Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 63
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ١ؕ خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاِذْ اَخَذْنَا : اور جب ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے اقرار وَرَفَعْنَا : اور ہم نے اٹھایا فَوْقَكُمُ : تمہارے اوپر الطُّوْرَ : کوہ طور خُذُوْا : پکڑو مَا آتَيْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیا ہے بِقُوْةٍ : مضبوطی سے وَاذْكُرُوْا : اور یا درکھو مَا فِیْهِ : جو اس میں لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجاؤ
اور جب ہم نے تم سے عہد (کر) لیا اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا (اور حکم دیا) کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے اس کو زور سے پکڑے رہو اور جو اس میں (لکھا ہے) اسے یاد رکھو تاکہ (عذاب سے) محفوظ رہو
شناعت دوم قال تعالیٰ واذ اخذنا میثاقکم۔۔۔ الی۔۔ ورحمتہ لکنتم من الخسرین (ربط) گزشتہ آیات میں ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے اجر کا وعدہ فرمایا اب یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ رغبت اور خوشی سے احکام خداوندی پر عمل کرنا محبین اور مخلصین کا کام ہے۔ بنی اسرائیل کا حال تو یہ ہے کہ جب تک ان پر تشدد اور سختی نہ کیا جائے اس وقت تک وہ عمل نہیں کرتے۔ نیز گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل کے جس استبدال کا ذکر تھا وہ نافرمانی کا آغاز تھا اب ان آیات میں ان کی اس نافرمانی کا ذکر ہے جو ان سے علانیہ طور پر ظاہر ہوئی۔ چناچہ فرماتے ہیں اور یاد کرو اس وقت کو کہ جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا کہ ہم کو کوئی کتاب عطاء کی جائے جس میں عبادت اور بندگی کے طریقے مذکور ہوں تو ہم ضرور اس پر عمل کریں گے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب حق تعالیٰ نے توریت نازل فرمائی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ توریت کو قبول کریں اور اس کے احکام پر عمل کریں۔ بنی اسرائی نے بعض احکام شاقہ کی وجہ سے قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اللہ تعالیٰ نے جبرئیل (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ ایک پہاڑ لا کر ان کے سروں پر قد آدم اونچا کھڑا کردو جبرئیل نے حکم الٰہی کے مطابق پہاڑ ان کے سروں پر لا کھڑا کردیا اور یہ کہا اگر تم تورات کو قبول نہ کروگے تو یہ پہاڑ تم پر چھوڑ دیا جائے گا۔ (معالم التنزیل) بنی اسرائیل فوراً سجدہ میں گر گئے اور توریت پر عمل کرنے کا اقرار کیا۔ اس آیت میں حق جل شانہ نے اسی واقعہ کو یاد دلایا ہے کہ اے بنی اسرائیل تم اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تم سے توریت پر عمل کرنے کا پختہ عہد لیا۔ اور اٹھایا تم پر کوہ طور کو تاکہ تم توریت کو قبول کرو یعنی مضبوط پکڑو تم اس چیز کو جو ہم نے تم کو عطاء کی یعنی توریت اس کو مضبوطی اور قوت کے ساتھ پکڑو اور فقط ظاہر توریت پر عمل کرنے پر اکتفاء مت کرو بلکہ جو توریت میں ہے اس کو بار بار کرو اور اس کے اسرار اور فوائد میں غور اور فکر کرو شاید تم دنیا اور آخرت کے عذاب سے بچ جاؤ۔ اور مقام تقویٰ تم کو حاصل ہوجائے۔ : بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے بار بار اس کی درخواست کی کہ آپ اللہ سے استدعا کیجئے کہ ہم کو کوئی ایسی کتاب عطاء فرمائے جو احکام الٰہیہ کی جامع ہو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے اس کا پختہ عہد لیا کہ جب وہ کتاب عطاء ہو تو ضرور اس پر عمل کرنا اگرچہ اس کے احکام تمہاری نفسانی خواہشوں کے خلاف ہوں۔ بنی اسرائیل نے اقرار کیا کہ ہم ضرور اس پر عمل کریں گے جب اللہ تعالیٰ نے توریت عطاء فرمائی تو اس کے قبول کرنے سے اور اس کے احکام پر عمل پیرا ہونے سے سرتابی کی اس عہد شکنی سے باز رکھنے کے لیے کوہ طور کو ان کے سروں پر لا کر کھڑا کردیا گیا۔ پہاڑ کا ان کے سروں پر لا کر کھڑا کردینا ایمان لانے پر مجبور کرنے کے لیے نہ تھا اس لیے کہ ایمان تو وہ پہلے ہی سے لا چکے تھے۔ فقط نقض عہد سے روکنے کے لیے تھا جیسے مسلمانوں پر حدود اور قصاص اور تعزیرات کا قائم کرنا از قبیل اکراہ نہیں بلکہ زنا اور سرقہ اور شرب خمر۔ خونریزی اور رہزنی اور اس قسم کے تمام فواحش سے روکنے کے لیے ہے ہاں اگر پہاڑ کا معلق کرنا دین قبول کرنے کے لیے ہوتا تب آیت لا اکراہ فی الدین کے خلاف ہوتا۔ پہاڑ کا سر پر لا کھڑا کرنا محض عہد شکنی اور بد عہدی اور ایک نا شایستہ حرکت سے روکنے کے لیے تھا نہ کہ دین قبول کرنے کے لیے۔ ثم تولیتم من بعد ذلک فلولا فضل اللہ علیکم ورحمتہ لکنتم من الخسرین۔ تم نے پھر اس کے بعد بھی روگردانی کی۔ یعنی پھر تم ان تاکیدوں اور پختہ عہدوں کے بعد بھی احکام توریت سے منحرف ہوگئے پس اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقینا تم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوتے۔ تمہاری بد عہدی اور عہد شکنی کا اقتضا تو یہ تھا کہ تم کو فوراً عذاب سے ہلاک کردیا جاتا مگر اس کے فضل اور رحمت نے تم کو عذاب سے بچایا اور تم کو توبہ اور استغفار کے لیے مزید مہلت دی اور اب تک توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے لہذا نبی آخر الزمان کی متابعت کی سعادت حاصل کرو اور اگر تم اس نبی آخر الزمان پر ایمان نہ لائے اور کفر پر مرگئے تو پھر اس خسران اور نقصان کی تلافی کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔ توریت میں جو تم سے نبی آخر الزمان پر ایمان لانے کا عہد لیا جاچکا ہے اس کو پورا کرو ورنہ تم بھی عہد شکنی کرنے والوں میں شامل سمجھے جاؤ گے اور عہد شکنی کی سزا کے مستحق ہوگے۔ آئندہ آیت میں بطور نظیر حکم شریعت سے انحراف کے دنیوی زبان اور نقصان کو بیان فرماتے ہیں کہ تم کو خوب معلوم ہے کہ پہلے لوگوں نے ہفتہ کے بارے میں توریت کے حکم سے عدول کیا اور پیغمبر کی متابعت سے انحراف کیا سوائے مسخ اور لعنت کے کیا ملا۔ چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔
Top