Maarif-ul-Quran - Maryam : 16
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَ١ۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّاۙ
وَاذْكُرْ : اور ذکر کرو فِى الْكِتٰبِ : کتاب میں مَرْيَمَ : مریم اِذِ انْتَبَذَتْ : جب وہ یکسو ہوگئی مِنْ اَهْلِهَا : اپنے گھروالوں سے مَكَانًا : مکان شَرْقِيًّا : مشرقی
اور کتاب (قرآن) میں مریم کا بھی مذکور کرو جب وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر مشرق کی طرف چلی گئیں
قال اللٰہ تعالیٰ ۔ واذکر فی الکتٰب مریم۔۔۔ الیٰ ۔۔۔ و یوم اموت ویوم ابعث حیا۔ (ربط) حق تعالیٰ نے گزشتہ رکوع میں حضرت زکریا (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمایا کہ بحالت پیری ایک پیر ناتواں اور ایک بانجھ اور بوڑھی بیوی سے بلا سبب ظاہری ایک مبارک فرزند یعنی یحییٰ (علیہ السلام) کا تولد ہوا۔ اب اس سے زیادہ عجیب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کا قصہ بیان کرتے ہیں۔ اس لیے کہ بوڑھے مرد اور بانجھ عورت سے بچہ پیدا ہونا اگرچہ عجیب ہے۔ مگر والدین سے بچہ کا پیدا ہونا عادۃ قریب الی العقل ہے اور بغیر باپ کے محض ماں سے بچہ پیدا ہونا بہت ہی عجیب و غریب ہے جو اللہ کی کمال قدرت پر دلالت کرتا ہے کہ خدائے تعالیٰ بغیر باپ کے بھی بچہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔ ولادت خواہ کسی طرح ہو وہ کسی مادہ اور طبیعت کے اقتضاء پر موقوف نہیں۔ صرف اللہ کے ارادہ اور مشیت پر موقوف ہے۔ مطلب یہ کہ خدائے تعالیٰ قادر مطلق ہے جس طرح چاہے پیدا کرے اور کوئی مولود معبود نہیں ہوسکتا۔ حق جل شانہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کا قصہ یہود اور نصاریٰ دونوں ہی کی تردید اور اصلاح کے لیے بیان فرمایا اس لیے کہ یہود تو حضرت مسیح بن مریم (علیہ السلام) کو معاذ اللہ ولد الزنا بتاتے تھے اور نصاریٰ ان کو خدا یا خدا کا بیٹا بتلاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ولادت کی مفصل کیفیت بیان کی تاکہ خوب واضح ہوجائے کہ یہ مولود مسعود اللہ کی قدرت اور اس کی رحمت کی نشانی ہے۔ معاذ اللہ ولد الزنا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس مولود مسعود کو خلاف عادت محض اپنی قدرت سے بغیر باپ کے پیدا فرمایا ہے۔ اور یہ معلوم ہوجائے کہ یہ مبارک مولود قدرت خدا وندی کا ایک کرشمہ ہے معبود نہیں۔ چناچہ اس مولود مسعود نے پیدا ہونے کے بعد جو پہلا کلام کیا سب سے پہلے اپنی عبدیت کا اقرار کیا۔ قال انی عبداللہ اور اس کے بعد اپنی صفات بیان کیں جن میں اپنی نبوت کا اور اپنی برکت کا اور اپنی عبادت کا یعنی نماز اور زکوٰۃ کا اور اپنی تواضع اور اطاعت کا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے اوپر سلامتی کا ذکر فرمایا تاکہ سننے والے سن لیں کہ میں خدا کا بندہ ہوں اور جو لوگ مجھے بےباپ کے پیدا ہونے کی وجہ سے خدا کا بیٹا کہتے ہیں وہ سب غلط ہے۔ ولادت اور الوہیت کا جمع ہونا عقلا محال ہے۔ بغیر باپ کے پیدا ہونا الوہیت اور ابنیت کی دلیل نہیں۔ بلکہ من جانب اللہ عزت اور کرامت کی دلیل ہے۔ اور پھر شیر خوار گی کی حالت میں اپنے معجزانہ کلام کو والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیا پر ختم فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو تمام تہمتوں اور عیبوں سے سلامتی عطا فرمائی ہے۔ یہی اس کی دلیل ہے کہ معاذ اللہ حضرت مسیح بن مریم (علیہ السلام) خدا نہیں کیونکہ خدا کو کسی کی سلامتی کی ضرورت نہیں۔ نیز خدا ولادت اور موت اور بعث سے پاک اور منزہ ہے۔ اور ان تین وقتوں کی تخصیص اس لیے فرمائی کہ یہ تین وقت انسان پر بہت سخت اور نازک ہیں۔ ان تین وقتوں میں انسان اللہ کی سلامتی کا بہت زیادہ محتاج ہوتا ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور اے نبی آپ اس کتاب یعنی قرآن کے اس خاص حصہ یعنی اس سورت میں مریم کا قصہ لوگوں کو پڑھ کر سنائیے۔ جب وہ اپنے گھر والوں سے علیحدہ ہو کر ایک ایسے مکان میں جو مشرق کی جانب تھا۔ غسل کے لیے گئیں۔ سو اپنے اور ان کے درمیان ایک پردہ ڈال لیا تاکہ اس پردہ کی آڑ میں غسل کرسکیں اور کوئی اس پردہ کے اندر نہ آسکے۔ پس جب غسل کر چکیں اور کپڑے پہن لیے تو اس وقت ہم نے اس کے پاس ایک اپنا فرشتہ یعنی جبرئیل امین (علیہ السلام) کو بھیجا۔ پس وہ پورا آدمی بن کر مریم کے سامنے نمودار ہوا۔ یعنی حضرت جبرئیل (علیہ السلام) ایک نہایت حسین و جمیل اور خوبصورت نوجوان کی صورت میں مریم (علیہ السلام) کے سامنے ظاہر ہوئے آدمی کی صورت میں اس لیے نظر آئے تاکہ مریم (علیہ السلام) ان کو دیکھ کر ڈریں نہیں اور ان کا کلام سنیں۔ اگر فرشتہ کی صورت میں نظر آتے تو مریم (علیہ السلام) ان کو دیکھ کر ڈر جاتیں اور بےہوش ہوجاتیں۔ اور عجب نہیں کہ اس صورت میں مریم صدیقہ (علیہ السلام) کی عفت اور پاک بازی کا امتحان بھی مقصود ہو غرض یہ کہ مریم (علیہ السلام) نے جب غسل خانے میں ایک اجنبی اور بیگانہ آدمی دیکھا اور گھبرا گئیں اور بولیں کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو مرد متقی ہے تو میں تیرے شر سے پناہ مانگتی ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ مریم (علیہ السلام) اس کو بشر سمجھ کر گھبرائیں اور خدا کا واسطہ دیا کہ سامنے سے ہٹ جائے تو اس وقت جبرئیل امین (علیہ السلام) نے اپنا فرشتہ ہونا ظاہر کیا۔ اور کہا کہ میں کوئی بشر اور آدمی نہیں اس سے تم ڈر رہی ہو۔ میں تو تیرے پروردگار کا فرستادہ (بھیجا ہوا) فرشتہ ہوں تاکہ تجھ کو خدا کے حکم سے پاک اور پاکیزہ لڑکا عطا کروں۔ مجھ سے ڈرنے اور پناہ مانگنے کی ضرورت نہیں۔ میں ایسا نہیں جیسا کہ تیرا گمان ہے۔ مریم (علیہ السلام) کو اس کی نورانی صورت سے القاء ربانی سے یہ یقین ہوگیا کہ بیشک یہ فرشتہ ہے مگر تعجب ہے کہ بغیر شوہر کے کیسے بچہ ہوگا اس لیے مریم (علیہ السلام) نے کہا میرے لڑکا کہاں سے ہوگا اور مجھ کو تو کسی آدمی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ یعنی میرا کسی سے نکاح نہیں ہوا اور نہ تھی میں کبھی بدکار۔ جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا یونہی ہوگا۔ یعنی اللہ تعالیٰ تجھے بغیر باپ کے ہی لڑکا عطا کرے گا۔ تیرے پروردگار نے فرمایا ہے کہ وہ (یعنی بغیر باپ کے بیٹا عطا کرنا) مجھ پر آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے۔ وہ اپنی تخلیق وتکوین میں ٓلات اور مواد اور اسباب کا محتاج نہیں۔ اسے بغیر باپ کے لڑکا پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ اس لڑکے کو لوگوں کے لیے اپنی قدرت کی نشانی بنا دیں۔ کہ اس کے حال کو دیکھ کر لوگ ہماری قدرت کو پہچانیں کہ اللہ تعالیٰ بغیر باپ کے لڑکا پیدا کرنے پر قادر ہے۔ اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ اپنی جانب سے اسی بےباپ کے بچہ کو سامان رحمت بنائیں جو اس پر ایمان لائے وہ ہدایت پائے۔ اور قیامت کے دن شفاعت سے بہرہ یاب ہو۔ یہ فائدہ خاص مؤ منین کے لیے ہے اور اٰیۃ للناس یعنی قدرت کی نشانی ہونا یہ سب لوگوں کے واسطے ہے۔ اور اس بچہ کا بغیر باپ کے پیدا ہونا علم الہٰی میں طے شدہ امر ہے۔ حضرت مریم (علیہ السلام) فرشتے کی بات سے مطمئن ہوگئیں پھر اس گفتگو کے بعد جبریل امین (علیہ السلام) مریم (علیہا السلام) کے قریب آئے اور ان کے منہ میں یا گریبان میں پھونک ماری۔ پس اسی وقت مریم (علیہا السلام) حاملہ ہوگئیں۔ بعض کہتے ہیں کہ چھ سات مہینے حمل رہا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ قرار حمل اور ولادت سب ایک ہی ساعت میں واقع ہوئے۔ فرشتے عورت کو چھوتے نہیں۔ اس لیے جبریل امین (علیہ السلام) نے مریم (علیہا السلام) کے گریبان میں پھونک ماری جس سے وہ اسی وقت حاملہ ہوگئیں۔ قرآن کریم میں نفخ روح کا ذکر ہے۔ مگر اس کی کیفیت کا بیان نہیں۔ اس لیے بیان کیفیت سے سکوت اولیٰ ہے۔ پس جب وضع حمل کا وقت قریب آیا تو شرم کے مارے اس حمل کو لے کر کسی دور جگہ جنگل یا پہاڑ میں چلی گئیں۔ غالبا وہ جگہ بیت لحم ہے۔ یہ مقام بیت المقدس سے آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے۔ بیت المقدس میں حضرت مریم (علیہ السلام) لی طرح ایک اور مرد صالح مسجد کی خدمت کیا کرتا تھا جس کا نام یوسف نجار تھا۔ اور وہ حضرت مریم (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا۔ بڑا عابد و زاہد تھا۔ سب سے پہلے مریم (علیہ السلام) کے حمل کا حال یوسف نجار کو معلوم ہوا۔ دیکھ کر حیران اور ششدر رہ گیا کہ اس عفیفہ اور پاک دامن کو کیا ہوا۔ ایک طرف تو ان کی عفت و براءت و طہارت و نزاہت کا اور ان کی کرامتوں کا خیال آتا اور دوری طرف آثار حمل کو دیکھتا تو متحیر ہوتا کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے۔ زبان سے چپ رہتا مگر اندر ہی اندر طرح طرح کے خیالات آتے بالآخر ایک دن حضرت مریم (علیہ السلام) سے تعریضا اور کنایۃ یہ سوال کیا۔ اے مریم (علیہ السلام) تیرے بارے میں میرے دل میں خیال پیدا ہوا ہے میں نے اس کو بہت چھپانا چاہا مگر وہ مجھ پر غالب آیا میں اس کو تجھ پر ظاہر کر کے اپنے دل کو شفا دینا چاہتا ہوں۔ مریم (علیہ السلام) نے کہا، کہو وہ کیا خیال ہے ؟ قال ھل یکون قط شجر من غیر حب و ھل یکون زرع من غیر بزر و ھل یکون ولدمن غیر ابی (یوسف نجار نے کہا اے مریم (علیہ السلام) ! کیا کوئی درخت بغیر گھٹلی کے اور کوئی کھیتی بغیر دانہ کے ہوسکتی ہے اور کیا کوئی فرزند بغیر باپ کے ہوسکتا ہے ؟ ) مریم (علیہ السلام) اس تعریض اور کنایہ کو سمجھ گئیں اور کہا کہ ہاں کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ خدا نے جب پہلی کھیتی کو پیدا کیا تو بیج کے بغیر پیدا کیا۔ اور پہلے درخت کو اپنی قدرت سے بغیر پانی کے پیدا کیا۔ اس نے اپنی قدرت سے پانی کو درخت کی زندگی کا ذریعہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ پیدا کیا اور پھر ایک کو دوسرے کا سبب بنایا۔ کیا تیرا یہ اعتقاد ہے کہ حق تعالیٰ بغیر پانی کی مدد کے درخت اگانے پر قادر نہیں ؟ یوسف نجار نے کہا میرا ہرگز یہ اعتقاد نہیں۔ میرا اعتقاد تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے جب وہ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو صرف اتنا کہ دیتا ہے کہ ” ہوجا “ سو وہ ہوجاتا ہے۔ مریم (علیہ السلام) نے کہا کیا تجھے معلوم نہیں کہ تخم اور دانہ کا اور کھیتی کا اور پانی کا اور بارش کا اور درخت کا ایک ہی خالق ہے اور وہ درخت اگانے میں کسی پانی اور دانہ کا محتاج نہیں۔ یوسف نجار نے کہا کیوں نہیں بیشک وہ قادر مطلق ہے۔ پھر مریم (علیہ السلام) نے کہا کیا تجھے یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اور اس کی عورت کو بغیر مرد کے اور بغیر عورت کے اور بغیر حمل کے پیدا کیا۔ حضرت مریم (علیہ السلام) کے یہ جوابات سن کر یوسف نجار کا دل مطمئن ہوگیا اور اس کے دل سے تمام شبہات دور ہوگئے اور سمجھ گیا کہ یہ کوئی امر غیبی ہے جو تہمت اور بدگمانی سے پاک ہے۔ بلکہ کرامت خدا وندی ہے جس سے مریم (علیہ السلام) کو عزت دینی مقصود ہے۔ (دیکھو تفسیر کبیر للام الرازی صفحہ 546 ج 5 و تفسیر ابن کثیر ص 116 ج 3۔ و تفسیر ور منشور از سورة آل عمران ص 24۔ ج 12۔ و روح المعانی ص 74 ج 16) پھر جب ولادت کا وقت قریب آیا تو درد زہ نے ان کو مضطر کیا اور مجبور کیا کہ وہ کھجور کے تنے سے آکر سہارا لیں یہ درخت جنگل میں تھا اور بالکل خشک ہوگیا تھا۔ جب درد زہ شروع ہوا تو مریم (علیہ السلام) چار و ناچار ایک درخت خرما کے تنے سے سہارا لے کر بیٹھ گئیں۔ پریشانی کا عجیب عالم تھا ایک طرف تو بےسرو سامانی اور دوسری طرف رسوائی اور بدنامی کا خیال اس لیے بولیں کہ کاش میں اس حالت سے پہلے ہی مرجاتی اور بھولی بھلائی ہوجاتی کہ کوئی میرا نام و نشان تک نہ جانتا۔ فضیحت اور رسوائی کے خوف سے مریم (علیہ السلام) نے موت کی تمنا کی۔ شرم اور عار کے خیال نے فرشتوں کی بشارت کو فراموش کردیا۔ پس اس وقت فرشتے نے مریم (علیہ السلام) کو نیچے کی جانب سے آواز دی کہ تو غم نہ کر اور موت کی تمنا نہ کر تیرے پروردگار نے غیب سے یکایک تیرے نیچے ایک نہر جاری کردی ہے اور تیرے کھانے پینے کا سامان کردیا ہے۔ پینے کے لیے نہر جاری کردی اور کھانے کے لیے خشک درخت کو میوہ دار کردیا۔ پہلی مرتبہ جبریل (علیہ السلام) بشارت کے لیے آئے تو مریم (علیہ السلام) کے سامنے آئے اس وقت تسلی کے لیے آئے تو سامنے نہیں آئے بلکہ وادی کے نیچے سے آواز دی۔ مریم (علیہ السلام) اس وقت ایک ٹیلہ پر تھیں۔ اور نیچے جبریل (علیہ السلام) تھے۔ وہاں ایک خشک نہر تھی اللہ نے اپنی قدرت سے اس میں پانی جاری کردیا اور سوکھے درخت کو ہرا اور سر سبز کردیا۔ اسی دم اس پر پھل آگئے اور حکم دیا اللہ تعالیٰ نے کہ اے مریم (علیہ السلام) اس کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلا وہ تجھ پر پکی پکی تازہ کھجوریں گرائے گی۔ زچہ کے لیے سب سے زیادہ مفید تر کھجور ہے۔ اطباء نے لکھا ہے کہ عورت کے لیے ایام نفاس میں رطب تازہ کھجور سے بہتر کوئی غذا نہیں۔ الغرض جبریل (علیہ السلام) نے حضرت مریم (علیہ السلام) کی تسلی اور تسکین کے بعد یہ کہا۔ پس اے مریم (علیہ السلام) ! تو اس پھل کو کھا اور اس پانی کو پی اور اس فرزند دلبند سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔ جو خدا بلا اسباب ظاہری خشک زمین سے پانی اور خشک درخت سے میوہ پیدا کرسکتا ہے وہ بغیر باپ کے لڑکا پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ حق تعالیٰ کی ان کرامتوں اور عنایتوں پر نظر کرو اور پریشانی اور غم دل سے نکال دو ۔ یکایک پانی کا جاری ہونا یہ تو پینے کا سامان ہوا اور خشک درخت سے یکدم تازہ کھجوروں کا گرنا یہ کھانے کا سامان ہوا۔ یہ تو لذت جسمانی ہوئی۔ اور چونکہ پانی اور پھل کا ظہور بطور خرق عادت ہوا۔ اس لیے یہ کرامت لذت روحانی کا سبب بنی۔ پس اے مریم (علیہ السلام) یہ تو تیری راحت کا سامان ہوا اور جس بدنامی سے تو ڈر رہی ہے اس کا انتظام یہ ہے کہ اگر تو اس کے بعد کسی آدمی کو دیکھے اور وہ تجھ سے تیرے بیٹے کا حال پوچھے کہ یہ لڑکا کہاں سے آیا تو تم زبان سے کچھ نہ بولنا بلکہ اشارہ سے یہ کہہ دینا کہ میں نے رحمن کے واسطے ایسے روزہ کی نذر کی ہے جس میں کلام کی ممانعت ہے۔ سو اس وجہ سے میں آج کسی آدمی سے زبان سے بات نہیں کروں گی۔ بنی اسرائیل میں روزہ کی حالت میں بولنا منع تھا۔ ان لوگوں کا روزہ یہ تھا کہ کھانا اور پینا اور بات کرنا چھوڑ دیتے تھے۔ اس لیے فقولیٓ انی نذرت کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے کچھ نہ کہنا بلکہ لوگوں کو اشارہ سے یہ بات سمجھا دینا الخ۔ قول کبھی زبان سے ہوتا ہے اور کبھی اشارہ سے۔ غرض یہ کہ فرشتہ کے اس کلام سے حضرت مریم (علیہ السلام) کو تسلی ہوگئی اور عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ پھر جب مریم (علیہ السلام) کو ان بشارتوں اور کرامتوں سے سکون اور اطمینان ہوگیا تو مریم (علیہ السلام) اس بچہ کو اپنی گود میں اٹھائے ہوئے بیت اللحم سے چلیں اور اپنی قوم کے پاس اس کو لے کر آئیں تو قوم پر یہ بات بہت گراں گزری کہ جب مریم (علیہ السلام) کی کہیں شادی نہیں ہوئی تو یہ بچہ کہاں سے لائی۔ سو کہنے لگے کہ اے مریم (علیہ السلام) یہ تو تو ایک عجیب اور انوکھی چیز لے کر آئی ہے۔ تیرے گھر والوں میں کبھی ایسا امر ہوا ہی نہ تھا۔ اس طرح بچہ کو برملا گود میں لے کر آنا بہت ہی شرم کا مقام ہے یہ تو کھلی بےباکی اور بےحیائی ہے۔ اے ہارون کی بہن تیرا باپ کوئی برا آدمی نہ تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی یہ اثر تجھ میں کہاں سے آیا۔ سچ بتا کہ کس کا ہے۔ مریم (علیہ السلام) کے باپ کا نام عمران تھا جو مسجد اقصیٰ کے امام تھے اور بڑے عابد و زاہد تھے اور ان کی ماں کا نام حنہ بنت فاقوذا تھا جن کا قصہ قرآن میں مذکور ہے۔ پس جب تیرے ماں باپ بھائی بدکار نہ تھے تو تو نے یہ نالائق حرکت کیسے کی۔ حدیث میں ہے کہ مریم (علیہ السلام) کے بھائی کا نام ہارون تھا۔ جن کا زہد اور عبادت بنی اسرائیل میں ضرب المثل تھا۔ اور حضرت مریم (علیہ السلام) کا زہد اور عبادت بھی اپنے بھائی ہارون جیسا تھا۔ اس بناء پر ان کو اخت ہارون کہا گیا۔ اور ہارون نام حضرت ہارون پیغمبر (علیہ السلام) کے نام پر رکھا گیا تھا۔ بنی اسرائیل میں یہ دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کے نام پیغمبروں اور صالحین کے نام پر رکھتے تھے۔ جیسا کہ مسلمانوں میں ہزاروں آدمیوں کا نام محمد اور احمد رکھا گیا ہے۔ اور اگر بالفرض ہارون سے مراد برادر موسیٰ (علیہ السلام) ہی ہوں تو بھی محاورۂ عرب کے مطابق مریم (علیہ السلام) کو اخت ہارون کہنا درست ہے۔ کیونکہ مریم (علیہ السلام) حضرت ہارون کی نسل سے تھیں۔ جیسے تمیمی کو یا اخاتمیم اور ہمدانی کو یا اخا ہمدان کہتے ہیں اور قرآن کریم میں ہے۔ واذکر اخا عاد اس طرح مریم (علیہ السلام) کو یٰٓاخت ہارون کہنا صحیح ہے۔ پس مریم (علیہا السلام) اپنی قوم کی طعن وتشنیع کی یہ باتیں سن کر حسب ہدایت خدا وندی خاموش ہوگئیں اور کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اس بچہ کی طرف اشارہ کردیا کہ جو کچھ کہنا ہو وہ اس سے کہو۔ یہ بچہ تمہیں جواب دے گا۔ تو وہ لوگ برہم ہو کر بولے کہ ہم اس بچہ سے کیسے بات کریں جو ابھی ماں کی گود میں بچہ ہی ہے۔ جب حضرت مریم (علیہ السلام) نے بچہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ تم اس بچہ سے پوچھ لو تو اور غضبناک ہوئے کہ بجائے شرم کے ہم سے تمسخر کرتی ہے اور کہتی ہے کہ اس شیر خوار بچہ سے پوچھ لو اور کہا جاتا ہے کہ زکریا (علیہ السلام) کو جب یہ خبر معلوم ہوئی تو وہ بھی جھپٹے ہوئے آئے اور بچہ سے کہا کہ اگر تو من جانب اللہ مأمور ہے تو اپنی حجت اور حقیقت بیان کر۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے دودھ پینا چھوڑ دیا اور ان کی طرف متوجہ ہوئے اور بول اٹھے اور کہا کہ میں بلاشبہ اللہ کا بندہ ہوں۔ خدا اور خدا کا بیٹا نہیں۔ الغرض جب حضرت مریم (علیہ السلام) بچہ کو لے کر اپنی قوم میں آئیں تو بنی اسرائیل جمع ہوگئے اور حضرت مریم (علیہ السلام) پر طعن وتشنیع شروع کی اس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ماں کا دودھ پی رہے تھے اسی وقت دودھ پینا شروع کیا اور کہا کہ تحقیق میں اللہ کا بندہ ہوں (تفسیر قرطبی صفحہ 102 ض 11) اور اپنی ذات کے لیے آٹھ صفتیں بیان فرمائیں جن میں تمام خیالات فاسدہ کا رد ہوگیا۔ پہلی صفت : عبدیت انی عبد اللہ یعنی میں اللہ کا خاص بندہ ہوں بطور خرق عادت کے بغیر با پ کے پیدا ہوا ہوں۔ معاذ اللہ ولد الزنا نہیں اور نہ معاذ اللہ میں عین خدا ہوں اور نہ خدا مجھ میں حلول کیے ہوئے ہے۔ اس لیے کہ خالق معبود کا ایک جسم نومولود کے ساتھ متحد ہونا بداہۃ محال ہے اس لیے کہ معبود قدیم ہے اور جسم نومولود حادث ہے جو ابھی عدم سے وجود میں آیا ہے اور ظاہر ہے کہ قدیم نہ حادث کے ساتھ متحد ہوسکتا ہے اور نہ اس کا عین ہوسکتا ہے اور نہ اس میں حلول کرسکتا ہے۔ 1۔ کیونکہ۔ محل۔ حال کو محیط ہوتا ہے۔ اور اپنے اندر اس کو سمو لیتا ہے۔ 2۔ نیز محل اور ظرف۔ حال اور مظروف سے مقدار میں زیادہ ہوتا ہے۔ 3۔ نیز حال، محل کا محتاج بھی ہوتا ہے اور اللہ ان سب باتوں سے پاک اور منزہ ہے۔ عقلا یہ امر محال ہے کہ ایک جسم حادث اور متغیر۔ قدیم اور واجب الوجود کا محل اور ظرف بن سکے اور اس کو اپنے احاطہ میں لے سکے۔ یا اس کا جزء بن سکے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مقصود اگرچہ اس کلام سے ماں سے تہمت دور کرنا تھا مگر عیسیٰ (علیہ السلام) نے سب سے پہلے خدا تعالیٰ سے تہمت کو دور کیا کہ کسی کو خدا کا شریک ٹھہرانا یا اس کے لیے اولاد تجویز کرنا یہ خدا تعالیٰ پر اتہام ہے۔ اور وہ اس تہمت سے پاک ہے۔ اسی طرح میری ماں کا حال ہے لوگ اس پر زنا کی تہمت لگا رہے ہیں مگر وہ اس سے بالکل پاک ہے۔ ایسا مبارک اور صاحب کمال بچہ کہیں زنا سے پیدا ہوسکتا ہے اور میری ولادت اس بات کی دلیل ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ معاذاللہ خود اللہ یا اللہ کا بیٹا نہیں۔ اس لیے کہ مولود معبود نہیں ہوسکتا لا محالہ عبد ہی ہوگا۔ اور اگر بقول نصاریٰ بطور فرض محال اس بات کو مان لیا جائے کہ ذات خدا وندی کے ناسوت کا عیسیٰ (علیہ السلام) میں حلول جائز اور ممکن ہے تو پھر کلمۃ اللہ کا حلول اور دخول زید اور ذات عمر میں بھی جائز ہونا چاہیے۔ سب کو معلوم ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قدیم اور ازلی نہ تھے۔ بلکہ حادث تھے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے۔ پس اگر ایک جسم حادث اور طفل مولود میں خداوند کا حلول اور دخول ممکن ہے تو پھر جسم فرعون میں اور جسم نمرود میں اور جسم گوسالہ میں معبود کا حلول کیوں محال ہے ؟ اور دوسری صفت یہ ہے کہ اللہ نے مجھ کو کتاب یعنی انجیل دی ہے۔ یعنی عنقریب اللہ تعالیٰ مجھ کو کتاب (انجیل) عطا کرے گا جو میری نبوت کی دلیل ہوگی اور نبوت الوہیت کے منافی ہے۔ اور تیسری صفت یہ ہے کہ اللہ نے مجھ کو نبی بنایا ہے۔ یعنی اللہ نے ازل میں فیصلہ کردیا ہے کہ وہ مجھ کو نبی بنائے گا۔ اور مجھ کو انجیل عطا کرے گا۔ اور چونکہ یہ فیصلہ قطعی ہے ضرور اپنے وقت پر واقع ہوگا۔ اس لیے اس آنے والے واقعہ کو بصیغۂ ماضی تعبیر کیا اور بعض کا قول یہ ہے کہ اسی وقت اللہ نے ان کو کتاب دے دی اور نبی کردیا۔ مگر یہ قول غایت درجہ بعید ہے۔ صحیح مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل میں یہ حکم کرچکا ہے کہ آئندہ چل کر مجھ کو نبوت ملے گی اور مجھ پر انجیل نازل ہوگی۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں نبی تھا۔ حالانکہ آدم (علیہ السلام) ابھی روح اور جسد کے درمیان تھے۔ اور چوتھی صفت یہ ہے وجعلنی مبارکا این ماکنت یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھ کو برکت والا بنایا ہے جس جگہ بھی ہوں جہاں بھی رہوں اور جاؤں خیر و برکت میرے ساتھ ہوگی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ میں خدا کا مبارک بندہ ہوں۔ اور پانچویں صفت یہ ہے و او صانی بالصلٰوۃ و الزکٰوۃ ما دمت حیا اللہ نے مجھ کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے۔ جب تک میں دنیا میں زندہ رہوں۔ اس لیے کہ آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد بندہ احکام شریعہ کا مکلف نہیں رہتا البتہ قیامت کے قریب جب آسمان سے دوبارہ نازل ہوں گے تو پھر حسب دستور احکام شرعیہ کے مکلف ہوں گے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مجھ کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے جو اس کے حکم کے مطابق اس کے مقررہ وقت پر ادا کی جائے گی اور طاہر ہے کہ نماز اور زکوٰۃ اللہ کی عبادت ہے اور عبادت دلیل عبدیت کی ہے۔ اور عبدیت اور الوہیت کا جمع ہونا عقلا محال ہے۔ اور چھٹی صفت یہ ہے و بر ا مبوا لدتی اللہ تعالیٰ نے مجھ کو میری والدہ کا خدمت گذار بنایا ہے۔ اشارہ اس طرف ہے کہ میں بغیر باپ کے پیدا ہوا ہوں اور میری یہ والدہ عفیفہ اور طاہرہ اور مطہرہ ہے مجھ پر اس کی تعظیم و تکریم واجب ہے۔ بالفرض اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے کوئی باپ ہوتے تو خدمت اور احسان میں والدہ کی تخصیص نہ ہوتی بلکہ باپ کا بھی ذکر ہوتا جیسا کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا و برا مبوالدیہ یعنی یحییٰ (علیہ السلام) اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے اور اپنی والدہ کی خدمت اور اطاعت دلیل عبدیت کی ہے۔ اور ساتویں صفت یہ ہے و لم یجعلنی جبارا شقیا اللہ نے مجھ کو سرکش اور بدبخت نہیں بنایا کہ اللہ کا حکم نہ مانوں بلکہ متواضع اور نیک بخت بنایا۔ اس لیے کہ معصیت شقاوت کا سبب ہے۔ معلوم ہوا کہ جو شخص نماز نہیں پڑھتا یا زکوٰۃ نہیں دیتا اپنی ماں کا نافرمان ہے وہ متکبر اور بدبخت ہے اور متواضع اور نیک بخت ہونا یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) خدا کے بندے تھے۔ اور آٹھویں صفت یہ ہے والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیا سلامتی ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا اور جس دن میں قبر سے زندہ اٹھا یا جاؤں گا۔ یہ صفت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے کیونکہ خدا ولات اور موت سے منزہ ہے اور کسی کی سلامتی اور حفاظت سے بےنیاز ہے۔ حدیث میں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے نازل ہونے کے چند سال بعد مدینہ منورہ میں وفات پائیں گے اور آنحضرت ﷺ کے پاس روضۂ اقدس میں مدفون ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہاں ایک قبر کی جگہ خالی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مجھ پر اللہ کی سلامتی ہے جس دن میں پیدا ہوا مس شیطان سے محفوظ رہا اور مرنے کے بعد سوال قبر وغیرہ سے محفوظ رہا اور قیامت کے دن قیامت کی ہول اور دہشت سے محفوظ رہوں گا۔ مجھے کہیں خوف و غم نہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ماں کی گود میں یہ خارق عادت کلام کیا اور اپنی خداد خصال کمال کو نہایت بلاغت کے ساتھ بیان کیا۔ جب لوگوں نے ان کا یہ کلام سنا تو حیرت میں رہ گئے اور اس خارق عادت کلام کو سن کر لوگوں کو ان کی ماں کی براءت اور نزاہت معلوم ہوگئی اور اسی وجہ سے لوگوں نے مریم (علیہ السلام) پر زنا کی سزا قائم نہ کی اور مطمئن ہوگئے کہ یہ لڑکا معاذ اللہ ولد الزنا نہیں بلکہ قدرت خدا وندی کی ایک نشانی ہے۔ اور خوب سمجھ گئے کہ یہ بچہ اور اس کی ماں ہر قسم کی تہمت سے پاک ہے۔ اس لیے کہ اول تو ایک نومولود بچہ کا خارق عادت طریقہ پر اس طرح گفتگو کرنا اور نہایت فصاحت اور بلاغت کے ساتھ ایسا مؤثر کلام کرنا جس سے دشمن حیران اور سر بگریباں رہ جائیں، اس بات کی دلیل ہے کہ یہ نومولود نہایت مبارک اور مسعود ہے اور یہ اور اس کی ماں ہر قسم کی تہمت سے پاک اور منزہ ہے۔ پھر یہ کہ جو مولود ایسی پاکیزہ خصال اور ایسی صفات کمال کے ساتھ موصوف ہو وہ کیسے ولد الزنا ہوسکتا ہے خصوصا جبکہ خود ان کے اقرار ما کان ابوک امرا سوء و ما کانت امک بغیا سے کہ فرع کو اصل کے مطابق دیکھنا چاہیے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ آخری کلام تھا یہ خارق عادت کلام سن کر لوگوں نے ان کی والدہ کی براءت معلوم کرلی اور خاموش ہوگئے اور عیسیٰ (علیہ السلام) بھی یہ کلام کر کے شیر خوار بچوں کی طرح خاموش ہوگئے پھر انہوں نے کوئی بات نہیں کی۔ یہاں تک کہ اس مدت کو پہنچے جس میں بچے عادتا باتیں کیا کرتے ہیں اس کلام کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بولنا کہیں ثابت نہیں ورنہ ضرور نقل ہوتا۔ غرض یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اس کلام کے بعد شیر خوار بچوں کی طرح خاموش ہوگئے اور جب تک بولنے کی عمر تک نہ پہنچے اس وقت تک نہ بولے۔ (دیکھو تفسیر قرطبی صفحہ 103 ج 11)
Top