Maarif-ul-Quran - An-Naml : 54
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم اَتَاْتُوْنَ : کیا تم آگئے (اتر آئے) ہو الْفَاحِشَةَ : بےحیائی وَاَنْتُمْ : اور تم تُبْصِرُوْنَ : دیکھتے ہو
اور لوط کو (یاد کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم بےحیائی (کے کام) کیوں کرتے ہو اور تم دیکھتے ہو
قصہء پنجم حضرت لوط (علیہ السلام) با قوم اور قال اللہ تعالیٰ ۔ ولوطا اذ قال لقومہ۔۔۔ الی۔۔۔ فساء مطر المنذرین۔ (ربط) حضرت صالح (علیہ السلام) کے قصہ کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کا قصہ ذکر کرتے ہیں کہ ان کی قوم بھی اپنے ارادہ میں کامیاب نہ ہوئی اور ناگہانی عذاب ان پر نازل ہوا جس سے سب ہلاک ہوگئے۔ لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو عذاب الٰہی سے ڈرایا۔ جب باز نہ آئے تو ہلاک کر دئیے گئے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور اے نبی آپ ﷺ لوگوں کے سامنے لوط (علیہ السلام) کا واقعہ ذکر کیجئے جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ کیا تم بےحیائی کے کام کرتے ہو حالانکہ تم اس بےحیائی کے کام کے وقت ایک دوسرے کو دیکھتے جاتے ہو۔ یہ بےحیائی کی حد ہے کہ کھلم کھلا ایک دوسرے کے سامنے اغلام اور لواطت کرتے ہو اور ذرا شرماتے نہیں۔ کیا تم ازراہ شہوت عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو۔ جو سراسر عقل اور فطرت کے خلاف ہے جس کی قباحت اور خباثت میں کوئی شبہ نہیں۔ بلکہ تم جاہل قوم ہو۔ تم کو لذت کی حقیقت بھی معلوم نہیں۔ عورت سے جماع کرتے وقت رحم منی کو جذب کرتا ہے جو باعث لذت ہوتا ہے لواطت میں یہ انجذابی کیفیت نہیں ہوتی بلکہ محل نجاست ہونے کی وجہ سے موجب نفرت وکراہت ہے۔ پس کچھ نہیں تھا ان کی قوم کا جواب سوائے اس قول کے کہ نکال دو لوط کے کنبہ کو اس بستی سے یہ لوگ بہت پاک بنتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ محل نجاست میں قضا حاجت کرنا طہارت اور نظافت کے خلاف ہے اور اپنے آپ کو پاکیزہ جانتے ہیں اور ہم کو ناپاک سمجھتے ہیں۔ پس ہم نے بھی اس بستی کی تطہیر کا ارادہ کرلیا کہ لوط کو اور ان کے متعلقین کو اس بستی سے نکال لیا سوائے ان کی بیوی کے کہ جس کے لئے ہم نے مقدر کردیا تھا کہ وہ ان باقی رہنے والوں میں سے ہے جو عذاب میں مبتلا ہوئے اور ہم نے اس قوم پر ایک خاص قسم کی بارش برسائی یعنی ان پر پتھر برسائے پس بہت بری بارش ہوئی ان لوگوں پر جن کو نزول عذاب سے ڈرایا گیا۔ مگر انہوں نے اپنی جہالت اور بےعقلی کی وجہ سے نبی کے ڈرانے کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کردیا۔ شروع سورت سے لے کر یہاں تک نبوت و رسالت اور دلائل نبوت اور براہین رسالت یعنی معجزات بحث تھی۔ اب آگے الوہیت اور وحدانیت کی بحث ہے جس میں نہایت اختصار کے ساتھ دلائل توحید کو بیان کیا گیا ہے۔ خاتمہء قصص برحمد وشکر بر ہلاکت اعداء الئام وسلام بر برگزید گان خداوند نام قال اللہ تعالیٰ قل الحمد للہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی اللہ خیر اما یشرکون۔ یہاں تک اللہ تعالیٰ نے انبیاء ومرسلین کے دشمنوں کی ہلاکت اور بربادی کے چند واقعات ذکر کئے اب یہ حکم دیتے ہیں کہ اے مسلمانو ! تم خدا کا شکر کرو کہ کفار اور مشرکین ہلاک اور برباد ہوئے خدا کے نافرمانوں کی ہلاکت اور بربادی اور اہل حق کی فتح ونصرت حق جل شانہ کی ایک عظیم نعمت ہے جس کا شکر واجب ہے اور سلام بھیجو خدا کے ان برگزیدہ بندوں پر جن کو اللہ نے عزت دی اور دشمنوں کے مقابلہ میں ان کو کامیاب فرمایا یہ لوگ اس قابل ہیں کہ ان پر سلام بھیجا جائے اور چونکہ یہ لوگ کفر اور شرک کی بنا پر ہلاک ہوئے اس لئے آئندہ آیات میں انواع و اقسام کے دلائل توحید بیان کرتے ہیں۔ دیکھو صاوی ص 301 ج 3۔ اس سورت کے نصف اول میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کے قصے ذکر فرمائے اب اس کے بعد نصف دوم میں دعوت وتبلیغ کا طریقہ اور دلائل توحید اور مبداء اور معاد کو بیان کرتے ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں اے نبی جب یہ واقعات آپ ﷺ نے بیان کر دئیے اور ان کو سنا دئیے تو کہئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے اپنی قدرت سے کافروں کا قصہ تمام کیا اور اللہ کے ان بندوں پر سلام ہو جن کو اس نے منتخب کیا یعنی انبیا کرام پر اور ان کے اصحاب پر جن کی بدولت یہ گندگی اور نجاست دور ہوئی۔ ان واقعات میں غور کر کے بتلاؤ کہ کیا وہ خدا بہتر جس کی قدرت کا یہ حال یا وہ چیزیں بہتر ہیں جن کو تم الوہیت میں خدا کا شریک ٹھہراتے ہو یعنی ظاہر ہے کہ قادر مطلق بلاشبہ عاجز مطلق سے بہتر ہے پس اس عقلی دلیل سے بھی یہی ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی مستحق عبادت ہے اب آئندہ آیات میں چند کمالات قدرت کی تفصیل بیان کرتے ہیں کہ مشرکین ان میں غور کر کے بتلائیں کہ اللہ بہتر ہے یا یہ بت بہتر ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس سورت میں قوم ثمود اور قوم لوط کے ہلاکت کا ذکر کر کے ارشاد فرماتے ہیں۔ اے پیغمبر آپ ﷺ کہدیجئے کہ اللہ دونوں جہان کی سلامتی ان لوگوں کو دیتا ہے کہ جو اس کی بارگاہ میں برگزیدہ اور پسندیدہ ہیں اور اس اصطفا اور برگزیدگی کے مدارج اور مراتب ہیں۔ مرتبہ اعلیٰ انبیا ومرسلین کی برگزیدگی کا ہے بعد ازاں ان مسلمانوں کی برگزیدگی کا ہے جنہوں نے انبیاء ومرسلین کی مدد اور نصرت کر کے اعلا کلمۃ اللہ کیا اور بالخصوص جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی مدد اور نصرت کی اور اس کا اولین مصداق مہاجرین اولین ہیں پھر انصار کرام اور مہاجرین اولین کے مقابلہ میں وہ اشقیا کفار ہیں جو اعلا کلمۃ الکفر میں ساعی اور کوشاں رہے۔ الغرض اصطفا کے درجات میں اصطفا کا اعلیٰ درجہ حضرات انبیا کرام کے لئے ہے اور دوسرا درجہ صحابہ کرام کے لئے کما قال اللہ تعالیٰ ثم اور ثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا الی اخر الایۃ اس لئے اس قسم کے تمام آیتوں کی تفسیر سلف صالحین نے آنحضرت ﷺ کے اصحاب کے ساتھ کی ہے چناچہ حضرت ابن عباس ؓ اور سفیان ثوری (رح) سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا گیا ہے کہ والسلام علی عبادہ الذین اصطفی سے آنحضرت ﷺ کے اصحاب مراد ہیں۔ (ازالۃ الخفاء ) الحمد للہ کہ انیسیویں پارہ کی تفسیر سے اخیر ذی الحجۃ الحرام 1391 ھ میں فراغت نصیب ہوئی۔ ظللہ الحمد اولا واخرا۔
Top