Maarif-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 23
قَالَ فِرْعَوْنُ وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَؕ
قَالَ فِرْعَوْنُ : فرعون نے کہا وَمَا : اور کیا ہے رَبُّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
فرعون نے کہا کہ تمام جہان کا مالک کیا ؟
مکاملہ موسیٰ (علیہ السلام) بافرعون دربارہ ربوبیت خداوند کون قال اللہ تعالیٰ قال فرعون وما رب العلمین .... الیٰ .... فازا ہی بیضاء للنظرین۔ فرعون اس گفتگو میں ذلیل و خوار ہوا تو اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کے اس قول انا رسول رب العلمین۔ یعنی ہم دونوں اللہ رب العالمین کے پیغمبر ہیں یعنی ان کے دعوائے نبوت پر اعتراض شروع کیا۔ اور اللہ رب العالمین کی ربوبیت میں جھگڑا لگانے لگا چناچہ فرعون بولا اچھا بتاؤ کہ وہ رب العالمین جس کے رسول ہونے کا تو مدعی ہے وہ کیا چیز ہے وہ کون ہے اور کیا ہے تمہارا دعویٰ یہ ہے کہ ہم رب العالمین کے رسول مرسل ہیں یعنی اس کے فرستادہ ہیں لہٰذا تم کو چاہئے کہ اول اپنے مرسل (بھیجنے والے پروردگار) کو بتلاؤ کہ وہ کون ہے اور کیا چیز ہے چونکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو رب العالمین کی عبادت اور اطاعت کی طرف بلایا اس لیے اس لعین نے پہلے رب العالمین کے متعلق سوال شروع کیا کہ اول تو تم اس کی الوہیت اور ربوبیت کو ثابت کرو تمہاری نبوت اور رسالت کے بارے میں تو بعد میں غور کیا جائیگا۔ فرعون دہری تھا سرے سے خدا کے وجود کا منکر تھا وہ یہ کہتا تھا۔ ما علمت لکم من الہ غیری۔ میں اپنے سوا تمہارے لیے کوئی معبود نہیں جانتا اور انا ربکم الا علی میں ہی تمہارا سب سے بڑا پروردگار ہوں۔ تمام ملک کے باشندے میرے محتاج ہیں لہٰذا میں ہی تمہارا خدا ہوں۔ فرعون دہری (منکر خدا) تھا کسی خدا اور خالق کا قائل نہ تھا اس احمق نے خدا کے معنی یہ سمجھ رکھے تھے۔ کہ لوگ جس کے محتاج ہوں وہی انکا خدا ہے جاہلوں کو یہ باور کرایا کہ ملک کا جو بادشاہ اور فرما نروا ہے وہی دعا یا کا رب اعلی ہے۔ کما قال تعالیٰ فاستخف قومہ فاطاعوہ۔ فرعون دہری تھا اس کا عقیدہ یہ تھا کہ آسمان و زمین اور یہ تمام عالم قدیم ہے ازل سے ہمیشہ اسی طرح سلسلہ چلا آرہا ہے اور ابدالآباد تک اسی طرح سلسلہ جاری رہے گا اور عالم میں موت اور حیات اور تغیرات جو سلسلہ جاری ہے وہ کواکب اور نجوم کی تاثیر سے ہے کسی قادر مختار کی قدرت اور ارادہ کو اس میں دخل نہیں زمانہ حال کے جدید فلاسفہ بھی اسی کے قریب قریب یہ کہتے ہیں کہ تنوعات عالم مادہ قدیمہ اور اس کی حرکت قدیمہ کا ثمرہ اور نتیجہ ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے خیال خام کا رد فرمایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا جواب جب فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ سوال کیا وما رب العلمین۔ رب العالمین کیا چیز ہے اور وہ کون ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ وہ رب العالمین جس نے مجھ کو رسول بنا کر بھیجا ہے وہ ذات ہے کہ جو آسمانوں اور زمین کا اور ان کے درمیان تمام چیزوں کا مربی اور مدبر ہے اگر تم یقین کرنے والے ہو تو یقین کرلو کہ جو میں نے کہا ہے وہ بالکل حق ہے کہ جو ذات عالم علوی اور عالم سفلی اور ان کے درمیان کائنات کی خالق اور مربی اور مدبر اور متصرف ہے وہی ذات رب العلمین ہے تم کو یقین ہے کہ یہ تمام اشیاء تمہارے سامنے موجود ہیں اور نہایت بڑے بڑے اجسام ہیں اور کمیت اور کیفیت اور صفت اور حالت کے اعتبار سے چابت درجہ مختلف ہیں اور یہ تمام اجسام اس قدر عظیم اور جسیم ہیں کہ ان کے اجزاء کی شمار عقلا محال معلوم ہوتی ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا بیشمار اجزاء خود بخود مل کر خودبخود آسمان و زمین اور انسان اور حیوان بن گئے۔ عقل یہ کہتی ہے کہ ہر مرکب شئے کے لئے کوئی مرکب (ترکیب دینے والا چاہئے) پس جس ذات نے ان بیشمار اجزاء کو ترکیب دے کر اس عالم علوی اور سفلی کو بنایا اور جو ان کا مدبر اور ان میں متصرف ہے وہی رب العالمین ہے اور اے فرعون تو تو ایک حقیر اور ذلیل ہستی ہے تیرا رب ہونا عقلا محال ہے۔ فرعون نے خدا کی جنس اور ماہیت سے سوال کیا تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) نی اس کی صفات اور آثار قدرت سے جواب دیا اس لیے فرعون یہ جواب سن کر حیران رہ گیا۔ فرعون چونکہ وجود صانع کا قائل نہ تھا اس لیے اس نے موسیٰ (علیہ السلام) سے سوال کیا۔ وما رب العلمین۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کا جواب دیا۔ فرعون کا جواب فرعون موسیٰ (علیہ السلام) کا جواب سن کر اپنے پاس والوں سے بطور تمسخر کہنے لگا کہ سنتے بھی ہو کہ کیسا جواب ہے اور یہ شخص کیا کہہ رہا ہے بڑی عجیب بات کہہ رہا ہے کیا میرے سوا بھی تمہارا کوئی رب ہے اس شخص کا زعم یہ ہے کہ آسمان اور زمین کا بھی کوئی رب ہے حالانکہ آسمان اور زمین تو قدیم ہیں ہمیشہ سے اسی طرح چلے آئے ہیں اور ہمیشہ اسی طرح قائم رہیں گے اور حرکت کرتے رہیں گے اس کے لیے رب اور صانع کی ضرورت نہیں اور عالم کی تغیرات اور انقلابات نجوم اور کواکب کی حرکات مختلفہ کے آثار ہیں اس لیے عالم کے لیے مؤثر اور مدبر کی ضرورت نہیں جیسا کہ فرقہ دہریہ کا مذہب ہے۔ فرقہ دہریہ کا مذہب یہ ہے کہ آسمان اور زمین سب قدیم ہیں اسی طرح فرعون نے اپنے ارکان دولت سراپا جہالت سے کہا کہ کیا تم لوگ غور سے نہیں سنتے کہ یہ شخص آسمانوں اور زمین کا رب بتلاتا ہے حالانکہ آسمان و زمین سب قدیم ہیں انکا کوئی رب نہیں۔ یا کم از کم اب تک ہمارے نزدیک آسمان و زمین کا کسی رب اور کسی مدبر اور مؤثر کی طرف محتاج ہونا ثابت نہیں ہوا۔ دیکھو تفسیر مظہری ص 60 ج 7۔ جدید فلاسفہ اور دیم فلاسفہ دونوں گروہ عالم کے قدیم ماننے میں شریک اور متفق ہیں۔ فرعون نے اپنی قوم کو مغالطہ دینے کے لئے یہ بات کہی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر دوسرا جواب دیا جس میں فرعون کا یہ مغالطہ نہ چل سکے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا دوسرا جواب موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کی اس بات کے جواب میں یہ کہا کہ رب العالمین وہ ہے جو تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادا کا رب ہے آسمان و زمین کے بارے میں تو فرعون کا مغالطہ کچھ چل گیا کہ آسمان و زمین تو قدیم ہیں ہمیشہ ایک حال پر چلے آ رہے ہیں انہیں کسی رب اور کسی مؤثر اور مدبر کی ضرورت نہیں اس لیے کہ لوگوں کو زمین و آسمان کی پیدائش کا حال معلوم نہیں کہ کب پیدا ہوئے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) نے دوسری بار ایسی دلیل پیش کی کہ جس میں ارکان دولت کو اور کسی سننے والے کو شک اور شبہ کی گنجائش ہی نہ رہے اس لیے دوسری بار یہ فرمایا کہ رب العالمین وہ ذات ہے کہ جو تمہارے اور تمہارے آباؤ اجداد کا رب ہے اس لیے کہ یہ امر مشاہدہ سے سب کو معلوم ہے کہ ایک وہ وقت تھا کہ نہ فرعون تھا اور نہ اسکی قوم کا وجود تھا اور نہ ان کے آباؤاجداد کا وجود تھا یہ تمام آباؤاجداد اول پیدا ہوئے اور پھر اپنی طبعی عمر پوری کر کے مرگئے۔ آسمان اور زمین کی طرح آباؤ اجداد کو تو قدیم نہیں کہا جاسکتا اور نہ کوئی ایسا کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ آسمان و زمین کی طرح آباؤاجداد بھی قدیم ہیں۔ عدم سے وجود میں آئے تھے اور چند روز اس دنیا میں رہے اور اپنے وجود کی مدت پوری کر کے پھر پردہ عدم میں جا چھپے اور زمین میں دفن ہوگئے۔ لہذا آباؤ اولین کا قدیم اور واجب الوجود ہونا تو عقلاً بھی محال ہے اور مشاہدہ کے بھی خلاف ہے ان سب کا عدم کے بعد وجود میں آنا اور پھر چند روزہ وجود کے بعد عدم وجود میں چلے جانا سب کی نظروں کے سامنے ہے جس کی کوئی تکذیب نہیں کرسکتا اور عدم سے وجود میں آنا بھی حقیقت حدوث کی ہے اور وجود کے بعد عدم میں چلا جانا بھی حقیقت فنا اور زوال کی ہے پس جس چیز کا حدوث اور فناء وزوال نظروں کے سامنے ہو اسکو قدیم اور واجب الوجود کھلی ہوئی حماقت ہے، آسمان و زمین کا حدوث اور انکا فناء وزوال عام نظروں سے پوشیدہ ہے اس لیے آسمان و زمین کو تو ظاہر میں قدیم کہنے کی گنجائش ہے بھی، لیکن آباؤ اجداد کا حدوث اور فناء وزوال تو سب کی نظروں کے سامنے ہے کوئی نادان سے نادان بھی آباؤ اجداد کو قدیم اور واجب الوجود کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا اور اے فرعون اسی طرح تو بھی پہلے زمانے میں معدوم تھا بعد میں پیدا ہوا اب چند روز بعد آباؤ اولین کی طرح تجھے بھی موت آنے والی ہے۔ لہذا تو بھی حادث ہے اور فانی ہے کس برتے پر تو الوہیت اور ربوبیت کا دعوے دار بنا ہوا ہے خوب سمجھ لے کہ رب العالمین تو وہ ہے کہ جو دائم اور قدیم اور حیی لایموت ہے جس کی بارگاہ میں عدم اور فناء کا کہیں گزر نہیں اے فرعون تجھے معلوم ہے کہ تو ایک طویل اور غیر محدود عدم کے بعد وجود میں آیا ہے۔ نو مہینے تو نے مادر شکم میں گزارے ہیں اور چند روزہ زندگی گزارنے کے بعد اپنے آباؤ اجداد کی طرح مر کر زمین میں دفن ہونے والا ہے تو پھر تو رب کیسے ہوسکتا ہے۔ تیرا اور تیرے آباؤ اجداد کا دائرہ سلطنت مصر سے باہر نہ تھا۔ اور میں جس رب کی عبادت کی طرف تم کو بلا رہا ہوں اسکی حکومت و سلطنت کا دائرہ مشرق و مغرب کو محیط ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ جب تیرا اور تیرے آباؤ اجداد کا حادث ہونا یعنی عدم سے وجود میں آنا ایسا واضح اور روشن ہے کہ جس کا تو انکار نہیں کرسکتا تو عقلاً ضروری ہے کہ ہر حادث کے لیے ایک محدث چاہئے کہ جو اس کو عدم سے نکال کر وجود میں لایا ہے کیونکہ یہ امر تو ظاہر ہے کہ یہ حادث چیزیں یعنی تو اور تیرے آباؤ اجداد خود بخود تو عدم سے نکل کر وجود میں نہیں آگئے پس اے فرعون جو ذات تجھ کو اور تیرے آباؤ اولین کو عدم سے نکال کر وجود میں لائی ہے وہی رب العالمین ہے اور اے فرعون تو اور تیرے آباؤ اجداد اجسام مرکبہ ہیں جو مختلف اجزاء سے مل کر بنے ہیں اور ذی حیات ہیں اور صاحب عقل ہیں اور پیدائش کے وقت سے لے کر مرنے تک عجیب و غریب تغیرات ان کو لاحق ہوتے ہیں۔ تو کیا یہ تمام خود بخود بلا کسی مرکب (ترکیب داہندہ) کے خود بخود مرکب ہوگئے اور خود بخود مرگئے اور خود بخود جا کر قبروں میں لیٹ گئے۔ لامحالہ اس ہیئت ترکیبیہ کے لیے کوئی مرکب چاہیے اور ان تغیرات کے لیے کوئی مغیرہ چاہیے اور ان تاثرات کے لئے کوئی مؤثر چاہیے پس جس ذات بابرکات کے ہاتھ میں تیرے اور تیرے آباؤ اجداد کے تغیرات اور تنوعات اور ان کے وجود اور عدم کی باگ ہے اور تیری اور تیرے آباؤ اجداد کی موت وحیات جس کے اختیار میں ہے وہی ذات رب العالمین ہے اور اسی رب العالمین نے مجھ کو رسول بنا کر تیری طرف بھیجا ہے اور جس طرح تیرے آباؤ اجداد کے اجسام حادث اور فانی ہیں اور اپنے حدوث اور وجود میں صانع کے محتاج ہیں اسی طرح آسمان و زمین بھی اجسام حادثہ اور فانیہ ہیں اپنے حدوث میں پروردگار کے محتاج ہیں اور فلسفۂ جدیدہ یہ کہتا ہے کہ زمانے کے تنوعات اور تغیرات مادہ اور ایتھر کی تدریجی حرکت سے ظہور میں آرہے ہیں۔ جدید فلسفہ کی تحقیق اور فرعون کے قول میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ فرعون کا جواب فرعون موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ جواب حکمت تاب سن کر گھبرا اٹھا اور اس کو ڈر ہوا کہ اس دلیل کو سن کر میری قوم شک میں نہ پڑجائے تو اپنے حاشیہ نشینوں کو دھوکہ دینے کے لیے اور اپنا رعب جمانے کے لیے جھلا کر یہ بولا کہ اے لوگو بیشک تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے یعنی جو اپنے آپ کو رب العالمین کا رسول بتاتا ہے یہ یقین جانو کہ وہ بلاشبہ دیوانہ اور باؤلا ہے۔ اسکی بات پر کان نہ دھرنا۔ حالانکہ رسول کے لیے ضروری ہے کہ وہ عقل الناس ہو اور یہ شخص تو بالکل مجنون ہے اور بےعقل ہے کہ موت اور حیات کو اور حوادث زمانہ کو خدا کی طرف منسوب کرتا ہے۔ نموت ونحیا وما یھلکنا الا الدھر۔ یعنی موت اور حیات کا سلسلہ قدیم سے اسی طرح چلا آرہا ہے اور یہ سب زمانہ کے تنوعات اور تغیرات اور انقلابات ہیں جو کواکب اور نجوم کی تاثیر سے اور بقول جدید فلاسفہ مادہ اور ایتھر کی تدریجی حرکت سے ظہور میں آرہے ہیں اور یہ دیوانہ ان تمام تغیرات اور تنوعات کو خدا کی طرف نسبت کرتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا تیسرا جواب موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ یہ شخص تو کواکب اور نجوم کی تاثیر پر شیدا اور فریفتہ ہے اور کواکب اور نجوم کی حرکات کو تغیرات عالم کی علت سمجھتا ہے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے مقابلہ میں اب تیسری حجت پیش کی کہ رب العالمین وہ ہے کہ جو رب ہے مشرق کا اور مغرب کا اور ان کے تمام درمیانی چیزوں کا یعنی رب العالمین وہ ہے کہ جو مشرق اور مغرب کا مالک ہے اور طلوع اور غروب کا انتظام اس کے ہاتھ میں ہے۔ طلوع آفتاب اور غروب سب اس قادر حکیم کی تقدیر محکم سے ہے جس سے عالم کا نظام قائم ہے۔ نادان سے نادان بھی ان حوادث یومیہ کو قدیم بالعرض اور قدیم بالزمان کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا اگر تمہیں کچھ عقل ہے تو سمجھ لو کہ یہ فرعون جو مدعی ربوبیت بنا ہوا ہے ایک محدود خطہ زمین کا فرما نروا ہے جس کا حکم مدین میں بھی نہ چلتا ہو یہ کیسے رب ہوسکتا ہے۔ رب العالمین تو وہ ہے کہ جس کے حکم سے سورج مشرق سے نکلتا ہے اور مغرب میں غروب ہوتا ہے۔ اگر یہ فرعون اپنے دعوائے ربوبیت میں سچا ہے تو اسکا عکس کر کے دکھلا دے یا کم از کم طلوع اور غروب کے موجودہ نظام میں کچھ تغیر و تبدل ہی کر کے دکھلا دے عقل کی بات تو یہ ہے جو میں کہہ رہا ہوں اور تم ایسے بےعقل اور جاہل ہو کہ بتلانے اور سمجھانے سے بھی نہیں سمجھتے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون کے مقابلہ میں یہ جواب ایسا ہے جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے نمرود کے جواب میں یہ فرمایا تھا۔ فان اللہ یاتی بالشمس من المشرق فات بھا من المغرب فبھت الذی کفر۔ جدید فلسفہ یہ کہتا ہے کہ عالم کے انقلاب اور تغیرات مادہ کے ذرات بسیطہ کی دائمی حرکت اور باہمی امتزاج کے سبب سے نمودار ہوتے ہیں۔ یہ قول بھی فرعون کے قول سے ملتا جلتا ہے دونوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ فرعون کی حیرانی اور پریشانی اور مغرورانہ اور ظالمانہ تہدید فرعون موسیٰ (علیہ السلام) کا جواب سن کر حیران اور دنگ رہ گیا اور گھبرا اٹھا اور دیکھا کہ میں اس حجت اور برہان کے جواب سے بالکل عاجز ہوں تو اپنی سلطنت کے زعم میں موسیٰ (علیہ السلام) کو دھمکانا شروع کیا اور یہ گمان نہ کیا کہ اس مغرورانہ تہدید سے معجزات قاہرات کے ظہور کا دروازہ کھلے گا اس لیے فرعون جب حضرت موسیٰ کی حجت قاہرہ کے جواب سے ناامید ہوا تو بولا کہ اے موسیٰ اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود ٹھہرایا تو میں تجھ کو قیدیوں میں سے بنا دوں گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کو خدائی جیل خانہ (جہنم) سے ڈراتے تھے اس لیے فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے قید خانہ سے ڈرایا۔ فرعون کا جیل خانہ قتل سے بھی بدتر تھا۔ فرعون نے ایک تنگ و تاریک جیل خانہ بنایا تھا کہ جو اس میں ڈالا جاتا تھا وہ وہیں مرجاتا تھا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی کنوئیں میں قیدیوں کو ڈال کر اوپر سے منہ بند کردیتے تھے یہاں تک کہ وہ اس میں مرجاتے جیسا کہ ہندو راجاؤں کے عہد میں دستور تھا فرعون کا یہ جیل خانہ قتل سے بھی بدتر تھا۔ فرعون جب موسیٰ (علیہ السلام) کی بات کے جواب سے عاجز ہوا تو دھمکیوں پر اتر آیا۔ چو حجت نماند جفا جوئے را بہ پر خاش برہم کشد روئے را جیل خانہ کی دھمکی سے فرعون کا مقصد اپنی ربوبیت کی دلیل بیان کرنا ہے کہ چونکہ میں جیل خانہ میں ڈالنے پر قادر ہوں اس لیے میں تمہارا خدا اور رب اعلیٰ ہوں۔ سبحان اللہ کیا دلیل ہے جیل خانہ سے الوہیت اور ربوبیت تو ثابت نہیں ہوسکتی البتہ جہالت اور حماقت خوب ثابت ہوجاتی ہے جب فرعون نے موسیٰ علی السلام کو اس طرح دھمکایا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے نرمی سے فرمایا کہ دلائل ربوبیت تو آپ نے سن لیے۔ اب دلائل رسالت سنئیے اور اپنے اس فیصلہ میں ذرا جلدی نہ کیجئے کیا آپ مجھے جیل خانہ میں ڈال دیں گے اگرچہ میں تیرے پاس ایسی واضح اور روشن چیز لیکر آیا ہوں جس سے صاف طور پر میری صداقت ظاہر ہوجائے اور رب العالمین کی ربوبیت اور الوہیت ظاہر ہوجائے تو کیا پھر بھی تیرا یہی فیصلہ رہے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں نرمی برتی اور باگ ڈھیلی چھوڑ دی تاکہ الوہیت اور ربوبیت کے مسئلہ کے بعد نبوت و رسالت کے مسئلہ میں مکالمہ اور مناظرہ کا دروازہ کھلے اور پہلے مسئلہ کی طرح دوسرے مسئلہ میں بھی وہ حجت اور برہان سے مغلوب اور مقہور ہوجائے اور کم از کم دل سے ماننے پر تو مجبور ہوجائے اس لیے فرمایا۔ او لو جئتک بشی مبین۔ اس جواب کے بعد یعنی کیا اگر میں اپنی رسالت کی کوئی روشن دلیل تیرے سامنے پیش کروں تو کیا تو میری رسالت کو قبول کرے گا۔ فرعون شرما کر بولا کہ اچھا وہ روشن دلیل لا اگر تو سچوں میں سے ہے اگر روشن دلیل سے تیری صداقت ظاہر ہوجائے تو ہم تجھے قید نہیں کریں گے پس موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی نبوت اور صداقت ثابت کرنے کے لیے دو معجزے دکھلائے ایک معجزہ عصا اور دوسرا کرشمہ ید بیضا۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا۔ پس وہ ڈالتے ہی صاف اور صریح اژدہا تھا۔ یعنی حقیقتہ اور بلاشبہ اژدہا بن گیا جب وہ عصا سانپ بن کر لہرانے لگا فرعون اور تمام درباری حواس باختہ ہو کر بھاگ اٹھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ پیشاب پاخانہ بھی خطا ہوگیا۔ دعوائے خدائی کی ساری قلعی کھل گئی موسیٰ نے ازراہ تلطف اپنے عصا کو زمین سے اٹھا لیا تو وہ پہلے کی طرح پھر عصا ہوگیا۔ اس کے بعد جب ہوش و حواس کچھ واپس آئے تو بولا کیا اس کے سوا اور بھی کوئی معجزہ ہے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے دوسرا معجزہ دکھلایا جس کا آئندہ آیت میں ذکر ہے چناچہ فرماتے ہیں اور بعد ازاں موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو ایک دوسرا معجزہ دکھلایا کہ اپنا ہاتھ بغل کے نیچے سے نکالا تو ناگاہ وہ سپید اور روشن تھا دیکھنے والوں کے لئے جس کو سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ آفتاب اور ماہتاب کی طرح روشن ہے۔ فرعون اور اس کے درباری یہ دونوں مجزے دیکھ کر دم بخو رہ گئے۔ معجزہ عصا اہل کفر اور اہل معصیت کی تنبیہ کے لئے تھا کہ مرنے کے بعد قبر میں کافروں کو اژدہا ڈسے گا اور معجزہ یدبیضا سینہ موسوی کی نورانیت کا نمونہ اور کرشمہ دکھلانے کے لیے تھا مگر مشکل یہ ہے کہ جس کے دل کی آنکھ اندھی ہو اس کو آفتاب کی روشنی کس طرح دکھائی دے۔ معجزہ عصا، معجزہ قہر تھا اور معجزہ یدبیضا معجزہ نور اور معجزہ مہر تھا۔ لم یجعل اللہ لہ نورا فما لہ من نور۔
Top