Maarif-ul-Quran - Al-Hajj : 14
اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُدْخِلُ : داخل کرے گا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو لوگ ایمان لائے وَ : اور عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : انہوں نے درست عمل کیے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے سے الْاَنْهٰرُ : نہریں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَفْعَلُ : کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو وہ چاہتا ہے
جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے خدا انکو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں چل رہی ہیں کچھ شک نہیں کہ خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے
بیان فلاح اہل ایمان وخیبت و خسران دشمنان بدسگالان قال اللہ تعالیٰ ان اللہ یدخل الذین امنوا .... الیٰ .... وان اللہ یھدی من یرید۔ (ربط) گزشتہ آیات میں ان لوگوں کا حال بیان کیا جو ایمان اور اسلام میں متذبذب اور متزلزل تھے اب ان آیات میں ان ایمانداروں کا حال ذکر کرتے ہیں جو ایمان پر جمے ہوئے ہیں اور اعمال صالحہ پر ثابت قدم ہیں۔ حق جل شانہ نے ان آیات میں اول تو ایسے مومنین مخلصین کی فلاح اور کامیابی کا ذکر کیا اور اس کے بعد دشمنان اسلام کی ناکامی اور نامرادی کو بیان کیا کہ ان مجادلین فی الدین اور ان منافقین کا گمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ ﷺ کی دنیا اور آخرت میں کوئی مدد نہیں کرے گا اور چند روز میں دین اسلام ختم ہوجائیگا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کا یہ گمان غلط ہے، ان کے دل میں اسلام کا غیظ و غضب بھرا ہوا ہے وہ جتنی چاہیں تدبیرویں کرلیں مگر خوب سمجھ لیں کہ ان کا مقصد کبھی پورا نہ ہوگا۔ چناچہ فرماتے ہیں کہ ان کا یہ گمان غلط ہے، ان کے دل میں اسلام کا غیظ و غضب بھرا ہوا ہے وہ جتنی چاہیں تدبیریں کرلیں مگر سمجھ لیں کہ ان کا مقصد کبھی پورا نہ ہوگا۔ چناچہ فرماتے ہیں کہ بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو صدق دل سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے ایسے باغوں میں داخل کریگا کہ جن کے مکانوں اور درختوں کے نیچے نہریں جاری ہوں گی بیشک اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے دوستوں کو عزت اور کرامت اور فتح و نصرت سے نوازتا ہے اور مرتدین و منافقین کو ذلیل و خوار کرتا ہے جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ اپنے رسول کی دنیا و آخرت میں مدد نہیں کریگا یعنی دنیا میں اس کو دشمنوں کے مقابلہ میں غلبہ نہیں دیگا اور آخرت میں اس کے درجے بلند نہیں کریگاتو جس شخص کا یہ خیال ہو تو اس کو چاہئے کہ ایک رسی کے ذریعے آسمان تک پہنچ جائے پھر وہاں پہنچ کر آپ کی مدد کو قطع کر دے اگر وہ اس پر قادر رہے کیونکہ آسمانی مدد کو روکنا بغیر آسمان پر پہنچے ہوئے ممکن نہیں لہٰذا اس کو چاہئے کہ کسی ذریعہ سے آسمان پر چڑھے اور وہاں پہنچ کر آپ کی نصرت اور مدد کو قطع کر دے کیونکہ دنیاوی وسائل تو آپ کے پاس موجود نہیں۔ آپ کو جو نصرت پہنچ رہی ہے وہ آسمان ہی سے پہنچ رہی ہے تو اگر اس سے یہ ممکن ہے اور یہ اس پر قادر ہے تو آسمان پر جاکر اس کو قطع کر دے پھر دیکھے کہ اس کی یہ تدبیر اس کے سینہ کے غیظ و غضب کو دور کرتی ہے یا نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ غیظ و غضب سے جو چاہے تدبیر کرلو مگر کوئی حیلہ اور تدبیر آسمانی مدد کو نہیں روک سکتی۔ پس جب یہ امر ناممکن ہے تو پھر اس غیظ و غضب سے کیا فائدہ۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ الی السماء میں سے لفظ سماء سے آسمان کے معنی مراد نہیں بلکہ چھت کے معنی مراد ہیں۔ کلام عرب میں سماء کا اطلاق چھت پر بھی آتا ہے۔ کل ما علا فھو سماء۔ جو شئے تیرے اوپر ہے وہ تیرا آسمان ہے اور مطلب یہ ہے کہ جس کو آنحضرت ﷺ کی نصرت اور غلبہ کی وجہ سے غصہ اور غیظ و غضب ہے تو اس کو چاہئے کہ اپنے گھر کی چھت میں ایک رسی باندھ لے پھر اس رسی میں پھندا لگا کر اپنا گلا گھونٹ لے اور رسی کو توڑ دے یہاں تک کہ مرجائے پھر دیکھے کہ اس تدبر سے اس کا غصہ فرد ہوتا ہے یا نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جس کو آنحضرت ﷺ کی فتح و نصرت پر غصہ آتا ہو اس کو چاہئے کہ غصہ کے مارے اپنا گلا گھونٹ لے یہاں تک کہ مرجائے اور جان لے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی مدد کرنے والا ہے اس کا غصہ اس کو کوئی نفع نہیں دے گا اور اپنا گلا گھونٹنے کا نام لیکر اس لیے کہا کہ حاسد کی آخری تدبیر یہی ہے کہ وہ غصہ میں آکر اپنا گلا گھونٹ لے اور اس تعبیر میں آپ ﷺ کے حاسدوں کے ساتھ استہزاء اور تمسخر مقصود ہے کہ تم خواہ کتبا ہی غصہ کرو۔ مگر تم سوائے گلا گھونٹنے کے اور کچھ نہیں کرسکتے جو چاہے کرلو۔ تمہارا مقصد کسی حال میں پورا نہ ہوگا کما قال اللہ تعالیٰ قل موتوا بغیظکم۔ اکثر مفسرین نے آیت کی تفسیر اس طرح کی ہے جو ہم نے ذکر کی ہے لیکن حضرت شاہ عبد القادر (رح) نے اس آیت کی دوسری طرف تفسیر فرمائی جو نہایت لطیف ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) نے اس آیت کو ومن الناس من یعبد اللہ علی حرف۔ کے ساتھ مربوط اور متعلق قرار دیکر فرمایا کہ من کان یظق ان لن ینصرہ اللہ۔ میں ضمیر مفعول من کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ جو شخص دنیا کی مصائب اور تکالیف سے گھبرا کر اللہ سے امید قطع کرکے اس کی بندگی چھوڑ دے اور جھوٹی چیزوں کو پوجنے لگے اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص اونچی لٹکتی رسی سے لٹک رہا ہے اگر اوپر چڑھ نہیں سکتا تو یہ توقع تو ہے کہ اگر رسی کوئی اوپر کو کھینچے تو یہ اوپر چڑھ جائے لیکن جب رسی ہی توڑ دی تو پھر کیا توقع رہی گویا کہ آسمان سے بلندی اور بارگاہ خداوندی کی طرف اشارہ ہے اور رسی پکڑنے سے اللہ سے امید رکھنا مراد ہے اور رسی قطع کردینے سے خدا کی رحمت سے ناامید ہوجانا مراد ہے۔ لہٰذا انسان کو چاہئے کہ ایک کنارہ پر کھڑا ہو کر عبادت کرنے والا بنے، اور دنیاوی پریشانیوں سے گھبرا کر خدا سے امید کی رسی کو نہ کاٹ ڈالے اور خداوند آسمان سے امید قطع کرکے غیر اللہ کی پوجا نہ کرے۔ اور ایسا ہی اتارا ہم نے یہ قرآن واضح اور روشن آیتیں جن میں کوئی خفاء اور ابہام نہیں جو شخص ان میں غور کرے اس پر صاف صاف حق واضح ہوجائے اور حقیقت یہ ہے کہ تحقیق اللہ ہی ہدایت دیتا ہے جس کو چاہے۔ مطلب یہ ہے کہ دلائل خواہ کتنے ہی واضح اور روشن کیوں نہ ہوں مگر ہدایت اللہ ہی کے قبضہ میں ہے جسے وہ سمجھ دے وہی سمجھتا ہے۔
Top