Maarif-ul-Quran - Al-Hajj : 77
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۩  ۞
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : وہ لوگ جو ایمان لائے ارْكَعُوْا : تم رکوع کرو وَاسْجُدُوْا : اور سجدہ کرو وَاعْبُدُوْا : اور عبادت کرو رَبَّكُمْ : اپنا رب وَافْعَلُوا : اور کرو الْخَيْرَ : اچھے کام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح (دوجہان میں کامیابی) پاؤ
مومنو ! رکوع کرتے اور سجدے کرتے اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہو اور نیک کام کرو تاکہ فلاح پاؤ
خاتمہ سورت برترغیب اعمال و تاکید اعتصام بملت اسلام قال اللہ تعالیٰ یایھا الذین امنوا ارکعوا واسجدوا .... الیٰ .... ونعم النصیر۔ (ربط) گزشتہ آیات میں شرک کا ابطال اور توحید و رسالت کا اثبات فرمایا اب ان آیات میں مسلمانوں کو اعمال خیر کی ترغیب اور دین اسلام پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے کی تاکید اکید فرماتے ہیں جو نجات اور فلاح کا ذریعہ ہیں اور اعمال خیر میں تمام خیرات و صدقات اور مکارم اخلاق اور محاسن اور افضل ترین عمل ہے اور ساتھ ساتھ یہ بتلایا کہ دین اسلام بہت آسان دین ہے اس پر عمل کرنا کوئی مشکل نہیں لہٰذا تم کو چاہئے کہ دن رات سرگرم عبادت رہو۔ اور ملت ابراہیمی پر قائم و دائم رہو اور اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو تاکہ مولائے برحق کی حمایت اور نصرت تمہارے ساتھ رہے اور ملت ابراہیمی اور ملت اسلام تمام اصول و فروع کے مجموعہ کا نام ہے اس پر قائم رہنے کا مطلب یہ ہے کہ دین اسلام پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہو۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے مضامین کو ملت ابراہیمی کے اتباع کے حکم پر ختم فرمایا۔ چناچہ فرماتے ہیں اے مسلمانو جو انبیاء کی ہدایت سے ہماری باتوں پر ایمان لائے اگر تم ہماری رضا اور خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہو تو ہماری عبادت اور بندگی کو اختیار کرو۔ رکوع اور سجدہ کرو اور دن رات اپنے پروردگار کی بندگی میں لگے رہو اور عبادت کے علاوہ ہر خیر اور نیکی کا کام کرو جو خدا کے نزدیک نیکی اور بھلائی ہے امید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے۔ اس آیت پر امام شافعی (رح) کے نزدیک سجدہ ہے اس سورت میں جو پہلا سجدہ گزرا وہ تو متفق علیہ ہے اور یہ دوسرا سجدہ مختلف فیہ ہے امام شافعی (رح) اور امام احمد (رح) کا مذہب یہ ہے کہ سورة حج میں دو سجدے ہیں جیسا کہ ترمذی اور ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ عقبہ بن عامر ؓ نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ کیا سورة حج میں دو سجدے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اور جو شخص دو سجدے نہ کرے وہ اس سورت کو نہ پڑھے۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) کا مذہب یہ ہے کہ اس آیت پر سجدہ نہیں۔ کیونکہ اس سجدہ کا ذکر رکوع کے ساتھ ہوا ہے لہٰذا یہ سجدہ نماز کا ہے۔ تلاوت کا نہیں۔ اور اگر تم قرب اور رضا کے بلند مقام پر پہنچنا چاہتے ہو تو اللہ کی راہ میں جہاد کرو جو حق ہے اس کے جہاد کا۔ ظاہری دشمن یعنی کافروں اور مشرکوں سے بھی جہاد کرو اور باطنی دشمن یعنی نفس امرہ اور نفسانی خواہشوں کے لشکر سے اور شیطان کے لشکر سے بھی جہاد کرو اور ایسا جہاد کرو کہ جہاد کا حق ادا ہوجائے۔ خدائے برحق نے تم کو اپنی عبودیت اور اپنے دین کی خدمت کے لیے منتخب کیا ہے اور اسی لیے تم کو منتخب کیا ہے کہ تم اس کی عبودیت اور اس کے دین کی خدمت میں اپنی جان و مال اور جدوجہد کو پانی کی طرح بہا دو ۔ اور خدا کے ظاہری اور باطنی دشمنوں کا مقابلہ کرو اور دین کے بارے میں اللہ نے تم پر کوئی تنگی اور سختی نہیں رکھی۔ خدا نے تم کو کوئی حکم ایسا نہیں دیا کہ جو تمہاری طاقت سے باہر ہو اور ضرورت کے وقت تم کو رخصتیں عطا کیں جیسے سفر میں نماز کا قصر کرنا اور بیماری کی حالت میں تیمم کرنا اور سفر اور بیامری کی وجہ سے روزہ نہ رکھنا غرض یہ کہ اللہ نے فرائض اور واجبات میں طرح طرح کی رخصتیں اور سہولتیں رکھی ہیں جیسا کہ حدیث میں آیا ہے الذین یسر دین اسلام بہت آسان ہے لہٰذا تم اپنے باپ ابراہیم کی ملت کو لازم پکڑو جو نہایت آسان ہے اور حدیث میں ہے بعثت مع الحنیفیۃ السمحۃ میں ابراہیم (علیہ السلام) حنیف کی ملت اور آسان شریعت دیکر بھیجا گیا ہوں اور ابراہیم (علیہ السلام) اکثر عرب کے باپ تھے اور ان کی حیات جسمانی کے سبب تھے اور ان کی ملت جو آپ صلی اللہ (علیہ السلام) لیکر آئے ہیں، وہ قیامت تک کے لئے تمام عالم کے روحانی حیات کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اس قرآن کے نازل ہونے سے پہلے گزشتہ کتابوں میں اور اس قرآن میں بھی تمہارا نام مسلمان رکھا اور ” مسلم “ اور ” مسلمان “ کے معنی فرما نبردار اور وفادار کے ہیں تو تم کو چاہیے کہ اس نام کی لاج رکھو اور اپنے آپ کو اس کے حوالہ اور سپرد کرو اور اس کے حکم کے سامنے گردن ڈال دو ۔ اسلام کے معنی لغت میں تسلیم کے ہیں یعنی اپنے آپ کو کسی کے سپرد کردینے اور اس کے سامنے گردن ڈال دینے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اور اگلی کتابوں میں تمہارا نام مسلمین اور مومنین اور عباد اللہ رکھا ہے۔ پس نافرمانبردار بندہ بن کر دکھاؤ تاکہ اسم باسمی کا مصداق بن سکو اور اللہ تعالیٰ نے دنیا میں تم کو یہ شرف اور امتیاز اس لیے عطاء کیا تاکہ قیامت کے دن رسول خدا تم پر گواہ ہوں اور تم تمام امتوں پر گواہ بنو۔ قیامت کے دن جب تمام امتیں اور ان کے رسول جمع ہونگے تو وہ امتیں یہ کہیں گی کہ ہم کو پیغمبروں نے تبلیغ نہیں کی۔ پیغمبر کہیں گے کہ ہم نے ان کو تبلیغ دی تھی، اللہ تعالیٰ پیغمبروں سے گواہ مانگے گا تو وہ امت محمودیہ کو بطور گواہ پیش کریں گے۔ امت محمدیہ گواہی سے گی کہ پیغمبروں نے امتوں کو اللہ کا پیغام دیا تھا تو اس وقت امت محمدیہ سے سوال ہوگا کہ تم کو کیسے معلوم ہوا۔ جواب دیں گے کہ ہم کو محمد رسول اللہ ﷺ نے اس کی خبر دی تھی۔ بعد ازاں آنحضرت ﷺ اس کی تصدیق فرمائیں گے۔ پس اے مسلمانو ! اللہ نے تم کو جو تمام امتوں میں سے منتخب کیا اور تم کو خیر الامم بنایا اور تمہارا نام ہی مسلمان رکھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قیامت کے ایک بڑے مقدمہ میں تم کو بطور گواہ کھڑا کرنا ہے تاکہ تمہاری شہادت سے تمام امتوں کے مقابلہ میں تمہاری عدالت اور فضیلت ظاہر ہو۔ پس اس عزت و کرامت کی لاج رکھنا اور خدا کی فرمانبرداری اور وفاداری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھنا۔ پس جب خدا تعالیٰ نے تم کو یہ فضل و شرف عطا کیا ہے تو تم نماز کو ٹھیک ٹھیک قائم رکھو اور زکوٰۃ و خیرات دیتے رہو اور ہر حال میں اللہ کے دین کو مضبوط پکڑے رہو۔ وہی تمہارا آقا ہے سو کیا ہی اچھا آقا ہے اور کیا ہی اچھا مددگار ہے۔ لہٰذا اسی پر بھروسہ رکھو اور کسی پر نظر نہ کرو۔ اس سے تعلق رکھنے والا بندہ کبھی ذلیل و خوار نہیں ہوسکتا۔ فلاح دارین کا دارومدار اس سے وابستگی اور تعلق پر ہے اس کے بعد سورة مومنوں آتی ہے جس کے شروع میں ان اعمال خیر کا ذکر ہے جن سے انسان کو فلاح حاصل ہوتی ہے۔ سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون وسلام علی المرسلین والحمدللہ رب العالمین۔ الحمدللہ آج بتاریخ 18 محرم الحرام سنہ 1391 ے روز سہ شنبہ بعد اذان ظہر بمقام جامعہ اشرفیہ لاہور۔ سورة حج کی تفسیر سے فراغت ہوئی۔ اے اللہ اپنی رحمت سے بقیہ قرآن کی تفسیر بھی مکمل فرما۔ آمین یا رب العالمین۔ اور قبول فرما۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلم وتب علینا انک انت التواب الرحیم۔
Top