Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 34
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١٘ۗ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ
وَ
: اور
اِذْ
: جب
قُلْنَا
: ہم نے کہا
لِلْمَلٰٓئِکَةِ
: فرشتوں کو
اسْجُدُوْا
: تم سجدہ کرو
لِاٰدَمَ
: آدم کو
فَسَجَدُوْا
: تو انہوں نے سجدہ کیا
اِلَّا
: سوائے
اِبْلِیْسَ
: ابلیس
اَبٰى
: اس نے انکار کیا
وَ اسْتَكْبَرَ
: اور تکبر کیا
وَکَانَ
: اور ہوگیا
مِنَ الْکَافِرِیْنَ
: کافروں سے
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو وہ سب سجدے میں گرپڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آ کر کافر بن گیا
واذ قلنا للملئکۃ اسجدوا لادم فسجدوا الا ابلیس ابی واستکبر وکان من الکفرین۔ اور اے بنی آدم تم خاص طور پر اس احسان کو بھی یاد کرو کہ جس وقت ہم نے تمام فرشتوں کو تمہارے باپ کی تعظیم و تکریم کا ھکم دیا کہ سب مل کر آدم کو سجدہ کرو تاکہ تمہارے باپ کی فضیلت اور فوقیت عملی طور پر علی الاعلان ظاہر ہوجائے بادشاہ جب کسی کو اپنا خلیفہ بناتا تو ارکان دولت کو حکم دیتا ہے کہ اس کو نذریں پیش کریں اور فوج کو سلامی کا حکم دیتا ہے تاکہ سب کو معلوم ہوجائے کہ اس خلیفہ کی فرمانبرداری کرنا ہوگی تو سب سجدہ میں گر گئے، بعض روایات میں ہے کہ سب سے پہلے اسرافیل (علیہ السلام) نے سجدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مرتبہ عطاء فرمایا کہ تمام قرآن ان کی پیشانی پر لکھ دیا۔ رواہ ابن ابی حاتم وابو الشیخ وابن عساکر غرض یہ کہ سب فرشتے حکم الٰہی بجالائے اور سب نے آدم کو سجدہ کیا مگر ابلیس کہ اس نے حکم ماننے سے انکار کیا اور تکبر کیا اور اللہ کے علم میں وہ پہلے ہی سے کافروں میں تھا۔ اگرچہ ظہور اس کے کفر کا اب ہوا اس لیے کہ حکم خداوندی کے امتثال سے انکار کرنا ایک کفر تو یہ ہوا۔ دوسرا کفر یہ کیا کہ حکم خداوندی کو خلاف حکمت اور خلاف مصلحت سمجھا۔ تیسرا کفر یہ کیا کہ اپنے تمرد اور سرکشی کو حکم خداوندی کے تعمیل سے بہتر سمجھا میں نے سنا ہے کہ اس زمانہ کے بعضے ملحد شیطان کو موحد اعظم کہتے ہیں۔ الہ اکبر جو خبیث ذات اپنے کو خداوند ذوالجلال کا ہم پلہ اور ہم رتبہ سمجھتی ہو وہ تو مشرک اعظم ہے۔ شیطان کو موحد اعظم کہنا یہ اس شخص کے نادان اعظم اور احمق اعظم ہونے کی روشن دلیل ہے۔ : ابلیس اصل میں جنات سے ہے مگر ابتداء میں ملائکہ کے ساتھ اختلاط رکھتا تھا۔ فساد اور خنریزی کی وجہ سے جب جنات کو زمین سے نکال کر جزائر اور جبال میں منتشر کیا گیا تو ابلیس ان میں بہت بڑا عالم اور عابد تھا۔ فساد اور خونریزی سے اپنا بےلوث ہونا ظاہر کیا تو فرشتوں کی سفارش سے بچ گیا اور فرشتوں میں رہنے کی اجازت ہوئی مگر دل میں یہ طمع لگی رہی کہ کسی طرح زمین کی فرمانروائی مجھ کو مل جائے اس طمع میں خوب عبادت کرتا رہا۔ جب حضرت آدم کی خلافت کا وقت آیا اور تمام ملائک کو سجدہ کا حکم ہوا۔ تو ابلیس اس وقت ناا مید ہوا اور استکبار اور حسد نے اس کو حق جل شانہ کے مقابلہ اور معارضہ پر آمادہ کیا اور ہمیشہ کے لیے ملعون ومطرود ورجیم ومردود ہوا۔ ابلیس اگرچہ ملائکہ میں سے نہیں کما قال تعالیٰ کان من الجن (اور تھا ابلیس جنات میں سے) مگر خطاب سجود میں بتبعیۃ ملائکہ بالاولی داخل تھا۔ بادشاہ جب سپاہیوں کو حکم دیتا ہے تو سائیس اور فراش بدرجہ اولی اس حکم کے مامور ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ شیطان کو علاوہ ملائک کے سجدہ کا کوئی صریحی حکم کیا گیا ہو جیسے ما منعک الا تسجد اذ امرتک سے متبادر ہے۔ (یعنی تجھ کو سجدہ کرنے سے کیا چیز مانع ہوئی جبکہ تجھ کو میں نے حکم دیا تھا ) فائدہ : سجدہ کی دو قسمیں ہیں ایک سجدہ عبادت یعنی کسی کو خدا اور معبود سمجھ کر سجدہ کرنا اس قسم کا سجدہ تمام ملتوں میں کفر ہے اور شرک ہے۔ اس قسم کا سجدہ کسی ملت اور شریعت میں کسی وقت میں جائز نہیں رکھا گیا۔ دوسرا سجدۂ تحیت و تکریم یعنی بطور تعظیم کسی کے سامنے سر جھکانا جیسے ابتداء ملاقات میں سلام کرتے ہیں۔ اسی طرح شرائع سابقہ میں بطور تسلیم یہ سجدہ تکریم مشروع تھا۔ شریعت محمدیہ نے اب اس کو بھی ممنوع اور حرام قرار دیا ہے جیسا کہ آیات قرآنیہ اور احادیث متواتر سے اس کی حرمت ثابت ہے، دونوں سجدوں میں فرق اتنا ہے کہ سجدۂ عبادت تو کفر ہے اور سجدہ تعظیم حرام ہے یا یوں کہو کہ سجدۂ عبادت شرک اعتقادی اور سجدۂ تعظیمی شرک عملی ہے تمام اہل اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ سجدۂ عبادت نہ تھا اس لیے کہ سجدہ عبادت سوائے خدا کے کسی کو کرنا کفر ہے اور اللہ تعالیٰ کفر کا حکم نہیں دیتا یہ سجدۂ تعظیم وسلام تھا جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) کے قصہ میں ہے خرو ا لہ سجدا۔ مناظرہ عدو اللہ در بارۂ فضیلت خلیفۃ اللہ (یہ مناظرہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بدائع الفوائد ص 139 ج 4 میں ذکر فرمایا ہے) ابلیس علیہ اللعنۃ الی یوم القیام نے جب سجدہ سے انکار کیا تو علت یہ بیان کی انا خیر منہ خلقتنی من نار وخلتہ من طین اے خدا میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ اور آگ مٹی سے بہتر ہے اس لیے میں آدم سے بہتر ہوا مگر اس کا یہ دعویٰ کہ آگ مٹی سے بہتر ہے بالکل غلط ہے بلکہ عنصر ترابی کا عنصر ناری سے بہتر ہونا متعدد وجوہ اور دلائل سے ثابت ہے۔ 1 ۔ آگ بالطبع مفسد اور مہلک ہے، احراق اور اتلاف اس کا خاصہ ہے بخلاف تراب کے کہ وہ نہ مہلک ہے اور نہ محرق۔ 2 ۔ آگ کی طبیعت ہی خفت اور حدت اور طیش سے بھری ہوئی ہے بخلاف تراب کے کہ اس میں رزانت ووقار سکون اور ثبات ہے۔ 3 ۔ زمین ہی حیوانات کے ارزاق واقوات اور انسانوں کے لباس اور زینت اور تمام سامان معیشت کا معدن اور منبع ہے، بخلاف آگ کے کہ وہ ان تمام نفع رسانیوں سے بالکل بیگانہ ہے۔ 4 ۔ عنصر ترابی کی ہر حیوان کو ضرورت ہے کوئی حیوان زمین سے مستغنی نہیں، بخلاف عنصر ناری کے کہ وحوش بہائم تو اس سے بالکل مستغنی ہیں، انسان بھی بعض اوقات آگ سے مستغنی ہوجاتا ہے۔ 5 ۔ زمین میں کسی شے کا اگر ایک تخم بھی ودیعت رکھ دیا جاتا ہے تو زمین ایک تخم کو اضعافاً مضاعفہ بنا کر واپس کردیتی ہے۔ آگ میں جو کچھ بھی رکھا جائے جلا کر سب کو خاکستر بنا دیگی 6 ۔ حق تعالیٰ شانہ نے قرآن کریم میں بکثرت زمین اور زمین کے منافع کا ذکر فرمایا ہے کہ زمین کو ہم نے مہاد اور فراش بساط اور قرار احیاء اور اموات کا ماوی اور ملجاء بنایا زندہ اس پر زندگی بسر کرتے ہیں اور مر کر اس میں دفن ہوتے ہیں اور بار بار زمین اور زمین کے عجائب میں تفکر اور تدبر کا حکم دیا۔ بخلاف آگ کے کہ اکثر وبیشتر اس کو موقع عقاب و عذاب اور مقام تخویف وترہیب میں ذکر فرمایا۔ صرف دو جگہ یہ ارشاد فرمایا ہے۔ تذکرۃ ومتاعا للمقوین کہ یہ آگ آخرت کی آگ کی یاد دہانی اور مسافروں کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ 7 ۔ حق سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی کتاب میں بار بار زمین کا منبع برکات اور سرچشمہ ہونا بیان فرمایا ہے۔ کما قال تعالیٰ ۔ ائنکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین وتجعلون لہ اندادا ذلک رب العالمین وجعل فیھا رواسی من فوقھا وبارک فیھا وقدر فیھا اقواتھا فی اربعۃ ایام۔ اس آیت میں برکت عامہ کا ذکر فرمایا۔ اور آیت ونجینہ ولوطا الی الارض التی برکنا فیھا للعالمین اور آیت وجعلنا بینھم وبین القری التی بارکنا فیھا قریً ظاہرۃ اور آیت ولسلیمان الریح عاصفۃ تجری بامرہ الی الارض التی بارکنا فیھا میں ان برکات کو ذکر فرمایا کہ جو زمین کے خاص خاص قطعوں کو حاصل ہیں۔ بہرحال زمین برکات عامہ اور برکات خاصہ دونوں کا معدن اور منبع ہے، بخلاف آگ کے کہ وہ منبع برکات تو کیا ہوتی۔ اس کے برعکس وہ تو برکات کی مٹانے والی اور فنا کرنے والی ہے۔ 8 ۔ مساجد اور وہ بیوت کہ جن میں صبح وشام اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔ ہر وقت اس کی عبادت اور بندگی سے معمور رہتے ہیں وہ سب زمین ہی پر واقع ہیں۔ تمام روئے زمین پر اگر سوائے اس بیت حرام کے جس کو خدا نے مبارک اور ھدی للعالمین اور قیاما للناس فرمایا ہے اور کچھ بھی نہ ہوتا تو یہ زمین کے شرف اور فضیلت کے لیے کافی اور وافی تھا۔ 9 ۔ جو چیزیں زمین سے پیدا ہوتی ہیں۔ آگ ان کی خدمت کے لیے ہے۔ جب ضرورت ہوتی ہے تب آگ سلگائی جاتی ہے، ضرورت ختم ہوتے ہی آگ کو بجھا دیا جاتا ہے، آگ زمین کے لیے بمنزلہ ایک خادم کے ہے اور زمین بمنزلہ مخدوم کے ہے۔ علاوہ ازیں اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ نار تراب سے بہتر ہے تب بھی یہ استدلال فاسد ہے اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ ایک شیے کا مادہ دوسری شیئ کے مادہ سے مفضول اور کمتر ہو مگر وہ شیئ بہ ہیئت موجودہ دوسری شیئ سے افضل اور بہتر ہو۔ مثلاً انبیاء ومرسلین نطفہ اور علقہ سے پیدا کیے گئے اور ملائکہ نور سے پیدا کیے گئے مگر خدائے عزوجل نے انبیاء ومرسلین کو ملائکہ مقربین پر فضیلت دی آدم (علیہ السلام) کو مسجود ملائکہ بنایا اور جبرئیل اور میکائیل کو نبی اکرم ﷺ کا آسمانوں پر وزیر بنایا اور ابوبکر وعمر کو زمین میں آپ کا وزیر اور مشیر بنایا۔ اور اگرچہ آدم کو ہم نے زمین کی خلافت اور اس کی عمارت کے لیے پیدا کیا ہے مگر سردست ہم نے ان کو حکم دیا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔ تاکہ بہشت کے محلات اور باغات اور چشمنوں اور نہروں کو دیکھ کر دنیا میں اس کا نمونہ قائم کرسکو اور فقط سیر پر اکتفا نہ کرو بلکہ چند روز وہاں کی رہائش اختیار کرو اور فی الحال اس کو وطن سکونت بناؤ تاکہ اس کی تعمیر کی کیفیت خوب ذہن نشین ہوجائے۔ اور حضرت حواء کو جنت میں رہنے کا اس لیے حکم دیا گیا کہ وہ بہشت کے محلوں کی آرائش اور ان کی زیب وزینت اور وہاں کے زیورات اور حریری لباس کو خوب غور سے دیکھ لیں۔ اور سمجھ لیں تاکہ دنیا کی عورتوں کو اس طریق پر چلا سکیں اور کھاؤ تم اس بہشت سے خوب وسعت اور فراغت کے ساتھ جہاں سے چاہو تاکہ تمام ماکولات اور مشروبات کے خواص اور آثار، منافع اور مضار تم کو معلوم ہوں اور پھر اس علم کے مطابق دنیا کے ماکولات و مشروبات میں تصرف کرسکو اور زمین جو شجر اور ثمر تمہارے لیے پیدا کیے گئے ہیں ان سے نفع اٹھا سکو۔ مگر باوجود اس عام اجازت کے بطور ابتلاء اور امتحان جس میں تمہارے لیے سراسر خیر ہی خیر ہے ہم تم کو بعض چیزوں کے استعمال سے منع بھی کرتے ہیں تاکہ تم لذائذ اور مرغوبات کے خوگر نہ ہوجاؤ اور وہ یہ کہ تم اس درخت کے قریب بھی نہ جانا۔ درخت کے تعین میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ کسی آیت یا حدیث صحیح سے ثابت نہیں کہ وہ کیا درخت تھا۔ گیہوں کا تھا کہ انجیر کا۔ زیتون کا تھا یا انگور کا۔ سلف اور خلف میں مشہور یہی ہے کہ وہ گیہوں کا درخت تھا اور اصل حقیقت خدا ہی کو معلوم ہے کہ وہ کیا درخت تھا۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس کا علم کچھ مفید اور نافع نہیں اور اس کا جہل کچھ مضر نہیں۔ غرض یہ کہ تم کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ تم اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ تم ظالموں میں سے ہوجاؤ گے۔ : حضرت آدم اور حواء کو جس جنت میں رہنے کا حکم ہوا تھا اس سے وہی جنت الخلد مراد ہے جس کا قیامت کے بعد متقین سے وعدہ ہے جیسا کہ قرآن کریم کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے قصہ سے پیشتر آیت وبشر الذین امنوا وعملوا الصلحت ان لھم جنات تجری من تحتیھا الانھار۔ میں اسی جنت الخلد کا ذکر ہوچکا ہے اس کے بعد حضرت آدم اور حواء (علیہما السلام) کو یا آدم اسکن انت وزوجک الجنۃ کا حکم ہوا اور الجنۃ کو معرف باللام ذکر فرمایا جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ اس مقام پر الجنۃ سے معہود اور معرف جنت مراد ہے جس کا سابق میں ذکر ہوچکا ہے پھر اس کے بعد جب حضرت آدم کے ہبوط کا ذکر فرمایا اور ہبوط کے معنی اوپر سے نیچے اترنے کے ہیں بعد ازاں یہ فرمایا ولکم فی الارض مستقر ومتاع الی حین۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آڈم کو ابتداء میں جس جگہ رہنے کا حکم دیا گیا تھا وہ زمین کے علاوہ کوئی اور جگہ تھی۔ ورنہ اگر پہلے ہی سے زمین پر تھے تو پھر اس ارشاد کا کیا مطلب ہے کہ تم زمین پر اترو اور وہاں جا کر ٹھہرو۔ صحیح مسلم میں حذیفۃ بن الیمان ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن لوگ اول حضرت آدم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور یہ عرض کریں گے۔ یا ابانا استفتح لنا الجنۃ فیقول وھل اخرجکم من الجنۃ الا خطیئۃ ابیکم اے ہمارے باپ آپ ہمارے لیے جنت کا دروازہ کھلوائیے تو آدم یہ جواب دیں گے کہ تمہارے باپ کی غلطی تو تم کو جنت سے باہر لائی ہے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم اسی جنت سے نکالے گئے تھے کہ جس جنت کا دروازہ مومنین کھلوانا چاہتے ہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : احتج آدم وموسی عند ربھما فحج ادم موسیٰ قال موسیٰ انت ادم الذی خلقک اللہ بیدہ و نفخ فیک من روحہ و اجسد لک ملائکتہ واسکنک فی جنتہ ثم اھطبت الناس بخطیئتک الارض الی الخر الحدیث عالم الرواح میں اللہ تعالیٰ کے سامنے حضرت آدم وموسی (علیہ السلام) کا مناظرہ ہوا۔ آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا آپ تو وہی آدم ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی خاص روح تم میں پھونکی۔ اور فرشتوں سے تم کو سجدہ کرایا اور اپنی جنت میں تم کو سکونت عطاء فرمائی اور پھر تم نے ہی لوگوں کو اپنی خطاء سے جنت سے زمین کی طرف اتارا۔ یہ حدیث بھی اسی کی تائید کرتی ہے کہ یا ادم اسکن انت وازوجک الجنۃ میں الجنۃ سے وہی جنت مراد ہے جو آسمان پر ہے حاشا جنت سے زمین کا کوئی باغ مراد نہیں۔ جیسا کہ بعض کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ آدم کو جس جنت میں رہنے کا حکم دیا گیا تھا وہ دنیا ہی کے باغوں میں سے کوئی گھنا اور گنجان باغ تھا یہ بالکل غلط ہے پس جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ آیت میں جنت سے کوئی دنیاوی باغ مراد ہے جہاں حضرت آدم وحواء آرام سے رہتے تھے اس باغ میں شیطان نے جا کر حضرت ادم وحواء کو دھوکہ دیا تو یہ قول بالکل غلط ہے اور ذرہ برابر قابل التفات نہیں رہا۔ یہ سوال کہ جنت میں جانے کے بعد وہاں سے نکلنا نہیں تو حضرت آدم جنت میں جانے کے بعد کیسے نکلے، جواب یہ ہے کہ قیام قیامت کے بعد جو جنت میں ڈاخل ہوگا وہ کبھی جنت سے نہ نکالا جائے گا، اللہ نے دخول جنت پر جو خلود اور دوام کا وعدہ فرمایا اس دخول سے وہ دخول جنت مراد ہے جو قیام قیامت اور جزاء اور سزا کے بعد ہوگا۔ کیا احادیث صحیحہ سے یہ ثابت نہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے لیلۃ المعراج میں جنت کی بھی سیر فرمائی، اور پھر صبح سے قبل ہی اس عالم میں تشریف لے آئے اسی طرح حضرت آدم کے دخول کو سمجھئے۔ خلاصۂ کلام : یہ کہ حق جل شانہ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو آئین خلافت سیکھنے کے لیے قسم قسم کی اشیاء سے تمتع اور انتفاع کے طریقے معلوم کرنے کے لیے اپنے حرم خاص جنت میں چند روزہ سکونت کے لیے حکم دیا اور تمام اشیاء سے تمتع اور انتفاع کی عام اجازت عطاء فرمائی۔ صرف ایک قسم کے درخت سے منع فرمایا۔ شیطان تاک میں تھا کہ ان سے کوئی گناہ اور لغزش صادر ہو مگر گناہ اور لغزش اسی وقت ہوسکتی ہے جب کوئی قید اور ممانعت ہو جب کسی چیز کی ممانتعت ہی نہ ہو تو معصیت کیسے سرزد ہو۔ شیطان کو جب لا تقربا ھذہ الشجرۃ کی نہی اور ممانعت کا علم ہوا تو سمجھا کہ شاید اس راہ سے آدم پر میرا کوئی وار چل جائے اور اس طرح اپنی دشمنی نکالنے کا موقع مل جائے۔ چناچہ حضرت آدم کے بہکانے اور پھسلانے کی فکر شروع کی۔ حضرت آدم اور حضرت حواء کے پاس گیا اور یہ کہا کہ تم اپنی اس تعظیم و تکریم پر مغرور نہ ہونا۔ انجام کو بھی سوچو۔ انجام تمہارا موت ہے۔ حضرت آدم نے پوچھا کہ موت کیا ہے۔ شیطان نے مردہ جانور کی صورت بنا کر نزع اور قبض روح کی طرح کچھ کیفیت اور شدت اور غرغرہ کی حالت ان کو دکھلائی دیکھتے ہی گھبرا گئے اور خوف زدہ ہو کر پوچھا کہ اچھا اس سے محفوظ رہنے کی تدبیر کیا ہے۔ شیطان نے کہا۔ ھل ادلک علی شجرۃ الخلد وملک لا یبلی کیا میں تم کو اس درخت کی نشان دہی نہ کروں کہ جس کے کھانے سے موت اور فنا نہ آئے اور بقاء اور دوام اور دائمی سلطنت اور لازوال بادشاہت حاصل ہوجائے۔ حضرت آدم نے پوچھا وہ کون سا درخت ہے۔ شیطان نے وہی درخت بتلایا جس کے قریب جانے سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو منع کیا تھا حضرت آدم نے کہا کہ یہ درخت تو فنا اور زوال کا ہے۔ بقاء اور دوام کا نہیں بلکہ رسوائی اور ندامت کا درخت ہے۔ قرب اور وجاہت کے بجائے بعد اور ذلت کا موجب ہے اسی وجہ سے حق تعالیٰ نے ہم کو اس کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا ہے۔ اگر اس درخت میں یہ فائدے ہوتے تو وہ ارحم الراحمین ہم کو منع نہ فرماتا۔ شیطان نے کہا۔ مانھاکما ربکما عن ھذہ الشجرۃ الا ان تکونا ملکین او تکونا من الخالدین تمہارے پروردگار نے اس درخت سے اس لیے منع نہیں کیا کہ اس کا پھل تمہارے لیے موجب ضرر ہوگا بلکہ اس لیے منع کیا ہے کہ تم اس کے کھانے سے ہمیشہ زندہ رہنے والے یا فرشتے بن جاؤ گے جو ایک لمحہ کے لیے بھی خدا کی یاد سے غافل نہیں ہوتے اور کھانے اور پینے اور زن و فرزند اور دنیا ومافیہا سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ پس اگر یہ حالت تم کو حاصل ہوجائے تو خلافت کا کام کیسے انجام پائے۔ دنیا کی خلافت کا کام تو زن و فرزند اور طعام و شراب اور کسب معاش کی فکر میں مشغولی سے انجام پاسکتا ہے اور ظاہر ہے کہ زن و فرزند میں مشغول رہ کر خدا کے ساتھ مشغول نہیں رہ سکتا۔ حق تعالیٰ شانہ کو چونکہ تم سے خلافت کا کام لینا ہے اس لیے تم کو اپنے سے دور بھیج رہا ہے اور اس درخت کے میوہ کا استعمال خداوند ذوالجلال کے قرب واتصال کا موجب ہے اور بہشت میں موت نہیں۔ تم کو محض آئین خلافت کے سکھانے کے لیے چند روز بہشت میں رہنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد تم کو اپنی بارگاہ قرب سے علیحدہ کر کے دنیا میں بھیجے گا۔ وہاں جا کر تم اور تمہاری اولاد طرح طرح کی پریشانیوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہونگے اور انجام سب کا موت ہوگا اور خداوندذوالجلال کا قرب اور وصال اور یہاں کا یہ ملک لازوال دنیا میں جانے کے بعد اور خلافت ارضی کے ملنے کے بعد باقی نہیں رہ سکتا۔ حضرت آدم اور حواء ابلیس کی ان دلفریب باتوں سے تردد اور اضطراب میں پڑگئے۔ اور ظاہر ہے کہ ایک عاشق صادق حکومت اور سلطنت کو چھوڑ سکتا ہے مگر محبوب کی مفارقت اور جدائی کو برداشت نہیں کرسکتا۔ عاشق صادق کے لیے تو مفارقت کا لفظ ہی فراق روح کا پیغام ہوتا ہے۔ ابلیس نے جب دیکھا کہ حضرت آدم اور حوء تردد میں پڑگئے تو ان کو پختہ کرنے کے لیے بہت سی قسمیں کھائیں۔ کما قال تعالیٰ ۔ وقاسمھما انی لکما لمن الناصحین۔ کہ خدا کی قسم محض تمہاری خیر خواہی سے تم کو یہ مشورہ دے رہا ہوں کہ تم کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے جو بےادبی اور گستاخی مجھ سے سرزد ہوچکی ہے اس خیر خواہی سے اس کی کچھ تلافی کردوں تاکہ عمر بھر تم مجھ کو یاد کرو اور میرے شکر گزار رہو۔ حضرت آدم کو یہ خیال ہوا کہ مخلوق کی یہ جراءت اور مجال نہیں کہ خداوند ذوالجلال پر جھوٹی قسم کھائے اور اس تاکید اکید کے ساتھ کھائے۔ اس لیے بظاہر یہ سچ ہوگا اور قرب اور وصال کے حصول کے شوق میں لا تقربا ھذہ الشجرۃ کے حکم سے ذہول ہوگیا اور اس کی عداوت کو بھی بھول گئے۔ فازلہما الشیطان عنھا پس شیطان نے آڈم اور حوا کو اس درخت کے بچنے سے اس طرح پھسلا دیا اور معلوم نہیں کہ حضرت حواء اور حضرت آدم کے سامنے اس لعین نے کیا کیا دلفریب باتیں بنائی ہونگی جس سے وہ دھوکہ میں آگئے اور عبداللہ بن مسعود ؓ کی قراءت میں بجائے فازلہما الشیطان عنھا کے فوسوس لہما الشیطان عنھا آیا ہے۔ کما فی الکشاف۔ اس قراءت میں لغزش کی ایک کیفیت کا بیان ہے، شیطان نے بذریعہ وسوسہ حضرت آدم اور حواء کو لغزش دی فاخرجھما مما کانفا فیہ پس نکالا ان دونوں کو اس راحت اور آرام سے جس میں وہ تھے اور گناہ کی برائی ظاہر کرنے کے لیے ہم نے آدم اور حواء سے کہا کہ اترو تم بہشت سے اس لیے کہ تم میں سے بعض بعض کا دشمن ہوگا۔ اور بہشت نہ معصیت کا محل ہے نہ عداوت اور دشمنی کا۔ اس کے لیے تو وارد دنیا ہی موزوں اور مناسب ہے دنیا ہی میں خدا کی نافرمانی اور آپس کی عداوت ممکن ہے خدا کی بہشت اور ساتوں آسمان حق جل وعلاء کی معصیت سے بالکلیہ پاک اور آپس کی عداوت سے بالکل منزہ ہیں۔ فائدہ : اھبطوا کا خطاب حضرت آدم اور حواء کو ہے جیسا کہ دوسری جگہ قللنا اھبطا منھا جمیعا بصیغہ تثنیہ وارد ہوا ہے۔ چونکہ حضرت آدم ابو البشر اور حضرت حوا ام البشر ہونے کی وجہ سے تمام بنی نوع انسان کے قائم مقام ہیں ا سلیے اس جگہ قلنااھبطوا میں حضرت آدم اور حواء کو صیغۂ جمع کے ساتھ مخاطب فرمایا اور چند روز تک تم کو زمین پر ٹھہرنا ہے اور وہاں کے سازوسامان سے ایک وقت معین تک تم کو متمتع اور منتفع ہونا ہے یعنی وہ انتفاع دائمی نہ ہوگا بلکہ ایک وقت معین تک ہوگا اور وہ وقت معین ہر شخص کے لحاظ سے تو موت ہے اور سارے عالم کے اعتبار سے قیامت ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اس خطاب سراپا عتاب کو سنتے ہی بےچین اور بےتاب ہوگئے۔ فوراً بارگاہ خداوندی میں ایسے تضرع اور ابتہال کے ساتھ ملتجی ہوئے کہ سارے عالم کا تضرع اور ابتہال بھی اس کے پاسنگ نہیں ہوسکتا۔ حق تعالیٰ شانہ کی شان عفو اور مغفرت جوش میں آگئی۔ اے خوشا چشمے کہ آں گریان اوست وے ہمایوں دل کہ آں بریان اوست درپئے ہر گریہ آخر خندہ ایست مرد آخر ﷺ بیں مبارک بندہ ایست اور حضرت آدم کو توبہ اور معذرت کے کلمات تلقین فرمائے گئے۔ ابلیس کی معصیت چونکہ تمرد اور سرکشی کی بناء پر تھی اس لیے اس کو توبہ اور معذرت کی تلقین نہیں فرمائی۔ اور حضرت آدم کی معصیت سہو اور نسیان اور ذہول اور غفلت کی بناء پر تھی اس لیے ان کو بارگاہ خداوند سے کلما معذرت کا القاء اور الہام ہوا جو ان کی توبہ کی قبولیت کا سبب ہے۔ جیسا کہ آئندہ آیت میں ارشاد فرماتے ہیں۔ فتلقی آدم من ربہ کلمت فتاب علیہ انہ ھو التواب الرحیم۔ پس حاصل کیے آدم نے اپنے رب کے الہام سے معذورت کے چند کلمے۔ پس توجہ فرمائی ان پر اللہ نے اپنی رحمت اور مغفرت سے۔ اور بیشک وہی توبہ قبول فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ تواب کے بعد رحیم کی صفت ذکر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ توبہ کا قبول کرنا اس پر واجب نہیں محض اپنی رحمت سے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور وہ کلمات یہ ہیں۔ ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین۔ جیسا کہ سور اعراف میں انکا ذکر ہے۔ فائدہ : حضرت حواء چونکہ حضرت آدم کے تابع تھیں اس لیے اس جگہ ان کی توبہ کا ذکر نہیں فرمایا۔ اور سورة اعراف میں دونوں کی توبہ ذکر فرمائی۔ قالا ربنا ظلمنا انفسنا الخ اس پر اللہ کی رحمت سے ان کے گناہ کو معاف کیا اور توبہ کو قبول فرمایا اور اللہ تعالیٰ کے محبوب بن گئے۔ کما قال تعالیٰ ان اللہ یحب التوابین (اللہ تعالیٰ توابین کو محبوب رکھتا ہے) فائدہ : توبہ کے اصلی معنی رجوع کے ہیں اور اوب کے معنی بھی رجوع کے ہیں۔ تائب اور تواب اس کو کہتے ہیں کہ جو معصیت سے طاعت کی طرف رجوع کرے اور آئب اور اوّاب وہ ہے جو غفلت سے ذکر اور فکر کی طرف رجوع کرے کما قال تعالیٰ نعم العبد انہ اواب اور جب تاب کی اسناد حق تعالیٰ کی طرف کی جائے مثلاً تاب اللہ علیہا۔ کہا جائے تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ اللہ تعالیٰ نے بندہ کے انتقام اور عقوبت سے عفو اور رحمت اور لطف و عنایت کی طرف رجوع فرمایا۔ فائدہ : حضرت آدم کے توبہ قبو ہوجانے سے عیسائیوں کے عقیدہ کی تردید ہوگئی کہ آدم کی معصیت کی وجہ سے ان کی تمام اولاد گناہ کے بوجھ میں لدی ہوئی تھی۔ عیسیٰ نے آخر تمام بنی آدم کو اپنی صلیبی موت سے گناہوں سے مخلصی دی۔ نصاریٰ کا یہ عقیدہ بالکل مہمل ہے عقل اور نقل کے خلاف ہے۔ ازالۂ اشتباہ از لغزش سیدنا وابینا آدم (علیہ السلام) وتحقیق مسلک علماء اسلام دربارۂ عصمت انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام۔ قبل اس کے کہ ہم اس سوال کا جواب دیں کہ حضرت آڈم (علیہ السلام) سے باوجود اول الانبیاء اور نبی مکلم اور رسول محترم ہونے کے یہ زلت (لغزش) کیسے صادر ہوئی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مسئلہ عصمت انبیاء کی مختصراً توضیح اور تشریح کردی جائے اور عصمت اور معصیت کی حقیقت سمجھا دی جائے اصل مسئلہ سمجھ جانے کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ کوئی اشکال نہ رہے گا اہل حق کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام خداوند ذوالجلال کی نافرمانی سے معصوم ہوتے ہیں۔ صغیرہ اور کبیرہ سے پاک اور منزہ ہوتے ہیں۔ قصداً وارادۃً ان سے حق تعالیٰ کی نافرمانی ممکن نہیں۔ اگر قصداً ان سے حکم الٰہی کی مخالفت ممکن ہوتی تو حق جل شانہ مخلوق کو ان کی بےچون وچرا اطاعت اور متابعت کا حکم نہ دیتا اور ان کی اطاعت کو اپنی اطاعت نہ قرار دیتا اور انبیاء کرام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو اپنے ہاتھ پر بیعت کرنا نہ قرار دیتا۔ (زَلَّت بمعنی لغزش فتح زاء کے ساتھ ہے جس کے معنی بلا ارادہ اور اختیار قدم پھسل جانیکے ہیں یہ لفظ زاء کے ساتھ ہے ذال کے ساتھ نہیں۔ ذال کیساتھ لفظ ذلت بکسر ذال ہے جو عزت کی ضد ہے اور قرآن کریم میں فازلہما زاء کے ساتھ آیا ہے۔ ذال کے ساتھ نہیں۔ خوب سمجھ لو کہیں لغزش نہ ہوجائے۔ ) (حافظ تور بشتی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں۔ و از انجملہ آنست کہ ہوائے ایشاں پئے فرمان حق بودہ است ونفس ایشاں ہموار درطاعت او بفرمان ایشاں وازیں وجہ ایشاں از نافرمانی خدا بقصد معصوم مانند وایشاں واجب العصمت اندومخالفت امر خدائے تعالیٰ بر ایشاں روانیست زیرا کہ حق خلق را فرمودہ است کہ پیروی ایشاں بکنند و اگر عصیاں بقصد از ایشاں یافت شدے خدائے تعالیٰ خلق را متابعت ایشاں نفر مودے (معتمد فی المعتقد س 63) قال تعالیٰ ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ۔ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ ید اللہ فوق ایدیھم۔ : تحقیق جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ سے بیعت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے دست اور احق چو دست خویش خدا ند تاید اللہ فوق ایدیھم براند اور ظاہر ہے کہ یہ اتباع نبوی اوراقتداء مطلق کا حکم جو آیات قرآنیہ سے ثابت ہے وہ کسی خاص امر کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ عقائد سے لیکر اعمال تک کوئی عقیدہ اور کوئی خلق اور کوئی حال اور کوئی عمل کیوں نہ ہو سب میں اقتداء نبوی ضروری ہے جیسا کہ مقتضائے اطلاق یہی ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام کی ذوات بابرکات۔ قدسی صفات اور ملکی سمات ہوتی ہیں۔ انبیاء کرام کی اصل فطرت وہی ہوتی ہے جو ملائکہ کی ہوتی ہے۔ فطرت کے اعتبار سے انبیاء اور ملائکہ ایک ہوتے ہیں۔ فرق فقط لباس بشری کا ہوتا ہے اور عصمت ملائکہ کا خاصۂ لازمہ ہے اور انبیاء کرام۔ ملائکہ سے افضل ہیں جیسا کہ حضرت آدم کا قصہ اس پر شاہد عدل ہے۔ ابلیس لعین اسی وجہ سے ملعون اور مطرود ہوا کہ اس نے حضرت آدم کی افضلیت اور برتری کو تسلیم نہیں کیا جس سے ثابت ہوا کہ حضرت آدم ملائکہ معصومین سے افضل اور برتر ہیں اور ظاہر ہے کہ غیر معصوم معصوم سے افضل نہیں ہوسکتا۔ عصمت کے معنی : عصمت کے معنی یہ ہیں کہ ظاہر و باطن نفس اور شیطان کی مداخلت سے پاک اور منزہ ہوں اور نفس اور شیطان یہی دو چیزیں مادۂ معصیت ہیں اور مادۂ معصیت سے پاک ہونے کا نام عصمت ہے اور معصوم وہ شخص ہے جو اپنے تمام اعتقادات اور نیات اور ارادات اور مقامات اور اخلاق و عادات اور عبادات ومعاملات اوراقوال وافعال میں نفس اور شیطان کی مداخلت سے محفوظ ہو اور حفاظت غیبی اس کی محافط اور نگہبان ہو کہ ان سے کوئی ایسی شیئ سرزد نہ ہوجائے کہ ان کے دامن عصمت کو آلودہ کرسکے۔ حق جل شانہ کی نظر عنایت اور فرشتوں کی محافظت ان کو اپنے احاطہ میں لیے ہوئے جو کشاں کشاں ان کو راہ راست پر چلاتی ہو اور خلاف حق کے میلان سے بھی ان کی مانع ہو حق جل شانہ نے قرآن کریم میں انبیاء کرام کو مرتضی اور مسطفین الاخیار اور عباد مخلصین فرمایا ہے۔ جس سے من کل الوجوہ ارتضا اور اصطفاء اور اخلاص کامل مراد ہے اور مخلص وہ ہے کہ جو خالص اللہ کا ہو غیر اللہ کا اس میں شائبہ نہ ہو یعنی مادۂ شیطانی سے بالکلیہ پاک ہو لہذا ضروری ہوا کہ نبی صغائر اور کبائر دونوں سے معصوم ہو اس لیے کہ مادۂ شیطانیہ ہی صغائر اور کبائرکا منشاء ہے اور حق جل شانہ کے اس ارشاد الا من ارتضی من رسول میں لفظ من بیانیہ ہے اور لفظ رسول نکرہ لایا گیا ہے معلوم ہوا کہ ہر رسول کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا پسندیدہ اور برگزیدہ بندہ ہو یعنی تمام اخلاق و عادات اور افعال وملکات اور احوال مقامات میں من کل الوجوہ حق تعالیٰ کا برگزیدہ اور پسندیدہ بندہ ہو اور بلا شرکت غیرے خالص اللہ کا بندہ ہو اور ظاہر ہے کہ ان آیات میں بعض وجوہ سے پسندیدگی مراد نہیں اس لیے کہ بعض وجوہ سے تو ہر مسلمان خدا کا پسندیدہ بندہ ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ انبیاء کرام کے اصطفاء اور اجتباء اور اتضاء سے من کل الوجوہ پسندیدگی اور برگزیدگی مراد ہے اور من کل الوجوہ پاک وصاف اور خدا کا پسندیدہ اور بلا شرکت غیر خالص حق تعالیٰ کا بندہ وہی ہوسکتا ہے جس کا ظاہر و باطن نفس اور شیطان کی بندگی اور اطاعت سے بالکلیہ پاک ہو اور اسی مادۂ معصیت سے بالکلیہ طہارت اور نزاہت کا نام عصمت ہے اور اصطفاء اور ارتضاء باب افتعال کے مصدر ہیں جو اپنے لیے ہوتا ہے۔ اکتیال اور اتزان اپنے لیے کیل ووزن کرنے کو کہتے ہیں اور کیل اور وزن عام ہے خواہ اپنے لیے ہو یا غیر کے لیے۔ کما قال تعالیٰ ویل للمطففین الذین اذا کتالوا علی الناس یستوفون واذا کالوھم او وزنوھم یخسرون اپنے لیے کیل کرنے کو اکتالوا یعنی باب افتعال کے صیغہ سے تعبیر اور دوسروں کے لیے تولنے کو کالوہم اور وزنوہم ثلاثی مجر سے تعبیر کیا گیا پاس قاعدۂ لغوی یہ بنا پر اصطفاء اور ارتضاء کے معنی اپنے لیے پسندیدہ اور برگزیدہ بنانیکے ہیں جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے واصطنعتک لنفسی پس عصمت کا ماحصل یہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام تمام اخلاق وملکات و عادات وحالات۔ اقوال وافعال عبادات ومعاملات میں سرتاپا پسندیدہ خداوندی اور برگزیدہ ایزدی ہوتے ہیں اور ظاہرا اور باطنا دخل شیطانی اور عوارض نفسانی سے پاک اور منزہ ہوتے ہیں۔ ایک لمحہ کے لیے بھی عنایت ربانی وحمایت یزدانی سے علیحدہ نہیں ہوتے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ حضرات انبیاء کی بےچون وچرا اطاعت فرض ہے۔ اور ان کا ہر قول اور ہر فعل قابل قبول ہے اور ان کی اطاعت سے انحراف شقاوت ابدی اور خسران دارین کا موجب ہے حضرات انبیاء کرام سے اگر کسی وقت بمقتضائے بشریت کوئی لغزش بطور سہو ونسیان صادر ہوجاتی ہے تو وہ باہر سے آتی ہے اندر سے نہیں آتی۔ جیسے آب گرم میں حرارت خارجی اثر سے آتی ہے باقی پانی میں مادہ حرارت کا نام ونشان نہیں پانی کی طبیعت میں سوائے برودت کے کچھ بھی نہیں یہی وجہ ہے کہ پانی کتنا ہی گرم ہو اگر آگ پر ڈالدیا جائے تو آگ فوراً بجھ جاتی ہے اسی طرح حضرات انبیاء کرام کا باطن مادۂ معصیت (نفس و شیطان) سے بالکل پاک ہوتاج ہے، البتہ کبھی خارجی اثر سے کوئی لغزش ہوجاتی ہے لیکن فوراً ہی دست قدرت اس باہر سے آئے ہوئے غبار کو چہرۂ عصمت سے صاف کردیتا ہے اور چہرۂ نبوت پہلے سے زیادہ صاف اور روشن ہوجاتا ہے۔ سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے قصہ میں حق جل شانہ کا ارشاد، کذلک لنصرف عنہ السوء والحشاء انہ من عبادنا المخلصین۔ (اللہ تعالیٰ کا معاملہ اپنے خالص بندوں کے ساتھ) ایسا ہی ہوتا ہے تاکہ (یوسف) سے برائی اور بیحیائی یعنی صغیرہ اور کبیرہ کو اس سے دور رکھیں کیونکہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے ہے، اسی طرف مشیر ہے کیونکہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ہمارا ارادہ یہ تھا کہ سوء اور فحشاء کو یوسف سے دور رکھیں اور یہ نہیں فرمایا کہ یوسف کو سوء اور فحشاء سے دور رکھیں۔ پھیرنا اور ہٹانا اور دور رکھنا اس کے حق میں ہوتا ہے جو آنا چاہتا ہو معلوم ہوا کہ سوء اور فحشاء حضرت یوسف کی طرف آنا چاہتا تھا۔ جس کو حق تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کی طرف آنے سے روک دیا۔ حضرت یوسف ادھر جانا نہیں چاہتے تھے۔ معاذ اللہ اگر حضرت یوسف کا میلان سوء اور فحشاء کی طرف ہوتا تو حق تعالیٰ اس طرح فرماتے کذلک لنصرفہ عن السوء والفحشاء یعنی یوسف کو سوء اور فحشاء سے روکا اور بچایا معلوم ہوا کہ یوسف (علیہ السلام) تو سوء والفحشاء سے بھاگ رہے تھے مگر سوء اور فحشاء ان کے پیچھے لگا ہوا تھا جس کو دست قدرت نے دھکے دیدیئے اور یوسف (علیہ السلام) کو بالکل بچا لیا کیونکہ یوسف (علیہ السلام) تو خالص اللہ کے بندے تھے ان کا قلب مادۂ معصیت سوء اور فحشاء سے بالکلیہ پاک تھا زلیخا کی طرف سے یہ سوء اور فحشاء چلا مگر حق تعالیٰ کی رحمت اور عنایت نے اس کو خدا کے مخلص اور برگزیدہ بندہ تک پہنچنے نہ دیا۔ غرض یہ کہ خارجی اثر کی بناء پر حضرات انبیاء کرام سے بطریق سہو ونسیان جو لغزش ہوجاتی ہے تو محض صورت کے اعتبار سے اس پر عصیان یا معصیت کا اطلاق ہوجاتا ہے یا ان کے مقام عالی اور مرتبہ علیا کے لحاظ سے اس کو عصیان کہہ دیا جاتا ہے۔ (کما قال تعالیٰ ۔ واذکر عبادنا ابراھیم واسحق ویعقوب اولی الایدی والابصار۔ انا اخلصناھم بخالصۃ ذکری الدار۔ وانھم عندنا لمن المصطفین الاخیار۔ وقال تعالیٰ حا کیا عن اللعین رب بما اغویتنی لازینن لھم فی الارض ولا غوینھم اجمعین الا عبادک منھم المخلصین۔ ) معصیت کے معنی : اور معصیت (گناہ) مطلق مخالفت حکم کا نام نہیں بلکہ معصیت اس مخالفت کو کہتے ہیں جو عمداً اور قصداً ہو اور بوجہ نسیان اور غلطی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ موقع عذر میں یوں کہا کرتے ہیں کہ میں بھول گیا تھا یا میں سمجھا نہ تھا اگر باوجود نسیان اور غلط فہمی کے بھی کسی مخالفت کو معصیت اور گناہ اور جرم کہا جائے تو پھر موقع عذر میں یہ کہنا کہ میں بھول گیا تھا سراسر لغو ہوگا۔ معلوم ہوا کہ مطلق مخالفت کا نام معصیت نہیں بلکہ معصیت اس مخالفت کو کہتے ہیں جو عمداً ہو اور جو مخالفت سہو اور نسیان کی بناء پر ظہور میں آئے یا بتقاضائے عظمت یا بتقاضائے محبت کوئی مخالفت سرزد ہوجائے تو اس کو معصیت اور گناہ نہیں کہتے بلکہ اس کو زلت اور لغزش کہتے ہیں جیسے کوئی مخدوم اپنے کسی چھوٹے کو سرہانے بیٹھنے کو کہے اور وہ اس کے کہنے کو نہ مانے تو یہ سرکشی اور معصیت نہیں بلکہ عین ادب اور دلیل اطاعت ہے صلح حدیبیہ میں حضرت علی کا لفظ رسول اللہ مٹادینے سے انکار کردینا اسی قبیل سے تھا اور حضرت آدم (علیہ السلام) کا گیہوں کھالینا بھول چوک کی بناء پر تھا جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔ فنسی ولم نجد لہ عزما۔ حضرت آدم حق جل شانہ کی ممانعت لا تقربا ھذہ الشجرۃ کو بھی بھول گئے اور شیطان کی عداوت سے بھی ذہول ہوگیا اور حق تعالیٰ کا یہ ارشاد انہ عدولکما فلا یخرجنکما من الجنۃ فتشقی یہ بھی یاد نہ رہا سو یہ ماجرا بھولے سے ہوگیا اور بھول چوک کو گناہ اور جرم قرار دینا سراسر غلط ہے۔ حضرت آدم اور حواء دونوں جنت پر شیدا اور فریفتہ تھے اس لیے ابلیس کی قسم سے دھوکہ میں آگئے اور یہ سمجھے کہ خدا کا نام لیکر کوئی جھوٹ نہیں بول سکتا۔ نیز حضرت آدم کا گیہوں کو کھالینا۔ بتقاضائے محبت خداوندی تھا۔ خلود اور قرب خداوندی کے شوق میں تھا۔ جیسا کہ ما نھٰکما ربکما عن ھذہ الشجرۃ الا ان تکونا ملکین اور تکونا من الخلدین۔ اس پر دلالت کرتا ہے نیز بتقاضائے عظمت بھی تھا اس لیے کہ جب شیطان نے یہ قسم کھائی وقاسمھما انی لکما لمن الناصحین تو حضرت آدم کو یہ شبہ بھی نہیں ہوا کہ خدا کا نام لیکر کوئی جھوٹ بولے گا وہ یہ سمجھے کہ بندہ خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسم نہیں کھا سکتا پس معلوم ہوگیا کہ حضرت آدم کا یہ فعل بارادۂ مخالفت نہ تھا اور نہ بتقاضائے ہوائے نفسانی تھا۔ بلکہ بتقاضاے محبت و عظمت خداوندی تھا لہذا اس کو معصیت اور گناہ نہیں کہا جائے گا بلکہ یہ کہا جائے گا کہ از قسم زلت ولغزش ہے یعنی ارادہ تو اطاعت اور رقب خداوندی کا تاھ مگر دشمن نے ایسا دھوکہ دیا کہ قدم پھسل کر دوسری جانب جا پڑا اسی کو لغزش کہتے ہیں۔ فدلاھما بغرور اور فازلہما الشیطان میں اسی طرف اشارہ ہے کہ یہ لغزش تھی جو بھولے سے ہوگئی ارادہ نافرمانی کا نہ تھا۔ پس جن آیات قرآنیہ میں اس فعل پر معصیت کا اطلاق کیا گیا ہے وہ محض ظاہر اور صورت کے اعتبار سے ہے حقیقت کے اعتبار سے نہیں یا ان کے مقام بلند اور تبہ عالیہ کی نسبت سے اس کا نام عصیان رکھا گیا (مباحثہ شاہجہان پور ص 37 و ص 38) اور حضرات انبیاء کے حق میں ترک اولی ایسا ہے جیسا کہ دوسروں کے حق میں خطاء (حاشیہ ملا عبدالحکیم علی الخیالی ص 261) حضرات انبیاء کی خطاء کے معنی یہ ہیں کہ افضل اور اولیٰ سے چوک گئے اور بھولے سے غیر اولی اور غیر افضل کے مرتکب ہوئے اور اوروں کی خطاء کے معنی یہ ہیں کہ حق اور ہدایت سے چوک گئے اور باطل اور ضلالت میں مبتلا ہوگئے حضرات انبیاء کرام باجماع امت ایسی خطاء سے معصوم ہیں، حضرات انبیاء کی خطاء اجتہادی کے یہ معنی ہیں خہ کسی وقت بھول چوک سے اولی و افضل کے بجائے خلاف اولی امر ان سے صادر ہوجاتا ہے۔ اور بجائے عزیمت کے رخصت پر عمل کرلیتے ہیں۔ حضرت آدم کی زَلَّت اور لغزش کو اسی معنی پر محمول کرنا چاہئے اور یہ معلوم رہنا چاہئے اگر بالفرض والتقدیر انبیاء کرام معاذ اللہ ہماری طرح اسیر حرص وشہوت ہوتے تو خدا تعالیٰ ہم پر ان کی بےچون و چرا اطاعت اور متابعت فرض نہ کرتا۔ اور نبی اکرم ﷺ کو جو خلاصۂ موجودات اور زبدۂ کائنات ہیں ان کو انبیاء کرام کی اقتداء کا حکم نہ دیتا اور یہ ارشاد نہ فرماتا۔ اولئک الذین ھدی اللہ فبھداھم القتدہ۔ (کذا فی المعتمد فی المعتقد للتوربشتی) امام ابو منصور ماتریدی فرماتے ہیں کہ نظر اور فکر کا اقتضاء یہ ہے کہ انبیاء کرام کے حق میں عصمت کا اعتقاد، ملائکہ کی عصمت کے اعتقاد سے زیادہ مؤکد اور اہم ہو اس لیے کہ لوگ انبیاء کرام کی اتباع اور متابعت پر مامور ہیں اور ملائکہ کی اطاعت پر مامور نہیں (المعتمد فی المعتقد للتوربشتی ص 73) (اصل عبارت یہ ہے امام ابو منصور ماتریدی (رح) گفتہ است کہ نظر اقتضاء آں می کند کہ تاکید وجوب عصمت در حق انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام افزوں ازانست کہ در حق ملائکہ زیرا کہ خلق بمتابعت انبیاء مامور ندبہ متابعت ملائکہ مامور نیستند (کذا فی المعتمد للتوربشتی ص 73) متلعقات عصمت امام رازی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ عصمت کا تعلق چار چیزوں سے ہے اول عقائد۔ دوم تبلیغ احکام۔ سوم فتوی اور اجتہادات۔ چہارم افعال و عادات وسیرت وکردار۔ قسم اول : یعنی عقائد کے متعلق اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ انبیاء کرام ابتداء ہی سے توحید اور ایمان پر مفطور ہوتے ہیں، جب سے پیدا ہوتے ہیں اسی وقت سے ان کے قلوب کفر اور شرک سے پاک اور منزہ اور ایقان وعرفان سے لبریز ہوتے ہیں اور ان کے مبارک چہرے معرفت اور قرب الٰہی کے انوار و تجلیات سے ہر وقت جگمگاتے رہتے ہیں آج تک کسی تاریخ سے ثابت نہیں ہوا کہ حضرت حق جل شانہ نے اپنی نبوت رسالت کے لیے کسی وقت بھی ایسے شخص کو منتخب فرمایا ہو جو اس عظیم الشان منصب کی سرفرازی سے پہلے کفر اور شرک کی نجاست میں ملوث اور آلودہ ہوچکا ہو ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ اور حق جل شانہ کا یہ ارشاد ولقد اتینا ابراہیم رشدہ من قبل وکنا بہ عالمین۔ اسی طرف مشیر معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام اگرچہ قبل از بعثت نبی نہیں ہوتے مگر خدا کے ولی اور مقرب ضرر ہوتے ہیں اور ایسے ولی اور مقرب ہوتے ہیں کہ دوسرے اولیاء اور مقربین کی ولایت اور قرب کو ان کی ولایت اور قرب کے ساتھ وہ نسبت بھی نہیں ہوتی کہ جو قطرہ کو دریائے عظیم کے ساتھ ہوتی ہے، اس لیے امت محدمیہ کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ انبیاء کرام کے دلوں میں کفر اور گمراہی کا اعتقاد ناممکن اور محال ہے، البتہ فرقۂ امامیہ کے نزدیک بطور تقیہ انبیاء کے لیے کفر جائز ہے۔ قسم دوم : تبلیغ احکام۔ سو اس بارے میں بھی تمام امت محمدیہ کا اتفاق ہے کہ احکام الٰہیہ کی تبلیغ میں انبیاء کرام معصوم ہوتے ہیں۔ دربارۂ تبلیغ ان سے نہ قصداً کوئی غلطی ہوسکتی ہے اور نہ سہواً تبلیغ کے بارے میں جھوٹ اور تحریف سے بالکلیہ پاک اور معصوم اور منزہ ہوتے ہیں کسی طور اور کسی صورت سے کذب اور تحریف کا ان سے سرزد ہونا محال ہے تندرست ہوں یا مریض خوش ہوں یا ناراض کوئی حالت ہو مگر یہ ناممکن ہے کہ وحی الٰہی کے پہنچانے میں ان سے کسی قسم کی سہواً یا عمداً کوئی غلطی ہوجائے ورنہ پھر وحی الٰہی پر وثوق اور اطمینان کی کوئی صورت نہ رہے گی اور نبی کی تبلیغ سے وثوق اور اعتماد بالکل جاتا رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ نزول وحی کے وقت فرشتوں کا پہرہ ہوتا ہے تاکہ وحی الٰہی۔ شیطان وغیرہ کی مداخلت سے بالکلیہ محفوظ رہے۔ کما قال تعالی۔ عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول فانہ یسلک من بین یدیہ ومن خلفہ رصدا لیعلم ان قد ابلغوا سالات ربھم واحاط بما لدیھم واحصی کل شیئ عددا وہی عالم الغیب ہے اپنے خزانۂ غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ مگر اپنے برگزیدہ یعنی رسول کو بقدر حکمت ومصلحت بذریعہ وحی کے کچھ بتلا دیتا ہے اور نزول وحی کے وقت اس رسول کے اغے اور پیچھے فرشتوں کا پہرہ لگا دیتے ہیں کہ شیطان اور نفس اس میں کسی قسم کا دخل نہ کرنے پائے اور یہ انتظام اس لیے کیا گیا کہ معلوم ہوجائے کہ فرشتوں نے اپنے رب کے پیام ٹھیک ٹھیک پہنچا دئیے ہیں۔ غلطی سے پاک اور مبرا ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے تمام احوال کے محیط ہیں اور ہر چیز ایک ایک ان کو معلوم ہے۔ قسم سوم : یعنی فتویٰ اور اجتہاد کے متعلق علماء اسلام کا مسلک یہ ہے کہ انتظار وحی کے بعد انبیاء کرام کبھی کبھی امور غیر منصوصہ میں اجتہاد فرماتے ہیں۔ اگر کسی وقت کوئی اجتہادی خطا ہوجاتی ہے تو فوراً بذریعہ وحی کے متنبہ کردئیے جاتے ہیں یہ ناممکن ہے کہ انبیاء سے کوئی اجتہادی خطا واقع ہو تو فوراً بذریعہ وحی کے متنبہ کردئیے جاتے ہیں، یہ ناممکن ہے کہ انبیاء سے کوئی اجتہادی خطا واقع ہو اور من جانب اللہ ان کو مطلع نہ کیا جائے۔ قسم چہارم : یعنی افعال و عادات سو ان کے متعلق اہل سنت والجماعت کا مسلک یہ ہے کہ انبیاء کبائر سے تو بالکلیہ پاک ہوتے ہیں البتہ صغائر یعنی خلاف اولیٰ امور کبھی کبھی سہواً اور نسیاناً ان سے صادر ہوجاتے ہیں۔ ظاہراً وہ معصیت معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ان سے کسی حکم کی تشریع مقصود ہوتی ہے۔ مثلاً نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم سے ظہر یا عصر کی نماز میں سہو کا پیش آنا بظاہر غفلت معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں سجدۂ سہو کا حکم بتلانا مقصود تھا۔ اگر نبی اکرم ﷺ کو نماز میں سہو نہ پیش آتا تو امت کو سجدۂ سہو کا حکم کیسے معلوم ہوتا ؟ اور علی ہذا اگر لیلۃ التعریس میں آپ کی نماز نہ فوت ہوتی تو قضاء فوائت یعنی فوت شدہ نمازوں کی قضاء کا مسئلہ کیسے معلوم ہوتا اس اعتبار سے یہ سہو اور نسیان عین رافت اور عین رحمت ہے اسی وجہ سے صدیق اکبر ؓ فرماتے ہیں۔ یا لیتنی کنت سھو محمد : کاش میں رسول اللہ ﷺ کا سہو ہوجاتا یعنی حضور کا سہو میری یاد سے کہیں بہتر ہے اور حق تعالیٰ شانہ کا یہ ارشاد سنقرئک فلا تنسی الا ماشاء اللہ۔ بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ پیغمبر کا نسیان حقیقت میں کسی حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ حضرات انبیاء کو بمقتضائے بشریت سہو اور نسیان ضرور پیش آتا ہے۔ اس لیے کہ انسان جب تک جامۂ بشریت میں ہے خواص بشریہ سے علیحدہ نہیں ہوسکتا۔ بھوک بھی ہے اور پیاس بھی ہے۔ مسرت اور فرحت بھی ہے اور رنج وغم بھی ضحک اور تبسم بھی ہے۔ ناراضی اور غصہ بھی۔ اور حق تعالیٰ شانہ کے اس ارشاد میں اسی طرف اشارہ ہے۔ قل انما انا بشر مثلکم : آپ کہدیجئے کہ جز ایں نیست کہ میں تم جیسا بشر ہوں۔ یعنی باوجود نبوت و رسالت کے پھر میں بشر ہوں فرشتہ نہیں۔ تمہاری طرح کھاتا اور پیتا ہوں۔ اپنی حوائج ضروریہ کے لیے بازاروں میں بھی آتا جاتا ہوں۔ یہ سب بشریت کے لوازم اور خواص ہیں۔ نبوت و رسالت کے منافی نہیں۔ بہرحال سہو اور نسیان انسانیت کے لوازم میں سے ہے۔ جس طرح دوسرے لوازم انسانیت مثلاً بھوک اور پیاس وغیرہ نہ نبوت و رسالت کے منافی ہیں اور نہ عصمت کے اسی طرح افعال و عادات میں سہو اور نسیان بھی نبوت اور عصمت کے منافی نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ حضرات انبیاء کے سہو اور نسیان کو دوام اور قرار۔ بقاء اور استمرار نہیں۔ کبھی کبھی بمقتضائے بشریت سہو ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ کسی نبی کو جب بھی کوئی سہو ہوا تو وہ ایک ہی مرتبہ ہوا یعنی اس نوع کا سہو پھر اس کو مدت العمر کبھی پیش نہیں آیا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے لا یلدغ المؤ من من جحر مرتین۔ یعنی مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسے جاتے ہاں جو حقیقۃً مومن نہیں محض نام کے مومن ہیں وہ دو مرتبہ نہیں بلکہ صدہا مرتبہ نفس اور شیطان سے ڈسے جاتے ہیں اسی طرح حضرت آدم (علیہ الصلوۃ والسلام) کا اس درخت کو کھالینا بھی اسی مقتضائے بشریت اور خاصۂ انسانیت یعنی سہو اور نسیان کا ثمرہ اور نتیجہ تھا۔ چناچہ خود حق جل شانہ کا ارشاد ہے فنسی ولم نجد لہ عزما۔ آدم بھول گئے۔ حق تعالیٰ شانہ کی ممانعت اور شیطان کی عداوت کا اس وقت استحضار نہ رہا۔ معصیت اور نافرمانی کا بالکل ارادہ نہ تھا۔ فقط شیطان کی قسم سے دھوکہ میں آگئے۔ حدیث میں ہے ال مومن غر کریم۔ مومن دھوکہ میں آہی جاتا ہے۔ وقال تعالیٰ لیس علیکم جناح فیما اخطاتم بہ ولکن ما تعمدت قلوبکم (تم پر بھول چوک میں کوئی گناہ نہیں و لیکن گناہ اس میں ہے جس کا تمہارے دل پختہ ارادہ کرلیں) اس آیت کے مطابق جب خطا اور نسیان میں کوئی گناہ ہی نہیں تو وہ پھر عصمت کے منافی کیسے ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ حالت صوم میں بھول کر کھالینا مفسد صوم بھی نہیں۔ حضرت آدم کا قلب مطہر اور سینۂ مبارک چونکہ حق جل وعلاء کی عظمت اور جلال سے بھرا ہوا تھا۔ اس لیے جب شیطان نے اللہ کی قسم کھا کر یہ کہا کہ انی لکما لمن الناصحین (میں یقینا تمہارا خیر خواہ ہوں) تو حضرت آدم (علیہ السلام) کو یہ وہم بھی نہ ہوا کہ کوئی بےحیا اور گستاخ حق تعالیٰ شانہ کا نام یکر جھوٹی قسم کھائے گا۔ اس فریب کے ساتھ شیطان نے حضرت آدم کو لغزش میں ڈالا۔ قال تعالیٰ فدلاھما بغرور (یعنی شیطان نے ان کو دھوکہ اور فریب کے ساتھ پھسلا دیا) غرور کے لفظ سے خود معلوم ہوتا ہے کہ یہ معصیت دھوکہ سے ہوگئی ورنہ حضرت آدم کا ارادہ نہ تھا۔ وہ تو مزید قرب الٰہی کے متمنی اور متلاشی تھے۔ دشمن نے طاعت کے بہانہ سے معصیت میں مبتلا کردیا مگر یہ معصیت فقط ظاہراً اور صورۃً معصیت تھی حقیقت میں عظیم الشان نعمت اور بےپایاں رحمت تھی۔ مقصود یہ تھا کہ گنہگاروں کو توبہ اور استغفار کا طریقہ معلوم ہو۔ جس طرح نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کے سہو سے سجدۂ سہو کا حکم کیسے معلوم ہوتا۔ اسی طرح حضرت آدم (علیہ الصلوۃ والسلام) کے سہو سے توبہ اور استغفار کا طریقہ بتلانا مقصود تھا۔ کہ جب کبھی کسی سے کوئی گناہ صادر ہو تو فوراً اپنے باپ آدم کی طرح تضرع اور زاری کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں رجوع کرے شیطان کی طرح معارضہ اور مقابلہ نہ کرے، بالفرض اگر حضرت آدم سے یہ معصیت نہ سرزد ہوتی تو ہم گنہگاروں کو توبہ اور استغفار کا طریق کیسے معلوم ہوتا۔ عارف ربانی شیخ عبدالوہاب شعرانی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے علم میں سعادت اور شقاوت دونوں ہی مقدر تھیں اس کی حکمت اس کو مقتضی ہوئی کہ سعادت کا بھی افتتاح ہو۔ اور شقاوت کا بھی اس لیے سعادت کا افتتاح حضرت آدم کے ہاتھ سے کرایا اور شقاوت کا افتتاح ابلیس کے ہاتھ سے کرایا۔ او کلامہ۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص سنت حسنہ جاری کرتا ہے تو جتنا اجر اور ثواب اس سنت پر عمل کرنے والوں کو ملتا ہے اسی قدر اجر وثواب اس سنت کے جاری کرنے والے کو بھی ملتا ہے جب تک وہ سنت جاری رہے گی اس شخص کے اجر میں برابر اضافہ ہوتا رہے گا۔ اسی طرح حضرت آدم (علیہ السلام) نے اس عالم میں توبہ اور استغفار، تضرع اور ابتہال اور بارگاہ خداوندی میں گریہ وزاری کی مبارک سنت جاری فرمائی۔ تاقیام قیامت جس قدر بھی تائیبین اور مستغفرین توبہ اور استغفار کرتے رہیں گے اسی قدر حضرت آدم کے درجات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اس لیے کہ حضرت آدم ہی تمام تائبین اور مستغفرین کے امام اور تمام متضرعین اور خاشعین کے قدوہ اور پیشوا ہیں۔ اور ابلیس نے اباء اور استکبار کی سنت سیئہ کو جاری کیا۔ قیامت تک جو شخص بھی حکم خداوندی سے اعراض و انکار کریگا۔ اس سے ابلیس کی ملعونیت اور مطرودیت میں برابر اضافہ ہوتا رہے گا۔ اس لیے کہ وہ کافرین اور مستکبرین کا امام اور احکام خداوندی پر اعتراض کرنے والوں کا پیشوا ہے۔ شیخ ابو العباس عرینی جو کہ شیخ محی الدین ابن عربی کے شیخ ہیں، وہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ معاذ اللہ حضرت آدم نے خدا کی نافرمانی نہیں کی بلکہ یہ معصیت اس بدبخت ذریت نے کی جو حضرت آدم کی پشت میں مستور تھی اس لیے کہ حضرت آدم کی پشت بمنزلہ سفینہ کے تھی جس میں ان کی تمام صالح اور طالح ذریت سوار تھی۔ حافظ ابن قیم قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ شاقنہ جب کسی بندہ کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو ظاہرا ً اس کو ذنب اور معصیت میں مبتلا کرتے ہیں۔ مگر حقیقت میں وہ ایک باطنی مرض یعنی اعجاب اور خود پسندی کا علاج ہوتا ہے، ایسی حالت میں ذنب اور معصیت میں مبتلا ہونا ہزار طاعتوں سے زائد نافع اور مفید ہوتا ہے اور صاحب بصیرت کے نزدیک یہ معصیت ایں خطا از صد ثواب اولی تر است۔ کا مصداق ہوتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بعض مرتبہ صحت اور عافیت اتنی مفید اور کار آمد نہیں جتنا مرض مفید اور کار آمد ہوجاتا ہے اس لیے کہ مرض کے آتے ہی طبیعت، فوراً پرہیز اور علاج کی جانب متوجہ ہوجاتی ہے اور طبیب حاذق کے مشورہ سے پورے اہتمام کے ساتھ تنقیہ اور مسہل کو شروع کردیا جاتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چند ہی روز میں تمام فاسد اور ردی مادہ خارج ہو کر طبی عت، پہلے سے زائد صاف اور ٹھیک ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد پھر جب لذائذ وطیبات، فواکہ وثمرات، لظیف غذاؤ اور مقوی دواؤں کا استعمال کیا جاتا ہے تو اس قدر قوی ہوجاتا ہے کہ اس مرض سے قبل بحالت صحت بھی اتنا قوی نہ تھا۔ اسی طرح حضرت آدم (علیہ الصلوۃ والسلام) کا اس معصیت میں مبتلا ہو کر مسلسل تین سو سال تک توبہ اور استغفار اور گریہ وزاری کرتے رہنا (جیسا کہ بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے) بجائے منقصت کے رفعت شان کا باعث ہوگیا۔ چناچہ حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں۔ وعصی ادم ربہ فغوی۔ ثم اجتبہ ربہ فتاب علیہ وھدی آدم نے اپنے پروردگار کی حکم عدولی۔ پس ان کی عیش مکدر ہوگئی پھر خدا نے ان کو برگزیدہ بنایا اور ان پر خاص توجہ فرمائی اور ان کی رہنمائی کی۔ کیا ہر معصیت سے انسان معاذ اللہ خدا کا مجت بے اور برگزیدہ بندہ بن جاتا ہے۔ حاشا ثم حاشا ہاں ایسی معصیت کے بعد خدا کے فضل و رحمت سے مجتبی اور برگزیدہ بن سکتا ہے جس معصیت کے بعد آدم (علیہ السلام) جیسی ندامت اور شرمساری اور تضرع اور زاری ظہور میں آئے۔ ماعز اسلمی ؓ وارضاہ ایک صحابی تھے۔ حضرات صحابہ میں ان کو کوئی خاص شان امتیازی حاصل نہ تھی۔ بمقتضائے بشریت زنا میں مبتلا ہوگئے۔ مگر بعد میں اس درجہ صمیم قلب اور اخلاص سے توبہ کی کہ نبی کریم (علیہ السلام) اس توبہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ واللہ اگر ماعز کی توبہ تمام مدینہ پر تقسیم کی جائے تو یقیناً سب کی نجات کے لیے کافی اور وافی ہوگی۔ زنا بیشک معصیت تھا مگر ماعز اسلمی کی مضطربانہ اور بےتابانہ ندامت اور شرمساری اور گریہ وزاری نے اس کو عند اللہ ایسا مقبول اور محبوب بنا دیا کہ سارے عالم کی عفت وعصمت اس پر فدا اور قربان ہے۔ ماعز اسلمی کو زنا کے سبب سے جو عند اللہ تقرب حاصل ہوا وہ اب بڑے سے بڑے والی کو نماز سے بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ خوب سمجھ لہ کہ کہیں لغزش نہ ہوجائے۔ اس مثال سے معاذ اللہ یہ مقصد نہیں کہ حضرات انبیاء بھی اس قسم کے کبائر میں مبتلا ہوسکتے ہیں اس لیے کہ میں ابتداء ہی میں مبتلا ہوچکا ہوں کہ انبیاء کرام کبائر سے بالکلیہ معصوم ہوتے ہیں۔ اس مثال سے صرف اتنا بتلانا مقصود ہے کہ بعض مرتبہ زلت اور معصیت کا صدور طاعت سے زیادہ نفع بخش ہوتا ہے اور وہ معصیت بجائے منقصت کے رفعت شان کا باعث ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اس زلت اور لغزش سے حضرت آدم (علیہ السلام) کی شان میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بلکہ توبہ اور استغفار کے مقرون ہوجانے کی وجہ سے ان کی شان اور بلند ہوگئی۔ اور گویا کہ بزبان حال حضرت آدم سے اس وقت یہ کہا جارہا تھا۔ یا ادم لا تجزع من کاس زلل کانت سبب کیسک فقد استخرج منک داء لا یصلح ان تج اور نا بہ والبست بہ حلۃ العبودیۃ (شعر) لعل عتبک محمود عواقبہ وربما صحت الاجسام بالعلل یا ادم ذنب تذل بہ لدینا احب الینا من طاعۃ تدل بھا علینا یا ادم انین المذنبین احب دلینا من تسبیح المدلین۔ مدارج السالکین ص 166 ج 1) اے آدم تو اس لغزش کے پیالہ سے مت گھبرا کہ جو تیری ہوشیاری اور احتیاط کا سبب بنا اسی کی وجہ سے تجھ سے وہ عجب کی بیماری نکال دی گئی جس کے ساتھ ہماری مجاورت ناممکن ہے اب اس کے بعد تم کو عبودیت اور بندگی کا حلہ اور خلعت عطاء کیا گیا۔ ترجمہ شعر : امید ہے کہ تیرے عتاب کا انجام نہایت محمود اور بہتر ہوگا اور بسا اوقات بیماریوں سے اجسام پہلے سے زائد تندرست ہوجاتے ہیں۔ اے آدم وہ گناہ ج س سے تو ہمارے نزدیک ذلیل ہو وہ اس طاعت سے بدرجہا محبوب ہے جس پر تو ناز کرے اور اے آدم گنہگاروں کی آہ وزاری ہمارے نزدیک ناز والوں کی تسبیح وتہلیل سے بدرجہا بڑھ کر محبوب ہے۔ مرکب توبہ عجائب مرکبست برفلک تازد بیک لحظہ زپست چوں بر ارند از پشیمانی انین عرش لرزد از انین المذنبین ولی اور رسول میں فرق ولایت تقوی اور طہارت کی ایک سند (ڈگری) ہے جو بندہ کی جدو جہد اور سعی اور اکتساب سے ملتی ہے اور نبوت و رسالت ایک عہدہ اور منصب ہے جو بدون حکم شاہی کے حاصل نہیں ہوسکتا۔ ولایت بمنزلہ ایک سند کے ہے کہ جو امتحان سے فراغ کے بعد مل جاتی ہے اور نبوت رسالت بمنزلہ عہدہ کے لیے محض قابلیت سے خود بخود کوئی وزیر اور سفیر نہیں بن جاتا جب تک حکم شاہی نہ ہو۔ واللہ یختص برحمتہ من یشاء حضرت مولانا محمد قاسم صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ اولیاء کی تعریف میں حق تعالیٰ شانہ کا یہ ارشاد وارد ہوا ہے ان اولیاءہ الا المتقون۔ اور رسول کی تعریف میں یوں فرماتے ہیں فلا یظھر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول۔ غرض حاصل ولایت اتقاء ہے۔ (جو بندہ کا فعل ہے) اور اتقاء مبنی للفاعل۔ اتقاء مبنی للمفعول کو مستلزم نہیں۔ تیر اور تلوار سے ہر بچنے کی اپنی سی تدبیر کرتا ہے مگر اس پر بھی کبھی زخم ہو ہی جاتا ہے اور حاصل رسالت کا ارتضاء ہے کیونکہ من رسول بیان ہے من ارتضیٰ کا معلوم ہوا کہ رسول اللہ کا مرتضیٰ ہوتا ہے اور ارتضاء فعل خداوندی ہے کیونکہ ارتضیٰ کا فاعل ضمیر راجع الی اللہ ہے اور سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اطاعت سے راضی ہوتے ہیں اور معصیت سے ناخوش۔ ان اللہ لا یرضی عن القوم الفاسقین۔ معلوم ہوا کہ رسول کے لیے من کل الوجوہ کا مرتضی ہونا ضروری ہے اور من کل الوجوہ ارتضاء یہی حاصل معصومیت کا ہے۔ (اجوبۂ اربعین ص 91 حصۂ دوم) فائدہ : حق جل شانہ نے قرآن کریم میں انبیاء کی لغزشوں کو اس لیے بیان فرمایا ہے کہ ان حضرات کی شان اور متبہ معلوم ہو کہ یہ حضرات خدا تعالیٰ کے اس درجہ مقرب تھے کہ ذرا ذرا سی بات پر مؤاخذہ ہوتا تھا اور وہ خداوند ذوالجلال کے مؤاخذہ سے لرزاں اور ترساں رہتے تھے حضرات انبیاء کی یہ لغزشیں ہی در حقیقت ان کی معصومیت کی دلیل ہیں جس شخص کا مرتبہ جس قدر بلند ہوتا ہے اسی قدر اس کی معمولی سی بات بھی غیر معمولی بن جاتی ہے۔ عصمت انبیاء اور حفاظت اولیاء میں فرق شیخ اکبر فرماتے ہیں کہ حضرات انبیاء کرام ہر وقت بارگاہ خداوندی میں مقیم رہتے ہیں کسی وقت حق تعالیٰ شانہ کی عظمت اور جلال انکی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ حضرات انبیاء معاصی سے معصوم ہوتے ہیں اور اولیاء اللہ بارگاہ خداوندی میں آتے جاتے رہتے ہیں مگر مقیم نہیں اس لیے اولیاء معاصی سے محفوظ تو ہوتے ہیں مگر معصوم نہیں ہوتے اور عصمت اور حفاظت میں یہ فرق ہے کہ اولیاء معاصی سے محفوظ تو ہوتے ہیں مگر معصوم نہیں ہوتے اور عصمت اور حفاظت میں یہ فرق ہے کہ اولیاء بسا اوقات مباحات اور جائز امور کو محض حظ نفس اور طبعی میلان اور خواہش کے لیے کر گزرتے ہیں۔ مگر حضرات انبیاء کسی وقت بھی طبعی میلان اور خواہش کے لیے کر گزرتے ہیں۔ مگر حضرات انبیاء کسی وقت بھی طبعی معیلان اور حظ نفس کے لیے مباح اور جائز امر کا ارتکاب نہیں فرماتے۔ ہاں جب کسی شئی کی عنداللہ اباحت اور اس کا خدا کے نزدیک جائز ہونا بتلانا مقصود ہوتا ہے تب اس مباح کو استعمال فرماتے ہیں تاکہ امت کو نبی کے کرنے سے اس فعل سے اس کا مباح اور جائز ہونا معلوم ہوجائے اور جس طرح نبی پر فرض کی تعلیم فرض ہے اسی طرح فعل مباح اور امر جائز کی اباحت اور جواز کا بتلانا بھی فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کو ایک فعل مباح پر بھی فرض ہی کا ثواب اور اجر ملتا ہے اس لیے کہ نبی کے ذمہ مباح کی اباحت کا بتلانا بھی فرض ہے۔ اب ہم حضرات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی عصمت کے کچھ دلائل ذکر کرتے ہیں۔ جو زیادہ تر امام فخر الدین رازی قدس اللہ سرہ کی تفسیر کبیر سے لیے گئے ہیں۔ دلائل عصمت انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام دلیل اول : قال اللہ تعالیٰ من یطع الرسول فقد اطاع اللہ واطیعو اللہ والرسول لعلکم ترحمون جس شخص نے رسول کی اطاعت کی پس تحقیق اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ پہلی آیت میں رسول کی اطاعت کو اپنی ہی اطاعت قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ غیر معصوم کی اطاعت کو عین اطاعت خداوندی کہا جاسکتا۔ اطاعت رسول اور اطاعت خداوندی میں اتحاد اور عینیت جب ہی ممکن ہے جب رسول حق جل وعلا کی معصیت کے شائبہ سے بھی بالکلیہ پاک ہو اور تاکید وتحقیق کے لیے کلمۂ قد کا اضافہ فرمایا۔ تاکہ کوئی شخص اطاعت حق جل شانہ اور اطاعت رسول میں کسی قسم کی تفریق نہ قائم کرے۔ کما قال سبحانہ وتعالیٰ ۔ ان الذین یکفرون باللہ ورسلہ ویریدون ان یفرقوا بین اللہ ورسلہ ویقولون نؤمن ببعض ونکفر ببعض ویریدون ان یتخذوا بین ذلک سبیلا اولئک ھم الکفرون حقا۔ اور دوسری آیت میں رسول کی علی الاطلاق اطاعت کا حکم دیا ہے۔ اور اس پر رحمت کا وعدہ فرمایا ہے اور ظاہر ہے کہ غیر معصوم شخص کی اطاعت کا علی الاطلاق کسی طرح حکم نہیں دیا جاسکتا اور اسی وجہ سے کہ خلفاء اور امراء معصوم نہیں۔ علی الاطلاق ان کی اطاعت کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ ان کی اطاعت کا یہ معیار مقرر ہوا۔ السمع والطاعۃ حق مالم یؤمر بمعصیۃ فاذا امر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ (بخاری) امیر کی سننا اور اس کی اطاعت ضروری ہے جب تک معصیت کا حکم نہ کیا جائے اور امیر جب معصیت کا حکم کرے تو پھر اس کی اطاعت نہیں۔ اور جن آیات میں نبی کی اطاعت کا حکم فرمایا ہے۔ ان میں کسی جگہ مالم یؤمر بمعصیۃ (جب تک معصیت کا حکم نہ دیا جائے) کی قید نہیں اضافہ کی گئی جس سے صاف ظاہر ہے کہ نبی کا کوئی فعل معصیت کا حکم نہ دیا جائے) کی قید نہیں اضافہ کی گئی جس سے صاف ظاہر ہے کہ نبی کا کوئی فعل معصیت ہوتا ہی نہیں تاکہ امراء اور خلفاء کی طرح ان کے اتباع میں یہ قید لگائی جائے اور علیٰ ہذا غیر معصوم شخص کی علی الاطلاق اطاعت بلا قید مذکور رحمت خداوندی کا سبب بھی نہیں ہوسکتی۔ دلیل دوم : نیز اگر انبیاء کرم معاصی سے معصوم نہ ہوں تو عیاذاً باللہ انبیاء کرام کا غیر مقبول الشہادۃ ہونا لازم آئیگا اس لیے کہ عاصی فاسق ہوتا ہے اور فاسق کی شہادت مقبول نہیں لقلوہ تعالیٰ ان جاء کم فاسق بنبا فتبینوا۔ تو پھر قیامت کے دن بمقابلہ امم حضرات انبیاء کی شہادت کیسے مقبول ہوگی۔ حالانکہ قرآن عزیز میں ہے کہ ہر نبی قیامت کے دن اپنی امت پر گواہی دے گا۔ کما قال تعالی۔ فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید وجئنا بک علی ھؤلاء شھیدا۔ پس کیا حال ہوگا جب کہ ہم بلائیں گے ہر امت میں سے گواہی دینے والا اور حال کا بیان کرنے والا اور آپ کو ان سب پر گواہ بنائیں گے۔ دلیل سوم : نیز صورت مفروضہ میں نبی کا مستحق عذاب اور مستحق لعنت ہونا لازم آتا ہے جو ایک عاصی اور گنہ گار کا حکم ہے۔ کما قال تعالیٰ ۔ 1 ۔ و من یعص اللہ ورسولہ فان لہ نار جھنم خالدا فیھا جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو یقیناً اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا 2 ۔ الا لعنۃ اللہ علی الظالمین خبردار ! کہ اللہ کی لعنت ہے نافرمانوں پر حالانکہ کوئی نبی کسی کے نزدیک مستحق عذاب اور مستحق لعنت نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ جو شخص عذاب الٰہی اور لعنت خداوندی کا مستحق ہو وہ نبی اور سول تو درکنار متقی اور صالح بھی نہیں ہوسکتا۔ دلیل چہارم : نیز حضرات انبیاء کا کام یہ ہے کہ لوگوں کو حق جل شانہ کی اطاعت کی طرف بلائیں پس اگر وہ خود اللہ کے مطیع اور فرمانبردار بندے نہ ہوں تو وہ اس آیت کے مصداق ہوں گے۔ اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم وانتم تتلون الکتاب افلا تعقلون کیا تم دوسروں کو بھلی بات کا حکم کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب اللہ کو پڑھتے رہتے ہو۔ پس کیا تم عقل نہیں رکھتے۔ لم تقولون مالا تفعلون کبر مقتا عنداللہ ان تقولوا ما لا تفعلون : کیوں کہتے ہو وہ باتیں جو تم خود نہیں کرتے دوسروں کو کہنا اور خود نہ کرنا یہ اللہ کے نزدیک سخت مذموم اور اس کے غضب اور ناراضی کا سبب ہے۔ حالانکہ یہ بات ایک ادنی واعظ اور معمولی عالم کے لیے بھی مناسب نہیں۔ حضرات انبیاء ومرسلین کی شایان شان تو کیسے ہوسکتی ہے۔ دلیل پنجم : نیز اگر انبیاء کرام سے کبائر ومعاصی کا صدور جائز رکھا جائے تو پھر معاذ اللہ انبیاء کو معاصی پر تنبیہ اور زجر وتوبیخ اور ایذاء رسانی بھی جائز ہونی چاہئے جو خدائے عز وجل کے نافرمانوں کے لیے لازم اور ضروری ہے حالانکہ نبی کو کسی قسم کی ایذاء اور تکلیف پہنچانا دنیا اور آخرت کی لعنت اور عذاب الیم کا سبب ہے کما قال تعالی۔ 1 ۔ ان الذین یؤذون الہ ورسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا والاخرۃ بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں۔ ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی لعنت ہو۔ 2 ۔ والذین یؤ ذوان رسول اللہ لھم عذاب الیم جو لوگ اللہ کے رسول کو ایذاء پہنچاتے ہیں ان کے لیے نہایت ہی دردناک عذاب ہے دلیل ششم : نیز انبیاء کرام کا تمام گنہ گاروں سے زائد مستحق عذاب ہونا لازم آئے گا۔ اس لیے کہ انبیاء کا مرتبہ سب سے بلند ہے اس لیے انبیاء سے معصیت کا صدور بھی بہت بڑا سمجھا جائیگا۔ یہی وجہ ہے کہ جاریہ پر بمقابلۂ حرہ نصف حد آتی ہے اور زانی محصن پر رجم اور غیر محصن پر فقط جلد ہے۔ اور ازواج مطہرات کے لیے ارشاد ہے۔ یا نساء النبی من یات منکن بفاحشۃ مبینۃ یضاعف لھا العذاب ضعفین اے نبی کی عورتو ! تم میں سے جو صریح بیحیائی کا کام کرے تو اس کو دو چند مار ہوگی اور ظاہر ہے کہ نبوت اور رسالت سے کوئی اعلی اور ارفع مرتبہ نہیں۔ پس اگر نبی سے معاصی کا صدور روا رکھا جائے تو پھر نبوت و رسالت کے منصب کے مناسب نبی کو سب سے زائد معذب اور معتوب اور مغضوب خداوندی ماننا لازم آئے گا۔ اور جب نبی معاذ اللہ خدا کا معتوب اور مغضوب ٹھہرا تو پھر مقبول الٰہی کون ہوگا۔ دلیل ہفتم : نیز معصیت کا صدور ہمیشہ اتباع شیطان ہی کی وجہ سے ہوتا ہے پس اگر نبی معصوم نہ ہو تو نبی کا متبع شیطان ہونا لازم آئے گا۔ کما قال تعالیٰ ۔ ولقد صدق علیہم ابلیس ظنہ فاتبعوہ الا فرقا من ال مومن ین اور ابلیس نے ان پر اپنے گمان کو سچ کردکھایا سوائے تھوڑے سے ایمانداروں کے، لوگ اس کے پیرو ہوئے حالانکہ ان کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگ شیطان کے اتباع سے محفوظ رہیں۔ دلیل ہشتم : نیز غیر نبی کا نبی سے افضل ہونا لازم آئے گا اس لیے کہ آیت بالا میں متبعین شیطان سے مومنین کے ایک فریق کو مستثنے فرمادیا گیا ہے لہذا یہ فریق جو اتباع شیطان سے محفوظ ہے اگر حضرات انبیاء کا فریق ہے تو اس کا معصوم ہونا ثابت ہوتا ہے وہو المراد۔ اور اگر حضرات انبیاء کے سواء کوئی اور جماعت ہے تو یہ کہنا پڑے گا کہ ایک گروہ مومنین کا ایسا ہے جو اتباع شیطان سے بری ہے مگر عیاذاً باللہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اتباع شیطان سے بری نہیں اور ظاہر ہے کہ جو شخص اتباع شیطان سے بری ہوگا وہ اس شخص سے یقیناً افضل ہوگا جو اتباع شیطان سے بری نہیں کما قال تعالی۔ ان اکرمکم عنداللہ اتقکم دلیل نہم : حق تعالیٰ شانہ نے بندوں کو دو قسموں پر تقسیم فرمایا ہے ایک حزب الشیطان یعنی شیطان کا گروہ کما قال تعالیٰ : اولئک حزب الشیطان الا ان حزب الشیطان ھم الخاسرون : یہ شیطان کا گروہ ہے آگاہ ہوجاؤ شیطان کے گروہ ولے ہمیشہ خراب ہوتے ہیں۔ دوسرے حزب اللہ یعنی اللہ کا گروہ۔ کما قال تعالیٰ اولئک حزب اللہ الا ان حزب اللہ ھم المفلحون یہ اللہ کا گروہ ہے اور آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ ہی کا گروہ کامیاب ہوتا ہے۔ لہذا اگر نبی سے معاصی کا صدور روا رکھا جائے تو نبی کا عیاذاً باللہ بجائے حزب اللہ اور مفلحین کے حزب الشیطان اور خاسرین کی جماعت اور گروہ میں شمار کرنا لازم آئے گا۔ دلیل دہم : حق تعالیٰ شانہ نے خود ابلیس سے نقل فرمایا ہے کہ میرے اغواء سے تیرے مخلص بندوں کو گروہ مستثنی ہے کما قال تعالی۔ فبعزتک لا غوینھم اجمعین الا عبادک منہم المخلصین قسم ہے تیری عزت کی سوائے عباد مخلصین کے سب کو گمراہ کروں گا۔ اور من کل الوجوہ۔ عباد مخلصین کا مصداق صرف حضرات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام ہی ہیں جیسا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم الصلوۃ والسلام کی شان میں ہے۔ انا اخلصناھم بخالصۃ ذکری الدار اور حضرت یوست (علیہ السلام) کی شان میں ہے انہ من عبادنا المخلصین۔ دلیل یاز دہم : حق تعالیٰ شانہ نے جابجا قرآن عزیز میں انبیاء کرام کا بلا کسی تخصیص کے مصطفیٰ اور مجتبی ہونا ذکر فرمایا ہے یعنی یہ نبی ہمارے منتخب اور برگزیدہ بندے ہیں۔ یہ کسی جگہ نہیں فرمایا کہ فلاں امر اور فلاں صفت میں یہ ہمارے برگزیدہ ہیں۔ یا فلاں وصف کے اعتبار سے یہ ہمارے منتخب بندے ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حضرات کسی خاص صفت یا کسی خاص فعل کے لحاظ سے برگزیدہ نہیں بلکہ تمام افعال واقوال کے اعتبار سے منتخب اور برگزیدہ ہیں کما قال تعالی۔ وانھم عندنا لمن المصطفین الاخیار : اور تحقیق وہ ہمارے نزدیک منتخب اور چنے ہوئے اور نیک لوگوں میں سے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ من کل الوجوہ خدا کا برگزیدہ اور پسندیدہ مصطفیٰ اور مجتبی ہونا صدور معاصی کے بالکل منافی اور مباین ہے۔ دلیل دواز دہم : نیز حق تعالیٰ شانہ نے حضرات انبیاء کی یہ شان ذکر فرمائی ہے۔ عسارعون فی الخیرات : وہ بھلائیوں اور نیک کاموں میں نہایت تیز رو ہیں۔ اور الخیرات کو معرف بلام الاستغراق ذکر فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء کرام سے سوائے خیر محض کے کسی امر کا صدور ہوتا ہی نہیں دلیل سیز دہم : ہر عاصی اور گنہ گار کو شرعاً اور عرفاً ظالم کہنا جائز ہے اور قرآن عزیز میں بکثرت خدا کے نافرمانوں کو ظالم کہا گیا ہے۔ لہذا اگر نبی سے بھی معاصی کا صدور جائز ہو تو نبی کو بھی معاذ اللہ ظالم کہنا جائز ہوگا۔ حالانکہ ظالم کبھی نبی اور رسول نہیں ہوسکتا۔ کما قال تعالی۔ لا ینال عھدی الظالمین : میرا منصب ظالموں کو نہیں ملتا۔ کیونکہ اس آیت میں اگر عہد سے نبوت و رسالت مراد ہے تو صاف ظاہر ہے کہ گنہ گار اور ظالم کبھی نبی اور رسول نہیں ہوسکتا۔ اور اگر ولایات یا امامت ہے تب بھی مدعا حاصل ہے اس لیے کہ جب امامت اور ولایت جس کو نبوت و رسالت سے وہ نسبت بھی نہیں جو قطرہ کو دریائے عظیم کے ساتھ ہے جب وہی ظالم اور عاصی کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ تو نبوت و رسالت کا عظیم الشان اور جلیل القدر منصب کہاں حاصل ہوسکتا ہے۔ دلیل چہار دہم : قال اللہ تعالیٰ ھو الذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیہم ایاتہ ویزکیھم : اسی نے ان پڑھوں میں ایک رسول بھیجا جو ان پر اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتا ہے اور ان کو اپنی تعلیم وتربیت سے پاک اور صاف کرتا ہے۔ پس اگر نبی خود معصیت سے پاک نہیں تو وہ دوسروں کو کیسے مزکی اور پاک اور مطہر یعنی پاک اور صاف بنا دیتا ہے۔ دلیل پانز دہم : نیز نبی تو اللہ جل جلالہ کی جانب سے امت کے لیے اسوۂ حسنہ اور حق تعالیٰ شانہ کی اطاعت اور اخلاق خداوندی کا بہترین نمونہ ہوتا ہے تاکہ لوگ بےچون وچرا اس کا اتباع کریں اور اس کی ہر حرکت اور سکون اور اس کے ہر قول اور فعل کو اپنے لیے راہ عمل سمجھیں۔ کمال قال تعالیٰ ۔ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجوا اللہ والیوم الاخرہ وذکر اللہ کثیرا۔ تمہارے لیے اللہ کے رسول میں عمدہ نمونہ ہے ان کو دیکھ کر اللہ کی اطاعت کرو۔ یہ اس کے لیے جو اللہ سے اور یوم آخرت سے ڈرے اور اللہ کو بہت یاد کرے۔ اور اخلاق خداوندی اور اطاعت ربانی کا نمونہ اور خدا سے ڈرنے والوں کے لیے اسوۂ حسنہ وہی شخص ہوسکتا ہے جو حق جل وعلا کی معصیت اور نافرمانی سے بالکلیہ پاک اور منزہ ہو۔ دلیل شانز دہم : کوئی شخص اگر نبی اور پیغمبر کی موجودگی میں کوئی کام کرے اور نبی اس فعل پر سکوت کرے تو نبی کا یہ سکوت بالاجماع اس فعل کے جواز کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ پس جب نبی کا سکوت ہی اس فعل کو معصیت سے خارج کر کے جواز اور اباحت کی حد میں داخل کردیتا ہے تو یہ کیسے ممن ہے کہ خود نبی کا فعل معصیت سے خارج نہ ہو۔ دلیل ہفدہم : بعض لوگوں نے جب اللہ کی محبت کا دعویٰ کیا یہ آیت نازل ہوئی۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفرلکم ذنوبکم : اے محمد ! آپ یہ فرمادیجئے کہ اگر تم اللہ کو محبوب رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو۔ اللہ تم کو محبوب رکھے گا اور تمہارے گناہوں کی مغفرت کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں آپ کے اتباع کو اپنی محبت کا معیار قرار دیا ہے۔ اور پھر آپ کی اتباع پر دو وعدے فرمائے ہیں۔ ایک یہ اگر تم ہمارے نبی کا اتباع کرو گے تو ہم تم کو محبوب بنا لیں گے۔ دوسرے یہ کہ تمہارے گناہوں کی مغفرت کریں گے۔ اور ظاہر ہے کہ اللہ کی محبت کا معیار ایسے ہی شخص کا اتباع ہوسکتا ہے جو معصوم ہو ورنہ ایک عاصی اور گناہ گار کا اتباع محبت خداوندی کا معیار کیسے بن سکتا ہے اور نہ محبت الٰہی اور مغفرت ذنوب کا سبب ہوسکتا ہے۔
Top