Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 119
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا١ۙ وَّ لَا تُسْئَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ
اِنَّا : بیشک ہم اَرْسَلْنَاکَ : آپ کو بھیجا بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ بَشِيرًا ۔ وَنَذِيرًا : خوشخبری دینے والا۔ ڈرانے والا وَلَا تُسْئَلُ : اور نہ آپ سے پوچھا جائے گا عَنْ : سے اَصْحَابِ : والے الْجَحِيمِ : دوزخ
(اے محمد ﷺ ہم نے تم کو سچائی کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اہل دوزخ کے بارے میں تم سے کچھ پرسش نہیں ہوگی
خاتمۂ کلام واتمام حجت والزام تسلیۂ سید انام علیہ افضل الصلوۃ والسلام انا ارسلنک بالحق بشیرا ونذیر ا۔۔ الی۔۔ فاولئک ھم الخاسرون۔ (ربط) یہاں تک بنی اسرائیل کی قباحتوں اور شناعتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا شنائع بنی اسرائیل کی تفصیل کی ابتداء کفران نعمت اور دناءت اور خست سے فرمائی۔ کما قال تعالی۔ واذ قلتم یموسی لن نصبری علی طعام واحد۔ اور وہ وقت یاد کرو جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ہم ہرگز ایک کھانے پر صبر نہ کریں گے۔ اور پھر درمیان میں ان کی قساوت قلب کو ذکر فرمایا ثم قست قلوبکم من بعد ذلک فھی کالحجارۃ او اشد قسوۃ۔ پھر سخت ہوگئے تمہارے دل اس کے بعد پس وہ پتھر کی مانند ہیں یا اس سے بھی زیادہ سخت اور اس قبائح اور شنائع کے سلسلہ کو ان کے کبرونخوت پر ختم فرمایا کہ اس قدر مغرور اور متکبر ہیں کہ اپنے کو خداوند ذوالجلال کی ہمکلامی کا اہل سمجھتے ہیں اور احکم الحاکمین کے وزراء ونائبین یعنی انبیاء ومرسلین کے اتباع اور اطاعت کو اپنے لیے کسر شان سمجھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ تکبر اور نخوت سے بڑھ کر کوئی مرض نہیں تکبر ہی تمام امراض کی جڑ ہے یہی مرض سب سے پہلے دنیا میں آیا اور یہی مرض ابلیس کی لعنت کا سبب بنا۔ اب ان قبائح اور شنائع کے بعد آنحضرت ﷺ کو تسلی دینا ہے کہ اے ہمارے نبی آپ مغموم اور رنجیدہ نہ ہوں اور اب ان کے رشد وہدایت کی طمع دل سے نکال دیجئے جن کے دل پتھر سے زیادہ سخت ہوں اور کبر اور نخوت سے لبریز ہوں۔ ان سے اسلام اور ایمان کی توقع نہ رکھیے حق ان پر واضح ہوچکا ہے۔ آپ کی نبوت و رسالت کے اتنے واضح اور روشن دلائل ہم نے واضح کردئیے ہیں کہ جس کے بعد طالب حق کے لیے کسی قسم کے شک اور تردد کی گنجائش نہیں اور علاوہ ازیں ہم نے آپ کو دین حق دیکر بھیجا ہے جو آپ کی نبوت کی مستقل اور روشن دلیل ہے اور ایسا ثابت اور پختہ ہے۔ کہ جو موجب طمانینۃ ویقین ہے اور شکوک اور شبہات سے اس میں تزلزل کا امکان نہیں بالفرض اگر آپ سے کوئی بھی معجزہ ظاہر نہ ہوتا تو فقط آپ کو دین حق اور آپ کی شریعت حقہ ہی آپ کی نبوت کے ثابت کرنے کے لیے کافی اور وافی تھی۔ نی زہم نے آپ کو مخلوق کے لیے بشیر ونذیر بنا کر بھیجا ہے کہ ماننے والوں کو جنت کی بشارت سنائیں اور منکرین کو عذاب سے ڈرائیں اور پھر لوگ اپنے اختیار سے ایمان لائیں اگر ایسے معجزات ظاہر کردئیے جائیں کہ جن سے مجبور اور لاچار ہو کر ایمان لانا پڑے تو وہ ایمان بےسود ہے مکلف بنانے کا جو مقصد ہے وہ جبری ایمان کی صورت میں باقی نہیں رہتا اور اگر یہ بد نصیب اب بھی ایمان نہ لائیں اور آپ کی دعوت حقہ کو قبول نہ کریں تو آپ رنجیدہ نہ ہوں۔ آپ نے اپنا فرض منصبی یعنی دعوت وتبلیغ ادا کردیا۔ آپ سے ان جہنمیوں کے بارے میں کوئی باز پرس نہ ہوگی از خود انہوں نے کفر اور جہنم کی راہ اختیار کی ہے۔ اگر آپ کا اختیار چلتا تو کبھی ان کو جہنم کی راہ نہ چلنے دیتے۔ اور ان لوگوں کا آپ کی پیروی اور اتباع سے اعراض اس لیے نہیں کہ آپ دلائل نبوت میں کسی قسم کا قصور ہے۔ بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ یہود اور نصاری ہرگز آپ سے راضی اور خوش نہ ہونگے تاوقتیکہ آپ ان کی منسوخ ملت کا اتباع اور پیروی نہ کریں وہ اس غرہ میں ہیں کہ ہم کتب الٰہیہ کے علوم کے حامل اور علمبردار ہیں۔ ہم کسی کا کیوں اتباع کریں۔ ہم تو سب کے متبوع اور سردار ہیں لہذا جو شخص اپنے آپ کو متبوع سمجھتا ہو وہ تابع بننے پر کب راضی ہوسکتا ہے۔ آپ ان کے اس خیال خام کے جواب میں یہ کہدیجئے کہ تحقیق اللہ کی ہدایت ہر زمانہ میں وہی ہدایت ہے جو اس زمانہ کا نبی اور رسول لے کر آئے اور گزشتہ ہدایتیں اگرچہ اپنے اپنے وقت پر ہدایتیں تھیں مگر منسوخ ہوجانے کے بعد ہدایت ہدایت نہیں رہتی بلکہ ہوائے نفس بن جاتی ہے اور نفسانی خواہشوں کا اتباع کبھی ہدایت نہیں ہوسکتا۔ وہ تو صریح ضلالت ہے اور اگر بالفرض محال آپ ان ہوا پرستوں کی نفسانی خواہشوں کا اتباع کریں بعد اس کے کہ آپ کے پاس اس بات کا علم قطعی آچکا ہے کہ اب ہدایت اس میں منحصر ہے کہ جو اللہ نے آپ پر نازل فرمایا اور گزشتہ کی تمام ہدایتیں منسوخ ہو کر ہوائے نفس بن چکی ہیں۔ پس اگر آپ آخری حکم اور آخری ہدایت کو چھوڑ کر کسی پہلی ہدایت اور کسی پہلے حکم کا اتباع کریں تو اللہ کے مقابلہ میں کوئی آپ کا حمایتی اور مددگار نہیں جو اللہ کے عذاب سے آپ کو بچائے۔ حتی کہ اگر آپ توریت اور انجیل پر عمل کریں تو موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) بھی آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ ان بیچاروں کا تو ذکر ہی کیا۔ : یہ تہدیدی خطاب ظاہراً حضور کو ہے لیکن سنانا معاندین کو ہے۔ عناد کی بناء پر ان کو مخاطب بھی نہیں بنایا اور ان کے خطاب سے اعراض فرمایا۔ یہاں تک ان اہل کتاب کا ذکر تھا کہ جو برائے نام اہل کتاب ہیں اور فی الحقیقت اپنی کتاب پر ایمان نہیں رکھتے اور عناد اور تعصب کی وہج سے حضور کی نبوت کی تصدیق نہیں کرتے آئندہ آیت میں ان اہل کتاب کی مدح ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں کو ہمنے کتاب یعنی توریت اور انجیل عطاء کی اور ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اس کتاب کی تلاوت اس طرح کرتے ہیں جو اس کی تلاوت کا حق ہے یعنی نہ اس میں لفظی تحریف کرتے ہیں اور نہ معنوی تحریف اور نبی آخر الزمان کی جو بشارتیں ان کی کتاب میں ہیں ان کو چھپاتے نہیں ایسے ہی لوگ حقیقۃ اپنی کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور اپنی کتاب کی ہدایت اور بشارت کے مطابق نبی آخر الزمان کی تصدیق کرتے ہیں اور جو لوگ نبی آخر الزمان پر ایمان نہیں لاتے وہ درحقیقت اپنی اپنی کتاب پر بھی ایمان نہیں رکھتے۔ اور جائز ہے کہ یؤمنون بہ میں بہ کی ضمیر بجائے کتاب کے ہدی یا قرآن کی طرف راجع کی جائے یعنی جو لوگ توریت اور انجیل کی کماحقہ تلاوت کرتے ہیں وہی اس ہدایت کو قبو کرتے ہیں جو نبی آخر الزمان پر نازل ہوئی اور وہی اس آخری کتاب پر ایمان لاتے ہیں جس کی بشارت اپنی کتابوں میں پاتے ہیں اور فلاح دارین حاصل کرتے ہیں اور جو لوگ اپنی کتاب کا انکار کرواتے ہیں یعنی توریت اور انجیل میں تحریف کرتے ہیں اور حضور کے ظہور کی جو بشارتیں ان کی کتاب میں مذکور ہیں انکا انکار کرتے ہیں۔ پس یہی لوگ خسارہ والے ہیں کہ اپنی کتاب پر جو ایمان رکھتے تھے وہ بھی ہاتھ سے گیا۔ اور جائز ہے کہ ومن یکفر بہ میں بہ کی ضمیر ہدی اور قرآن کی طرف راجع ہو یا حضور کی طرف راجع ہو یعنی جو لوگ حضور کی نبوت یا آپ کی ہدایت یا آپ کے قرآن کے منکر ہیں وہ انتہائی خسارہ میں ہیں اس لیے کہ حضور آخری نبی ہیں اور قرآن آخری کتاب ہے۔ جب اس پر بھی ایمان نہ لائے تو آخرت کی نجات کا ذریعہ آخر کیا ہے۔ ابن عباس سے منقول ہے کہ جب جعفر بن ابی طالب حبشہ سے آئے تو چالیس آدمی ان کے ہمراہ تھے بتیس ان میں حبشہ کے تھے اور آٹھ شام کے تھے اور بحیرا راہبب بھی ان میں تھا ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ الذین اتیناھم الکتب سے صحابہ کرام رماد ہیں اور الکتاب سے قرآن مراد ہے اور حق تلاوتہ سے مراد یہ ہے کہ تلاوت کے پورے حقوق ادا ہونے چاہئیں۔ فرض کرو کہ ایک بادشاہ اپنے فرمان کو اپنے سامنے پڑھنے کا حخم دے تو اس وقت یہ حالت ہوگی کہ ہر لفظ کو سنبھل سنبھل کر اور صاف صاف ادا کروگے اور معنی اور مفہوم کی طرف بھی پوری توجہ ہوگی اور دل میں یہ پختہ ارادہ ہوگا کہ اس فرمان میں جس قدر بھی احکام ہیں حرف بحرف ان کی تعمیل کرونگا۔ اور پڑھتے وقت دربار شاہی کے آڈاب سے بھی ذڑہ برابر غفلت نہ ہوگی۔ اسی طرح تلاوت قرآن کو سمجھو کہ ہم اللہ رب العالمین کے سامنے پڑھ رہے ہیں ایک ایک لفظ کو صاف صاف ادا کرو۔ یہ ترتیل اور تجوید ہے اور اس کے اتباع اور تعمیل کے عزم بالجزم کا نام ایمان اور اطاعت ہے اسی وجہ سے اولئک یؤمنون بہ فرمایا اور حضرت عمر سے یتلونہ حق تلاوتہ کی تفسیر میں منقول ہے کہ تلاوت کا حق یہ ہے کہ جب قرآن کی تلاوت کرتے وقت جنت کے ذکر پر گزرے تو اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرے اور جب آگ کے ذکر پر گزرے تو خدا سے پناہ مانگے کہ اے اللہ اس سے محفوظ رکھنا۔ (ابن ابی حاتم)
Top