Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 78
وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْكُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ١ۚ وَ كُنَّا لِحُكْمِهِمْ شٰهِدِیْنَۗۙ
وَدَاوٗدَ : اور داو ود وَسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان اِذْ : جب يَحْكُمٰنِ : فیصلہ کر رہے تھے فِي الْحَرْثِ : کھیتی (کے بارہ) میں اِذْ : جب نَفَشَتْ : رات میں چوگئیں فِيْهِ : اس میں غَنَمُ الْقَوْمِ : ایک قوم کی بکریاں وَكُنَّا : اور ہم تھے لِحُكْمِهِمْ : ان کے فیصلے (کے وقت) شٰهِدِيْنَ : موجود
اور داود اور سلیمان (کاحال بھی سن لو کہ) جب وہ ایک کھیتی کا مقدمہ فیصل کرنے لگے جس میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو چرگئیں (اور اسے روندگئی) تھیں اور ہم ان کے فیصلہ کے وقت موجود تھے
(5) قصہ داؤد و سلیمان (علیہما السلام) قال اللہ تعالیٰ وداود وسلیمن اذ یحکمن فی الحرث .... الیٰ .... وکنالہم حفظین۔ یہ پانچواں قصہ حضرت داؤد و سلیمان (علیہما السلام) کا ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل میں سے ہیں اور باوجود بادشاہت اور فرمانروائی کے خدا پرست تھے اور غایت درجہ کے عادل اور مصنف تھے۔ امیری اور فقیری اور شاہی اور درویشی دونون کے جامع تھے۔ ابوبکر و عمر کی خلافت داؤد و سلیمان (علیہما السلام) کی بادشاہت کا نمونہ تھی داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) نبی تھے اور اللہ کے خلیفہ تھے اور ابوبکر و عمر نبی نہ تھے، مگر اعلیٰ درجہ کے ولی تھے اور خاتم الانبیاء کے خلیفہ تھے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کا قصہ بیان کیجئے جبکہ وہ دونوں کھیتی کے مقدمہ میں فیصلہ کر رہے تھے۔ جبکہ رات کے وقت اس کھیت میں کچھ لوگوں کی بکریاں چرگئی تھی اور ہم اس کے فیصلہ کے وقت موجود تھے، ہمارے روبرو یہ فیصلہ ہوا۔ صورت یہ ہوئی کہ ایک شخص کی بکریوں نے ایک شخص کا کھیت بالکل چر لیا۔ فریقین اپنا مقدرمہ لیکر فیصلہ کرانے کے لیے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس آئے۔ کھیت والے نے کہا کہ اس شخص کی بکریاں رات کو میرا سارا کھیت چر گئیں اور اس میں نال تک نہ چھوڑی، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے حال سن کر حساب کیا تو معلوم ہوا کہ کل بکریوں کی قیمت کھیت کی قیمت کے برابر ہے لہٰذا آپ (علیہ السلام) نے حکم دیا کہ یہ بکریاں سب کھیت والے کو دے دی جائیں کیونکہ کھیت کے نقصان اور بکریوں کی قیمت برابر تھی، وہ یہ فیصلہ سن کر وہاں سے چل دئیے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جب اس فیصلہ کا علم ہوا تو کہا کہ اگر میں فیصلہ کرتا تو یہ فیصلہ نہ کرتا۔ میں دوسری طرح فیصلہ کرتا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کہا میرے نزدیک فیصلہ کی بہتر صورت یہ ہے کہ بکریاں تو کھیت والے کو دے دی جائیں کہ وہ ان کے دودھ اور نسل سے فائدہ اٹھائے اور بکریوں والے کھیت کی آبپاشی اور تردو کریں یہاں تک کہ جب سال آئندہ اس کا کھیت پھر اس حالت پر آجائے کہ جس دن وہ کھایا گیا تھا تو بکریوں والا اس کا کھیت اس کے حوالے کر دے اور اپنی بکریاں اس سے واپس لے لے۔ اس میں دونوں کا فائدہ ہے نقصان کسی کا نہیں۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو جب اس فیصلہ کا علم ہوا تو اس فیصلے کو بہت پسند کیا اور اپنے فیصلہ سے رجوع فرمایا۔ چناچہ فرماتے ہیں پس ہم نے فیصلہ کا یہ طریقہ سلیمان (علیہ السلام) کو سمجھا دیا کہ جو دونوں فریق کے حق میں مفید ہوگیا اور ہر ایک کو یعنی باپ اور بیٹے کو ہم نے علم و حکمت عطا کیا ہر ایک نے اپنے علم کے مطابق فیصلہ کیا دونوں فیصلے حق تھے دونوں کا مقصد یہ تھا کہ اس نقصان کا تاوان اور ضمان دلایا جائے۔ داؤد (علیہ السلام) نے ضمان کی یہ صورت اختیار فرمائی کہ بکریوں کی ملک ان کے مالک سے زائل کرکے کھیت والے کی ملک کردیں اور سلیمان (علیہ السلام) نے کسی کی ملک زائل نہیں کہ بلکہ بکریوں کے منفعت سے اس کے نقصان کی تلافی کردی کہ اتنی مدت تک بکریوں کی منفعت کھیت والے کے لیے حلال کردی جب تک وہ کھیت اپنی اصلی حالت پر نہ آجائے کھیت والا بکریوں کے چرجانے کی وجہ سے اپنے کھیت کی منفعت سے محروم ہوگیا تھا۔ اس کی تلافی کے لیے ایک مدت تک بکریاں اس کے حوالہ کردی گئیں کہ اس سے منتفع ہوتا ہے بدون اس کے کہ بکریوں کی ملک ان کے مالک سے زائل ہو نقصان کی تلافی منفعت سے فرما دی۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے بکریاں کھیت والے کو دینے کا فیصلہ اس لیے فرمایا کہ ان کی شریعت میں یہ حکم تھا کہ جو چوری کرے تو اس کو غلام بنا لیا جائے، اس کے مطابق یہ حکم دیا۔ قالوا جزاؤہ من وجد فی رجلہ فہم جزاؤہ کذالک نجزی الظلمین۔ اور سلیمان (علیہ السلام) نے دوسرا فیصلہ کیا۔ جس میں دونوں کا نقصان نہ ہو حضرت داؤد کا یہ فیصلہ ظاہری قیاس کے مطابق تھا کہ رات کا وقت تھا بکریوں کی حفاظت اور ان کو بند رکھنا بکریوں کے مالک کا ذمہ تھا اگر وہ بکریوں کی پوری نگرانی رکھتا تو بکریاں باہر نکل کر کسی کا کھیت خراب نہ کرتیں پس جب بکریوں کے مالک نے بکریوں کی نگہداشت میں کوتاہی کی اور اس کوتاہی کی وجہ سے دوسرے کا کھیت خراب ہوا۔ تو داؤد (علیہ السلام) نے اس نقصان کے ضمان اور تاوان میں بکریاں کھیت والے کو دے دیں اور کھیت والے کو ان بکریوں کا مالک بنا دیا۔ کیونکہ کھیت کے نقصان اور بکریوں کی قیمت برابر تھی اس قسم کے فیصلہ کو اصطلاح فقہاء میں قیاس جلی کہتے ہیں اور سلیمان (علیہ السلام) نے جو فیصلہ فرمایا اس میں ملکیت ہر ایک کی بحالہٖ برقرار رکھی۔ کھیتی کے نقصان کی تلافی بکریوں کے منافع سے کردی اس قسم کے قیاس کو اصطلاح فقہاء میں استحسان کہتے ہیں۔ پس جس طرح حضرت داؤد (علیہ السلام) نے سلیمان (علیہ السلام) کا فیصلہ سن کر اپنے فیصلہ سے رجوع کیا اسی طرح فقہاء حنفیہ فرماتے ہیں کہ قیاس جلی کے مقابلہ میں قیاس استحسان کی طرف رجوع کرنا اولیٰ اور احسن ہے فیصلہ دونوں ہی حق تھے مگر سلیمان (علیہ السلام) کا فیصلہ زیادہ بہتر تھا وہ ایک قسم کی صلح تھی اور فریقین اس پر راضی تھے اللہ تعالیٰ نے دونوں کے علم و حکمت کی تعریف کی اور اس مسئلہ اور اس فیصلہ میں سلیمان (علیہ السلام) کی خاص طور پر مدح فرمائی کہ ہم نے ان کو اس مسئلہ میں اپنی خاص تفہیم غیبی سے نوازا۔ سلیمان (علیہ السلام) اس وقت کمسن تھے۔ دس گیارہ سال کی عمر تھی۔ بوڑھے باپ کی موجودگی میں کمسن لڑکے کی زبان سے ایسے علم کا ظاہر ہونا وہ درحقیقت منجانب اللہ باپ کے لیے بشارت تھی کہ یہ سمجھ دار بیٹا جب تمہارے بعد تمہارا خلیفہ اور جانشین ہوگا تو ایسے فیصلے کرے گا۔ زکریا (علیہ السلام) کو یہی خوف تھا کہ میرے بعد نہ معلوم میرا جانشین کیسا ہوگا اس لیے دعا مانگی وانی خفت الموالی من ورائی وکانت امرتی عاقر فھب لی من الدنک ولیا یرثنی ویرث من ال یعقوب واجعلہ رب رضیا۔ اور عجب نہیں کہ سلیمان (علیہ السلام) کا یہ حکیمانہ فیصلہ باپ کی فیض صحبت اور ان کے نور نبوت اور نور خلافت کا عکس اور ہر تو ہو لخت جگر باپ کا جزء ہوتا ہے اور جزء کل کے مغایر نہیں ہوتا۔ پہلا فیصلہ کل کی زبان سے صادر ہوا۔ دوسرا فیصلہ جز کی زبان سے ظاہر ہوا۔ بظاہر صورت مختلف ہے مگر حقیقت ایک ہے۔ ذکر بعض معجزات و کرامات حضرت داؤد و حضرت سلیمان (علیہما السلام) حق جل شانہ نے ان آیات میں حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو علم و حکمت کے عطاء کرنے کا ذکر فرمایا۔ اور یہ نعمت اور کرامت دونوں میں مشترک تھی اب آئندہ آیات میں ان بعض معجزات اور کرامات خاصہ کا ذکر فرماتے ہیں۔ کہ جو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ان دو پیغمبروں کو عطاء کیے چناچہ فرماتے ہیں اور ہم نے علم و حکمت کے علاوہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کردیا تھا کہ وہ بھی داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ تسبیح پڑھتے تھے اور پرندوں کو بھی مسخر کردیا تھا کہ وہ بھی ان کے ساتھ آواز سے تسبیح کرتے تھے داؤد (علیہ السلام) بےانتہاء خوش آواز تھے اور یہ خوش آوازی بھی ان کا ایک معجزہ تھا۔ داؤد (علیہ السلام) جب زبور پڑھتے تھے تو ان کے ساتھ شجر اور حجر اور پہاڑ اور پرند سب آواز کے ساتھ تسبیح کرنے لگتے اور یہ ان کا معجزہ تھا۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہ تھی ہم ہی یہ کام کرنے والے تھے پہاڑوں اور پرندوں کی تسخیر اور تسبیح یہ سب ہمارا ہی کام ہے ہماری قدرت کے اعتبار سے کوئی عجیب چیز نہیں اس سے معلوم ہوا کہ معجزہ نبی کا فعل نہیں بلکہ اللہ کا فعل ہے اور وہی اس کا فاعل ہے اللہ اپنے کسی مقبول بندے کے ہاتھ پر پیدا کردیتا ہے اور ہم نے داؤد کو تمہارے لیے ایک قسم کا لباس یعنی ذرہ بنانے کی صنعت سکھلائی تاکہ وہ لباس لڑائی میں تمہارا بچاؤ اور حفاظت کرسکے وجہ سے تم دشمن کی زد اور اس کے وار سے محفوظ رہ سکو۔ داؤد (علیہ السلام) سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے زرہ کو لقہ اور کڑیوں کے ساتھ بنایا۔ خدا تعالیٰ نے لوہے کو ان کے لیے نرم کردیا۔ بغیر آگ کے لوہا ان کے ہاتھ میں موم کی طرح نرم ہوجاتا تھا۔ اور وہ اس سے زرہ بنا لیا کرتے تھے کما قال اللہ تعالیٰ والنا لہ الحدید۔ داؤد (علیہ السلام) سے پہلے زرہ تختیوں کی شکل میں ہوتی تھی، حلقے اور کڑیاں اس میں نہ تھیں تسبیح جبال و طیر کی طرح یہ بھی داؤد (علیہ السلام) کا معجزہ تھا پس کیا تم اس نعمت کا شکر کرو گے۔ اسی طرح زرہ سازی کی یہ صنعت اللہ کی نعمت ہے اور پھر اس کے نبی کا فیض ہے جو آج تک جاری ہے۔ تم کو چاہئے کہ اس کا شکر کرو۔ اب آگے سلیمان (علیہ السلام) کے معجزات کا ذکر فرماتے ہیں اور ہم نے زور سے چلنے والی ہوا کو سلیمان (علیہ السلام) کے لیے مسخر کردیا کہ وہ ان کے حکم کے مطابق اس زمین کی طرف جاتی تھی جہاں ہم نے برکت رکھی تھی یعنی ملک شام کی طرف۔ اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہوا کو مسخر کردیا تھا۔ ہوا ان کے تابع تھی۔ زور سے چلنے کا حکم دیتے تو زور سے چلتی اور تیز ہوجاتی اور نرم چلنے کا حکم دیتے تو نرم ہوجاتی وہ ہوا سلیمان (علیہ السلام) کو اور ان کے اصحاب کریمن سے شام اور شام سے یمن پہنچا دیتی جیسا کہ دوسری جگہ ہے۔ تجری بامرہ رخاء حیث اصاب اور برکت والی زمین سے سرزمین شام مراد ہے اور یہ سلیمان (علیہ السلام) کا معجزہ ہے اگر بندہ اپنی طاقت سے ہوائی جہاز بنا سکتا ہے تو کیا خدا کو یہ قدرت نہیں کہ وہ اپنے مقبول بندہ کے لیے اس کے تخت ہی کو ہوائی جہاز بنا دے اور بلا سبب ظاہری کے ہوا کو اس کے لئے مسخر کر دے کہ اس کے حکم کے تابع ہوجائے اور ہم ہر چیز کے جاننے والے ہیں یعنی ہم کو یہ معلوم تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس نعمت و کرامت کے اہل ہیں اور یہ بھی معلوم تھا کہ وہ اس نعمت و کرامت کے ملنے کے بعد مغرور نہ ہونگے بلکہ ان کی تواضع اور فرتنی میں اور اضافہ ہوگا۔ غرض یہ کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کا ایک معجزہ یعنی معجزہ تسخیر ہوا۔ ذکر فرمایا اب آئندہ آیت میں ان کے دوسرے معجزہ یعنی تسخیر جن کے معجزہ کا ذکر فرماتے ہیں اور ہم نے جنات کی جماعت میں سے سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ان شیاطین کو مسخر کردیا کہ جو ان کے واسطے دریا میں غوطہ لگاتے ہیں اور اس کی تہ سے جواہرات نکال کر لاتے ہیں اور اس غواصی کے علاوہ بھی ان کے بہت سے کام کرتے ہیں اور کاموں سے مراد نفیس عمارتیں بنانا اور عجیب عجیب صنعتوں کا ایجاد کرنا یہ سب کام جنات کیا کرتے تھے۔ اور ہم ان کے نگہبان اور نگران تھے۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے باہر ہو سکے نہ کوئی مطالبہ تھا اور نہ کوئی پڑتال تھی اور نہ کسی کی تنخواہ تھی۔ ملک کے تمام کارخانے انہی جنات اور شیاطین کی محنت اور خدمت سے چل رہے تھے حکم سلیمان (علیہ السلام) کا چل رہا تھا اور یہ سب کے سب ان کے فرمانبردار اور غلام تھے اور بلا تنخواہ کے کام کر رہے تھے۔ یہ خدا تعالیٰ کی عطا فرمودہ شخصی بادشاہت تھی کوئی جمہوری اور قومی حکمت نہ تھی۔ سارے ملک میں سلیمان (علیہ السلام) کی آمریت تھی۔ تجری بامرہ۔ لیکن سلیمان (علیہ السلام) کی یہ آمریت خداوند احکم الحاکمین کی شہنشاہی کا آئینہ تھی۔ حافظ ابن کثیر (رح) لکھتے ہیں کہ سلیمان (علیہ السلام) کا تخت لکڑی کا تھا اور اس کے گرد ایک تختہ تھا جس پر ضروری اشیاء رکھی جاتی تھیں۔ سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ دیگر ارکان دولت بھی بیٹھتے اور ضروری سامان مثلاً گھوڑے اور خیمے اور فرش بھی جس قدر چاہتے ساتھ رکھ لیتے اور پرند اوپر سے آکر سایہ کرلیتے اور ہوا کو حکم ہوتا کہ چلے جدھر چاہتے۔ وہاں لیکر رواں ہوجاتی اور جہاں چاہتے وہاں اترتے کما قال تعالیٰ فسخرنا لہ الریح تجری بامرہ رخاء حیث اصاب اور فرمایا غدوھا شھر و رواحھا شھر۔ یہ معجزہ ہوا کا تھا اور دوسرا معجزہ شیاطین کا۔ کہ اللہ تعالیٰ نے شیاطین اور جنات کو سلیمان (علیہ السلام) کے قبضہ میں مسخر اور مقہور کردیا تھا جس سے وہ چاہتے کام لیتے۔ نہ کوئی بھاگ سکتا تھا اور نہ سرکشی کرسکتا تھا۔ کما قال تعالیٰ مقرنین فی الاصفاد۔ (دیکھو تفسیر ابن کثیر ص 187 ج 3)
Top