Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 105
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ
وَلَقَدْ كَتَبْنَا : اور تحقیق ہم نے لکھا فِي الزَّبُوْرِ : زبور میں مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ : نصیحت کے بعد اَنَّ : کہ الْاَرْضَ : زمین يَرِثُهَا : اس کے وارث عِبَادِيَ : میرے بندے الصّٰلِحُوْنَ : نیک (جمع)
اور ہم نے نصیحت (کی کتاب یعنی تورات) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا کہ میرے نیکو کار بندے ملک کے وارث ہوں گے
بشارت وراثت زمین برائے عباد صالحین قال اللہ تعالیٰ ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصلحون۔ (ربط) گزشتہ آیت یعنی ان الذین سبقت لہم منا الحسنی۔ میں آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے والوں کو اخروی بشارت (خوشخبری) کا ذکر تھا اب اس آیت میں ایک عظیم دنیوی بشارت کا ذکر فرماتے ہیں یعنی بادشاہت اور وراثت زمین کی خوشخبری کا ذکر ہے کہ ہم عنقریب دنیا میں اپنے نیک بندوں کو یعنی صحابہ کرام کو زمین کا وارث بنائیں گے اور زمین کی حکومت اور سلطنت اور زمین پر غلبہ اور اقتدار اعلیٰ کو عطاء کریں گے جس سے اشارہ خلافت راشدہ کی طرف ہے اور وہ بھی اس عنوان سے کہ اس بشارت (خوشخبری) کو ہم اگلی کتابوں میں لکھ چکے ہیں اور ہماری بارگاہ سے صحابہ کے لیے وراثت زمین کا حکم جارہی ہوچکا ہے اور یہ ہمارا ایسا حتمی اور قطعی وعدہ ہے کہ جس کی رجسٹری ہوچکی ہے اور تمام انبیاء کے صحیفوں میں اس کا اندراج ہوچکا ہے کہ عنقریب قیصر و کسریٰ کی سلطنت صحابہ کرام ؓ کے قبضہ میں آئے گی۔ پھر اس بشارت کے بعد یہ فرمایا ان فی ھذا لبلاغا لقوم عابدین۔ یعنی اس خوشخبری میں عبادت گزاروں کے لیے ایک عجیب اطلاع ہے جس سے مقصود اتمام حجت ہے کہ اہل اعراض اور اہل غفلت پر اللہ کی حجت پوری ہوگئی کہ نبی آخر الزمان مبعوث ہونگے اور یہ کتاب ہدایت نازل کردی گئی جو کافی اور شافی ہے اور اللہ کا یہ حتمی وعدہ ہے کہ اس نبی آخر الزمان ﷺ کے صحابہ زمین شام اور زمین ایران کے وارث ہونگے اور زمین پر غالب ہونگے۔ پھر اخیر میں فرمایا وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین۔ یعنی ہم نے نبی آخر الزمان ﷺ کو تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے کہ آپ ﷺ کے اتباع کی برکت سے دینی اور دنیوی دونوں قسم کی نعمتیں اور سعادتیں ملیں گی اور جس گروہ کو یہ دونوں قسم کی نعمتیں اور دونوں قسم کی سعادتیں ملیں گی وہ عباد صالحین کے لقب سے ملقب ہونگے۔ اور جب ولایت اور بادشاہت دونوں ایک کمبل اور ایک گدڑی میں جمع ہوجائیں تو اسی کا نام خلافت راشدہ ہے اور جب فرمانروائے سلطنت خدا کا نیک بندی اور ولی بھی ہو تو وہ خلیفہ راشد ہے جو ظاہر کے اعتبار سے امیر سلطنت اور باطن کے اعتبار سے شیخ طریقت ہے۔ (ربط دیگر) کہ گزشتہ آیت کما بدأنا اول خلق نعیدہ وعدا علینا انا کنا فاعلین۔ میں یہ فرمایا تھا کہ پہلی بار کی طرح دوبارہ مخلوق کو پیدا کرنے کا وعدہ ہمارے ذمہ ہے اب آئندہ آیت میں یہ فرماتے ہیں کہ وعدہ قیامت کی علامتوں کا ظہور شروع ہوگیا کہ نبی آخر الزمان ﷺ مبعوث ہوگئے اور آخری امت بھی ظاہر ہوگئی پس سمجھ لو کہ قیامت قریب ہوگئی لہٰذا غفلت اور اعراض سے باز آجاؤ اور اس نبی آخر الزمان ﷺ سے ہمارا یہ حتمی وعدہ ہے کہ اس کے صحابہ زمین پر غالب ہو نگے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور البتہ تحقیق ہم نے توریت کے بعد لوح محفوظ کے بعد حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبور میں یا انبیاء سابقین کے صحیفوں اور نوشتوں میں لکھ دیا ہے کہ معمورہ زمین کے یاسرزمین شام اور ایران کے وارث میرے خاص نیک بندے ہونگے یعنی زمین کے بادشاہ اور فرمانروا ہونگے اور باوجود بادشاہت اور سلطنت کے صلاح اور تقویٰ کے لباس سے آراستہ ہونگے اس آیت میں جس وراثت ارضیہ کی بشارت دی گئی اس سے خلافت راشدہ کی طرف اشارہ ہے جس کو بصیغہ خبر بیان کیا گیا اور یہ بتلا دیا کہ یہ پیشین گوئی ایسی قطعی اور حتمی ہے کہ اس کو خدائی قبالہ اور دستاویر سمجھ کر جس کی تمام انبیاء کے صحیفوں میں رجسٹری ہوچکی ہے اور سب جگہ اس کا اندراج ہوچکا ہے جس میں شک اور شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اور بشارت اور یہ خوشخبری قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں مذکور ہے منجملہ ان کے ایک آیت استخلاف ہے۔ وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم ولیمکنن لہم دینھم الذی ارتضی لہم۔ اور حق جل شانہ کا یہ ارشاد ذلک مثلہم فی التورۃ ومثلہم فی الانجیل۔ بھی اسی مضمون کی دوسری تعبیر ہے۔ زبور : اس آیت میں زبور سے یا تو حضرت داؤد (علیہ السلام) کی کتاب مراد لی جائے یا آسمانی صحیفے اور نوشتے مراد لیے جائیں جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء و سابقین ﷺ پر اتارے کیونکہ لفظ زبور کے معنی از روئے لغت نوشتہ یعنی لکھی ہوئی چیز کے ہیں اس آیت میں دونوں معنی بن سکتے ہیں۔ ذکر : ذکر کے معنی لغت میں نصیحت کے ہیں اور اس جگہ ذکر سے توریت کے معنی مراد ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ ذکر سے لوح محفوظ کے معنی مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ توریت کے بعد ہم نے زبور میں یہ لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث نیک بندے ہونگے۔ الارض (زمین): ارض کے معنی زمین کے ہیں اس بارے میں مفسرین کے چار قول ہیں (قول اول) یہ کہ زمین سے ملک شام کی زمین مراد ہے۔ (قول دوم) یہ کہ زمین سے روم اور ایران کی زمین مراد ہے۔ (قول سوم) یہ کہ ارض سے معمورہ ارض مراد ہے۔ (قول چہارم) یہ کہ زمین سے جنت کی زمین مراد ہے۔ صحیح اور راجح قول۔ قول اول اور قول دوم ہے اور تیسرے قول کا مراد لینا بھی صحیح ہے اور مطلب یہ ہے کہ شام اور ایران کی زمینیں فتح ہونگی اور دنیا کی جو دو بڑی سلطنتیں ہیں یعنی ایران اور روم وہ اسلام کے زیر نگین آئیں گی اور تمام معمورہ ارض پر اسلام کو اقتدار اعلیٰ حاصل ہوگا اور قول چہارم نہایت بعید ہے۔ اور سیاق وسباق کے خلاف ہے۔ بہرحال آیت میں زمین سے دنیا کی زمین مراد ہے اور یہ تمام زمینیں یعنی شام اور ایران کی زمین حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے زمانہ خلافت میں مفتوح ہوئیں۔ لہٰذا روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ ان دونوں حضرات کی خلافت خدا کے اس وعدہ کے مطابق تھی اور وہ اور ان کے رفقاء بلاشبہ عباد صالحین تھے۔ بہر صورت آیت میں اسلام کے ظہور اور غلبہ کی طرف اشارہ ہے اور مخالفین کے لیے تہدید ہے کہ یہ نہ سمجھنا کہ اسلام مٹ جائیگا اور اگر آیت میں ” الارض “ سے ارض مقدسہ مراد ہو تو اہل کتاب کو تہدید ہوگی کہ تمہارا قبلہ عنقریب مسلمانوں کے زیر نگین آئیگا اور وہ اس کے مالک اور وارث ہونگے اور عنقریب قیصر روم روم کی سلطنت ملک شام سے ختم ہوجائے گی اور مسلمان اس پر قابض ہوجائیں گے۔ اور یہ زمینیں حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں جو ان کی حسن تدبیر سے فتح ہوئیں معلوم ہوا کہ خلفاء راشدین بلاشبہ عباد صالحین کا مصداق تھے۔ جس کی خلافت قرآن سے پہلے توریت اور زبور میں لکھی جا شکی تھی۔ چناچہ یہ مضمون اب بھی موجودہ بائبل کے زبور 37 میں مذکور ہے چند آیتیں ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ 9۔ لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہونگے۔ 11۔ جو حلیم ہیں ملک کے وارث ہونگے جن کو وہ برکت دیتا ہے وہ زمین کے وارث ہونگے۔ دیکھو مجموعہ بائبل ص 548 از زبور۔ اور توریت میں ابھی اس زمین کی وراثت کی تصریح موجود ہے چناچہ توریت کتاب پیدائش باب 17 درس 8 میں ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے یہ وعدہ فرمایا کہ میں تجھ کو اور تیری نسل کو کنعان کا تمام ملک دوں گا۔ (الخ) کنعان کے ملک سے زمین شام مراد ہے دیکھو باب 17 از اول تا آخر جو نبی اکرم ﷺ کے ظہور سراپا نور کی بشارت پر مشتمل ہے۔ شیعہ کیا کہتے ہیں اس آیت کی تفسیر میں علماء شیعہ یہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں نزول عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) اور ظہور مہدی (علیہ السلام) کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ماقبل میں حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم (علیہما السلام) کا قصہ مذکور ہے اور فیامت کا بھی ذکر ہے اس لیے ارض سے تمام روئے زمین مراد ہے جس پر امام مہدی (علیہ السلام) کے زمانہ میں قبضہ ہوگا۔ اہلسنت والجماعت کہتے ہیں کہ یہ قول قطعاً صحیح نہیں ہے اس لیے کہ اس آیت سے مقصود صحابہ کی خوشخبری سنانا ہے اور ظاہر ہے کہ صحابہ کو ایسی چیز کی خوشخبری سنان جس کا ظہور قیامت کے قریب ہو اور اس چیز میں سے ان کو کچھ نہ ملے۔ یہ خوشخبری نہیں بلکہ ایک قسم کا مذاق ہے جس سے اللہ تعالیٰ پاک اور منزہ ہے۔ نیز اس آیت میں جو لفظ عبادی الصالحون۔ کا مذکور ہے جس کے لفظی معنی نیک بندوں کے ہیں اس سے باجماع مفسرین صحابہ کرام ؓ مراد ہیں جو اس بشارت کے اولین مصداق ہیں جن کے ہاتھوں پر شام اور ایران فتح ہوا اور حسب وعدہ الٰہی وہ اس کی زمینوں کے وارث ہوئے اور تمام معمورہ ارض پر ان کو اقتدار اعلیٰ حاصل ہوا۔ بہرحال اس آیت میں خلافت راشدہ کی بشارت اور خوشخبری دی گئی ہے اس لیے کہ کلام کی ابتدای ولقد اتینا ابراہیم رشدہ سے ہوئی اور خلافت راشدہ کی بشارت پر کلام کی انتہاء ہوئی اور یہ بشارت اور یہ خوشخبری قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں مذکور ہے اور یہ بھی مذکور ہے کہ اس دینی اور دنیوی سعادت کا تذکرہ اور شہرہ گزشتہ آسمانی کتابوں میں بھی ہوچکا تھا جیسا کہ سورة اعراف میں گزرا کہ ایک مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) نے بارگاہ الٰہی میں اپنی امت کے لیے یہ دعا کہ واکتب لنا فی ھذہ الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ تو بارگاہ الٰہی سے یہ جواب ملا کہ اس انعام دنیوی اور اخروی کا ظہور نبی آخر الزمان کے پیروؤں کے لیے لکھا جا چکا ہے۔ فساکتبھا للذین یتقون .... الیٰ قولہ .... الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التورۃ والانجیل۔ تفصیل کے لئے سورة اعراف کو دیکھیں۔ نیز اس آیت میں یعنی ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصلحون۔ میں جس وعدہ کا ذکر فرمایا ہے یہی وعدہ آیت استخلاف یعنی آیت وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت لیستخلفنھم فی الارض میں صراحت و وضاحت کے ساتھ مذکور ہے جس کا بیان انشاء اللہ تعالیٰ سورة نور کی تفسیر میں آئے گا۔ اور علیٰ ہذا سورة فتح کی آیت ذلک مثلہم فی التورۃ ومثلہم فی الانجیل۔ میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے۔ اور بخاری اور مسلم کی حدیثوں میں واضح الفاظ کے ساتھ صحابہ کرام کے لیے یہ بشارت مذکور ہے کہ تم قیصر و کسریٰ کے خزانوں کو فتح کرو گے۔ اور ان کو باہم تقسیم کرو گے اور ان کو خدا کی راہ میں خرچ کرو گے۔ (اطلاع) اس بارے میں جو تاریخی روایات اور واقعات منقول ہیں وہ شمار سے باہر ہیں اگر ان کی تفصیل درکار ہو تو ازالۃ الخفاء مؤلفۃ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ کی مراجعت کریں۔ ایک شبہ اور اس کا ازالہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب قدس سرہٗ اپنے ایک وعظ میں فرماتے ہیں کہ اس آیت یعنی ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یوثھا عبادی الصلحون۔ میں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ ایک زمانہ میں خدا کے نیک بندے زمین کے وارث ہوں گے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ وارث ہمیشہ ہمیشہ نیک بندے ہی ہوا کریں گے اور کافر کبھی وارث نہ ہوں گے اور اطلاق کے صدق کے لیے ایک مرتبہ کا وقوع کافی ہے چناچہ بحمد اللہ حضرات صحابہ ؓ روئے زمین کے مالک بن چکے ہیں زمانہ عروج اسلام میں کوئی سلطنت مسلمانوں کے مقابلہ کی تاب نہ رکھتی تھی اور اگر آیت میں زمین سے جنت کی زمین مراد ہو تو پھر کوئی اشکال ہی نہیں اس لئے کہ ظاہر ہے کہ جنت کی زمین کے وارث نیک بندے ہی ہوسکتے ہیں۔ (واللہ اعلم) ۔ (کذا فی النعم المرغوبہ ص 63 وعط نمبر 69 از سلسلہ تبلیغ) یہ ناچیز کہتا ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں سے غلبہ و فتح اور نصرت کا وعدہ کیا گیا ہر جگہ ایمان اور عمل صالح کی قید اور شرط مذکور ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ ولا تھنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مومنین اور اس آیت میں عبادی الصلحون۔ کا لفظ مذکور ہے اور آئندہ سورت یعنی سورة حج میں آنے والی آیت میں وان اللہ علیٰ نصرھم لقدیر میں الذین ان مکناہم فی الارض اقاموا الصلوٰۃ واتوا الزکوۃ وامروا بالمعروف ونھوا عن المنکر۔ کے شرائط اور قیود مذکور ہیں اور آئندہ سورة نور میں جو آیت استخلاف آنے والی ہے اس میں بھی ایمان اور عمل صالح کی قید مذکور ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت لیستخلفنھم فی الارض۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جس سلطنت کا وعدہ فرمایا ہے وہ اہل ایمان اور صالحین سے فرمایا ہے۔ اب اس زمانہ میں اسلامی سلطنتوں پر جو زوال اور اختلاف کے بادل منڈلا رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ارکان دولت محض زبان سے رعایا کے خوف سے اسلام کا نام لے لیتے ہیں ورنہ درپردہ ایمان اور عمل صالح سے کورے ہیں۔ محض نام کے مسلمان ہیں اور اندرونی طور پر دشمنان اسلام کے نمک خوار اور حاشیہ بردار بنے ہوئے ہیں اور ظاہری طور پر دشمنان اسلام کے ہمرنگ بنے ہوئے ہیں کھانا اور پہننا اور اٹھنا اور بولنا اور لکھنا پڑھنا سب انگریزی وغیرہ وغیرہ۔ اسلام اور مسلمانوں سے ان لوگوں کو کوئی ہمدردی نہیں اس قسم کے نام کے مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ نے خلافت ارضیہ اور زمین کی وراثت کا کوئی وعدہ نہیں فرمایا۔ بحمدہ تعالیٰ آج بھی روئے زمین پر مسلمانوں کی بہت سی سلطنتیں ہیں اور مال و دولت سے مالا مال ہیں مگر اسلام کے رنگ سے خالی ہیں اگر خلفائے راشدین کے طریقہ پر چلیں تو پھر وہی عروج حاصل ہوسکتا ہے اللہ کا وعدہ اپنی جگہ پر برحق اور صدق ہے سارا قصور ہمارا ہی ہے۔ ہنوز آں ابر رحمت درفشاں است خم و خمخانہ بامہر و نشاں است حق جل شانہ کا ارشاد ہے اوفوا بعھدی اوف بعھدکم اے بندو تم میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا۔
Top