بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Muminoon : 1
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ
قَدْ اَفْلَحَ : فلائی پائی (کامیاب ہوئے) الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع)
بیشک ایمان والے رستگار ہوگئے
صفات مومنین مفلحین قال اللہ تعالیٰ ۔ قد افلح ال مومن ون .... الیٰ .... ہم فیہا خلدون۔ (ربط) گزشتہ سورت کے اخیر میں اعمال خیر کا حکم اور فلاح کی امید کا ذکر تھا۔ اب ان آیات میں مومنین صالحین کے لیے وقوع فلاح کی خبر دیتے ہیں کہ بلاشبہ وہ مسلمان کامیاب ہیں جن میں یہ سات صفتیں پائی جاتی ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں تحقیق فلاح پائی اہل ایمان نے جس کی پہلے ہی سے اہل ایمان کو امید اور توقع تھی۔ اہل ایمان سے اہل تصدیق اور اہل اطمینان مراد ہے۔ اب اس بشارت کے بعد ان مومنین کی صفات بیان کرتے ہیں۔ ؂ اول صفت خشوع ان میں سے پہلی صفت یہ ہے جو اپنی نماز میں خشوع اور خضوع اور عجزو زاری کرنے والے ہیں یعنی ان کے دل میں اللہ کی عظمت اور ہیبت اور اس کا ادب ایسا ہے کہ جس کا اثر ظاہر پر نمایاں ہوتا ہے کہ جب نماز پڑھتے ہیں تو لرزاں اور ترساں ہوتے ہیں گویا کہ اپنے خدا کو دیکھ رہے ہیں۔ دوسری صفت اعراض عن اللغو اور دوسری صفت یہ ہے کہ یہ مسلمان اور اہل ایمان لغو یعنی بیکار باتوں سے اعراض کرنے والے اور منہ پھیرنے والے ہیں یعنی جس چیز کا خدا تعالیٰ سے تعلق نہ ہو اور آخرت میں کام نہ آئے اس سے اعراض کرنے والے ہیں۔ تیسری صفت اداء زکوٰۃ اور تیسری صفت یہ ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں یعنی مالی حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتے اصل زکوٰۃ مکہ مکرمہ میں شروع ہوچکی تھی۔ البتہ زکوٰۃ کی مقدار اور نصاب کی تعیین مدینہ پہنچ کر ہوئی۔ چوتھی صفت عفت و عصمت اور چوتھی صفت یہ ہے کہ اپنی شرمگاہوں کی ناجائز شہوت رانی سے حفاظت کرنے والے ہیں سوائے اپنی منکوحی یا مملوکہ عورتوں کے کسی اور جگہ اپنی شرمگارہوں کو استعمال نہیں کرتے سو ایسوں پر بلاشبہ کوئی ملامت اور الزام نہیں سو جس نے ان کے سوا یعنی اپنی بیویوں اور باندیوں کے سوا اپنی شہوت پوری کرنے کے لیے کوئی اور راہ ڈھونڈی سو ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہیں اور عصمت اور عفت کے دائرہ سے باہر نکلنے والے ہیں کہ حلال کی حدود سے نکل کر حرام کی حدود میں داخل ہوگئے۔ ایسے لوگ بلاشبہ قابل ملامت ہیں۔ شریعت نے جب تم کو بیوی اور باندی سے قضاء حاجت کی اجازت دے دی تو ضرورت پوری ہوگئی۔ اس کے بعد قضائے شہوت کے لیے کوئی راہ ڈھونڈنا جیسے زنا اور متعہ اور جلق اور وطی بہائم وغیرہ وغیرہ یہ سب حد سے گزرنا ہے۔ فائدہ : اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ متعہ حرام ہے کیونکہ زن متعہ نہ تو بیوی ہے اور نہ لونڈی ہے بیوی تو اس لیے نہیں کہ مرد پر اس کا نان و نفقہ نہیں اور نہ اس کے لیے طلاق ہے اور نہ عدت ہے اور نہ میراث ہے اور باندی اس لیے نہیں کہ اس کی بیع و شراء اور ہبہ اور عتق صحیح نہیں اور جب ان متعہ نہ ازواج میں سے ہے اور نہ ما ملکت ایمانھم سے ہے تو لامحالہ فمن ابتغی وراء ذلک فاولئک ہم العدون کسی عورت سے متعہ کرنا حدود شریعت سے تجاوز کرنا اور حلال کو چھوڑ کر حرام میں پڑنا ہوگا۔ جن کی تفصیل پارہ پنجم کے شروع میں گزر چکی ہے۔ غرض یہ کہ متعہ والی عورت نہ بیوی ہے نہ باندی اس لیے حسب آیت مذکورہ لامحالہ وہ حرام ہوگی اور اسی پر تمام صحابہ وتابعین کا اجماع ہے کہ متعہ حرام ہے اور اسی پر چاروں اماموں کا اتفاق ہے۔ اگر حسب زعم شیعہ۔ متعہ کسی قسم کا نکاح ہوتا یا کوئی خیرو برکت کی چیز ہوتی تو نکاح کی طرح متعہ کے لیے بھی دعوتی خطوط۔ اور ولیمہ وغیرہ بھی ہونا چاہتے تھا اور اعزاء اوراقارب اور احباب کو نکاح متعہ کی شرکت کے لیے مدعو کیا جاتا اور ہر طرف سے مبارکباد کی آوازیں آتیں اور سننے والے اس پر آمین کہتے۔ متعہ کو چھپا کر کرنا اور اس کے اعلان کو باعث ندامت سمجھنا یہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ متعہ شیعوں کے نزدیک بھی جرم ہے جس کو چھپایا جاتا ہے۔ پانچویں اور چھٹی صفت اداء امانت اور ایفاء عہد اور پانچویں صفت یہ ہے کہ جو اپنی امانتوں کی حفاظت کرنے والے ہیں وہ امانت خواہ اللہ کی ہو یا بندوں کی ہو اور چھٹی صفت یہ ہے کہ جو اپنے عہد اور ہیمان کی پوری رعایت اور نگہبانی کرنے والے ہیں امانت میں خیانت نہیں کرتے اور عہد کا پاس رکھتے ہیں عہد اور پیمان کرکے اسے توڑتے نہیں بلکہ اس پر قائم رہتے ہیں۔ آنکھ اور کان اور اعضاء اور جوارح سب اللہ کی امانتیں ہیں ان کو خلاف حکم خداوندی استعمال کرنا امانت میں خیانت کرنا ہے وقال اللہ تعالیٰ یایھا الذین امنوا لا تخونوا اللہ والرسول وتخونوا اماناتکم ان اللہ یامرکم ان تؤدو الامانات الیٰ اہلہا۔ واوفوا بالعھد ان العھد کان مسؤلا۔ ساتویں صفت نماز کی پابندی اور ساتویں صفت یہ ہے کہ جو اپنی پنجگانہ نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں یعنی نمازوں سے غفلت نہیں کرتے بلکہ ان پر قائم اور ثابت قدم رہتے ہیں اور اپنے وقت پر ان کو ادا کرتے ہیں۔ شروع کلام میں نماز کا ذکر فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ فلاح کا زیادہ تر دارومدار نماز پر ہے۔ ایسے ہی اہل ایمان جن میں ایمان کے یہ شعبے اور یہ صفتیں جمع ہوں، فردوس بریں کے وارث ہوں گے جو جنت میں سب سے اعلیٰ مقام ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ نہ مریں گے اور نہ وہاں سے نکالے جائیں گے اور یہی فلاح اور کامیابی کا بلند ترین مقام ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ سورة مومن ون مکی ہے اور شروع سورت میں جن مومنین مخلصین کی صفات سے فاضل کو بیان کیا گیا ہے اس کے اولین مصادق مہاجرین اولین اور خلفاء راشدین تھے جن کو دینی اور دنیوی فوزو فلاح سے نوازا گیا۔
Top