Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 106
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَا١ؕ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
مَا نَنْسَخْ : جو ہم منسوخ کرتے ہیں مِنْ آيَةٍ : کوئی آیت اَوْ نُنْسِهَا : یا اسے بھلا دیتے ہیں نَأْتِ : لے آتے ہیں بِخَيْرٍ : بہتر مِنْهَا : اس سے اَوْ مِثْلِهَا : یا اس جیسا اَلَمْ : کیا نہیں تَعْلَمْ : جانتے تم اَنَّ اللہ : کہ اللہ عَلٰى : پر كُلِّ شَیْءٍ : ہر شے قَدِیْرٌ : قادر
ہم جس آیت کو منسوخ کردیتے یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر بات پر قادر ہے
شناعت بست وچہارم (24) قال تعالیٰ ماننسخ من ایۃ۔۔۔ الی۔۔۔ من ولی ولا نصیر شان نزول : یہود اور مشرکین بطور طعن یہ کہتے تھے کہ محمد (ﷺ) اپنے اصحاب کو ایک بات کا حکم دیتے ہیں اور پھر اسی بات سے منع کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اللہ کی طرف سے نہیں بلکہ اپنی طرف سے کہتے ہیں۔ اس پر یہ آیت شریفہ نازل ہوئی۔ اس قسم کی باتوں کافروں کا مقصود یہ تھا کہ مسلمانوں کے دلوں میں یہ شک اور شبہ ڈالدیں کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ خدا کی طرف سے جو ہم پر نازل ہوا وہ سب خیر ہی خیر ہے تو اس کے منسوخ ہونے کے کیا معنی۔ اگر پہلا حکم خیر تھا تو دوسرا شر ہوگا اور اگر دوسرا ھکم خیر ہے تو پہلا حکم شر ہوگا اور وحی الٰہی اور حکم خداوندی کا شر ہونا ناممکن اور محال ہے اس شبہ کے ازالہ کے لیے یہ آیت نازل فرمائی۔ جواب کا حاصل یہ ہے کہ نسخ کے معنی تبدیل خیر بالشر کے نہیں۔ یعنی خیر کو شر کے ساتھ بدل دینے کے نہیں تاکہ وحی الٰہی اور خیریت میں منافات لازم آئے بلکہ ناسخ اور منسوخ دونوں ہی خیر ہیں اس لیے کہ ہم جب کبھی کسی آیت کا حکم منسوخ کرتے ہیں کہ اس آیت کے حکم پر عمل نہ کیا جائے اگرچہ اس آیت کی تلاوت باقی رہے یا ہم اس آیت ہی کو ذہنوں سے بھلا دیتے ہیں کہ اس آیت کے الفاظ کو کسی حکمت اور مصلحت کی بنا پر قوت حافظہ سے فراموش کردیں اگرچہ حکم اس آیت کا برقرار رکھیں کہ اس آیت کے ذہنوں سے نکل جانے کی وجہ سے تلاوت کی عبادت اور لذت تو حاصل نہ کرسکیں اس منسوخ التلاوۃ آیت کے حکم پر عمل کر کے اللہ کی خوشنودی حاصل کرسکیں۔ بہر حال ہم چاہے کسی آیت کے حکم کو منسوخ کریں یا اس آیت کو ذہنوں سے بھلائیں نسخ کے بعد اس آیت منسوخہ یا منسیہ سے کوئی بہتر چیز لاتے ہیں یا اس آیت کے مثل لاتے ہیں یعنی حکم ناسخ حکم منسوخ سے سہولت عمل یا موافقت مصلحت یا کثرۃ ثواب کے اعتبار سے بہتر ہوتا ہے یا برابر۔ کیا تجھے یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اس کو سب اختیار ہے ہر لمحہ اور ہر لحظہ تو اس کے عجائب قدرت اور غرائب مشیت کا مشاہدہ کرتا ہے جیسے مرض کا صحت سے بدلنا اور فقر کا تونگری سے بدلنا اور عزت کا ذلت سے بدلنا اور روشنی کا تاریکی سے بدلنا پس جو ذات ان تغیرات اور تبدلات پر قادر ہے کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ وہ ایک حکم سے دوسرے حکم کو بدل دے اور جس طرح احکام تکوینیہ میں حسب اقتضاء مصلحت تغیر اور تبدل معاذ اللہ جہالت نہیں بلکہ عین حکمت ہے اسی طرح احکام شرعیہ میں بھی باقتضاء زمان ومکان اور باقتضاء طبع تغیر وتبدل عین حکمت اور عین مصلحت ہے اور الہامی کتابوں میں بھی احکام بدلتے رہے ہیں اگر یہ بات نہ ہوتی تو توریت کے بعد انجیل کے نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی اور اس تغیر وتبدل سے اللہ تعالیٰ کے علم میں کوئی تغیر وتبدل نہیں ہوتا۔ پہلے ہی سے یہ سب کچھ اس کے علم میں تھا۔ البتہ اس تغیر اور تبدل سے ہمارے علم میں تگیر ہوتا ہے۔ سو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کو قصور علم کی وجہ سے اس حکم کی مدت معلوم نہ تھی اور قصور فہم کی وجہ سے اس حکم کو دائم اور مستمر سمجھ بیٹھے۔ جب حکم ناسخ نازل ہوا اس وقت اپنے قصور علم کا علم ہوا اور قصور فہم کا فہم ہوا۔ قوانین حکومت میں بھی تغیر اور تدبل ہوتا ہے لیکن وہاں کسی فروگذاشت اور لاعلمی کی بناء پر پہلا حکم منسوخ ہوتا ہے اور حق جل شانہ کے احکام میں تغیر وتبدل ہمیشہ حکمت ومصلحت کی بناء پر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا علم غلطی سے پاک ہے۔ لا یضل ربی ولا ینسی۔ میرا رب نہ غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے۔ مریض کے حالات بدلنے کی وجہ سے طبیب دوا بدلتا رہتا ہے یہ طبیب کی جہالت نہیں بلکہ دلیل حذاقت ہے کہ ہر وقت کی مصلحت اس کی پیش نظر ہے اور اس قدرت کے علاوہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ ہی کے لیے بادشاہت آسمانوں کی اور زمینوں کی اور حکومت اور بادشاہت کے لوازم میں سے ہے کہ احکام میں تغیر اور تبدل ہو لہذا جس وقت جو حکم دے اس کی تعمیل فرض اور لازم ہے اور اگر اس کے حکم اور فرمان کی تعمیل میں تامل کرو اور یہ کہو کہ ہم تو پہلے ہی حکم کو مانیں گے دوسرے حکم کو نہیں مانیں گے تو سمجھ لو کہ تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی کارساز اور مددگار نہیں کہ جو تمہیں اس کی گرفت اور باز پرس سے بچا سکے۔ فائدہ اولی : لغت میں نسخ کے دو معنی آتے ہیں ایک نقل اور تحویل جیسے نسخ الکتاب (یعنی کتاب نقل کی) دوسرے معنی رفع اور ازالہ کے جیسے نسخت الشمس الظل (آفتاب نے سایہ کو زائل کردیا) آیت میں دوسرے معنی مراد ہیں یعنی حکم اول کو اٹھا دینا۔ فائدہ دوم : کتاب اللہ کا نسخ چند وجوہ پر آیا ہے (1) ایک تو یہ کہ تلاوت مسنوخ ہوگئی اور حکم باقی رہا جیسے آیت رجم کہ تلاوت تو اس کی منسوخ ہوگئی اور حکم اس کا باقی ہے (2) اور ایک یہ کہ حکم منسوخ ہوجائے اور تلاوت باقی رہے جیسے اقارب کے لیے وصیت کرنے کی آیت میراث سے اس کا حکم منسوخ ہوگیا اور تلاوت علی حالہا باقی ہے اور مثلاً وہ آیت جس میں ایک سال کی عدت وفات کا حکم مذکور ہے تلاوت اور قراءت اس کی باقی ہے مگر ایک سال کی عدت کا حکم چار مہینے اور دس روز کی آیت سے منسوخ ہوگیا (3) اور ایک صورت یہ ہے کہ تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوں جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورة احزاب بقدر سورة بقرہ طویل تھی مگر اس کے اکثر حصہ کی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوگئے۔ فائدہ سوم : نسخ کی دو قسمیں ہیں ایک یہ کہ حکم منسوخ کی جگہ دوسرا حکم نازل کیا جائے جیسے ایک سال کی عدت منسوخ کرے چار مہینہ اور دس دن کا حکم نازل کردیا گیا۔ دوسری قسم یہ کہ پہلا حکم اٹھا لیا جائے اور کوئی جدید حکم اس کی جگہ نہ اتارا جائے جیسے ابتداء میں مہاجر عورتوں کے امتحان کا حکم تھا بعد میں اٹھا لیا گیا۔ فائدہ چہارم : نسخ احکام یعنی اوامر اور نواہی میں جاری ہوتا ہے اخباری یعنی جو چیزیں خبر سے متعلق ہیں ان میں نسخ جاری نہیں ہوتا ہے اور اوامر ونواہی میں باقتضاء مصلحت تغیر وتبدل عقلاء عالم کے نزدیک مسلم ہے۔ بلکہ مصلحت کے بدلنے سے حکم کو نہ بدلنا عقلاً قبیح ہے۔ فائدہ پنجم : ناسخ کا منسوخ سے بہتر یا برابر ہونا باعتبار سہولت عمل یا باعتبار کثرت ثواب مراد ہے نظم اور اعجاز کے اعتبار سے ناسخ اور منسوخ کا برابر ہونا ضروری نہیں۔ لہذا کتاب اللہ کا حدیث سے منسوخ ہونا۔ نات بخیر منھا۔ (یعنی ہم اس سے بہتر حکم نازل فرماتے ہیں) کے منافی نہ ہوگا۔ خوب سمجھ لو
Top