Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 75
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا
قَالَ
: اس نے کہا
اَ لَمْ
: کیا نہیں
اَقُلْ
: میں نے کہا
لَّكَ
: تجھ سے
اِنَّكَ
: بیشک تو
لَنْ تَسْتَطِيْعَ
: ہرگز نہ کرسکے گا
مَعِيَ
: میرے ساتھ
صَبْرًا
: صبر
(خضر) نے کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے ؟
بقیہ قصۂ موسیٰ (علیہ السلام) با خضر (علیہ السلام) قال اللہ تعالیٰ ۔ قال الم اقل لک انک لن تستطیع معی صبرا۔۔۔ الیٰ ۔۔۔ ذلک تا ویل ما لم تسطع علیہ صبرا موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا کہ خضر (علیہ السلام) نے یکایک ایک معصوم اور بےگناہ بچے کو مار ڈالا تو ان سے ضبط نہ ہوسکا۔ اور بےاختیار کہہ اٹھے۔ لقد جئت شیئا نکرا۔ ( آپ (علیہ السلام) نے تو بڑی ہی بےجا اور ناپسندیدہ حرکت کی) تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے جواب میں کہا۔ اے موسیٰ کیا میں تم سے پہلے ہی اول صحبت میں یہ نہیں کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر ہرگز صبر نہیں کرسکو گے آخر وہی ہوا جو میں نے اول بار کہہ دیا تھا۔ چونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ دو بار عہد شکنی تھی اس لیے حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس مرتبہ مزید تنبیہ کے لیے لفظ لک اور بڑھا دیا یعنی تم ہی سے تو کہا تھا پھر کیوں بھول گئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اندازہ ہوگیا کہ اس قسم کے تحیر خیز واقعات پر صبر کرنا اور خاموشی کے ساتھ ان کو دیکھتے رہنا بہت ٹیڑھی کھیر ہے اس لیے آخری بات کہہ دی خیر اب تو جانے دیجئے لیکن اگر اس مرتبہ کے بعد آپ سے کسی چیز کے متعلق سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا بیشک آپ میری طرف سے عذر کی حد اور انتہا کو پہنچ چکے ہیں آپ ایسا کرنے میں معذور ہوں گے اور میری طرف سے آپ کو کوئی الزام نہ ہوگا۔ کیونکہ تین مرتبہ موقعہ دینے سے حجت پوری ہوجائے گی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو خضر (علیہ السلام) کی بار بار مخالفت سے شرم آئی۔ اور ان کی ملامت سے ڈرے اس لیے ان سے یہ آخری بات کہہ ڈالی کہ اگر تیسری بار آپ سے پوچھوں تو آپ کو جدا کرنے کا اختیار ہے۔ مجھے آپ سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔ پھر دونوں آگے روانہ ہوئے یہاں تک کہ ایک بستی والوں پر پہنچے اور ان سے ملے اور کہا کہ ہم مسافر ہیں اور تمہارے مہمان ہیں تو اس بستی والوں سے مہمان ہونے کی حیثیت سے کھانا طلب کیا سو بستی والوں نے ان کی مہمانی سے انکار کردیا۔ صبر کیا اور بھوکے پڑے رہے۔ پھر انہوں نے بستی میں ایک دیوار پائی جو گرا چاہتی تھی۔ یعنی جھکی ہوئی تھی۔ گرنے کے قریب تھی پس خضر (علیہ السلام) نے ہاتھ کے اشارے سے اسکو سیدھا کردیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ خضر (علیہ السلام) نے ہاتھ کا اشارہ کیا اور وہ دیوار سیدھی ہوگئی۔ یہ خارق عادت امر ان کی کرامت تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ حال دیکھ کر خضر علی السلام سے کہا کہ آپ نے ایسے سنگ دل اور بےمروت اور بخیل لوگوں کے ساتھ احسان کیا اور مفت ان کا کام کیا اور بلا معاوضہ ان کی دیوار سیدھی کردی۔ آپ اگر چاہتے تو ان سے اجرت لے لیتے اور اس سے ہم کھانا کھالیتے آپ نے ایسے بخیلوں اور تنگ دلوں سے جنہوں نے مہمان مسافر کا کوئی حق نہ سمجھا۔ اجرت کیوں نہ لے لی جس سے ہمارا کھانا کھانے پینے کا کام چل جاتا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا یہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی کا وقت ہے تم نے خود کہہ دیا تھا کہ اگر میں پھر پوچھوں تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا۔ لہٰذا آپ حسب وعدہ مجھ سے علیٰحدہ ہوجائیے۔ آپ کا میرے ساتھ نباہ نہیں ہوسکتا لیکن جدا ہونے سے پہلے میں آپ کو ان چیزوں کی حقیقت سے خبردار کیے دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کرسکے۔ حضرت شاہ عبدالقادر (رح) لکھتے ہیں کہ ” اس مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جان کر پوچھا رخصت ہونے کو۔ یہ سمجھ لیا کہ یہ علم میرے ڈھب کا نہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا علم وہ تھا جس کی خلقت پیروی کرے تو اسکا بھلا ہو۔ حضرت خضر (علیہ السلام) کا علم وہ تھا کہ دوسروں سے اس کی پیروی بن نہ آئے “ (موضع القرآن) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ اللہ کے علوم کی کوئی حد نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو کوئی علم دیا اور کسی کو کوئی علم دیا اور اللہ کے بعضے بندے ملائکہ کی طرح ہیں جو کرتے ہیں وہ اللہ کے حکم سے کرتے ہیں اور ان کے افعال کے اسرار لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتے۔ خضر (علیہ السلام) کا علم اس قسم کا تھا جو ملائکہ کو عطا ہوا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا علم اس قسم کا تھا جو اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو عطا کیا اور ان کو اپنا خلیفہ اور مسجود ملائکہ بنایا۔ واللہ اعلم۔ بیان تاویلات واقعات مذکورہ خضر (علیہ السلام) نے یہ ارادہ فرمایا کہ جدا ہونے سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے ہر فعل کی مصلحت سے آگاہ کردیں اور ان تمام واقعات کی تاویلات بیان کردیں جن پر موسیٰ (علیہ السلام) صبر نہ کرسکے اور جن کے ظاہر کو دیکھ کر آپ (علیہ السلام) نے ان کو برا جانا۔ بیان تاویل واقعہ اول وہ جو کشتی تھی وہ چند محتاجوں کی تھی جو سمندر میں کرایہ پر چلاتے تھے اور اس کے ذریعہ دریا میں محنت اور مزدوری کرتے تھے اور اسی پر ان کی گزران تھی۔ سو میں نے چاہا کہ اس کو عیب دار کر دوں تاکہ کوئی غاصب اس کو عیب دار سمجھ کر نہ چھینے اور عیب کو دیکھ کر اس پر دست اندازی نہ کرے اور ان لوگوں کے آ گے ایک ظالم بادشاہ تھا جو ہر صحیح سالم کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا میں نے چاہا کہ اس کشتی کو عیب دار ہونے کی وجہ سے غصب نہ کرسکے اور یہ مساکین بعد میں تختہ لگا کر اس کشتی کو درست کرلیں گے۔ گر خضر در بحر کشتی را شکست صد درستی شکست خضر ہست یہ باعث تھا میرے اس کشتی توڑنے کا جس پر آپ سے صبر نہ ہوسکا۔ بیان تاویل واقعہ دوئم اور وہ جو لڑکا تھا جس کو میں نے مار ڈالا تھا سو بات یہ ہے کہ اس کے ماں باپ ایماندار تھے اور اللہ کو ان کے ایمان کی حفاظت مقصود تھی اور یہ لڑکا اگر بڑا ہوتا تو کافر ہوتا اور ماں باپ کو اس سے غیر معمولی محبت تھی سو ہم کو اندیشہ ہوا کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر اپنے ماں باپ کو سرکشی اور کفر میں گرفتار کر دے۔ یعنی جب بالغ ہو تو والدین کو بھی کفر پر مجبور کرے اور وہ اس کی خوبصورتی اور محبت کی وجہ سے اس سے جدا ہونا گوارا نہ کریں۔ اور کفر اختیار کر بیٹھیں اور ہلاکت دائمی میں گرفتار ہوں پس اس طرح لڑکے کا مارا جانا ان کے حق میں مصیبت بنا اور باطن میں اللہ تعالیٰ کی رحمت بنا۔ پس ہم نے ارادہ کیا کہ اس لڑکے کا قصہ تو تمام کردیا جائے اور ان کا پروردگار اس نالائق اور بدبخت بیٹے کے بدلے میں ان کو ایسی اولاد دے خواہ لڑکا ہو یا لڑکی۔ جو از راہ پاکیزگی اس لڑکے سے بہتر ہو یعنی کفر اور شرک اور معصیت اور بداخلاقی اور بد اعمالی سے پاک ہو اور ایمان اور توحید اور اخلاق فاضلہ سے آراستہ ہو اور ازراہ شفقت و محبت والدین سے زیادہ قریب ہو۔ اور احسان اور سلہ رہمی کرنے والی ہو۔ چناچہ اس لڑکے کے مارے جانے کے بعد ان دونوں نیک بختوں سے ایک لڑکی پیدا ہوئی اور ایک نبی سے بیاہی گئی اور اس کے بطن سے ایک نبی پیدا ہوئے جس سے اللہ تعالیٰ نے ایک امت کو ہدایت دی۔ اس طرح سے یہ نیک بخت لڑکی اس بد بخت لڑکے کا بدلہ ہوگئی۔ ہر بچہ ابتداء اگرچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے مگر بعض مرتبہ خارجی اثرات کی وجہ سے بعض آدمیوں کی شروع سے ہی بنیاد بری پڑجاتی ہے مگر اس کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں ہوتا۔ اس لڑکے کی بابت اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر (علیہ السلام) کو آگاہ کردیا کہ اس بچہ کی افتاد اور بنیاد بری ہے بڑا ہو کر خود بھی گمراہ ہوگا اور ماں باپ کو بھی گمراہی میں مبتلا کرے گا اگر یہ زندہ رہا تو اس کے سبب اس کے ماں باپ ہلاک اور تباہ ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کو اس کے والدین کے ایمان کی حفاظت مقصود تھی۔ اس لیے ان کی راہ سے اس روڑہ کو نکال دیا گیا اور حضرت خضر (علیہ السلام) کا اس لڑکے کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی وحی سے تھا۔ تا ویل واقعہ سوم اور رہی وہ دیوار جس کو میں نے مفت سیدھا کردیا وہ اس شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی جن سے اجرت لینا مناسب نہ تھا اور اس دیوار کے نیچے ان دونوں کے واسطے ایک خزانہ گڑا ہوا تھا اگر وہ دیوار گر جاتی اور خزانہ ظاہر ہوجاتا تو لوگ اس خزانے کو لوٹ لے جاتے اور ان کو بسبب صغرسنی اور کمزوری کے کچھ نہ ملتا اور ان دونوں کا باپ ایک مرد صالح تھا خدا تعالیٰ کو اس کی نیکی کے صلہ میں اس کی اولاد کی حفاظت منظور تھی سو تیرے پروردگار نے یہ چاہا کہ یہ دونوں لڑکے اپنی قوت یعنی عقل اور بلوغ اور جوانی کو پہنچ جائیں اور اس وقت اپنا خزینہ اور دفینہ نکالیں ازروئے مہربانی پروردگار نے مجھے اس دیوار کی اصلاح کا حکم دیا اور ایک اشارہ میں سیدھی ہوگئی۔ اس لیے میں نے اللہ کے حکم سے یہ دیوار مفت سیدھی کردی اور میں نے کوئی کام اپنی رائے سے نہیں کیا بلکہ اللہ کے حکم سے کیا اور جو کام اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا جائے اس پر مزدوری نہیں لینی چاہیے۔ خاتمہ کلام : جب خضر (علیہ السلام) نے تمام واقعات کی تاویلات بیان کردیں تو اخیر میں یہ کہا لیجیئے یہ ہے باطنی حقیقت ان چیزوں کی جن کے ظاہر کو دیکھ کر آپ میں صبر کی طاقت نہ رہی۔ آپ شریعت کے ظاہری احکام کی وجہ سے مجبور اور معذور تھے۔ شریعت میں اس قسم کے افعال کے جواز کی گنجائش نہیں ہوتی اور میں باطنی احکام کی وجہ سے مجبور اور معذور تھا۔ و لکل وجہۃ ھو مولیھا اور حسب وعدہ میں نے آپ کو ان واقعات کے تاویلات سے آگاہ کردیا چناچہ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) ان سے رخصت ہوئے۔ لطائف و معارف (1) خضر (علیہ السلام) کا نام بلیا بن ملکان تھا اور کنیت ان کی ابو العباس تھی اور خضر بفتح خاء اور کسر ضاد ان کا لقب تھا۔ شاہی خاندان سے تھے دنیا کو ترک کیا اور زہد اور درویشی کی راہ اختیار کی۔ ظاہر میں ذو القرنین کے وزیر تھے لیکن در پردہ فقیر اور درویش تھے اور خضر اس لیے ان کا نام ہوگیا کہ ایک صاف اور چٹیل زمین ان کے بیٹھنے سے سر سبز ہوگئی اور مجاہد (رح) کہتے ہیں کہ خضر کو اس لیے خضر کہا گیا کہ جب وہ نماز پڑھتے تھے تو ان کے ارد گرد کی زمین سر سبز ہوجاتی تھی اور بعض کہتے ہیں کہ ان کا نام ” عابر “ یا ” خضرون “ تھا اور صحیح اور راجح قول یہ ہے کہ ان کا نام بلیا بن ملکان تھا۔ (دیکھو فتح الباری ص 309 جلد 6 حدیث الخضر مع موسیٰ علیہما السلام) (2) جمہور علماء کے نزدیک خضر (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں اور ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے صلبی فرزند ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ خضر (علیہ السلام) منجملہ فرشتوں کے ایک فرشتہ تھے بنی آدم میں سے نہ تھے (مزید اقوال کی تفصیل کے لیے فتح الباری ص 310 جلد 6 حدیث الخضر مع موسیٰ (علیہما السلام) دیکھیں ) ۔ یہ ناچیز کہتا ہے کہ حقیقت حال تو اللہ کو معلوم مگر خضر (علیہ السلام) کے جو افعال حق تعالیٰ نے ذکر فرمائے تو وہ ملائکہ مدبرات امر سے یعنی کارکنان قضاء و قدر سے ملتے جلتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ملائکہ کرام کا علم اور قسم کا ہے اور انبیاء ومرسلین کا علم اور قسم کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ دکھلا دیا کہ ہمارے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جو ملائکہ کی طرح ہمارے حکم کے مطابق کام کرتے ہیں اور کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ در پردہ کیا ماجرا ہے۔ خضر (علیہ السلام) اگرچہ نسل آدم سے ہوں مگر عجب نہیں کہ ان پر غلبہ شان ملکیت کا ہو اور اس طرح کے امور ان کے سپرد کیے گئے ہوں جس طرح کے امور ملائکہ کے سپرد کیے گئے اور عجب نہیں کہ اسی غلبہء ملکیت کی وجہ سے خضر (علیہ السلام) عام نظروں سے محجوب و مستور کر دئیے گئے ہوں جیسے عام لوگوں کو فرشتے نظر نہیں آتے اسی طرح حضرت خضر (علیہ السلام) بھی عام لوگوں کو نظر نہیں آتے۔ خضر (علیہ السلام) حقیقت کے اعتبار سے اگرچہ انسان ہوں مگر عملی طور پر نمونہء ملائکہ ہیں اور رجال غیب میں سے ہیں جو عام نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو خضر (علیہ السلام) کے پاس جانے کا حکم اس لیے ہوا کہ وہاں جا کر دیکھیں کہ خضر (علیہ السلام) کو جو علم دیا گیا ہے وہ دوسری قسم کا ہے تم اس سے واقف نہیں بلکہ وہ ایسا علم ہے جو بظاہر علوم نبوت اور علوم شریعت کے خلاف ہے اور تم اس کو دیکھ کر صبر نہ کرسکو گے بلاشبہ اے موسیٰ تم ہمارے رسول عظیم اور کلیم ہو اور بلاشبہ اس وقت تمام روئے زمین پر تمہارا ہی مرتبہ سب سے بلند ہے مگر اس بات کو ہر وقت مستحفر رکھو کہ تمہارا علم محیط نہیں تم ہمارے مقرب خاص بندے ہو۔ تمہیں خاص طور پر احتیاط لازم ہے مبادا تمہاری زبان سے کوئی لفظ ایسا نکل جائے کہ جس میں خلاف حقیقت کا کوئی ادنیٰ سا شائبہ یا واہمہ بھی نکل سکے۔ اللہ تعالیٰ کے دریائے علم کی کوئی حد اور انتہا نہیں جس کو جو علم ملا ہے وہ خدا کے دریائے بےپایاں کا ایک قطرہ ہے جب سوال کیا جائے کہ سب سے زیادہ علم والا کون ہے تو ادب کا تقاضا ہے کہ خدا کے علم محیط پر محول کردیا جائے۔ (3) علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ خضر (علیہ السلام) نبی ہیں یہ ولی ہیں جمہور علماء کا قول ہے کہ وہ ولی تھے نبی نہ تھے اور علماء کرام کی ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ وہ نبی تھے پھرنا معلوم کہ وہ رسول تھے یا رسول نہ تھے صرف نبی تھے۔ علماء کا جو گروہ ان کی نبوت کا قائل ہے وہ حجت اور استدلال میں چند امور ذکر کرتا ہے۔ پہلی دلیل : یہ کہ حق تعالیٰ خضر (علیہ السلام) کے حق میں فرماتے ہیں و اٰ تینٰہ رحمۃ من عندنا۔ یعنی ہم نے ان کو اپنے پاس سے رحمت عطا کی اور رحمت سے نبوت مراد ہے جیسا کہ حق تعالیٰ کے اس قول، وما کنت ترجوٓا ان یلقیٰٓ الیک الکتٰب الا رحمۃ من ربک میں رحمت سے نبوت مراد ہے۔ جواب : نبوت بیشک اللہ کی رحمت ہے مگر ہر رحمت کا نبوت ہونا ضروری نہیں جس طرح نبوت اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اسی طرح ہدایت اور ولایت بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ دوسری دلیل : قائلین نبوت دوسری دلیل پیش کرتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے خضر (علیہ السلام) کے حق میں یہ فرمایا ہے و علمنٰہ من لدنا علما۔ اللہ تعالیٰ نے خود خضر (علیہ السلام) کو بلا واسطہء معلم کے تعلیم دی اور یہ شان نبی کی ہے۔ جواب : علم لدنی اور الہام ربانی سے نبی ہونا لازم نہیں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے و او حینآ الیٰ ام موسیٰٓ ان ار ضعیہ اس آیت میں موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ کی طرف اللہ کی وحی اور الہام کا ذکر ہے مگر وہ نبیہ نہ تھیں اور علیٰ ھٰذا قرآن قریم میں حضرت مریم (علیہ السلام) نے فرشتوں کا کلام اور خطاب اور بشارت مذکور ہے مگر وہ نبیہ نہ تھیں بلکہ ولیہ اور صدیقہ تھیں۔ تیسری دلیل : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کلیم اللہ نے خضر (علیہ السلام) سے درخواست کی حالانکہ نبی کو غیر نبی سے علم سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں اور غیر نبی کو نبی کے اتباع اور پیروی کی ضرورت ہے۔ جواب : نبی کو علوم نبوت اور علم ہدایت اور علوم شریعت میں غیر نبی کی تعلیم اور اس کے اتباع کی ضرورت نہیں مگر یہ جائز ہے کہ نبی ماسوائے علوم نبوت کے کوئی دوسرا علم غیر نبی سے حاصل کرے اور اس دوسرے علم میں اس کی پیروی کرے یہ نبوت کے منافی نہیں ہے جن علوم سے نبوت کو تعلق نہ ہو تو اگر نبی کو ان میں سے کسی علم کی ضرورت اور حاجت ہو تو وہ غیر نبی کے اتباع سے حل کرسکتا ہے اور حدیث جس میں خضر (علیہ السلام) کا واقعہ ہے اس کی مؤید ہے۔ (4) نیز علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ خضر (علیہ السلام) ابھی تک زندہ ہیں یا مرچکے ہیں جمہور علماء شریعت کا مذہب یہ ہے کہ وہ زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے چشمہء حیات سے پانی پیا ہے اور یہی وہ شخص ہیں جن کو دجال قتل کر کے زندہ کرے گا۔ اور ان کے بعد کسی کے قتل پر قادر نہ ہوگا قیامت کے قریب جب قرآن سینوں اور مصاحف سے اٹھا لیا جائے گا اس وقت ان کی وفات ہوگی اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ خضر (علیہ السلام) مرچکے ہیں بہر حال علماء میں اختلاف ہے کہ خضر (علیہ السلام) زندہ ہیں یا وفات پا چکے ہیں مگر صوفیائے کرام اور اولیائے عظام بلا اختلاف سب اسی پر متفق ہیں کہ خضر (علیہ السلام) زندہ ہیں۔ حافظ ابو عمرو بن صلاح (رح) اور امام نووی (رح) فرماتے ہیں کہ اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ خضر (علیہ السلام) ہم میں زندہ ہیں اور صوفیائے کرام اہل صلاح اور اہل معرفت کا اتفاق اسی پر ہے اور اہل صلاح اور اہل معرفت کے خضر کے دیدار اور ان کے ساتھ یک جا جمع ہونے کی اور ان سے سوال کرنے اور جواب پانے کی اور مقامات متبرکہ میں ان کی زیارت کی اس قدر کثرت سے حکایتیں ہیں کہ جو شمار سے باہر ہیں اور ایسی مشہور کہ ان کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ بہر حال جمہور علماء کرام اور عامہء اہل صلاح و اولیائے عظام بالاتفاق حضرت خضر (علیہ السلام) کے زندہ ہونے کے قائل ہیں۔ صرف بعض محدثین نے اس کا انکار کیا ہے جن میں ابو یعلیٰ حنبلی (رح) اور قاضی ابوبکر بن عربی (رح) اور ابوبکر بن عیاش (رح) اور ابن جوزی (رح) اور ابن تیمیہ (رح) ہیں۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ حضرت خضر (علیہ السلام) وفات پا چکے ہیں اگر وہ زندہ ہوتے تو آنحضرت ﷺ کی خدمت بابرکت میں ضرور حاضر ہوتے اور آپ ﷺ پر ایمان لاتے اور آپ ﷺ کے ہمراہ جہاد کرتے حالانکہ یہ امر کہیں ثابت نہیں۔ نیز آیت وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد سے استدلال کرتے ہیں کہ کسی بشر کے لیے خلود اور دوام نہیں اور نیز بخاری کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی وفات سے ایک ماہ قبل یہ ارشاد فرمایا لا یبقی ممن ہو علی وجہ الارض الیٰ مائت سنۃ کہ جو لوگ اس وقت روئے زمین پر زندہ ہیں وہ سو سال کے بعد باقی نہ رہیں گے اور وفات کے قول کو امام بخاری (رح) کی طرف بھی نسبت کرتے ہیں واللہ اعلم۔ مگر اہل علم پر مخفی نہیں کہ یہ استدلال نہایت ضعیف اور کمزور ہے یہ استدلال اگر صحیح ہوجائے تو اس سے تو ملائکہ اور جنات اور شیاطین سب کی وفات بھی ثابت ہوسکتی ہے بلکہ دجال کی موت بھی ثابت ہوسکتی ہے حالانکہ وہ بالا جماع زندہ ہے اور ایک جزیرہ میں محبوس ہے۔ جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ خضر (علیہ السلام) تمام آدمیوں میں سب سے زیادہ طویل العمر ہیں۔ انہوں نے چشمہ حیات سے پانی پیا ہے اور ولی کامل ہیں۔ معمر (طویل العمر) اور محجوب عن الابصار یعنی عام نگاہوں سے پوشیدہ ہیں اور آنحضرت ﷺ سے ان کی ملاقات کا متعدد احادیث میں ذکر آیا ہے جن کا حافظ عسقلانی نے فتح الباری ص 311 جلد 6 میں ذکر کیا۔ وہ روایتیں اگرچہ زیادہ مستند نہیں لیکن موضوع اور بےاصل بھی نہیں اور اس بارے میں زیادہ مشہور، حدیث تعزیت ہے وہ یہ کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ایک سفید ریش بزرگ حضور پر نور ﷺ کے جنازہ پر آئے اور روئے اور لوگوں کو صبر کی تلقین کی اور غائب ہوگئے ان کے جانے کے بعد ابوبکر صدیق ؓ اور عمر فاروق اعظم ؓ نے لوگوں سے کہا کہ یہ خضر (علیہ السلام) تھے اور یہ حدیث مستدرک حاکم میں جابر بن عبداللہ اور انس بن مالک ؓ سے مروی ہے۔ (دیکھو تحفۃ الذاکرین شرح حصن حصین للشو کانی ص 261) اور بعض روایات میں اس طرح آیا ہے فقال ابوبکر و علی ھذا الخضر (ابوبکر ؓ اور علی ؓ نے کہا یہ خضر (علیہ السلام) ہیں) (دیکھو فتح الباری ص 311 ج ذکر حدیث الخضر مع موسیٰ علیہما السلام) اور کعب احبارؓ سے منقول ہے کہ چار پیغمبر زندہ ہیں جو زمین والوں کے لیے امان ہیں ان چار میں سے دو زمین میں ہیں خضر (علیہ السلام) اور الیاس (علیہ السلام) ۔ یہ دونوں نبی ہیں اور دونوں زندہ ہیں اور ہر سال موسم حج میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں۔ یہ دونبی تو زمین میں ہیں اور دو نبی آسمان پر زندہ ہیں ادریس (علیہ السلام) اور عیسیٰ علیہ السلام۔ (دیکھو فتح الباری ص 310 جلد 6 حدیث الخضر مع موسیٰ علیہما السلام) اور دیکھو تفسیر مظہری ص 62 جلد 6 پر مجدد صاحب کا کلام نقل کیا ہے۔ جو لطیف ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ خضر (علیہ السلام) ہمارے درمیان زندہ موجود ہیں اور صوفیائے کرام اور اولیائے عظام بلا اختلاف سب اسی پر متفق ہیں اور متفقہ طور پر حضرت خضر (علیہ السلام) سے اپنی ملاقاتوں کو بیان کرتے ہیں اور اولیائے کرام کی یہ حکایتیں حد تواتر کو پہنچی ہیں جو شمار سے باہر ہیں۔ (فتح الباری 310 ج 6) اور یہ امر قطعی اور بدیہی اور مسلم ہے کہ اولیاء کرام اہل کشف اور اہل الہام ہیں اور بلاشبہ یہ گروہ صادقین اور سچوں کا گروہ ہے۔ اس گروہ صادقین کے متفقہ مشاہدات اور مکاشفات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پھر یہ کہ خضر (علیہ السلام) کی حیات کا مسئلہ امور تشریعیہ سے نہیں بلکہ امور تکوینیہ اور اسرار کونیہ کی جنس سے ہے۔ حضرت استاد مولانا سید انور شاہ قدس اللہ سرہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ جب کسی مسئلہ میں علماء شریعت اور اولیائے طریقت کا اختلاف پاؤ تو یہ دیکھو کہ وہ مسئلہ امور تشریعیہ یعنی احکام شریعت سے متعلق ہے یا امور تکوینیہ یا اسرار کونیہ کے باب سے ہے، پس اگر وہ مسئلہ امور تشریعیہ یعنی حلال و حرام اور یجوز اور لا یجوز سے متعلق ہو تو اس وقت علماء شریعت کے قول اور فتویٰ کو ترجیح دینا کیونکہ علماء شریعت کا گروہ احکام شریعت سے خوب آگاہ ہے اور اگر وہ مسئلہ امور تکوینیہ اور اسرار کونیہ سے متعلق ہو اور افعال مکلفین سے اس کا تعلق نہ ہو تو اس جگہ اولیائے طریقت اور اہل معرفت و ارباب بصیرت کے قول کو ترجیح دینا کیونکہ یہ گروہ اہل کشف اور اہل الہام کا گروہ ہے اور بلاشبہ صادقین اور صالحین کا گروہ ہے۔ یہ گروہ جب اپنا کوئی مشاہدہ اور مکاشفہ بیان کرے تو عقلا و نقلا اس کو قبول کرنا ضروری ہے بخاری کی متعدد احادیث میں آیا ہے ارٰی رؤیاکم قد تواطئت علیٰ العشر الاو اخر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے خواب شب قدر کے بارے میں عشرہء اخیرہ پر متفق ہیں اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس امر پر عباد الصالحین کے خواب متفق ہوجائیں وہ ضرور حق ہوگا۔ حدیث شریف میں ہے کہ مومن کا خواب کاذب نہیں ہوتا اسی طرح جب اہل الہام اور اہل کشف کے مکاشفات اور مشاہدات کسی چیز پر متفق ہوجائیں تو وہ لامحالہ حق ہوگی خاص کر جب علماء شریعت کا بھی وہی قول ہو کہ جس پر تمام صوفیاء اور اولیاء متفق ہوں تو اس کے قبول و تسلیم میں کوئی تردد ہی نہیں ہونا چاہیے اور حیات خضر (علیہ السلام) کا مسئلہ امور تکوینیہ میں سے ہے۔ لہٰذا اس بارے میں اہل کشف اور اہل الہام کے قول کو ترجیح ہوگی۔ واللہ اعلم و علمہ اتم و احکم۔ (5) موسیٰ (علیہ السلام) اور یوشع بن نون جب مقام مجمع البحرین پہنچے تو دونوں مچھلی کو بھول گئے اور وہ بھنی ہوئی مچھلی خدا کی قدرت سے زندہ ہو کر دریا میں چلی گئی اور وہاں اس نے اپنے لیے سرنگ اور طاق بنا لیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے یہ دو معجزے ہوئے ایک دو بھنی ہوئی مچھلی کا زندہ ہوجانا اور دوسرا یہ کہ پانی کا منجمد ہوجانا اور مچھلی کے لیے ایک طاق کا بن جانا۔ مردہ کا زندہ ہوجانا اور پھر دریا میں خشک راہ کی طرح سرنگ بن جانا یہ سب آیات قدرت اور دلائل نبوت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خضر (علیہ السلام) کے ملنے کی جگہ یہی نشانی بتلائی تھی کہ جہاں وہ ناشتہ کی مچھلی زندہ ہوجائے اور یہی ان کے ملنے کی جگہ ہے اس قسم کا معجزہ موسیٰ (علیہ السلام) کا سورة بقرہ میں گزر چکا ہے : ان اللہ یا مرکم ان تذبحوا بقرۃ۔۔۔ الیٰ قولہٖ تعالیٰ ۔۔ فقلنا اضربوہ ببعضھا کذٰلک یحی اللہ الموتیٰ و یر یکم اٰ یٰتہٖ لعلکم تعقلون۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ ایک گائے ذبح کی جائے اور اس کے کسی ٹکڑے کو مقتول پر لگا دو وہ خود ہی زندہ ہو کر اپنے قاتل کا نام بتا دے گا۔ نیز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا کا معجزہ عطا کیا گیا تھا جو زمین پر ڈالنے سے اژدھا بن جاتا تھا۔ یہ بھی ایک قسم کا احیاء موتیٰ تھا بلکہ اس سے بڑھ کر تھا اور مچھلی کے زندہ ہوجانے کی نظیر آنحضرت ﷺ کے معجزات میں بھی موجود ہے کہ فتح خیبر کے بعد خیبر کی ایک یہودیہ نے آنحضرت ﷺ کی دعوت کی اور ایک بھنی ہوئی بکری لا کر آپ ﷺ کے سامنے رکھی جس میں زہر ملایا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے اس میں سے ایک دست کو لیا تو اس نے کہا یا رسول اللہ آپ ﷺ مجھے نہ کھائیے مجھ میں زہر ملایا گیا ہے آنحضرت ﷺ کا یہ معجزہ مچھلی کے معجزے سے بڑھ کر ہے۔ وہ تو فقط زندہ ہوگئی اور اس بکری کے دست نے آپ ﷺ سے باتیں کیں اور دشمنوں نے جو زہر اس میں ملایا تھا اس سے آپ ﷺ کو آگاہ کردیا اور علیٰ ہٰذا ستون حنانہ کا رونا اور پتھروں کا آپ ﷺ کو سلام کرنا اور سنگریزوں کا تسبیح پڑھنا اور درختوں کا آپ ﷺ کے حکم سے رواں ہونا یہ ایک مردہ کے فقط زندہ ہوجانے سے بڑھ کر ہے کیوں کہ یہ جمادات زندہ ہو کر بول رہے ہیں اور آپ ﷺ کی نبوت کی شہادت دے رہے ہیں۔ امام بیہقی (رح) نے دلائل نبوت میں سواد بن عمر (رح) سے روایت کیا ہے کہ امام شافعی (رح) نے فرمایا کہ اللہ نے جو معجزات آنحضرت ﷺ کو دئیے وہ کسی کو نہیں دئیے۔ سواد بن عمر (رح) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے امام ! حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تو مردوں کو با ذن الہی زندہ کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو احیاء موتیٰ کا معجزہ عطا فرمایا تھا (یعنی آپ ﷺ کو یہ معجزہ نہیں عطا کیا) اس پر امام شافعی (رح) نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لیے خشک ستون کو زندہ کردیا جس سے سہارا لگا کر آنحضرت ﷺ خطبہ پڑھا کرتے تھے جب منبر تیار ہوگیا تو وہ خشک ستون تھا بچوں کی طرح رویا جس کے رونے کی آواز تمام حاضرین جمعہ نے سنی یہ معجزہ اس سے بڑھ کر ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ خشک ستون کا آپ ﷺ کی مفارقت کے صدمہ سے رونا یہ اسکی کمال محبت کی دلیل ہے اور کمال معرفت کی دلیل ہے اور مچھلی کا سمندر میں راستہ بنالینا اور مچھلی کے چھونے سے پانی کا خشک اور منجمد ہوجانا اور اسی کے لیے مثل روشن دان کے بن جانا یہ معجزہ فلق البحر کے معجزہ کے مشابہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب رات کے وقت بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے تو سمندر میں ان کے لیے خشک راستے ہوگئے جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور ہے، فاروق اعظم ؓ نے دشمن کے مقابلہ میں ایک لشکر روانہ کیا جس پر علاء بن حضرمی ؓ کو سردار مقرر کیا راستہ میں شدید گرمی پہنچی اور سخت پیاس لگی۔ راوی کہتا ہے کہ علاء بن حضرمی ؓ نے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی اور ہاتھ اٹھا کر دعا کی آسمان پر کہیں ابر کا نام و نشان نہ تھا خدا کی قسم ! ابھی ہاتھ نیچے نہ کیے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ٹھنڈی ہوا اور بادل بھیجا جس نے پانی انڈیل دیا اور پورا لشکر سیراب ہوگیا اور ہم نے اپنی مشکیں اور برتن سب بھر لیے پھر ہم دشمن کی طرف روانہ ہوئے راستہ میں ایک خلیج آگئی جس سے پار ہونا تقریبا ناممکن تھا۔ علاء بن حضرمی ؓ نے کنارے پر کھڑے ہو کر یہ کلمات پڑھے یا علی۔ یا عظیم۔ یا حلیم۔ یا کریم۔ پھر کہا بسم اللہ پڑھ کر گزرو اور پار ہوجاؤ۔ پس ہم بسم اللہ پڑھ کر روانہ ہوئے اور اپنی سواریوں کو خلیج میں ڈال دیا اور پار ہوگئے اور جانوروں کے کھر بھی پانی سے در نہ ہوئے اور پہنچ کر دشمن پر حملہ کیا اور بحمداللہ فتحیاب ہوئے اور دشمن کو قتل کیا اور گرفتار کیا۔ پھر لوٹ کر اسی خلیج پر پہنچے علاء بن حضرمی ؓ نے پہلے کی طرح کیا اور ہم اسی طرح خلیج سے پار ہو کر خشکی پر آگئے اور پانی کی کوئی تری ہم کو نہیں لگی۔ خطیب (رح) ان روایات کو نقل کر کے لکھتے ہیں کہ اس قسم کی کرامات کے بارے میں بکثرت احادیث آئی ہیں۔ (دیکھو تفسیر سراج منیر ص 319 جلد 2) قصہ ذوالقرنین
Top