Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 34
وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ١ؕ اَفَاۡئِنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ
وَ : اور مَا جَعَلْنَا : ہم نے نہیں کیا لِبَشَرٍ : کہ بشر کے لیے مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے قبل الْخُلْدَ : ہمیشہ رہنا اَفَا۟ئِنْ : کیا پس اگر مِّتَّ : آپ نے انتقال کرلیا فَهُمُ : پس وہ الْخٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور (اے پیغمبر) ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کو بقائے دوام نہیں بخشا بھلا اگر تم مرجاؤ تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟
بیان فناء عالم و رجوع ہمہ بسوئے خلاق عالم و جواب از شماتت اعداء بموت سرور عالم سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ قال اللہ تعالیٰ وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد .... الیٰ .... والینا ترجعون۔ (ربط) گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے دلائل قدرت کے ذیل میں چھ قسم کی نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ جو تمام دنیوی نعمتوں کی اصل اور جڑ ہیں اب ان آیات میں یہ بتاتے ہیں کہ یہ دنیا دار فنا ہے دار البقاء نہیں یہ پوری دنیا اور اس کی تمام چیزیں فانی ہیں اس دنیا کے عجائب وغرائب اور اس کی آرائش و زیبائش پر مفتون نہ ہوجانا۔ حق تعالیٰ نے ان چیزوں کو آزمائش اور امتحان کے لیے پیدا کیا ہے فنا اور موت ہر چیز کے لیے لازم ہے مرنے کے بعد تم کو خیر و شر کا بدلہ دیا جائے گا کوئی شخص ایسا نہیں کہ جس کو موت نہ آوے۔ ہر شخص کو مرنا ہے اور اپنے خالق کی طرف لوٹنا ہے، اپنے انجام کو سوچ لو۔ شان نزول : اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ کفار یہ کہتے تھے۔ نتربص بہ ریب المنون۔ یعنی ہم محمد ﷺ کے لیے حادثہ موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ کفار حضور پر نور ﷺ کی باتیں سن کر یہ کہتے تھے کہ یہ ساری دھوم دھام اس شخص کے دم تک ہے جب یہ مرجائیں گے تو یہ دھوم دھام سب جاتی رہے گی گویا کہ آپ کی موت پر خوش تھے ان کی شماتت کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی گویا دلائل قدرت بیان کرنے کے بعد روئے سخن مسئلہ نبوت کی طرف پھیر دیا گیا۔ چناچہ فرماتے ہیں اور اے نبی ہم نے آپ ﷺ سے پہلے دنیا میں کسی بشر کو ہمیشگی نہیں دی۔ خواہ ولی ہو یا نبی دنیا میں بقاء اور دوام کسی کے لیے نہیں۔ پس اگر تو مرجائے تو کیا یہ لوگ آپ کے بعد ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ کافر آپ کی موت کے منتظر تھے اور خوشیاں منا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا میں دوام اور بقاء ہم نے کسی کو بھی نہیں دیا جو پیدا ہوا ہے وہ ضرور مرے گا۔ ہر شخص اپنے اپنے وقت پر موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔ خضر (علیہ السلام) ہوں یا عیسیٰ (علیہ السلام) ہوں قیامت سے پہلے وہ بھی مرنے والے ہیں۔ ہر کہ آمد بجہاں اہل فنا خواہد بود آنکہ پائندہ باقی است خدا خواہد بود اور اے لوگو ہم تم کو اس دنیا میں بڑائی اور بھلائی کے ساتھ بطریق امتحان تم کو آزما رہے ہیں بھلائی سے مراد میری اور عزت و راحت اور صحت و عافیت اور ہر قسم کا عیش و آرام ہے اور برائی سے مراد سختی اور بیماری اور افلاس ہمارے پاس لوٹائے جاؤ گے اور ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا دیں گے۔ لہٰذا تم کو ثاہئے کہ اس چند روزہ زندگی کی بجائے مرنے کے بعد کی زندگی کی زیادہ فکر کرو۔
Top