Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 85
وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِ١ؕ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ
وَاِسْمٰعِيْلَ : اور اسمعیل وَاِدْرِيْسَ : اور ادریس وَذَا الْكِفْلِ : اور ذوالکفل كُلٌّ : یہ سب مِّنَ : سے الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (بھی یاد کرو) یہ سب صبر کرنے والے تھے
(7) قصہ حضرت اسمعیل و ادریس و ذوالکفل (علیہم السلام) قال اللہ تعالیٰ واسمعیل وادریس و ذالکفل .... الیٰ .... انھم من الصلحین۔ (ربط) گزشتہ آیات میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کے صبر کا قصہ بیان فرمایا۔ اب یہ ساتواں قصہ ان تین حضرات کا ہے جو اپنے زمانہ میں صبر اور تحمل میں بےمثال تھے اس قصہ سے اور گزشتہ قصہ سے آنحضرت ﷺ کی تسلی مقصود ہے اور اے نبی ﷺ اسمعیل اور ادریس اور ذوالکفل (علیہم السلام) کا ذکر کیجئے۔ ان میں سے ہر ایک صابرین میں سے تھا اور ہم نے ان کو اپنی خاص الخاص رحمت میں داخل کرلیا تھا اور یہ لوگ بلاشبہ صلاح میں کامل تھے ان کی صلاحیت میں کسی قسم کا نقص اور کدوت کا شائبہ نہ تھا۔ ان تینوں پیغمبروں نے بڑی بڑی تکالیف اور آزمائشوں پر صبر کیا۔ اسمعیل (علیہ السلام) نے ذبح کی تکلیف پر صبر کیا اور خدا کے لیے جان دینے پر راضی ہوگئے اور ابتداء جو مکہ میں قیام کیا۔ اس میں بھی بڑی مشقتیں برداشت کیں۔ اور ادریس (علیہ السلام) کی عبادت کا قصہ سورة مریم میں گزر چکا ہے کہ وہ ترک طعام و شراب کی وجہ سے فرشتوں کے ساتھ ملحق ہوگئے تھے اور ذوالکفل (علیہ السلام) بقول اکثر محققین نبی تھے اور ظاہر قرآن سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی تھے اور ان کو ذوالکفل (علیہ السلام) کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ قوم میں عدل و انصاف کے کفیل تھے اور دن میں روزہ رکھتے اور شب میں تہجد کے کفیل تھے اور بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے فقیروں اور مسکینوں کی پرورش کی کفالت اپنے ذمہ لی تھی۔ (واللہ اعلم) بہرحال جمہور علماء کے نزدیک ذوالکفل (علیہ السلام) نبی صالح تھے اور بعض کہتے ہیں کہ وہ نبی نہ تھے بلکہ ایک مرد صالح تھے علماء محققین کے نزدیک پہلا ہی قول صحیح ہے۔
Top