Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 128
وَ اِنْ كَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَهٗ١ۖۗ وَ اِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِیْلًا
وَاِنْ
: اور تحقیق
كَادُوْا
: وہ قریب تھا
لَيَفْتِنُوْنَكَ
: کہ تمہیں بچلا دیں
عَنِ
: سے
الَّذِيْٓ
: وہ لوگ جو
اَوْحَيْنَآ
: ہم نے وحی کی
اِلَيْكَ
: تمہاری طرف
لِتَفْتَرِيَ
: تاکہ تم جھوٹ باندھو
عَلَيْنَا
: ہم پر
غَيْرَهٗ
: اس کے سوا
وَاِذًا
: اور اس صورت میں
لَّاتَّخَذُوْكَ
: البتہ وہ تمہیں بنا لیتے
خَلِيْلًا
: دوست
اور جس دن وہ سب (جن وانس) جو جمع کریگا (اور فرمائے گا کہ) اے گروہ جناّت تم نے انسانوں سے بہت (فائدے) حاصل کیے۔ تو جو انسانوں میں ان کے) (دوست دار ہوں گے وہ کہیں گے کہ پروردگار ہم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے اور (آخر) اس وقت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر کیا تھا۔ خدا فرمائے گا (اب) تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ ہمیشہ اس میں (جلتے) رہو گے مگر جو خدا چاہے۔ بیشک تمہارا پروردگار دانا اور خبردار ہے۔
قال اللہ تعالیٰ ویوم یحشرھم جمیعا۔۔۔ الی۔۔۔ انہ لا یفلح الظلمون (ربط) گذشتہ آیات میں مومن اور کافر کی مثال بیان کی اور یہ بتلایا کہ یہ کافر جو مسلمانوں سے مجادلہ کرتے ہیں اور ان سے جھگڑتے ہیں یہ سب شیاطین کے اغواء سے ہے اب ان آیات میں یہ بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن شیاطین جن سے باز پرس ہوگی کہ تم نے بہت سے انسانوں کو گمراہ کیا اس کے بعد جو آدمی ان کے مطیع تھے وہ اس کا جواب دیں گے اور بعد اذان شیاطین جن وانس دونوں کے لیے سزا کا اعلان کیا جائے گا چناچہ فرماتے ہیں اور جس دن خدا تعالیٰ جن وانس سب کو یکجا جمع کرے گا تاکہ ایک دوسرے کے سوال جواب کو سن سکے اس دن خدا تعالیٰ سب کو جمع کر کے یہ کہے گا اے گروہ جنات یعنی شیاطین تم نے انسانوں کے گمراہ کرنے میں بڑا حصہ لیا اور بہتوں کو مکروفریب سے (اس لفظ سے گذشتہ آیت عذاب شدید نما کانوا یمکرون) کے ساتھ ربط کی طرف اشارہ ہے) بہکا کر اپنے تابع کرلیا اور اس طرح اپنی بڑی جماعت بنالی اس آیت میں جنات کو اس لیے خطاب فرمایا کہ مکروفریب میں اصل وہی ہیں اور آدمیوں میں سے جو ان کے دوست ہیں ان سے بھی باز پرس ہوگی وہ اقرار کریں گے اور یہ کہیں گے اے پروردگار بیشک ہم قصور وار ہیں ہم نے دنیا میں ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا یعنی جنوں نے ادمیوں سے فائدہ اٹھایا اور آدمیوں نے جنوں سے جنوں نے ادمیوں سے یہ فائدہ اٹھایا کہ آدمیوں نے ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کی اور ان کی سرداری مانی اور آدمیوں نے جنوں سے یہ فائدہ اٹھایا کہ جنوں نے ادمیوں کے لیے نفسانی شہوات اور لذات کے عجیب عجیب طریقے تلقین کیے اور ان کی خواہشات کو مزین اور مستحسن کر کے ان کو دلدادۂ شہوات بنایا اس طرح ہم نے خوب مزے اڑائے اور شہوات حاضرہ کو لذات غائبہ پر ترجیح دی حتی کہ ہم نے خواہشات کے حصول اور ان کی جدوجہد میں بےانتہا مشقتیں برداشت کیں یہ تو ہم نے جنات سے فائدہ اٹھایا اور جنات نے ہم سے یہ فائدہ اٹھایا کہ انہوں نے یہ دیکھا کہ انسانوں نے ہمیں اپنا سردار بنالیا ہے اور یہ سب ہمارے حکم اور اشارہ پر دوڑے چلے جارہے ہیں ہمارا کہنا چل رہا ہے اور انبیاء کرام اور ان کے وارثوں کی ہدایات اور ارشادات سے آنکھیں بند کرلی ہیں اور اسی طرح ہم دنیا میں مست اور سرشار رہے یہاں تک کہ ہم اس میعاد اور مدت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر کی تھی یعنی قیامت آگئی جس کو ہم جھٹلاتے تھے اور اب وہ وقت ہمارے سامنے آگیا ہے جس کے ہم انکاری تھے اور آنکھوں سے پرد اٹھ گیا اب جو حکم صادر فرمایا جائے وہ آپ کی مرضی ہے اس وقت حق تعالیٰ کفار جن اور کفار انس دونوں سے یہ فرمائیں گے کہ جب تم بلا تو یہ کیے مدت معینہ پورا کر کے ہمارے روبرو پیش ہوئے تو تم سب کا ٹھکانہ دوزخ ہے تابع اور متبوع خادم اور مخدوم سب دوزخ میں بھی اکٹھے ہی رہیں گے جس طرح دنیا میں اکٹھے تھے تاکہ جس طرح دنیا میں باہمی اجتماع ہو موجب لذت و فرحت تھا اسی طرح دوزخ میں سب کا باہمی اجتماع موجب ذلت و حسرت ہو اور اس آگ کے ٹھکانہ میں تم سب ہمیشہ رہو گے جس سے خلاصی اور رہائی کے کوئی سبیل نہیں مگر یہ کہ خدا ہی کسی کو نکالنا چاہے تو وہ دوسری بات ہے مطلب یہ ہے کہ بیشک کافروں کے لیے دوزخ کا دائمی اور ابدی عذاب ہے مگر وہ اس کے چاہے یعنی اس کے ارادہ اور مشیت پر موقوف ہے وہ جب چاہے موقوف بھی کرسکتا ہے لیکن وہ کافروں کے لیے دائمی اور ابدی عذاب چاہ چکا ہے جس کی خبر اس نے اپنے قرآن کی بہت سی ایتوں میں دیدی اور ہر زمانہ میں پیغمبروں کی زبانی یہ خبر دی جا چکی ہے کہ کافر ہمیشہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے وہ کبھی بھی دوزخ سے نہیں نکل سکیں گے خلاصۂ کلام یہ کہ اس استثناء سے مقصود مبالغہ ہے کہ تم ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں پڑے رہو گے اور تمہارا خلود کبھی کتم نہ ہوگا مگر یہ کہ اللہ ہی چاہے تو پھر اس کا ختم ہونا ممکن ہے خلاصہ مطلب آیت کا یہ ہے کہ جاؤ تم سب کا ٹھکانا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہے تم ہمیشہ اس میں رہو گے مگر جب اللہ چاہے تو وہ نکال بھی سکتا ہے لیکن وہ کیوں چاہے گا کہ تم جیسے خدا اور رسول کے جھٹلانے والوں کو جہنم سے نکالے کافروں کے لیے دائمی عذاب کا حکم قطعی صادر ہوچکا ہے بیشک تیرا پروردگار حکمت والا جاننے والا ہے اس کا کوئی کام علم و حکمت سے خالی نہیں کفار کے دائمی عذاب میں بھی حکمت ہے اسے تمام جرائم کا علم ہے جس درجہ کا جرم ہے اسی درجہ کی سزا ہے جو سزا یعنی دائمی عذاب حق تعالیٰ نے ان کے لیے تجویز فرمائی ہے وہ نہایت مناسب ہے اور عین حکمت اور عین صواب ہے تمام اہل سنت والجماعت کا اس پر اجماع ہے کہ اہل ایمان کا ثواب اور کافروں کا عذاب دائمی اور ابدی ہے اہل ایمان ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور کافر ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اہل ایمان کا ثواب اور کافروں کا عذاب کبھی ختم نہ ہوگا۔ اور فرقۂ جہمیہ کا مذہب یہ ہے کہ چند روز کے بعد جنت اور جہنم دونوں فنا ہوجائیں گے ابن تیمیہ حنبلی (رح) تعالیٰ اور ان کے شاگرد خاص ابن قیم (رح) تعالیٰ کا مذہب یہ ہے کہ جنت کا ثواب تو دائمی ہے اہل ایمان تو ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے (جیسا کہ اہلسنت والجماعت کا مذہب ہے) مگر دوزخ کا عذا دائمی نہیں صرف ایک مدت دراز تک کافروں پر عذاب رہے گا جس کو اللہ تعالیٰ نے خلود سے تعبیر کیا ہے مگر ایک عرصہ کے بعد خدا کے رحم وکرم سے یہ عذاب ختم ہوجائے گا (جیسا کہ فرقہ جہمیہ کا مذہب ہے) ابن تیمیہ (رح) تعالیٰ کا یہ قول سراسر شاذ ہے اور اہل سنت والجماعت کے اجماع کے بالکل خلاف ہے بلکہ صریح آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کے خلاف ہے جیسا کہ ہم عنقریب واضح کریں گے غرض یہ کہ ثواب اور عقاب کے بارے میں ابن تیمیہ (رح) تعالیٰ کا یہ قول اور یہ مسلک نصف سنی ہے اور نصف جہمی ہے جو صراحۃ نصوص قطعیہ کے خلاف ہے اور وہ نصوص اس درجہ صریح اور واضح ہیں کہ ان میں تاویل کی بھی گنجائش نہیں اور ابن تیمیہ (رح) تعالیٰ اور ابن قیم (رح) تعالیٰ نے جو ضعیف اور موضوع روایتیں اور سلف کے بعض مجمل اور محتمل اقوال اس بارے میں پیش کیے ہیں وہ صریح نصوص قرآنیہ اور احادیث نبویہ کے مقابلہ میں نہیں غھہر سکتیں لہٰذا ان کے جواب دینے کی بھی چنداں ضرورت نہیں۔ آیات قرآنیہ پہلے پارہ میں یہ آیت گذر چکی ہے (1) بلی من کسب سیئۃ واحاطت بہ خطیئتہ فاولئک اصحب النار ھم فیہا خلدون اور یہود بےبہبود کا یہ قول بھی گذر چکا ہے وقالوا لن تمسنا النار الا ایاما معدودۃ لہٰذا جو شخص یہ کہتا ہے کہ چند روز کے بعد جہنم فنا ہوجائے گی یا جہنم کا عذاب ختم ہوجائے گا سو اس کا یہ قول یہود کے اس قول کے مشابہ ہے جو یہ کہتے تھے کہ ہم کو صرف چند روز کے لیے آگ میں رہنا ہوگا جتنے روز بنی اسرائیل نے گو سالہ کی پرستش کی صرف اتنے دن عذاب میں رہنا ہوگا بعد میں نجات ہوجائے گی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہود کے اس قول کی تردید فرمائی اور بتلادیا کہ یہود کی یہ بات بالکل غلط ہے یہود ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہیں گے اور قاعدہ کلیہ بیان کردیا کہ کافر ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے کبھی اس سے نہیں نکل سکیں اور یہود سے بھی اسی حکم عام اور قاعدۂ کلیہ کے مطابق معاملہ ہوگا اور یہود سے اللہ تعالیٰ نے کوئی عہد نہیں کیا کہ وہ صرف چند روز کے لیے جہنم میں رکھے جائیں گے ابن تیمیہ کا یہ قول یہود کے اس قول کے مشابہ ہے۔ 2 ۔ ان الذین کفروا وماتوا وھم کار اولئک علیھم لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس اجمعین خلدین فیھا لا یخفف عنھم العذاب ولا ھم ینظرون 3 ۔ ومن یرتدد منکم عن دینہ فیمت وھو کافر فالئک حبطت اعمالھم فی الدنیا والخرۃ واولئک وصحب النار ھم فیھا خلدون 4 ۔ والذین کفروا اولیئھم الطاغوتیخرجونھم من النور الی الظلمت اولئک اصحب النار ھم فیھا خلدون ومن عاد فاولئک اصحب النار ھم فیھا خلدون 6 ۔ خلدین فیھا لا یخفف عنہم العذاب ولا ھم ینظرون الا الذین تابوا 7 ۔ ان الذین کفروا لن تغنی عنھم اموالھم ولا اولادھم من اللہ شیئا واولئک اصحب النار ھم فیھا خلدون 8 ومن یعص اللہ ورسولہ ویتعدد حدودھہ یدخلہ نارا خالدا فیھا 9 ۔ ومن یقتل مومنا متعمدا فجزاءہ جھنم خالدا فیھا 10 ان الذین کفرو وظلموا لم یکن اللہ لیغفر لھم ولا لیھدیھم طریقا الا طریقہ جھنم خلدین فیھا ابدا 11 ۔ النار مثواکم خلدین فیھا الا ماشاء اللہ 12 ۔ والذین کذبوا بایتنا واستکبروا عنھا اولئک اصحب النار ھم فیھا خلدون 13 ۔ الم یعلموا انہہ من یحادد اللہ ورسولہ فان لہ نار جھنم خالدا فیھا 14 ۔ وعد اللہ المنفقین والمنفقت والکفار نار جھنم خالدین فیھاھی حسبھم ولعنھم اللہ ولھم عذاب مقیم (ای دائم) 15 ۔ کانما اغشیت وجوھھم قطعا من الیل مظلما اولئک اصحب النار ھم فیھا خلدون 16 ۔ فاما الذین شقوا ففی النار لھم فیھا زفیر وشھیق، خلدین فیھا مادامت السموات والارض الا ماشاء ربک 17 ۔ اولئک الذین کفروا بربھم واولئک الاغلل فی اعناقھم واولائک اصحب النار ھم فیھا خلدون 18 ۔ فادخلوا ابواب جھنم خلدین فیھا فلبئس مثوی المتکبرین 19 ۔ ومن خفت موازینہ فاولئک الذین خسروا انفسھم فی جھنم خلدون 20 ۔ وذوقوا عذاب الخلد بما کنتم تعملون 21 ۔ یضعف لہ العذاب یوم القیامۃ ویخلد فیہ مہانا 22 ۔ ان اللہ لعن الکفرین واعد لھم سعیرا۔ خلدین فیھا ابدا 23 ۔ قیل ادخلوا ابواب جھنم خلدین فیھا فبئس مثوی المتکبرین 24 ۔ ذلک جذاء اعداء اللہ النار لھم فیھا دار الخلد 25 ۔ ان المجرمین فی عذاب جھنم خلدون لا یفتر عنہم 26 ۔ کمن ھو خالد فی النار 27 ۔ لن تغنی عنھم اموالھم ولا اولادھم من اللہ شیئا اولئک اصحب النار ھم فیھا خلدون 28 ۔ فکان عقبتھما انھما فی النار خالدین فیھا 29 ۔ والذین کفروا وکذبوا بایتنا اولئک اصحب النار خلدین فیھا وبئس المصیر 30 ۔ ومن یعص اللہ ورسولہ فان لہ نار جھنم خلدین فیھا ابدا 31 ۔ ان الذین کفرو من اھل الکتاب والمشرکین فی نار جھنم خلدین فیھا یہ اکتیس آیتیں جن میں صراحۃً کافروں کے مخلد فی النار ہونے کا ذکر ہے اور بعض آیتوں میں خلود کے ساتھ ابدا کا لفظ بھی آیا ہے اور اگر ان آیات کے ساتھ ان آیتوں کو بھی شامل کرلیا جائے جو انہی آیتوں کے ہم معنی اور ہم مضمون ہیں ت وعدد شمار سے باہر ہوجائے گا مثلاً ۔ 1 ۔ فلا یخفف عنھم العذاب۔ 2 ۔ وماھم بخارجین من النار 3 ۔ وما لہ فی الاخرۃ من خلاق 4 ۔ وما لھم من نصرین 5 ۔ کلما نضجت جلودھم بدلنھم جلودا غیرھا لیذوقوا العذاب 6 ۔ لا یجدون عنھا محیصا 7 ۔ وماھم بخارجین منھا ولہم عذاب مقیم 8 ۔ لیس مصروفا عنہم 9 ۔ اولئک الذین لیس لھم فی الاخرۃ الا النار 10 ۔ مالنا من محیص 11 ۔ جھنم یصلونھا وبئس القرار 12 ۔ اخسئوا فیھا ولا تکلمون 12 ۔ اولئک یئسوا من رحمتی 14 ۔ فالیوم لا یخرجون منھا من غم اعیدو فیھا 17 ۔ مأوھم جھنم کلما خبت زدنھم سعیرا 18 ۔ فالیوم لا یخرجون منھا ولا ھم یستعتبون 19 ۔ ادعوا ربکم یخفف عنا یوم من العذاب 20 ۔ وما دعؤا الفرین الا فی ضلیل 21 ۔ الا ان اظلمین فی عذاب مقیم۔ 22 ۔ فلیس لہ الیوم ھھنا حمیم۔ ولا طعام الا من غسلین 23 ۔ فلن نزیدکم الا عذابا 34 ۔ ثم لا یموت فیھا ولا یحییٰ 25 ۔ نار مؤصدۃ 26 ۔ وما ھم عنھا بغآئبین وغیر ذلک من الآیات۔ اب ان تمام آیات کا مجموعہ 57 ہوا شیخ تقی الدین سبکی (رح) تعالیٰ اپنے رسالہ الاعتبار ببقاء الجنۃ والنار میں ان تمام آیات کو لکھ کر فرماتے ہیں کہ اس قسم کی بیشمار آیتیں ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کافر ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور ان آیات میں تاویل ایسی ہی ناممکن اور محال ہے جیسے بعث جسمانی کی آیتوں میں تاویل ناممکن اور محال ہے شیخ تقی الدین سبکی (رح) تعالیٰ ان آیات کو نقل کر کے فرماتے ہیں کہ اسی طرح کافروں کے دائمی اور ابدی عذاب کے بارے میں احادیث بھی بیشمار آئی ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جب اہل جنت، جنت میں اور اہل نار، نار میں پہنچ جائیں گے تو موت کو مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور جنت اور جہنم کے درمیان اس کو ذبح کیا جائے گا اور پھر اللہ کے حکم سے ایک منادی یہ اعلان کریگا کہ اے اہل جنت اب خلود یعنی بقاء اور دوام ہی ہے اور کبھی بھی موت نہیں اور اے اہل نار اب خلود یعنی بقاء اور دوام ہی ہے اس کے بعد موت نہیں یہ سن کر اہل جنت تو خوش ہوجائیں گے اور کافر ناامید اور غمگین ہوجائیں گے۔ اور حدیث میں ہے کہ تمام اہل کبائل جہنم سے نکل جائیں گے اور صرف وہ لوگ جن کو قرآن نے روکا ہے یعنی کافر جہنم میں باقی رہ جائیں گے اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں پر جنت کو حرام کردیا ہے۔ (شیخ تقی الدین سبکی (رح) تعالیٰ حدیث اور فقہ کے مسلم حافظ اور فقیہ ہیں اور حافظ ابن تیمیہ (رح) تعالیٰ کے ہمعصر ہیں 756 نے جن مسائل میں جمہور امت سے تفرد اور شذوذ کی راہ اختیار کی اور اجماع کی مخالفت کی ان مسائل میں تقی الدین سبکی (رح) تعالیٰ نے ابن تیمیہ (رح) تعالیٰ کا رد لکھا اور خوب لکھا ان میں سے ایک رسالہ یہی ہے جس میں ابن تیمیہ (رح) تعالیٰ کے اس قول شاذ کا رد لکھا کہ دوزخ کا عذاب دائمی نہیں حضرات اہل علم اصل رسالہ کی مراجعت کریں اس کے علاوہ ابن تیمیہ نے جو تین طلاق کو ایک طلاق قرار دیکر اجماع صحابہ وتابعین کے خلاف کیا ہے اور توسل اور زیارت نبوی کے لیے سفر کو ممنوع قرار دیا ہے اس قسم کے تمام مسائل کی تحقیق کے لیے تقی الدین سبکی (رح) تعالیٰ نے مستقل کتابیں لکھی ہیں ان کو دیکھ لیا جائے۔ ) حافظ عسقلانی (رح) تعالیٰ فتح الباری ص 362 ج 11 میں کافروں کے دائمی عذاب کی حدیثوں کو نقل کر کے فرماتے ہیں کہ امام قرطبی (رح) تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ ان احادیث میں اس امر کی تصریح ہے کہ کافروں کے خلود فی النار کی کوئی حد اور نہایت نہیں اور کفار دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے نہ ان کو موت آئیگی اور نہ نفع اور راحت کی کوئی زندگی ہوگی جیسا کہ حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے لا یقضی علیھم فیموتوا ولا یخفف عنھم من عذابھا کلما ارادوا ان یخرجوا منھا اعیدوا فیھا۔ بعد ازاں امام قرطبی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے یہ زعم کیا کہ کافر دوزخ سے نکال لیے جائیں گے اور دوزخ بالکل خالی رہ جائے گی یا یہ گمان کیا کہ دوزخ ہی سرے سے زائل اور فنا ہوجائے گی تو ایسے قاتل نے اس دین اور شریعت سے خروج اور انحراف کیا کہ جو حضور پر نور ﷺ اللہ کی طرف سے لے کر آئے اور اس زاعم اور قاتل نے اس چیز سے بھی خروج کیا کہ جس پر تمام اہل سنت کا اجماع ہوچکا ہے (امام قرطبی (رح) تعالیٰ کا کلام ختم ہوا ) حافظ عسقلانی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جہمیہ کا قول تو یہ ہے کہ جہنم چند روز کے بعد بالکل فنا ہوجائے گی اس لیے کہ وہ حادث ہے اور ہر حادث فانی ہے اور بعض لوگ اس طرف گئے ہیں کہ دوزخ فنا تو نہیں ہوگی مگر کچھ مدت کے بعد اس کا عذاب ختم ہوجائے گا اور دوزخی لوگ اس سے نکل جائیں گے اور بعض متاخرین (یعنی ابن تیمیہ) کا میلان اسی طرف ہے۔ وھو مذھب ردی مردود علی قائلہ وقد اطنب السبکی الکبیر فی بیان وھاتہ فاجاد (فتح الباری ص 362 ج 11 باب صفۃ الجنۃ والنار من کتاب الرقاق) اور یہ مذہب نہایت ردی اور مردود ہے اور شیخ تقی الدین سبکی کبیر (رح) تعالیٰ نے اس قول کے فساد اور خرابی کے بیان میں تفصیل سے کلام کیا ہے اور نہایت عمدہ اور جید طریق سے اس قول کا رد کیا ہے۔ اور ابن حزم نے بھی جنت و جہنم کے ثواب و عقاب کے دائمی ہونے پر اجماع نقل کیا اور یہ کہا ہے کہ امت محمدیہ کے تمام فرقے اس پر متفق ہیں کہ جنت اور جہنم اور ان کا ثواب اور عقاب کبھی ختم نہ ہوگا الخ تفصیل کے لیے ملل ونحل دیکھو ص 83 ج 4 ایک شبہ : جن لوگوں کا یہ خیال خام ہے کہ دوزخ کا عذاب دائمی نہیں ایک عرصہ کے بعد خدا تعالیٰ کے رحم وکرم سے یہ عذاب ختم ہوجائے گا وہ اس آیت میں جو لفظ الا ماشاء اللہ آیا ہے اس سے استدلال کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ لفظ النار مثوکم خلدین فیھا سے استثناء ہے معلوم ہوا کہ کافروں کا عذاب دائمی نہیں۔ جواب : یہ ہے کہ یہ استدلال بالکل غلط ہے آیت میں الا ماشاء اللہ کا لفظ محض اللہ کی مشیت اور اختیار اور قدرت کے بیان کرنے کے لیے بڑھایا گیا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ کافروں کا دائمی عذاب اللہ کے ارادہ اور مشیت پر موقوف ہے وہ جب چاہے اسے ختم کرسکتا ہے یہ استثناء محض اظہار قدرت ومشیت کے لیے ہے نہ کہ خبار کے لیے یعنی اس خبر دینے کے لیے نہیں کہ کافروں کا عذاب چند روز کے بعد ختم ہوجائے گا تاکہ کافر امید لگا کر بیٹھ جائیں کہ چند روز کے بعد یہ مصیبت ختم ہوجائے گی قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے کہ شعیب (علیہ السلام) نے کافروں کے جواب میں یہ فرمایا وما یکون لنا ان نعود فیھا الا ان یشاء اللہ ربنا کہ ہمارا کفر وشرک کی طرف جانا ناممکن اور محال ہے مگر جو اللہ چاہے سو اس استثناء سے معاذ اللہ انبیاء کرام کے کفر وشرک کا امکان بیان کرنا نہیں بلکہ اللہ کی مشیت کو بتلانا مقصود ہے کہ ایمان اور ہدایت سب ان کے اختیار میں ہے اسی طرح اس آیت میں سمجھو کہ اس استثناء سے محظ اظہار قدرت ومشیت مقصود ہے معاذ اللہ یہ خبر دینا مقصود نہیں کہ یہ عذاب دوزخ چند روزہ تکلیف ہے بعد چندے یہ مصیبت ختم ہوجائیگی خدا تعالیٰ نے اپنے کلام کی بیشمار آیتوں میں اس بات کی قطعی خبر دی ہے کہ کافروں کا عذاب کبھی ختم نہ ہوگا اور نہ اس میں تخفیف ہوگی بلکہ دن بدن اس میں زیادتی ہوتی جائے گی حضرت شاہ عبدالقادر (رح) تعالیٰ نے الا ماشاء اللہ کی یہی تفسیر اختیار کی جس کو ہم پہلے بیان اور علامہ آلوسی (رح) تعالیٰ نے بھی اس تفسیر کو اختیار فرمایا ہے۔ (حاشیہ : علامہ آلوسی روح المعانی ص 312 ج 8 میں لکھتے ہیں ونقل عن بعضھم ان ھذا الاستثناء معذوق بمشییئۃ اللہ تعالیٰ دفع العذاب ای یخلدون الی ان یشاء اللہ تعالیٰ لو شاء وفائدتہ اظہار القدرۃ والاذعان بان خلودھم انما کان لان اللہ تعالیٰ شانہ قد شاء ہ وکان من الجائز العقلی فی مشیئۃ ان لا یعذبھم ولو عذبھم لا یخلدھم وان ذلک لیس بامر واجب علیہ ونما ھو مقتضی ارادتہ ومشیئتہ عزوجل وفی الایۃ علی ھذا دفع فی صدور المعتزلۃ الذین یزعمون ان تخلید الکفار واجب علی اللہ بمقتضی الحکمۃ ولعل ھذا ھو الحق الذی لا محیص عنہ کذا فی روح المعانی ص 24 ج 8 ویو ید ذلک ماروا ابن جریر عن ابن عباس انہ کان یتأول فی ھذ الاستثناء ان اللہ جعل امر ھؤ لاء فی مبلغ عذابہ ایاھم الی مشیئتہ، تفسیر ابن جریر ص 26 ج 8 قال ابن حزم الاندلسی الظاھری المتوفی 456 ھ روینا عن عبداللہ بن عمرو بن العاص لو اقام اھل النار فی لنار ماشاء اللہ ان یبقوا لکان لھم علی ذلک یوم یخرجون فیہ منھا قال ابو محمد انما ھو فی اھل الاسلام الداخلین فی النار بکبائرھم ثم یخرجون منھا بالشفاعۃ ویبقی ذلک المکان خالیا ولا یحل لاحدان یظن فی الصالحین الفاضلین خلاف القرآن وحاشا لھما من ذلک وباللہ التوفیق (ملل ونحل لابن حزم ص 86 ج 4) جواب دیگر : ابن عباس ؓ اور دیگر علماء سے یہ مروی ہے کہ اس آیت میں لفظ ما بمعنی من ہے اور اس سے عصاۃ مومنین مراد ہیں یعنی جن اہل ایمان کو اللہ چاہے گا وہ نار میں داخل ہی نہ ہوں گے یا داخل ہونے کے بعد حق تعالیٰ کی رحمت سے یا نبی یا فرشتہ کی شفاعت سے دوزخ سے نکال لیے جائیں گے یا لفظ ما سے وہ لوگ مراد ہیں جو انہی کافروں میں آیندہ چل کر ایمان لے آویں گے اور اسلام میں داخل ہوجائیں گے سو ایسے لوگ النار مثواکم خلدین فیھا کے حکم سے مستثنی ہیں۔ یا یوں کہا جائے کہ شروع آیت میں خطاب تمام مجرمین کو ہے خواہ وہ کفر وشرک کے مجرم ہوں یا ارتکاب کبیرہ کے مجرم ہوں ابتداء سب دوزخ میں داخل کیے جائیں گے بعد چندے عصاۃ مومنیں یعنی گنہگار مسلمان تو دوزخ سے نکال لیے جائیں گے اور کفار کے لیے ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہنے کا حکم ہوگا اور یہی مطلب ہے کہ اس کا کہ جو بعض صحابہ ؓ سے نقل کیا جاتا ہے کہ دوزخ پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کوئی اس میں نہ رہے گا سو بالفرض والتقدیر اگر یہ قول صحیح ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ موحدین اور اہل ایمان سے کوئی شخص دوزخ میں باقی نہیں رہے گا جیسا کہ احادیث متواترہ سے ثابت ہے کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ دوزخ سے نکال لیا جائے گا اور صرف کفار جہنم میں باقی رہ جائیں گے (دیکھو فتح الباری 263 ج 11 و کتاب الملل والنحل لابن حزم ص 86 ج 4 خلاصۂ کلام : یہ کہ معشر جن اور ان کے متبعین کو یہ سزا دی جائے گی کہ جاؤ تم سب مل کر جہنم میں رہو اور جس طرح تم سب دنیا میں ساتھ رہے اسی طرح ہم دوزخ میں بعض ظالموں کو بعض ظالموں کے ساتھ ملادیں گے جس درجہ اور جس قسم کا ظالم ہوگا اسی قسم کے اسی طبقہ میں اس کو اس کے ساتھ ملا دیں گے یعنی اس کا ساتھی بنادیں گے ان کے اعمال کفریہ کی وجہ سے یا یہ معنی ہیں کہ دنیا میں بعض ظالموں کو بعض ظالموں پر مسلط کردیتے ہیں اور اس کو اس کے ہاتھ سے خوار اور ہلاک کراتے ہیں تاکہ وہ اپنے ظلم کی سزا ظلم ہی سے بھگتیں حدیث میں ہے کہ جو ظالم کی مدد کرے گا اللہ اس پر کسی ظالم کو مسلط کرے گا کسی نے کیا خوب کہا وما من ید الا ید اللہ فوقھا وما ظالم الا سیبلی بظالم رجوع بہ مضمون سابق اب اس استطرادی مضمون کے بعد پھر مضمون سابق کی طرف رجوع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم قیامت کے دن یہ بھی کہیں گے اے گروہ جن وانس تم مکاروں کے دھوکہ میں کیسے آگئے کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تم سے میرے احکام بیان کرتے تھے اور اس دن کے سامنے آنے سے تم کو ڈراتے تھے پھر کیا وجہ ہے کہ تم کفر سے باز نہ آئے۔ جمہور ائمہ سلف اور خلف کا مذہب یہ ہے کہ رسل فقط انسانوں میں سے آئے ہیں نہ کہ جنات میں سے ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول تو فقط بنی آدم میں سے ہوئے ہیں البتہ منذرین یعنی مبلغین اور واعظین، جنات میں سے بھی ہوئے ہیں جیسا کہ جنات کے بارے میں ارشاد ہے ولو الی قومہم منذرین (دیکھو تفسیر قرطبی ص 86 ج 7 و تفسیر ابن کثیر ص 177 ج 2) بعض لوگوں کو اس آیت سے شبہ ہوا ہے کہ جنات میں سے بھی رسول ہوئے ہیں کیونکہ ظاہرا اس آیت ( یمعشر الجن والانس الم یاتکم رسل منکم) سے بظاہر یہی مفہوم ہوتا ہے کہ رسول جنات اور آدمیوں دونوں سے ہوئے ہیں اگر دونوں میں سے نہ ہوتے تو جنات اور انسانوں دونوں کو مخاطب کر کے یہ نہ کہا جاتا کہ تمہارے پاس تمہارے ہی میں سے رسول نہیں آئے تھے۔ جواب یہ ہے کہ قیامت کے دن یہ خطاب مجموعۂ جن وانس کو ہوگا یعنی مجموعۂ مکلفین کو خطاب ہوگا ہر جماعت سے علیحدہ علیحدہ اور الگ الگ خطاب نہیں ہوگا اور مجموعہ جن وانس میں نبی ہوئے ہیں لہٰذا ان سے یہ پوچھنا صحیح ہے کہ کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے تھے پس اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جن اور انس ہر فرقہ سے علیحدہ علیحدہ نبی ہوئے ہیں اس کی نظیر قرآن کریم کی آیت ہے۔ یخرج منھما اللؤلؤ والمرجان۔ ان دونوں دریاؤں میں سے موت اور مونگے نکلتے ہیں حالانکہ یہ چیزیں صرف دریائے شور سے نکلتی ہیں دریائے شیریں سے نہیں نکلتیں لیکن چونکہ ذکر میں دونوں کو ایک ساتھ جمع کرلیا گیا اس لیے ان چیزوں کے نکلنے کی نسبت دونوں کی طرف صحیح ہے کیونکہ یہ چیزیں مجموعہ سے نکلتی ہیں نیز قرآن کریم میں ہے وجعل القمر فیھن نورا یعنی ساتوں آسمانوں میں چاند کو اجالا بنایا حالانکہ چاند ایک ہی آسمان یعنی آسمان دنیا میں ہے نہ کہ سب آسمانوں میں کسی کے نزدیک بھی آیت کا یہ مطلب نہیں کہ ہر آسمان میں چاند ہے چاند تو ایک ہی آسمان میں ہے لیکن ساتوں آسمانوں کے مجموعہ کی طرف اس کی نسبت صحیح ہے مثلا ً اگر کوئی یہ کہے اے عرب وعجم کے باشندو ! اور اے مشرق اور مغرب کے رہنے والو کیا خدا تعالیٰ نے تم ہی میں سے محمد رسول اللہ ﷺ کو پیدا نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک محمد تو عرب میں پیدا ہوئے اور ایک محمد عجم میں پیدا ہوئے کیونکہ یہ خطاب مجموعۂ عالم کو ہے انواع اور اجناس کو علیحدہ علیحدہ خطاب نہیں۔ باقی یہ تحقیق کو ہر نوع میں سے الگ اگ پیغمبر بھیجے گئے یا پیغمبر تو فقط نوع بنی انسان سے بھیجے گئے مگر ان کی بعثت جن وانس دونوں کی طرف ہوئی سو یہ آیت اس باین سے ساکت ہے البتہ دوسری آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کل پیغمبر حضرت آدم کی اولاد سے ہوئے ہیں اور وہی جنات کو بھی تعلیم دیتے تھے۔ 1 ۔ یا بنی ادم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم ایاتی الایۃ 2 ۔ انا اوحینا الیک کما اوحینا الی نوح والنبیین من م بعدہ الی قولہ تعالیٰ رسلا مبشرین ومنذرین لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ م بعد الرسل وجعلنا فی ذریتہ النبوۃ والکتاب یعنی ابراہیم کے بعد ہم نے نبوت اور کتاب کو ابراہیم کی اولاد میں منحصر کردیا 4 ۔ وقال تعالیٰ وما ارسلنا قبلک من المرسلین الا انھم لیا کلون الطعام ویمشون فی الاسواق 5 ۔ وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیھم من اھل القریٰ وغیر ذلک من الایات قرآن کریم کی بیشمار آیتوں سے یہ بات ثابت ہے کہ انسانوں کی طرف فرشتہ کو رسول بنا کر نہیں بھیجا گیا اس لیے کہ عام انسان فرشتہ کا اصلی صورت میں دیکھنے کا تحمل نہیں کرسکتے اور بےاندازہ خوف وہیبت کی وجہ سے اس سے استفادہ نہیں کرسکتے اور انسانی صورت میں بےتکلف اس سے استفادہ کرسکتے ہیں اسی طرح سمجھو کہ انسان کا جنوں سے خوف وہیبت کی وجہ سے استفادہ بہت مشکل ہے البتہ جنوں کا انسانوں سے استفادہ سہل اور آسان ہے۔ کافروں کی طرف سے اقرار جرم قیامت کے دن کافروں سے جب باز پرس ہوگی کہ کیا تمہارے پاس ہمارے رسول نہیں آئے اور کیا تم کو ہماری ہدایتیں اور احکام نہیں پہنچے تو اسوقت ان سے کوئی جواب نہیں بن پڑے گا اور اپنے کافر ہونے کا اقرار کریں گے اور یہ کہیں گے کہ ہم اپنی جانوں پر خود اپنے جرم کے گواہ ہیں یعنی ہمیں اس بات کا اعتراف اور اقرار ہے کہ ہمارے پاس تیرے رسول آئے اور انہوں نے ہم کو تیرے احکام کی تبلیغ کی اور اس دن کے پیش آنے سے ہم کو ڈرایا مگر ہم نے ان کو جھٹلایا اور ان پر ایمان نہیں لائے اور یہ سب آفت ان پر اس لیے آئی کہ دنیاوی زندگانی نے ان کو دھوکہ اور فریب میں ڈال دیا وہ یہ سمجھے کہ جو کچھ ہے وہ یہیں کا عیش و آرام ہے قیامت اور حشر نشر تو باتیں ہی باتیں ہیں اور گواہی دیں گے وہ اپنی جانوں پر کہ بیشک ہم دنیا میں کفر کرنے والے تھے پہلا قول کفار کا تھا اور یہ حق تعالیٰ کی طرف سے بطور مذمت ان کے کفر کا بیان ہے تاکہ سامعین اس سے عبرت پکڑیں اور سمجھ لیں کہ قیامت کے دن کا اقرار بیکار ہے اب آئندہ آیت میں اپنی رحمت کو بیان فرماتے ہیں یہ یعنی رسولوں کا بھیجنا اس لیے ہے کہ تیرا پروردگار ایسا نہیں کہ کفر اور شرک کی وجہ سے دنیا میں بستیوں کو ہلاک کردے اور وہاں کے لوگ بیخبر ہوں یعنی اللہ تعالیٰ رسولوں کے بھیجنے سے پہلے لوگوں کو نہیں پکڑتا تاکہ کسی کو یہ کہنے کی گنجائش نہ رہے کہ ہم بیخبر تھے ہم کو بغیر خبردار کیے کیسے پکڑ لیا ہاں خدا تعالیٰ جب رسولوں کو بھیج کر لوگوں پر حجت پوری کردیتا ہے اور پھر بھی وہ اپنے کفر وشرک سے باز نہیں آتے تب ان کو ہلاک کرتا ہے کما قال تعالیٰ وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا وقال تعالیٰ کلما القی فیھا فوج سأ لھم خزنتھا الم یأتکم نذیر قالوا بلی قد جاءنا نذیر۔ غرض یہ کہ اس آیت میں بظلم سے کفر اور شرک کے معنی مراد ہیں اور بعض علماء نے آیت کے یہ معنی بیان کیے کہ اللہ تعالیٰ بدون تنبیہ وتذکیر رسل کسی کو ظلما ہلاک نہیں کرتا کیونکہ اللہ ظالم نہیں۔ اور جب لوگوں کے پاس اللہ کے رسول آگئے اور لوگوں کو احکام پہنچ گئے اور اللہ کی حجت ان پر پوری ہوگئی تو جزاء اور سزا کے مستحق ہوگئے اور لوگوں کے اعمال کے مطابق ہر ایک کے درجے مقرر ہیں جس درجہ کا عمل ہوگا اس کے مطابق معاملہ ہوگا کوئی قعر جہنم میں ہوگا اور کوئی اس کے کنارہ پر کوئی وسط جنت میں ہوگا اور کوئی اس کے کنارہ پر اور تیرا پروردگار لوگوں کے اعمال سے غافل نہیں ان کے نیک وبد اعمال سب اس کے پیش نظر ہیں اس کے بعد حق تعالیٰ کی شان بےنیازی اور شان رحمت کو بیان کر کے کافروں سے خطاب فرماتے ہیں کہ خدا اس پر قادر ہے کہ تمہیں ہلاک کردے اور دوسرے لوگوں کو تمہارے قائم مقام کردے چناچہ فرماتے ہیں اور تیرا پروردگار بڑا بےنیاز رحمت والا ہے اسے کسی کی عبادت اور بندگی کی ضرورت نہیں اور نہ کسی کی اطاعت کا محتاج ہے وہ صاحب رحمت ہے لوگوں کے لیے رسول بھیجتا ہے اور گناہوں پر فورا سزا نہیں دیتا اگر وہ چاہے تو تم سب کو یکلخت اس دنیا سے ملک عدم میں لاے جائے اور تمہارے بعد جس کو چاہے تمہارا جانشین کردے جیسا کہ تم کو دوسرے لوگوں کی نسل سے پیدا کیا کہ ان کو تو فنا کردیا اور تم کو ان کا جانشین بنادیا بیشک جس چیز کا تم سے انبیاء کی معرفت وعدہ کیا جارہا ہے یعنی قیامت اور عذاب کا وہ ضرور آنے والی ہے اور تم خدا کو عاجز نہیں کرسکتے۔ یعنی تمہارا یہ خیال ہو کہ قیامت یا عذاب آنے پر ہم کہیں بھاگ نکلیں گے تو سمجھ کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے تم خدا تعالیٰ گرفت سے کہیں چھوٹ نہیں سکتے اور کسی صورت تم اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکتے اے نبی ﷺ ! آپ اپنی قوم کے مشرکوں سے یہ کہہدیجیے کہ تم اپنی جگہ پر کام کرتے رہو اور میں اپنی جگہ پر کام کرتا ہوں مطلب یہ ہے کہ تم اپنے کفر اور عداوت کے طریقہ پر قائم رہو اور میں اسلام اور صبر پر قائم ہوں مجھے تمہارے کفر اور عداوت کی کوئی پروا نہیں میں اپنا کام کرتا ہوں تم اپنا کام کیے جاؤ۔ پس عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا کہ آخرت میں اچھا انجام کس کو حاصل ہوتا ہے ہمیں یا تمہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ ظالموں کو کبھی فلاح نصیب نہ ہوگی وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔
Top