Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 24
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ١ۖۚ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ
فَاِنْ : پھر اگر لَمْ تَفْعَلُوْا : تم نہ کرسکو وَلَنْ تَفْعَلُوْا : اور ہرگز نہ کرسکو گے فَاتَّقُوْا النَّارَ : تو ڈرو آگ سے الَّتِیْ : جس کا وَقُوْدُهَا : ایندھن النَّاسُ : آدمی وَالْحِجَارَةُ : اور پتھر أُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْکَافِرِیْنَ : کافروں کے لئے
لیکن اگر (ایسا) نہ کرسکو اور ہرگز نہیں کرسکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہونگے، (اور جو) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے
فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارۃ اعدت للکفرین۔ اور اگر تم تنہا اس کے مثل لانے پر قادر نہیں تو اس کا علاج یہ ہے کہ تم سوائے خدا تعالیٰ کے اپنے تمام اعوان وانصار کو بلا لو اگر تم اپنے اس اعتقاد میں سچے ہو کہ یہ اللہ کا کلام نہیں تاکہ وہ تمہاری اس کام میں مدد کرسکیں اور اس مشکل کو حل کرسکیں اور سب مل کر قرآن کے ہم پلہ کلام لاسکیں۔ پس اگر تم سب مل کر بھی ایسا نہ کرسکو۔ یعنی اس کے مثل کوئی چھوٹی سے چھوٹی سورت بھی نہ لاسکو اور ہم پیشینگوئی کیے دیتے ہیں کہ تم ہرگز نہ لا سکو گے۔ قرآن کا ایک اعجاز تو یہ تھا کہ کوئی اس کے مثل نہیں لاسکتا۔ دوسرا اعجاز یہ ہے کہ پہلے ہی پیشینگوئی کردی گئی اور غیب کی خبر دے دی گئی کہ قیامت تک کوئی شخص اس کے مثل نہ لاسکے گا۔ بحمد اللہ ساڑھے تیرہ سو برس گزر گئے اور کوئی شخص اس کے مثل نہ لاسکا۔ بالفرض اگر کوئی شخص قرآن کا معارضہ کرتا تو ضرور نقل ہوتا اس لیے کہ ہر زمانہ میں قرآن کے مخالفوں کا عدد ہمیشہ زیادہ رہا ہے۔ اگر کسی نے قرآن کریم کا معارضہ کیا ہوتا تو اس کا مخفی رہنا ناممکن تھا۔ خلاصہ یہ کہ اگر تم اس کا مثل نہ لا سکو اور ہرگز نہ لا سکو گے تو پھر میری نبوت کی تصدیق کرو۔ اور اسکو کلام ربانی اور وحی رحمانی سمجھو۔ تم ذرا تو غور کرو کہ ایک یتیم بیکس اور امی جس کا سارا عرب مخالف اور دشمن ہو وہ ایسا عظیم الشان دعویٰ بغیر تائید الٰہی کیسے کرسکتا ہے کہ تمام جن اور انس بھی اس کا مثل نہیں لاسکتے اور اگر تم اس کی تصدیق نہیں کرتے تو پھر اس آگ سے ڈرو جسکا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ اس جگہ پتھر سے یا تو عام پتھر مراد ہیں یا گندک کے پتھر مراد ہیں یا وہ بت مراد ہیں جن کو کافر پوجتے تھے۔ کما قال تعالیٰ ۔ انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم " یعنی تم اور وہ بت جن کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو سب جہنم کا ایندھن ہیں " جو دراصل خاص کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ البتہ گناہوں کا میل کچیل صاف کرنے کے لیے گنہگار مسلمانوں کو چند روز کے لیے جہنم میں رکھا جائیگا۔ پھر جو اصل ذات ہی سے نجاست اور گندگی ہیں وہ تو دوزخ میں رہ جائیں گے اور جو اصل سے پاک ہیں یعنی مومن ہیں اور گناہوں کی عارضی نجاست ان پر لگ گئی (کما فی حدیث البخاری ان ال مومن لا ینجسوہ پاک صاف ہونے کے بعد نکال لیے جائیں گے۔ : اس آیت سے اور آئندہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے قصہ سے صاف ظاہر ہے کہ دوزخ ابھی موجود ہے جو لوگ اس کے قائل ہوئے کہ جنت و جہنم ابھی موجود نہیں بلکہ قیامت کے دن موجود ہوگی۔ صریح غلطی پر ہیں اور یہ قول سراسر آیات قرآنیہ اور احادیث متواترہ اور اجماع امت کے خلاف ہے۔ علامہ زبیدی اتحاف شرح احیاء ص 221 ج 2 میں فرماتے ہیں کہ اسی پر تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ حافظ ابن قیم (رح) حاوی الارواح الی بلاد الافراح میں فرماتے ہیں۔ جنت تیار کی جا چکی ہے مگر اس میں کچھ خالی میدان ہیں جن میں بندوں کے اعمال صالحہ سے باغات اور محل تیار ہوتے ہیں۔ مثلاً حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ کے لیے مسجد بنا کرے اس کے لیے جنت میں ایک محل تیار ہوجاتا ہے یا جو شخص ایک مرتبہ سبحان اللہ ایک مرتبہ الحمدللہ، ایک مرتبہ اللہ اکبر یا ایک مرتبہ لا الہ الا اللہ کہے اس کے لیے جنت میں ایک درخت لگ جاتا ہے۔ تفصیل کسی اور موقعہ پر کریں گے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم کو رسول اللہ کی رسالت میں شک ہے اور ہماری وحی کو انسانی کلام جانتے ہو تو اٹھو اور میدان معارضہ میں آجاؤ۔ مگر ہم پہلے ہی پیشینگوئی کیے دیتے ہیں کہ تم سب مل کر بھی اس کا معارضہ نہیں کرسکتے پس اگر تم معارضہ نہ کرسکو اور تم پر اپنا عجز اور قصور واضح ہوجائے تو بہتر یہی ہے کہ ایمان لے آؤ ورنہ سخت عذاب میں گرفتار ہوگے۔ ذکر معاد یعنی قیامت کا بیان بشارت و مومنین صالحین قال تعالیٰ وبشر الذین امنوا۔۔۔ الی۔۔۔ وھم فیھا خلدون ربط : حق تعالیٰ شانہ کی یہ سنت ہے کہ جب کبھی ترغیب اور اوعدہ اور بشارت کا ذکر فرماتے ہیں تو اس کے ساتھ ترہیب اور وعید اور انذار کو بھی ذکر فرماتے ہیں تاکہ خوف اور جاء سے مل کر ایمان میں ایک اعتدالی کیفیت پیدا ہوجائے اسی سنت کے مطابق حق تعالیٰ نے ان آیات میں جب انذار اور کافروں کی وعید کو ذکر فرمایا تو آئندہ آیات یعنی وبشر الذین آمنوا الایۃ میں مومنین صالحین کے لیے بشارت کا ذکر فرمایا۔ نیز وہ انذار اور تہدید اگرچہ دشمنوں کو ان کی تسلی اور دل تھامنے کے لیے بشارت ذکر فرمائی۔ تاکہ بشارت کی مسرت اور مخاطبت کی لذت سے وہ پریشانی، مبدل بہ شادمانی ہوجائے چناچہ فرماتے ہیں اور خوشخبری دیدیجئے آپ ان لوگوں کو جو اس کتاب پر ایمان لائے اور اس کتاب کے منزل من اللہ ہونے کی تصدیق کی اور اس کتاب کی ہدایت کے مطابق نیک عمل کیے کہ ان کے لیے عجیب قسم کے باغات ہیں۔ ہر ایک کا باغ اس کے ایمان اور عمل صالح کے مطابق ہوگا جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی عثمان غنی فرماتے ہیں کہ عمل صالح اس عمل کو کہتے ہیں جو خالص اللہ کے لیے ہو اور ریاء سے بالکلیہ پاک ہو کما قال تعالیٰ فلیعمل عملاً صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا۔ معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ عمل صالح وہ عمل ہے جس میں چار چیزیں جمع ہوں۔ (1) ۔ علم۔ (2) نیت (3) صبر (4) اخلاص (معالم التنزیل) ایمان کے بعد عمل صالح کا ذکر اس لیے فرمایا کہ بشارت کا پورا استحقاق جب ہے کہ جب ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ بھی ہوں۔ اس آیت میں متعلقات ایمان اور اعمال صالحہ کی تفصیل نہیں فرمائی صرف بالاجمال اتنا کہ دیا کہ جو لوگ ایمان دار اور نیک کردار ہوں گے ہم انہیں ان کے وہم و خیال سے بڑھ کر انعام دیں گے۔ جنت لغۃ میں باغ کو کہتے ہیں لیکن اصطلاح شریعت میں ایک خاص مکان کا نام ہے جو نشاۃ آخرت میں ہمیشہ کے لیے ابرار ومتقین کو عنایت ہوگا۔ جیسا کہ جہنم اس مخصوص مکان کا نام ہے جس میں کفار کو ہمیشہ کے لیے اور گنہگار مسلمانوں کو چند روز کے لیے رکھا جائیگا۔ جنت اور جہنم پر ایمان بالغیب رکھتے ہیں اور اس کی حقیقت کی تحقیق کے درپے نہیں۔ آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ نے جس قدر جنت اور جہنم کے احوال واوصاف بیان کیے ہیں ان پر ان سے ایک حرف بھی زیادہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ عالم غیب میں قیاس نہیں چلتا۔ تجری من تحتہا الانہر : جن کے نیچے سے نہریں نہایت تیزی سے بہتی ہیں۔ کلما رزقوا منہا من ثمرۃ رزقا قالوا ھذا الذی رزقنا من قبل واتوا بہ متشابہا جب کبھی دئیے جائیں گے ان باغوں میں سے کوئی پھل کھانے کے لیے تو یہ کہیں گے کہ یہ وہی ہے جو ہم پہلے دئیے گئے اور دئیے جائیں گے وہ ایسا پھل کہ جو محض دیکھنے میں ایک دوسرے کے مشابہ اور ہمرنگ ہوگا۔ مگر ذائقہ میں مختلف ہوگا۔ عبداللہ بن مسعود ؓ اور عبداللہ بن عباس اور دیگر حضرات صحابہ ؓ سے منقول ہے کہ یہ تشابہ اور تماثل محض لون اور صورت کے اعتبار سے ہوگا۔ مزہ اور لذت میں ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوگا۔ یہ اس لیے ہوگا کہ ہر مرتبہ جدید مسرت اور نئی خوشی حاصل ہو۔ خلاصہ یہ کہ جنت کے میوے شکل اور صورت میں ایک دوسرے کے مشابہ ہوں گے مگر مزے میں جدا اور مختلف ہونگے۔ اہل جنت جب کسی پھل کو دیکھیں گے تو یہ کہیں گے کہ یہ وہ پہلا ہی پھل ہے۔ مگر جب چکھیں گے تو مزہ اور ہی پائیں گے۔ ولھم فیہا ازواج مطہرہ اور ان کے لیے وہاں ایسی عورتیں ہونگی جو ہر قسم کی ظاہری اور باطنی گندگی سے پاک ہوں گی۔ وھم فیھا خالدون۔ اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یعنی یہ نعمتیں ہمیشہ رہیں گی۔ دنیا کی نعمتوں کی طرح ان کو زوال اور فنا نہیں۔ نعمت کتنی ہی عظیم الشان کیوں نہ ہو مگر زوال اور فنا کا اندیشہ اس کو مکدر کردیتا ہے۔ جیسے کسی نے کہا ہے۔ مرا در منزل جاناں چہ من وعیش چوں ہر دم جرس فریاد می دارد کہ بربندید محملہا اس لیے ارشاد ہوا کہ تم مطمئن رہو۔ ہمشہ تم انہیں نعمتوں میں رہو گے تنعم اور لذائذ کا مدار تین چیزوں پر ہے۔ 1 ۔ عمدہ مکان۔ 2 ۔ لذیذ کھانے۔ 3 ۔ حسین و جمیل عورتیں اس لیے حق تعالیٰ شانہ نے جنات تجری من تحتہا الانہار میں عمدہ مکان کا اور کلما رزقوا الخ میں لذیذ کھانوں کا اور ولھم فیہا ازواج مطہرۃ میں حسین و جمیل ازواج کا ذکر فرمایا۔ : انسان کے لیے تین چیزوں کا جاننا ضروری ہے 1 ۔ کہاں سے آیا ہے۔ 2 ۔ اور کہاں رہتا ہے۔ 3 ۔ اور کہاں جانا ہے۔ الذی خلقکم میں اس طرف اشارہ ہے کہ تم عدم سے آئے ہو اور الذی جعل لکم الارض فراشا الخ۔ سے اس طرف اشارہ ہے کہ چند روز زمین میں قیام ہے اور فاتقوا النار سے اس طرف اشارہ ہے کہ عالم آخرت کو جانا ہے عذاب الٰہی سے بچنے کی کوشش کرو۔
Top