Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 4
وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا
وَقَضَيْنَآ : اور صاف کہ دیا ہم نے اِلٰى : طرف۔ کو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل فِي الْكِتٰبِ : کتاب لَتُفْسِدُنَّ : البتہ تم فساد کروگے ضرور فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مَرَّتَيْنِ : دو مرتبہ وَلَتَعْلُنَّ : اور تم ضرور زور پکڑوگے عُلُوًّا كَبِيْرًا : بڑا زور
اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل سے کہہ دیا تھا کہ تم زمین میں دو دفعہ فساد مچاؤ گے اور بڑی سرکشی کرو گے
ذکر انجام مخالفت و معصیت برائے ترہیب عبرت ال اللہ تعالیٰ : وقضینا الی بنی اسرائیل فی الکتاب .... الیٰ .... وجعلنا جھنم للکفرین حصیرا۔ (ربط) گزشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے انعام کا ذکر فرمایا کہ ان کی ہدایت کیلئے توریت نازل کی مگر وہ بجائے رشد و ہدایت کے فتنہ و فساد میں جاگرے جس کا نتیجہ اور انجام یہ ہوا کہ دنیا ہی میں طرح طرح کی بلاؤں اور مصیبتوں میں مبتلا ہوئے۔ اب ان آیات میں احکام خداوندی کی مخالفت کرنے والوں کے برے انجام کو بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ عبرت پکڑیں کہ جو شخص اللہ سے باغی ہوجاتا ہے اللہ دنیا ہی میں اس کے دشمن کو اس پر مسلط کردیتا ہے۔ ان آیات میں اجمالا دو واقعوں کا بیان ہے کہ بنی اسرائیل نے دو مرتبہ سرکشی کی اور دونوں مرتبہ سخت قتل اور غارت اور ذلت اور مصیبت میں مبتلا ہوئے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور ہم نے کتاب توریت یا کسی دوسری آسمانی کتاب میں فیصلہ کردیا اور بنی اسرائیل کو اس سے آگاہ کردیا کہ تم سرزمین شام میں دو مرتبہ ضرور فتنہ اور فساد برپا کرو گے کہ حدود شریعت سے باہر نکل جاؤ گے اور اعلانیہ احکام توریت کی خلاف ورزی کرو گے اور بڑا اودھم مچاؤ گے اور لوگوں پر ظلم و ستم صگاؤ گے خوب سمجھ لو کہ دونوں مرتبہ تم سخت سزا میں مبتلا ہوجاؤ گے لتفسدن میں حقوق اللہ کے ضائع کرنے کی طرف اشارہ ہے مطلب یہ ہے کہ ہم نے توریت میں یا کسی دوسری آسمانی کتاب میں یہ پیشین گوئی کردی تھی کہ بنی اسرائیل ملک میں دو مرتبہ فتنہ اور فساد برپا کریں گے اور ظلم و ستم کا شیوہ اختیار کریں گے تو پھر ہر مرتبہ ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے دردناک سزا کا مزہ چکھنا پڑے گا جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ پھر جب ان دو وعدوں میں سے پہلے وعدہ کا وقت آئے گا تو ہم تمہاری سزا اور سرکوبی کے لیے اپنے ایسے بندے کھڑے کریں گے جو سخت لڑنے والے ہوں گے سو وہ تمہارے گھروں میں گھس پڑیں گے اور ڈھونڈ کر تم کو قتل کریں گے اور گھر گھر تلاش کرکے تم کو گرفتار کریں گے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک اس سے مراد نصر بابلی اور اس کا لشکر ہے جنہوں نے بنی اسرائیل کو تہس نہس کردیا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے جالوت مراد ہے جو بعد میں داؤد (علیہ السلام) کے ہاتھ سے ہلاک ہوا۔ نکتہ : عبادا لنا (ہمارے بندے) یہ اضافت تشریف و تکریم کے لیے نہیں اور یہ مطلب نہیں کہ یہ لوگ ہمارے خاص بندے ہوں گے بلکہ یہ اضافت تخلیف وتکوین ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کے خاص ظالم بندے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اسی لیے پیدا کیا ہے یعنی مغرورین اور متکبرین پر مسلط کرنے کے لیے پیدا کیا اور ان ظالم بندوں سے بخت نصر اور اس کا لشکر مراد ہے اور یہ وعدہ پورا ہونا ہی تھا سو وہ پورا ہوا پھر جب تم نادم اور تائب ہو کر اپنی شرارتوں سے باز اجاؤ گے تو پھر تم کو ہم ان پر غلبہ دے دیں گے تم گا لب ہوگے وہ مغلوب ہوں گے اور قسم قسم کے مالوں سے اور بیٹوں سے تمہاری مدد کریں گے اور تمہیں بڑا جتھے والا کردیں گے اور تمہاری ذلت مبدل بہ عزت ہوجائے گی اور تمہاری قلت مبدل بہ کثرت ہوجائے گی اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ فتح و نصرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ خلافت میں پورا ہوا یا کسی اور بادشاہ کے زمانے میں پورا ہوا واللہ اعلم۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دوبارہ سلطنت اور شوکت عطا کی جب تک اللہ کی اطاعت اور شریعت کے متعابعت قائم رہے سلطنت اور اقتدار قائم رہا۔ اہل دولت کو چاہئے کہ مال و دولت اور شان و شوکت پر مغرور نہ ہوں یہ دنیا آنی اور فانی ہے اس کی طاہری ٹیپ ٹاپ کو دیکھ کر خدا کے قہر اور انتقام کو نہ بھولئے نہ معلوم خدا تعالیٰ کس وقت پکڑلے اور بنی اسرائیل کی طرح ذلیل و خوار نہ کرے آج کل بیت المقدس اور بلاد عربیہ اور ہندوستان میں جو مسلمان کفار کے ہاتھ سے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر کھلم کھلا احکام شریعت کی خلاف ورزی پر اتر آتے ہیں اللہم احفظنا من ذلک آمین۔ اور کتاب میں بطور فصیحت یہ بھی لکھا ہے کہ اگر تم پہلے واقعہ سے سبق لے کر آئندہ نیکی کرو گے تو اپنے ہی نفع کیلئے نیکی کرو گے اس بھلائی کا فائدہ تمہیں ہی پہنچے گا اور اگر برائی کرو گے تو اس کا وبال بھی تمہاری جانوں کیلئے ہوگا مطلب یہ ہے کہ ہمارا نہ کوئی نفع ہے اور نہ کوئی ضرر جیسا کرو گے ویسا بھروگے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ آگے اس کا بیان ہے کہ جو خدا سے باغی اور طاغی ہوئے اللہ نے ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کردیا اور پھر اس ظالم نے ان کو خوب ذلیل و خوار کیا جزاء وفاقا وما ربک بظلام للعبید۔ پھر جب دوسرے وعدہ کا وقت آئے گا یعنی جب تم دوبارہ فتنہ برپا کرو گے اور شریعت عیسویہ کا خلاف کرو گے اور پہلی مرتبہ کی سزا بھلا کر سرکشی کرو گے اور اس طرح دوسری بار سزا کی میعاد آجائے گی تو حسب سابق پھر دوبارہ ہم تم پر اپنے ظالم بندوں کو مسلط کریں گے۔ تاکہ وہ تم کو مار مار کر تمہارے منہ بگاڑیں اور تاکہ دوبارہ مسجد بیت المقدس میں گھس آئیں۔ جیسا پہلی دفعہ گھس آئے تھے اور تاکہ جس چیز پر ان کا قابو چلے اس کو تہس نہس اور نیست و نابود کردیں پورا نیست و نابود کرنا یعنی تہس نہس کرنے میں کسر نہ چھوڑیں۔ پہلی بار بنی اسرائیل نے شریعت موسویہ کی مخالفت کی اللہ کریم نے ان پر بخت نصر کو مسلط کردیا جس نے مسجد اقصیٰ کو خراب کیا اور توریت کو جلایا اور ہزاروں بنی اسرائیل کو قتل کیا اور ہزاروں کو لونڈی اور غلام بنایا یہ پہلی سختی اور سزا تھی یہ اللہ کا پہلا وعدہ تھا جو پورا ہوا دوسری بار بنی اسرائیل نے شریعت کیں اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کی سزا دی کہ طیطوس رومی کو کھڑا کیا جس نے بنی اسرائیل کو تباہ اور برباد کیا اور مسجد اقصیٰ کو خراب اور ویران کیا۔ یہ دوسری بار سزا اور دوسری سختی تھی جس حسب وعدہ ان کو پہنچی۔ یہ اللہ کا دوسرا وعدہ تھا جو پورا ہوا اور حق تعالیٰ نے اس کتاب میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اے بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ ان دو عقوبتوں اور ان دو سختیوں کے بعد بار دیگر تم پر رحم کرنا چاہتا ہے وہ یہ کہ اس دوسری عقوبت نہ کرنا بلکہ شریعت محمدیہ کا اتباع کرنا امید ہے کہ عنقریب تمہارا پوردگار تم پو رحم کرے۔ یعنی اس کتاب میں یہ بھی بتلا دیا تھا کہ اگر اس دوسری سختی اور دوسری مصیبت کے بعد بزمانہ اسلام اپنی شرارتوں سے توبہ کرلو تو امید ہے کہ اللہ تم پر رحم فرما دے اور پھر تمہیں عزت اور نعمت دے اور ذلت اور مصیبت سے تم کو محفوظ رکھے عسیٰ کے معنی امید کے ہیں اور امید سے وعدہ مراد ہے اور اگر تم پھر تیسری بار شرارت کی طرف لوٹے تو ہم پھر تیسری بار سختی اور سزا کی طرف لوٹیں گے مطلب یہ ہے کہ گزشتہ دو عقوبتوں کے بعد اگر تیسری بار پھر تم نے سر اٹھایا تو ہم پھر تیسری بار وہی کام کریں گے جو ہم اس سے پہلے دو مرتبہ کرچکے ہیں۔ چناچہ بنی اسرائیل نے تیسری بار حضور پر نور ﷺ کے وقت میں پھر شرارتیں کیں آپ ﷺ کی تکذیب کی اور آپ ﷺ کے خلاف سازشیں کیں اور حسن سابق کفر اور غرور کی طرف عوف کیا اور آنحضرت ﷺ کی جو نعمت سور صفت توریت اور انجیل میں مذکور تھی اس کو چھپایا اور آپ ﷺ کے قتل کے درپے ہوئے اللہ تعالیٰ نے پھر تیسری بار ان کی عقوبت کی طرف عود فرمایا جس کی سزا میں وہ قتل اور جلاوطنی کے عقوبت میں مبتلا ہوئے بنو قریظہ کو حضور پر نور ﷺ نے قتل کیا اور بنو نضیر کو جلا وطن کیا اور باقیوں پر جزیہ لگایا اس طرح اللہ کا یہ تیسرا وعدہ بھی پورا ہوا یہ سزا تو ان کو دنیا میں ملی اور ہم نے دوزخ کو کافروں کے لیے دائمی جیل خانہ بنایا ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور نکلنے پر قادر نہ ہوں گے۔ حق جل شانہ نے ان آیات میں دو واقعوں کی طرف اشارہ فرمایا جن کا تعین بہت مشکل ہے کتب تواریخ میں بنی اسرائیل کی تباہی اور بربادی کے بہت سے واقعات مذکور ہیں اس لیے تعین مشکل ہے ہم نے اپنی اس تفسیر میں امام رازی قدس اللہ سرہ کی پیروی کی اور جو قول ان کے نزدیک مختار تھا اسی کو اختیار کیا کہ پہلے وعدہ میں عبادا لنا اولی باس شدید سے بخت نصر اور اس کا لشکر مراد ہے اور اسی کو شیخ الاسلام ابو سعود (رح) نے اور علامہ آلوسی (رح) نے اختیار کیا ہے بہرحال مقصود یہ ہے کہ مال و دولت اور حکومت و سلطنت اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے لیکن لوگ جب اللہ کی نعمت کو اس کی معصیت کا ذریعہ بنالیں اور کھلم کھلا اس کی نافرمانی اور سرکشی اور ستم رانی پر اتر آئیں تو اللہ تعالیٰ کبھی انتقام بھی لے لیتے ہیں اور ظلم و ستم کی پاداش میں ظالموں پر طالموں ہی کو مسلط کردیتے ہیں ظلم کی سزا ظلم ہے ظالم کو ظالم کے ہاتھ سے پٹواتے ہیں کذالک نولی بعض الظلمین بعضا بما کانوا یکسبون۔
Top