Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 99
وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ١ۚ وَ مَا یَكْفُرُ بِهَاۤ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَنْزَلْنَا : ہم نے اتاری اِلَيْکَ : آپ کی طرف آيَاتٍ : نشانیاں بَيِّنَاتٍ : واضح وَمَا : اور نہیں يَكْفُرُ : انکار کرتے بِهَا : اس کا اِلَّا : مگر الْفَاسِقُوْنَ : نافرمان
اور ہم نے تمہارے پاس سلجھی ہوئی آیتیں ارسال فرمائی ہیں اور ان سے انکار وہی کرتے ہیں جو بد کردار ہیں
شناعت بست ویکم (21) قال تعالیٰ ولقد انزلنا الیکم ایت۔۔۔ الی۔۔۔ لوکانوا یعلمون اور آپ کی نبوت فقط قرآن پر موقوف نہیں کہ جس کے متعلق یہ بہانہ کردیا کہ قرآن تو جبریل لیکر آئے ہیں جو ہمارے دشمن ہیں بلکہ البتہ تحقیق ہم نے آپ کی نبوت و رسالت کے ثابت کرنے کے لیے نہایت واضح اور روشن دلائل نازل کیے جن میں کسی قسم کا اشتباہ اور التباس نہیں اور نہ ان میں جبریل کا توسط ہے پس اگر قرآن کو دلیل نبوت نہیں سمجھتے کہ جبرئیل سے دشمنی ہے تو ان آیات بینات کا تمہارے پاس کیا جواب ہے جن میں جبریل امین کا واسطہ نہیں اور ان کو خود بھی معلوم ہے مگر عناد کی وجہ سے انکار کرتے ہیں۔ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ابن صوریا یہودی نے ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ سے کہا کہ تم اپنی نبوت و رسالت کی کوئی ایسی نشانی نہیں لاتے جسے ہم بھی پہچانیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی (رواہ ابن ابی حاتم) اور مطلب یہ ہے کہ آپ کی نبوت کی ایک نشانی نہیں بلکہ صدھا نشانیاں موجود ہیں اور ان آیات وبینات کا نہیں انکار کرتے مگر وہ لوگ جو حد ہی سے گزر گئے ہیں اور مقتضاء عقل ونقل دونوں ہی کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ کیا یہ لوگ اپنے فسق کے منکر ہیں حالانکہ ان کی عادت مستمرہ یہ رہی ہے کہ جب کبھی ان لوگوں نے کوئی عہد و پیمان کیا ہے تو ایک فریق نے تو اس کو بالکل پس پشت ہی ڈال دیا ہے حالانکہ نقض عہد عقلا وشرعاً ہر طرح قبیح اور مذموم ہے اور فقط بدعہدی ہی نہیں بلکہ اکثر تو ان میں سے توریت پر بھی ایمان نہیں رکھتے اور توریت میں جو حضور پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا تھا اس کو واجب العمل نہیں سمجھتے۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ بد عہدی تو ادنی درجہ کی چیز ہے بہت سے تو توریت ہی پر ایمان نہیں رکھتے اور جب توریت ہی کو واجب الایمان اور واجب العمل نہیں سمجھتے تو بدعہدی کرنے کو وہ کیا گناہ سمجھیں گے۔ اب آئندہ آیت میں ایک خاص عہد شکنی کا ذکر فرماتے ہیں اور جب ان کے پاس ایک عظیم الشان رسول آیا یعنی محمد رسول اللہ ﷺ جس کو وہ پہچانتے تھے کہ یہ رسول اللہ کی طرف سے ہے انبیاء سابقین کی بشارتیں اور اس رسول کے معجزات اس کے صدق پر شاہد تھے۔ اور پھر اس کے علاوہ وہ پیغمبر اس کتاب کی تصدیق بھی کرنے والا ہے جو ان کے پاس ہے مثلاً توریت اور زبور جس میں نبی آخر الزمان کی خبر دی گئی ہے مگر باوجود اس کے اہل کتاب کے ایک فریق نے کتاب اللہ یعنی توریت کو پس پشت ڈالا گویا کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ اللہ کی کتاب میں کیا لکھا ہوا ہے اور یا یہ معنی ہیں کہ جانتے ہی نہیں کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہے غرض یہ کہ یہود نے اللہ کی کتاب کو تو پس پشت ڈال دیا جس کی انبیاء کرام تلاوت کرتے تھے۔ اور ان منتروں کے پیچھے ہو لیے جن کی شیاطین الانس والجن حضرت سلیمان کے دور حکومت میں تلاوت کیا کرتے تھے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت چونکہ عام تھی جن اور انس چرند اور پرند سب ان کے زیر حکم تھے اس لیے شیاطین اور جنات اور آدمی سب ملے جلے رہتے تھے۔ شیطانوں نے آدمیوں کو جادو سکھا رکھا تھا اور معاذ اللہ یہ سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے ہرگز ہگز نہ تھا اس لیے کہ یہ کام کفر کا ہے اور سلیمان (علیہ السلام) نے کبھی کسی قسم کا کفر نہیں کیا نہ عملی اور نہ اعتقادی اور نہ قبل النبوۃ اور نہ بعد النبوۃ اس لیے کہ وہ تو اللہ کے پیغمبر تھے کفر کے مٹانے کے لیے مبعوث ہوئے تھے سحر کو سلیمان (علیہ السلام) کی طرف نسبت کرنا سراسر افتراء ہے۔ یہود چونکہ سحر کو سلیمان (علیہ السلام) کی طرف نسبت کرتے تھے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی براءت ظاہر فرمادی لیکن شیاطین نے از خود یہ کفر کا کام کیا کہ لوگوں کو سحر کی تعلیم دینے لگے۔ یہود یہ کہتے تھے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اللہ کے نبی نہ تھے بلکہ ساحر اور جادوگر تھے۔ اس کے زور سے جنات اور آدمیوں اور ہوا پر حکومت کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس کا رد فرمایا کہ یہ کام کفر کا ہے اور سلیمان (علیہ السلام) نے کبھی یہ کام نہیں کیا اس لیے کہ نبی معصوم ہوتا ہے اس سے کفر کا صادر ہونا ناممکن ہے نبی تو کفر اور شرک کے مٹآنے کے لیے آتا ہے نہ کہ کرنیکے لیے اور علاوہ ازیں یہود اس سحر کا بھی اتباع اور پیروی کرتے تھے جو کہ شہر بابل میں دو فرشتوں پر ایک خاص حکمت کی بناء پر نازل کیا گیا تھا جن کا نام ہاروت اور ماروت تھا وہ حکمت یہ تھی کہ لوگ سحر اور معجزہ اور کرامت میں فرق معلوم کریں تاکہ پیغمبر اور جادوگر میں کوئی التباس اور اشتباہ نہ ہو کیوں کہ ظاہراً معجزہ کی طرح سحر بھی خارق عادت ہے اس لیے حق تعالیٰ نے دو فرشتے بصورت انسان بابل میں اتارے کہ لوگوں کو سحر کی حقیقت سمجھائیں تاکہ لوگوں کو سحر اور معجزہ میں کوئی اشتباہ پیش نہ آئے اور چونکہ مقصود یہ تھا۔ اس لیے یہ دونوں فرشتے کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ جز ایں نیست کہ ہم تو مخلوق کے لیے فتنہ اور آزمائش ہیں کہ کون سحر سیکھ کر کفر اور معصیت میں مبتلا ہوتا ہے اور کون اس کی حقیقت اور قباحت کو معلوم کر کے اس سے احتیاط اور پرہیز کرتا ہے سو دیکھو اس کو سیکھ کر کفر کا کام نہ کرنا یعنی سحر نہ کرنا اس سے ایمان جاتا رہے گا لیکن اس کے بعد یہی بعض لوگ ان سے وہ باتیں سیکھتے جن سے میاں اور بیوی کے درمیان تفرقہ ڈالتے اور یہ سمجھتے کہ یہ چیزیں بدون اللہ کی مشیت کے ضرر پہنچاتی ہیں اور یہ امر یقینی ہے کہ یہ جادوگر اس سحر کے ذریعہ سے کسی کو بھی بغیر اللہ کی مشیت اور ارادہ کے ذرہ برابر ضرر نہیں پہنچا سکتے جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے سحر میں تاثیر پیدا کردیتا ہے۔ اور جب چاہتا ہے تو اعمال کی تاثیر کو بند کردیتا ہے اور سحر کو بےاثر بنا دیتا ہے اور اگر بالفرض والتقدیر سحر میں کوئی کفر اور شرک بھی نہ ہوتا تب بھی عقل کا مقتضی یہی تھا کہ سحر سے احتراز کرتے کیونکہ یہ ایسے علم کو سیکھ رہے ہیں جو دنیا اور آخرت میں ان کے لیے ضرر رساں ہے اور اگر بالفرض مضر نہ ہو تو نافع بھی نہیں اور عاقل کا کام یہ ہے کہ جو چیز نقصان دے اور نفع نہ دے اس سے احتراز کرے اور ان کا سحر میں یہ اشتغال اور انہماک لا علمی اور نادانی کی بناء پر نہیں کہ اس کے ضرر سے بیخبر ہوں۔ البتہ خدا کی قسم ان کو خوب معلوم ہے کہ جو کفریات کو خریدے گا اس کیلیے آخرت میں کوئی حصہ ہوگا البتہ بہت ہی بری ہے وہ چیز جس کے بدلہ میں انہوں نے انہوں نے اپنی جانوں کو فروخت کر ڈالا کاش اس بات کو جانتے کہ ہم سعادت ابدیہ کو فروخت کر کے شقاوت ابدیہ کو خرید رہے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ یہود نے اپنے دین اور کتاب کے علم کو پس پشت ڈال دیا اور علم سحر کے پیچھے ہو لیے اور سحر کا علم لوگوں میں دو طرف سے پھیلا ایک تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عہد میں چونکہ جنات اور انسان آپس میں ملے جلے رہتے تھے اس لیے آدمیوں نے جنات اور شیاطین سے سحر سیکھا اور حضرت سلیمان کی طرف نسبت کردیا کہ یہ سحر ہم کو انہی سے پہنچا اور اسی کے ذور سے سے حضرت سلیمان جنات اور ہوا پر حکومت کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس کا رد فرمایا کہ یہ کام کفر کا ہے۔ سلیمان نے کبھی نہیں کیا۔ ان کے زمانہ میں شیطانوں نے آدمیوں کو سکھایا ہے۔ دوسرے ہاروت اور ماروت کی طرف سے پھیلا کہ وہ دو فرشتے تھے۔ انسان کی شکل میں شہر بابل میں رہتے تھے ان کو علم سحر معلوم تھا جو کوئی ان سے جادو سیکھنا چاہتا وہ پہلے ہی اس سے کہہ دیتے کہ اس میں ایمان جاتا رہے گا لیکن جب وہ اصرار کرتا تو سکھا دیتے اور صاف کہہ دیتے کہ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہے ایسے علم سے آخرت میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ دنیا اور آخرت دونوں ہی میں نقصان ہے بغیر اللہ کے حکم کے کچھ نہیں کرسکتے اگر علم دین سیکھتے تو اللہ کے یہاں ثواب پاتے اور اب بھی اللہ تعالیٰ نے ان پر توبہ کا دروازہ بند نہیں کیا جیسا کہ آئندہ ارشاد فرماتے ہیں۔ اور اگر یہ لوگ ایمان لاتے اور بجائے سحر کے اللہ کی کتاب کا اتباع کرتے اور علم سحر اور کتب سحر اور مضر اور بےفائدہ علوم سے پرہیز کرتے جیسے اس زمانہ میں ناول اور باتصویر رسالے جو تخریب اخلاق میں جادو کا اثر رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے یہاں سے جو بدلا ملے اگرچہ وہ تھوڑا ہو دنیا اور دنیا کی تمام نعمتوں سے بہتر ہے چہ جائیکہ سحر میں بطور مزدوری برائے نام کچھ مل جائے کاش انکو اتنی عقل ہوتی تو سمجھتے کہ دنیا کے تمام منافع آخرت کے ایک نفع کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔ فائدہ : شیاطین جس سحر کی تعلیم دیتے تھے وہ صریح کفر اور شرک تھی۔ ارواح کو خدا تالیٰ کے برابر جانتے تھے اور ان کے لیے وہ افعال اور تاثیرات ثابت کرتے تھے جو باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہیں اور ان کی مدح میں ایسے منتر پڑھتے تھے کہ جیسے خدا تعالیٰ کی عموم علم اور احاطۂ قدرت اور غایت عظمت و جلال ظاہر کرنے کے لیے حمد وثناء کے کلمات پڑھے جاتے ہیں اور فرشتوں کی تعلیم میں یہ بات نہ تھی۔ نہایت احتیاط کے ساتھ تعلیم دیتے تھے اور ساتھ ساتھ نصیحت کرتے تھے اور کفر کرنے سے منع کرتے تھے ان کا مقصد حقیقت سحر کو واضح کرنا تھا تاکہ نبی اور متنبی میں اشتباہ نہ ہو اور سحر اور معجزہ کا فرق معلوم ہوجائے اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ مؤثر حقیق سوائے باری تعالیٰ کے کوئی نہیں اور شیاطین کا مقصد اغواء اور اضلال تھا۔ قصۂ ہاروت اوماروت : تفسیر ابن جریر اور ابن کثیر اور در منثور میں عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر اور مجاہد اور قتادہ وغیرہم سے منقول ہے کہ جب ادریس (علیہ السلام) کے زمانہ میں اولاد آدم کے برے اعمال کے دفتر کے دفتر آسمان پر جانے لگے تو فرشتوں نے بنی آدم کے حق میں تحقیر اور طعن آمیز کلمات کہے کہ یہ کیسے بندے ہیں کہ اپنے مالک حقیقی کی نافرمانی کرتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے فرمایا میں نے بنی آدم کے خمیر میں غصہ اور شہوت رکھا ہے اس لیے ان سے گناہ ہوتے ہیں۔ اگر تم میں یہی قوت شہویہ اور قوت غضبیہ رکھدوں اور زمین پر اتار دوں تو تم بھی ایسے ہی گناہوں میں مبتلا ہوؤ گے۔ فرشتوں نے عرض کیا کہ اے پروردگار ہم ہرگز تیرے گناہ کے پاس بھی نہ جائیں گے حق تعالیٰ نے فرمایا کہ اچھا تم اپنے میں سے دو شخصوں کو منتخب کرلو۔ فرشتوں نے ہاروت اور ماروت کو جو فرشتوں میں کمال عبادت میں مشہور اور ممتاز تھے منتخب کیا۔ حق تعالیٰ نے قوت شہویہ اور غضبیہ کو ان میں پیدا کر کے حکم کہ زمین پر جاؤ اور لوگوں کے مقدمات کا عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا کرو۔ اور شرک اور خون ناحق اور زنا اور شراب سے پرہیز کرنا حسب ارشاد خداوندی دونوں فرشتے آصمان سے زمین پر اترے صبح سے لیکر شام تک قضاء کے کام میں مصروف رہتے اور جب شام ہوتی تو اسم اعظم پڑھ کر آسمان پر چلے جاتے ایک مہینہ اسی حالت میں گزرا یکایک امتحان خداوندی پیش آیا کہ ایک عورت مسماۃ زہرہ جو حسن و جمال میں شہرہ آفاق تھی اس کا مقدمہ ان کے اجلاس میں پیش ہوا۔ یہ دونوں فرشتے اس عورت کے حسن و جمال کو دیکھتے ہی اس پر فریفتہ ہوگئے اور اس کو پھسلانا شروع کیا۔ اس عورت نے ان کار کیا اور کہا کہ جب تک تم بت پرستی اختیار نہ کرو اور میرے خاوند کو قتل نہ کرو اور شراب نہ پیو میں تمہارے پاس نہیں آسکتی آپس میں دونوں نے مشورہ کیا کہ شرک اور قتل ناحق تو بہت بڑے گناہ ہیں اور شراب پینا اس درجہ کی معصیت نہیں اس لیے اس کو اختیار کرلینا چاہئے۔ غرض یہ کہ اس عورت نے پہلے ان کو شراب پلائی اور پھر بت کو سجدہ کرایا اور پھر شوہر کو قتل کرایا اور ان سے اسم اعظم سیکھا اور پھر ان کے ساتھ ہم بستر ہوئی بعد ازاں وہ عورت اسم اعظم پڑھ کر آسمان پر چلی گئی اور اس کی روح زہرہ ستارہ کی روح کے ساتھ جا ملی اور اس کی صورت زہرہ کی صورت ہوگئی اور وہ فرشتے اسم اعظم بھول گئے۔ اس لیے آسمان پر نہ جاسکے جب ہوش میں آئے نہایت نادم ہوئے اور ادریس (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا اور استغفار کی درخواست کی۔ اور بارگاہ خداوندی میں شفاعت کے خواستگار ہوئے۔ بارگاہ الٰہی سے یہ حکم آیا کہ عذاب تو تم کو ضرور ہوگا لیکن اس قدر تخفیف کی جاتی ہے کہ تم کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ دنیوی اور اخروی عذاب سے جس کو چاہو اختیار کرلو۔ فرشتوں نے دنیاوی عذاب کو سہل اور آسان سمجھا کہ یہاں کا عذاب تو عنقریب منقطع ہوجائے گا اس لیے اس کو اختیار کرلیا۔ چناچہ وہ اللہ کے حکم سے بابل کے کنویں میں الٹے لٹکا دئیے گئے اور وہیں ان کو آگ سے عذاب دیا جارہا ہے۔ پھر جو کوئی ان کے پاس جادو سیکھنے جاتا ہے وہ اول تو اس کو سمجھا دیتے ہیں اور جب اصرار کرتا ہے تو اس کو سکھا دیتے ہیں۔ (قصہ ختم ہوا) تحقیق : ہاروت وماروت کا جو قصہ نقل کیا گیا اس میں علماء کے دو فریق ہیں ایک فریق یہ کہتا ہے کہ یہ قصہ سرتاپا موضوع ہے اور یہود کا من گھڑت قصہ ہے اور انہی کی کتابوں سے ماخوذ ہے حضرات محدثین اس قصہ کو باعتبار روایت کے غیر معتبر قرار دیتے ہیں اور حضرات متکلمین باعتبار درایت کے اس کو غیر معتبر کہتے ہیں۔ قاضی عیاض اور امام رازی نے اس قصہ کا شد و مد سے انکار کیا ہے اس لیے کہ یہ قصہ اصول دین کے خلاف ہے۔ 1 ۔ اول یہ کہ فرشتے معصوم ہیں ان سے گناہ کا صدور عصمت کے منافی ہے 2 ۔ دوم یہ کہ جب وہ عذاب میں گرفتار ہیں تو ان کی فرصت کہاں سے ملی کہ لوگوں کو جادو سکھلائیں نیز تعلیم تعلیم کے اختلاف شرط ہے جو محبوس ہونے کی وجہ سے مفقود ہے ان کو لوگوں سے اختلاط کیسے میسر ہوا۔ 3 ۔ سوم یہ کہ ایک فاحشہ اور بدکار عورت کا دھوکہ سے اسم اعظم سیکھ کر آسمان پر چڑھ جانا سراسر غیر معقول ہے۔ اسماء الٰہی کے لیے تقوی اور طہارت شرط ہے۔ 4 ۔ چہارم یہ کہ مسخ اور تبدیل صورت عقوبت کے لیے ہوتا ہے اور عقوبت کے لیے تحقیر اور اہانت لازم ہے اور آسمان پر پہنچ کر ستارہ بن جانے میں نہ کوئی عقوبت ہے اور نہ کوئی تحقیر اور اہانت ہے۔ 5 ۔ پنجم یہ کہ زہرہ تو ایک مشہور ستارہ ہے جو ابتداء آفرینش عالم سے موجود ہے اور اس قصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت کو مسخ کر کے زہرہ ستارہ بنادیا گیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ستارہ اس واقعہ کے بعد وجود میں آیا اور اس واقعہ سے پہلے یہ ستارہ موجود نہ تھا اور یہ سراسر غیر معقول ہے ان وجوہ کی بناء پر ان علماء نے اس قصہ کا انکار کیا لیکن جلال الدین سیوطی اور ملا علی قاری وغیرہم فرماتے ہیں کہ اس بارے میں روایات مرفوعہ اور آثار صحابہ اسانید صحیحہ کے ساتھ اس قدر کثرت سے آئے ہیں کہ جن کا انکار ناممکن ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ بےاصل نہیں۔ انتہی ٰ لہذا اس قصہ کی صحت اور عدم صحت کے بارے میں توقف اور سکوت مناسب ہے اور جن حضرات مفسرین نے اس قصہ کو ذکر کیا ہے ان پر تشنیع اور نازیبا کلمات سے ان کا ذکر کرنا سراسر خلاف ادب ہے بہت سے اکابر محدثین اور مفسرین نے بغرض تحقیق وتنقیح اپنی کتابوں میں رطب ویابس کو جمع کیا ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ اس قصہ کے بارے میں جس قدر روایتیں آئی ہیں اگر تتبع کر کے ان تمام روایات کو جمع کیا جائے تو ان کا قدر مشترک حصہ تواتر کو پہنچ جاتا ہے اگرچہ واقعہ کی خصوصیات میں اختلاف ہو لیکن جو قدر مشترک حد تواتر کو پہنچ چکا ہے اس کا انکار دشوار ہے انفرادی طور پر اگرچہ ہر طریق اور ہر سند ضعیف اور واہی ہو لیکن ضعیف روایتوں کا تواتر بھی ترجیح صدق کا موجب ہوتا ہے لہذا مناسب یہ ہے کہ بجائے انکار اور تکذیب کے قصہ کی کوئی مناسب توجیہ کی جائے جس سے اصول دین کی مخالفت باقی نہ رہے۔ 1 ۔ وہ توجیہ یہ ہے کہ فرشتوں کی عظمت اس وقت تک ہے جب تک فرشتے اپنی اصلی حالت اور اصلی حقیقت پر رہیں اور جب ان میں بھی کسی حکمت اور مصلحت سے شہوت اور غضب کی کیفیت پیدا کردی گئی تو وہ خالص فرشتے نہ رہے اس لیے اب ان کے لیے عصمت بھی لازم اور ضروری نہ ہوگی۔ 2 ۔ نیز عذاب اور گرفتاری کی حالت میں تعلیم سحر کا جاری رہنا محال تو کیا مستبعد بھی نہیں۔ کیا جیل خانہ میں رہ کر افادہ اور استفادہ ممکن نہیں۔ ایک حاذق طبیب اگر اس کے ہوش و حواس سالم ہوں تو ہماری کی حالت میں بھی علم طب کی تعلیم دے سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ فرشتوں کی قوت ادراکیہ انسان کی قوت ادراکیہ سے کہیں اکمل اور اتم ہے عذاب اور گرفتاری کی حالت ان کے لیے تعلیم سے مانع نہیں ہوسکتی خصوصاً جبکہ غیب سے ان کو مدد بھی پہنچتی ہو کیونکہ آسمان سے اس تعلیم کے لیے اتارے گئے تھے۔ جیسا کہ قتادہ سے مروی ہے کہ ہر سال ان کے پاس ایک شیطان جاتا ہے اور تازہ سحر سیکھ کر آتا ہے اور لوگوں میں پھیلاتا ہے جس شخص کو کسی علم کا ملکہ ہوتا ہے تو وہ بیماری اور لاچاری کی حالت میں اس علم کی تعلیم دے سکتا ہے اور بسبب مزاولت اور محارست اور بروجہ ملکۂ مہارت اس کو تعلیم وتلقین میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ 3 ۔ نیز وہ عورت اگرچہ بدکار تھی لیکن مقصود اس کا قرب الٰہی کو حاصل کرنا تھا اپنے حسن و جمال کو اسم اعظم کے معلوم کرنے کا زریعہ بنایا۔ خرابی جو کچھ تھی وہ ذریعہ اور وسیلہ میں تھی۔ اصل مقصد میں کوئی قبح نہ تھا۔ حسن نیت کی برکت سے کامیاب ہوئی۔ اور جس طرح بغرض ابتلاء فرشتے بشکل بشر بنا کر آسمان سے زمین پر اتارے گئے اسی طرح ایک ستارہ کی روح ایک حسین و جمیل عورت کی شکل میں ہاروت اور ماروت کی عصمت کے امتحان کے لیے نمودار ہوئی اور امتحان ہوجانے کے بعد اصلی صورت کی طرف لوٹ گئی یعنی صورت بشریہ سے صورت کو کبیہ کی طرف واپس ہوگئی۔ جس طرح جنات مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتے ہیں اور پھر اپنی اصلی صورت کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ اسی طرح یہاں سمجھو۔ لہذا جن روایات میں اس عورت کا زہرہ ستارہ کی صورت میں مسخ ہونے کا ذکر آیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عورت کی روح کا تعلق زہرہ کی روح کے ساتھ کردیا گیا اور یہ مطلب نہیں کہ یہ ستارہ پہلے ہی سے موجود نہ تھا اور اب اس عورت کے مسخ ہونے کے بعد وجود میں آیا۔ 5 ۔ اور صورت کو کبیہ اگرچہ کتنی ہی شرافت اور عظمت رکھتی ہو لیکن صورت انسانیہ کے اعتبار سے بہت حقیر اور ذلیل ہے۔ کما قال تعالیٰ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ خلاصۂ کلام : بعض علماء نے اس قصہ کو اصول دین اور قواعد شریعت کے خلاف سمجھا اس لیے اس کو غیر معتبر قرار دیا اور بعض علماء نے کثرۃ طرق اور کثرۃ اسانید کی بناء پر اس قصہ کا بالکلیہ ان کار مناسب نہیں سمجھا۔ بیس سندوں سے زیادہ اس قصہ کا مروی ہونا اس کی خبر دیتا ہے کہ اس قصہ کی اصل ضرور ہے بالکل بےاصل نہیں روایات مختلفہ کا جو قدر مشترک تھا یہ حضرات اس کے قائل ہوئے اور خصوصیات کے بارے میں توقف اور سکوت کیا اور جو باتیں بظاہر اصول شریعت کے خلاف معلوم ہوتی تھیں ان کی مناسب توجیہ اور تاویل فرمائی اور یہ طریق نہایت اسلم اور معتدل ہے۔ روایت کا دارومدار طرق اور اسانید پر ہے اگرچہ وہ طرق اور اسانید ضعیف اور واہی کیوں نہ چند ضعفاء کے مل جانے سے بھی ایک گونہ قوت آجاتی ہے اس لیے جو ضعیف حدیث متعدد طرق سے مروی ہو اصطلاح محدثین میں اس کو حسن لغیرہ کہتے ہیں۔ لہذا کسی ضعیف روایت کا بالکلیہ انکار کردینا خود خلاف درایت ہے یہ کیا ضروری ہے کہ جو چیز آپ کے نزدیک خلاف دراویت اور دوسرے عالم کے نزدیک بھی خلاف درایت ہو۔ ممکن ہے کہ آپ کی درایت نے غلطی کی ہو۔ فوق کل ذی علم علیم وفوق کل ذی فھو فھیم اور محض اسرائیلیات میں سے ہونا بھی تکذیب اور انکار کا سبب نہیں بن سکتا الا یہ کہ نصوص کتاب وسنت اور قواعد و شریعت اور اجماع امت کے خلاف ہو۔ حدیث میں ہے حدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج (اسرائیلی باتوں کے نقل میں کوئی حرج نہیں) میرا یہ مطلب نہیں کہ یہ قصہ قطعاً صحیح ہے اور ناظرین بھی اس کو صحیح مانیں میرا مطلب فقط اس قدر ہے کہ بیدھڑک ہو کر روایات کا انکار نہ کریں باقی رہی آیات کی تفسیر تو وہ اس قصہ کے صحیح ہونے پر موقوف نہیں کہ جیسا کہ ناظرین نے تفسیر کو پڑھ کر دیکھ لیا ہوگا۔ ایک شبہ اور اس کا ازالہ : حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) ایک وعظ میں فرماتے ہیں کہ اگر یہ شبہ کیا جائے کہ سحر تو حرام اور کفر ہے باقی اس کا جاننا اور بضرورت شروع اسکا سیکھنا خصوصاً جبکہ اس پر عمل کرنے کی مخالفت بھی ساتھ ساتھ ہو تو حرام نہیں جیسے سور اور کتے کا گوشت کھانا حرام ہے مگر اس کی خاصیت معلوم کرنا اور اس کو بیان کرنا حرام نہیں۔ فقہاء نے کلمات کفریہ کے لیے ایک مستقل باب رکھا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ کن باتوں سے ایمان جاتا رہتا ہے فلسفہ کے بہت سے مسائل کفر ہیں لیکن اس کی تعلیم دی جاتی ہے تاکہ اس کی حقیقت معلوم کر کے اس کا جواب دیا جاسکے۔ ایک اور اشکال اور اس کا جواب : رہا یہ اشکال کہ پھر اس کی تعلیم کے لیے فرشتے کیوں نازل کیے گئے۔ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام ہی سے یہ کام کیوں نہ لے لیا گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام ہدایت محضہ کے لیے مبعوث ہوتے ہیں۔ ان کی تعلیم سحر میں یہ احتمال ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص ان سے سیکھنے کے بعد اسی میں مشغول اور مبتلا ہوجائے تو اس طرح حضرات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام گمراہی کا سبب بعید بھی بنانا گوارا نہیں فرمایا بخلاف فرشتوں کے کہ ان سے تشریع اور تکوین دونوں قسم کے کام لیے جاتے ہیں اور تکوین میں جس طرح وہ مسلمانوں کی پرورش اور حفاظت کرتے ہیں اسی طرح وہ کافروں کی بھی پرورش اور حفاظت کرتے ہیں حالانکہ ہمارے لیے شرعاً کافر کی اعانت اور امداد ناجائز ہے انبیاء کرام کے تشریعی نظام سپرد ہوتا ہے اور ملائکہ کے تکوینی نظام سپرد ہوتا ہے اس لیے تعلیم سحر کی خدمت ملائکہ کے سپر دہوئی کہ اگر وہ اس میں ضلالت کا سبب بن جائیں تو ان کی شان کے خلاف نہ ہوگا۔ اور حضرات انبیاء کے لیے گمراہی کا سبب بعید بننا بھی خلاف شان ہے۔ کذا فی تعمیم التعلیم ص 51 نمبر 13 از تبلیغ ؎ جس طرح حضرات انبیاء کرام نے یہ بتلایا کہ رشوت حرام ہے مگر رشوت کی حقیقت نہیں بتلائی اسی طرح حضرات انبیاء نے یہ تو بتلادیا کہ سحر حرام ہے مگر سحر کی حقیقت نہیں بتلائی۔
Top