Maarif-ul-Quran - Al-Hajj : 52
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤى اَلْقَى الشَّیْطٰنُ فِیْۤ اُمْنِیَّتِهٖ١ۚ فَیَنْسَخُ اللّٰهُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْكِمُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌۙ
وَمَآ اَرْسَلْنَا : اور نہیں بھیجا ہم نے مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے مِنْ : سے۔ کوئی رَّسُوْلٍ : رسول وَّلَا : اور نہ نَبِيٍّ : نبی اِلَّآ : مگر اِذَا : جب تَمَنّىٰٓ : اس نے آرزو کی اَلْقَى : ڈالا الشَّيْطٰنُ : شیطان فِيْٓ : میں اُمْنِيَّتِهٖ : اس کی آرزو فَيَنْسَخُ : پس ہٹا دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ مَا يُلْقِي : جو ڈالتا ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان ثُمَّ : پھر يُحْكِمُ اللّٰهُ : اللہ مضبوط کردیتا ہے اٰيٰتِهٖ : اپنی آیات وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر (اس کا یہ حال تھا کہ) جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آرزو میں (وسوسہ) ڈالتا ہے جو وسوسہ شیطان ڈالتا خدا اس کو دور کردیتا ہے۔ پھر خدا اپنی آیتوں کو مضبوط کردیتا ہے اور خدا علم والا اور حکمت والا ہے
ذکر فتنہ شیطان برائے امتحان مخلصان ومنافقان قال اللہ تعالیٰ وما ارسلنا من قبلک من رسول ولانبی .... الیٰ .... فاولئک لہم عذاب مھین۔ (ربط) گزشتہ آیات والذین سعوا فی ایاتنا معاجزین۔ میں اس بات کا بیان تھا کہ مجادلین اور معاندین ہمیشہ آیات خداوندی کے ابطال کی سعی میں اور دین حق کی تخریب کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اب آئندہ آیات میں یہ بتلاتے ہیں ابطال آیات کی سعی اور اس میں جدوجہد ان مجادلین اور معاندین کی قدیمی عادت ہے اور اس سلسلہ میں شیطان طرح طرح کے فتنے برپا کرتا رہتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں طرح طرح کے شبے ڈالتا رہتا ہے جو کافروں اور ضعیف الایمان لوگوں کے لیے فتنہ بن جاتے ہیں۔ اے نبی آپ ﷺ اس قسم کے فتنے سے رنجیدہ اور غمگین نہ ہوں۔ ہر نبی اور رسول کے زمانہ میں اسی قسم کا فتنہ پیش آیا ہے، جب کبھی کسی نبی اور رسول نے اللہ کی آیتوں کو پڑھ کر سنایا تو شیطان نے آیات الٰہیہ میں طرح طرح کے شبہات لوگوں کے دلوں میں ڈال دیئے جس سے لوگ شبہات کے دلدل میں پھنس گئے بعد میں اللہ تعالیٰ آیات محکمات کو نازل کرتا ہے جس سے تمام شیطانی شکوک اور شبہات کی جڑ کٹ جاتی ہے اور حکم خداوندی ایسا صاف اور واضح ہوجاتا ہے کہ اس میں میں کسی شک اور شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ یہ سب شیطان کا فتنہ ہے جس سے اللہ کا مقصود مخلصین اور منافقین کا امتحان اور آزمائش ہے لہٰذا اے نبی آپ ﷺ اس قسم کے فتنہ کو دیکھ کر رنجیدہ اور ملول نہ ہوں۔ شان نزول : مفسرین نے اس آیت کے شان نزول میں ایک قصہ ذکر کیا ہے جو اشکال کا سبب بنا اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آیت کی تفسیر سے پہلے اس قصہ کو ذکر کردیا جائے وہ قصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ مکہ میں آنحضرت ﷺ نے سورة نجم ایک مجلس میں پڑھی جس میں مشرکین مکہ بھی حاضر تھے جب آپ ﷺ اس آیت یعنی افرأیتم اللات والعزی ومناہ الثالثۃ الاخری۔ پر پہنچے تو شیطان نے اس کے ساتھ آپ کی طرف سے یہ الفاظ پڑھ دئیے۔ تلک الغرانیق العلیٰ وان شفاعتھن لترتجی۔ یہ شہباز (بت) بڑے بلند پرواز اور معظم و محترم ہیں اور ان کی سفارش قبول ہونے کی امید کی جاتی ہے۔ شیطان نے یہ عبارت آپ ﷺ کے لہجے میں آپ ﷺ کے کلام کے ساتھ اس طرح ملا کر پڑھی جس سے لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ الفاظ آپ ﷺ ہی کی زبان سے نکلے ہیں، کافران الفاظ کو سن کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ آج محمد ﷺ ہمارے موافق ہوگئے کہ بتوں کی تعریف میں آپ ﷺ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے اور اس قدر خوش ہوئے کہ جب مسلمانوں نے اس سورت کے ختم پر سجدہ کیا تو مشرکین نے بھی سجدہ کیا اور کافروں میں کوئی ایسا نہ رہا جس نے سجدہ نہ کیا ہو۔ سوائے ولید بن مغیرہ کے اس نے سجدہ نہ کیا اور ایک مٹھی سنگریزوں کی بھرلی اور اس پر سجدہ کیا۔ مکہ میں جب یہ خبر مشہور ہوئی تو قریش بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ اب محمد ﷺ نے اپنے آبائی دین کی طرف رجوع کیا ہے آنحضرت ﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ ﷺ بہت رنجیدہ ہوئے کہ میری اثناء تلاوت میں وہ چیز بھی پڑھ دی گئی جو اللہ کی طرف سے مجھ پر نازل نہیں ہوئی تھی اور خوف زدہ اور پریشان ہوگئے۔ اس پر آپ ﷺ کی تسلی کے لیے یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ یہ قصہ عبد اللہ بن عباس ؓ وغیرہ سے مروی ہے جس کو امام قرطبی (رح) اور حافظ ابن کثیر (رح) اور جلال الدین سیوطی (رح) نے اپنی تفاسیر میں ذکر کیا ہے۔ اس قصہ کے بارے میں علماء کے دو گروہ چونکہ یہ قصہ بظاہر منصب نبوت اور شان عصمت کے خلاف معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کو یہ قدرت حاصل ہوجائے کہ نبی کی اثناء تلاوت میں اپنی طرف سے کوئی آمیزش کرسکے اس لیے اس قصہ کی روایت کے بارے میں علماء کے دو گروہ ہوگئے۔ علماء کی ایک جماعت یہ کہتے ہے کہ یہ قصہ بالکل باطل اور بےاصل اور موضوع ہے اور علماء کی دوسری جماعت یہ کہتی ہے کہ یہ قصہ بالکل بےاصل نہیں بلکہ فی الجملہ کسی درجہ میں اس کا ثبوت ملتا ہے جس کو روایت کی تفصیل دیکھنا منظور ہو وہ تفسیر درمنثور کر دیکھے۔ بہرحال اس قصہ کی روایت کے بارے میں علماء کے دو گروہ ہوگئے اور ہر گروہ نے اپنے اپنے مسلک کی بناء پر آیت کی اس طرح تفسیر کی کہ جو منصب نبوت اور عصمت کے خلاف نہ ہو کیونکہ عصمت انبیاء کا مسئلہ دین کے اصول مسلمہ میں سے ہے جس پر تمام امت کے علماء کا اجماع ہے۔ علماء کا جو گروہ کسی درجہ میں فی الجملہ اس قصہ کے ثبوت کا قائل ہے عصمت انبیاء کے اجماعی مسئلہ سے وہ بھی غافل نہیں یہ گروہ کثرت طرق اور تعدد اسانید سے مجبور ہو کر اس قصہ کو فی الجملہ ثابت ماننے کے بعد آیت کی ایسی تفسیر کرتا ہے کہ جو عصمت نبوت کے منافی نہ رہے جیسا کہ عنقریب انشاء اللہ واضح ہوجائے گا۔ گروہ اول : امام بیہقی اور امام ابن خزیمہ اور قاضی عیاض اور امام رازی اور امام بزار اور امام ابو منصور ماتریدی وغیرہ وغیرہ رحمہم اللہ اور دیگر حضرات محققین یہ فرماتے ہیں کہ یہ قصہ بالکل باطل ہے اور ملاحدہ اور زنادقہ (بےدین لوگوں) کا بنایا ہوا گھڑا ہوا ہے۔ امام رازی قدس اللہ سرہٗ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں کہ اس قصہ کا موضوع اور باطل ہونا دلائل نقلیہ اور براہین عقلیہ سے ثابت ہے۔ (1) قال اللہ تعالیٰ ولو تقول علینا بعض الاقاویل لاخذنا منہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر طالفرض پیغمبر ہماری نسبت کوئی غلط بات کہے تو یقیناً ہم ان کو پکڑتے اور ہلاک کر ڈالتے۔ معلوم ہوا کہ نبی کی زبان سے خدا کی نسبت غلط بات کا نکلنا محال ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس تقول (افتراء) کو بصیغہ لو تعبیر فرمایا ہے جو محالات اور ناممکنات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ (2) قل ما یکون لی ان ابدلہ من تلقای نفسی ان اتبع الا ما یوحی الی۔ اے نبی آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ اس قرآن میں اپنی طرف سے ذرہ برابر تغیر و تبدل کرسکوں میں تو صرف اللہ کی وحی کا تابع ہوں۔ یعنی میں خدا کے کلام میں ایک شوشہ کا بھی تغیر و تبدل نہیں کرسکتا۔ (3) وما ینطق عن الھویٰ ، ان ھو الا وحی یؤحی۔ خدا کی قسم آپ ﷺ اپنی نفسانی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے آپ جو کہتے ہیں وہ محض خالص اللہ کی وحی ہوتی ہے جو اللہ کی طرف سے آپ کو بھیجی جاتی ہے۔ یعنی آپ کی زبان مبارک سے جو نکلتا ہے وہ سرتاپا وحی ہوتا ہے اور نفسانی اور شیطانی آمیزش سے بالکل یہ پاک ہوتا ہے یہ سورة نجم کی آیت ہے جس کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قسم ہے ستارہ کی کہ تمہارا پیغمبر کبھی گمراہ اور بےراہ نہیں ہوا کوئی بات اس کی زبان سے ہوائے نفسانی سے نہیں نکلتی وہ جو بولتا ہے وہ وحی الٰہی ہوتی ہے جو خدا کی طرف سے بھیجی جاتی ہے۔ پس جب اسی صورت میں خدا تعالیٰ نے قسم کھا کر آپ ﷺ کی نزاہت اور عصمت کو بیان فرمایا تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ اس سورت کے اثناء تلاوت میں شیطان لعین آپ ﷺ کر کچھ القاء کرے اور بتوں کی مدح کے الفاظ اس میں ملا دے اور آپ ﷺ کی زبان مبارک سے نکلوا دے۔ معاذ اللہ۔ معاذ اللہ۔ ایک صحیح حدیث میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے مروی ہے کہ میرا طریقہ یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے جو نکلتا وہ میں لکھ لیا کرتا تھا۔ قریش مجھے منع کرتے اور کہتے کہ رسول اللہ بشر ہیں کبھی حالت رضا میں ہوتے ہیں اور بھی حالت غضب میں ہوتے ہیں۔ سو تم آپ ﷺ کی ہر بات نہ لکھا کرو معلوم نہیں کہ غصہ کی حالت میں زبان سے کیا نکل جائے۔ عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حال آنحضرت ﷺ سے بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا سے عبد اللہ جو کچھ مجھ سے سنا کرو لکھ لیا کرو قسم ہے اس ذات مبارک کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس زبان سے سوائے حق کے کچھ نہیں نکلتا اور اپنی زبان مبارک کی طرف اشارہ فرمایا۔ پس جب آپ کی زبان مبارک سے سوائے حق کے اور کچھ نہیں نکل سکتا تو پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ آپ کی زبان مبارک سے بتوں کی تعریف میں کوئی لفظ نکل سکے۔ (4) نیز اسی سورت میں شرک اور مشرکین کی مذمت سے مذکور ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اسی سورت کی اثناء تلاوت میں بتوں کی مدح کے متعلق آپ ﷺ کی زبان مبارک سے الفاظ نکلیں۔ (5) نیز نبی تو توحید کی دعوت اور کفر و شرک سے زجر اور ممانعت کے لیے مبعوث ہوتا ہے اس کی زبان سے بتوں کی مدح میں کسی لفظ کا نکلنا قطعاً محال اور ناممکن ہے۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ نبی کی زبان سے ایسے الفاظ کا نکلنا جن میں بتوں کی تعظیم اور مدح ہو بلاشبہ محال اور ناممکن ہے۔ ایسا کلمہ تو نبی کی زبان سے نہ قصداً نکل سکتا ہے۔ اور نہ سہواً اور نہ نسیاناً نکل سکتا ہے اور نہ جبراً و قہراً نکل سکتا ہے کہ نفس اور شیطان آپ کو اس کلمہ کے تلفظ پر مجبور کر دے جس میں بتوں کی تعظیم اور مدح ہو۔ (1) قصداً اور عمداً تو ایسا کلمہ نبی کی زبان سے اس لیے نہیں نکل سکتا کہ قصداً بتوں کی تعظیم اور اس کی مدح کفر اور شرک ہے اور نبی کی زبان سے قصداً تو کیا سہواً بھی کفر و شرک کا کلمہ نکلنا قطعاً محال ہے اور جو شخص نبی کی زبان پر بتوں کی تعظیم اور مدح کو جائز قرار دے وہ بلاشبہ کافر ہے۔ نبی کی تمام ترسعی اور جدوجہد شرک اور بت پرستی کے مٹانے کے لیے ہے نہ کہ ان کی مدح اور تعظیم کے لیے۔ (2) اور سہواً اس وجہ سے محال ہے کہ تلاوت وحی اور امور تبلیغیہ میں نبی سے سہو اور نسیان اور غفلت کا صدور ناممکن اور محال ہے حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے۔ سنقرئک فلا تنسی الا ماشاء اللہ۔ ہم آپ کو یہ قرآن پڑھائیں گے پس آپ اس میں سے کوئی حرف نہیں بھولیں گے مگر یہ کہ خدا تعالیٰ ہی کسی حکمت اور مصلحت سے اس لفظ کو باقی نہ رکھنا چاہے۔ حدیث میں ہے کہ جب جبریل امین (علیہ السلام) وحی لیکر آتے تو حضور پر نور ﷺ بھی جبریل (علیہ السلام) کے ساتھ ساتھ پڑھتے کہ کہیں کوئی حرف بھول نہ جاؤں اس پر یہ آیت نازل ہوئی لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ وقرانہ فاذا قراناہ فاتبع قرانہ۔ یعنی جب جبریل (علیہ السلام) وحی قرآنی آپ ﷺ کے سامنے پڑھا کریں تو آپ ان کے ساتھ ساتھ نہ پڑھا کریں بلکہ خاموش رہیں اور غور سے سنیں۔ قرآن کا آپ ﷺ کے سینہ میں بتمام و کمال جمع کردینا اور اس کا محفوظ کردینا ہمارے ذمہ ہے آپ ﷺ بےفکر رہئے قرآن کا کوئی لفظ آپ ﷺ بھول نہیں سکتے۔ غرض یہ کہ تلاوت وحی اور دعوت و تبلیغ میں نبی کو سہو ونسیان کا پیش آجانا بالاجماع ناممکن اور محال ہے البتہ نبی کو اپنے ذاتی افعال میں جیسے نماز وغیرہ میں سہو و نسیان کا لاحق ہونا ممکن ہے جیسا کہ نماز ظہر یا عصر میں آپ ﷺ نے بھولے سے رو رکعت یا تین پر سلام پھیر دیا اور بعد یاد آنے کے سجدہ سہو کیا تو یہ سہو و نسیان بھی حکمت و مصلحت پر مبنی تھا جس سے سجدہ سہو کی تشریح مقصود تھی کہ اگر نماز میں سہو پیش آجائے تو امت کو کیا کرنا چاہئے۔ اور لیلۃ التعریس میں جو حضور پر نور ﷺ کی نماز فوت ہوئی تو اس سے قضاء فائتہ کی تشریح مقصود تھی کہ اگر بھولے سے نماز قضا ہوجائے تو کس طرح اس کی قضا کی جائے یہ سہو و نسیان جو آپ ﷺ کو پیش آیا اس کا وحی رسالت اور تبلیغ شریعت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ (3) اور یہ بھی ممکن نہیں کہ شیطان جبراً و قہراً کسی بہانہ یا دھوکہ سے آپ ﷺ کی زبان مبارک سے اس قسم کے الفاظ نکلوا دے اس لیے کہ حق جل شانہ کا ارشاد ہے۔ ان عبادی لیس لک علیہم سلطن۔ اے شیطان میرے خالص بندوں پر تیرا کوئی غلبہ اور زور نہیں اور دوسری جگہ ارشاد ہے۔ انہ لیس لہ سلطن علی الذین امنوا وعلیٰ ربھم یتوکلون انما سلطانہ علی الذین یتولونہ والذین ہم بہ مشرکون اور شیطان کا خود اقرار ہے الا عبادک منھم المخلصین۔ اے پروردگار میرا اغواء تیرے عباد مخلصین پر نہیں چل سکے گا اور آنحضرت ﷺ تو سید المخلصین تھے۔ آپ ﷺ پر شیطان کے کسی زور اور زور کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ کہ وہ جبراً بلا اختیار آپ کی زبان مبارک پر ایسے کفر و شرک کے الفاظ جاری کرسکے اگر خدانخواستہ شیطان کو یہ قدرت ہوتی تو کوئی کلمہ حق آپ ﷺ کی زبان سے جاری نہ ہونے دیتا پھر یہ کہ جب شیطان کو آپ ﷺ پر یہ قدرت حاصل ہوگئی تو خدا کے خاص اور مخلص بندے کون ہیں جن پر شیطان کو قدرت اور غلبہ نہیں۔ معاذ اللہ معاذ اللہ۔ اگر نبی اور رسول پر بھی شیطان کا زور چل سکے تو پھر نبی اور غیر نبی میں فرق ہی کیا رہا۔ نیز نزول وحی کے وقت فرشتوں کا پہرہ ہوتا ہے اس وقت کسی شیطان کی مجال نہیں کہ وہاں کوئی پر مار سکے یا اس کے قریب سے گزر سکے جیسا کہ سورة جن میں ہے الا من ارتضی من رسول فانہ یسلک من بین یدیہ ومن خلفہ رصدا لیعلم ان قد ابلغوا رسلت ربھم واحاط بما لدیہم۔ یعنی جب وحی الٰہی کا نزول ہوتا ہے تو ہر طرف سے فرشتوں کا پہروہ ہوتا ہے اور وحی الٰہی کی حفاظت کے زبردست انتظامات ہوتے ہیں کہ کوئی شیطان قریب یا بعید سے وحی ربانی میں کوئی القاء نہ کرسکے اور مقصود یہ ہوتا ہے کہ اللہ کا رسول اللہ کے پیغام کو بلا کم وکاست بندوں تک پہنچا دے پس اگر نبی القاء شیطانی سے محفوظ نہ رہے تو پھر فرشتوں کی رصد اور ان کے پہروں کا کیا فائدہ (دیکھو روح المعانی ص 164 ج 17 و ص 165 ج 17) نیز قرآن میں ہے۔ وانہ لکتب عزیز لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ تنزیل من حکیم حمید۔ یعنی اس کتاب عزیز کی حفاظت کا حق تعالیٰ خود ذمہ دار ہے کسی باطل کی مجال نہیں کہ وہ آگے یا پیچھے سے وہاں آسکے بہرحال یہ امر قطعاً محال ہے کہ آنحضرت ﷺ شیطان کے القاء سے کسی چیز کا تلفظ کردیں اور آپ کو القاء شیطانی اور وحی جبریل (علیہ السلام) میں اور قرآن اور غیر قرآن میں تمیز نہ ہو اور معاذ اللہ آپ ﷺ کی زبان سے قرآن میں کوئی حرف اور کوئی لفظ زیادہ ہوجائے جو اللہ نے آپ ﷺ پر نازل نہیں کیا اور شیطان وحی خداوندی میں کوئی آمیزش کردے اور آپ ﷺ کو اس پر تنبیہ نہ ہو اور آپ ﷺ یہ نہ سمجھ سکیں کہ وحی ربانی تو یہ ہے اور یہ مزید القاء شیطانی ہے۔ غرض یہ کہ امر ناممکن ہے کہ نبی کو وحی اور غیر وحی میں کوئی اشتباہ لاحق ہوجائے۔ اشتباہ کا واقع ہونا علامت ہے قلت بصیرت کی اور اللہ کا نبی اس سے پاک اور منزہ ہے۔ (6) نیز اگر اس واقعہ کو صحیح مان لیا جائے تو علاوہ اس کے کہ یہ واقعہآیات مذکورہ کے خلاف ہے ایک خرابی یہ لازم آئے گی کہ قرآن کریم اور وحی الٰہی سے وثوق اور اعتماد اٹھ جائیگا اور امان اور اطمینان زائل ہوجائے گا اس لیے کہ اس واقعہ کی طرح دوسری جگہ بھی القاء شیطانی سے وحی الٰہی اور پیغام خداوندی میں کمی اور زیادتی کا جواز اور امکان نکل جائیگا کہ ممکن ہے کہ دوسرے مواقع پر بھی القاء شیطانی سے احکام الٰہیہ اور پیغامات خداوندی میں اسی قسم کی کمی اور زیادتی اور تغیر اور تبدل پیش آیا ہو اور لازم آئے گا کہ حسب حکم خداوندی یایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک۔ احکام خداوندی کی پوری پوری اور صحیح صحیح تبلیغ نہ ہوئی ہو ایسی صورت میں وحی الٰہی پر یقین نہیں رہ سکتا کہ بالیقین یہ پوری اور صحیح وحی ہے اور بعینہٖ وہی پوری وحی ہے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے ممکن ہے کہ القاء شیطانی کی وجہ سے اس میں غیر وحی کی آمیزش ہوگئی ہو غرض یہ کہ ایسی سورت میں وحی الٰہی پر اعتماد اور یقین نہیں رہتا بلکہ وحی الٰہی مشکوک اور مشتبہ ہوجاتی ہے۔ (دیکھو تفسیر کبیر ص 194 ج 6 و روح المعانی ص 161 ج 17) (7) نیز ایک خرابی یہ لاز م آئے گی کہ نظم قرآنی باہم متضاد اور متناقض اور مختلف ہوجائے گی اس لیے کہ افرء یتم اللات والعزی الخ۔ سے تو بتوں کی مذمت مقصود ہے اور تلک الغرانیق العلیٰ سے بتوں کی مدح مقصود ہے تو سوال یہ ہے کہ ایسا صریح اختلاف اور واضح تناقض و تضاد حاضرین مجلس پر اور خاص کر نبی اکرم ﷺ پر کیسے مخفی رہا یہ ناممکن ہے کہ صاحب نبوت پر یہ اختلاف اور تضاد مخفی رہے۔ (8) نیز ایک خرابی یہ لازم آئے گی کہ تلک الغرانیق العلیٰ ایک معمولی عبارت ہے اور نظم قرآنی حداعجاز کو پہنچی ہوئی ہے دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے کیا حاضرین مجلس پر ان دو مختلف النوع کلاموں کا تفاوت مخفی رہا اور وہ اس فرق پر متنبہ نہ ہوئے اور اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ حضور پرنور ﷺ پر وحی الٰہی مشتبہ ہوگئی اور آپ ﷺ کو وحی رحمانی اور وحی شیطانی میں فرق نہ معلوم ہوا اور قرآن اور غیر قرآن اور منزل من اللہ اور غیر منزل من اللہ میں آپ ﷺ کو فرق نہ معلوم ہوا اور فرشتہ اور شیطان آپ پر کیسے ملتبس اور مشتبہ ہوگئے اور ملک معصوم اور شیطان خبیث میں آپ ﷺ وسلم نے فرق نہ کیا اور توحید اور شرک اور فرشتہ اور شیطان کا فرق آپ ﷺ پر ملتبس ہوگیا (روح المعانی ص 165 ج 17) (9) نیز اس آیت کا سیاق وسباق بتا رہا ہے کہ یہ آیت حضور پرنور ﷺ کی تسلی کے لیے نازل ہوئی نہ کہ عتاب اور تنبیہ کے لیے مقصود آیت آنحضرت ﷺ کو تسلی دینا ہے کہ آپ ﷺ ان معاجزین اور معاندین کی سعی فی ابطال الآیات سے رنجیدہ نہ ہوں پس اگر واقعہ مذکورہ صحیح ہوتا تو آپ ﷺ پر عتاب نازل ہوتا۔ نیز حدیث متواتر سے یہ ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ من رانی فی المنام فقد رانیٰ حقا فان الشیطن لا یتمثل بی۔ یعنی جس شخص نے مجھ کو خواب میں دیکھا اس نے حقیقتاً مجھ کو خواب میں دیکھا اس لیے کہ شیطان کو یہ قدرت نہیں کہ وہ میری صورت بنا سکے اور کسی کے سامنے میری شکل میں ظاہر ہو سکے۔ پس جب شیطان عام مومنین کے لیے بشکل نبی متمثل اور متشکل نہیں ہوسکتا تاکہ اہل ایمان مجھے خواب میں دیکھ کر کسی اشتباہ میں نہ پڑیں تو شیطان کا خود آنحضرت ﷺ کے لیے بشکل جبرئیل متمثل اور متشکل ہونا بدرجہ اولیٰ محال اور ناممکن ہوگا۔ دیکھو تفسیر روح المعانی ص 168 ج 17 (فتلک عشرۃ کاملۃ) پس یہ دس دلیلیں جو زیادہ تر امام رازی (رح) کی تفسیر کبیر اور علامہ آلوسی (رح) کی تفسیر روح المعانی سے ماخوذ ہیں اور کچھ حصہ شروع بیضاوی سے بھی ماخوذ ہے۔ ہم نے نہایت اختصار کے ساتھ ہدیہ ناظرین کردیا ہے۔ حضرات اہل علم تفاسیر مذکورہ بالا کی مراجعت فرما لیں۔ دلائل مذکورہ کے علاوہ اور بھی دلائل ملیں گے جن کو ہم نے اختصار کی بناء پر چھوڑ دیا۔ بہرحال اس قصہ کا موضوع اور باطل ہونا دلائل نقلیہ اور عقلیہ سے ثابت ہے اور صحیح روایتوں میں صرف اس قدر مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ نے سورة نجم کی تلاوت فرمائی اور مسلمانوں کے ساتھ مشرکین نے بھی سجدہ کیا سب نے سجدہ کیا مگر قریش کے ایک شیخ نے مٹھی بھر کنکریاں لیں اور ان کو اپنی پیشانی پر اٹھایا اور ان پر سجدہ کیا۔ صرف اتنی روایت صحیح ہے اور باقی موضوع اور باطل ہے۔ تمام روایات صحیحہ میں واقعہ غرانیق العلیٰ کا کہیں ذکر نہیں۔ آمدیم برسر مطلب اب ہم آیت ہذا کی تفسیر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں لیکن تفسیر آیت سے پہلے یہ بتلا دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس آیت میں دو لفظ مذکور ہیں ایک ” تمنی “ دوسرا ” القاء “ آیت تفسیر سے پہلے ان دونوں لفظوں کی تشریح ضروری معلوم ہوتی ہے۔ لفظ تمنی : سو جاننا چاہئے کہ لفظ تمنیٰ دو معنوں میں مستعمل ہوتا ہے ایک بمعنی قراءت و تلاوت جس کے معنی پڑھنے کے ہیں اور دوسرے معنی دلی آرزو اور تمنا کرنے کے ہیں۔ یہ لفظ کلام عرب میں دونوں معنی میں مستعمل ہوا ہے سورة نجم میں ہے۔ ام للانسان ما تمنی یہاں سے تمنی سے دلی خواہش اور آرزو کے معنی مراد ہیں اور سورة بقرہ میں ومنھم امیون لا یعلمون الکتب الا امانی۔ یہاں امنیہ سے صرف زبان سے الفاظ توریت پڑھنے کے معنی مراد ہیں۔ لفظ القاء : لفظ القاء کے اصل معنی ڈالنے کے ہیں اس میں دو احتمال ہیں ایک تو یہ آیت میں القاء سے لفظ کے اعتبار سے القاء مراد ہے یعنی شیطان ایسے الفاظ القاء کرتا ہے جن کو سن کر لوگ فتنہ میں پڑجائیں یا معنی کے اعتبار سے القاء مراد ہے یعنی شیطان کفار کے دلوں میں کوئی ایسی چیز القاء کرے جو ان کے فتنہ کا سبب بن جائے تو آیت میں تمنی اور القاء کے دونوں معنوں میں جو ن سے معنی بھی مراد لیے جائیں تو آیت کا مطلب صحیح اور درست ہوسکتا ہے۔ تفسیر اول اکثر مفسرین کے نزدیک تمنی کے معنی قراءت کے ہیں اور القاء سے القاء معنوی مراد ہے یعنی جب کبھی کسی نبی نے اللہ کی وحی کی قراءت کی تو شیطان نے ان کی قراءت اور تلفظ میں کافروں کے دلوں میں طرح طرح کے شکوک اور شبہات ڈال دئیے پس اگر اس آیت میں تمنی سے تلاوت اور قراءت کے معنی مراد لیے جائیں اور امنیہ کو بمعنی متلو اور مقروء لیا جائے یعنی وہ الفاظ مراد لیے جائیں جن کو نبی نے پڑھا ہے اور القاء سے باعتبار معنی کے القاء مراد لیا جائے یعنی شیطان نے انبیاء کی قراءت کے بعد لوگوں کے دلوں میں کچھ شبہ اور وسوسہ ڈال دیا جس سے وہ وحی متلو اور مفرد، لوگوں پر مشتبہ ہوگئی تو اس صورت میں آیت کی صحیح تفسیر اس طرح ہوگی اور اے نبی آپ ﷺ ان کفار معاجزین یعنی معاندین کے مجادلہ سے رنجیدہ اور ملول نہ ہوں اور یہ لوگ جو ابطال آیات کی سعی اور جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں اس کی فکر میں نہ پڑئیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہم نے آپ ﷺ سے پہلے کوئی رسول اور کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا کہ جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش نہ آیا ہو کہ جب کبھی اس نے لوگوں کو کوئی حکم خداوندی پڑھ کر سنایا یا اللہ کی آیتوں کو پڑھ کر سنایا تو اس وقت شیطان نے اس کی تلاوت کردہ چیز کے بارے میں لوگوں کے دل میں بذریعہ وسوسہ کچھ شکوک اور شبہات ڈال دئیے جس سے لوگ نبی کی تلاوت کردہ یعنی اس کی پڑھی ہوئی اور سنائی ہوئی چیز کے بارے میں شک اور شبہ میں پڑگئے مطلب یہ ہے کہ قدیم سے یہ عادت رہی ہے کہ جب کبھی اللہ کے کسی رسول اور نبی نے کوئی آیت تلاوت کی یا اللہ کا کوئی حکم پڑھ کر سنایا یا کوئی بات بیان کی تو شیطان نے اللہ کے حکم اور اللہ کی بات اور نبی کی بیان کردہ چیز کے متعلق لوگوں کے دلوں میں بذریعہ وسوسہ، شکوک اور شبہات ڈال دئیے بعد ازاں کفار شیاطین کے انہی القاء کردہ شبہات اور اعتراضات کی بناء پر انبیاء و رسل سے مجادلہ کرتے تھے اور اپنے اس مجادلہ باطلہ سے انبیاء و رسل کی بیان کردہ چیزوں کے ابطال اور محو کی سر توڑ کوشش کرتے تھے مگر نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ان کی سعی اور جدوجہد نا کام ہوتی تھی۔ کما قال اللہ تعالیٰ وان الشیاطین لیوحون الیٰ اولیاء ھم لیجادلوکم وقال اللہ تعالیٰ وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا شیاطین الانس والجن یوحی بعضھم الی بعض زخرف القول غرورا۔ پس اسی قسم کے شبہات سے کفار مکہ آیات خداوندی کے ابطال کی سعی میں لگے ہوئے ہیں جیسا کہ والذین سعوا فی ایتنا معاجزین میں اس کا ذکر ہوچکا ہے۔ (1) مثلاً جب نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے آیت انما حرم علیکم المیتۃ پڑھ کر سنائی تو شیطان نے لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ ڈالا کہ دیکھو مسلمان اپنی ماری (یعنی ذبیحہ) کو تو حلال بتاتے ہیں اور خدا کی ماری ہوئی چیز (یعنی میتہ اور مردار) کو حرام بتاتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا یہہ قول نازل کرکے اس کو منسوخ یعنی زائل اور باطل کردیا یعنی ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ وانہ لفسق اور فکلوا مما ذکر اسم اللہ علیہ نازل کرکے ان کے شبہ کو زائل کردیا اور بتلا دیا کہ جس جانور پر ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا جائے وہ حالل ہے اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے وہ حرام ہے۔ باقی مارنے والا اور جان نکالنے والا ہر حال میں اللہ ہی ہے۔ جان ڈالنا اور جان نکالنا یہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے بندہ کا کام ذبح کرنا یعنی چھری چلانا ہے اس کا قانون اور ضابطہ یہ ہے کہ اللہ کا نام لے کر چھری چلاؤ تو جانور حلال ہے ورنہ حرام ہے۔ (2) اور مثلاً جب آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم۔ تو شیطان نے اس میں یہ شبہ القاء کیا کہ وما تعبدون من دون اللہ۔ میں تو حضرت مسیح (علیہ السلام) اور حضرت عزیر (علیہ السلام) اور ملائکہ کرام (علیہ السلام) بھی داخل ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس شیطانی شبہ کے ازالہ کے لئے یہ آیت نازل فرمائی ان الذین سبقت لہم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون۔ مطلب یہ تھا کہ انکم وما تعبدون میں کلمہ ” ما “ سے ان کے اصنام اور بت مراد ہیں۔ خدا کے برگزیدہ بندے سے مراد نہیں۔ دیکھو حاشیہ شیخ زادہ برتفسیر بیضاوی ص 390 ج 3) پس اس طرح اللہ تعالیٰ اس القاء شیطانی کو مٹا دیتا ہے یعنی شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات اور اعتراضات کو محکم اور قطعی دلائل سے اور کافی و شافی جوابات سے دور کردیتا ہے اور ان کو بالکل نیست و نابود کردیتا ہے جیسا کہ قاعدہ ہے کہ قطعی دلیل اور محکم جواب کے بعد شبہ اور اعتراض کی بیخ و بن بھی باقی نہیں رہتی پس حق جل شانہ کے اس قول فینسخ اللہ میں نسخ سے لغوی معنی مراد ہیں شرعی معنی مراد نہیں۔ نسخ کے لغوی معنی محو اور ازالہ کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ القاء شیطانی کی تاشیر کو باطل اور زائل کردیتا ہے اور شیطانی خلط و ملط کو مٹا دیتا ہے۔ لغت کے اعتبار سے نسخ کی حقیقت رفع اور ازالہ ہے سو آیت میں نسخ سے لغوی معنی مراد ہیں عرفی اور اصطلاحی معنی مراد نہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے جو وحی نازل کرتا ہے اس کی حفاظت اور حراست کرتا ہے اور اگر کوئی دوسری چیز اس میں خلط ملط ہوجائے تو اس کو زائل کردیتا ہے اور مٹا دیتا ہے تاکہ کوئی اثتباہ باقی نہ رہے۔ (دیکھو تفسیر کبیر ص 197 ج 6) پھر شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات کے ازالہ کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی ان آیات بینات کے مضامین کو جن کو نبی ﷺ نے پڑھ کر سنایا تھا پہلے سے زیادہ محکم اور مضبوط بنا دیتا ہے وہ آیتیں اگرچہ پہلے سے محکم اور مضبوط تھیں مگر قطعی اور شافی جواب کے بعد انکا استحکام اور زیادہ روشن ہوجاتا ہے جس سے القاء شیطانی کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے اور شیطان کے القاء کردہ شکوک و شبہات یکلخت کافور ہوجاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے جواب کے بعد کسی شک و شبہ کی ذرہ برابر گنجائش باقی نہیں رہتی اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے یعنی شیطان نے جو القاء کیا۔ اللہ اس کو خوب جانتا ہے اور شیطان کو جو اس القاء پر قدرت دی اس میں اللہ کی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں اس کا ہر حکم اور ہر کام حق ہوتا ہے اور حکمتوں پر مبنی ہوتا ہے، پس اللہ تعالیٰ شیطان کو اس القاء کی اس لیے قدرت دیتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ شیطان کی القاء کو دہ چیز کو ان لوگوں کے لیے ایک فتنہ اور آزمائش بنائے جن کے دلوں میں شک اور نفاق کی بیماری ہے اور تردد اور تذبذب کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور نیز ان لوگوں کے لیے بھی آزمائش بنائے جن کے دل بالکل ہی سخت ہیں یعنی کھلم کھلا کافر ہیں اور اپنے کفر پر پختگی سے قائم ہیں اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو دار ابتلاء اور دار امتحان بنایا ہے۔ شیطان کے ذریعہ لوگوں کا امتحان کرتا ہے اللہ نے شیطان کو پیدا ہی بندوں کے ابتلاء اور آزمائش کے لیے کیا ہے۔ الذین فی قلوبھم۔ سے وہ لوگ مراد ہیں جو ابھی شک اور شبہ میں پڑے ہوئے ہیں جیسے منافقین اور مذبذبین جو تاہنوز حیرت سے پڑے ہوئے ہیں اور والقاسیۃ قلوبھم۔ سے وہ سخت دل اور سنگ دل لوگ مراد ہیں جو باطل پر جمئے ہوئے ہیں اور ان کے دل بالکل سیاہ پتھر کی طرح سخت ہوچکے ہیں۔ سو القاء شیطانی کا یہ فتنہ ان دونوں گروہوں کی آزمائش کے لیے ہے تاکہ خبیث اور طیب ایک دوسرے سے ممتاز اور جدا ہوجائیں اور حق اور باطل کا فرق واضح ہوجائے۔ اور بلاشبہ یہ دونوں مذکورہ گروہ (1) منافقین جو دل کے بیمار ہیں اور (2) کفار مجاہرین جو سنگ دل ہیں۔ واقعی یہ دونوں ظالم گروہ حد درجہ کی مخالفت میں ہیں جو حق سے بہت دور و دراز نکل گئے ہیں ظاہر اسباب میں حق کی طرف ان کی واپسی بہت بعید ہے اور اسی طرح القاء شیطانی میں ایک حکمت یہ ہے کہ تاکہ وہ لوگ جن کو من جانب اللہ صحیح علم اور صحیح فہم عطا کیا گیا ہے اس بات کو جان لیں اور یقین کرلیں کہ وہی حق ہے جو تیرے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا اور جو کچھ جتنی مقدار میں انہوں نے آپ ﷺ کی زبان مبارک سے سنا ہے اور سمجھا ہے صرف اتنا ہی حق ہے اور اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ سب غلط ہے پس جو نبی سے سنیں اور سمجھیں اس پر ایمان لائیں اور اسی کو حق جانیں۔ ایمان تو پہلے ہی سے تھا۔ مراد یہ ہے کہ ان کا ایمان اور مضبوط ہوجائے پھر نبی نے جو ان کو پڑھ کر سنایا ہے اس کے سامنے اس کے دل جھک جائیں اور دل و جان سے اس کے حکم کی تعمیل کریں پس اس القاء شیطانی اور اس کے ازالہ کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اہل ایمان کا ایمان اور ایقان پہلے سے زیادہ محکم اور مضبوط ہوگیا اور یہی صراط مستقیم ہے جو نہایت باریک ہے اور اس پر قائم رہنا بہت مشکل ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ سیدھی راہ پر انہیں بندوں کو چلاتا ہے جو اسکی باتوں کو مانتے ہیں اور اس پر یقین رکھتے، اس آیت میں اہل ایمان کی صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرنے سے ان کی استقامت اور حفاظت مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل حق کو ہدایت پر محفوظ اور مستقیم رکھتا ہے اور معاندین اور مجادلین اور معاجزین کو اپنی توفیق سے سرفراز نہیں کرتا۔ یہاں تک آیت کی پہلی تفسیر ختم ہوئی اور یہ تمام تفسیر اس صورت میں تھی کہ آیت میں تمنی سے قرأت اور تلاوت یعنی پڑھنے کے معنی مراد لیے جائیں اور القاء سے ازروئے معنی القاء مراد لیا جائے یعنی وسوسہ شیطانی مراد لیا جائے۔ اس صورت میں آیت کا خلاصہ مطلب یہ نکلا کہ شیطان کی قدیم عادت یہ ہے کہ جب کوئی پیغمبر کوئی چیز لوگوں کو پڑھ کر سناتا تو شیطان لوگوں کے دلوں میں اپنی تلاویلات فاسدہ اور شبہات واہبہ کا القاء کرتا جس سے نبی کی تلاوت کردہ چیز لوگوں پر مشتبہ ہوجاتی اور لوگ شبہ میں پڑجاتے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ تاویلات باطلہ، تسویلات مہملہ کو منسوخ یعنی نیست اور نابود کردیتا ہے جس سے وہ تمام القاء شیطانی باطل اور زائل ہوجاتا ہے اور حق پہلے سے زیادہ واضح اور مستحکم ہوجاتا ہے۔ علامہ آلوسی (رح) نے روح المعانی میں اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔ آیت کی دوسری تفسیر اور اگر آیت میں تمنی کے معنی بجائے پڑھنے کے دل سے تمنا اور آرزو کرنے کے لیے جائیں اور القاء سے معنوی القاء مراد لیا جائے تو پھر آیت کی صحیح تفسیر دوسری ہوگی جس کو حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور حضرت شاہ عبد القادر دہلوی قدس سرہما نے اختیار فرمایا ہے جس کو اب ہم ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ حضرت شاہ عبد القادر (رح) موضح القرآن میں اس آیت کی تفسیر اس طرح فرماتے ہیں جس کو ہم ذرا وضاحت کے ساتھ پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ نبی کو اللہ کی طرف سے کوئی حکم آتا ہے اس میں ذرہ برابر بھی ہرگز کوئی تفاوت نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اللہ کی بات ہوتی ہے اور ایک نبی کی طرف سے اس کے دل کا طبعی میلان اور خیال ہوتا ہے۔ اور اس کی دلی آرزو ہوتی ہے وہ کبھی ٹھیک پڑتا ہے اور کبھی نہیں کیونکہ وہ نبی کی طبعی اور ذاتی آرزو ہوتی ہے اللہ کی طرف سے نہیں ہوتی اس لیے اس میں فرق ہوسکتا ہے کہ پوری نہ ہو۔ مثلاً آنحضرت ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ آپ ﷺ مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے اور عمرہ کیا۔ خواب تو صرف اسی قدر تھا جس میں کسی وقت کا ذکر نہ تھا مگر دلی آرزو اور شوق کی بناء پر یہ خیال آیا کہ شاید اسی سال ایسا ہوجائے۔ اسی آرزو اور خیال کی بنا پر عمرہ کی نیت سے مکہ کا سفر اختیار فرمایا مگر اس سال آپ ﷺ عمرہ نہ کرسکے۔ اور واپس آگئے اور اگلے سال خواب کی تعبیر پوری ہوئی۔ یا مثلاً اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ سے وعدہ فرمایا کہ آپ کو کافروں پر غلبہ دے گا آپ کو خیال آیا کہ شاید اسی لڑائی میں فتح ہوگی مگر اس لڑائی میں آپ ﷺ کو غلبہ نہ ہوا بعد میں ہوا۔ غرض یہ کہ اس طرح گاہ بگاہ اصل وعدہ الٰہی کے ساتھ نبی کے خیال اور آرزو کی آمیزش ہوجاتی ہے اور لوگوں کے لیے فتنہ بن جاتی ہے جس سے لوگ شبہ میں پڑجاتے ہیں کہ نبی نے جو کہا تھا وہ پورا نہیں ہوا حالانکہ وہ نبی کی آرزو تھی وہ اگر پوری نہ ہو تو اس سے نبوت میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔ تو جب لوگ نبی کی آرزو پوری نہ ہونے کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور شبہ میں پڑجاتے ہیں تو اللہ اس آمیزش کو دور کردیتا ہے اور بتلا دیتا ہے کہ اللہ کا حکم اور اللہ کا وعدہ صرف اس قدر تھا وہ سرتاپا حق ہے اس میں سرموفرق اور تفاوت نہیں اور اس قدر اس میں نبی کا ذاتی خیال اور دلی آرزو تھی۔ نبی نے کسی چیز کی خبر نہیں دی تھی اور نبی کی آرزو اور اس کے طبعی خیال میں فرق نکل سکتا ہے کہ پورا نہ ہو۔ غرض یہ کہ جب اس قسم کا کوئی شبہ پیش آجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی کے بتلا دیتے ہیں کہ اصل حکم الٰہی اور اصل وعدہ خداوندی صرف اس قدر تھا اور اس کے علاوہ نبی کی دلی تمنا اور آرزو تھی جو اس کے ساتھ مل گئی تھی کوئی خبر اور پیشنگوئی نہ تھی، اللہ تعالیٰ وحی نازل کر کے اصل وعدہ اور اصل حکم کو نبی کی طبعی آرزو سے جدا اور الگ کردیتا ہے تاکہ دونوں چیزیں الگ الگ ہوجائیں اس سے اللہ کی بات کی مضبوطی ثابت ہوجاتی ہے کہ وہ ہو بہو پوری ہو اور بلاشبہ اللہ کی بات ضروری پوری ہو کر رہتی ہے البتہ نبی کی تمنا اور دلی آرزو کبھی کبھی پوری نہیں ہوتی اور اس سے پیغمبری میں کوئی خلل نہیں آتا۔ اللہ نے پیغمبروں کو علم غیب عطاء نہیں کیا۔ پیغمبر باقتضاء بشریت اپنے دل سے کچھ خیال باندھ لیتے ہیں اور وہ کبھی کبھی پورا نہیں ہوتا۔ پیغمبر کے ہر خیال اور آرزو کا پورا ہونا ضروری نہیں ہاں یہ ناممکن اور محال ہے کہ نبی کسی چیز کی خبر دے اور وہ غلط نکلے۔ خبر اور چیز ہے اور خیال اور آرزو اور چیز ہے آنحضرت ﷺ کی آرزو تو یہ تھی کہ سب ایمان لے آئیں مگر یہ آرزو پوری نہیں ہوئی وما اکثر الناس ولو حرمت بمومنین آپ کی دلی تمنا اور آرزو یہ تھی کہ ابو طالب ایمان لے آئیں مگر پوری نہیں ہوئی اور یہ آیت نازل ہوگئی۔ انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء۔ رہا یہ امر کہ اس صورت میں القاء کی نسبت شیطان کی طرف کیوں کی گئی۔ سو جاننا چاہئے کہ اس آیت میں القاء کی نسبت شیطان کی طرف ویسی ہے جیس کہ وما السانیہ الا الشیطن ان اذکرہ میں انساء (بھلا دینے) کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے اور سہو ونسیان نہ عصمت کے منافی ہے نہ نبوت کے منافی ہے۔ انبیاء سے بمقتضائے بشریت کبھی بھول چوک ہوجاتی ہے تو ادب خداوندی کی بناء پر اس کو شیطان کی طرف نسبت کردیتے ہیں واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ یہ تمام کلام حضرت شاہ عبد القادر رہلوی قدس اللہ سرہٗ کے کلام کی توضیح و تشریح ہے۔ جو اس آیت کی تفسیر میں حضرت شاہ صاحب (رح) کے قلم حقیقت رقم سے موضح القرآن میں نکلا ہے اور شاہ عبد القادر (رح) کے والد بزرگوار حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی قدس اللہ سرہٗ نے بھی اسی معنی کو اختیار فرمایا ہے۔ چناچہ فتح الرحمان میں لکھتے ہیں۔ مترجم گوید مثلاً آنحضرت ﷺ بخواب دیدند کہ ہجرت کردو اندبزمینے کہ بخل بسیار دارد پس وہم بجانب یمامہ و ہجر رفت درنفس الامر مدینہ بود۔ ومثلاً آنحضرت ﷺ بخواب دیدند کہ بمکہ درآمدہ اندو حلق و قصرمی کنند پس دہم آمد کہ درہماں سال ایں معنی واقع شود درنفس الامر بعد ازسال ہائے چند متحقق شدو درامثال ایں صورت امتحان مخلصان ومنافقان درمیان می آید۔ واللہ اعلم (فتح الرحمن) یعنی آنحضرت ﷺ نے ہجرت سے پہلے خواب میں دیکھا کہ آپ ﷺ نے ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کی ہے کہ جہاں کھجور کے درخت کثرت سے ہیں آپ کو خیال آیا کہ عجب نہیں کہ وہ سرزمین ہجر یا یمامہ ہو۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بستی مدینہ ہے جس قدر وحی آسمانی تھی وہ حق تھی اس میں سر مو تفاوت نہیں ہوا۔ البتہ آپ ﷺ کے خیال اور وہم و گمان میں فرق نکلا اور پورا نہ ہوا اور آپ ﷺ نے ہجر اور یمامہ کی بابت جو خیال فرمایا تھا وہ بھی غلط نہ تھا کیونکہ جو خواب آپ ﷺ کو دکھلایا گیا تھا اس میں کسی بستی کی تعیین نہ تھی۔ صرف اس قدر تھا کہ آپ ﷺ نے ایسی بستی کی طرف ہجرت کی جہاں کھجور کے درخت بکثرت ہیں چونکہ ہجر اور یمامہ میں بھی بکثرت کھجور کے درخت تھے اس لیے آپ کا خیال اس طرح گیا کہ شاید وہ بستی ہجر یا یمامہ ہو بعد میں یہ نکلا کہ وہ بستی مدینہ منورہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بات میں کبھی فرق نہیں نکلتا اور نکل سکتا ہے۔ البتہ نبی کے طبعی خیال اور دلی آرزو میں بایں معنی فرق نکل سکتا ہے کہ پوری نہ ہو اور اگر نبی کی کوئی آرزق پوری نہ ہوتا اس سے نبوت میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔ نبی بمقتضائے بشریت کبھی کوئی آرزو کرتا ہے مگر کسی حکمت غیبی سے وہ پوری نہیں ہوتی تو یہ نبوت کے منافی نہیں۔ ابتداء میں اللہ کی طرف سے جو وعدہ ہوا وہ مجمل تھا اور اجمالی کی وجہ سے متعدد معانی کا اس میں احتمال تھا اللہ کی طرف سے کوئی تعیین نہ تھی۔ ایسے مجمل اور متحمل وعدہ میں نبی کا خیال اور اس کی آرزو کسی ایک معنی کی طرف چلی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی کے بتلا دیتے ہیں کہ اس مجمل اور متحمل سے ہماری مراد فلاں معنی ہیں۔ سو یہ نہ کوئی خطا ہے اور نہ کوئی غلطی ہے اور نبوت اور عصمت کے منافی ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اگر تمنا سے پہلے معنی یعنی پڑھنے کے معنی مراد لیے جائیں اور القاء سے باعتبار معنی کے القاء مراد ہو تو آیت کی وہ تفسیر ہوگی جسکو سب سے پہلے ہم نے جمہور مفسرین سے نقل کیا اور اگر تمنا سے آرزو اور دلی خواہش کے معنی مراد ہوں تو آیت کی وہ تفسیر ہوگی جو ہم نے شاہ ولی اللہ (رح) اور شاہ عبد القادر (رح) سے نقل کی اور یہ دوسری تفسیر تھی اور یہاں ایک تیسری تفسیر بھی ہے وہ یہ ہے۔ تیسری تفسیر بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ آیت میں تمنی سے اپنی قوم کے ایمان کی حرص اور تمنا مراد ہے یعنی ہر نبی اپنی قوم کے ایمان اور ہدایت کی تمنا کرتا ہے مگر شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں طرح طرح کے شبہ ڈال دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان شبہات کا ازالہ فرما دیتے ہیں۔ آیت ہذا کی تفسیر میں علماء کا دوسرا گروہ : ابتداء کلام میں ہم یہ بتلا چکے ہیں کہ قصہ غرانیق علیٰ کے بارے میں علماء کے دو گروہ ہیں ایک گروہ وہ ہے جو اس قصہ کو بالکل باطل اور موضوع قرار دیتا ہے جمہور کا یہی مسلک ہے اور گزشتہ تین تفسیریں اسی قول پر مبنی تھیں جو گزر گئیں دوسرا گروہ علماء کا وہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ یہ قصہ اگرچہ پورا صحیح نہیں مگر بالکلیہ باطل اور بےاصل بھی نہیں بلکہ فی الجملہ ثبوت رکھتا ہے۔ حافظ عسقلانی (رح) اور جلال الدین سیوطی (رح) کا میلان اسی طرف ہے اس لیے کہ یہ قصہ متعدد اسانید سے منقول ہے اگرچہ ان میں سے بعض روایتیں مرسل ہیں اور بعض منقطع ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی کچھ نہ کچھ اصل ہے اس گروہ کے نزدیک بھی آیت ہزا کی تفسیر میں مختلف اقوال ہوگئے ہیں جن کو امام قرطبی (رح) نے اپنی تفسیر میں ذکر فرمایا ہے پھر اخیر میں فرماتے ہیں کہ اگر کسی درجہ میں اس قصہ کو ثابت مانا جائے تو بر تقدیر ثبوت آیت کی تفسیر میں سب سے بہتر قول یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ مجلس میں سورة نجم پڑھی تو وہاں بشکل انسان شیطان بھی حاضر تھا جب آپ ﷺ پڑھتے پڑھتے مناۃ الشالثۃ الاخری پر پہنچے تو آپ ﷺ نے حسب عادت سکوت فرمایا اس لیے کہ آپ کی عادت یہ تھی کہ آپ ﷺ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے شیطان نے آپ کے اس وقفہ کو غنیمت اور فرصت جانا اور آپ ﷺ کی آواز میں آواز ملا کر آپ ﷺ کی قراءت کے متصل ان الفاظ کو یعنی تلک الغرانیق العلیٰ کو پڑھ دیا۔ نیز قریش کا یہ طریقہ تھا جب آپ ﷺ قرآن پڑھتے تو بہت شوروغل مچاتے تاکہ آپ ﷺ کی قراءت کسی کو سنائی نہ دے۔ پس ایسی حالت میں شیطان نے آپ کی آواز بنا کر یہ الفاظ پڑھ دئیے جو کفار اور مشرکین شیطان کے قریب تھے انہوں نے ان الفاظ کو سنا اور گمان کیا کہ یہ الفاظ حضور پرنور ﷺ نے اسی طرح پڑھا ہے مشرکین ان الفاظ کو سن کر خوش ہوگئے کہ آج تو ہمارے بتوں کی تعریف کی گئی اور تمام مکہ میں اس کو مشہور کردیا اور شیطان کی یہ آواز صرف ان چند کفار نے سنی جو شیطان کے قریب تھے باقی مسلمانوں نے صرف اسی قدرت سنا جو آپ ﷺ نے ان کو پڑھ کر سنایا اس کے سوا کچھ نہیں سنا۔ مشرکین کی مشہور کردہ خبر کو جب مسلمانوں نے سنا تو تعجب اور حیرت میں پڑگئے کہ ہم نے تو یہ الفاظ حضور ﷺ کی زبان سے نہیں سنے اور آنحضرت ﷺ کو جب اس شہرت کا علم ہوا کہ مکہ میں آپ ﷺ کے متعلق یہ مشہور ہے کہ آج آپ ﷺ نے اس طرح پڑھا ہے تو آپ ﷺ بہت زنجیدہ اور غمگین ہوئے اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی تسلی کے لیے یہ آیتیں نازل کیں کہ اے نبی کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہم نے آپ ﷺ سے پہلے کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر اس کے ساتھ اسی قسم کا واقعہ پیش آیا کہ جب اللہ کے پیغمبر نے خدا کی طرف سے کوئی بات بیان کی تو شیطان نے موقع پاکر وحی الٰہی کے ساتھ اپنی طرف سے کوئی بات ملا دی اور اپنی جانب سے اس میں کچھ الفاظ کا اضافہ کردیا تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو گمراہ کر دے مگر شیطان کا یہ فتنہ وقتی اور عارضی ہوتا ہے جب کبھی ایسا فتنہ پیش آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس القاء شیطانی کی نیست و نابود کردیتا ہے یعنی اپنے بندوں پر ظاہر کردیتا ہے کہ اتنا حصہ القاء شیطانی ہے اور اتنا حصہ وحی زبانی اور القاء آسمانی ہے پس اس طرح وحی ربانی۔ القاء شیطانی سے جدا اور ممتاز ہوجاتی ہے اور دونوں کا فرق لوگوں پر واضح ہوجاتا ہے اور اس وقتی خلط ملط اور عارضی آمیزش سے جو اشتباہ ہوا تھا وہ دور ہوجاتا ہے۔ (دیکھو تفسیر مظہری ص 339 ج 6) اسی طرح آنحضرت ﷺ نے جب مجلس میں سورة نجم پڑھی تو شیطان نے موقع پاکر آپکی آواز میں آواز ملا کر اس قسم کا کلام ان مشرکین کے کانوں میں ڈالا جو اسکے قریب تھے جس سے انہوں نے یہ خیال کیا کہ یہ کلام بھی آنحضرت ﷺ کی زبان سے نکلا ہے حالانکہ نفس الامر میں ایسا نہ تھا بلکہ وہ شیطان کی کاری گری تھی۔ اور شیطان کی عادت ہے کہ وہ اس قسم کے جھوٹ کے لئے موقع کا متلاشی رہتا ہے اور انسان کی صورت میں ظاہر ہو کر کفار کی مجالس میں حاضر ہوتا ہے۔ اور ان کو مشورے دیتا ہے۔ مثلاً مشرکین دار الندوہ میں حضور پر نور ﷺ کے قتل کے مشورہ کے لیے جمع ہوئے تو شیطان شیخ نجدی کی صورت میں ظاہر ہوا اور ان کو مشورہ دیا۔ اور اسی طرح جب قریش جنگ بدر میں جانے کے ارادہ کر رہے تھے تو اس موقع پر شیطان سراقۃ بن مالک کی صورت میں ظاہرا ہوا اور ان کو غلبہ اور کامیابی کا اطمینان دلایا کما وال اللہ تعالیٰ واذ زین لہم الشیطن اعمالہم وقال لا غالب لکم الیوم من الناس وانی جار لکم فلما ترآءت الفئتان نکص علی عقبیہ وقال انی بری منکم۔ تو اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ﷺ کی مجلس میں آپ کی قراءت کے وقت شیطان کسی انسان کی صورت میں ظاہر ہوا ہو اور وہاں بیٹھ کر یہ الفاظ پڑھے ہوں۔ دیکھو حاشیہ شیخ زادہ علی تفسیر البیضاوی ص 390 ج 3۔ غرض یہ کہ یہ الفاظ حضور پر نور ﷺ نے ہرگز اپنی زبان مبارک سے نہیں پڑھے بلکہ حضور ﷺ کو تو اس کا علم بلکہ تصور بھی نہ تھا شیطان نے آپ کی آواز میں آواز ملا کر پڑھ دئیے جن کو کفار نے سن کر مشہور کردیا جو فتنہ کا سبب بن گیا۔ آنحضرت ﷺ کو جب اس خبر کا علم ہوا تو بہت رنجیدہ ہوئے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی بتلا دیا کہ یہ سب القاء شیطانی تھا وحی ربانی نہ تھی اور بتلا دیا کہ ہماری یہ قدیم عادت ہے کہ ہم شیطان کو اسی قسم کے القاء پر اول قدرت دیتے ہیں اور بعد میں اس کا ازالہ کردیتے ہیں اور ہمارا مقصود اس سے ایک قسم کا امتحان اور آزمائش ہوتا ہے جس سے سچے اور پکے ایمان والوں اور بذبذب اور کچے ایمان والوں کا حال ظاہر کردیا جاتا ہے لہٰذا اے نبی آپ ﷺ اس سے رنجیدہ اور ملول نہ ہوں۔ حضرات اہل علم تفسیر قرطبی ص 82 ج 12۔ اور احکام القرآن لابن العربی ص 291 ج 3۔ اور احکام القرآن للجصاص ص 247 ج 3 اور حاشیہ شیخ زادہ علی تفسیر البیضاوی ص 389 ج 3 ضرور دیکھیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ اس آیت کی تفسیر میں علماء کے دو مسلک ہیں ایک مسلک تو جمہور علماء کا ہے وہ یہ ہے کہ یہ قصہ مذکورہ بالکل باطل ہے، اول کی تین تفسریں اس مسلک پر مبنی ہیں۔ اور دوسرا مسلک یہ ہے کہ یہ قصہ بالکل بےاصل نہیں بلکہ فی الجملہ کسی درجہ میں کچھ اصلیت اور ثبوت رکھتا ہے۔ اس دوسرے مسلک کی بناء پر صرف ایک تفسیر ہے جس کو قاضی ابوبکر بن عربی (رح) اور قاضی بیضاوی (رح) نے اس عنوان سے ذکر کیا کہ اگر بالفرض والتقدیر کثرت طرق اور اسانید پر نظر کرکے اس واقعہ کو کسی درجہ میں ثابت مان لیا جائے تو پھر آیت کی تفسیر اس طرح کی جائے جو ہم ان حضرات سے نقل کرچکے ہیں اس تفسیر سے اگرچہ پورے اشکالات دور نہ ہوں گے مگر انشاء اللہ اکثر اشکلات تو ضرور دور ہوجائیں گے اور امام قرطبی (رح) اور قاضی ابوبکر (رح) بن عربی نے یہی فرمایا ہے کہ اگر بالفرض والتقدیر اس قصہ کو کسی درجہ میں ثابت مان لیا جائے تو آیت کی اس طرح تفسیر کی جائے تاکہ کوئی اشکال لازم نہ آئے۔ دوسری اور تیسری تفسیر جن لوگوں نے اس قصہ کو بدرجہ مجبوری کسی درجہ میں ثابت مانا تو بعض نے اس قصہ کی یہ تاویل کی ہے کہ غرانیق و علیٰ سے ملائکہ مقربین مراد ہیں۔ بت مراد نہیں اور بعض نے یہ کہا ہے کہ یہاں حرف استفہام مقدر ہے اور مطلب یہ ہے کہ اے قریش کیا یہ غرانیق جو تمہارے نزدیک بڑے عالی مرتبہ ہیں کیا ان سے کسی شفاعت کی امید کی جاسکتی ہے ہرگز نہیں، مگر یہ دونوں قول سراسر تکلف ہیں جن سے قلب مطمئن نہیں ہوتا (واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم) تتمہ بیان سابق اب اس کے بعد آئندہ آیات بیان سابق کا تتمہ ہیں جن میں یہ بتلاتے ہیں کہ کفار مجادلین اور معاجزین ہمیشہ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت میں شک کرتے رہیں گے اور آپ سے مجادلہ کرتے رہیں گے اور ابطال آیات کی سعی کرتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ قیامت آجائے یا ان کو موت آجائے اس لیے فرماتے ہیں اور ہمیشہ پڑے رہیں گے وہ لوگ جو ایمان نہیں لائے قرآن کی طرف سے یا القاء شیطانی کی وجہ سے شک اور شبہ ہی میں یا ہمیشہ جدال و خصام میں لگے رہیں گے یہاں تک کہ آپہنچے ان پر ناگہانی قیامت کبری یا قیامت صغریٰ یعنی ان پر موت آجائے یا آپہنچے ان پر ایک منحوس دن کی آفت ” منحوس دن “ سے جنگ بدر کا دن مراد ہے یا قحط کا زمانہ مراد ہے۔ ” عقیم “ اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس میں کوئی خبر نہ ہو۔ گویا کہ وہ دن بانجھ عورتوں کی طرح ہے جو کسی خیر اور بھلائی کو نہیں جنے گا۔ مطلب یہ ہے کہ معاجزین اور معاندین اپنے کفر اور عناد اور جدال و خصام پر سختی سے جمے ہوئے ہیں۔ بغیر مشاہدہ عذاب کے کفر اور عناد سے باز آئیں گے مگر اس وقت کا باز آنا نفع نہ دے گا۔ اس دن یعنی قیامت کے دن بادشاہی اللہ ہی کی ہوگی آج تو بادشاہوں کو اپنی سلطنت اور بادشاہت کا دعویٰ ہے مگر اس روز سوائے خدا کی بادشاہت اور حکومت کے کسی کی حکومت کا ظاہری اور مجازی طور پر بھی نام و نشان نہ رہے گا۔ اور بادشاہ حقیقی کی حکومت سب پر ظاہر ہوجائے گی۔ اس دن وہ بادشاہ حقیقی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا اور وہ فیصلہ ان دو فریق کے حق میں ہوگا۔ جن کی تفصیل آئندہ آیت میں ہے سو جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے وہ نعمت کے باغوں میں آرام سے ہونگے اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو ان کے لیے ذلت و خواری کا عذاب ہوگا۔ اس روز لوگوں کے درمیان اس طرح فیصلہ کردیا جائے گا کہ جن متکبرین نے انبیاء کا مقابلہ کیا سو ان کے استکبار کے مقابلہ میں ان کو ذلت و خواری کا عذاب دیا جائے گا۔ حق اور اہل حق کے ذلیل کرنے والے اس دن ذلیل اور رسوال ہونگے۔ (روح المعانی ص 164 ج 17)
Top