Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 50
وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ : اور جب فَرَقْنَا : ہم نے پھاڑ دیا بِكُمُ : تمہارے لیے الْبَحْرَ : دریا فَاَنْجَيْنَاكُمْ : پھر تمہیں بچا لیا وَاَغْرَقْنَا : اور ہم نے ڈبو دیا آلَ فِرْعَوْنَ : آل فرعون وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ : اور تم دیکھ رہے تھے
اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھاڑ دیا تو تم کو تو نجات دی اور فرعون کی قوم کو غرق کردیا اور تم دیکھ ہی تو رہے تھے
در بہ بست و دشمن اندر خانہ بود قصۂ فرعون زیں افسانہ بود انعام سوم : واذ فرقنا بکم البحر فانجینکم واغرقنا ال فرعون وانتم تنظرون۔ اور اے بنی اسرائیل اس نعمت کو بھی یاد کرو جب کہ ہم نے محض تمہاری وجہ سے دریا کو پھاڑا یعنی محض تمہارے صحیح سالم گذر جانے کی وجہ سے ہم نے اپنے ارادہ اور مشیت سے دریا کو شق کیا۔ اتفاقی طور پر جزر و مد نہ تھا۔ پس تم کو نجات دی۔ دشمن سے بھی نجات ملی اور خدا تعالیٰ کے علم وقدرت میں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت میں جو شبہات تھے ان سے بھی تم کو نجات ملی۔ سارے شبہ رفع ہوئے اور فقط تمہارے نجات دینے پر کفایت نہیں کی۔ بلکہ قوم فرعون کو جو تمہاری دشمن تھی غرق کیا تاکہ آئندہ بھی دشمنوں کا خطرہ دل سے نکل جائے اور پھر غرق بھی ان کو ایسی حالت میں کیا کہ تم ان کو غرق ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے جس میں اب کسی قسم کے شک وشبہ کی بھی گنجائش نہ رہی تھی اور دشمن کو اپنی آنکھوں کے سامنے غرق ہوتے ہوئے دیکھنا یہ بہت بڑی نعمت ہے اور ایسی نعمت کا تو بہت ہی شکر چاہئے۔ احادیث صحیحۃ سے ثابت ہے کہ یہ دن جس میں بنی اسرائی کو نجات اور قوم فرعون کو غرق کیا گیا عاشورہ کا دن تھا۔ اس نعمت کے شکر میں موسیٰ (علیہ السلام) نے اس روز کا روزہ رکھا۔ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہود کو عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا تو فرمایا کہ تم سے زائد موسیٰ کا حقدار میں ہوں۔ خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ کا حکم دیا۔ فرعون سے نجات دینا تو عمت تھا ہی لیکن دریا کو ان گزرنے کے لیے راستہ بنادینا ایک مستقل انعام تھا اس لیے فلق بحر کو علیحدہ ذکر فرمایا۔
Top