Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 9
یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۚ وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ
يُخٰدِعُوْنَ : وہ دھوکہ دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ کو وَ : اور الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے وَ : اور مَا : نہیں يَخْدَعُوْنَ : وہ دھوکہ دیتے اِلَّآ : مگر اَنْفُسَھُمْ : اپنے نفسوں کو وَ : اور مَا : نہیں يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور رکھتے
یہ خدا کو اور مومنوں کو چکما دیتے ہیں مگر (حقیقت میں) اپنے سوا کسی کا چکما نہیں دیتے اور اس سے بیخبر ہیں
یخدعون اللہ والذین امنوا وما یخدعون الا انفسھم وما یشعرون۔ یہ منافقین اپنے زعم میں اللہ اور مومنین سے فریب اور دھوکہ کرتے ہیں۔ حالانکہ نہیں دھوکہ دیتے مگر اپنے نفسوں کو اس لیے کہ حق تعالیٰ عالم الغیب والشہادۃ ہیں۔ ان سے کوئی شے مخفی نہیں اور مومنین کو بذریعہ وحی ان کی دغا بازی کی اطلاع دیتے رہتے ہیں ان کے اس فریب سے اہل ایمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ الٹآ انہی کو نقصان ہوتا ہے۔ : مخادعت مفاعلت کا وزن ہونے کی وجہ سے مشارکت کو مقتضی ہے۔ سو منافقین کی طرف سے تو خداع اور مکر ظاہر ہے۔ مگر حق جل شانہ کی طرف سے ان پر ظاہرا احکام اسلام کا جاری ہونا یا دنیوی نعمتیں دیکر استدراج اور امہال میں مبتلا کرنا یہ حق تعالیٰ کی طرف سے خداع ہے۔ یعنی یہ منافقین اس قدر احمق اور بدحواس ہیں کہ اس امر کا ذرہ برابر احساس نہیں کہ حق تعالیٰ شانہ پر کسی کا کوئی فریب اور دھوکہ کسی طرح نہیں چل سکتا۔ فائدہ : (1) اگر زبان سے اسلام اور ایمان کا اقرار ہو اور دل میں انکار ہو تو یہ اعتقادی نفاق کہلاتا ہے اور اگر دل میں بھی اقرار ہو مگر اعمال اسلام کے پورے مطابق نہ ہوں تو یہ عملی نفاق کہلاتا ہے اس سے کافر نہیں ہوتا اگر حال قال کے مطابق نہ ہو تو سلف صالحین اس کو بھی نفاق کہتے تھے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ عبداللہ بن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ میں نے تیس صحابہ کو کو پایا کہ ہر ایک اپنے نفس پر نفاق سے ڈرتا تھا۔ حضرات صحابہ ؓ کا یہ حال تھا کہ ذرا قلب کی نورانیت میں فرق پایا تو اس کو نفاق سمجھتے تھے۔ حضرت حنظلہ ؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ حنظلہ تو منافق ہوگیا۔ آپ کی حضوری میں قلب کی جو حالت ہوتی ہے وہ اہل و عیال میں جا کر نہیں رہتی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ حالت ہمیشہ نہیں رہ سکتی۔ اگر ہمیشہ یہی حالت رہتی تو گلی کوچوں میں اور بستروں پر فرشتے تم سے مصافحہ کرتے۔ 2 ۔ جاننا چاہئے کہ شیعوں کا تقیہ بھی کھلا ہوا انفاق ہے۔ اگرچہ وہ اس کو ایمان کہیں کما قالوا لا لا ایمان لمن لا تقیۃ لہ۔ اور کیوں نہیں منافق تو اپنے نفاق کو ایمان اور اخلاص ہی سمجھتا ہے۔ 3 ۔ تفسیر ابن کثیر میں امام مالک سے منقول ہے کہ اس زمانہ میں ملحد اور زندیق حکم میں منافق کے ہے انتہی۔ تشریح۔ جو شخص شریعت کے الفاظ تو بحال رکھے مگر معنی ایسے بیان کرے جس سے اس کی حقیقت ہی بدل جائے ایسے شخص کو قرآن کی اصطلاح میں ملحد اور حدیث کی اصطلاح میں زندیق کہتے ہیں ایسا شخص دعویٰ تو اسلام کا کرتا ہے مگر دل میں کفر ﷺ ضمر ہے اور آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ میں تاویلات فاسدہ کر کے مسلمانوں کو دھوکا دیتا ہے وجہ یہ ہے کہ دل میں زیغ اور کجی کی بیماری ہے جو اس کو تاویلات میں زیادتی ہوتی جاتی ہے جیسا کہ آئندہ آیت میں ارشاد ہے۔ اور ان منافقین کا اپنے نفسوں کو دھوکہ اور فریب دینا بالکل ظاہر ہے مگر ان کو اس لیے ظاہر نہیں ہوتا کہ فی قلوبھم مرض فزادھم اللہ مرضا۔ ان کے دلوں میں ایک خاص قسم کا مرض ہے جس سے ان کی قوت اور الیہ ماؤف ہوچکی ہے اور یہ کتاب بلاشبہ پیغام شفاء اور نسخۂ ہدایت تھی۔ اگر دلوں کو بغض اور عناد سے صاف کر کے اس نسخۂ شفاء کو استعمال کرتے تو شفایاب ہوجاتے۔ مگر اس کتاب ہدایت کے ساتھ ان کا بغض اور عناد زیادتی مرض کا سبب بن گیا۔ پس اللہ نے ان کے مرض کو اور بڑھایا۔ جو عضو اور جو حاسہ جس غرض اور جس مقصد کے لیے وضع کیا گیا ہے اس حاسہ سے اس غرض کے نہ حاصل ہونے کا نام مرض ہے۔ زبان کے حق میں نطق اور گویائی اور آنکھ کے حق میں نظر اور بینائی کا اور جسم کے حق میں گرفت اور احساس کا دشوار ہوجانا یہ زبان اور آنکھ اور جسم کا مرض ہے علی ہذا قلب کے حق میں اللہ جل جلالہ کی معرفت اور اس کی محبت اور اسکی اطاعت کا دشوار ہوجانا کہ جس کے لیے یہ پیدا کیا گیا ہے۔ یہ قلب کا مرض ہے۔ ہرچہ جز عشق خدائے احسن است گر شکر خوردن بودجان کندن است حالت مرض میں مرغ متنجن اور بہتر سے بہتر غذا بھی مفید نہیں ہوتی بلکہ اور مرض اور بیماری میں قوت اور شدت پیدا کردیتی ہے۔ ہر چہ گیرد علتی علت بود اول ازالۂ مرض کی فکر چاہئے اس کے بعد مناسب غذا دیجائے۔ اسی طرح باطنی اور روحانی مریض کو ایمان وہدایت کی تلقین کوئی نفع نہیں دیتی بلکہ اور مرض میں اضافہ کردیتی ہے۔ جو شخص صفراء کے مرض میں مبتلا ہے اس کو قند اور نبات بھی تلخ معلوم ہوتی ہے اور قند اور نبات کے استعمال سے اس کا صفاء اور زیادہ ہوجاتا ہے۔ ومن یک ذافم مر مریض یجد مرا بہ الماء الزلالا جس کے منہ کا مزہ تلخ ہو اس کو آب زلال بھی تلخ معلوم ہوت ا ہے۔ اسی طرح جو شخص کفر اور نفاق کے مرض میں مبتلا ہو اس کو ایمان کی حلاوت اور شیرینی کہاں محسوس ہوسکتی ہے۔ کفر اور نفاق کے صفراء نے اس کی قوت ذائقہ کو تلخ بنادیا ہے اس لیے اس کو ایمان اور ہدایت کی حلاوت محسوس نہیں ہوتی شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ " ایک آزار یہ تھا کہ جس دین کو دل نہ چاہتا تھا ناچار قبول کرنا پڑا اور دوسرا آزار اللہ نے زیادہ دیا کہ حکم کیا جہاد کا جن کے خیر خواہ تھے۔ کان سے لڑنا پڑا " (موضح القرآن) ولھم عذاب الیم بما کانوا یکذبون۔ اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے اس لیے کہ وہ دعوائے ایمان میں جھوٹ بولتے تھے اور ھر طرفہ یہ کہ اس جھوٹ کو اپنا کمال سمجھتے ہیں۔ مردوں کی طرح اپنے عقیدہ کو کھول کر نہیں بیان کرتے۔ عورتوں کی طرح ڈرجتے ہیں اسی وجہ سے منافق کھلے کافر سے بد تر ہے۔ اس لیے کہ کافر فقط کفر کرتا ہے مگر جھوٹ تو نہیں بولتا۔ اور نہ کسی کو دھوکہ دیتا ہے بخلاف منافق کے کہ وہ کفر بھی کرتا ہے اور زبان سے جھوٹ بھی بولتا ہے کہ مسلمان ہوں اور اہل ایمان کو دھوکہ دیتا ہے۔ کما قال تعالیٰ واللہ یشھد ان المنافقین لکاذبون۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں جو منافق تھا وہ اس زمانہ میں زندیق ہے (تفسیر ابن کثیر) یعنی زندیق وہ ہے جو منافقوں کی طرح دعویٰ تو اسلام کا کرے مگر دل میں کفر مضمر ہو۔
Top