Maarif-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 192
وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَتَنْزِيْلُ : البتہ اتارا ہوا رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
اور یہ (قرآن خدائے) پروردگار عالم کا اتارا ہوا ہے
خاتمہ سورت مضمون حقانیت قرآن برائے اثبات رسالت نبی آخر الزمان ﷺ قال اللہ تعالیٰ وانہ لتنزیل رب العالمین الی وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب یتقلبون۔ (ربط) ابتداء سورت میں حقانیت قرآن کا مضمون تھا جس سے آنحضرت ﷺ کی رسالت کا ثابت کرنا مقصود تھا۔ اس وجہ سے منکرین نبوت اور مکذبین رسالت کا واقعات ذکر کیے۔ اب اخیر میں پھر اسی مضمون سابق کی طرف عود کر آتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے اور آپکی نبوت و رسالت کی روشن دلیل ہے۔ لہذا آپ اس کی تبلیغ اور دعوت میں لگے ہوئے ہیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیئے اور ان مشرکین کی پرواہ نہ کیجئے عنقریب ان ظالموں کو اپنے ظلم و ستم کا انجام معلوم ہوجائے گا۔ چناچہ فرماتے ہیں اور بیشک یہ قرآن رب العالمین کا نازل فرمودہ ہے جس سے مقصود بندوں کی تربیت ہے روح الامین یعنی جبرئیل امین اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر اس کو آپ ﷺ کے قلب پر اترے ہیں جو بندوں کے لیے روح ہدایت اور سامان حیات ہے جبرئیل اللہ کے امانت دار فرشتہ ہیں جس طرح انہوں نے کلام اور پیغام کو سنا بلا کم وکاست اسی طرح آپ ﷺ کے قلب پر اتارا۔ روح الامین نے اللہ کی یہ امانت آپ ﷺ کے قلب مبارک پر لا کر اتاری تاکہ کلام خداوندی کے انوار برکات آپ کے قلب میں راسخ اور مرتکز ہوجائیں اور قلب مبارک اس قرآن کو اچھی طرح سمجھ لے اور خوب محفوظ کرلے کہ جس میں سہو اور نسیان اور بھول چوک کا امکان باقی نہ رہے۔ قرآن کریم کا نزول اول قلب مبارک پر ہوا اور پھر قلب سے حواس ظاہرہ اور حواس باطنہ اور باقی اعضاء اور جوارح تک پہنچا۔ عقل اور ادراک کا منبع اور سر چشمہ دل ہے اور باقی اعضاء اس کے تابع ہیں۔ کما قال اللہ تعالیٰ ان فی ذلک لذکری لمن کان لہ قلب۔ اس لیے اللہ کا کلام آپ ﷺ کے قلب مبارک پر نازل ہوا اور یہ آنحضرت ﷺ کی خاص فضیلت ہے کہ قرآن پاک آپ ﷺ کے قلب پر نازل ہوا بخلاف دیگر انبیاء و رسل کے انکی کتابیں بشکل الواح وصحف نازل ہوئیں پس ان کا نزول حضرات انبیاء کی ظاہری صورتوں پر ہوا نہ کہ انکے قلوب پر۔ اور جبرئیل امین پر یہ قرآن صاف اور واضح عربی زبان لیکر آپ کے قلب پر نازل ہوئے تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہوجائیں جس طرح انبیاء سابقین نے منکرین اور مکذبین کو خدا کے قہر سے ڈرایا۔ اسی طرح آپ ﷺ بھی نہ ماننے والوں کو ڈرائیں۔ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اس کی صفت ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور بےچون و چگون ہے۔ بندوں کی ہدایت کے لیے اس کو حروف عربیہ کے لباس میں بارگاہ قدس سے نازل کیا۔ جبرئیل امین نے جن الفاظ اور حروف کے ساتھ اس کو سنا اسی طرح بعینہ اللہ کی امانت کو اللہ کے رسول تک پہنچا دیا۔ دیکھو حاشیہ شیخزادہ علی تفسیر البیضاوی 479 ج 3 اور دیکھو تفسیر روح البیان 306 ج 6 مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عربی زبان میں یہ قرآن آپ کے قلب پر نازل کیا ہے اور اس قرآن کے الفاظ اور معانی سب القاء ربانی ہیں۔ غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ فصحاء عرب نظم قرآنی کے اعجاز کو دیکھ کر سمجھ لیں کہ یہ قرآن رب العالمین کا نازل فرمودہ ہے کسی بشی کا کلام نہیں اور اگر باوجود اس واضح اعجاز کے کوئی کو رباطن قرآن کی حقانیت اور کلام خداوندی ہونے کا انکار کرے تو آپ ﷺ یہ کہہ دیجیئے کہ بلاشبہ اس قرآن کی اور اس کے لانے والے کی خبر پہلے لوگوں کی آسمانی کتابوں میں موجود ہے کہ یہ قرآن اخیر زمانہ میں پیغمبر آخر الزمان ﷺ پر نازل ہوگا۔ نزول قرآن سے قرنہاقرن پہلے انبیاء سابقین کی کتابوں میں اس خبر کا مذکور ہونا یہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ یہ قرآن منجانب اللہ اور منزل من اللہ ہے کسی سے پڑھ کر یا کسی سے سمجھ کر آپ ﷺ یہ آیتیں تلاوت نہیں کرتے۔ کیا یہ لوگ اس قرآن کی حقانیت اور صداقت کا انکار کرتے ہیں کیا ان کے پاس اس کی صداقت اور حقانیت کی یہ نشانی موجود نہیں کہ علماء نبی اسرائیل خوب جانتے ہیں کہ یہ وہی کتاب ہے اور یہ وہی پیغمبر ہیں جن کی بشارت ہماری کتابوں میں موجود ہے چناچہ بہت سے یہود اور نصاریٰ اسی بنا پر مسلمان ہوئے کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی خبر توریت اور انجیل اور زبور اور دیگر آسمانی کتابوں میں دی گئی جیسے عبداللہ بن سلام وغیرہ۔ اور بہت سے علماء یہود اور نصاریٰ اگرچہ ایمان نہیں لائے مگر اپنی خصوصی مجلسوں میں اس کا اقرار کرتے تھے کہ یہ وہی نبی ہیں اور یہ وہی کتا ہے کہ جس کے ظہور اور نزول کی خبر آسمانی صحیفوں میں دی جا چکی ہے۔ جن یہود و نصاریٰ میں ذرا بھی انصاف تھا۔ وہ اقرار کرتے تھے کہ قرآن اور آنحضرت ﷺ کی بشارت ہماری کتابوں میں موجود ہے ا اور زمانہ نزول میں کسی یہودی اور نصرانی کی یہ جرأت نہیں کہ وہ قرآن کے ان آیات کی تکذیب اور انکار کرسکے۔ توریت اور انجیل میں اگرچہ بہت کچھ تحریف ہوچکی ہے لیکن اب بھی ان میں قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی بشارتیں موجود ہیں جن کو تفصیل کے ساتھ ہم نے سیرۃ المصطفیٰ کے حصہ چہارم میں ذکر کردیا ہے اور بشائر النبیین لظہور خاتم الانبیاء والمرسلین کے نام سے علیحدہ بھی طبع ہوچکی ہے چناچہ توریت سفرا استثناء کے اٹھارویں باب درس 18 میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ ان کے لیے (یعنی بنی اسرائیل) کے لئے ان کے بھائی میں سے (یعنی نبی اسمعیل میں سے) اے موسیٰ تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔ انتہی اس بشارت میں موسیٰ جیسے نبی کے برپا کرنے سے آنحضرت ﷺ کے ظہور کی طرف اشارہ ہے اور اس کے منہ میں اپنا کلام ڈالنے سے نزول قرآن کی طرف اشارہ ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ علماء نبی اسرائیل اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ اس قرآن کی خبر اگلی کتابوں میں موجود ہے اور ظاہر ہے کہ جب کسی مذہب کا عالم کسی بات کی گواہی دیتا ہے تو اس چیز کا یقین ہوجاتا ہے لہذا اہل مکہ کو اس بات کا یقین کرلینا چاہیئے کہ یہ قرآن اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے اور ان کو چاہیے کہ اس پر ایمان لے آویں۔ لیکن یہ لوگ حد درجہ کے معاند ہیں۔ بالفرض اگر ہم اس عربی کتاب کو کسی عجمی شخص پر نازل کرتے جو عربی بولنے پر قادر نہ ہوتا۔ پھر وہ ان کو پڑھ کر سناتا جس سے اس کا اعجاز اور ظاہر ہوجاتا تو یہ عنادی لوگ تب بھی اس پر ایمان لانے والے نہ ہوتے۔ مشرکین عرب یہ کہتے تھے کہ یہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور اس نبی کی زبان بھی عربی ہے ممکن ہے کہ اس شخص نے خود اس قرآن کو بنا لیا ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ یہ لوگ ایسے ہٹ دھرم ہیں کہ اگر ہم اس قرآن عربی کو کسی عجمی شخص پر نازل کرتے جو عربی کا ایک حرف بولنے پر بھی قادر نہ ہوتا اور وہ اس قرآن کو ان پر نہایت صحیح طریقہ سے پڑھتا تو تب بھی عناد کی وجہ سے ایمان نہ لاتے حالانکہ اس وقت اس میں دو اعجاز جمع ہوجاتے۔ ایک اعجاز تو خود قرآن کا اور ایک اعجاز اس عجمی کی قرأت کا۔ کیونکہ عجمی شخص پر یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ اس عجمی نے خود اس نظم عربی کو بنا لیا ہے۔ اور بعض علماء کہتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم اس قرآن کو لغت عجم میں کسی عجمی پر اتارتے اور پھر وہ ان کو اپنی زبان میں پڑھ کر سناتا تو تب بھی ایمان نہ لاتے اور یہ کہتے کہ ہم اس زبان کو نہیں سمجھتے۔ جیسا کہ دوسری جگہ ہے۔ ولو جعلناہ قرانا اعجمیا لقالوا لو لا فصلت ایاتہ۔ غرض یہ کہ نہ ماننے کے سو بہانے لہذا اے نبی ﷺ آپ ان کے ایمان لانے کی امیدنہ رکھیے دیکھ لیجئے کہ ہم مجرموں کے دلوں میں اس طرح انکار اور تکذیب کو اتار دیتے ہیں۔ یہ لوگ اس قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ پچھلی امتوں کی طرح دردناک عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ پھر وہ عذاب دنیا ہی میں ان پر اچانک آجائے اور ان کو اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہو۔ پھر کہنے لگے کہ کیا کچھ ہم مہلت دیئے جائیں گے کہ ایمان لاسکیں لیکن یہ وقت مہلت کا نہیں۔ مہلت کا وقت تو گزر چکا اب تو سر پر مصیبت آپہنچی یہ مجرمین پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ ہم پر عذاب کیوں نازل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ بطور تہدید اور استہزاء ان کے جواب میں فرماتے ہیں۔ کیا یہ لوگ ہمارے عذاب میں جلدی مچاتے ہیں اور ہمارے نبی سے یہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ آپ کی تکذیب کر رہے ہیں۔ بتلائیے کہ ہم پر کب عذاب آئے گا اور کہتے ہیں کہ ربنا عجل لنا قطنا قبل یوم الحساب۔ اور اھطر علینا حجارۃ من السماء۔ اور فاتنا بما تعدنا۔ اور حال یہ ہے کہ عذاب کو دیکھ کر مہلت مانگ رہے ہیں۔ عذاب کی تعجیل تو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی بات کو غلط سمجھتے ہیں اور مہلت مانگنا اس کی دلیل ہے کہ اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہیں جس کا ان سے وعدہ تھا تو وہ سالہا سال کی بہرہ مندی ان کو کچھ کام نہ آئے گی۔ اور عذاب کو ان سے دفع نہ کرسکے گی۔ اور ایک لمحہ کا عذاب لاحق۔ سالہا سال کے عیش و عشرت اور سابق تمتع کو یکلخت ختم کر دے گا۔ اور ہم نے کسی بستی کو عذاب سے ہلاک نہیں کیا مگر وہاں لوگوں کو عذاب الہٰی سے ڈرانے والے موجود تھے۔ بطور نصیحت ان کو حق کی طرف بلاتے تھے جب حجت پوری ہوگئی تب عذاب آیا اور ہم ظالم نہیں کہ ڈرانے سے پہلے یکایک عذاب نازل کردیں۔
Top