Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 92
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا
ثُمَّ
: پھر
اَتْبَعَ
: وہ پیچھے پڑا
سَبَبًا
: ایک سامان
پھر اس نے ایک اور سامان کیا
سفر سوم ثم اتبع سببا حتٰیٓ اذا بلغ بین السدین۔۔۔ الیٰ ۔۔ وکانوا لا یستطیعون سمعا۔ ذکر تعمیر سد آہنی برائے انسداد خروج یا جوج و ماجوج پھر مشرق و مغرب کے سفر سے فارغ ہو کر مشرق و مغرب کے درمیان جنوب سے شمال کی طرف ایک تیسری راہ کے پیچھے ہو لیا۔ یہاں تک کہ جب وہ چلتا چلتا دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا جس کی پشت پر یاجوج ماجوج کی زمین تھی تو ان پہاڑوں کے پیچھے اس نے عجیب و غریب قوم پائی جو کم عقلی کی وجہ سے کسی بات کے سمجھنے کے قریب بھی نہ پہنچے تھے یعنی غیر زبان ہونے کی وجہ سے تو بات نہیں سمجھتے تھے اور وحشی اور کم عقل ہونے کی وجہ سے سمجھنے کے قریب بھی نہیں پہنچتے تھے ورنہ عاقل آدمی قرائن سے کچھ نہ کچھ سمجھ ہی لیتا ہے پھر غالبا انہوں نے کسی ترجمان کے ذریعہ سے یا اشاروں اور کنایوں کے ذریعے سے ذوالقرنین سے عرض کیا اے شاہ ذوالقرنین بیشک یہ یاجوج ماجوج کی قوم جو اس درہ کے پیچھے رہتی ہے یہ بڑے ہی مفسد اور فتنہ پرداز لوگ ہیں جو زمین میں تباہی اور اودھم مچانے والے ہیں جن کا کام ہی لوٹ مار اور قتل و غارت ہے۔ مردم خور ہیں آدمیوں کو بھی کھا جاتے ہیں اور کھیتوں کو بھی ہضم کر جاتے ہیں۔ (زاد المیسر صفحہ 191 جلد 5) مطلب یہ ہے کہ ظاہر میں وہ ہم جیسے انسان ہیں مگر درندگی میں وہ درندوں سے بڑھ کر ہیں ہم میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں سو کیا آپ ہم کو اجازت دیں گے کہ ہم لوگ آپ کے لیے کچھ چندہ جمع کریں گے اس شرط پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایسی مضبوط اور مستحکم دیوار کھڑی کردیں جو ان کو ہماری طرف آنے سے روک دے۔ ذوالقرنین نے جواب دیا کہ میرے پروردگار نے مجھ کو دسترس عطا کی ہے وہ تمہارے اس چندہ سے کہیں بہتر ہے۔ مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں البتہ تم اپنی جسمانی اور عملی قوت سے میری مدد کرو جس طرح سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا تھا اتمدنن بمال فمآاٰتنی اللہ خیر ممآ اٰتٰکم۔ اسی طرح ذوالقرنین نے جواب دیا کہ میں تم سے مال نہیں چاہتا۔ ہاتھ پیر کے کام میں میری مدد کرو میں تم سے مالی امداد نہیں چاہتا بلکہ عملی امداد چاہتا ہوں تاکہ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار کھڑی کر دوں جس سے ان کا راستہ بند ہوجائے اور پھر وہ تمہاری سرزمین میں نہ آسکیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہم سے کس قسم کی قوت و اعانت چاہتے ہیں۔ ذوالقرنین نے کہا کہ مزدور اور عمدہ معمار اور سامان عمارت۔ انہوں نے کہا کہ وہ سامان عمارت کیا ہے۔ ذوالقرنین نے کہا کہ تم لوگ بجائے پتھروں کے میرے پاس لوہے کے ٹکڑے اور لوہے کی چادریں اور لوہے کی سلیں لاؤ جن کی قیمت ہم تم کو عطا کردیں گے چناچہ انہوں نے لوہے کی سلیں اور چادریں اور ٹکڑے لا کر حاضر کردیے اور موٹی موٹی لکڑیاں بھی لا کر موجود کردیں اور بجائے پتھروں کے لوہے کے ٹکڑوں کو چن دیا اور بیچ میں لکڑیاں اور کوئلے رکھ دئیے اس طرح پہاڑ کی چوٹی تک ان کو چن دیا۔ یہاں تک کہ جب ان دونوں پہاڑوں کے کناروں کا درمیانی خلا پر کر کے برابر کردیا تو حکم دیا کہ اس میں آگ لگا کر پھونک مارو یعنی خوب دھونکو یہاں تک کہ جب دھونکتے دھونکتے ان لوہے کے ٹکڑوں کو آگ اور انگارہ بنا دیا تو کہا کہ میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ تاکہ میں گرم لوہے پر اس کو بہا دوں تاکہ وہ اس کے درازوں میں گھس کر اس کو بالکل ہموار اور ایک شے بنا دے اور عجب نہیں کہ اس عظیم مقدار میں تانبے کا پگھلنا ذوالقرنین کی کرامت ہو جیسے داؤد (علیہ السلام) کے لیے اللہ تعالیٰ نے لوہے کو نرم کردیا تھا کما قال تعالیٰ و النا لہ الحدید۔ اور سلیمان (علیہ السلام) کے لیے اللہ تعالیٰ نے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ جاری کردیا تھا کما قال اللہ تعالیٰ و اسلنا لہ عین القطر۔ اسی طرح کیا عجب ہے کہ ذوالقرنین کے لیے بطور کرامت اور بطریق خرق عادت تانبے کو پگھلا دیا ہو۔ واللہ اعلم بالصواب۔ چناچہ ان کے حکم کے مطابق وہ تانبا لایا گیا اور آلات کے ذریعے یا بطور کرامت اور خرق عادت اوپر سے اس پر چھوڑ دیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ تانبا اس لوہے سے پیوست ہوگیا اور پہاڑ کی مانند ایک آہنی دیوار تیار ہوگئی جس کا طول و عرض خدا ہی کو معلوم ہے روئے زمین پر اب تک ایسی بلند اور چکنی دیوار نہیں بنی تھی۔ پھر چونکہ یہ دیوار نہایت بلند چکنی اور چوڑی اور مضبوط تھی اس لیے یاجوج و ماجوج کے لیے یہ ممکن نہ ہوا کہ وہ اس دیوار پر چڑھ کر ادھر سے ادھر تک آسکیں یا سیڑھی لگا کر اوپر چڑھ سکیں اور پھر اس سے دوسری جانب اتر سکیں اور وہ دیوار اس قدر سخت تھی کہ اس میں سوراخ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ پس جب قیامت کے قریب خروج یاجوج و ماجوج کی بابت میرے پروردگار کا وعدہ آئے گا تو اس دیوار کو ریزہ ریزہ کر کے زمین کو ہموار کر دے گا یعنی اس سد آہنی کو یاجوج ماجوج کی راہ سے ہٹا لے گا۔ اور اس روک کو ان سے ہٹا دے گا۔ اور میرے پروردگار کا وعدہ بالکل صحیح اور درست ہے یعنی میرے پروردگار کا یہ وعدہ ہے کہ یہ دیوار قیامت تک قائم رہے گی اور قیامت کے قریب یاجوج و ماجوج اس دیوار کو توڑ کر ایک دم آدمیوں پر ٹوٹ پڑیں گے اور دریا کے دریا پی کر خشک کردیں گے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے قریب خروج یاجوج و ماجوج کا جو وعدہ کیا ہے وہ حق ہے اور بلاشبہ ہونے والا ہے اور سد کو توڑ کر یاجوج و ماجوج کا نکلنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ انشاء اللہ سورة انبیاء کے اخیر میں اس کا ذکر آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ یہ علامت قیامت کے قریب ظاہر ہوگی اور احادیث صحیحہ میں یاجوج و ماجوج کے خروج کو علامات قیامت میں سے قرار دیا گیا ہے اور یہ احادیث درجۂ تواتر کو پہنچی ہیں اور تمام صحابہ وتابعین کا اس پر اجماع ہے اور جس طرح قیامت پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح علامات قیامت پر بھی ایمان لانا ضروری ہے اور جو بات قرآن کریم اور احادیث متواترہ اور اجماع صحابہ وتابعین سے ثابت ہو اس کا انکا بلاشبہ کفر ہے اور ایسی قطعیات میں تاویل کرنا الحاد اور زندقہ ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ ذوالقرنین نے لوگوں کی فرمائش پر ایک آہنی دیوار بنا دی قرآن اور حدیث سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ وہ آہنی دیوار قیامت تک قائم رہے گی اور یاجوج و ماجوج اس کے پیچھے بند رہیں گے۔ قیامت کے قریب وہ دیوار ٹوٹ جائے گی تب وہ یاجوج ماجوج وہاں سے نکلیں گے اور ان کا یہ نکلنا نزول عیسیٰ (علیہ السلام) اور خروج دجال کے بعد ہوگا۔ بالآخر یہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے غیر معمولی موت مریں گے۔ جس کی تفصیل احادیث میں ہے۔ اب رہا یہ امر کہ وہ ذوالقرنین کی بنائی ہوئی دیوار دنیا کے کس خطہ میں ہے اور وہ پہار کہاں واقع ہے سو وہ خدا ہی کو معلوم ہے اور جس چیز کی خدا خبر دے اس پر ایمان لانا فرض ہے جس خدا نے زمین کو پیدا کیا ہے وہ اپنی مخلوق سے پورا باخبر ہے ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے مکان اور باغ کی خبر نہیں اور جن لوگوں نے دیوار ذوالقرنین کا مقام معین کیا ہے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں محض ان کے خیالات اور تخمینے ہیں یا عیسائیوں یا یہودیوں کے لکھے ہوئے جغرافیے ہیں۔ خدا اور اس کے رسول ﷺ نے اس کے بارے میں کوئی تعین نہیں فرمایا جس سے یقینی طور پر اس دیوار کا مقام اور محل متعین کیا جاسکے اور ظن اور تخمینہ اہل عقل کے نزدیک تسلی بخش نہیں۔ ان الظن لا یغنی من الحق شیئا۔ (ذوالقرنین کا قصہ یہاں ختم ہوا) اب آئندہ آیت میں دنیا کے فناء وزوال کا ذکر ہے کہ یہ دیوار قیامت کے قریب تک قائم رہے گی اور جب قیامت قریب ہوگی تو یہ دیوار ٹوٹ جائے گی اور اس کے پیچھے سے یاجوج و ماجوج نکل پڑیں گے۔ ایک شبہ : آج کل سائنس دان اور ماہرین اکتشافات اور فضلائے جغرافیہ یہ شبہ پیش کرتے ہیں کہ ہم نے تمام زمین کو چھان ڈالا ہے مگر ہم کو کہیں اس دیوار کا پتا نہ ملا اور نہ کہیں یاجوج و ماجوج کا پتا لگا۔ جواب : اس شبہ کے جواب میں ہمارے ان مصنفین نے جو مغربی علوم اور تحقیقات سے مرعوب ہیں اس دیوار کا پتا بتلانے کی کوشش کی ہے اور اٹکل کے تیر چلائے ہیں مگر خود ان کو اپنے لکھے ہوئے پر یقین اور اطمینان نہیں لیکن اس شبہ بلکہ اس وسوسہ کا صحیح جواب وہ ہے جو علامہ آلوسی (رح) نے اپنی تفسیر میں اور علامہ حسین جسر طرابلسی (رح) نے الحصون الحمید میں دیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس دیوار کی اور جس قوم کی حق تعالیٰ نے خبر دی ہے وہ صحیح اور درست ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اسکی تصدیق فرض ہے مگر ہم کو اس دیوار کا موقعہ اور محل معلوم نہیں۔ بلاشبہ عقلا یہ ممکن ہے کہ ہمارے اور انکے درمیان میں بڑے بڑے سمندر اور بڑے بڑے پہاڑ حائل ہوں اور فضلائے جغرافیہ کا یہ دعویٰ کہ ہم نے تمام زمین کو چھان ڈالا اور ہم بر اور بحر اور خشکی اور تری کا احاطہ کرچکے ہیں اور اب کوئی جگہ ہم سے بچی ہوئی نہیں رہی۔ سو یہ دعویٰ بلا دلیل ہے قابل تسلیم نہیں ساری زمین کو چھان ڈالنا اور دیکھ ڈالنا تو بڑی بات ہے ابھی تک پوری آباد زمین کو بھی نہیں دیکھا جاسکا زمین کا بہت سا حصہ ابھی ایسا باقی ہے جہاں تک ان کا قدم نہیں پہنچا ابھی تک اطراف زمین میں بہت سے پہاڑ اور وادیاں ایسی موجود ہیں کہ ان تک فضلاء جغرافیہ کی رسائی نہیں ہوئی خصوصا شمال کی طرف برفانی پہاڑوں کے پیچھے اور منطقہ باردہ کی جانب ایسی زمین موجود ہے جہاں آج تک کوئی نہیں پہنچ سکا جیسا کہ خود اہل جغرافیہ کا بیان ہے پس ممکن ہے کہ انہیں اطراف میں یہ قومیں آباد ہوں۔ امام رازی (رح) نے لکھا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سد ذوالقرنین شمال کی طرف ہے اور جو لوگ نقشہء زمین سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں سائبریا کے بعد شمال کی طرف بہت سے برفانی پہاڑ ہیں جو بارہ مہینے برف سے ڈھکے رہتے ہیں اور اس زمانہ میں کوئی ان پر سے نہیں گزر سکتا اور ان پہاڑوں کے اس طرف زمین موجود ہے جو منتہائے عرض تک چلی گئی ہے پس یہ امر ممکن ہے کہ ان برفانی پہاڑوں کے نیچے کوئی پست زمین ہو اور پستی کی وجہ سے وہاں برف اتنا کم رہتا ہو کہ آدمی وہاں رہ سکے اور وہیں یاجوج و ماجوج کی قوم آباد ہو اور ہمارے اور ان کے درمیان بڑے بڑے برفانی پہاڑ اور سمندر حائل ہوں اور ممکن ہے کہ ذوالقرنین کے زمانہ میں یاجوج و ماجوج کی اس طرف آمد کے لیے کسی وادی سے کوئی راستہ ہو کر وہ لوگ پہاڑوں کی طرف سے آکر آس پاس کی قوموں کو قتل و غارت کرتے ہوں اور یہ دیکھ کر ذوالقرنین نے اس وادی کا راستہ سد کے ذریعے بند کردیا ہو اور پہاڑوں کی پرلی جانب ان کو دھکیل دیا ہو اور پھر اس سد کی وجہ سے ان کا ادھر آنا بند ہوگیا ہو پھر جب قیامت کا زمانہ قریب آئے گا تو ممکن ہے کہ جوی اور ارضی حوادث کی وجہ سے وہ برف پگھل جائے اور یاجوج و ماجوج کو سد ذوالقرنین کے توڑنے کا موقعہ مل جائیے اور سد کو توڑ کر وہ قومیں اسی راستے یا کسی اور راستے سے دنیائے آبادی کی طرف نکل پڑیں اور یہاں آکر اودھم مچائیں اور فساد برپا کریں جیسا کہ آیات اور احادیث صحیحہ اور صریحہ سے ثابت ہے۔ بہرحال قرآن اور حدیث نے جس چیز کی خبر دی ہے وہ عقلا اور عادتا محال نہیں اور قدرت خداوندی کے تحت داخل ہیں۔ پس جو امور عقلا ممکن اور جائز الوقوع ہوں اور نصوص شرعیہ سے ان کا وجود اور وقوع ثابت ہو ان کی تصدیق فرض اور لازم ہے اس لیے ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ قیامت کے قریب یاجوج و ماجوج سد ذوالقرنین کو توڑ کر نکلیں گے اور فضلاء جغرافیہ اور ماہرین اکتشافات کا یہ دعویٰ کہ ہم پوری زمین سے اچھی طرح واقف ہیں اور ہوچکے ہیں دعویٰ بلا دلیل ہے جو قابل تسلیم نہیں امریکہ اور روس کے متصل ہی ایسے جزیرے ملیں گے کہ جن کی ان ماہرین اکتشافات کو بالکل خبر نہیں یا پوری خبر نہیں اور دعویٰ یہ ہے کہ ہم نے زمین و آسمان کا چکر لگا لیا ہے اور ہم کونے کونے سے واقف ہوگئے ہیں زبان سے اس قسم کا دعویٰ کردینا بہت آسان ہے لیکن ثابت کردکھانا بہت مشکل ہے۔ سائنس کے تجربوں سے دن بدن یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ جن چیزوں کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، انکو بھی پورا نہیں دیکھا تھا روزمرہ کا تجربہ بتلا رہا ہے کہ سائنسی یہ کہتی ہے کہ ابھی تو نے دیکھا ہی کیا ہے ذرا اور آگے بڑھ آئندہ چل کر تجھ کو اپنی بار بار دیکھی ہوئی چیزوں کے وہ خواص اور آثار معلوم ہوں گے جو موجودہ علم اور تجربہ سے بالا اور کہیں بالا ہوں گے۔ غرض یہ کہ ہر فلسفی اور سائنس دان ہمہ دانی کا نعرہ لگاتا ہے اور قدم قدم پر جدید تجربہ اور جدید انکشاف ہمہ دانی کے دعوے ٰ پر ایک تازیانہ لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ اے مدعی ہمہ دانی اس جدید انکشاف نے تجھ پر واضح کردیا کہ تیرا گزشتہ دعویٰ غلط تھا۔ خلاصۂ کلام یہ کہ قصہء ذوالقرنین قطا ثابت ہے اس لیے کہ نزول قرآن کے وقت جو علماء توریت اور انجیل موجود تھے ان میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا تو ثابت ہوا کہ یہ قصہ متواترہ ہے قطعا ثابت ہے۔ اس قصہ کے تواتر کے لیے فقط اتنی بات کافی ہے کہ علما اہل کتاب نے بطور امتحان آپ ﷺ سے اس قصہ کا سوال کیا اور علیٰ ہٰذا جس دیوار کی خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے وہ بھی حق اور صدق ہے اگرچہ اس کا ہمیں موقعہ اور محل معلوم نہیں۔ اب اگر کوئی شخص محض اس بات پر انکار کرے کہ ہمیں اس دیوار کا علم نہیں یا ہماری سمجھ میں نہیں آتا تو وہ ایک جنگلی پہاڑی کی طرح ہے کہ جس نے کبھی ریل اور تار اور ٹیلیفون اور ہوائی جہاز نہ دیکھا ہو اور کوئی شخص اس کے سامنے ان چیزوں کا ذکر کرے اور وہ سن کر یہ کہے کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک گھنٹہ میں چالیس پچاس میل یا پانچ سو میل کی مسافت کیسے قطع ہوسکتی ہے یا ہزار یا دس ہزار میل پر ٹیلیفون سے کیسے باتیں ہوسکتی ہیں اس قسم کی باتیں اس کے غافل اور جاہل ہونے کی دلیل ہیں لیکن اس کی ان باتوں سے ٹیلیفون کا عدم ثابت نہیں ہوسکتا۔ کیا عقلا یہ جائز نہیں کہ جس طرح آج سے پانچ سو برس پہلے ان سائنسدانوں کو دنیا کے چوتھے براعظم یعنی امریکہ کا پتا نہ چلا اور یہ طویل و عریض آبادی ان لوگوں سے مخفی اور پوشیدہ رہی اور فلاسفہ اور سائنسدان اس کے وجود سے واقف نہ ہوئے کیا اس طرح یہ ممکن نہیں کہ دنیا میں کوئی پانچواں براعظم موجود ہو جہاں یاجوج و ماجوج کے ٹڈی دل رہتے ہوں اور ہمارے اور ان کے درمیان سد ذوالقرنین کے علاوہ ایسے بروبحر حائل ہوں کہ جہاں اب تک ہماری رسائی نہیں ہوسکی اکتشافات جدیدہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے جس کی وسعت کی کوئی حد نہیں اور روز بروز عجیب و غریب امور منکشف ہو رہے ہیں تو کیا عجب ہے کہ آئندہ چل کر اس دیوار کا اور قوم یاجوج و ماجوج کا انکشاف ہوجائے۔ خوب سمجھ لو کہ آسمان اور زمین کے خالق نے اور اس کی وحی سے اس کے برگزیدہ نبی برحق اور مخبر صادق ﷺ نے جس چیز کے وجود کی خبر دی ہے وہ بلاشبہ عقلا ایک امر ممکن ہے اس پر ایمان لانا واجب اور لازم ہے اور خدا اور اسکے رسول ﷺ نے جس چیز کی خبر دی ہے وہ بلاشبہ حق اور صدق ہے۔ ضرور اپنے وقت پر ظاہر ہوگی اور محض اپنی لاعلمی اور نا واقفیت اور عدم وجدان اور عدم علم اور عدم معرفت کی بنا پر کسی چیز کے وجود سے انکار کرنا جہالت اور نادانی ہے اور اگر باوجود کامل تلاش کے مثلا اگر کسی کو زید نہ ملے تو اس سے زید کا معدوم ہونا ثابت نہیں ہوسکتا۔ بہر حال مخبر صادق جس کا صدق دلائل قطعیہ سے ثابت ہے جب اس نے دیوار کے وجود کی خبر دی ہے تو ہم پر اس کی تصدیق واجب اور لازم ہے خواہ وہ چیز ملے یا نہ ملے جس خدا نے اس زمین کو پیدا کیا اور پھر ایک نیک بندہ ذوالقرنین کو پیدا کیا اور اپنی زمین پر اس کو فرماں روا بنایا تو کیا فضلاء جغرافیہ اور ماہرین اکتشافات زمین کے بارے میں خدا سے زیادہ باخبر ہوگئے کہ جس زمین کو خدا نے پیدا کیا وہ تو ایک خطہء زمین اور ایک قوم کے وجود کی خبر دے رہا ہے اور یہ فضلاء جغرافیہ نہایت ڈھٹائی سے اس کا انکار کر رہے ہیں اور اتنا نہیں سمجھتے کہ ایک انسان ضعیف البنیان کا کسی چیز کو نہ پانا اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتی کہ یہ شئے فی الواقع موجود نہیں کسی چیز کا نا پانا اس چیز کے عدم کی دلیل بلکہ نہ ملنے کی وجہ سے کسی چیز کے وجود کا انکار کردینا جہالت اور کوتاہ نظری کی قطعی دلیل ہے۔ دیوار ذوالقرنین اور دنیا کی پانچ بڑی دیواروں کا ذکر قرآن کریم نے دیوار ذوالقرنین کا ذکر کیا مگر اس کا موقعہ اور محل نہیں بتایا کہ وہ کس جگہ بنی تھی۔ مؤرخین اور جغرافیہ نویسوں نے تاریخی واقعات کے ذیل میں دنیا کی چند بڑی بڑی دیواروں کا ذکر کیا ہے اور اپنے خیالات اور گمان اور تخمینہ سے اس کو دیوار ذوالقرنین قرار دیا۔ مولانا عبدالحق صاحب دہلوی (رح) مفسر تفسیر حقانی نے اپنی تفسیر میں اس پر مفصل کلام کیا ہے اور اس سلسلہ میں پانچ دیواروں کا ذکر کیا ہے جس کا خلاصہ ہم ہدیہء ناظرین کرتے ہیں جس کو تفصیل درکار ہو وہ اصل تفسیر حقانی کی مراجعت کرے۔ دیوار اول۔۔۔۔۔۔ دیوار چین جس کو بقول مورخین مغفور چین نے حضرت مسیح بن مریم (علیہ السلام) سے تخمینا دو سو پینتیس برس پہلے بنایا تھا جس کی لمبائی کا اندازہ بارہ سو میل سے پندرہ سو میل تک کیا گیا ہے جس کے پیچھے کچھ وحشی قومیں آباد تھیں جو چین کے ملک پر تاخت و تاراج کیا کرتی تھیں ان کو یاجوج و ماجوج سے تعبیر کرتے تھے چونکہ یہ دیوار اینٹ اور پتھر کی بنی ہوئی ہے اور ایک کافر کی بنائی ہے جو حضرت مسیح بن مریم (علیہ السلام) سے دو سوپینتیس برس پہلے گزرا ہے اس لیے یہ دیوار سد ذوالقرنین نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ دیوار آہنی تھی نیز ذوالقرنین حضرت مسیح (علیہ السلام) سے دو ہزار برس پہلے گزرا ہے اور وہ مرد مومن تھا کافر نہ تھا اور فغفور با خدا اور موحد نہ تھا اس کو ذوالقرنین قرار دینا قطعا غلط ہے۔ دیوار دوم۔۔۔۔۔ دیوار سمرقند یعنی وہ دیوار جو سمر قند کے قریب ہے۔ یہ ایک مستحکم دیوار ہے جو لوہے کی چادروں اور اینٹوں سے بنائی گئی ہے نہایت مستحکم اور بلند ہے اور اس میں ایک دروازہ بھی ہے جس پر قفل لگا ہوا ہے۔ خلیفہ معتصم نے خواب میں اس دیوار کو ٹوٹا ہوا دیکھا تب اس کی تحقیق کے لیے پچاس آدمیوں کو روانہ کیا وہ اس دیوار کو دیکھ کر آئے اور آ کر اسکا حال بیان کیا۔ یہ دیوار جبل الطی کا درہ بند کرنے کے لیے بنائی گئی تھی بعض لوگ اس دیوار کو سدذوالقرنین کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس دیوار کو یمن کے کسی حمیری بادشاہ نے بنایا تھا۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ حمیری بادشاہ ذوالقرنین تھا اور تبع یمانی اس کی اولاد میں سے تھا جس پر اس کو فخر تھا لہٰذا بعض علماء کا خیال ہے کہ یہی دیوار ذوالقرنین ہے۔ واللہ اعلم۔ دیوار سوم۔۔۔۔۔ دیوار آذر بائیجان جو آذر بائیجان کے سرے پر بحیرہء طبرستان کے کنارہ جبل قبق کے گھاٹ کو بند کرنے کے لیے اور غیر قوموں کی آمد کو روکنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہ دیوار آذر بائیجان اور آرمینیہ کے دو پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ یہ دیوار پتھر اور سیسے سے بنائی گئی ہے جس کی بلندی تین سو گز ہے اس دیوار کو نوشیرواں نے بنایا۔ یہ دیوار اب تک قائم ہے بعض علماء نے اسی دیوار کو سد ذوالقرنین بتلایا ہے۔ دیوار چہارم۔۔۔۔۔ دیوار تبت یہ دیوار تبت کے شمالی پہاڑوں کے درمیان واقع ہے یہ جگہ خراسان کا اخیر کنارہ ہے یہاں ایک کنارہ ہے جس سے ترک دھاوا کیا کرتے تھے فضل بن یحییٰ برمکی نے دروازہ لگا کر اسکو بند کردیا۔ یہ دیوار بالاتفاق وہ دیوار نہیں جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے کیونکہ یہ دیوار نزول قرآن کے بعد بنائی گئی۔ دیوار پنجم دنیا کی پانچویں بڑی دیوار وہ ہے کہ جو بحیرہ روم کے مشرقی کنارہ پر ایشیائے کو چک کے جزائر میں سے کسی جزیرہ میں واقع ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ دیوار کب بنی اور اب تک قائم ہے یا نہیں۔ یہ دیوار بھی بالاتفاق وہ دیوار نہیں جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ غرض یہ کہ یہ سب تاریخی قصے ہیں جو ہرگز قابل اعتماد و اعتبار نہیں۔ بہرحال یہ دنیا کی پانچ مشہور دیواریں ہیں جن کا تاریخ اور جغرافیہ کی کتابوں میں ذکر ہے اور مصنفین نے اپنے اپنے خیال اور تخمینہ سے سد ذوالقرنین کے مصداق بتلانی کی بڑی کوشش کی ہے۔ کسی نے کسی دیوار کو اور کسی نے کسی دیوار کو۔ مگر سوائے اپنی خیالی قیاس آرائیوں کے دلیل کسی کے پاس نہیں۔ ہر ہر ایک نے اپنی اپنی کہی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جس سد (دیوار) کی قرآن عزیز نے خبر دی ہے قرآن اور حدیث میں اس کے کیا اوصاف ذکر کیے گئے ہیں تاکہ اس سے تعیین مصداق کا فیصلہ ہو سکے وہ اوصاف حسب ذیل ہیں۔ اول : اس سد (دیوار) کا بانی خدا تعالیٰ کا کوئی مقبول بندہ اور مرد صالح اور مرد مومن ہے جو ایمانداروں اور اعمال صالحہ کرنے والوں کو جزاء حسنیٰ کی بشارت سناتا ہے اور کافروں اور ظالموں کو عذاب خدا وندی سے ڈراتا ہے۔ دوم : اس کا بانی ایسا جلیل القدر بادشاہ ہے جو مشرق سے لے کر مغرب تک کا فرماں روا ہے اور حکومت اور سلطنت کے تمام اسباب ظاہری اور باطنی منجانب اللہ اس کے لیے مہیا ہیں۔ کما قال تعالیٰ انا مکنا لہ فی الارض و اٰتینٰہ من کل شیء سببا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ فرمانروائے مشرق و مغرب ایسا سعادت مند ہے کہ تائید ربانی اور تمکین یزدانی اس کے ساتھ ہے اور فتح و کامرانی کا جھنڈا اس کے آگے آگے ہے۔ کسی میں اس کے مقابلہ کی تاب نہیں شاہان عالم اس کی عظمت وہیبت کے سامنے دم بخود ہیں۔ سوم : وہ دیوار آہنی ہے پگھلے ہوئے تانبے سے تیار ہوئی ہے اینٹ اور پتھر سے نہیں بنائی گئی۔ چہارم : یہ کہ اس دیوار کے دونوں سرے دو پہاڑوں سے ملے ہوئے ہیں اور وہ دیوار بہت بلند اور مستحکم ہے اور بطور خرق عادت اور بطریق کرامت تیار ہوئی ہے اس لیے کہ اتنی بلند دیوار جو از اول تا آخر لوہے کے ٹکڑوں سے بنائی گئی ہو اور اس میں اس طور سے آگ سلگائی گئی ہو کہ اس کے سب ٹکڑے آگ بن گئے ہوں اور پھر ان میں ہزاروں من بلکہ ہزاروں ٹن پگھلا ہوا سیسہ ڈالا گیا ہو بظاہر یہ تمام امور اسباب ظاہری کے دائرہ سے باہر ہیں ایسی دھکتی ہوئی آگ کے قریب تو کوئی جاندار نہیں جاسکتا اور ایسی آگ میں پھونک مارنا اور پگھلے ہوئے تانبے کا اس پر ڈالنا ظاہر اسباب میں ممکن نہیں لہٰذا سوائے اس کے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ عجیب و غریب دیوار اس نیک دل بادشاہ کی کرامت تھی یا اس نبی برحق کا معجزہ تھا جس کے ہاتھ پر ذوالقرنین نے بیعت کی تھی کہ جب اس قدر طویل و عریض لوہے کی دیوار آگ ہوجائے تو کسی میں یہ قدرت نہیں کہ اس کے پاس بھی جاسکے اور پاس جا کر اس میں پھونک مار سکے اور اس پر پگھلا ہوا تانبا ڈال سکے، یہ اللہ کی رحمت تھی کہ اس نے نافخین (پھونک مارنے والوں) کے ابدان و اجسام کو اس شدید گرمی اور حرارت سے محفوظ رکھا اور انہوں نے اپنا کام کیا۔ پنجم : یہ کہ یاجوج و ماجوج اس آہنی دیوار کے پیچھے بند ہیں نہ وہ اس پر چڑھ سکتے ہیں نہ اس پر کوئی سیڑھی لگا کر ادھر سے ادھراتر سکتے ہیں اور نہ اس میں کوئی سوراخ کرسکتے ہیں البتہ قیامت کے قریب زمانہ میں یہ لوگ اس دیوار میں نقب لگانے پر قادر ہوجائیں گے جیسا کہ احادیث میں آیا ہے۔ ششم : یہ کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت ﷺ کے وقت میں اس دیوار میں کچھ تھوڑا سا سوراخ ہوگیا ہے۔ ہفتم : یہ کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ یاجوج و ماجوج ہر روز اس دیوار کو چھیلتے ہیں اور پھر وہ دیوار بحکم الہٰی ویسی ہی ہوجاتی ہے۔ یعنی دبیز اور موٹی ہوجاتی ہے مگر قیامت کے قریب ایک روز وہ انشاء اللہ کہہ کر اس دیوار کو چھیلیں گے تو انشاء اللہ کی برکت سے اس میں وسیع سوراخ کھل جائے گا اور اگلے روز اس دیوار کو توڑ کر باہر نکل سکیں گے۔ ہشتم : یہ کہ یاجوج ماجوج باوجود انسان ہونے کے عام انسانوں سے قوت میں بہت زیادہ ہیں اور عددی کثرت میں تو اس قدر زیادہ ہیں کہ ان میں اور عام بنی آدم میں وہ نسبت ہے جو ایک اور ہزار میں ہے اور سب کافر ہیں اور جہنمی ہیں۔ نہم : یہ کہ ان کا خروج حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے وقت میں ہوگا اور اس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے خاص لوگوں کو کوہ طور پر لے جائیں گے اور باقی لوگ اپنے طور پر کسی قلعہ یا مکان میں محفوظ ہوجائیں گے۔ دہم : یہ کہ یاجوج ماجوج حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے دفعتہ غیر معمولی موت مرجائیں گے ان کی گردنوں میں اللہ تعالیٰ ایک نغف (طاعونی کیڑا) پیدا فرما دیں گے جس سے وہ سب ہلاک ہوجائیں گے۔ یہ دس اوصاف ہیں جن میں سے اول کے پانچ اوصاف قرآن کریم میں مذکور ہیں اور اخیر کے پانچ اوصاف احادیث صحیحہ اور مشہورہ میں مذکور ہیں۔ پس جو شخص ان اوصاف کو ملحوظ اور پیش نظر رکھے گا تو اس کو معلوم ہوجائے گا کہ مؤرخین نے جن دیواروں کا پتا بتایا ہے مجموعی طور پر یہ اوصاف کسی دیوار میں بھی نہیں پائے جاتے۔ پس مؤرخین نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ صحیح نہیں اور ان دیواروں میں سے کوئی دیوار ویوار ذوالقرنین کا مصداق نہیں اور احادیث صحیحہ و صریحہ کا انکار گمراہی ہے اور ان میں تاویل کرنا الحاد ہے اور بےدینی ہے۔ لہٰذا یہی کہا جائے گا کہ جس دیوار کی خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے اس کی صحیح اور واقعی جگہ اسی کو معلوم ہے ہم اس کی خبر پر یقین رکھتے ہیں اور اس کی تعیین کو اس کے علم کے حوالہ اور سپرد کرتے ہیں جیسا کہ ہم علامہ آلوسی (رح) کا کلام روح المعانی سے نقل کرچکے ہیں۔ یاجوج ماجوج کون ہیں : لوگوں نے اس میں کلام کیا ہے کہ یاجوج ماجوج کون لوگ ہیں۔ جمہور علماء تفسیر و حدیث کا قول یہ ہے کہ یاجوج و ماجوج بنی نوع انسان کی دو قوموں یا دو قبیلوں کا نام ہے آدم (علیہ السلام) ور یافث بن نوح (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں جو ترک کا جد اعلیٰ ہے اور ترک اس خاندان کی ایک شاخ ہے جو سد ذوالقرنین کے اس طرف ترک کردئیے گئے تھے یعنی چھوڑ دئیے گئے تھے۔ گویہ کہ لفظ ترک متروک سے مشتق ہے، اور یہ لوگ کافر ہیں اور دوزخی ہیں اور اس قدر کثیر اور بیشمار ہیں کہ ان میں اور اہل بہشت میں وہ نسبت ہے کہ جو ایک اور ہزار میں ہے۔ امم سابقہ و لاحقہ میں سے جس قدر افراد دوزخ میں جائیں گے ان تمام کے مقابلہ میں اکثریت یاجوج و ماجوج کی ہوگی۔ بخاری کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آدم (علیہ السلام) کو حکم دیں گے کہ اپنی اولاد سے دوزخ کا لشکر جدا کیجیے عرض کریں گے کہ کس قدر۔ ارشاد ہوگا ہر ہزار سے ایک کم ہزار۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ یاجوج ماجوج آدم (علیہ السلام) کی اولاد سے تو ہیں مگر حوا کے پیٹ سے نہیں گویا کہ وہ عام آدمیوں کے محض باپ شریک بھائی ہیں۔ حافظ عسقلانی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ بات سوائے کعب احبارؓ کے اور کسی سے منقول نہیں اور بعض کہتے ہیں کہ یاجوج و ماجوض ترکوں کے دو قبیلے ہیں۔ صحیح قول یہ ہے کہ یاجوج ماجوج دو قومیں ہیں اور یافث بن نوح (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں جو بطن حواء سے پیدا ہوئی اور ان کے حالات اور صفات کے بارے میں جو آثار اور اخبار وارد ہوئے ہیں ان پر نظر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج و ماجوج اگرچہ نسل آدم سے ہیں اور ظاہری صورت اور شکل کے اعتبار سے آدمی اور انسان ہیں لیکن طبعی اور مزاجی کیفیت کے لحاظ سے وحشی درندہ اور حیوان ہیں اور افعال اور اعمال کے اعتبار سے جنات سے ملتے جلتے ہیں۔ گویا کہ قوم یاجوج و ماجوج تمام انسانوں اور جنات کے درمیان ایک برزخی مخلوق ہے جو فتنہ اور فساد پھیلانے میں جنات کا نمونہ ہے عام انسان اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے اس لیے وہاں کے باشندوں نے ذوالقرنین سے درخواست کی کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی آہنی دیوار قائم کردیں جس سے ان کا راستہ بند ہوجائے اور ہم ان کے شر سے محفوظ ہوجائیں چناچہ ذوالقرنین نے ایک آہنی دیوار بنا کر ان کو پہاڑ کے پیچھے دھکیل دیا۔ قرآن کریم میں یاجوج و ماجوج کا ذکر اجمالا اور مختصرا آیا ہے اور احادیث میں کچھ تفصیل آئی ہے۔ بہر حال قرآن اور حدیث سے یہ امر قطعی طور پر ثابت ہے کہ یاجوج ذوالقرنین کی بنائی ہوئی دیوار کے پیچھے بند ہیں قیامت سے پہلے اس سے باہر نہیں آسکتے جس طرح دجال اکبر ایک جزیرہ میں محبوس اور مقید ہے اور اخیر زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانۂ نزول میں اس کا اپنے جزیرہ سے خروج ہوگا اسی طرح یاجوج و ماجوج اس آہنی دیوار کے پیچھے محبوس ہیں ان کا خروج بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوگا۔ اس وقت یہ مفسد قوم دنیا پر خروج کرے گی اور دنیا میں اودھم مچائے گی بالآخر حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی دعا سے دفعۃ غیر معمولی موت مرجائے گی اور اس شان اور صفت اور اس طاقت کی کوئی قوم اب تک ظاہر نہیں ہوئی اور نہ اب تک کسی کو اس قوم کا پتا لگ سکا ہے۔ حسب وعدۂ خداوندی قیامت کے قریب اس قوم کا ظہور اور خروج ہوگا۔ خروج دجال کے بعد قوم یاجوج و ماجوج کا خروج ہوگا۔ اور اس زمانہ کے بعض روشن خیال مصنف یہ خیال کرتے ہیں کہ یاجوج ماجوج سے چینی یا روسی یا دوسری وحشی قومیں مراد ہیں جو کہ منگولیا اور منجوریا یا کو ریا کے قریب آباد ہیں یا وہ تاتاری اور جنگیز لوگ مراد ہیں جنہوں نے خلافت بغداد کو درہم برہم کیا یا وہ وحشی قومیں مراد ہیں جو آرمینیہ کے پہاڑوں کے قریب رہتی ہیں۔ ان مصنفین کا خیال یہ ہے کہ پہلے زمانہ میں ان وحشی اور درندہ صفت قوموں کو یاجوج و ماجوج کہا جاتا ہے مگر اب وہ تعلیم یافتہ اور متمدن ہوگئے ہیں اور اب وہ یاجوج و ماجوج نہیں رہے اور نہ وہ اب کسی دیوار کے پیچھے بند ہیں وہ آہنی دیوار یا تو ختم ہوگئی ہے یا ان یاجوج و ماجوج نے اپنے خروج کے لیے کوئی دوسرا راستہ نکال لیا ہے اور باقاعدہ پاسپورٹ لے کر ہمارے ملکوں میں آ جا رہے ہیں۔ یہ سب خرافات ہے۔ قرآن و حدیث میں یاجوج و ماجوج کی جن صفات کا ذکر ہے وہ صفات ان قوموں پر منطبق نہیں ہوتیں۔ از روئے قرآن و حدیث یاجوج و ماجوج اس دیوار کے پیچھے بند ہیں وقت معین سے پہلے ہمارے ملکوں میں نہیں آسکتے اور جو وحشی ہمارے ملکوں میں آ تے جاتے ہیں وہ اصل میں یاجوج و ماجوج نہیں اور جو اصلی اور واقعی یاجوج و ماجوج ہیں وہ دیوار کے پیچھے بند ہیں اور یہ متمدنین جن کو یاجوج و ماجوج خیال کرتے ہیں وہ یہ یاجوج و ماجوج نہیں جن کی قرآن و حدیث میں خبر دی گئی ہے۔ تاتاریوں اور وحشیوں کو یاجوج وماجوج سمجھ لینا ایک خام خیال ہے جس کی کوئی سند نہیں۔ مرزائے قادیان کا ہذیان : مرزائی یہ کہتے ہیں کہ یاجوج و ماجوج سے انگریز اور روس مراد ہیں اور جب ان کا خروج ہوچکا تو اس کے لیے مسیح کی آمد ضروری ہے اور وہ مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی ہے تھوڑی دیر کے لیے اگر قادیان کے اس ھذیان اور دلخراش سماعت کو بادل ناخواستہ برداشت کرلیا جائے تو سوال یہ ہے کہ احادیث صحیحہ اور صریحہ سے یہ ثابت ہے کہ یاجوج و ماجوج حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے دفعتا ہلاک ہوجائیں گے جس کی صورت یہ ہوگی کہ ان کی گردنوں میں دفعتا کوئی طاعونی کیڑا نمودار ہوگا جس سے سب کے سب ہلاک ہوجائیں گے اور ایک ہی رات میں مرجائیں گے اور تمام دنیا متعفن اور بدبو دار ہوجائے گی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ بڑی لمبی گردن والے پرندے بھیجے گا جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیں گے اور بعد ازاں ایک بارش ہوگی جس سے زمین دھل جائے گی۔ یہ مضمون بیشمار حدیثوں سے ثابت ہے۔ مرزائی بتلائیں اگر یاجوج ماجوج سے انگریز اور روس مراد ہیں اور مرزا صاحب مسیح موعود ہیں تو مرزا صاحب نے انگریز اور روس کے لیے کب بددعا کی اور کس شہر کے انگریز اور روسی لوگ مرزا صاحب کی بددعا سے ایک رات میں ہلاک ہوئے اور صبح ہوتے ہی سب کے سب مردہ پائے گئے اور کس مہینہ اور کس سال میں لمبی گردن والے پرندوں نے ان کی لاشوں کو کون سے سمندر میں لے جاکر ڈالا ؟ مرزا قادیان تو یاجوج و ماجوج (عیسائی اقوام) کی عروج اور ترقی کے لیے دعا ہی کرتا ہوا مرگیا اور اپنے مریدوں کو ان کی وفاداری اور دعا کی وصیت کر گیا۔ کیا کسی حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ مسیح زماں اور مہدی دوراں یاجوج و ماجوج کے عروج اور بقاء کے لیے دعا کرے گا اور اپنی امت کو انکے لیے دعا کا حکم دے گا ؟ نیز مرزا قادیان کے نزدیک دجال سے بااقبال قومیں مراد ہیں تو سوال یہ ہے کہ مرزائے قادیان جو مدعی مسیحیت ہے یہ بتلائے کہ اس نے بااقبال قوموں میں سے کس دجال کو قتل کیا ؟ نزول مسیح کا اہم مقصد قتل دجال ہے۔ خود مرزا ازالۃ الاوہام صفحہ 147 میں لکھتا ہے لکل دجال عیسیٰ (دیکھو افادۃ الافہام ص 150 جلد 2) حیرت کا مقام کہ مرزا بااقبال قوموں کو دجال بتاتا ہے اور بجائے انکے مقابلہ اور مقاتلہ کے انکی دعا گوئی اور خوشامد میں مصروف ہے۔
Top