Maarif-ul-Quran - An-Naml : 7
اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖۤ اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا١ؕ سَاٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ
اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِاَهْلِهٖٓ : اپنے گھر والوں سے اِنِّىْٓ : بیشک میں اٰنَسْتُ : میں نے دیکھی ہے نَارًا : ایک آگ سَاٰتِيْكُمْ : میں ابھی لاتا ہوں مِّنْهَا : اس کی بِخَبَرٍ : کوئی خبر اَوْ اٰتِيْكُمْ : یا لاتا ہوں تمہارے پاس بِشِهَابٍ : شعلہ قَبَسٍ : انگارہ لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَصْطَلُوْنَ : تم سینکو
جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے میں وہاں سے (راستہ کا) پتہ لاتا ہوں یا سلگتا ہوا انگارا تمہارے پاس لاتا ہوں تاکہ تم تاپو
قصہء اول حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قال اللہ تعالیٰ اذ قال موسیٰ لاملہ انی انست نارا۔۔۔ الی۔۔۔ عاقبۃ المفسدین۔ (ربط) اس سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کو بیان فرمایا پھر اس کی تائید کے لئے پانچ قصے بیان فرمائے۔ (1) قصہء موسیٰ (علیہ السلام) با فرعون۔ (2) قصہء داؤد (علیہ السلام) مشتمل بر قصہء نمل چیونٹی جس کو باوجود ایک حقیر جانور ہونے کے اللہ اور اس کے رسول کی معرفت حاصل تھی اور خدا کے رسول کی عصمت اور نزاہت کا یقین کامل تھا کہ وہ دیدہ و دانستہ کسی کے لئے باعث ایذا نہیں بن سکتے۔ (3) قصہء بلقیس بزبان ہد ہد جو سلیمان (علیہ السلام) کے متعدد معجزات پر مشتمل ہے۔ (4) قصہء صالح علیہ السلام۔ (5) قصہء لوط (علیہ السلام) بعدہ چند حکمت اور موعظت کی باتیں بیان فرمائیں۔ اول موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا قصہ سناتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کو رسالت کا منصب عطا فرمایا اور کیسے معجزات قاہرہ ان کو عطا کئے تاکہ ان کی نبوت و رسالت کے دلائل اور براہین عام لوگوں کے سامنے آجائیں تاکہ معلوم ہو کہ مکذبین اور منکرین کا کیا انجام ہوتا ہے اس عبرتناک قصہ کو سن کر ایمان کو تسلی ہوگی اور منکرین اور مکذبین کو عبرت ہوگی۔ چناچہ فرماتے ہیں اے نبی اس وقت کا قصہ ذکر کیجئے کہ جب موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) مدین سے واپس ہوئے اور مصر کی طرف متوجہ ہوئے اور رات کا وقت تھا اور سردی تھی اور بیوی صفوراء بنت شعیب (علیہ السلام) ہمراہ تھیں۔ اور راستہ بھول گئے تھے اس وقت اپنی اہلیہ سے اور ساتھ والوں سے کہا کہ میں نے کوہ طور کی طرف ایک آگ دیکھی ہے ابھی جا کر میں وہاں سے یا تو راستہ کی کوئی خبر اور پتہ لے کر آؤں گا اگر کوئی اس آگ کے قریب ہوا تو اس سے راستہ کی خبر پوچھ لوں گا یا تمہارے پاس آگ کا شعلہ لے کر آؤں گا تاکہ تم اس سے تاپو اور گرمی حاصل کرو۔ پس موسیٰ (علیہ السلام) جب اس آگ کے پاس پہنچے تو من جانب اللہ ان کی ندا کی گئی یعنی آواز دی گئی کہ برکت دیا گیا وہ شخص کہ جو آگ کے مقام پر ہے یا آگ کی تلاش اور طلب میں ہے یعنی موسیٰ (علیہ السلام) اور برکت دیا گیا جو اس آگ کے آس پاس ہے یعنی جو فرشتے اس وقت وہاں آگ کے گردا گرد موجود اور حاضر تھے وہ بھی مبارک ہیں۔ اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ من فی النار۔ سے وہ ملائکہ مراد ہیں جو اس آگ میں جلوہ افروز تھے۔ اور من حولھا۔ سے وہ اشخاص مراد ہیں جو آگ کے اردگرد تھے جن میں موسیٰ (علیہ السلام) بھی داخل تھے۔ اور بعض علمایہ کہتے ہیں کہ من فی النار سے وہ نورانی فرشتے مراد ہیں جو آگ کے اندر جلوہ افروز تھے اور من حولھا سے وہ فرشتے مراد ہیں جو آگ کے قریب تھے اور آگ کے اردگرد تھے اور یہ فرشتے ان فرشتوں سے کم درجہ والے تھے جو خاص اس آگ کے اندر تھے بہر حال جو بھی معنی ہوں مبارک ہو تم کو اور ملائکہ حاضرین کو۔ جیسے فرشتے جب ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس گئے تو من جانب اللہ یہ کہا رحمۃ اللہ وبرکاتہ علیکم اھل البیت۔ یہ فرشتوں کی طرف سے سلام اور تحیہء اکرام تھا اور ابن عباس ؓ اور سعید بن جبیر ؓ اور حسن بصری (رح) سے یہ منقول ہے کہ من فی النار۔ سے اللہ پاک مراد ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا نور اس کی قدرت کا جلوہ مراد ہے اور ایک روایت میں ابن عباس ؓ سے اس طرح آیا ہے کہ وہ آگ درحقیقت آگ نہ تھی بلکہ وہ ایک نور تھا جو آگ کی صورت میں ظاہر ہوا اور اس روایت کی بنا پر آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ باربرکت ہے وہ ذات پاک جو اس آگ میں جلوہ فرما ہے اور جس کا نور اس آگ میں ظاہر ہو رہا ہے یہ نور الٰہی کی ایک تجلی تھی جو اس آگ کے آئینے میں ظاہر ہو رہی تھی جیسے آنکھ کی پتلی میں آسمان کا جلوہ نظر آجاتا ہے اور یہ مطلب نہیں کہ آنکھ میں آسمان سما گیا۔ غرض یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جو دیکھا وہ نور الٰہی کی ایک تجلی تھی جو چمک رہی تھی اور وہ دنیا کی آگ نہ تھی بلکہ ایک نورانی اور غیبی آگ تھی جس میں نور الٰہی ظاہر ہو رہا تھا اور یہ ظاہری آگ نور الٰہی کا ایک حجاب اور ایک پردہ یا آئینہ تھی۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے حجابہ النار۔ اور ظاہر ہے کہ جو چیز کسی آئینہ میں ظاہر ہو وہ اس آئینہ کا عین نہیں ہوتی اور نہ آئینہ اس کا عین ہوتا ہے آئینہ اس چیز کا مظہر ہوتا ہے اور آئینہ میں ظاہر ہونے والی اصل ظاہر کا جلوہ ہوتا ہے اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ من فی النار۔ سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ مراد ہیں تو ممکن تھا کہ کسی نادان کو یہ وہم ہو کہ اللہ تعالیٰ کسی مکان اور کسی چیز میں سمایا ہوا ہے تو آئندہ آیت وسبحان اللہ رب العالمین۔ میں اس کی تنزیہ و تقدیس پر متنبہ فرمایا جس کا مطلب یہ ہے اور اللہ جو جہانوں کا پروردگار ہے وہ مخلوقات کی مشابہت سے اور مکان سے اور سمت سے اور جہت سے اور کسی محل نزول اور حلول کرنے سے پاک اور منزہ ہے۔ اس آگ میں جو کچھ نظر آیا وہ اللہ کے نور کی ایک تجلی تھی جو آگ میں نمودار ہوئی جیسے آفتاب کسی آئینہ میں متجلی ہوسکتا ہے مگر اس میں سما نہیں سکتا اسی طرح سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کسی مخلوق میں متجلی اور جلوہ افروز ہوسکتا ہے مگر اس میں سما نہیں سکتا۔ اس جملہ سے اللہ تعالیٰ نے متنبہ فرمایا کہ کوئی اس آگ کو اللہ کا مکان نہ سمجھے جس میں اس کا نور ظاہر ہو رہا ہے اور محل اور مظہر میں اہل عقل کے نزدیک فر ق ظاہر ہے۔ محل کے معنی مکان کے ہیں جس کے اندر متمکن موجود ہوتا ہے۔ مظہر کے معنی جائے طہور کے ہیں جیسے آئینہ اور ظاہر ہونے والی مظہر (آئینہ) کے اندر موجود نہیں ہوتی بلکہ اس سے باہر ہوتی ہے الحاصل یہ تجلی تھی۔ حلول اور نزول نہ تھا۔ خلاصہء کلام یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ ندا سنی تو کہا کہ یہ ندا کرنے والا کون ہے تو پھر یہ ندا آئی کہ اے موسیٰ تحقیق یہ ندا کرنے والا اور تجھ سے خطاب اور کلام کرنے والا میں ہی ہوں اللہ جو تیرا پروردگار ہوں زبردست حکمتوں والا جس نے یہ ندا کر کے تجھ کو اپنی تکلیم سے عزت بخشی اور تجھ کو اپنانبی اور رسول بنایا اور میرا ارادہ یہ ہے کہ تجھ کو کچھ معجزات بھی عطا کروں جو تمہاری نبوت اور رسالت کی دلیل وبرھان بنیں۔ پس اے موسیٰ (علیہ السلام) تم اپنا عصا زمین پر ڈال دو ۔ حسب الحکم جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اس عصا کو اپنے ہاتھ سے زمین پر ڈال دیا تو وہ سانپ ہوگیا۔ پس جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اس عصا کو سانپ کی ہلتے اور چلتے دیکھا تو ڈر کے مارے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا یہ خوف طبعی اور بشری تھا اس قسم کا خوف نبوت کے منافی نہیں۔ ارشاد ہوا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) کچھ خوف نہ کو کرو ہم نے تم کو پیغمبری دی ہے اور ہمارے حضور میں پیغمبر نہیں ڈرا کرتے ہم نے یہ معجزہ تم کو فرعون کے لئے دیا ہے۔ تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اس قسم کے خوف سے میرے رسول بالکل مامون ہیں م اگر وہ شخص کہ جس نے اپنا جان پر کسی قسم کا ظلم یا زیادتی کی ہو اور اللہ کی نافرمانی کی ہو وہ اگر ڈرے تو اس کا ڈرنا ٹھیک ہے پھر اگر اسی شخص نے برائی اور ظلم اور زیادتی کے بعد اپنی برائی کو نیکی سے بدل لیا ہو یعنی توبہ کرلی ہو تو اس پر بھی کوئی خوف وخطر نہیں۔ بلاشبہ میں بڑا بخشنے والا اور مہربان ہوں توبہ سے اس کا گناہ معاف کردیتا ہوں۔ خلاصہ کلام یہ کہ خدا کے حضور میں اندیشہ صرف اس شخص کو ہے کہ جس نے کسی ظلم وستم یعنی کسی معصیت کا ارتکاب کیا ہو اور اس کے لئے بھی قاعدہ یہ ہے کہ اگر توبہ کرلے تو پھر اس کو خوف اور اندیشہ نہیں رہتا لہٰذا تم کو ڈرنے کی ضرورت نہیں اگر تم سے کوئی خطا بھی ہوئی ہے جس کی بناء پر تم ڈر رہے ہو تو ہم معاف کردیں گے۔ جاننا چاہئے کہ اس آیت یعنی لا یخاف لدی المرسلون۔ میں خوف مواخذہ کی نفی مراد ہے۔ اللہ کی عظمت و جلال کے خوف کی نفی مراد نہیں۔ کما قال اللہ تعالیٰ انما یخشی اللہ من عبادہ العلموء۔ نکتہ : اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا ڈالنے کا حکم اس لئے دیا کہ جب اس کرشمہ قدرت اور خارق عادت کو دیکھیں تو پہچان لیں کہ یہ کلام کرنے والا اور ندا دینے والا رب العالمین ہے۔ ان آیات میں معجزہ عصا کا ذکر فرمایا اب اس کے بعد دوسرے معجزہ کے اظہار کا حکم دیتے ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں اور اے موسیٰ (علیہ السلام) اس معجزہ عصا کے سوا ایک اور بھی معجزہ ہے جو ہم تجھ کو عطا کرتے ہیں وہ یہ کہ تو اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال اور پھر اس کو نکال تو وہ بلا کسی عیب اور بلا کسی مرض کے یعنی بلا برص وغیرہ کے نہایت سفید اور روشن ہو کر ن کے گا چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا کہ اپنا ہاتھ بغل کے نیچے لے جا کر نکالا تو نہایت دلکش نور کے ساتھ ظاہر ہوا کہ آنکھوں کو اپنی طرف جذب کرتا تھا اور خوب لہلہاتا تھا آفتاب کی روشنی اگرچہ بہت تیز ہے مگر گرم ہے آنکھوں کو چندھیانے والی ہے کچھ دلچسپ نہیں اور ماہتاب کی روشنی اگرچہ ناگوار نہیں مگر اس میں ملاحت اور دلکشی نہیں۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) ان دونوں نشانیوں کو من جملہ نو نشانیوں کے جو ہم نے تجھ کو عطا کی ہیں ان کو لے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف لے جا یہ نشانات دیکھ کر تجھ کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا جاتا ہے۔ بلاشبہ وہ بڑے ہی بدکار لوگ تھے۔ اور حد سے نکل گئے تھے نو نشانیوں کا بیان سورة بنی اسماعیل کی آیت ولقد اتینا موسیٰ تسع ایات بینات۔ کے تحت گزر چکا ہے اور ان کی تفصیل سورة اعراف میں گزر چکی ہے دو نشانیاں تو یہ ہوئیں۔ عصا اور ید بیضا۔ تیسری انفلاق بحر۔ دریا کا پھٹ جانا۔ چوتھی طوفان۔ پانچویں جراد یعنی ٹڈی چھٹی قمل یعنی چچڑیاں۔ ساتویں ضفادع یعنی مینڈک۔ آٹھویں دم یعنی خون۔ نویں طمس اموال کما قال اللہ تعالیٰ ربنا اطمس علی اموالہم۔ دسویں جذب یعنی خشک سالی۔ گیا رھویں نقصان اثمار و مزارع جن کا بیان سورة اعراف میں گزر چکا ہے۔ پس جب اس قوم کے پاس ہماری نشانیاں پہنچیں جس سے آنکھیں کھل جائیں تو بولے یہ تو کھلا جادو ہے اللہ تعالیٰ نے ابتدا دعوت میں موسیٰ (علیہ السلام) کو دو معجزے عطا فرمائے پھر وقتا فوقتا اور معجزات دئیے مگر ان معاندین نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے اور ان لوگوں نے ازراہ ظلم وتکبر زبان سے ان معجزات کا انکار کیا لیکن ان کے دلوں نے اس بات کو یقین کرلیا کہ یہ نشانیاں اللہ کی طرف سے ہیں جادو نہیں یعنی فرعون کو اور اس کی قوم کو دل سے یقین کامل ہوگیا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور جادوگر نہیں مگر محض عناد اور سرکشی کی بنا پر انکار کرتے تھے۔ پس دیکھ لے کہ ان مفسدوں کا انجام کیا برا ہوا کہ سب بحر قلزم میں غرق ہوئے اور ساری سرکشی خاک میں مل گئی اور دنیا کا جاہ و جلال اور مال ومنال سب ختم ہوا۔ متکبرین کو چاہئے کہ اس قصہ سے عبرت پکڑیں۔
Top