Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
اور تم سے ذوالقرنین کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ میں اس کا کسی قدر حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں
بود شا ہے در زمان پیش زیں ملک دنیا بودش وہم ملک دیں قال اللہ تعالیٰ ۔ و یسئلونک عن ذی القرنین۔۔۔ الیٰ ۔۔۔ و کانوا لا یستطیعون سمعا۔ (ربط) شروع سورت میں اصحاب کہف کا قصہ ذکر فرمایا جو قریش کے دوسرے سوال کا جواب تھا۔ اب اخیر سورت میں ذوالقرنین کا قصہ ذکر فرماتے ہیں جو قریش کے تیسرے سوال کا جواب ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ذوالقرنین ایک عادل اور نیک دل بادشاہ تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے مشرق سے مغرب تک کی حکمرانی اور فرمانروائی عطا کی تھی اور روئے زمین کے تمام بادشاہ اس کے زیر فرمان تھے ظاہر میں وہ بادشاہ تھا مگر باطنی طور پر وہ اصحاب کہف سے زیادہ فقیر اور درویش تھا بادشاہت اور ولایت۔ امیری اور فقیری دونوں کا جامع تھا عجیب بادشاہ کہ اپنی نوع کا مجمع البحرین تھا۔ جس میں ظاہری اور باطنی سلطنت کے دونوں دریا جمع تھے۔ علماء شریعت یہ کہتے ہیں کہ ذوالقرنین کو ذوالقرنین اس لیے کہا گیا کہ وہ دنیا کے دونوں کناروں (مشرق و مغرب) پر پہنچ گیا اور مشرق سے لیکر مغرب تک دنیا کا فرماں روا اور بادشاہ بنا اور اولیائے طریقت یہ کہتے ہیں کہ اس کو ذوالقرنین اس لیے کہا گیا کہ اس کو علم ظاہری اور علم باطنی دونوں عطا کیے گئے تھے۔ (فتح الباری ص 272 ج 6 و عمدۃ القاری ص 327 ج 7) یہ ناچیز کہتا ہے۔ دونوں توجیہیں درست ہیں ظاہر کے اعتبار سے تو وجہ یہ ہے کہ وہ زمین کے دونوں کناروں پر پہنچ گیا اس لیے اس کو ذوالقرنین کہا گیا اور باطنی اور معنوی طور پر یہ وجہ بھی درست ہے کہ اس کو علم ظاہر اور باطن دونوں عطا ہوئے تھے اس لیے اس کو ذوالقرنین کہا گیا اور ہر ظاہر کے تحت ایک باطن ہوتا ہے اور یہ باطن اس ظاہر کے ماتحت ہوتا ہے اس لیے کہ ذوالقرنین اگرچہ ظاہر میں بادشاہ تھا مگر باطنی اور معنوی طور پر روئے زمین کو خانقاہ بنائے ہوئے تھا۔ اصحاب کہف، کافر و ظالم فرماں روا سے بھاگ کر پہاڑ کی غار میں جا کر چھپے اور ذوالقرنین یا جوج ماجوج جیسے ظالموں اور مفسدوں کو پہاڑ کے پیچھے دھکیل کر آہنی دیوار قائم کر رہا تھا کہ کوئی کافر اور ظالم اور فتنہ پرداز ملک میں داخل ہو کر فتنہ و فساد برپا نہ کرسکے۔ اصحاب کہف کافروں اور ظالموں سے ڈر کر غار میں جا کر چھپے اور ذوالقرنین جیسا بادشاہ مشرق سے لے کر مغرب تک کافروں اور ظالموں کو دھمکاتا ہوا چلا گیا۔ ذوالقرنین کا یہ قصہ جس طرح اس کی سلطنت اور شان و شوکت کے بیان پر مشتمل ہے اسی طرح اس کی کرامتوں اور خارق عادت کارناموں کے بیان پر بھی مشتمل ہے جو اس کے ولی کامل ہونے کے دلائل ہیں بلکہ اس کے احوال اور اعمال پر نظر کرنے سے یہ خیال ہوتا ہے کہ شاید ذوالقرنین بھی خضر (علیہ السلام) کی طرح نمونہء ملائکہ ہو جس میں شان ملکیت بکسراللام بمعنی بادشاہت اور شان ملکیت بفتح لام بمعنی فرشتہ ہونے کی کچھ صفت اور شان اس میں ودیعت کردی گئی ہو اور یہ خیال اس لیے ہوا کہ بعض علماء نے خضر (علیہ السلام) کی طرح ذوالقرنین کو بھی فرشتہ بتایا ہے اور صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین فرشتہ تو نہ تھا بلکہ فرشتہ صفت انسان تھا جن کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی قوت اور قدرت کا ایک نمونہ بنایا تھا۔ ذوالقرنین ابراہیم (علیہ السلام) کا ہمعصر تھا۔ ان پر ایمان لایا تھا ان کے صحابہ میں سے تھا۔ خانہ کعبہ کے سامنے ان سے ملا اور مصافحہ کیا اور دعا کی درخواست کی ان کی دعا کی برکت سے مشرق و مغرب کے سفر اس پر آسان ہوگیا اور خارق عادت اور محیر العقول فتوحات پر اس کو قدرت حاصل ہوئی اور خضر (علیہ السلام) اس کے وزیر با تدبیر یا امیر لشکر تھے اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو بادشاہت کے ساتھ علم و حکمت بھی عطا فرمائی اور ہیبت کا لباس پہنایا کہ تمام روئے زمین کے بادشاہ ان کے تابع تھے اور اس سے ڈرتے تھے۔ قریش نے یہود کی تلقین سے حضور پر نور ﷺ سے یہ سوال کیا تھا کہ وہ کون سا بادشاہ ہے جس نے مشرق و مغرب کا سفر کیا اور اس کا قصہ کیا ہے ان آیات میں ان کے سوال کے جواب میں ذوالقرنین کا قصہ بیان فرمایا کہ وہ ایک بادشاہ تھا اور مرد صالح تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے مشرق و مغرب کی حکومت اور خارق عادت شان و شوکت سے نوازا تھا اور ہر طرح کے ساز و سامان اس کے لیے مہیا کردیئے تھے جیسا کہ ارشاد ہے انا مکنا لہ فی الارض و اٰتینٰہ من کل شیء سببا جس طرح اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہوا کو مسخر کردیا تھا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کے لیے اقطار ارض اور جوانب عالم کو مسخر کردیا تھا اور تمام راستوں کا علم اس کو عطا کردیا تھا۔ (عمدۃ القاری ص 338 ج 7 و زاد المیسر ص 184 جلد 5) روایت کیا گیا کہ چار آدمی تمام روئے زمین کے بادشاہ ہوئے جن میں سے دو مومن تھے اور دو کافر تھے دو مومن ذوالقرنین (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) تھے اور دو کافر بد بخت نصر اور نمرود تھے، اور پانچواں فرمانروا امام مہدی (علیہ السلام) ہیں جو اخیر زمانہ میں ظاہر ہوں گے اور تمام روئے زمین کے بادشاہ ہوں گے پہلے چار بادشاہ امم سابقہ میں سے تھے اور پانچویں بادشاہ امت محمدیہ ﷺ میں سے یعنی (امام مہدی علیہ السلام) ہوں گے۔ لیظھرہ علی الدین کلہٖ ۔ اور یہ ذوالقرنین جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے اور جس کو سکندر بھی کہا گیا ہے۔ یہ سکندر یونانی کے علاوہ دوسرا بادشاہ ہے اور سکندر یونانی سے دو ہزار سال قبل گزرا ہے اور جس نے یہ گمان کیا کہ یہ ذوالقرنین وہی سکندر یونانی تھا جس نے اسکندریہ کو تعمیر کیا۔ وسو یہ گمان بالکل غلط ہے اس لیے کہ ذوالقرنین جس کا قصہ قرآن میں بیان ہوا وہ مرد مومن اور دیندار اور انصاف شعار بادشاہ تھا اور سکندر یونانی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہمعصر تھا اور خضر (علیہ السلام) اس کے وزیر با تدبیر یا امیر لشکر تھے اور سکندر یونانی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وہ ہزار سال بعد پیدا ہوا اور وہ کافر اور مشرک تھا اور ارسطاطالیس اس کا وزیر تھا اور وہ فقط بیت المقدس تک پہنچا تھا مشرق و مغرب تک نہ پہنچا تھا اور نہ اس نے یاجوج ماجوج کے روکنے کے لیے کوئی دیوار بنائی تھی اور حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذوالقرنین کا قصہ ذکر کیا ہے نہ کہ سکندر یونانی کا لہٰذا دونوں ایک کیسے ہوسکتے ہیں۔ (دیکھو عمدۃ القاری ص 337 ج 7 و فتح الباری ص 270 جلد 6 و قسطلانی ص 111 جلد 7، و تفسیر ابو داؤد) اور اس ذوالقرنین کا زمانہء سلطنت نمرود کے بعد ہے (دیکھو روح البیان ص 290 جلد 5 اور روح المعانی ص 27 جلد 6) یا یوں کہو کہ گزشتہ قصہ میں طلب علم کے لیے سفر کا بیان تھا اب اس قصہ میں انتطام مملکت اور قیام معدلت اور مغرور دین و متکبرین اور مفسدین کی سرکوبی کے لیے سفر کا بیان ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ بادشاہ کامل وہ ہے جو خدا کے ماننے والوں کے ساتھ نرمی کرے اور ظالموں اور مفسدوں کو سزا دے۔ چناچہ فرماتے ہیں اے نبی ! قریش مکہ یہود کے کہنے سے امتحانا آپ ﷺ سے ذوالقرنین کا حال پوچھتے ہیں کہ شاید آپ ﷺ کی نبوت میں قدح کرنے کا کوئی بہانہ مل جائے۔ آپ ﷺ ان کے جواب میں کہہ دیجیے کہ میں عنقریب تمہارے سامنے اس کا مختصر حال ذکر کروں گا اب آگے اس کا قصہ شروع ہوتا ہے وہ یہ کہ وہ ایک جلیل القدر بادشاہ تھا تحقیق ہم نے اس کو زمین میں بڑی قدرت اور غلبہ دیا تھا یعنی ہم نے اس کو اپنی رحمت اور عنایت سے روئے زمین کی حکومت عطا کی تھی۔ مشرق سے لے کر مغرب تک دنیا کو اس کے لیے مسخر کردیا تھا۔ اور ہم نے اس کو وہ تمام اسباب و وسائل عطا کیے تھے جو حکمرانی اور ملکی فتوحات اور دشمنوں کی سرکوبی میں کام آسکیں۔ زاد المیسر ص 184 جلد 5 میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کے لیے ابر کو مسخر کردیا تھا کہ ابر پر سوار ہو کر جہاں چاہتا جاتا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہوا کو مسخر کردیا تھا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کے لیے بادل کو مسخر کردیا تھا اور ہر قسم کے اسباب و وسائل اس کے لیے مہیا کردیئے تھے اور زمین کی اطراف و جوانب اور اس کے راستوں کا علم بھی اسکو عطا کردیا تھا (دیکھو عمدۃ القاری ض 338 جلد 7) غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو وہ تمام چیزیں عطا کیں جو سلطنت کے لیے درکار ہوتی ہیں اور ہم نے اس کو وہ تمام اسباب و وسائل عطا کیے تھے اور زمین کی تمام راہیں اس کے لیے آسان کردیں کہ جہاں چاہے وہاں پہنچ سکے۔ مشرق سے مغرب تک کا سفر اس کے لیے آسان کردیا گیا۔ اس زمانہ میں ریل اور ہوائی جہاز اور تار برقی عجیب عجیب چیزیں خدا کی قدرت سے انسان کے لیے مہیا ہوگئیں تو کیا عجب ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے کسی مقبول بندے کے لیے اس سے بڑھ کر عجیب عجیب سامان مہیا کر دئیے ہوں جو کسی صنعت اور کاریگری کے محتاج نہ ہوں جیسے احادیث میں آیا ہے کہ اخیر زمانہ میں امام مہدی (علیہ السلام) تمام روئے زمین کے مالک اور فرماں روا ہوں گے بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ کسی کو تمام روئے زمین کا مالک بنا دے اور اس کے لیے اسباب و وسائل مہیا فرما دے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کے لیے ہر ضرورت کی چیز مہیا کردی تھی۔ زمین اس کے لیے لپیٹ دی گئی تھی۔ دم کے دم میں ہزاروں میل طے کرلیتا تھا جو خدا امریکہ اور روس کے لیے سامان مہیا کرسکتا ہے وہ ذوالقرنین اور سلیمان (علیہ السلام) کے لیے بھی مہیا کرسکتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرما دیاذوالقرنین نے اپنی عمر کے تین سفر کیے ایک مغرب کی طرف دوسرا مشرق کی طرف اور تیسرے سفر کی سمت اور جہت بیان نہیں کی ظاہرا یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سفر شمال کی جانب تھا آئندہ آیات میں ان تین سفروں کا بیان ہے۔
Top