Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 55
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ قُلْتُمْ : اور جب تم نے کہا يَا مُوْسَىٰ : اے موسٰی لَنْ : ہرگز نُؤْمِنَ : ہم نہ مانیں گے لَکَ : تجھے حَتَّىٰ : جب تک نَرَى اللہ : اللہ کو ہم دیکھ لیں جَهْرَةً : کھلم کھلا فَاَخَذَتْكُمُ : پھر تمہیں آلیا الصَّاعِقَةُ : بجلی کی کڑک وَاَنْتُمْ : اور تم تَنْظُرُوْنَ : دیکھ رہے تھے
اور جب تم نے (موسی سے) کہا کہ موسیٰ جب تک ہم خدا کو سامنے نہ دیکھ لیں گے تم پر ایمان نہیں لائیں گے تو تم کو بجلی نے آگھیرا اور تم دیکھ رہے تھے
انعام ہشتم : واذ قلتم یموسی لن نؤمن لک حتی نری اللہ جھرۃ فاخذتکم الصعقۃ وانتم تنظرون۔ اور یاد کرو اے بنی اسرائیل اس وقت کو کہ جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ہم محض تمہارے کہنے سے اس کا ہرگز یقین نہ کریں گے کہ ہم نے جو کچھ سنا وہ اللہ جل جلالہ ہی کا کلام ہے ممکن ہے کہ پس پردہ کوئی اور کلام کرتا ہو جب تک کہ ہم خود اللہ کو علانیہ طور پر نہ دیکھ لیں اس طرح کہ ہمارے اور خدا کے درمیان کوئی حجاب حائل نہ ہو۔ پس آپکڑا تم کو اس گستاخی پر بجلی نے اور تم اس بجلی کو آتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ بنی اسرائیل اس موقعہ پر دو وجہ سے غضب الٰہی کے مورد بنے۔ اول تو اس کہنے کی وجہ سے کہ اے موسیٰ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے اور محض تمہارے بھروسہ اور اعتماد پر اس کا کلام الٰہی ہونا تسلیم نہ کریں گے۔ یہی۔ ایک گستاخی نزول عذات کے لیے کافی تھی۔ اس لیے کہ اللہ کے نبی پر اعتماد اور بھروسہ نہ کرنا اور حسن ظن کے بجائے اس سے بد ظن اور بدگمان ہونا یہ کچھ معمولی گستاخی نہیں۔ نبی (علیہ السلام) پر اعتماد نہ کرنا صریح کفر ہے۔ نبی ہی کے اعتماد پر اللہ کی باتوں کو ماننا ایمان ہے اور جو شخص نبی پر اعتماد نہیں کرتا آخر وہ یہ تو سوچے کہ نبی کے بعد پھر کسی پر وہ اعتماد کرے گا۔ دوم یہ کہ گستاخانہ اور بےباکانہ طور پر یہ کہ دینا کہ حتی نری اللہ جھرۃ کہ ہم موسیٰ کی تصدیق جب کریں گے کہ جب اللہ کو علانیہ اور ظاہر طور پر دیکھ لیں ہاں اگر ادب کے ساتھ یہ کہتے کہ اے موسیٰ کہ ہم دیدارِ الٰہی کے مشتاق اور آرزو مند ہیں تو مورد غضب نہ بنتے اس کا جواب تو یہ تہوتا کہ تم ابھی اس نعمت کے قابل نہیں آخرت میں جب آلودگیوں اور نجاستوں سے پاک ہوجاؤ گے تب دیکھو گے غرض یہ کہ اس گستاخانہ اور بےباکانہ سوال کی وجہ سے عذاب الٰہی نے آگھیرا۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) کا رب ارنی انظر الیک کہہ کر دیدار الٰہی کس اسوال کرنا سو اول تو وہ سوال تھا یعنی عاجزانہ اور مودبانہ ایک استدعا اور درخواست تھی مطالبہ نہ تھا دوم یہ کہ وہ ایک والہانی اور عاشقانہ استدعاء نیاز تھی جو سراسر محبت اور اشتیاق پر مبنی تھی۔ حاشا بنی اسرائیل کی طرح تعنت اور عناد اس کا منشا نہ تھا۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کی درخواست پر جس کا مفصل قصہ سورة اعراف میں آئیگا۔ ہم نے تم کو زندہ کیا تمہارے مرجانے کے بعد یعنی حقیقۃً تم مرچکے تھے غشی اور سکتہ کی حالت نہ تھی اور نہ کوئی خواب تھا حقیقۃً مرنے کے بعد ہم نے تم کو اپنی رحمت سے دوبارہ زندہ کیا۔ شاید کہ تم شکرو کرو کہ حق جل شانہ نے اپنی رحمت سے ہمارا قصور معاف فرمایا اور اپنی عبادت اور بندگی توبہ اور استغفار انابت اور اعتذار کے لیے اور مہلت عطاء فرمائی اور بعث بعد الموت کا نمونہ آنکھوں سے دکھلادیا تاکہ بعث بعد الموت کے بارے میں تم کو ذرہ برابر شبہ نہ رہے اور تم اس ایمان شہودی کا شکر ادا کرو۔ ایمان استدلالی میں تزلزل آسکتا ہے مگر ایمان شہودی میں تزلزل ممکن نہیں گویا کہ قیامت تم کو آنکھوں سے دکھلا دی گئی
Top