گئی ہے ان میں سے ہر ایک بری بات ہے تیرے پروردگار کے نزدیک اور نہایت ناپسندیدہ ہے۔ یہاں تک اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کا ذکر فرمایا وہ پچیس ہیں جن میں سے بعض مامورات ہیں اور بعض ممنوعات و منہیات ہیں یعنی بعض امور وہ ہیں جن کی بجا آوری کا اللہ نے حکم دیا اور بعض امور وہ ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے ممانعت فرمائی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اختصار کے ساتھ ان سب کو شمار کردیا جائے تاکہ سمجھنے اور یاد رکھنے میں آسانی ہو۔ (اول) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ (دوم) خالص اللہ کی عبادت کرو (سوم) غیر اللہ کی عبادت نہ کرو۔ (چہارم) والدین کے ساتھ احسان کرو (پنجم) والدین کے سامنے اف نہ کرو (ششم) ان کو نہ جھڑکو اور نہ ان کے سامنے آواز بلند کرو۔ (ہفتم) ان سے ادب سے بات کرو جس سے ان کی تعظیم و تکریم نکلتی ہو۔ (ہشتم) ان کے سامنے تواضع اور عاجزی سے پیش آؤ۔ (نہم) ان کے لئے دعائے رحمت و مغفرت کرو۔ (دہم) قرابتداروں کے حقوق ادا کرو (یازوہم) مسکین کا حق ادا کرو) دوازدہم) ابن السبیل کا حق ادا کرو۔ (سیزدہم) اسراف اور فضول خرچی سے بچو۔ (چہارر دھم) اہل حاجت اگر تم سے کچھ درخواست کریں تو جواب دیں فولا میسورا یعنی نرم بات کہو۔ یعنی زبان سے کوئی سخت بات نہ نکالو جو ان کی دل آزاری کا سبب بنے (پانزدہم) اپنے ہاتھ کو گردن سے نہ باندھ لو یعنی بخیل نہ بن جاؤ (شازدہم) ہاتھ کو ایسا کشادہ نہ کرو کہ جوش میں آکر سب کچھ دے ڈالو اور پھر پچھتاؤ۔ (ہفتدھم) کسی بےگناہ کو نہ قتل کرو۔ (بستم) قتل اور قصاص میں حد سے تجاوز نہ کرو۔ (بست ویکم) مال یتیم ناحق مت کھاؤ۔ (بست ودوم) عہ کو پورا کرو (بست دسوم) ناپ تول کو پورا کرو۔ (بست و چہارم) اس چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہیں (بست و پنجم) زمین پر اتراتے ہوئے اور اکڑتے ہوئے نہ چلو۔
Top