Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 38
قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا١ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
قُلْنَا : ہم نے کہا اهْبِطُوْا : تم اتر جاؤ مِنْهَا : یہاں سے جَمِیْعًا : سب فَاِمَّا : پس جب يَأْتِيَنَّكُمْ : تمہیں پہنچے مِنِّیْ : میری طرف سے هُدًى : کوئی ہدایت فَمَنْ تَبِعَ : سو جو چلا هُدَايَ : میری ہدایت فَلَا : تو نہ خَوۡفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
ہم نے فرمایا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ، جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (اس کی پیروی کرنا کہ) جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے
اعادۂ حکم ہبوط قال تعالیٰ قلنا اھبطوا منہا جمیعا۔۔ الی۔۔۔ ھم فیھا خلدون گزشتہ آیت میں حضرت آدم (علیہ الصلوۃ والسلام) کی توبہ کا قبول ہونا ذکر فرمایا اب آئندہ آیات میں یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ توبہ قبول ہونے کے بعد بھی آدم (علیہ السلام) کو بہشت میں آنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اس لیے کہ دنیا میں ہدایت اور حضرات انبیاء ومرسلین کی بعثت کا سلسلہ جاری کرنا ہے تاکہ اطاعت اور نافرمانی کا مادہ ظہور میں آجائے۔ چناچہ ہم نے ان کو حکم دیا کہ تم فی الحال اسی جگہ رہو جہاں تم کو بہشت سے اتارا گیا ہے، یعنی فی الحال دنیا ہی میں رہو۔ سر دست بہشت میں جانے کی اجازت نہیں، تم سب کے سب فی الحال اسی جگہ رہو اس لیے کہ اگر تم کو اسی وقت بہشت میں جانے کی اجازت نہیں، تم سب کے سب فی الحال اسی جگہ رہو اس لیے کہ اگر تم کو اسی وقت بہشت میں جانے کی اجازت دی جائے تو سب کا اجتماع مبدل بہ تفرقہ ہوجائے گا۔ حضرت آدم کی پیروی کرنیوالوں کو بہشت میں پہنچادیا جائیگا اور بدوں اور بدکاروں کو یا تو یہیں چھوڑدیا جائیگا یا پھر دوزخ میں بھیجدیا جائیگا اور یہ تفرقہ مقصود اور غرض کے منافی ہے۔ اتارنے سے مقصود تکلیف احکام اور اطاعت اور فرمانبرداری کا امتحان ہے پس زمین میں اتارنے سے مقصد ہی یہ ہے کہ امر ونہی کے ذریعہ سے تمہارا امتحان کریں۔ پس اے اولاد آدم خوب سمجھ لو اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے، پس جو لوگ میری ہدایت کا اتباع کریں گے ان پر نہ آئندہ کا کوئی ڈر ہوگا کہ مثلاً یہاں سے نکالے جائیں اور نہ گزشتہ پر وہ مغموم ومحزون ہوں گے مثلا یہ حسرت کہ ہم سے فلاں راحت اور لزت فوت ہوگئی وہاں پہنچ کر ایسی لذتیں اور مسرتیں ہیں کہ دنیا کی ساری لذتیں اور مسرتیں ان کے سامنے ہیچ ہوجائیں گی۔ : پہلی بار ہبوط کا حکم جنت سے اترنے کے لیے تھا اور دوسری باری ہبوط کا حکم زمین میں مقیم رہنے کے لیے ہے۔ : خدا کی ہدایت پر چلنے والوں کو اس قسم کا خوف نہ ہوگا جیسا کہ مجرمین اور نافرمانوں کو ہوتا ہے کہ دیکھئے اس جرم کی اب کیا سزا ملتی ہے۔ اس آیت میں اس قسم کے خوف کی نفی مراد ہے۔ باقی حق تعالیٰ شانہ کی عظمت اور جلال کا خوف وہ سب پر طاری ہوگا۔ انبیاء ورمرسلین بھی خدا کی عطمت اور جلال سے کانپتے ہوئے ہوں گے نیز اس آیت میں بالکلیہ خوف کی نفی نہیں کی گئی بلکہ خوف کے احاطہ اور استیلاء کی نفی کی گئی ہے۔ اس لیے کہ کلمہ علی کلام عرب میں استیلاء اور احاطہ کے لیے مستمعل ہوتا ہے۔ پس فلا خوف علیھم کے یہ معنی ہوں گے کہ خوف ان پر غالب اور ان کو محیط نہ ہوگا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر خوف اگرچہ غالب نہ ہو مگر کسی نہ کسی قسم کا خوف ضرور ہوگا۔ وہ خوف خدا کی عظمت اور جلال کا ہے۔ نیز اس میں کافروں کی طرف تعریض بھی ہے کہ قیامت کے دن خوف ان کو محیط ہوگا۔ اور ڈر اور اندیشہ ہر طرف سے ان کو گھیرے ہوئے ہوگا۔ بخلاف اہل ایمان کے کہ ان پر خوف غالب نہ ہوگا۔ اور جو لوگ میری ہدایت سے منکر ہوئے اور ہماری نشانیوں کو جھٹلایا ایسے ہی لوگ جہنم والے ہیں ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ کبھی بھی اس سے نہ نکلیں گے۔ کما قال تعالی۔ وما ھم بخارجین من النار۔ ہبوط آدم (علیہ السلام) کے اسرار وحکم گزشتہ آیت یعنی فتلقی ادم من ربہ کلمات فتاب علیہ انہ ھو التواب الرحیم میں حضرت آدم علیہ الصلوہ والسلام کی توبہ اور اس کی اجابت کا ذکر تھا کہ ہم نے آدم کی توبہ قبول کی تو ممکن ہے اس سے یہ شبہ ہو کہ ہبوط اور زمین پر اترنے کا حکم لغزش کی وجہ سے تھا شاید قبول توبہ کے بعد وحکم باقی نہ رہے۔ اس لیے ہبوط کے حکم کا پھر اعادہ فرمایا۔ اگرچہ توبہ قبول ہوچکی۔ مگر یہ حکم بحالہ باقی ہے تاکہ سب کو معوم ہوجائے کہ ہبوط کا حکم لغزش کی وجہ سے نہیں تاکہ قبول توبہ سے اس کے منسوخ ہونے کا خیال یا شبہ کیا جائے بلکہ وہ حقیقت میں انی جاعل فی الارض خلیفۃ کا وعدہ پورا کرنے کے لیے ہے زمین کی خلافت جس کا حضرت آدم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ خود اس کو مقتضی ہے کہ ان کو زمین پر اتارا جائے حضرت آدم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ خود اس کو مقتضی ہے کہ ان کو زمین پر اتارا جائے حضرت آدم سے جنت کی خلافت کا وعدہ نہ تھا بلکہ زمین کی خلافت کا وعدہ تھا اس لیے ہبوط کا حکم قبول توبہ کے بعد بھی برقرار رہا۔ بعض عارفین سے یہ منقول ہے کہ جب حضرت حق جل شانہ نے حضرت آدم اور حواء کو یہ خطاب فرمایا۔ لا تقربا ھذہ الشجرۃ فتکونا من الظالمین۔ تو اس خطاب میں خود اس طرف اشارہ تھا کہ حضرت آدم اس خطا میں مبتلاء ہو کہ جنت سے علیحدہ ہوں گے۔ اور جنت کی یہ سکونت چند روزہ ہے دائمی نہیں چناچہ ویا ادم اسکن انت وزوجک الجنۃ۔ خود اس پر دلالت کرتا ہے کہ جنت چند روز کے لیے دار سکونت ہے نہ کہ دار اقامات اس لیے کہ ہمیشہ رہنے والے کے لیے امر ونہی حظر وباحت (روک ٹوک) کے احکام نہیں جاری ہوتے اس کے علاوہ حضرت آدم (علیہ الصلوۃ والسلام) کے اتارنے میں اور بھی بہت حکمتیں ہیں۔ منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ حق تعالیٰ شانہ کے اسماء حسنی میں سے غفور اور رحیم، عفو اور حلیم، خافض اور رافع، معز اور مذل بھی ہیں۔ اس لیے حق تعالیٰ شانہ کی حکمت بالغہ اس کو مقتضی ہوئی کہ کوئی دار اور محل ایسا ہونا چاہئے جس میں ان اسماء حسنی صفات علی کے آثار ظاہر ہوں جس کے لیے چاہے مغفرت کرے اور جس پر چاہے رحم کرے جس کو چاہے پست کرے اور جس کو چاہے بلند کرے، جس کو چاہے عزت دے جس کو چاہے ذلت دے اس لیے حضرت آدم اور ان کی ذریت کو جنت سے زمین پر اتارا تاکہ ان اسماء حسنی کے آثار ظاہر ہوں جن کے ظہور کے لیے دار دنیا ہی مناسب ہے نہ کہ دار آخرت۔ نیز حضرت آدم (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پشت میں وہ لوگ بھی تھے جو جنت میں رہنے کے اہل نہ تھے۔ حضرت آدم کی پشت بمنزلہ سفینہ کے تھی جس میں نیک وبد ہر قسم کے لوگ سوار تھے۔ اس لیے دنیا میں اترنے کا حکم ہوا تاکہ خبیث کو طیب سے اور شقی کو سعید سے اور مومن کو کافر سے جدا اور الگ کی اجائے اور پھر خبیثین کو دار الخبیثین یعنی جہنم میں اور طبیب کو دار الطیبین یعنی جنت میں بسائے کما قال تعالی۔ لیمیز اللہ الخبیث من الطیب : تاکہ اللہ خبیث کو طیب سے جدا کردے۔ اور تاکہ ان اشقیاء اور خبیثین کے مقابلہ میں انبیاء ومرسلین اور عبادہ صالحین کا سلسلہ جاری ہو۔ دوستوں کا دشمنوں کے ذریعہ امتحان ہو۔ جب اللہ کے مخلص بندے اس کی راہ میں جان ومال کو خرچ کریں اور اس کے دشمنوں سے اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے جہاد قتال کریں۔ جانبازی اور سرفروشی سے کسی قسم کا دریغ نہ کریں خدا کے دوستوں سے دوستی اور اس کے دشمنوں سے دشمنی کریں تو حق تعالیٰ شانہ ان کو درجات عالیہ اور اپنے تقرب اور رضا و خوشنودی سے سرفراز فرمائے۔ نبوت و رسالت، امامت اور خلافت شہادۃ فی سبیل اللہ اور حب فی اللہ اور بغض فی اللہ خدا کے دوستوں سے محبت اور موالات۔ اور اس کے دشمنوں سے نفرت اور بیزاری اور دشمنی اور معادات یہ تمام فضائل کمالات زمین ہی پر اتارے جانے کے نتائم وثمرات ہیں۔ جنت میں رہ کر یہ باتیں کہاں ممکن تھیں ہبوط آدم علیہ السلوۃ والسلام کے اسرار وحکم کی اگر تفصیل درکار ہے تو حافظ شمس الدین ابن قیم قدس اللہ سرہ کی تصنیف لطیف یعنی مفتاح دار السعادۃ کا مطالعہ فرمائیں۔ حافط موصوف مدارج السالکین میں فرماتے ہیں۔ یا ادم انما ابتلیتکم بالذنب لانی احب ان اظھری فضلی وجودی وکرمی علی من عصانی۔ لو لم تزنبوا لذھب اللہ بکم ولجاء بقوم یذنبون فیستغفرون فیغفر لھم یا ادم اذا عصمتک وعصمت بنیک من الذنوبفعلی من اجود بحلمی وعلی من اجود بعفوی ومغفرتی وتوبتی وانا التواب الرحیم یا ادم لا تجزع من قولی لک (اخرج منھا) فلک خلق تھا ولکن اھبط الی دا رالمجاھدۃ وابذر بذر التقوی وامطر علیہ سحائب الجفون فاذا الشتد الحب واستغلظ واستوی علی سوقہ فتعال فاحصدہ یا ادم ما اھبطتک من الجنۃ الا لتوسل الی فی الصعود وما اخرجتک منھا نفیا لک عنھا ما اخرجتک عنھا الا لتعود۔ (شعر) ان جری بیننا وبینک عتب وتناءت منا و منک الدیار فا لو داد الذی عھدت مقیم والعثار الذی اصبت جبار (مدارج السالکین ص 166 ج 1) ترجمہ : اے آدم میں نے تجھ کو گناہ میں مبتلا کیا اس لیے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنے فضل اور جودو کرم کو گنہ گاروں پر ظاہر کروں حدیث میں ہے کہ اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ تم کو فنا کردیتا اور ایسی قوم کو پیدا کرتا جو گناہ کر کے خدا سے مغفرت طلب کرتے اور خدا ان کی مغفرت فرماتا اے آدم تجھ کو اور تیری ذریت کو اگر معصوم بنا دوں تو اپنا حلم اور عفو وکرم اور مگفرت اور معافی کس پر ظاہر کروں حالانکہ میں تو رحیم ہوں۔ پس ضرور ہے کہ گنہ گار موجود ہوں تاکہ میں ان کی توبہ قبول کروں اور ان پر رحم کروں۔ اے آدم میرے (اخرج منھا) کہنے سے گھبراؤ مت اس لیے کہ جنت کو میں نے تیرے ہی لیے پیدا کیا ہے لیکن اس وقت تم مجاہدہ اور ریاضت کے لیے زمین پر اترو جو تمہارے لیے بمنزلہ خانقاہ یا غار کے ہے اور زمین آسمان کے اعتبار سے بمنزلہ غار ہی کے ہے۔ اور یہاں آکر تقویٰ کے تخم کی کاشت کرو اور چشم گریاں کی بارش سے اس کو سیراب کرو۔ جب یہ دانہ قوی اور مضبوط ہوجائے اور اپنے تنے پر کھڑا ہوجائے تو اس کو کاٹ لو۔ اے آدم تجھ کو اس لیے جنت سے اتارا تاکہ تیرے درجات اور مدارج اور بلند ہوں۔ اور جنت سے چند روز کے لیے اس لیے نکالا تاکہ اس سے بہتر حالت میں جنت کی طرف تو لوٹ کر آے۔ ترجمہ شعر : اگر ہمارے اور تیرے درمیان میں کوئی رنجش پیش آگئی ہے اور اگر ہمارے اور تیرے درمیان میں منزلوں کا فصل ہوگیا ہے تو کوئی پریشانی کی بات نہیں اس لیے کہ محبت ومودت کا تعلق اسی طرح باقی ہے۔ اور جو لغزش تم سے ہوگئی ہے اس کا تدارک ہوسکتا ہے۔ فوائد مستنبطہ از قصۂ آدم صلی اللہ علی نبینا وعیہ وبارک وسلم وشرف وکرم 1: قرآن کریم کے ظاہر سیاق سباق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم اللہ کے نبی اور رسول مکلم ہیں۔ یعنی ایسے رسول ہیں جن سے اللہ نے بالمشافہ کلام فرمایا چناچہ حدیث میں ہے۔ اخرج الطبرانی وابو الشیخ فی العظمت وابن مردویہ عن ابی ذر قال قلت یار سول اللہ اریت ادم انبیا کان قال نعم کان نبیا رسول کلمہ اللہ قبلہ قال یا ادم اسکن انت وزوجک الجنۃ۔ واخرج عبد بن حمید والاجری فی الاربعین عن ابی ذر قال یا رسول اللہ من کان اولھم یعنی الرسل قال ادم قلب یار سول اللہ انبی مرسل قال نعم خلقہ اللہ بیدہ ونفع فیہ من روحہ۔ ترجمہ : طبرانی اور ابو الشیخ نے کتاب العظمۃ میں اور ابن مردویہ نے ابوذر ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ کیا حضرت آدم نبی تھے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں نبی بھی تھے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں نبی بھی تھے اور رسول بھی جن سے اللہ نے بالمشافہ کلام فرمایا اور یہ کہا کہ یا ادم اسکن انت وزوجک اور عبد بن حمید اور آجری نے اربعین میں ابوذر ؓ سے ؓ سے روایت کیا ہے کہ یارسول اللہ سب سے پہلے رسول کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ آدم میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ حضرت آدم (علیہ السلام) کیا نبی مرسل تھے۔ فرمایا کہ ہاں اللہ نے ان کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی خاص روح ان میں پھونکی اور پھر ان کو ٹھیک بنایا۔ 2: افعال خداوندی کے اسراروحکم سوائے اس علیم و حکیم کے کسی کو معلوم نہیں۔ ملائکہ مقربین کو بھی سوائے سبحنک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم۔ کہنے کے کوئی چارہ نہ ہوا۔ عاقل کا کام یہ ہے کہ افعال خداوندی کے اسرار کے درپے نہ ہو۔ ملائکہ کی طرح سبحنک لا علم لنا۔ کہہ کر بےچون چرا تسلیم کرے۔ کرا زھرۂ آں کہ از بیم تو کشاید زبان جز بہ تسلیم تو زبان تازہ کردن باقرار تو نینگیختن علت از کار تو 3: حضرت آدم کی پیدائش سے پہلے ہی ملائکہ کے سامنے حضرت آدم کی خلافت کا ذکر کچھ تعلیم مشورہ کی جانب مشیر معلوم ہوتا ہے کہ کام کرنے سے پہلے مشورہ کرلینا چاہئے۔ اگرچہ حق تعالیٰ مشورہ سے بےنیاز ہے۔ 4: استحقاق خلافت کے لیے جب ملائکہ نے نحن نسبح بحمدک ونقدس لک۔ کہہ کر تسبیح وتحمید تقدیس وتمجید کو پیش کیا تو حق جل شانہ نے ملائکہ کے تسبیح و تقدیس کے جواب میں حضرت آدم کا علمی کمال ظاہر فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم میں مشغول ہونا تسبیح وتہلیل سے افضل اور بہتر ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ علم اللہ کے نزدیک بھی علم ہو۔ اللہ کے نزدیک علم وہ ہے جس سے خدا کی خشیۃ اور اس کی عظمت دل میں راسخ ہوتی ہو کما قال تعالی۔ (انما یخشی اللہ من عبادہ العلموء : جزایں نیست کہ ڈرتے ہیں اللہ سے اس کے بندوں میں سے صرف علماء) معلوم ہوا کہ خدا کے نزدیک عالم وہی ہے جو خدا سے ڈرتا ہو اور جو خدا سے نہیں ڈرتا وہ اللہ کے نزدیک عالم نہیں اگرچہ سارا عالم اس کو عالم کہے۔ علمے کہ راہ حق ننماید جہالتست۔ 5: ملائکہ کو سجدہ کا حکم دینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام ملائکہ سے افضل ہیں۔ اس لیے کہ مسجود ساجد سے افضل ہوتا ہے۔ 6: حدیث میں ہے کہ جب فرشتے صبح اور عصر کی نماز سے یا کسی محفل ذکر سے لوٹ کر جاتے ہیں تو حق تعالیٰ دریافت فرماتے ہیں کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں دیکھا تو عرض کرتے ہیں کہ نماز پڑھتے چھوڑا۔ حکمت اس میں یہ ہے کہ فرشتوں نے ایک بار کہا تھا۔ اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء۔ اور کلمہ مَن عام ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ سب ایسے ہی ہوں گے تو فرشتے موجبہ کلیہ کے مدعی تھے ان کے جواب کے لیے سالبہ جزئیہ کا ذکر کافی ہوگیا۔ یعنی ایک شخص یا ایک جماعت کا پیش کردینا جو اللہ کی مطیع کامل ہو ان کے موجبہ کلیہ توڑنے کے لیے کافی ہے یہ ضروری ہی نہیں کہ سارے ہی مطیع ہوں قیامت تک اسی طرح سوال و جواب ہوتا رہے گا۔ 7: اعجاب اور استکبار اور اللہ جل جلالہ کے حکم پر اعتراض اور خود ستائی نے ابلیس کو ملعون اور مطرود بنایا اور اطاعت اور انقیاد اور رضا و تسلیم اور عجز اور انکساری اور ندامت اور شرمساری اور توبہ اور استغفار نے حضرت آدم کی شان کو بڑھایا۔ 8: نیز اس قصہ سے معلوم ہوا کہ جنت پیدا ہوچکی ہے جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے معتزلہ کہتے ہیں کہ جنت ابھی پیدا نہیں ہوئی۔ 9: کافر ہمیشہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے کبھی نجات نہ پائیں گے۔ 10: غلطی سے خلاف حکم خداوندی کوئی کام کر گزرنا معصیت ہے اور حکم خداوندی کو غیر معقول اور خلاف سمجھنا یہ کفر ہے۔ (11) فائدہ جلیلہ ترک اطاعت اور ارتکاب معصیت میں فرق سہل بن عبداللہ (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے قصہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ترک امر یعنی امر الٰہی کا امتثال نہ کرنا اور حکم خداوندی کو نہ ماننا ارتکاب نہی سے زیادہ سخت ہے ابلیس نے حکم الٰہی اور امر خداوندی یعنی حکم سجود سے انحراف کیا۔ مطرود ومردود ہوا اور آدم (علیہ السلام) نے ایک نہی کا ارتکاب کیا۔ یعنی جس درخت سے کھانے کی انکو ممانعت کی گئی تھی اس کو کھایا، بارگاہ خداوندی سے عتاب ہوا۔ حضرت آدم کو اس عتاب کی کہاں تاب تھی فوراً ہی توبہ اور استغفار کی اور صد ہزار گریہ وزاری کے ساتھ اپنے رب کریم سے عفو اور مغفرت کی درخواست کی اللہ نے اپنی رحمت سے توبہ قبول فرمائی اور حلۂ اجتباء واصطفاء سے سرفراز فرمایا۔ اوّل یہ کہ ترک امر کا جرم ارتکاب نہی کے جرم سے اس لیے زیادہ سخت ہے کہ ارتکاب نہی کا منشاء ہمیشہ غلبہ شہوت ہوتا ہے اور ترک امر کا منشاء ہمیشہ استکبار اور اعجاب (خود پسندی) ہوتا ہے، حدیث میں ہے کہ جس کے قلب میں ذرا برابر بھی کبر یعنی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں، کبریائی میری رداء ہے اور عظمت میری ازار ہے، جو شخص اس میں میری منازعت کرتا ہے میں اس کو کچل ڈالتا ہوں۔ بخلاف اس شخص کے کہ جو ایمان لانے کے بعدشہوات میں منہمک رہا وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جس نے لا الہ الا اللہ کہا وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا۔ اگرچہ وہ چوری اور زنا کرے۔ دوم یہ کہ : اللہ کے نزدیک امتثال امر اور فعل مامور بہ یعنی حکم الہی کا بجا لانا بہ نسب منہیات سے احتراز اور اجتناب کے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ کے نزدیک اپنے وقت پر نماز کا ادا کرنا ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ خیر الاعمال یعنی سب سے بہتر عمل ذکر اللہ ہے۔ اسی وجہ سے حق جل شانہ نے جا بجا قرآن کریم میں اپنی محبت کو امتثال احکام اور اوامر کی بجا آوری پر معلق فرمایا ہے۔ کما قال تعالیٰ ۔ ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا۔ وقال تعالیٰ واللہ یحب المحسنین۔ وقال تعالیٰ واقسطوا ان اللہ یحب المقسطین وقال تعالیٰ واللہ یحب الصابرین۔ ان آیتوں میں اللہ نے اپنی محبت کو ان لوگوں کے لیے مخصوص فرمایا ہے جو اس کے ان احکام اور اوامر کو بجا لاتے ہیں۔ یعنی جہاد فی سبیل اللہ احسان، عدل واقساط، صبر و تحمل کو حق جل شانہ نے جب کبھی ذکر فرمایا ہے تو محبت کی نفی کے ساتھ ذکر فرمایا ہے تو محبت کی نفی کے ساتھ ذکر فرمایا ہے کما قال تعالیٰ واللہ لا یحب الفساد وقال تعالیٰ واللہ لا یحب کل مختار فخور۔ وقال تعالیٰ ولا تعتدوا ان اللہ لا یحب المعتدین وقال تعالیٰ لایحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم۔ وقال تعالیٰ ان اللہ لا یحب من کان مختالا فخورا۔ سوم : یہ کہ اوامرو احکام کی تعمیل مقصود لذاتہ ہے اور مہیات سے بچنا مقصود بالذات نہیں بلکہ فعل مامور بہ کی تکمیل کے لیے ہے اس لیے کہ منہیات اور محظورات کا ارتکاب، عبادت اور بندگی اور احکام کی بجا آوری میں مخل ہے۔ چناچہ حق جل شانہ نے تحریم خمر اور تحریم قمار کی علت یہ ذکر فرمائی ہے۔ یصدکم عن ذکر اللہ عن الصلوۃ فھل انتم منتھون۔ شراب اور قمار اللہ کے ذکر اور نماز سے تم کو روکتے ہیں پس کیا تم ان سے باز نہ آؤ گے۔ چہارم : یہ کہ طاعات اور مامورات کی بجا آوری ہی روح کی غذاء ہے۔ بغیر ایمان و تسلیم اور بغیر اطاعت اور انقیاد کے روح کی حیات ناممکن ہے اور محظورات ومنہیات سے بچنا بمنزلہ پرہیز کے ہے۔ پرہیز اس لیے کرایا جاتا ہے تاکہ حیات اور قوت میں فتور نہ آئے۔ اصل مقصود حیات اور ہیز حیات کی نگہبانی کے لیے ہے۔ پنجم : یہ کہ عبادت جس کے لیے جن وانس کو پیدا کیا گیا۔ وہ امتثال اوامر اور احکام خداوندی کی بجا آوری ہی کا نام ہے جن وانس کو فقط منہیات اور محظورات سے بچنے کے لیے نہیں پیدا کیا گیا (بلکہ عبادت اور بندگی اور احکام خداوندی کی تعمیل کے لیے پیدا کیا گیا ہے) زنا اور سرقہ وغیرہ سے باز رہنے کا نام عبادت نہیں بلکہ جو حکم اس احکم الحاکمین نے دیا اس کو دل وجان سے بجا لانے کا نام عبادت اور بندگی ہے۔ ششم : یہ کہ ایک حکم کی تعمیل سے دس گونہ سے لیکر سات سو گونہ بلکہ لا الی نہایۃ ثواب ملتا ہے اور منہی عنہ کے ارتکاب سے صرف ایک گناہ لکھا جاتا ہے، اس سے بھی صاف ظاہر ہے کہ ترک امر اور عدم تعمیل حکم کا جرم ارتکاب نہی کے جرم سے کس قدر اعظم ہے۔ ہفتم : یہ کہ طاعت اور عبادت اور احکام کی بجا آوری اور ان کا اجر وثواب تمام تر صفت رحمت سے متعلق ہے، اور محظورات وممنوعات کا ارتکاب اور ان پر سزا اور عقاب یہ سب صفت غضب اور انتقام سے متعلق ہے اور صفت رحمت صفت غضب پر سابق ہے۔ غضب، رحمت پر سابق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نزدیک رحمت عذاب سے اور عفو انتقام سے زیادہ محبوب ہے۔ وقال تعالی۔ کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ۔ تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لکھ لیا ہے یعنی لازم کرلیا ہے۔ مگر اس ارحم الرحمین نے غضب کو اپنے اوپر لازم نہیں فرمایا وقال تعالیٰ وسع کل شئی رحمۃ۔ اللہ ہر چیز کو باعتبار رحمۃ کے محیط ہے۔ مگر غضب اور انتقام کے اعتبار سے محیط نہیں۔ رحمت اس کی دائمی ہے کبھی منفک نہیں ہوتی مگر غضب دائمی نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ قیامت کے روز فرمائیں گے۔ ان ربی قد غضب الیوم غضبا لم یغضب قبلہ مثلہ ولن یغضب بعدہ مثلہ۔ میرا پروردگا آج غصہ ہوا ہے ایسا غصہ ہوا کہ نہ اس سے پہلے کبھی ایسا غصہ ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ایسا غصہ ہوگا۔ ہشتم : یہ کہ طاعت و عبادت کے آثار جلد زائل نہیں ہوتے۔ بخلاف منہیات ومحظورات کہ ان کے آثار بہت جلد زائل ہوجاتے ہیں۔ معاصی اور سیئات کے آثار کبھی عفو اور مغفرت سے اور کبھی توبہ اور استغفار سے زائل ہوجاتے ہیں کبھی اعمال صالحہ اور مصائب سے ان کا کفارہ ہوجاتا ہے اور کبھی شفاعت سے اور کبھی اقارب اور احباب کی دعاؤں سے ان معاصی سے درگذر کیا جاتا ہے اور اگر صمیم قلب اور اخلاص کے ساتھ وبہ کرے تو ان سیئات کو حسنات سے بدل دیا جاتا ہے۔ نہم : یہ کہ نجات کا دارومدار احکام کی بجا آوری پر ہے۔ اگر کوئی شخص تمام مناہی اور محظورات سے بچنا ہے مگر احکام خداوندی کو نہیں مانتا تو اس کی نجات ناممکن ہے اور اس کے برعکس اگر کوئی شخص احکام خداوندی کو تسلیم کرتا ہے مگر زنا اور سرقہ اور کسی فحشاء اور منکر سے پرہیز نہیں کرتا تو اس کی نجات ممکن ہے۔ دہم : یہ کہ اوامر اور احکام سے کسی فعل کا وجود مطلوب ہوتا ہے اور نہی سے کسی شئے کا عدم اور ترک مقصود ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ عدم میں کوئی کمال نہیں۔ کمال وجود اور ایجاد ہی میں ہے اور حکم خداوندی سے سرکشی کرنا منہی عنہ کے ارتکاب سے زیادہ جرم ہے۔ تلک عشرۃ کاملۃ۔ کذا فی کتاب الفوائد ص 119 للحافظ ابن القیم قدس اللہ سرہ۔ (حاشیہ : مترجم گوید خدا تعالیٰ بنی اسرائیل را نعمتہائے خود یا داد و معجز ہا کہ دریں قوم ظاہر شدہ بود ذکر فرمود آنگاہ شبہات وہفوات ایشاں را کرد بدلائل وایں قصہ ممتد است تا قولہ تعالیٰ واذ ابتلی ابراھیم ربہ 12 فتح الرحمن)
Top