Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 78
وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْكُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ١ۚ وَ كُنَّا لِحُكْمِهِمْ شٰهِدِیْنَۗۙ
وَدَاوٗدَ
: اور داو ود
وَسُلَيْمٰنَ
: اور سلیمان
اِذْ
: جب
يَحْكُمٰنِ
: فیصلہ کر رہے تھے
فِي الْحَرْثِ
: کھیتی (کے بارہ) میں
اِذْ
: جب
نَفَشَتْ
: رات میں چوگئیں
فِيْهِ
: اس میں
غَنَمُ الْقَوْمِ
: ایک قوم کی بکریاں
وَكُنَّا
: اور ہم تھے
لِحُكْمِهِمْ
: ان کے فیصلے (کے وقت)
شٰهِدِيْنَ
: موجود
اور داود اور سلیمان (کاحال بھی سن لو کہ) جب وہ ایک کھیتی کا مقدمہ فیصل کرنے لگے جس میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو چرگئیں (اور اسے روندگئی) تھیں اور ہم ان کے فیصلہ کے وقت موجود تھے
(5) قصہ داؤد و سلیمان (علیہما السلام) قال اللہ تعالیٰ وداود وسلیمن اذ یحکمن فی الحرث .... الیٰ .... وکنالہم حفظین۔ یہ پانچواں قصہ حضرت داؤد و سلیمان (علیہما السلام) کا ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل میں سے ہیں اور باوجود بادشاہت اور فرمانروائی کے خدا پرست تھے اور غایت درجہ کے عادل اور مصنف تھے۔ امیری اور فقیری اور شاہی اور درویشی دونون کے جامع تھے۔ ابوبکر و عمر کی خلافت داؤد و سلیمان (علیہما السلام) کی بادشاہت کا نمونہ تھی داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) نبی تھے اور اللہ کے خلیفہ تھے اور ابوبکر و عمر نبی نہ تھے، مگر اعلیٰ درجہ کے ولی تھے اور خاتم الانبیاء کے خلیفہ تھے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کا قصہ بیان کیجئے جبکہ وہ دونوں کھیتی کے مقدمہ میں فیصلہ کر رہے تھے۔ جبکہ رات کے وقت اس کھیت میں کچھ لوگوں کی بکریاں چرگئی تھی اور ہم اس کے فیصلہ کے وقت موجود تھے، ہمارے روبرو یہ فیصلہ ہوا۔ صورت یہ ہوئی کہ ایک شخص کی بکریوں نے ایک شخص کا کھیت بالکل چر لیا۔ فریقین اپنا مقدرمہ لیکر فیصلہ کرانے کے لیے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس آئے۔ کھیت والے نے کہا کہ اس شخص کی بکریاں رات کو میرا سارا کھیت چر گئیں اور اس میں نال تک نہ چھوڑی، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے حال سن کر حساب کیا تو معلوم ہوا کہ کل بکریوں کی قیمت کھیت کی قیمت کے برابر ہے لہٰذا آپ (علیہ السلام) نے حکم دیا کہ یہ بکریاں سب کھیت والے کو دے دی جائیں کیونکہ کھیت کے نقصان اور بکریوں کی قیمت برابر تھی، وہ یہ فیصلہ سن کر وہاں سے چل دئیے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جب اس فیصلہ کا علم ہوا تو کہا کہ اگر میں فیصلہ کرتا تو یہ فیصلہ نہ کرتا۔ میں دوسری طرح فیصلہ کرتا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کہا میرے نزدیک فیصلہ کی بہتر صورت یہ ہے کہ بکریاں تو کھیت والے کو دے دی جائیں کہ وہ ان کے دودھ اور نسل سے فائدہ اٹھائے اور بکریوں والے کھیت کی آبپاشی اور تردو کریں یہاں تک کہ جب سال آئندہ اس کا کھیت پھر اس حالت پر آجائے کہ جس دن وہ کھایا گیا تھا تو بکریوں والا اس کا کھیت اس کے حوالے کر دے اور اپنی بکریاں اس سے واپس لے لے۔ اس میں دونوں کا فائدہ ہے نقصان کسی کا نہیں۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو جب اس فیصلہ کا علم ہوا تو اس فیصلے کو بہت پسند کیا اور اپنے فیصلہ سے رجوع فرمایا۔ چناچہ فرماتے ہیں پس ہم نے فیصلہ کا یہ طریقہ سلیمان (علیہ السلام) کو سمجھا دیا کہ جو دونوں فریق کے حق میں مفید ہوگیا اور ہر ایک کو یعنی باپ اور بیٹے کو ہم نے علم و حکمت عطا کیا ہر ایک نے اپنے علم کے مطابق فیصلہ کیا دونوں فیصلے حق تھے دونوں کا مقصد یہ تھا کہ اس نقصان کا تاوان اور ضمان دلایا جائے۔ داؤد (علیہ السلام) نے ضمان کی یہ صورت اختیار فرمائی کہ بکریوں کی ملک ان کے مالک سے زائل کرکے کھیت والے کی ملک کردیں اور سلیمان (علیہ السلام) نے کسی کی ملک زائل نہیں کہ بلکہ بکریوں کے منفعت سے اس کے نقصان کی تلافی کردی کہ اتنی مدت تک بکریوں کی منفعت کھیت والے کے لیے حلال کردی جب تک وہ کھیت اپنی اصلی حالت پر نہ آجائے کھیت والا بکریوں کے چرجانے کی وجہ سے اپنے کھیت کی منفعت سے محروم ہوگیا تھا۔ اس کی تلافی کے لیے ایک مدت تک بکریاں اس کے حوالہ کردی گئیں کہ اس سے منتفع ہوتا ہے بدون اس کے کہ بکریوں کی ملک ان کے مالک سے زائل ہو نقصان کی تلافی منفعت سے فرما دی۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے بکریاں کھیت والے کو دینے کا فیصلہ اس لیے فرمایا کہ ان کی شریعت میں یہ حکم تھا کہ جو چوری کرے تو اس کو غلام بنا لیا جائے، اس کے مطابق یہ حکم دیا۔ قالوا جزاؤہ من وجد فی رجلہ فہم جزاؤہ کذالک نجزی الظلمین۔ اور سلیمان (علیہ السلام) نے دوسرا فیصلہ کیا۔ جس میں دونوں کا نقصان نہ ہو حضرت داؤد کا یہ فیصلہ ظاہری قیاس کے مطابق تھا کہ رات کا وقت تھا بکریوں کی حفاظت اور ان کو بند رکھنا بکریوں کے مالک کا ذمہ تھا اگر وہ بکریوں کی پوری نگرانی رکھتا تو بکریاں باہر نکل کر کسی کا کھیت خراب نہ کرتیں پس جب بکریوں کے مالک نے بکریوں کی نگہداشت میں کوتاہی کی اور اس کوتاہی کی وجہ سے دوسرے کا کھیت خراب ہوا۔ تو داؤد (علیہ السلام) نے اس نقصان کے ضمان اور تاوان میں بکریاں کھیت والے کو دے دیں اور کھیت والے کو ان بکریوں کا مالک بنا دیا۔ کیونکہ کھیت کے نقصان اور بکریوں کی قیمت برابر تھی اس قسم کے فیصلہ کو اصطلاح فقہاء میں قیاس جلی کہتے ہیں اور سلیمان (علیہ السلام) نے جو فیصلہ فرمایا اس میں ملکیت ہر ایک کی بحالہٖ برقرار رکھی۔ کھیتی کے نقصان کی تلافی بکریوں کے منافع سے کردی اس قسم کے قیاس کو اصطلاح فقہاء میں استحسان کہتے ہیں۔ پس جس طرح حضرت داؤد (علیہ السلام) نے سلیمان (علیہ السلام) کا فیصلہ سن کر اپنے فیصلہ سے رجوع کیا اسی طرح فقہاء حنفیہ فرماتے ہیں کہ قیاس جلی کے مقابلہ میں قیاس استحسان کی طرف رجوع کرنا اولیٰ اور احسن ہے فیصلہ دونوں ہی حق تھے مگر سلیمان (علیہ السلام) کا فیصلہ زیادہ بہتر تھا وہ ایک قسم کی صلح تھی اور فریقین اس پر راضی تھے اللہ تعالیٰ نے دونوں کے علم و حکمت کی تعریف کی اور اس مسئلہ اور اس فیصلہ میں سلیمان (علیہ السلام) کی خاص طور پر مدح فرمائی کہ ہم نے ان کو اس مسئلہ میں اپنی خاص تفہیم غیبی سے نوازا۔ سلیمان (علیہ السلام) اس وقت کمسن تھے۔ دس گیارہ سال کی عمر تھی۔ بوڑھے باپ کی موجودگی میں کمسن لڑکے کی زبان سے ایسے علم کا ظاہر ہونا وہ درحقیقت منجانب اللہ باپ کے لیے بشارت تھی کہ یہ سمجھ دار بیٹا جب تمہارے بعد تمہارا خلیفہ اور جانشین ہوگا تو ایسے فیصلے کرے گا۔ زکریا (علیہ السلام) کو یہی خوف تھا کہ میرے بعد نہ معلوم میرا جانشین کیسا ہوگا اس لیے دعا مانگی وانی خفت الموالی من ورائی وکانت امرتی عاقر فھب لی من الدنک ولیا یرثنی ویرث من ال یعقوب واجعلہ رب رضیا۔ اور عجب نہیں کہ سلیمان (علیہ السلام) کا یہ حکیمانہ فیصلہ باپ کی فیض صحبت اور ان کے نور نبوت اور نور خلافت کا عکس اور ہر تو ہو لخت جگر باپ کا جزء ہوتا ہے اور جزء کل کے مغایر نہیں ہوتا۔ پہلا فیصلہ کل کی زبان سے صادر ہوا۔ دوسرا فیصلہ جز کی زبان سے ظاہر ہوا۔ بظاہر صورت مختلف ہے مگر حقیقت ایک ہے۔ ذکر بعض معجزات و کرامات حضرت داؤد و حضرت سلیمان (علیہما السلام) حق جل شانہ نے ان آیات میں حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو علم و حکمت کے عطاء کرنے کا ذکر فرمایا۔ اور یہ نعمت اور کرامت دونوں میں مشترک تھی اب آئندہ آیات میں ان بعض معجزات اور کرامات خاصہ کا ذکر فرماتے ہیں۔ کہ جو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ان دو پیغمبروں کو عطاء کیے چناچہ فرماتے ہیں اور ہم نے علم و حکمت کے علاوہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کردیا تھا کہ وہ بھی داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ تسبیح پڑھتے تھے اور پرندوں کو بھی مسخر کردیا تھا کہ وہ بھی ان کے ساتھ آواز سے تسبیح کرتے تھے داؤد (علیہ السلام) بےانتہاء خوش آواز تھے اور یہ خوش آوازی بھی ان کا ایک معجزہ تھا۔ داؤد (علیہ السلام) جب زبور پڑھتے تھے تو ان کے ساتھ شجر اور حجر اور پہاڑ اور پرند سب آواز کے ساتھ تسبیح کرنے لگتے اور یہ ان کا معجزہ تھا۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہ تھی ہم ہی یہ کام کرنے والے تھے پہاڑوں اور پرندوں کی تسخیر اور تسبیح یہ سب ہمارا ہی کام ہے ہماری قدرت کے اعتبار سے کوئی عجیب چیز نہیں اس سے معلوم ہوا کہ معجزہ نبی کا فعل نہیں بلکہ اللہ کا فعل ہے اور وہی اس کا فاعل ہے اللہ اپنے کسی مقبول بندے کے ہاتھ پر پیدا کردیتا ہے اور ہم نے داؤد کو تمہارے لیے ایک قسم کا لباس یعنی ذرہ بنانے کی صنعت سکھلائی تاکہ وہ لباس لڑائی میں تمہارا بچاؤ اور حفاظت کرسکے وجہ سے تم دشمن کی زد اور اس کے وار سے محفوظ رہ سکو۔ داؤد (علیہ السلام) سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے زرہ کو لقہ اور کڑیوں کے ساتھ بنایا۔ خدا تعالیٰ نے لوہے کو ان کے لیے نرم کردیا۔ بغیر آگ کے لوہا ان کے ہاتھ میں موم کی طرح نرم ہوجاتا تھا۔ اور وہ اس سے زرہ بنا لیا کرتے تھے کما قال اللہ تعالیٰ والنا لہ الحدید۔ داؤد (علیہ السلام) سے پہلے زرہ تختیوں کی شکل میں ہوتی تھی، حلقے اور کڑیاں اس میں نہ تھیں تسبیح جبال و طیر کی طرح یہ بھی داؤد (علیہ السلام) کا معجزہ تھا پس کیا تم اس نعمت کا شکر کرو گے۔ اسی طرح زرہ سازی کی یہ صنعت اللہ کی نعمت ہے اور پھر اس کے نبی کا فیض ہے جو آج تک جاری ہے۔ تم کو چاہئے کہ اس کا شکر کرو۔ اب آگے سلیمان (علیہ السلام) کے معجزات کا ذکر فرماتے ہیں اور ہم نے زور سے چلنے والی ہوا کو سلیمان (علیہ السلام) کے لیے مسخر کردیا کہ وہ ان کے حکم کے مطابق اس زمین کی طرف جاتی تھی جہاں ہم نے برکت رکھی تھی یعنی ملک شام کی طرف۔ اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہوا کو مسخر کردیا تھا۔ ہوا ان کے تابع تھی۔ زور سے چلنے کا حکم دیتے تو زور سے چلتی اور تیز ہوجاتی اور نرم چلنے کا حکم دیتے تو نرم ہوجاتی وہ ہوا سلیمان (علیہ السلام) کو اور ان کے اصحاب کریمن سے شام اور شام سے یمن پہنچا دیتی جیسا کہ دوسری جگہ ہے۔ تجری بامرہ رخاء حیث اصاب اور برکت والی زمین سے سرزمین شام مراد ہے اور یہ سلیمان (علیہ السلام) کا معجزہ ہے اگر بندہ اپنی طاقت سے ہوائی جہاز بنا سکتا ہے تو کیا خدا کو یہ قدرت نہیں کہ وہ اپنے مقبول بندہ کے لیے اس کے تخت ہی کو ہوائی جہاز بنا دے اور بلا سبب ظاہری کے ہوا کو اس کے لئے مسخر کر دے کہ اس کے حکم کے تابع ہوجائے اور ہم ہر چیز کے جاننے والے ہیں یعنی ہم کو یہ معلوم تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس نعمت و کرامت کے اہل ہیں اور یہ بھی معلوم تھا کہ وہ اس نعمت و کرامت کے ملنے کے بعد مغرور نہ ہونگے بلکہ ان کی تواضع اور فرتنی میں اور اضافہ ہوگا۔ غرض یہ کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کا ایک معجزہ یعنی معجزہ تسخیر ہوا۔ ذکر فرمایا اب آئندہ آیت میں ان کے دوسرے معجزہ یعنی تسخیر جن کے معجزہ کا ذکر فرماتے ہیں اور ہم نے جنات کی جماعت میں سے سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ان شیاطین کو مسخر کردیا کہ جو ان کے واسطے دریا میں غوطہ لگاتے ہیں اور اس کی تہ سے جواہرات نکال کر لاتے ہیں اور اس غواصی کے علاوہ بھی ان کے بہت سے کام کرتے ہیں اور کاموں سے مراد نفیس عمارتیں بنانا اور عجیب عجیب صنعتوں کا ایجاد کرنا یہ سب کام جنات کیا کرتے تھے۔ اور ہم ان کے نگہبان اور نگران تھے۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے باہر ہو سکے نہ کوئی مطالبہ تھا اور نہ کوئی پڑتال تھی اور نہ کسی کی تنخواہ تھی۔ ملک کے تمام کارخانے انہی جنات اور شیاطین کی محنت اور خدمت سے چل رہے تھے حکم سلیمان (علیہ السلام) کا چل رہا تھا اور یہ سب کے سب ان کے فرمانبردار اور غلام تھے اور بلا تنخواہ کے کام کر رہے تھے۔ یہ خدا تعالیٰ کی عطا فرمودہ شخصی بادشاہت تھی کوئی جمہوری اور قومی حکمت نہ تھی۔ سارے ملک میں سلیمان (علیہ السلام) کی آمریت تھی۔ تجری بامرہ۔ لیکن سلیمان (علیہ السلام) کی یہ آمریت خداوند احکم الحاکمین کی شہنشاہی کا آئینہ تھی۔ حافظ ابن کثیر (رح) لکھتے ہیں کہ سلیمان (علیہ السلام) کا تخت لکڑی کا تھا اور اس کے گرد ایک تختہ تھا جس پر ضروری اشیاء رکھی جاتی تھیں۔ سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ دیگر ارکان دولت بھی بیٹھتے اور ضروری سامان مثلاً گھوڑے اور خیمے اور فرش بھی جس قدر چاہتے ساتھ رکھ لیتے اور پرند اوپر سے آکر سایہ کرلیتے اور ہوا کو حکم ہوتا کہ چلے جدھر چاہتے۔ وہاں لیکر رواں ہوجاتی اور جہاں چاہتے وہاں اترتے کما قال تعالیٰ فسخرنا لہ الریح تجری بامرہ رخاء حیث اصاب اور فرمایا غدوھا شھر و رواحھا شھر۔ یہ معجزہ ہوا کا تھا اور دوسرا معجزہ شیاطین کا۔ کہ اللہ تعالیٰ نے شیاطین اور جنات کو سلیمان (علیہ السلام) کے قبضہ میں مسخر اور مقہور کردیا تھا جس سے وہ چاہتے کام لیتے۔ نہ کوئی بھاگ سکتا تھا اور نہ سرکشی کرسکتا تھا۔ کما قال تعالیٰ مقرنین فی الاصفاد۔ (دیکھو تفسیر ابن کثیر ص 187 ج 3)
Top