Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 67
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا١ؕ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰى : موسیٰ نے لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ تعالیٰ يَاْمُرُكُمْ : حکم دیتا ہے تم کو اَنْ : یہ کہ تَذْبَحُوْا : تم ذبح کرو بَقَرَةً : ایک گائے قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَتَتَّخِذُنَا : کیا تم کرتے ہو ہم سے ھُزُوًا : مذاق قَالَ : اس نے کہا ( موسیٰ ) اَعُوْذُ : میں پناہ مانگتا ہوں بِاللّٰهِ : اللہ کی (اس بات سے اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں ہوجاؤں مِنَ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہلوں میں سے
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک بیل ذبح کرو وہ بولے کیا تم ہم سے ہنسی کرتے ہو ؟ (موسیٰ نے) کہا کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں
شناعت چہارم معاندانہ سوالات قال تعالیٰ واذ قال موسیٰ لقومہ ان اللہ یامرکم۔۔۔ الی۔۔۔ وماکادوا یفعلون اور یاد کرو اس وقت کو کہ بنی اسرائیل میں ایک متمول اور مالدار شخص جس کا نام عامیل کہا جاتا ہے سوائے بھتیجے کے اور کوئی اسکا وارث نہ تھا ایک مدت تک اس کے مرنے کا منتظر رہا۔ جب دیکھا کہ وہ مرتا ہی نہیں تو ایک روز موقعہ پا کر قتل کر ڈالا اور شب میں اس کی نعش کو محلہ میں لا ڈالا جب صبح ہوئی تو اہل محلہ پر خون کا دعویٰ کیا۔ تاکہ رت کہ کے علاوہ اہل محلہ سے مقتل چچا کی دیت اور خون بہا بھی وصول کرے۔ جیسا کہ ہماری شریعت میں قسامت کا حکم ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اہل محلہ سے دریافت کیا تو اہل محلہ نے قسم کھا کر بیان کیا کہ واللہ نہ ہم نے قتل کیا اور نہ ہم کو قاتل کا کوئی علم ہے۔ اے نبی اللہ اور اے کلیم اللہ آپ ہی بارگاہ خداوندی میں عرض معروض کیجئے تاکہ اس واقعہ کی حقیقت منکشف ہو۔ (تفسیر ابن کثیر) اس وقت اللہ کی یہ وحی نازل ہوئی کہ تحقیق اللہ سبحانہ وتعالیٰ تم کو یہ حکم دیتے ہیں کہ ایک گائے ذبح کرو اور اس گائے کا ایک ٹکڑا اس مقتول پر لگا دو تھوڑی دیر کے لیے وہ مقتول زندہ ہوجائے گا اور اپنے قاتل کا نام اور پتہ بتلا دے گا۔ یہ طریقہ اس لیے اختیار کیا گیا کہ انکار کی گنجائش نہ رہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اگر بذریعہ وحی اس کا نام بتلا دیتے تو ممکن تھا کہ یہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کرتے اور ان کی بات کا یقین نہ کرتے اور کفر میں مبتلا ہوتے۔ اور جب ایک مردہ زندہ ہو کر خبر دے گا تو اس میں نہ تو کذب کا احتمال ہوگا اور نہ کسی کو چون چرا کی گنجائش ہوگی اس لیے کہ جو شخص ابھی عالم غیب سے آیا ہو وہ کیسے جھوٹ بول سکتا ہے نیز اس میں ایک حکمت یہ تھی کہ لوگ سمجھ جائیں کہ گائے اور بچھڑا جس کو بنی اسرائیل نے معبود بنا لیا تھا وہ اس قابل نہیں کہ اس کی پرستش کی جائے وہ تو ذبح ہونے کے قابل ہے۔ قالوا اتتخذنا ھزوا۔ قال اعوذ باللہ ان اکون من الجاہلین۔ بنی اسرائیل یہ حکم سن کر بولے کیا آپ ہم سے تمسخر کرتے ہیں۔ بھلا گائے کے ذبح کرنے اور قاتل کے معلوم ہونے میں کیا مناسبت۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ قاتل کا پتہ بتلاؤ اور آپ فرماتے ہیں کہ ایک گائے ذبح کرو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ پناہ مانگتا ہوں میں اللہ سے اس کی کہ میں نادانوں سے ہوں۔ سوال کے مطابق جواب نہ دینا اور استہزاء اور تمسخر کرنا جاہلوں کا کام ہے معاذ اللہ انبیاء اللہ کا کام نہیں اور پھر وہ بھی احکام الٰہیہ میں۔ بنی اسرائیل اپنے زعم میں اس سوال کو فلسلہ سمجھے مگر حقیقت میں سراسر جہل اور سفہ تھا۔ یہ نہ سمجھا کہ احکام الہیہ کے اسرار سوائے مقربین بارگاہ خداوندی کے کس کو معلوم ہوسکتے ہیں اور اسباب اور مسببات کے ارتباط اور مناسبت کو کون سمجھ سکتا ہے۔ گائے کے پارچہ لگادینے سے مردہ کو بول اٹھنا گائے کا ذاتی اور طبعی خاصہ نہیں بلکہ قدرت الٰہیہ کا کرشمہ اور بارگاہ کلیم اللہ ہی کا معجزہ ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے اعوذ باللہ ان اکون من الجاہلین۔ کہنے کے بعد یہ سمجھے کہ یہ حکم تو اللہ کی طرف سے آ ہی چکا ہے جس کی تعمیل ناگزیر ہے اس لیے یہ خیال ہوا کہ جس گائے کے ذبح کا حکم ہوا ہے غالباً وہ کوئی عجیب و غریب گائے ہوگی اس لیے بار بار سوالات کیے کہ وہ کیسی گائے ہے اس کا رنگ کیسا ہے اس کی عمر کیا ہے وغیرہ زلک۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم (علیہ الصلوۃ والسلام) نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل کسی گائے کو بھی ذبح کردیتے تو کافی ہوجاتا لیکن انہوں نے تشدد کیا تو اللہ نے بھی ان پر سختی کی اس لیے کہ حق تعالیٰ نے کسی خاص اور معین گائے کے ذبح کا حکم نہیں دیا تھا اس لیے کہ ان اللہ یا مرکم ان تذبحوا بقرۃ میں لفظ بقرۃ نکرہ مستعمل ہوا ہے جس سے صاف ظاہر تھا کہ تعین مقصود نہیں بلکہ تعمیل مقصود ہے اگر تخصیص اور تعیین مطلوب ہوتی تو ان تذبحوا البقرۃ الف لام کے ساتھ معرفہ لایا جاتا۔
Top