Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 42
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَلَا تَلْبِسُوْا : اور نہ ملاؤ الْحَقَّ : حق بِالْبَاطِلِ : باطل سے وَتَكْتُمُوْا : اور ( نہ) چھپاؤ الْحَقَّ : حق وَ اَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ
ولا تلبسوا الحق بالباطل وتکموا الحق وانتم تعلمون۔ اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور نہ حق کو چھپاؤ حالانکہ تم جانتے ہو کہ حق کو باطل کے ساتھ ملانا اور حق کو چھپانا کس قدر مذمورم ہے۔ زہر کو زہر جان کر کھانا انتہائی نادانی ہے۔ گزشتہ آیت میں بنی اسرائیل کو یہ حکم تھا کہ تم خود گمراہی سے باز آؤ اور ایمان اور ہدایت کو قبول کرو۔ اس آیت میں یہ حکم ہے کہ دوسروں کو گمراہ نہ کرو۔ جن لوگوں کے کان کچھ حق سے آشنا ہوچکے ہوں اور کلمۂ حق ان کے کان میں پڑچکا ہو ان کو گمراہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ حق اور باطل صدق اور کذب ہدایت اور ضلالت کو ان کے سامنے خلط ملط کردیا جائے تاکہ حق کے قبول کرنے میں متردد ہوجائیں۔ لا تلبسوا الحق بالباطل۔ میں اسی طرف اشارہ ہے اور جس شخص نے کلمۂ حق سنا ہی نہ ہو۔ رشد وہدایت سے بالکل بیخبر ہو۔ اس کے گمراہ کرنے کا طریق یہ ہے کہ حق کو اس کے سامنے ظاہر نہ کیا جائے کہ مبادا وہ حق بات سن کر اس کو قبول نہ کرے۔ اور تکتموا الحق میں اسی طرف اشارہ ہے۔ یہاں تک اہل کتاب کو ایمان کی دعوت دی گئی۔ ایمان کے بعد سب سے زائد محبوب عمل اللہ کے نزدیک نماز ہے اس لیے آئندہ آیت میں نماز کا اور پھر زکوٰۃ کا حکم فرمایا کہ جان اور مال کی اطاعت میں لگے رہو۔ یعنی اے بنی اسرائیل ایمان کے بعد اور نماز کو قائم اور درست رکھو۔ یعنی محض کتمان حق اور تلبیس اور خلط ملط سے باز رہنا نجات کے لیے کافی نہیں جب تک کہ احکام خداوندی پر عمل نہ ہو۔ لہذا ضروری ہوا کہ ایمان کے بعد نماز کو قائم رکھو۔ علامہ زمخشری فرماتے ہیں کہ الصلوۃ میں الف لام عہد کا ہے۔ یعنی ایسی نماز پڑھو کہ جیسی صحابہ کرام پڑھتے ہیں۔ منافقوں کی سی نماز نہ پڑھو۔ جو حقیقت میں نماز نہیں بلکہ فقط صورت اور ہیئت نماز کی ہے اور طیب خاطر اور انشراح صدر کے ساتھ زکوٰۃ دیا کرو۔ جس طرح سے لغت عرب میں اتیان اور سہولت سے آنے کا نام ہے۔ اسی طرح اتیاء سہولت سے دینے کا نام ہے اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔ یعنی جماعت کے ساتھ نماز پڑھو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا شریعت اسلامیہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ یہود نماز پڑھتے تھے مگر تنہا۔ اس لیے حکم ہوا کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھو اس لیے کہ نماز بھی ایک قسم کا جہاد ہے جس میں اجتماع ضروری اور لازمی ہے۔ اور محراب مسجد محاربۂ شیطان کا محل ہے اور قتال کے لیے صفوف کا ہونا بھی ضروری ہے اس لیے صفوف جماعت کے سیدھا رکھنے کی حدیثوں میں بہت تاکید آئی ہے۔
Top