Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 122
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِي اِسْرَائِيلَ : اے بنی اسرائیل اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِي : جو کہ اَنْعَمْتُ : میں نے انعام کی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّي : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی عَلَى : پر الْعَالَمِينَ : زمانہ والے
اے اولاد یعقوب میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تم کو اہل عالم پر فضیلت بخشی
تکریر تذکیر واعادۂ تحذیر قال تعالی۔ یبنی اسراء یل اذکروا نعمتی۔۔۔ الی۔۔۔ ولا ھم ینصرون (ربط) ۔ ابتداء سورت میں جب بنی اسرائیل کو خطاب فرمایا تو اسی عنوان اور اسی آیت سے شروع فرمایا اور طویل تفصیل کے بعد پھر اسی عنوان اور اسی آیت پر خطاب کو ختم فرمایا وجہ اس کی یہ ہے کہ اولاً حق تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کو اجمالاً یاد دلایا تاکہ شکر کی راہ اختیار کریں اور کفران نعمت سے احتراز کریں۔ بعد ازاں حق تعالیٰ ن اپنے انعامات اور اپنی عنایات اور ان کی جنایات اور تقصیرات کی تفصیل فرمائی جو یہاں آکر ختم ہوئی اخیر میں حق تعالیٰ نے پھر اسی مضمون کا اعادہ فرمایا جو ابتداء میں اجمالاًً ان سے کہا کہا گیا تھا تاکہ تفصیل کے بعد جب اجمال کا اعادہ کیا جائے تو تمام تفصیل بیک وقت نظروں کے سامنے آجائے اور یہ طریقہ بلگاء کے نزدیک نہایت بلیغ ہے اور تعلیم و تفہیم میں غایت درجہ معین ہے اور ابو حیان فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کو اس سورت میں تین مرتبہ " یا بنی اسرائیل " کے معزز خطاب سے مخاطب فرمایا اور اسرائیل یعنی یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد ہونے کی حیثیت سے ان کو اپنے خطاب سے مشرف اور سرفراز فرمایا اور اس نسبت کو یاد دلا کر شکر اور اطاعت کی دعوت دی لیکن بنی اسرائیل نے جب اس نداء اور خطاب کے شرف کو ملحوظ نہ رکھا تو حق تعالیٰ نے ان سے اعراض فرمایا اور تین مرتبہ کے بعد ان کو مخاطب نہیں بنایا۔ چناچہ فرماتے ہیں کہ اے بنی اسرائیل پھر ایک بار تم کو خطاب کرتے ہیں اور یہ تیسری بار ہے اب اس کے بعد ہم تم کو مخاطب نہ بنائیں گے وہ آخری خطاب یہ ہے کہ میری نعمتوں کو اس حیثیت سے یاد کرو کہ وہ میرا عطیہ تھیں۔ میری نسبت کے شرف اور عزت کو دیکھو اور یاد کرو اور پھر اس حیثیت کو دیکھو کہ اس نعمت کا میں نے تم پر محض اپنی مہربانی سے انعام کیا تھا۔ ذرہ برابر تمہارا استحقاق نہ تھا اور یاد کرو اس امر کو کہ میں نے تم کو محض اپنے فضل سے سارے جہانوں پر فضیلت اور بزرگی دی تھی تھی۔ یہ بزرگی میرا عطیہ تھا تمہاری ذاتی شئی نہ تھی کہ تم سے جدا نہ ہو سکے۔ تم اس غرہ میں نہ رہنا اور بزرگی تم سے چھینی نہیں جاسکتی۔ اگر اس فضیلت اور بزرگی کو باقی رکھنا چاہتے ہو تو ہمارے رسول کی اطاعت کرو۔ اور اس دن سے ڈرو کہ جس میں کوئی کسی کی طرف سے کام نہ آئے گا اور ایک نفس کی دوسرے نفس کی طرف نسبت بدون ایمان کے کار آمد نہ ہوگی اور نہ اس کی طرف سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا کہ جو رہائی کا سبب بن سکے اور نہ بدون ایمان کے کوئی شفاعت اور سفارش نفع دے گی البتہ انبیاء اور اولیاء کی شفاعت سے اہل ایمان کو نفع ہوگا اور نہ ان لوگوں کی مدد کی جائے گی اس لیے کہ نصرت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے مرسلین اور اہل ایمان سے کیا ہے۔ کما قال تعالیٰ ۔ انا لننصر رسلنا والذین امنوا فی الحیوۃ الدنیا ویوم یقوم الاشہاد کافروں سے وعدہ نہیں۔
Top