Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 105
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ
وَلَقَدْ كَتَبْنَا
: اور تحقیق ہم نے لکھا
فِي الزَّبُوْرِ
: زبور میں
مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ
: نصیحت کے بعد
اَنَّ
: کہ
الْاَرْضَ
: زمین
يَرِثُهَا
: اس کے وارث
عِبَادِيَ
: میرے بندے
الصّٰلِحُوْنَ
: نیک (جمع)
اور ہم نے نصیحت (کی کتاب یعنی تورات) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا کہ میرے نیکو کار بندے ملک کے وارث ہوں گے
بشارت وراثت زمین برائے عباد صالحین قال اللہ تعالیٰ ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصلحون۔ (ربط) گزشتہ آیت یعنی ان الذین سبقت لہم منا الحسنی۔ میں آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے والوں کو اخروی بشارت (خوشخبری) کا ذکر تھا اب اس آیت میں ایک عظیم دنیوی بشارت کا ذکر فرماتے ہیں یعنی بادشاہت اور وراثت زمین کی خوشخبری کا ذکر ہے کہ ہم عنقریب دنیا میں اپنے نیک بندوں کو یعنی صحابہ کرام کو زمین کا وارث بنائیں گے اور زمین کی حکومت اور سلطنت اور زمین پر غلبہ اور اقتدار اعلیٰ کو عطاء کریں گے جس سے اشارہ خلافت راشدہ کی طرف ہے اور وہ بھی اس عنوان سے کہ اس بشارت (خوشخبری) کو ہم اگلی کتابوں میں لکھ چکے ہیں اور ہماری بارگاہ سے صحابہ کے لیے وراثت زمین کا حکم جارہی ہوچکا ہے اور یہ ہمارا ایسا حتمی اور قطعی وعدہ ہے کہ جس کی رجسٹری ہوچکی ہے اور تمام انبیاء کے صحیفوں میں اس کا اندراج ہوچکا ہے کہ عنقریب قیصر و کسریٰ کی سلطنت صحابہ کرام ؓ کے قبضہ میں آئے گی۔ پھر اس بشارت کے بعد یہ فرمایا ان فی ھذا لبلاغا لقوم عابدین۔ یعنی اس خوشخبری میں عبادت گزاروں کے لیے ایک عجیب اطلاع ہے جس سے مقصود اتمام حجت ہے کہ اہل اعراض اور اہل غفلت پر اللہ کی حجت پوری ہوگئی کہ نبی آخر الزمان مبعوث ہونگے اور یہ کتاب ہدایت نازل کردی گئی جو کافی اور شافی ہے اور اللہ کا یہ حتمی وعدہ ہے کہ اس نبی آخر الزمان ﷺ کے صحابہ زمین شام اور زمین ایران کے وارث ہونگے اور زمین پر غالب ہونگے۔ پھر اخیر میں فرمایا وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین۔ یعنی ہم نے نبی آخر الزمان ﷺ کو تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے کہ آپ ﷺ کے اتباع کی برکت سے دینی اور دنیوی دونوں قسم کی نعمتیں اور سعادتیں ملیں گی اور جس گروہ کو یہ دونوں قسم کی نعمتیں اور دونوں قسم کی سعادتیں ملیں گی وہ عباد صالحین کے لقب سے ملقب ہونگے۔ اور جب ولایت اور بادشاہت دونوں ایک کمبل اور ایک گدڑی میں جمع ہوجائیں تو اسی کا نام خلافت راشدہ ہے اور جب فرمانروائے سلطنت خدا کا نیک بندی اور ولی بھی ہو تو وہ خلیفہ راشد ہے جو ظاہر کے اعتبار سے امیر سلطنت اور باطن کے اعتبار سے شیخ طریقت ہے۔ (ربط دیگر) کہ گزشتہ آیت کما بدأنا اول خلق نعیدہ وعدا علینا انا کنا فاعلین۔ میں یہ فرمایا تھا کہ پہلی بار کی طرح دوبارہ مخلوق کو پیدا کرنے کا وعدہ ہمارے ذمہ ہے اب آئندہ آیت میں یہ فرماتے ہیں کہ وعدہ قیامت کی علامتوں کا ظہور شروع ہوگیا کہ نبی آخر الزمان ﷺ مبعوث ہوگئے اور آخری امت بھی ظاہر ہوگئی پس سمجھ لو کہ قیامت قریب ہوگئی لہٰذا غفلت اور اعراض سے باز آجاؤ اور اس نبی آخر الزمان ﷺ سے ہمارا یہ حتمی وعدہ ہے کہ اس کے صحابہ زمین پر غالب ہو نگے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور البتہ تحقیق ہم نے توریت کے بعد لوح محفوظ کے بعد حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبور میں یا انبیاء سابقین کے صحیفوں اور نوشتوں میں لکھ دیا ہے کہ معمورہ زمین کے یاسرزمین شام اور ایران کے وارث میرے خاص نیک بندے ہونگے یعنی زمین کے بادشاہ اور فرمانروا ہونگے اور باوجود بادشاہت اور سلطنت کے صلاح اور تقویٰ کے لباس سے آراستہ ہونگے اس آیت میں جس وراثت ارضیہ کی بشارت دی گئی اس سے خلافت راشدہ کی طرف اشارہ ہے جس کو بصیغہ خبر بیان کیا گیا اور یہ بتلا دیا کہ یہ پیشین گوئی ایسی قطعی اور حتمی ہے کہ اس کو خدائی قبالہ اور دستاویر سمجھ کر جس کی تمام انبیاء کے صحیفوں میں رجسٹری ہوچکی ہے اور سب جگہ اس کا اندراج ہوچکا ہے جس میں شک اور شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اور بشارت اور یہ خوشخبری قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں مذکور ہے منجملہ ان کے ایک آیت استخلاف ہے۔ وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم ولیمکنن لہم دینھم الذی ارتضی لہم۔ اور حق جل شانہ کا یہ ارشاد ذلک مثلہم فی التورۃ ومثلہم فی الانجیل۔ بھی اسی مضمون کی دوسری تعبیر ہے۔ زبور : اس آیت میں زبور سے یا تو حضرت داؤد (علیہ السلام) کی کتاب مراد لی جائے یا آسمانی صحیفے اور نوشتے مراد لیے جائیں جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء و سابقین ﷺ پر اتارے کیونکہ لفظ زبور کے معنی از روئے لغت نوشتہ یعنی لکھی ہوئی چیز کے ہیں اس آیت میں دونوں معنی بن سکتے ہیں۔ ذکر : ذکر کے معنی لغت میں نصیحت کے ہیں اور اس جگہ ذکر سے توریت کے معنی مراد ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ ذکر سے لوح محفوظ کے معنی مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ توریت کے بعد ہم نے زبور میں یہ لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث نیک بندے ہونگے۔ الارض (زمین): ارض کے معنی زمین کے ہیں اس بارے میں مفسرین کے چار قول ہیں (قول اول) یہ کہ زمین سے ملک شام کی زمین مراد ہے۔ (قول دوم) یہ کہ زمین سے روم اور ایران کی زمین مراد ہے۔ (قول سوم) یہ کہ ارض سے معمورہ ارض مراد ہے۔ (قول چہارم) یہ کہ زمین سے جنت کی زمین مراد ہے۔ صحیح اور راجح قول۔ قول اول اور قول دوم ہے اور تیسرے قول کا مراد لینا بھی صحیح ہے اور مطلب یہ ہے کہ شام اور ایران کی زمینیں فتح ہونگی اور دنیا کی جو دو بڑی سلطنتیں ہیں یعنی ایران اور روم وہ اسلام کے زیر نگین آئیں گی اور تمام معمورہ ارض پر اسلام کو اقتدار اعلیٰ حاصل ہوگا اور قول چہارم نہایت بعید ہے۔ اور سیاق وسباق کے خلاف ہے۔ بہرحال آیت میں زمین سے دنیا کی زمین مراد ہے اور یہ تمام زمینیں یعنی شام اور ایران کی زمین حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے زمانہ خلافت میں مفتوح ہوئیں۔ لہٰذا روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ ان دونوں حضرات کی خلافت خدا کے اس وعدہ کے مطابق تھی اور وہ اور ان کے رفقاء بلاشبہ عباد صالحین تھے۔ بہر صورت آیت میں اسلام کے ظہور اور غلبہ کی طرف اشارہ ہے اور مخالفین کے لیے تہدید ہے کہ یہ نہ سمجھنا کہ اسلام مٹ جائیگا اور اگر آیت میں ” الارض “ سے ارض مقدسہ مراد ہو تو اہل کتاب کو تہدید ہوگی کہ تمہارا قبلہ عنقریب مسلمانوں کے زیر نگین آئیگا اور وہ اس کے مالک اور وارث ہونگے اور عنقریب قیصر روم روم کی سلطنت ملک شام سے ختم ہوجائے گی اور مسلمان اس پر قابض ہوجائیں گے۔ اور یہ زمینیں حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں جو ان کی حسن تدبیر سے فتح ہوئیں معلوم ہوا کہ خلفاء راشدین بلاشبہ عباد صالحین کا مصداق تھے۔ جس کی خلافت قرآن سے پہلے توریت اور زبور میں لکھی جا شکی تھی۔ چناچہ یہ مضمون اب بھی موجودہ بائبل کے زبور 37 میں مذکور ہے چند آیتیں ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ 9۔ لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہونگے۔ 11۔ جو حلیم ہیں ملک کے وارث ہونگے جن کو وہ برکت دیتا ہے وہ زمین کے وارث ہونگے۔ دیکھو مجموعہ بائبل ص 548 از زبور۔ اور توریت میں ابھی اس زمین کی وراثت کی تصریح موجود ہے چناچہ توریت کتاب پیدائش باب 17 درس 8 میں ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے یہ وعدہ فرمایا کہ میں تجھ کو اور تیری نسل کو کنعان کا تمام ملک دوں گا۔ (الخ) کنعان کے ملک سے زمین شام مراد ہے دیکھو باب 17 از اول تا آخر جو نبی اکرم ﷺ کے ظہور سراپا نور کی بشارت پر مشتمل ہے۔ شیعہ کیا کہتے ہیں اس آیت کی تفسیر میں علماء شیعہ یہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں نزول عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) اور ظہور مہدی (علیہ السلام) کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ماقبل میں حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم (علیہما السلام) کا قصہ مذکور ہے اور فیامت کا بھی ذکر ہے اس لیے ارض سے تمام روئے زمین مراد ہے جس پر امام مہدی (علیہ السلام) کے زمانہ میں قبضہ ہوگا۔ اہلسنت والجماعت کہتے ہیں کہ یہ قول قطعاً صحیح نہیں ہے اس لیے کہ اس آیت سے مقصود صحابہ کی خوشخبری سنانا ہے اور ظاہر ہے کہ صحابہ کو ایسی چیز کی خوشخبری سنان جس کا ظہور قیامت کے قریب ہو اور اس چیز میں سے ان کو کچھ نہ ملے۔ یہ خوشخبری نہیں بلکہ ایک قسم کا مذاق ہے جس سے اللہ تعالیٰ پاک اور منزہ ہے۔ نیز اس آیت میں جو لفظ عبادی الصالحون۔ کا مذکور ہے جس کے لفظی معنی نیک بندوں کے ہیں اس سے باجماع مفسرین صحابہ کرام ؓ مراد ہیں جو اس بشارت کے اولین مصداق ہیں جن کے ہاتھوں پر شام اور ایران فتح ہوا اور حسب وعدہ الٰہی وہ اس کی زمینوں کے وارث ہوئے اور تمام معمورہ ارض پر ان کو اقتدار اعلیٰ حاصل ہوا۔ بہرحال اس آیت میں خلافت راشدہ کی بشارت اور خوشخبری دی گئی ہے اس لیے کہ کلام کی ابتدای ولقد اتینا ابراہیم رشدہ سے ہوئی اور خلافت راشدہ کی بشارت پر کلام کی انتہاء ہوئی اور یہ بشارت اور یہ خوشخبری قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں مذکور ہے اور یہ بھی مذکور ہے کہ اس دینی اور دنیوی سعادت کا تذکرہ اور شہرہ گزشتہ آسمانی کتابوں میں بھی ہوچکا تھا جیسا کہ سورة اعراف میں گزرا کہ ایک مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) نے بارگاہ الٰہی میں اپنی امت کے لیے یہ دعا کہ واکتب لنا فی ھذہ الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ تو بارگاہ الٰہی سے یہ جواب ملا کہ اس انعام دنیوی اور اخروی کا ظہور نبی آخر الزمان کے پیروؤں کے لیے لکھا جا چکا ہے۔ فساکتبھا للذین یتقون .... الیٰ قولہ .... الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التورۃ والانجیل۔ تفصیل کے لئے سورة اعراف کو دیکھیں۔ نیز اس آیت میں یعنی ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصلحون۔ میں جس وعدہ کا ذکر فرمایا ہے یہی وعدہ آیت استخلاف یعنی آیت وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت لیستخلفنھم فی الارض میں صراحت و وضاحت کے ساتھ مذکور ہے جس کا بیان انشاء اللہ تعالیٰ سورة نور کی تفسیر میں آئے گا۔ اور علیٰ ہذا سورة فتح کی آیت ذلک مثلہم فی التورۃ ومثلہم فی الانجیل۔ میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے۔ اور بخاری اور مسلم کی حدیثوں میں واضح الفاظ کے ساتھ صحابہ کرام کے لیے یہ بشارت مذکور ہے کہ تم قیصر و کسریٰ کے خزانوں کو فتح کرو گے۔ اور ان کو باہم تقسیم کرو گے اور ان کو خدا کی راہ میں خرچ کرو گے۔ (اطلاع) اس بارے میں جو تاریخی روایات اور واقعات منقول ہیں وہ شمار سے باہر ہیں اگر ان کی تفصیل درکار ہو تو ازالۃ الخفاء مؤلفۃ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ کی مراجعت کریں۔ ایک شبہ اور اس کا ازالہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب قدس سرہٗ اپنے ایک وعظ میں فرماتے ہیں کہ اس آیت یعنی ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یوثھا عبادی الصلحون۔ میں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ ایک زمانہ میں خدا کے نیک بندے زمین کے وارث ہوں گے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ وارث ہمیشہ ہمیشہ نیک بندے ہی ہوا کریں گے اور کافر کبھی وارث نہ ہوں گے اور اطلاق کے صدق کے لیے ایک مرتبہ کا وقوع کافی ہے چناچہ بحمد اللہ حضرات صحابہ ؓ روئے زمین کے مالک بن چکے ہیں زمانہ عروج اسلام میں کوئی سلطنت مسلمانوں کے مقابلہ کی تاب نہ رکھتی تھی اور اگر آیت میں زمین سے جنت کی زمین مراد ہو تو پھر کوئی اشکال ہی نہیں اس لئے کہ ظاہر ہے کہ جنت کی زمین کے وارث نیک بندے ہی ہوسکتے ہیں۔ (واللہ اعلم) ۔ (کذا فی النعم المرغوبہ ص 63 وعط نمبر 69 از سلسلہ تبلیغ) یہ ناچیز کہتا ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں سے غلبہ و فتح اور نصرت کا وعدہ کیا گیا ہر جگہ ایمان اور عمل صالح کی قید اور شرط مذکور ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ ولا تھنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مومنین اور اس آیت میں عبادی الصلحون۔ کا لفظ مذکور ہے اور آئندہ سورت یعنی سورة حج میں آنے والی آیت میں وان اللہ علیٰ نصرھم لقدیر میں الذین ان مکناہم فی الارض اقاموا الصلوٰۃ واتوا الزکوۃ وامروا بالمعروف ونھوا عن المنکر۔ کے شرائط اور قیود مذکور ہیں اور آئندہ سورة نور میں جو آیت استخلاف آنے والی ہے اس میں بھی ایمان اور عمل صالح کی قید مذکور ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت لیستخلفنھم فی الارض۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جس سلطنت کا وعدہ فرمایا ہے وہ اہل ایمان اور صالحین سے فرمایا ہے۔ اب اس زمانہ میں اسلامی سلطنتوں پر جو زوال اور اختلاف کے بادل منڈلا رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ارکان دولت محض زبان سے رعایا کے خوف سے اسلام کا نام لے لیتے ہیں ورنہ درپردہ ایمان اور عمل صالح سے کورے ہیں۔ محض نام کے مسلمان ہیں اور اندرونی طور پر دشمنان اسلام کے نمک خوار اور حاشیہ بردار بنے ہوئے ہیں اور ظاہری طور پر دشمنان اسلام کے ہمرنگ بنے ہوئے ہیں کھانا اور پہننا اور اٹھنا اور بولنا اور لکھنا پڑھنا سب انگریزی وغیرہ وغیرہ۔ اسلام اور مسلمانوں سے ان لوگوں کو کوئی ہمدردی نہیں اس قسم کے نام کے مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ نے خلافت ارضیہ اور زمین کی وراثت کا کوئی وعدہ نہیں فرمایا۔ بحمدہ تعالیٰ آج بھی روئے زمین پر مسلمانوں کی بہت سی سلطنتیں ہیں اور مال و دولت سے مالا مال ہیں مگر اسلام کے رنگ سے خالی ہیں اگر خلفائے راشدین کے طریقہ پر چلیں تو پھر وہی عروج حاصل ہوسکتا ہے اللہ کا وعدہ اپنی جگہ پر برحق اور صدق ہے سارا قصور ہمارا ہی ہے۔ ہنوز آں ابر رحمت درفشاں است خم و خمخانہ بامہر و نشاں است حق جل شانہ کا ارشاد ہے اوفوا بعھدی اوف بعھدکم اے بندو تم میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا۔
Top