Maarif-ul-Quran - Maryam : 81
وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لِّیَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّاۙ
وَاتَّخَذُوْا : اور انہوں نے بنالیا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا اٰلِهَةً : معبود لِّيَكُوْنُوْا : تاکہ وہ ہوں لَهُمْ : ان کے لیے عِزًّا : موجب عزت
اور ان لوگوں نے خدا کے سوا اور معبود بنا لئے ہیں تاکہ وہ ان کے لیے (موجب عزت و) مدد ہوں
ابطال عقیدۂ ابنیت وبیان ضلال و وبال منکرین وحدانیت و منکرین قیامت برائے تسلیہء نبی اکرم ﷺ قال اللہ تعالیٰ ۔ و اتخذوا من دون اللہ اٰلھۃ۔۔۔ الیٰ ۔۔۔ او تسمع لھم رکزا (ربط) شروع سورت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عبودیت اور بلا باپ کے ان کی ولادت کا ذکر فرمایا تاکہ ان کی والدۂ ماجدہ کی عصمت و نزاہت ثابت ہوجائے اور یہود بےبہبود کا رد ہو جو حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کو ولد الزنا اور ساحر بتلاتے تھے اب ان آیات میں ان لوگوں کے زعم فاسد کا رد ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا بتاتے ہیں اور اس پر گھمنڈ کرتے ہیں۔ نیز گزشتہ آیت میں قیامت اور خدا پرستوں کا حال اور مآل بیان فرمایا۔ اب ان آیات میں ان لوگوں کی جہالت اور ضلالت اور سوء عاقبت کو بیان کرتے ہیں۔ جو مشرک ہیں اور خدائے تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرتے ہیں جیسے نصاریٰ اور یہ بتلاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرنا ایسا جرم عظیم ہے کہ اندیشہ ہے کہ آسمان اور زمین نہ شق ہوجائیں اگر اللہ تعالیٰ کا حلم نہ ہوتا تو یہ گستاخ کبھی کے تباہ ہوچکے ہوتے۔ اور جب دنیا میں کفار اور مشرکین کی جہالت اور آخرت میں ان کی فضیحت بیان کرچکے تو سورت کو احوال مومنین صالحین پر ختم فرمایا اور یہ بتلایا کہ ایمان اور عمل صالح کی برکات میں سے ایک برکت یہ ہے کہ من جانب اللہ لوگوں کے دلوں میں مومن کی محبت ڈال دی جاتی ہے۔ جس سے وہ محبوب خلائق ہوجاتا ہے اور سورت کو ایک موعظت بلیغہ پر ختم فرمایا۔ یعنی کم اھلکنا قبلھم من قرن پر سورت کو ختم فرمایا کہ یہ دنیا فانی اور آنی جانی ہے اپنے انجام کو سوچ لو۔ مال و دولت کے غرہ میں نہ رہو۔ اس سورت کو رحمت کے ذکر سے شروع فرمایا اور انذار اور ترہیب پر اس کو ختم فرمایا۔ یہ انداز کلام خاص طور پر موجب لطف ہے۔ نیز قریبی آیتوں میں ناخلف لوگوں کا حال اور مآل بیان فرمایا۔ اب ان آیات میں دوسرے ناخلف لوگوں کا حال بیان کرتے ہیں۔ جو خدا کے لیے بیٹا ثابت کرتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے مال و دولت پر تو گھمنڈ کرتے ہیں اور اپنی جہالت اور ضلالت کو نہیں دیکھتے۔ چناچہ فرماتے ہیں : اور ان نادانوں نے بنالیے اللہ کے سوا اور معبود جن کی یہ عبادت کرتے ہیں۔ تاکہ وہ معبود ان کے لیے اللہ کے یہاں عزت اور نصرت کا سبب بنیں اور اللہ کے یہاں ان کی شفاعت کریں اور ان کی شفاعت کی بدولت خدا کے یہاں عزت پائیں۔ ہرگز نہیں یعنی کبھی ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ ان نادانوں کا محض سودائے خام ہے جو انہوں نے اپنے خیال سے گھڑ رکھا ہے۔ کسی کو معبود بنانے سے کچھ نہیں ہوتا وہ معبود خود ان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے اور تراشے ہوئے ہیں۔ وہ ان کو کیا نفع پہنچائیں گے اور ان کو کیا عزت بخشیں گے ؟ بلکہ قیامت کے دن یہی معبود خود ان کی عبادت کے منکر ہوجائیں گے۔ اور بجائے معین و مددگار ہونے کے ان کے مخالف اور دشمن ہوجائیں گے۔ اور ان کی بندگی سے اپنی برأت اور بیزاری کا اظہار کریں گے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بتوں کو گویائی بھی عطا کر دے گا اور وہ بت ان کی عبادت کے منکر ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ ہم کو تو تمہاری عبادت کی خبر بھی نہیں جن کو اپنا دوست یا رومددگار سمجھتے تھے وہ مدد تو کیا کرتے الٹے ان کے دشمن ہوجائیں گے اور بجائے عزت بڑھانے کے ذلت اور رسوائی کا سبب بنیں گے۔ کما قال اللہ تعالیٰ و من اضل ممن ید عوا من دون اللہ من لا یستجیب لہٓ الیٰ یوم القیٰمۃ و ھم عن دعآءھم غا فلون و اذا حشر الناس ایا نا یعبدون۔ فالقو الیھم القول انکم لکاذبون۔ پس جب یہ بت بھی ان سے بری اور بیزار ہوجائیں گے تو ان کی حسرت بہت ہی زیادہ ہوجائے گی۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ سیکفرون کی ضمیر عابدوں یعنی مشرکوں کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ جب کافر اور مشرک قیامت کے دن کفر اور شر ک کے برے انجام کا مشاہدہ کریں گے تو اپنے شرک سے منکر ہوجائیں گے اور کہیں گے واللہ ربنا ما کنا مشرکین یعنی خدا کی قسم ہم تو کبھی مشرک ہوئے ہی نہیں۔ اس ہولناک منظر کو دیکھ کر اپنے شرک سے مکر جائیں گے اور صریح جھوٹ بول جائیں گے کہ ہم نے تو تیری عبادت میں کسی کو شریک ہی نہیں کیا۔ اوپر کی آیتوں میں کافروں کی گمراہیوں کا اور آخرت میں ان کی رسوائیوں کا بیان ہوا۔ اب آئندہ آیات میں ان کی گمراہی کا سبب کرتے ہیں کہ وہ تسلط شیاطین ہے کہ دنیا میں شیاطین ان پر مسلط تھے اور یہ لوگ ان کے اشاروں پر چل رہے تھے۔ چناچہ فرماتے ہیں کہ آپ نے دیکھا نہیں کہ ہم نے بتقاضائے حکمت اور بغرض ابتلاء و امتحان شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ ان کو ہلاتے رہتے ہیں خوب ہلانا اور اچھالتے رہتے ہیں اور اپنی انگلیوں پر نچاتے رہتے ہیں۔ خوب نچانا تاکہ اہل عقل ان کی گمراہی کا تماشہ دیکھیں۔ زجاج (رح) کہتے ہیں کہ ” ارسال “ کے معنی چھوڑ دینے کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جیسے کتا شکار پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہم نے شیاطین کو کفار پر چھوڑ دیا ہے۔ انتہیٰ کلامہ یہ اس کی قضا و قدر ہے اور اس کی حکمت اور مصلحت ہے جس کو چاہے جس پر مسلط کر دے۔ اور تؤ زھم اذا کے معنی تحریک اور ازعاج کے ہیں یعنی ہلانے اور جنبش دینے اور برانگیختہ کرنے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ شیطان کسی کو معصیت پر مجبور نہیں کرتا بلکہ برانگیختہ کرتا ہے۔ جیسے انبیاء کرام (علیہ السلام) اور انکے وارث کسی کو اللہ کی اطاعت پر مجبور نہیں کرتے بلکہ ایمان اور عمل صالح کی دعوت دیتے ہیں۔ اسی طرح شیاطین کسی کو کفر اور معصیت پر مجبور نہیں کرتے بلکہ اس کو کفر اور معصیت کی دعوت دیتے ہیں۔ جو عقل والے ہیں وہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کرتے ہیں اور جو شہوت پرست نفس کے بندے ہیں وہ شیطان کی دعوت کو قبول کرتے ہیں اور کھلم کھلا اللہ کی نافرمانی اور اس کے مقابلہ پر تل جاتے ہیں اور مستحق سزا کے ہوجاتے ہیں۔ پس اے نبی ﷺ آپ ان بدبختوں کے لیے عذاب اور سزا کی جلدی نہ کیجیے۔ ہم ان کے جرم سے غافل نہیں۔ ہم نے ان کی سزا کے لیے ایک وقت معین کر رکھا ہے۔ جزایں نیست کہ ہم ان کی مدت کو شمار کر رہے ہیں شمار کرنا جب وہ شمار پوری ہوجائے گی اس وقت ان پر عذاب آئے گا۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ ان کے عذاب میں جلدی نہ کیجیے ہم نے ان کو مہلت دے دی ہے اور ان کی باگ ڈور ڈھیلی چھوڑ دی ہے اور ان کے لیے ایک وقت مقرر کردیا ہے اور ان کی میعاد کے دن ہم گن رہے ہیں جب وہ دن پورے ہوجائیں گے تو ضرور عذاب آئے گا اور کسی طرح نہیں ٹلے گا اور ان مجرموں کو سزا اس روز ملے گی کہ جس روز ہم پرہیزگاروں کو بارگاہ رحمٰن کی طرف اعزازو اکرام کے ساتھ وفد بنا کر سواریوں پر لے جائیں گے۔ جیسے معزز وفود کو شہنشاہ کی بارگاہ میں سوار کرکے لے جاتے ہیں۔ اور مجرموں کو جانوروں کی طرح جہنم کی طرف پا پیادہ اور پیاسا ہنکا کر دوزخ کے گھاٹ لے جا کر اتار دیں گے۔ بیشمار روایات سے یہ امر ثابت ہے کہ متقین اعزازو اکرام کے سواریوں پر سوار کر کے جنت میں پہنچائے جائیں گے۔ اور مجرم لوگ پاپیادہ اور پیاسے جانوروں کی طرح ذلت اور خواری کے ساتھ دوزخ کی طرف ہنکائے جائیں گے۔ اور اس روز لوگ شفاعت کے مالک اور مختار نہ ہوں گے مگر جس نے رحمٰن سے کوئی پروا نہ لیا۔ یعنی اس روز کوئی کسی کی سفارش نہیں کرسکے گا۔ مگر جس کو اللہ کی طرف سے شفاعت کی اجازت ہو جیسے انبیاء و صلحاء اور جن کے لیے اجازت ہو بغیر اس کی اجازت کے کوئی زبان نہیں ہلا سکے گا۔ اور سفارش انہی لوگوں کی کرسکیں جن کے لیے سفارش کی اجازت ہوگی جیسے مسلمان، اور کافروں کے لیے سفارش کی اجازت نہ ہوگی۔ یہاں تک اللہ تعالیٰ نے بت پرستوں کا رد فرمایا اب آگے ان لوگوں کا رد فرماتے ہیں جو خدا کے لیے اولاد تجویز کرتے ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ رحمٰن نے اپنے لیے اولاد بنائی۔ یہود حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاریٰ مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ تم تینوں بڑی بھاری بات لائے ہو اور جرم عظیم کے مرتکب ہوئے ہو۔ قریب ہے کہ تمہاری اس گستاخی سے آسمان پھٹ پڑیں اور ان کہنے والوں پر گر پڑیں اور زمین پھٹ جائے اور یہ اس میں دھنس جائیں اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر پڑیں اور وہ ریزے اڑ کر ان کو لگ جائیں۔ جس سے یہ ہلاک یا زخمی ہوجائیں اس لیے کہ ان لوگوں نے رحمٰن کے لیے اولاد ٹھہرائی ہے۔ یہ ایسی بات ہے کہ اگر اس سے سارا عالم تہہ وبالا ہوجائے تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔ مگر وہ رحمٰن حلیم اور بردبار ہے۔ گستاخی اور نالائقی پر فورا سزا نہیں دیتا۔ کما قال اللہ تعالیٰ ان اللہ یمسک السمٰوٰت والارض ان تزو لا ولئن زالتآ ان امسکھما من احد من م بعدہٖٓ انہ کان حلیما غفورا غرض یہ کہ یہ کلمہ نہایت درجہ خراب اور برا ہے اور جس سے اللہ کا غضب اور قہر جوش میں آجاتا ہے اور زمین اور آسمان اس سے تھرا جاتے ہیں اور اندیشہ ہوتا ہے کہ دنیا تباہ نہ ہوجائے۔ رحمٰن کی شان کے شایان نہیں کہ وہ اولاد رکھے۔ بیٹا باپ کا شبیہ اور نظیر ہوتا ہے۔ اور کسی درجہ میں باپ کا مددگار بھی ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ شبیہ اور نظیر سے پاک ہے اور کسی کی مدد سے بےنیاز ہے جو کوئی بھی آسمانوں میں ہے اور اس کے روبرو ضرور بندہ اور غلام بن کر حاضر ہونے ولا ہے تو اس کے بیٹا کیونکر ہوسکتا ہے۔ بیٹا اور غلام ہونے میں تو منافات ہے۔ البتہ تحقیق اللہ نے سب کو اپنے علم اور قدرت کے احاطہ میں گھیر رکھا ہے۔ کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں اور ہر ایک ان میں قیامت کے دن اس کے پاس تنہا حاضر ہونے والا ہے۔ نہ اس کے پاس مال ہوگا اور نہ اولاد ہوگی۔ غرض یہ کہ کل عالم اس کے سامنے مجبور اور مقہور ہے اور عاجز اور لاچار ہے اور اس کے علم اور قدرت کے احاطہ میں گھرا ہوا ہے۔ پھر وہ خدا کا شریک یا اس کا فرزند کیسے ہوسکتا ہے۔ خاتمہء سورت مشتمل بربشارت اہل ایمان وطاعت و نذارت اہل طغیان وخصومت و بودن آں از اعظم مقاصد نزول کتاب ہدایت و اغراض بعثت (ربط) اوپر کی آیتوں میں متقین کے اعزازو اکرام اور مجرمین کی ذلت و خواری کا ذکر تھا۔ اب اس سورت کو ابرار کی بشارت اور اشرار کی نذارت پر ختم فرماتے ہیں جو کہ تنزیل قرآن اور بعثت نبوی کا عظیم ترین مقصد ہے چناچہ فرماتے ہیں کہ بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے جو خد تعالیٰ کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہیں۔ سو اللہ تعالیٰ اخروی نعمتوں کے علاوہ دنیا ہی میں ان کو یہ نعمت عطا کرے گا۔ کہ نیک بندوں کے دل میں ان کی محبت ڈال دے گا۔ اور بدوں کے دل میں ان کی ہیبت ڈال دے گا۔ یعنی ایمان اور اعمال صالحہ کی وجہ سے وہ لوگوں کی نظر میں محبوب ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بدون سبب ظاہری لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت پیدا کردیتے ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ کافروں کے دل میں رعب ڈال دیتے ہیں۔ حضرت شاہ عبد القادر (رح) لکھتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ اللہ ان سے محبت کرے گا یا ان کے دل میں اپنی محبت پیدا کرے گا یا مخلوق کے دل میں ان کی محبت ڈال دے گا۔ (کذا فی موضح القرآن) فائدہ : جاننا چاہیے کہ مقبولیت و محبوبیت اور چیز ہے اور شہرت اور چیز ہے۔ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ مقبولیت اور محبوبیت کی ابتداء نیک بندوں اور خدا پرستوں سے ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے دل میں اس کی محبت ڈال دیتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ اس کو قبول عام ہوجاتا ہے باقی محض اخباری شہرت یا کسی غلط فہمی کی بنا پر عوام الناس کا کسی لیڈر کی طرف جھک جانا یہ مقبولیت عند اللہ کی دلیل نہیں۔ خوب سمجھ لو پس اے نبی آپ ﷺ لوگوں کو یہ بشارت دیجیے کیونکہ اس قرآن کر ہم نے آپ کی زبان پر اسی لیے آسان اور سہل کردیا ہے کہ آپ ﷺ اس کے ذریعے بشارت سنائیں پرہیزگاروں کو جنہوں نے کفر اور شرک سے کنارہ کیا۔ اور ایمان لائے اور اعمال صالحہ کیے۔ اور تاکہ آپ ﷺ اس قرآن کے ذریعے جھگڑالو قوم کو ڈرائیں۔ جھگڑالو قوم سے مراد وہ لوگ ہیں جو حق اور اہل حق سے جھگڑتے ہیں اور باطل اور اہل باطل کا ساتھ دیتے ہیں۔ جن کو حق سے عداوت ہے اور حق سے عداوت اور نفرت ہی ہمہ اقسام کفرو معصیت کی جڑ ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ اللہ کے عذاب سے اس جھگڑالو قوم کو ڈرائیے اور یہ بتلا دیجیے کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی جھگڑالو قوموں کو ہلاک کردیا۔ جو حق سے نفرت اور عداوت رکھتے تھے اور اہل حق سے جھگڑتے تھے۔ کیا تو پاتا ہے اور دیکھتا ہے ان ہلاک ہونے والوں میں سے کسی کو یعنی کیا ان میں سے کوئی تجھے دکھائی دیتا ہے یا ان میں سے کسی کی سنک اور بھنک سنتا ہے ؟ ” رکز “ کے معنی لغت میں آہستہ آواز کے ہیں۔ حاصل یہ کہ ان ہلاک شدگان میں تجھے کسی کا جسم نظر آتا ہے یا کسی کی آواز سنائی دیتی ہے ؟ سب ہی ہلاک ہوگئے۔ کسی کا نام و نشان تک بھی باقی نہ رہا۔ لہٰذا عرب کے کافر اپنے انجام کو سوچ لیں اور پہلی قوموں کی تباہی اور بربادی سے عبرت پکڑیں اور برے انجام سے ڈریں اور آخرت کی فکر کریں اور قہر الہٰی سے ڈریں۔ اور اللہ کی عادت یہ ہے کہ نافرمانوں کو مہلت دیتا ہے اور پھر جب جکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں۔ یہ صفت اور حالت تو کفار کی تھی۔ مگر اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے مسلمانوں کا ظاہری اور عملی طور پر یہی حال ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حالت پر رہم فرمائے اور ہم کو حسن اعمال کی توفیق دے اور ایمان پر ہمارا خاتمہ فرمائے۔ آمین یا رب العٰلمین۔
Top