Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 216
كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئًا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
كُتِبَ عَلَيْكُمُ : تم پر فرض کی گئی الْقِتَالُ : جنگ وَھُوَ : اور وہ كُرْهٌ : ناگوار لَّكُمْ : تمہارے لیے وَعَسٰٓى : اور ممکن ہے اَنْ : کہ تَكْرَھُوْا : تم ناپسند کرو شَيْئًا : ایک چیز وَّھُوَ : اور وہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَعَسٰٓى : اور ممکن ہے اَنْ : کہ تُحِبُّوْا : تم پسند کرو شَيْئًا : ایک چیز وَّھُوَ : اور وہ شَرٌّ : بری لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
(مسلمانو ! ) تم پر (خدا کے راستے میں) لڑنا فرض کردیا گیا ہے وہ تمہیں ناگوار تو ہوگا مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لیے مضر ہو اور (ان باتوں کو) خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
حکم چہاردھم، متعلق بہ فرضیت جہاد و قتال درشہرحرام۔ قال تعالی، کتب علیکم القتال وھو۔۔۔ الی۔۔۔ رحیم۔ گزشتہ آیات میں حضرات انبیاء کرام کے ابتلاء اور مصائب کا ذکر فرمایا اور یہ بتلایا کہ جنت میں داخل ہونا ابتلاء کے وقت صبر اور تحمل پر موقوف ہے اس سلسلہ میں اولا جہاد مالی یعنی انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر فرمایا اب اس کے بعد جہاد جانی کا ذکر فرماتے ہیں اے مسلمانو تم پر جہاد فرض کیا گیا اور تمہیں طبعا ناگوار ہے کیونکہ اس میں جان پر مشقت اور مال کا خرچ ہے اور شاید کہ کوئی شے تم کو طبعا ناگوا رہے فی الواقع وہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور جہاد فی سبیل اللہ بھی اسی قسم میں داخل ہے اس لیے جہاد سے اسلام کو فتح و غلبہ حاصل ہوتا ہے احکام خداوندی کی بجاآوری میں کوئی ہارج اور مزاحم باقی نہیں رہتا اور دنیاوی فائدہ حکومت کا حاصل ہونا اور مال غنیمت کاملنا اور اخروی فائدہ شہادت کی نعمت سے بہر یاب ہونا اور شاید تم کو کوئی چیز طبعا بھلی معلوم ہو اور فی الواقع تمہارے حق میں وہ بری ہو جیسے جہاد میں سستی اور کاہلی جو ظاہر میں راحت معلوم ہوتی ہے مگر ترک کا انجام سوائے ذلت اور مال غنیمت اور ثواب سے محرومی اور کچھ نہیں اور تمہاری بھلائی اور برائی کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور تم اپنی مصلحتوں اور مضرتوں کو نہیں جانتے لہذا تم اپنی طبعی رغبت اور کراہت کا اتباع مت کرو بلکہ احکام خداوندی کا اتباع کرو اسی میں تمہارے لیے خیر اور بہتری ہے احادیث میں جہاد کو افضل الاعمال اور سنام الاسلام یعنی اسلام کا کوہان قرار دیا ہے اس لیے جہاد اسلام کی اشاعت اور خلق اللہ کی ہدایت اور دین کی عزت اور رفعت کا سبب ہے اور مجاہد کی کوشش سے جو لوگ اسلام میں داخل ہوں گے ان کی حسنات اس کے نامہ اعمال میں لکھی جائیں گی۔ شان نزول۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے عرب میں یہ دستور چلاآرہا تھا کہ چار مہینوں یعنی ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم، اور رجب میں باہمی قتل و قتال اور جنگ وجدا کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور ان مہینوں میں کسی پر چڑھائی کرنے کو معیوب جانتے تھے نبی ﷺ نے جنگ بدر سے دو ماہ پیشتر ماہ جمادی الاخری میں اپنے پھوپھی زاد بھائی حضرت عبداللہ بن جحش کی سر کردگی میں آٹھ یا بارہ مہاجرین کی ایک جماعت کو جس میں سوائے مہاجرین کے اور کوئی نہ تھا کافروں کے مقابلہ میں جانے کا حکم دیا اور عبداللہ بن جحش کو ایک والانامہ لکھ کردیا اور یہ فرمایا کہ جب دو دن کا سفر طے کرلو یہ اس وقت خط کو کھولنا اور اپنے ساتھیوں کو سنا دینا اور کسی پر زبردستی نہ کرنا عبداللہ بن جحش نے عرض کیا یارسول اللہ کس طرف جاؤں آپ نے فرمایا کہ نجد کی طرف جاؤ عبداللہ بن جحش وہاں سے روانہ ہوئے اور دو دن کا سفر طے کرنے کے بعد ایک منزل پر پڑاؤ کیا اور آپ کا والانام کھولا تو اس میں یہ مضمون تھا، بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ترجمہ۔ اما بعد اللہ کی برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ اپنے رفقاء کو لے کر چلے جاؤ یہاں تک کہ جب مقام نخلہ پر پہنچو تو قریش کے تجارتی قافلہ کا انتظار کرو امید ہے کہ اللہ ان کا مال تم کو عطا کرے اور پھر وہ مال تم ہمارے پاس لے آؤ۔ عبداللہ بن حجش نے اس حکم نامہ کو پڑھتے ہی سمعا وطاعۃ کہا اور اپنے ساتھیوں کو سنای اور یہ بھی کہہ دیا کہ آپ نے مجھے یہ فرمایا تھا کہ کسی پر زبردستی نہ کروں اب جس کو شہادت کا شوق اور رغبت ہو وہ میرے ساتھ چلے اور جس کا جی چاہے وہ لوٹ جائے یہ سن کر سب دل وجان سے تعمیل ارشاد پر راضی ہوگئے اور ایک شخص بھی واپس ہونے کے لیے راضی نہ ہوا مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان جب مقام نخلہ پر پہنچے تو ابھی ٹھہرنے بھی نہ پائے تھے کہ اتنے میں قریش کا قافلہ دکھائی دیا اور جو طائف کی تجارت کا مال زیتون اور کشمش اور چمڑے وغیرہ لے کر آرہے تھے مسلمانوں نے ان پر حملہ کیا اور عمرو بن الحضرمی کو قتل کیا اور حکم بن کیسان اور عثمان بن عبداللہ کو گرفتار کیا باقی لوگ بھاگ گئے صحابہ کرام قیدیوں اور سامان کے اونٹوں کو لے کر حضور پرنور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ تاریخ یکم رجب الحرام تھی اور صحابہ کرام اس کو جمادی الثانیہ کی تیسویں تاریخ سمجھے ہوئے تھے مگر چاند انتیس کا ہوچکا تھا جس کا صحابہ کو علم نہ تھا اس لیے کفار نے مسلمانوں پر یہ اعتراض کیا کہ یہ لوگ شہر حرام میں بھی لڑتے ہیں اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی (تفسیر ابن کثیر) ۔ لوگ آپ سے شہر حرام کے بارے میں قتال کے متعلق سوال کرتے ہیں آپ ان کے جواب میں کہہ دیجیے کہ بیشک خاص طور پر ماہ حرام کا ارادہ کرکے قتال کرنا بیشک ایک امرعظیم ہے مگر مسلمانوں نے قصدا اور ارادۃ ایسا نہیں کیا بلکہ صحیح تاریخ نہ معلوم ہونے کی وجہ سے یہ لغزش ہوئی مگر مشرکین کو اس اعتراض کا حق نہیں اس لیے کہ شہر حرام میں قتل و قتال بہت سے بہت گناہ کبیرہ ہے اور تم تو کچر اور شرک میں مبتلا ہو جو اس سے بڑھ کر ہے اس لیے کہ لوگوں کو خدا کی راہ سے روکنا یعنی دین حق اور اسلام میں داخل ہونے سے روکنا اور اللہ کے ساتھ کفر اور شرک کرنا اور لوگوں کو مسجد حرام سے روکنا کہ وہاں جاکر کوئی بیت اللہ کا طواف نہ کرسکے اور خدا تعالیٰ کی عبادت اور بندگی نہ کرسکے اور جو لوگ مسجد حرام کے واقعی اور حقیقی اہل اور مستحق تھے یعنی رسول اللہ اور اہل ایمان ان کو حرم اور مسجد حرم سے تنگ کرکے نکالنایہ سو تمام حرکتیں شناعت اور قباحت میں اللہ کے نزدیک شہر حرام میں بلاقصد قتال سرزد ہوجانے سے کہیں بڑھ کر ہیں اور فقط کفر اور شرک کا فتنہ ہی فساد ہی قتل سے بڑھ کر ہے پھر یہ کفار مسلمانوں کی ایک غلطی پر کیوں اعتراض کرتے ہیں غلطی سے درگزر کیا جاسکتا ہے مگر کفر اور شرک کا جرم کسی طرح اور کسی وقت بی قابل معافی نہیں اور یہ لوگ دین حق کی عداوت اور دشمنی میں اس درجہ پختہ ہیں کہ حق کو مٹانے کے لیے ہمیشہ تم سے برسرپیکار ہیں یہاں تک کہ خدانخواستہ تم کو تمہارے اس پاک دین سے پھیر دیں اگر کچھ قابوپائیں اور دین اسلام سے کسی کو مرتد بنا دینا قتل سے بھی زیادہ سخت ہے اس آیت میں دواشارے ہیں ایک تو یہ کفار دین اسلام کے مٹانے میں کوئی دقیقہ اٹھانہ رکھیں گے لہذا مسلمانوں کو متنبہ رہنا چاہیے دوسرا اشارہ یہ ہے کہ مسلمانوں پر ان کا قابو چلے گا نہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مرتد نہیں بناسکیں گے آئندہ آیت میں ارتداد کا انجام بیان فرماتے ہیں۔ انجام ارتداد۔ اور اے مسلمانوں تم پر واضح رہنا چاہیے کہ جو شخص تم میں سے دین اسلام سے پھرجائے گا اور اسی حالت میں کفر میں مرجائے گا تو ایسے لوگوں کے تمام عمل دنیا اور آخرت میں حبط اور ضبط ہوجائیں گے دنیا میں اعمال کے حبط ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کی وجہ سے جو جان ومال محفوظ تھے وہ محفوظ نہیں رہیں گے اور نہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہوسکیں گے اور آخرت میں حبط ہونے کے معنی یہ ہیں کہ کسی نیک عمل پر کوئی ثواب نہیں ملے گا اور یہ لوگ دوزخی ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے کبھی بھی دوزخ سے نہیں نکلیں گے۔ مسئلہ (1) ۔ امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص دین اسلام سے مرتد ہوجائے اور پھر کفر کی حالت میں مرجائے تب تو اس کے اعمال حبط ہوجائیں گے اور اگر مرتد ہونے کے بعد وہ مرنے سے پہلے توبہ کرلے اور پھر مسلمان ہوجائے توا سکے اعمال ضائع نہیں ہوں گے کیونکہ اس آیت میں حبط اعمال کے لیے دو چیزوں کا ذکر ہے ایک ارتداد یعنی ومن یرتدد منکم عن دینہ۔ اور دوسرے موت علی الکفر یعنی فیمت وھو کافر حبط اعمال کے لیے ان دونوں باتوں کا پایاجانا شرط ہے، امام ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ محض ارتداد سے اعمال حبط ہوجاتے ہیں موت علی الکفر شرط نہیں لقولہ تعالی، ومن یکفر بالایمان فقط حبط عملہ، وقولہ تعالی، لئن اشرکت لیحبطن عملک۔ آیت۔ اور اس آیت میں جس طرح شرط کی جانب میں دوچیزوں کا ذکر ہے ایک ارتداد اور دوسرے موت علی الکفر اسی طرح جزا کی جانب میں بھی دوچیزیں مذکور ہیں ایک حبط اعمال، فاو لئک حبطت اعمالھم۔ اور دوسرے دخول نار، او لئک اصحب النار۔ اعمال تو محض مرتد ہونے سے حبط ہوجاتے ہیں اور جہنم میں جانے کے لیے موت علی الکفر شرط ہے جس طرح شرط کے دو جز ہیں اسی طرح جزاء کے دو جز ہیں جزاء کا پہلاجز شرط کے پہلے جز سے متعلق ہے اور جزا کا دوسرا جز شرط کے دوسرے جز سے متعلق ہے۔ صحابہ کو جب یہ اطمینان ہوگیا کہ ہماری اس غلطی پر کوئی مواخذہ نہیں تو یہ عرض کیا کہ یارسول اللہ کیا ہمارا سفر جہاد میں شمار ہوگا اور کیا ہم کو اس پر کچھ ثواب بھی ملے گا ؟ اس پر یہ آئندہ آیت نازل ہوئی، ان الذین امنوا۔ بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے خدا کی راہ میں ہجرت کی اور جہاد کیا ایسے لوگ اللہ کی رحمت اور عنایت کے امیدوار ہوسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے اور مہربان ہیں غلطی سے درگذر فرماتے ہیں اور ایسے مخلصین کو اپنی رحمت سے محروم نہیں رکھتے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد وہ مال غنیمت جو عبداللہ بن حجش لے کر آئے تھے ابھی تک وہ اسی وحی کے انتظار میں رکھا ہوا تھا آیت کے نازل ہونے کے بعد حضور ﷺ نے خمس نکال کر غانمین پر تقسیم کردیا۔ مسئلہ 2) ۔ شہر حرام میں قتال و قتال ابتداء میں ممنوع تھا جمہور علماء کے نزدیک بعد میں وہ ممانعت مسنوخ ہوگئی۔
Top