Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 238
حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى١ۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ
حٰفِظُوْا : تم حفاظت کرو عَلَي الصَّلَوٰتِ : نمازوں کی وَ : اور الصَّلٰوةِ : نماز الْوُسْطٰى : درمیانی وَ : اور قُوْمُوْا : کھڑے رہو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے قٰنِتِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
(مسلمانو ! ) سب نمازیں خصوصاً بیچ کی نماز (یعنی نماز عصر) پورے التزام کے ساتھ ادا کرتے رہو اور خدا کے آگے ادب سے کھڑے رہا کرو
حکم سی وسوم۔ محافظت صلوات عموما وصلوۃ وسطی خصوصا۔ قال تعالی، حافظوا علی الصلوات۔۔۔ الی۔۔۔ تعلمون۔ ربط) ۔ دور سے سلسلہ کلام، احکام معاشرت کے بارے میں چل رہا ہے اس کے ضمن میں محافظت صلوۃ کا حکم اس لیے ذکر کیا کہ اکثر وبیشتر اہل و عیال میں مشغولی نماز اور نیاز سے غفلت کا باعث ہوتی ہے کماقال تعالی، یا ایھا الذین امنوا لاتلھکم اموالکم۔۔۔ الی۔۔ الخاسرون۔ اے ایمان والو مال اور اہل و عیال کا تعلق تم کو خدا کی عبادت اور بندگی سے غافل نہ کرے اور جو ایسا کریں گے وہ خاسرین میں سے ہوں گے۔ وقال تعالی، انما اموالکم والادکم فتنہ۔ انما اموالکم را یاد گیر، مال وملک ایں جہاں برباد گیر۔ یا یوں کہو کہ گزشتہ آیات میں حقوق العباد کا ذکر تھا اس آیت میں اللہ کے حق کا ذکر ہے یا یوں کہو کہ گزشتہ آیت میں یعنی لاتنسوالفضل بینکم۔ میں یہ حکم تھا کہ باہمی سلوک اور احسان کو فراموش نہ کرو اور اس آیت میں اشارۃ یہ حکم ہے کہ اپنے نفس کو سلوک اور احسان سے نہ بھولو جس نے نماز ادا کی اس نے اپنے نفس پر احسان کیا اور جس نے نماز سے غفلت برتی اس نے اپنے نفس کو فراموش کیا کہ آخرت کے منافع سے اس کو محروم کیا۔ یا یوں کہو کہ گزشتہ آیات میں طلاق کی اجازت مذکور تھی اور احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ طلاق اگرچہ بوجہ ضرورت شرعا جائز ہے مگر اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے اور ایک ناپسندیدہ امر کے ضمن میں کتنے ناپسندیدہ امور کا ارتکاب ہوجاتا ہے وہ اللہ ہی کے علم میں ہے اس لیے آئندہ آیت میں نماز کا حکم نازل کیا تاکہ نماز کی محافظت ناپسندیدہ امور کے ارتکاب کا کفارہ بن سکے کماقال تعالی، ان الحسنات یذھبن السیئات۔ بیشک نیک اعمال مٹا دیتے ہیں برے کاموں کو۔ نماز دین کا ستون ہے گناہوں کو مٹاتی ہے اور دلوں کے زندگ کو کھرچتی ہے اہل و عیال کی ملابست سے جو دلوں پر میل کچیل آجاتا ہے وہ نماز کی محافظت سے صاف ہوجاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ دن میں پانچ نمازوں کا ادا کرنا ایسا ہے جیسا کہ کسی کے دروازہ کے آگے نہر بہتی ہو اور وہ ہر روز میں پانچ مرتبہ غسل کرے کیا اس کے بدن پر کچھ میل باقی رہے گا یعنی سر اور بدن پر پانی بہالینے سے بھی غسل ہوجاتا ہے لیکن غسل کا اعلی درجہ یہ ہے کہ بجائے اپنے اوپر پانی بہانے کے خود نہر کے اندر گھس جائے کہ جس کا پانی تیزی سے بہہ رہا ہو ایسی نہر میں جس کا پانی نہایت تیزی کے ساتھ چل رہا ہو غسل کرلینے سے میل باقی نہیں رہ سکتا چناچہ فرماتے ہیں اور تمام نمازوں کو اپنے وقتوں پر ادا کرو خصوصا درمیانی نماز یعنی عصر کی نماز اور نماز کے ارکان اور واجبات اور سنن اور آداب کا پورا لحاظ رکھو تم نماز کی حفاظت کرو نماز تمہاری حفاظت کرے گی اسی وجہ سے حافظوا باب مفاعلہ کا صیغہ لایا گیا کہ جو مشارکت پر دلالت کرتا ہے جس درجہ تم نماز کی حفاظت اور خبرگیری کرو گے اسی درجہ نماز تمہاری حفاظت کرے گی اور کھڑے رہو اللہ کے سامنے نہایت ادب اور احترام کے ساتھ نماز میں نہایت خاموشی کھڑے رہو کسی سے کوئی بات نہ کرو نگاہ نیچی رکھو ادھر ادھر نہ دیکھو دنیاوی خیالات سے قلب کو محفوظ رکھو زید بن ارقم ؓ سے مروی ہے کہ ہم ابتداء میں نبی کریم کے پیچھے نماز میں بات چیت بھی کرلیتے تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی وقومو اللہ قانتین۔ تو ہم کو خاموش رہنے کا حکم ہوگیا اور نماز میں باتین کرنے سے ہم کو منع کردیا گیا اس لیے کہ نماز کی حقیقت مناجات خداوندی ہے آپس میں باتیں کرنے سے اللہ تعالیٰ سے مناجات باقی نہیں رہ سکتی حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی نے فرمایا جو شخص میری طرح وضو کرے اور پھر دو رکعت نماز اس طرح ادا کرے کہ اس نماز میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے (بخاری شریف) ۔ معلوم ہوا کہ نماز تو وہ ہے کہ جس میں دل سے بھی باتیں نہ ہوں چہ جائیکہ زبان سے باتیں اور آنکھوں سے اشارے ہوں پس اگر تم کو کسی دشمن وغیرہ کا خوف ہو جس کی وجہ سے تم نماز کے آداب اور سنن کی پوری حفاظت نہ کرسکو تو پھر جس طرح بھی ممکن ہو پیادہ یا سوار نماز پڑھ لو اور اس طرح اصل نما کی حفاظت کرلو اگرچہ اس خوف کی حالت میں رکوع اور سجود اور خشوع اور خضوع اور استقبال قبلہ کی پوری رعایت اور حفاظت نہ کرسکو تو پھ رجب تم کو امن اور سکون حاصل ہوجائے تو اللہ کو پورے سکون اور اطمینان اور آداب کے ساتھ یاد کرو جس طرح اس نے تم کو اپنی بندگی اور یاد کے طریقے سکھلائے ہیں جو تم نہیں جانتے تھے خوف کی حالت مجبوری کی حالت ہے اس لیے اللہ نے اس حالت میں بغیر رکوع و سجود کے اشارہ سے نماز کی اجازت دے دی ہے اگرچہ تمہارا منہ بھی قبلہ کی طرف نہ ہو۔ 1) ۔ صلوۃ وسطی کی تعین میں اقوال مختلف ہیں بعض کہتے ہیں کہ نماز صبح مراد ہے جو رات کی نماز یعنی عشاء اور دن کی نماز یعنی ظہر کے درمیان ہے ابوقبیصہ بن زویب کہتے ہیں کہ صلوۃ وسطی سے مغرب کی نماز مراد ہے کیونکہ یہ نماز ثلاثی ہے تین رکعت والی ہے ثنائی اور رباعی کے درمیان ہے پانچ نمازوں میں سے ایک نماز بلاتعیین کے صلوۃ وسطی ہے اسم اعظم اور شب قدر اور ساعت جمعہ کی طرح اللہ تعالیٰ نے اس کو پوشیدہ رکھا ہے جمہور علماء کے نزدیک صلوۃ واسطی سے عصر کی نماز مراد ہے اور بہت سی احادیث صحیحہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے اور یہی امام ابوحنیفہ کے نزدیک مختار ہے۔ 2) ۔ عصر کی تخصیص تاکید اور اہتمام کے لیے کی گئی ہے کیونکہ یہ وقت لوگوں کے بازاروں میں مشغول رہنے کا ہے اس لیے اندیشہ ہے کہ یہ نماز فوت نہ ہوجائے یا بغیر جماعت کے ادا کی جائے یا تاخیر سے پڑھی جائے۔ 3) ۔ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک خوف کی حالت میں نماز پیروں پر کھڑے ہو کریاسواری پر جائز ہے مگر چلتے چلتے نماز جائز نہیں اس لیے کہ رجالا راجل کی جمع ہے اور راجل کے معنی لغت میں چلنے والے کے نہیں بلکہ لغت میں راجل پیروں پر کھڑے ہونے والے کو کہتے ہیں اور اس آیت میں راجل کو مقابلہ میں راکب کے ذکر کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ راجل سے مراد وہ شخص ہے کہ جو سوار نہ ہو امام شافعی کے نزدیک اگر دشمن کا خوف شدیدہو تو چلتے چلتے بھی نماز درست ہے جس طرح بن پڑے نماز پڑھ لے امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اگر خوف اتنا شدید ہے کہ ایک جگہ کھڑے ہو کر نماز ادا نہیں کرسکتا تو پھر نماز کو موخر کرے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ خندق میں نماز کو موخر کردیا اور چلتے چلتے نمازیں نہیں پڑھیں۔
Top