بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کیلئے الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَنْزَلَ : نازل کی عَلٰي عَبْدِهِ : اپنے بندہ پر الْكِتٰبَ : کتاب (قرآن) وَلَمْ يَجْعَلْ : اور نہ رکھی لَّهٗ : اس میں عِوَجًا : کوئی کجی
سب تعریف خدا ہی کو ہے جس نے اپنے بندے (محمد ﷺ پر (یہ) کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کجی اور پیچیدگی نہ رکھی۔
آغاز سورت بتحمید بر انزال کتاب ہدایت برائے اثبات توحید و رسالت و ذکر فنا وزوال دنیا برائے تذکیر آخرت قال اللہ تعالیٰ : الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ الکتب .... الیٰ .... صعیدا جرزا۔ (ربط) گزشتہ سورت کی طرح اس سورت میں بھی اللہ تعالیٰ نے توحید و رسالت اور دنیا کے فناء وزوال اور اس کی حقارت اور آخرت کی جزاء و سزا کو بیان فرمایا اور تین قصے بیان فرمائے جن سے بھی مقصود اثبات توحید و رسالت اور اثبات قیامت ہے اور گزشتہ سورت کو حمد پر ختم فرمایا اور اس سورت کو توحید و حمد سے شروع فرمایا اور مسئلہ نبوت سے اس کی ابتداء فرمائی اور اپنی سب سے بڑی نعمت کا ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے یہ کتاب ہدایت نازل فرمائی جو تمہارے لیے سامان ہدایت ہے اور نبی کے لیے دلیل نبوت اور برہان رسالت۔ پھر اس قرآن کو نازل کرنے کی حکمت بیان فرمائی اور چونکہ آنحضرت ﷺ رحمت مجسم تھے اس لیے آپ ﷺ کو کفار کے ایمان نہ لانے سے رنج ہوتا تھا اس لیے فلعلک باخع نفسک سے آپ ﷺ کی تسلی فرمائی اور اہل دنیا اور اہل غفلت کو تنبیہ فرمائی کہ یہ دنیا اور اس کی نعمتیں چند روزہ ہیں ان میں پڑ کر خدا سے غفلت نہ برتو انا جعلنا ما علی الارض سے یہی بتلایا کہ دنیا ہذا اور اس کا عیش و آرام چند روزہ ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں سب حمد و ثنا اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے جس نے اپنے خاص بندے محمد ﷺ پر یہ کتاب قرآن کریم اتاری اور ذرہ برابر اس میں کسی قسم کی کجی نہ رکھی۔ نہ لفظوں کے اعتبار سے اس میں کوئی خلل ہے۔ اور نہ معانی کے اعتبار سے اس میں کوئی کمی ہے یہ کتاب تو اللہ تعالیٰ نے ظاہر و باطن کی کجی دور کرنے کے لئے نازل کی اس کتاب میں کوئی بھی عیب اور کجی نہیں اور جو اس میں عیب نکالے سو وہ اس کی عقل کا فتور اور قصور ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو ٹھیک اتاراراستی اور استقامت کے ساتھ موصوف ہے۔ خود راست اور درست ہے اور دوسروں کو راہ راست پر لے جانے والی ہے ایسی کتاب میں تو کجی کا امکان ہی نہیں اور اس آیت میں خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کے نازل کرنے پر اپنی حمد فرمائی کیونکہ نزول قرآن اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت اور اس کی عبادت کا طریقہ معلوم ہوتا ہے اور فوز عظیم اور سعادت دارین کا ذریعہ ہے اور آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کی برہان عظیم ہے اور اس کتاب کو اس لیے نازل کیا تاکہ وہ کتاب لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے سخت عذاب سے ڈرائے جو من جانب اللہ کج طبیعت والوں پر نازل ہوگا اور تاکہ خوشخبری دے۔ اہل ایمان کو جو اعمال صالحہ کرتے۔ یعنی جن لوگوں نے اعمال صالحہ سے اپنی باطنی کجی کو دور کرلیا اور صراط مستقیم اور راہ راست پر چل پڑے ایسے لوگوں کو یہ کتاب بشارت دے کہ ان کے لیے آخرت میں نیک بدلہ ہے یعنی جنت ہے جو راد کرامت اور دار نعمت ہے جس میں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کبھی اس سے منتقل نہ ہوں گے اور تاکہ کافروں میں سے بالخصوص ان لوگوں کو ڈرائے کہ جنہوں نے قصور عقل اور کج راہی کی وجہ سے یہ کہہ دیا کہ خدا تعالیٰ اولاد رکھتا ہے یہ کہنے والے یہود و نصاری ہیں اور خدا کے لیے اولاد تجویز کرنا یہ کجی طبعی اور قصور عقل کی دلیل ہے اس بات کا ان کو کچھ علم نہیں اور نہ ان کے باپ دادا کو اس کی خبر ہے اس قسم کی نامعقول باتیں ان کی کج طبعی کی دلیل ہیں یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی شان قدوسیت اور سبوحیت سے بالکل بیخبر ہیں بڑی بھاری بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے۔ یعنی نہایت نامعقول اور نازیبا بات ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ نرا چھوٹ کہتے ہیں۔ خدا کے لیے اولاد بتلانا ایسا جھوٹ ہے کہ قریب ہے کہ آسمان اور زمین پھٹ جائیں اور پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں تکاد السموت یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر الجبال ھذا ان دعوا للرحمن ولدا : اولاد تو اس کے ہوسکتی ہے کہ جو جسم ہو اور اجزاء لاتتجزی سے مرکب ہو اور اپنے ترکیب اور ترتیب دینے والے کا محتاج ہو اور خدا تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک اور منزہ ہے۔ آنحضرت ﷺ کو ان کج فہوں اور کج راہوں کی اس قسم کی باتیں سن کر رنج ہوتا تھا تو آپ ﷺ کی تسلی کے لیے فرماتے ہیں پس شاید آپ ﷺ ان کے پیچھے اپنی جان ہلاک کردیں اگر وہ اس بات پر یعنی قرآن پر ایمان نہ لائیں تو اندیشہ ہے کہ آپ غم یا حسرت کی وجہ سے اپنی جان نہ دیدیں۔ مطلب یہ ہے کہ اتنا غم نہ کیجئے کیوں کہ یہ دنیا دار ابتلاء اور دار امتحان ہے۔ ایک عجائب گھر ہے طرح طرح کی زینتوں سے مزین ہے کوئی کدھر جارہا ہے اور کوئی کدھر اس لیے کہ تحقیق جو چیز بھی اس زمین پر ہے خواہ وہ نباتات ہوں یا جمادات یا انسان اور حیوانات ہوں۔ اسکو ہم نے اہل زمین کے لیے آرائش اور زینت بنایا ہے تاکہ اہل زمین کو آزمائیں کہ ان میں ازراہ عمل کون شخص بہتر ہے یعنی اس عالم آرائش و زیبائش کے پیدا کرنے سے ہمارا مقصود آزمائش ہے اور ظاہر ہے کہ امتحان میں سب کامیاب نہ ہوں گے۔ لہٰذا آپ ﷺ اس فکر میں نہ پڑئیے کہ سب ہی کامیاب ہوجائیں۔ عاقل وہ ہے کہ جو خدا سے غافل نہ ہوا اور اس کی اطاعت میں کاہل نہ ہو اور بیشک یہ دنیا زینت کا گھر ہے لیکن اس زینت اور امتحانی آرائش کے بعد تحقیق ہم ان تمام چیزوں کو جو اس زمین پر ہیں ایک روز چٹیل میدان بنانے والے ہیں کہ اس روز زمین کی تمام ہی زینت جاتی رہے گی تو اس ناپائیدار زینت پر فریفتہ ہونا کج طبعی اور فتور عقل کی دلیل ہے۔ جہاں از رنگ و بو ساز دا سیرت ولے نزدیک ارباب بصیرت نہ رنگ دلکش را اعتبار یست نہ بولتے دلفریبش را مدایست اللہم اجعلنا من الزاھدین فی الدنیا والراغبین فی الاخرۃ المنقطعین الیک امین یا رب العالمین۔
Top