Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 38
قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا١ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
قُلْنَا
: ہم نے کہا
اهْبِطُوْا
: تم اتر جاؤ
مِنْهَا
: یہاں سے
جَمِیْعًا
: سب
فَاِمَّا
: پس جب
يَأْتِيَنَّكُمْ
: تمہیں پہنچے
مِنِّیْ
: میری طرف سے
هُدًى
: کوئی ہدایت
فَمَنْ تَبِعَ
: سو جو چلا
هُدَايَ
: میری ہدایت
فَلَا
: تو نہ
خَوۡفٌ
: کوئی خوف
عَلَيْهِمْ
: ان پر
وَلَا هُمْ
: اور نہ وہ
يَحْزَنُوْنَ
: غمگین ہوں گے
ہم نے فرمایا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ، جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (اس کی پیروی کرنا کہ) جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے
اعادۂ حکم ہبوط قال تعالیٰ قلنا اھبطوا منہا جمیعا۔۔ الی۔۔۔ ھم فیھا خلدون گزشتہ آیت میں حضرت آدم (علیہ الصلوۃ والسلام) کی توبہ کا قبول ہونا ذکر فرمایا اب آئندہ آیات میں یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ توبہ قبول ہونے کے بعد بھی آدم (علیہ السلام) کو بہشت میں آنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اس لیے کہ دنیا میں ہدایت اور حضرات انبیاء ومرسلین کی بعثت کا سلسلہ جاری کرنا ہے تاکہ اطاعت اور نافرمانی کا مادہ ظہور میں آجائے۔ چناچہ ہم نے ان کو حکم دیا کہ تم فی الحال اسی جگہ رہو جہاں تم کو بہشت سے اتارا گیا ہے، یعنی فی الحال دنیا ہی میں رہو۔ سر دست بہشت میں جانے کی اجازت نہیں، تم سب کے سب فی الحال اسی جگہ رہو اس لیے کہ اگر تم کو اسی وقت بہشت میں جانے کی اجازت نہیں، تم سب کے سب فی الحال اسی جگہ رہو اس لیے کہ اگر تم کو اسی وقت بہشت میں جانے کی اجازت دی جائے تو سب کا اجتماع مبدل بہ تفرقہ ہوجائے گا۔ حضرت آدم کی پیروی کرنیوالوں کو بہشت میں پہنچادیا جائیگا اور بدوں اور بدکاروں کو یا تو یہیں چھوڑدیا جائیگا یا پھر دوزخ میں بھیجدیا جائیگا اور یہ تفرقہ مقصود اور غرض کے منافی ہے۔ اتارنے سے مقصود تکلیف احکام اور اطاعت اور فرمانبرداری کا امتحان ہے پس زمین میں اتارنے سے مقصد ہی یہ ہے کہ امر ونہی کے ذریعہ سے تمہارا امتحان کریں۔ پس اے اولاد آدم خوب سمجھ لو اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے، پس جو لوگ میری ہدایت کا اتباع کریں گے ان پر نہ آئندہ کا کوئی ڈر ہوگا کہ مثلاً یہاں سے نکالے جائیں اور نہ گزشتہ پر وہ مغموم ومحزون ہوں گے مثلا یہ حسرت کہ ہم سے فلاں راحت اور لزت فوت ہوگئی وہاں پہنچ کر ایسی لذتیں اور مسرتیں ہیں کہ دنیا کی ساری لذتیں اور مسرتیں ان کے سامنے ہیچ ہوجائیں گی۔ : پہلی بار ہبوط کا حکم جنت سے اترنے کے لیے تھا اور دوسری باری ہبوط کا حکم زمین میں مقیم رہنے کے لیے ہے۔ : خدا کی ہدایت پر چلنے والوں کو اس قسم کا خوف نہ ہوگا جیسا کہ مجرمین اور نافرمانوں کو ہوتا ہے کہ دیکھئے اس جرم کی اب کیا سزا ملتی ہے۔ اس آیت میں اس قسم کے خوف کی نفی مراد ہے۔ باقی حق تعالیٰ شانہ کی عظمت اور جلال کا خوف وہ سب پر طاری ہوگا۔ انبیاء ورمرسلین بھی خدا کی عطمت اور جلال سے کانپتے ہوئے ہوں گے نیز اس آیت میں بالکلیہ خوف کی نفی نہیں کی گئی بلکہ خوف کے احاطہ اور استیلاء کی نفی کی گئی ہے۔ اس لیے کہ کلمہ علی کلام عرب میں استیلاء اور احاطہ کے لیے مستمعل ہوتا ہے۔ پس فلا خوف علیھم کے یہ معنی ہوں گے کہ خوف ان پر غالب اور ان کو محیط نہ ہوگا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر خوف اگرچہ غالب نہ ہو مگر کسی نہ کسی قسم کا خوف ضرور ہوگا۔ وہ خوف خدا کی عظمت اور جلال کا ہے۔ نیز اس میں کافروں کی طرف تعریض بھی ہے کہ قیامت کے دن خوف ان کو محیط ہوگا۔ اور ڈر اور اندیشہ ہر طرف سے ان کو گھیرے ہوئے ہوگا۔ بخلاف اہل ایمان کے کہ ان پر خوف غالب نہ ہوگا۔ اور جو لوگ میری ہدایت سے منکر ہوئے اور ہماری نشانیوں کو جھٹلایا ایسے ہی لوگ جہنم والے ہیں ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ کبھی بھی اس سے نہ نکلیں گے۔ کما قال تعالی۔ وما ھم بخارجین من النار۔ ہبوط آدم (علیہ السلام) کے اسرار وحکم گزشتہ آیت یعنی فتلقی ادم من ربہ کلمات فتاب علیہ انہ ھو التواب الرحیم میں حضرت آدم علیہ الصلوہ والسلام کی توبہ اور اس کی اجابت کا ذکر تھا کہ ہم نے آدم کی توبہ قبول کی تو ممکن ہے اس سے یہ شبہ ہو کہ ہبوط اور زمین پر اترنے کا حکم لغزش کی وجہ سے تھا شاید قبول توبہ کے بعد وحکم باقی نہ رہے۔ اس لیے ہبوط کے حکم کا پھر اعادہ فرمایا۔ اگرچہ توبہ قبول ہوچکی۔ مگر یہ حکم بحالہ باقی ہے تاکہ سب کو معوم ہوجائے کہ ہبوط کا حکم لغزش کی وجہ سے نہیں تاکہ قبول توبہ سے اس کے منسوخ ہونے کا خیال یا شبہ کیا جائے بلکہ وہ حقیقت میں انی جاعل فی الارض خلیفۃ کا وعدہ پورا کرنے کے لیے ہے زمین کی خلافت جس کا حضرت آدم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ خود اس کو مقتضی ہے کہ ان کو زمین پر اتارا جائے حضرت آدم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ خود اس کو مقتضی ہے کہ ان کو زمین پر اتارا جائے حضرت آدم سے جنت کی خلافت کا وعدہ نہ تھا بلکہ زمین کی خلافت کا وعدہ تھا اس لیے ہبوط کا حکم قبول توبہ کے بعد بھی برقرار رہا۔ بعض عارفین سے یہ منقول ہے کہ جب حضرت حق جل شانہ نے حضرت آدم اور حواء کو یہ خطاب فرمایا۔ لا تقربا ھذہ الشجرۃ فتکونا من الظالمین۔ تو اس خطاب میں خود اس طرف اشارہ تھا کہ حضرت آدم اس خطا میں مبتلاء ہو کہ جنت سے علیحدہ ہوں گے۔ اور جنت کی یہ سکونت چند روزہ ہے دائمی نہیں چناچہ ویا ادم اسکن انت وزوجک الجنۃ۔ خود اس پر دلالت کرتا ہے کہ جنت چند روز کے لیے دار سکونت ہے نہ کہ دار اقامات اس لیے کہ ہمیشہ رہنے والے کے لیے امر ونہی حظر وباحت (روک ٹوک) کے احکام نہیں جاری ہوتے اس کے علاوہ حضرت آدم (علیہ الصلوۃ والسلام) کے اتارنے میں اور بھی بہت حکمتیں ہیں۔ منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ حق تعالیٰ شانہ کے اسماء حسنی میں سے غفور اور رحیم، عفو اور حلیم، خافض اور رافع، معز اور مذل بھی ہیں۔ اس لیے حق تعالیٰ شانہ کی حکمت بالغہ اس کو مقتضی ہوئی کہ کوئی دار اور محل ایسا ہونا چاہئے جس میں ان اسماء حسنی صفات علی کے آثار ظاہر ہوں جس کے لیے چاہے مغفرت کرے اور جس پر چاہے رحم کرے جس کو چاہے پست کرے اور جس کو چاہے بلند کرے، جس کو چاہے عزت دے جس کو چاہے ذلت دے اس لیے حضرت آدم اور ان کی ذریت کو جنت سے زمین پر اتارا تاکہ ان اسماء حسنی کے آثار ظاہر ہوں جن کے ظہور کے لیے دار دنیا ہی مناسب ہے نہ کہ دار آخرت۔ نیز حضرت آدم (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پشت میں وہ لوگ بھی تھے جو جنت میں رہنے کے اہل نہ تھے۔ حضرت آدم کی پشت بمنزلہ سفینہ کے تھی جس میں نیک وبد ہر قسم کے لوگ سوار تھے۔ اس لیے دنیا میں اترنے کا حکم ہوا تاکہ خبیث کو طیب سے اور شقی کو سعید سے اور مومن کو کافر سے جدا اور الگ کی اجائے اور پھر خبیثین کو دار الخبیثین یعنی جہنم میں اور طبیب کو دار الطیبین یعنی جنت میں بسائے کما قال تعالی۔ لیمیز اللہ الخبیث من الطیب : تاکہ اللہ خبیث کو طیب سے جدا کردے۔ اور تاکہ ان اشقیاء اور خبیثین کے مقابلہ میں انبیاء ومرسلین اور عبادہ صالحین کا سلسلہ جاری ہو۔ دوستوں کا دشمنوں کے ذریعہ امتحان ہو۔ جب اللہ کے مخلص بندے اس کی راہ میں جان ومال کو خرچ کریں اور اس کے دشمنوں سے اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے جہاد قتال کریں۔ جانبازی اور سرفروشی سے کسی قسم کا دریغ نہ کریں خدا کے دوستوں سے دوستی اور اس کے دشمنوں سے دشمنی کریں تو حق تعالیٰ شانہ ان کو درجات عالیہ اور اپنے تقرب اور رضا و خوشنودی سے سرفراز فرمائے۔ نبوت و رسالت، امامت اور خلافت شہادۃ فی سبیل اللہ اور حب فی اللہ اور بغض فی اللہ خدا کے دوستوں سے محبت اور موالات۔ اور اس کے دشمنوں سے نفرت اور بیزاری اور دشمنی اور معادات یہ تمام فضائل کمالات زمین ہی پر اتارے جانے کے نتائم وثمرات ہیں۔ جنت میں رہ کر یہ باتیں کہاں ممکن تھیں ہبوط آدم علیہ السلوۃ والسلام کے اسرار وحکم کی اگر تفصیل درکار ہے تو حافظ شمس الدین ابن قیم قدس اللہ سرہ کی تصنیف لطیف یعنی مفتاح دار السعادۃ کا مطالعہ فرمائیں۔ حافط موصوف مدارج السالکین میں فرماتے ہیں۔ یا ادم انما ابتلیتکم بالذنب لانی احب ان اظھری فضلی وجودی وکرمی علی من عصانی۔ لو لم تزنبوا لذھب اللہ بکم ولجاء بقوم یذنبون فیستغفرون فیغفر لھم یا ادم اذا عصمتک وعصمت بنیک من الذنوبفعلی من اجود بحلمی وعلی من اجود بعفوی ومغفرتی وتوبتی وانا التواب الرحیم یا ادم لا تجزع من قولی لک (اخرج منھا) فلک خلق تھا ولکن اھبط الی دا رالمجاھدۃ وابذر بذر التقوی وامطر علیہ سحائب الجفون فاذا الشتد الحب واستغلظ واستوی علی سوقہ فتعال فاحصدہ یا ادم ما اھبطتک من الجنۃ الا لتوسل الی فی الصعود وما اخرجتک منھا نفیا لک عنھا ما اخرجتک عنھا الا لتعود۔ (شعر) ان جری بیننا وبینک عتب وتناءت منا و منک الدیار فا لو داد الذی عھدت مقیم والعثار الذی اصبت جبار (مدارج السالکین ص 166 ج 1) ترجمہ : اے آدم میں نے تجھ کو گناہ میں مبتلا کیا اس لیے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنے فضل اور جودو کرم کو گنہ گاروں پر ظاہر کروں حدیث میں ہے کہ اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ تم کو فنا کردیتا اور ایسی قوم کو پیدا کرتا جو گناہ کر کے خدا سے مغفرت طلب کرتے اور خدا ان کی مغفرت فرماتا اے آدم تجھ کو اور تیری ذریت کو اگر معصوم بنا دوں تو اپنا حلم اور عفو وکرم اور مگفرت اور معافی کس پر ظاہر کروں حالانکہ میں تو رحیم ہوں۔ پس ضرور ہے کہ گنہ گار موجود ہوں تاکہ میں ان کی توبہ قبول کروں اور ان پر رحم کروں۔ اے آدم میرے (اخرج منھا) کہنے سے گھبراؤ مت اس لیے کہ جنت کو میں نے تیرے ہی لیے پیدا کیا ہے لیکن اس وقت تم مجاہدہ اور ریاضت کے لیے زمین پر اترو جو تمہارے لیے بمنزلہ خانقاہ یا غار کے ہے اور زمین آسمان کے اعتبار سے بمنزلہ غار ہی کے ہے۔ اور یہاں آکر تقویٰ کے تخم کی کاشت کرو اور چشم گریاں کی بارش سے اس کو سیراب کرو۔ جب یہ دانہ قوی اور مضبوط ہوجائے اور اپنے تنے پر کھڑا ہوجائے تو اس کو کاٹ لو۔ اے آدم تجھ کو اس لیے جنت سے اتارا تاکہ تیرے درجات اور مدارج اور بلند ہوں۔ اور جنت سے چند روز کے لیے اس لیے نکالا تاکہ اس سے بہتر حالت میں جنت کی طرف تو لوٹ کر آے۔ ترجمہ شعر : اگر ہمارے اور تیرے درمیان میں کوئی رنجش پیش آگئی ہے اور اگر ہمارے اور تیرے درمیان میں منزلوں کا فصل ہوگیا ہے تو کوئی پریشانی کی بات نہیں اس لیے کہ محبت ومودت کا تعلق اسی طرح باقی ہے۔ اور جو لغزش تم سے ہوگئی ہے اس کا تدارک ہوسکتا ہے۔ فوائد مستنبطہ از قصۂ آدم صلی اللہ علی نبینا وعیہ وبارک وسلم وشرف وکرم 1: قرآن کریم کے ظاہر سیاق سباق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم اللہ کے نبی اور رسول مکلم ہیں۔ یعنی ایسے رسول ہیں جن سے اللہ نے بالمشافہ کلام فرمایا چناچہ حدیث میں ہے۔ اخرج الطبرانی وابو الشیخ فی العظمت وابن مردویہ عن ابی ذر قال قلت یار سول اللہ اریت ادم انبیا کان قال نعم کان نبیا رسول کلمہ اللہ قبلہ قال یا ادم اسکن انت وزوجک الجنۃ۔ واخرج عبد بن حمید والاجری فی الاربعین عن ابی ذر قال یا رسول اللہ من کان اولھم یعنی الرسل قال ادم قلب یار سول اللہ انبی مرسل قال نعم خلقہ اللہ بیدہ ونفع فیہ من روحہ۔ ترجمہ : طبرانی اور ابو الشیخ نے کتاب العظمۃ میں اور ابن مردویہ نے ابوذر ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ کیا حضرت آدم نبی تھے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں نبی بھی تھے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں نبی بھی تھے اور رسول بھی جن سے اللہ نے بالمشافہ کلام فرمایا اور یہ کہا کہ یا ادم اسکن انت وزوجک اور عبد بن حمید اور آجری نے اربعین میں ابوذر ؓ سے ؓ سے روایت کیا ہے کہ یارسول اللہ سب سے پہلے رسول کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ آدم میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ حضرت آدم (علیہ السلام) کیا نبی مرسل تھے۔ فرمایا کہ ہاں اللہ نے ان کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی خاص روح ان میں پھونکی اور پھر ان کو ٹھیک بنایا۔ 2: افعال خداوندی کے اسراروحکم سوائے اس علیم و حکیم کے کسی کو معلوم نہیں۔ ملائکہ مقربین کو بھی سوائے سبحنک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم۔ کہنے کے کوئی چارہ نہ ہوا۔ عاقل کا کام یہ ہے کہ افعال خداوندی کے اسرار کے درپے نہ ہو۔ ملائکہ کی طرح سبحنک لا علم لنا۔ کہہ کر بےچون چرا تسلیم کرے۔ کرا زھرۂ آں کہ از بیم تو کشاید زبان جز بہ تسلیم تو زبان تازہ کردن باقرار تو نینگیختن علت از کار تو 3: حضرت آدم کی پیدائش سے پہلے ہی ملائکہ کے سامنے حضرت آدم کی خلافت کا ذکر کچھ تعلیم مشورہ کی جانب مشیر معلوم ہوتا ہے کہ کام کرنے سے پہلے مشورہ کرلینا چاہئے۔ اگرچہ حق تعالیٰ مشورہ سے بےنیاز ہے۔ 4: استحقاق خلافت کے لیے جب ملائکہ نے نحن نسبح بحمدک ونقدس لک۔ کہہ کر تسبیح وتحمید تقدیس وتمجید کو پیش کیا تو حق جل شانہ نے ملائکہ کے تسبیح و تقدیس کے جواب میں حضرت آدم کا علمی کمال ظاہر فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم میں مشغول ہونا تسبیح وتہلیل سے افضل اور بہتر ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ علم اللہ کے نزدیک بھی علم ہو۔ اللہ کے نزدیک علم وہ ہے جس سے خدا کی خشیۃ اور اس کی عظمت دل میں راسخ ہوتی ہو کما قال تعالی۔ (انما یخشی اللہ من عبادہ العلموء : جزایں نیست کہ ڈرتے ہیں اللہ سے اس کے بندوں میں سے صرف علماء) معلوم ہوا کہ خدا کے نزدیک عالم وہی ہے جو خدا سے ڈرتا ہو اور جو خدا سے نہیں ڈرتا وہ اللہ کے نزدیک عالم نہیں اگرچہ سارا عالم اس کو عالم کہے۔ علمے کہ راہ حق ننماید جہالتست۔ 5: ملائکہ کو سجدہ کا حکم دینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام ملائکہ سے افضل ہیں۔ اس لیے کہ مسجود ساجد سے افضل ہوتا ہے۔ 6: حدیث میں ہے کہ جب فرشتے صبح اور عصر کی نماز سے یا کسی محفل ذکر سے لوٹ کر جاتے ہیں تو حق تعالیٰ دریافت فرماتے ہیں کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں دیکھا تو عرض کرتے ہیں کہ نماز پڑھتے چھوڑا۔ حکمت اس میں یہ ہے کہ فرشتوں نے ایک بار کہا تھا۔ اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء۔ اور کلمہ مَن عام ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ سب ایسے ہی ہوں گے تو فرشتے موجبہ کلیہ کے مدعی تھے ان کے جواب کے لیے سالبہ جزئیہ کا ذکر کافی ہوگیا۔ یعنی ایک شخص یا ایک جماعت کا پیش کردینا جو اللہ کی مطیع کامل ہو ان کے موجبہ کلیہ توڑنے کے لیے کافی ہے یہ ضروری ہی نہیں کہ سارے ہی مطیع ہوں قیامت تک اسی طرح سوال و جواب ہوتا رہے گا۔ 7: اعجاب اور استکبار اور اللہ جل جلالہ کے حکم پر اعتراض اور خود ستائی نے ابلیس کو ملعون اور مطرود بنایا اور اطاعت اور انقیاد اور رضا و تسلیم اور عجز اور انکساری اور ندامت اور شرمساری اور توبہ اور استغفار نے حضرت آدم کی شان کو بڑھایا۔ 8: نیز اس قصہ سے معلوم ہوا کہ جنت پیدا ہوچکی ہے جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے معتزلہ کہتے ہیں کہ جنت ابھی پیدا نہیں ہوئی۔ 9: کافر ہمیشہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے کبھی نجات نہ پائیں گے۔ 10: غلطی سے خلاف حکم خداوندی کوئی کام کر گزرنا معصیت ہے اور حکم خداوندی کو غیر معقول اور خلاف سمجھنا یہ کفر ہے۔ (11) فائدہ جلیلہ ترک اطاعت اور ارتکاب معصیت میں فرق سہل بن عبداللہ (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے قصہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ترک امر یعنی امر الٰہی کا امتثال نہ کرنا اور حکم خداوندی کو نہ ماننا ارتکاب نہی سے زیادہ سخت ہے ابلیس نے حکم الٰہی اور امر خداوندی یعنی حکم سجود سے انحراف کیا۔ مطرود ومردود ہوا اور آدم (علیہ السلام) نے ایک نہی کا ارتکاب کیا۔ یعنی جس درخت سے کھانے کی انکو ممانعت کی گئی تھی اس کو کھایا، بارگاہ خداوندی سے عتاب ہوا۔ حضرت آدم کو اس عتاب کی کہاں تاب تھی فوراً ہی توبہ اور استغفار کی اور صد ہزار گریہ وزاری کے ساتھ اپنے رب کریم سے عفو اور مغفرت کی درخواست کی اللہ نے اپنی رحمت سے توبہ قبول فرمائی اور حلۂ اجتباء واصطفاء سے سرفراز فرمایا۔ اوّل یہ کہ ترک امر کا جرم ارتکاب نہی کے جرم سے اس لیے زیادہ سخت ہے کہ ارتکاب نہی کا منشاء ہمیشہ غلبہ شہوت ہوتا ہے اور ترک امر کا منشاء ہمیشہ استکبار اور اعجاب (خود پسندی) ہوتا ہے، حدیث میں ہے کہ جس کے قلب میں ذرا برابر بھی کبر یعنی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں، کبریائی میری رداء ہے اور عظمت میری ازار ہے، جو شخص اس میں میری منازعت کرتا ہے میں اس کو کچل ڈالتا ہوں۔ بخلاف اس شخص کے کہ جو ایمان لانے کے بعدشہوات میں منہمک رہا وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جس نے لا الہ الا اللہ کہا وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا۔ اگرچہ وہ چوری اور زنا کرے۔ دوم یہ کہ : اللہ کے نزدیک امتثال امر اور فعل مامور بہ یعنی حکم الہی کا بجا لانا بہ نسب منہیات سے احتراز اور اجتناب کے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ کے نزدیک اپنے وقت پر نماز کا ادا کرنا ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ خیر الاعمال یعنی سب سے بہتر عمل ذکر اللہ ہے۔ اسی وجہ سے حق جل شانہ نے جا بجا قرآن کریم میں اپنی محبت کو امتثال احکام اور اوامر کی بجا آوری پر معلق فرمایا ہے۔ کما قال تعالیٰ ۔ ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا۔ وقال تعالیٰ واللہ یحب المحسنین۔ وقال تعالیٰ واقسطوا ان اللہ یحب المقسطین وقال تعالیٰ واللہ یحب الصابرین۔ ان آیتوں میں اللہ نے اپنی محبت کو ان لوگوں کے لیے مخصوص فرمایا ہے جو اس کے ان احکام اور اوامر کو بجا لاتے ہیں۔ یعنی جہاد فی سبیل اللہ احسان، عدل واقساط، صبر و تحمل کو حق جل شانہ نے جب کبھی ذکر فرمایا ہے تو محبت کی نفی کے ساتھ ذکر فرمایا ہے تو محبت کی نفی کے ساتھ ذکر فرمایا ہے کما قال تعالیٰ واللہ لا یحب الفساد وقال تعالیٰ واللہ لا یحب کل مختار فخور۔ وقال تعالیٰ ولا تعتدوا ان اللہ لا یحب المعتدین وقال تعالیٰ لایحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم۔ وقال تعالیٰ ان اللہ لا یحب من کان مختالا فخورا۔ سوم : یہ کہ اوامرو احکام کی تعمیل مقصود لذاتہ ہے اور مہیات سے بچنا مقصود بالذات نہیں بلکہ فعل مامور بہ کی تکمیل کے لیے ہے اس لیے کہ منہیات اور محظورات کا ارتکاب، عبادت اور بندگی اور احکام کی بجا آوری میں مخل ہے۔ چناچہ حق جل شانہ نے تحریم خمر اور تحریم قمار کی علت یہ ذکر فرمائی ہے۔ یصدکم عن ذکر اللہ عن الصلوۃ فھل انتم منتھون۔ شراب اور قمار اللہ کے ذکر اور نماز سے تم کو روکتے ہیں پس کیا تم ان سے باز نہ آؤ گے۔ چہارم : یہ کہ طاعات اور مامورات کی بجا آوری ہی روح کی غذاء ہے۔ بغیر ایمان و تسلیم اور بغیر اطاعت اور انقیاد کے روح کی حیات ناممکن ہے اور محظورات ومنہیات سے بچنا بمنزلہ پرہیز کے ہے۔ پرہیز اس لیے کرایا جاتا ہے تاکہ حیات اور قوت میں فتور نہ آئے۔ اصل مقصود حیات اور ہیز حیات کی نگہبانی کے لیے ہے۔ پنجم : یہ کہ عبادت جس کے لیے جن وانس کو پیدا کیا گیا۔ وہ امتثال اوامر اور احکام خداوندی کی بجا آوری ہی کا نام ہے جن وانس کو فقط منہیات اور محظورات سے بچنے کے لیے نہیں پیدا کیا گیا (بلکہ عبادت اور بندگی اور احکام خداوندی کی تعمیل کے لیے پیدا کیا گیا ہے) زنا اور سرقہ وغیرہ سے باز رہنے کا نام عبادت نہیں بلکہ جو حکم اس احکم الحاکمین نے دیا اس کو دل وجان سے بجا لانے کا نام عبادت اور بندگی ہے۔ ششم : یہ کہ ایک حکم کی تعمیل سے دس گونہ سے لیکر سات سو گونہ بلکہ لا الی نہایۃ ثواب ملتا ہے اور منہی عنہ کے ارتکاب سے صرف ایک گناہ لکھا جاتا ہے، اس سے بھی صاف ظاہر ہے کہ ترک امر اور عدم تعمیل حکم کا جرم ارتکاب نہی کے جرم سے کس قدر اعظم ہے۔ ہفتم : یہ کہ طاعت اور عبادت اور احکام کی بجا آوری اور ان کا اجر وثواب تمام تر صفت رحمت سے متعلق ہے، اور محظورات وممنوعات کا ارتکاب اور ان پر سزا اور عقاب یہ سب صفت غضب اور انتقام سے متعلق ہے اور صفت رحمت صفت غضب پر سابق ہے۔ غضب، رحمت پر سابق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نزدیک رحمت عذاب سے اور عفو انتقام سے زیادہ محبوب ہے۔ وقال تعالی۔ کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ۔ تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لکھ لیا ہے یعنی لازم کرلیا ہے۔ مگر اس ارحم الرحمین نے غضب کو اپنے اوپر لازم نہیں فرمایا وقال تعالیٰ وسع کل شئی رحمۃ۔ اللہ ہر چیز کو باعتبار رحمۃ کے محیط ہے۔ مگر غضب اور انتقام کے اعتبار سے محیط نہیں۔ رحمت اس کی دائمی ہے کبھی منفک نہیں ہوتی مگر غضب دائمی نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ قیامت کے روز فرمائیں گے۔ ان ربی قد غضب الیوم غضبا لم یغضب قبلہ مثلہ ولن یغضب بعدہ مثلہ۔ میرا پروردگا آج غصہ ہوا ہے ایسا غصہ ہوا کہ نہ اس سے پہلے کبھی ایسا غصہ ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ایسا غصہ ہوگا۔ ہشتم : یہ کہ طاعت و عبادت کے آثار جلد زائل نہیں ہوتے۔ بخلاف منہیات ومحظورات کہ ان کے آثار بہت جلد زائل ہوجاتے ہیں۔ معاصی اور سیئات کے آثار کبھی عفو اور مغفرت سے اور کبھی توبہ اور استغفار سے زائل ہوجاتے ہیں کبھی اعمال صالحہ اور مصائب سے ان کا کفارہ ہوجاتا ہے اور کبھی شفاعت سے اور کبھی اقارب اور احباب کی دعاؤں سے ان معاصی سے درگذر کیا جاتا ہے اور اگر صمیم قلب اور اخلاص کے ساتھ وبہ کرے تو ان سیئات کو حسنات سے بدل دیا جاتا ہے۔ نہم : یہ کہ نجات کا دارومدار احکام کی بجا آوری پر ہے۔ اگر کوئی شخص تمام مناہی اور محظورات سے بچنا ہے مگر احکام خداوندی کو نہیں مانتا تو اس کی نجات ناممکن ہے اور اس کے برعکس اگر کوئی شخص احکام خداوندی کو تسلیم کرتا ہے مگر زنا اور سرقہ اور کسی فحشاء اور منکر سے پرہیز نہیں کرتا تو اس کی نجات ممکن ہے۔ دہم : یہ کہ اوامر اور احکام سے کسی فعل کا وجود مطلوب ہوتا ہے اور نہی سے کسی شئے کا عدم اور ترک مقصود ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ عدم میں کوئی کمال نہیں۔ کمال وجود اور ایجاد ہی میں ہے اور حکم خداوندی سے سرکشی کرنا منہی عنہ کے ارتکاب سے زیادہ جرم ہے۔ تلک عشرۃ کاملۃ۔ کذا فی کتاب الفوائد ص 119 للحافظ ابن القیم قدس اللہ سرہ۔ (حاشیہ : مترجم گوید خدا تعالیٰ بنی اسرائیل را نعمتہائے خود یا داد و معجز ہا کہ دریں قوم ظاہر شدہ بود ذکر فرمود آنگاہ شبہات وہفوات ایشاں را کرد بدلائل وایں قصہ ممتد است تا قولہ تعالیٰ واذ ابتلی ابراھیم ربہ 12 فتح الرحمن)
Top