Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 29
فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَ سَارَ بِاَهْلِهٖۤ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا١ۚ قَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْۤ اٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب قَضٰى : پوری کردی مُوْسَى : موسیٰ الْاَجَلَ : مدت وَسَارَ : اور چلا وہ بِاَهْلِهٖٓ : ساتھ اپنے گھروالی اٰنَسَ : اس نے دیکھی مِنْ : سے جَانِبِ : طرف الطُّوْرِ : کوہ طور نَارًا : ایک آگ قَالَ : اس نے کہا لِاَهْلِهِ : اپنے گھر والوں سے امْكُثُوْٓا : تم ٹھہرو اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ : بیشک میں نے دیکھی نَارًا : آگ لَّعَلِّيْٓ : شاید میں اٰتِيْكُمْ : میں لاؤں تمہارے لیے مِّنْهَا : اس سے بِخَبَرٍ : کوئی خبر اَوْ جَذْوَةٍ : یا چنگاری مِّنَ النَّارِ : آگ سے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَصْطَلُوْنَ : آگ تاپو
جب موسیٰ نے مدت پوری کردی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلے تو طور کی طرف سے آگ دکھائی دی تو اپنے گھر والوں سے کہنے لگے کہ (تم یہاں) ٹھہرو مجھے آگ نظر آئی ہے شاید میں وہاں سے (راستہ کا) کچھ پتہ لاؤں یا آگ کا انگارہ لے آؤں تاکہ تم تاپو
قال اللہ تعالیٰ فلما قضی موسیٰ الاجل وسار باھلہ الی۔۔۔ ویوم القیمۃ ہم من المقبوحین۔ الغرض جب موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس رہ کر پوری مدت گزار دی یعنی دس برس تک بکریاں چرائیں اور دس برس تک ایک نبی کی صحبت میں رہے اور مجاہدہ اور ریاضت اور باطنی تربیت کی منزلیں طے ہوگئیں اور چالیس سال کی سن کو پہنچے اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کی اجازت سے اپنی زوجہ اور اہل خانہ کو لے کر مدین سے مصر کی طرف روانہ ہوئے تاکہ اہل قرابت سے جا کر ملیں اور طور کے آس پاس پہنچے۔ رات کا وقت تھا اندھیری چھائی ہوئی تھی اور سخت سردی تھی۔ اتفاق سے راہ بھٹک گئے ایسے وقت میں طبعا آگ کی تلاش ہوتی ہے۔ کوہ طور کی جانب سے ایک آگ دیکھی جو حقیقت میں ایک نور تھا۔ شکل آگ کی تھی اس لئے کہ آدمی کی طبیعت اپنی مرغوب چیزوں کی طرف مائل ہوتی ہے اور اس وقت جاڑے کی شدت کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کو آگ کی ضرورت تھی اس لئے یہ تجلی نور بلباس ناری واقع ہوئی اور وہ نور ایک آگ کی صورت میں نمودار ہوا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گھر والوں سے جو اس وقت ان کے ساتھ تھے کہا ذرا یہیں ٹھہرو میں نے ایک آگ دیکھی ہے اس کی طرف جاتا ہوں۔ شاید وہاں سے تمہارے واسطے راستہ کی کچھ خبر لے کر آؤں۔ شاید وہاں کوئی مل جائے تو اس سے راستہ دریافت کر لاؤں اور آگ بھی لے آؤں۔ شاید وہاں کوئی مل جائے تو اس سے راستہ دریافت کر لاؤں اور آگ بھی لے آؤں یا کم از کم آگ کا کوئی انگارا ہی لے آؤں تاکہ تم اس سے سینکو اور گرمی حاصل کرو یعنی اگر کوئی راستہ بتلانے والا نہ ملے تو یہی فائدہ حاصل ہوگا کہ ذرا سی آگ ہی مل جائے گی۔ سو جب موسیٰ (علیہ السلام) اس آگ کے پاس پہنچے تو اس میدان کی داہنی جانب سے برکت والی جگہ میں درخت سے یہ آواز آئی اے موسیٰ یہ آواز دینے والا میں ہی ہوں اللہ سارے جہانوں کا رب۔ یعنی اے موسیٰ یہ آگ جو تو دیکھ رہا ہے یہ درحقیقت میری ایک تجلی ہے اور میرے نور کا جلوہ ہے اور یہ آواز جو تو سن رہا ہے وہ میرے بےچون و بےچگون کلام کا ایک پردہ اور لباس ہے اور یہ درخت اور یہ مکان اور یہ چھت اور سمت جہاں سے تو یہ آواز سن رہا ہے وہ میری ذات مقدس کا محل اور مکان نہیں بلکہ ایک میری تجلی گاہ ہے میری ذات اور میرا کلام جہت اور سمت سے منزہ ہے اور جس مکان اور جہت سے تو میرا کلام سن رہا ہے وہ تیرے سماع کے لئے ہے نہ کہ میرے کلام کے لئے۔ اس لئے علماء اہل سنت وجماعت کہتے ہیں کہ کلام قدیم جو اللہ کی صفت ہے۔ اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے وہ بےچون اور بےچگون ہے اس میں حرف اور آواز نہیں مگر بندہ چونکہ چونی اور چگونی کا گرفتار ہے اس لئے وہ بےچون اور بےچگون کو چون اور چگون کے پردہ ہی سے سن سکتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک خاص صورت میں نمودار اور جلوہ افروز ہوگا ایک مرتبہ اہل ایمان اللہ کو نہیں پہچان سکیں گے۔ دوسری مرتبہ جب دوسری صورت میں نمودار ہوگا تب اہل ایمان پہچانیں گے کہ یہ ہمارا پروردگار ہے سو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ تو صورت اور شکل سے پاک اور منزہ ہے اور یہ صورت جس کو اہل ایمان دیکھ کر اپنے خدا کو پہچانیں گے یہ خداوند بےچون وچگون کا ایک جلوہ اور پردہ ہوگا اور یہ ظاہر ہونے والی صورت بمنزلہ آئینہ کے ہوگی جس کے ذریعہ اہل ایمان خدا تعالیٰ کا جلوہ دیکھ سکیں گے اور یہ مطلب نہیں کہ وہ صورت بعینہ خدا تعالیٰ کی صورت ہوگی پس جس طرح ذات خداوندی نہ جسم ہے اور نہ عرض ہے اور اس کے لئے نہ کوئی صورت ہے اور نہ کوئی شکل ہے مگر قیامت کے دن اور جنت میں اس کو دیکھا جائے گا لیکن اس کا دیدار کسی صورت کے پردہ سے ہوگا تاکہ بندہ اس کا تحمل کرسکے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے کلام کو سمجھو کہ وہ بےچون وب چگون ہے اور بغیر حرف اور بغیر آواز کے ہے۔ البتہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جو درخت سے سنا وہ بیشک حرف اور آواز کو سنا لیکن وہ حرف اور آواز کلام قدیم کا ایک لباس تھے اور اس پر دلالت کرنے والے تھے۔ جیسا کہ امام ابو الحسن اشعری (رح) سے منقول ہے۔ دیکھو اتحاف شرح احیاء العلوم ص ج 2۔ جیسے موسیٰ (علیہ السلام) نے جب دور سے آگ کو دیکھا تو درحقیقت وہ آگ نہ تھی بلکہ نور قدیم کی ایک تجلی تھی جو آگ کے لباس میں ظاہر ہوئی جس کے موسیٰ (علیہ السلام) طالب تھے۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اس آواز کو سن کر جان لیا کہ یہ اللہ کا کلام ہے کیونکہ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کو وحی رحمانی اور وحی شیطانی میں ذرہ برا بر اشتباہ اور التباس نہیں ہوتا اور یہ بھی آواز آئی کہ اے موسیٰ اپنا عصا زمین پر ڈال دو ۔ اول اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے کلام اور پیغام سے سرفراز فرمایا اور منصب نبوت و رسالت پر فائز کیا اب اس کے بعد ان کو دلائل نبوت اور براہین رسالت عطا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے موسیٰ اپنا عصا زمین پر ڈال دو دیکھو تو سہی کیا ہوتا ہے چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے وہ عصا زمین پر ڈال دیا پس جب موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا تو آواز آئی کہ اے موسیٰ سامنے آؤ اور ڈرو مت تحقیق تو امن والوں میں سے ہے تمہیں اس اژدہا سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ دشمن کو ڈرانے کے لئے یہ معجزۂ تخویف عطا کیا گیا جو بصورت قہر اور عذاب دیا گیا۔ تمہارے ڈرانے کے لئے نہیں دیا گیا بلکہ دشمن کو ڈرانے کے لئے ہے یہ سنتے ہی موسیٰ (علیہ السلام) کا طبعی اور بشری خوف یکلخت دور ہوگیا اور دوسرا معجزہ۔ معجزۂ تنویر عطا ہوا کہ جس سے نور ظاہر ہوتا تھا وہ یہ کہ اے موسیٰ اپنا ہاتھ گریبان میں لے جا وہ بغیر کسی عیب کے روشن ہو کر نکلے گا گویا کہ یہ معجزہ موسیٰ (علیہ السلام) کے قلب منور کی نورانیت کا ایک نمونہ ہوگا اور یہ دیکھ کر اگر تم پر خوف طاری ہونے لگے تو خوف کے رفع کرنے کے لئے اپنا ہاتھ سمیٹ لو یعنی گریبان میں ڈال لو۔ ہاتھ پھر بدستور اپنی صورت پر آجائے گا اور کوئی خوف نہ باقی نہ رہے گا پس یہ دونوں چیزیں یعنی عصا اور ید بیضا تیری نبوت و رسالت کی دو روشن دلیلیں ہیں اور دو نشانیاں ہیں جو تجھ کو تیرے رب کی طرف سے عطا کی گئیں ہیں۔ عصا سے معصیت کی طرف اشارہ ہے اور ید بیضاء سے نور طاعت کی طرف اشارہ ہے اور ایسے نشان سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی نہیں دے سکتا۔ جس طرح یہ دونوں چیزیں بلاشبہ تیرے پروردگار کی طرف سے ہیں اسی طرح وہ کلام اور پیغام جو تو نے درخت کے اندر سے سنا وہ میرا ہی کلام اور پیام ہے اور جو آگ تو نے دیکھی وہ میرے ہی نور کی ایک تجلی تھی جو تجھ کو بصورت نار دکھلائی گئی چونکہ اس وقت تیرا مطلوب آگ تھی اس لئے آگ ہی کے لباس میں تجھ کو اپنا جلوہ دکھلایا۔ غرض یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس مقام پر دو معجزے عطا ہوئے۔ پھر حکم ہوا کہ فرعون اور اس کے امراء کی طرف جاؤ اور ان کو عصا کے ذریعہ اللہ کی معصیت سے ڈراؤ اور یدبیضاء کے ذریعہ طاعت کی نورانیت کی طرف بلاؤ۔ تحقیق یہ بڑے ہی بدکار گروہ ہیں جوا وامر اور نواہی کی حدود سے باہر نکل گئے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے پروردگار میں تعمیل حکم کے لئے حاضر ہوں بمقتضائے بشریت ضعیف اور ناتواں ہوں تیری اعانت اور امداد کا محتاج ہوں اے پروردگار آپ کو معلوم ہے کہ فرعون ملک مصر پر قاہر اور غالب ہے اور بڑا ظالم اور جابر ہے میں نے ان میں کا ایک آدمی مار ڈالا تھا اسی خوف کے مارے میں وہاں سے بھاگ کر مدین آیا تھا اب مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے دیکھتے ہی نہ قتل کر ڈالیں تو ایسی صورت میں آپ کا پیغام اس کو کیسے پہنچا سکوں گا۔ دعوت اور تبلیغ سے پہلے ہی میرا کام تمام ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تسلی کردی کہ ہرگز ایسا نہ ہوگا جیسا کہ سورة طہ میں گزرا اور دوسری بات یہ ہے کہ میری زبان میں کچھ لکنت ہے شاید میں پیغام رسالت میں بات کو پوری طرح واضح نہ کرسکوں اور میرا بھائی ہارون فصاحت لسانی اور حسن تعبیر اور خوبی بیان میں مجھ سے بڑھ کر ہے پس اس کو میرا مددگار بنا کر میرے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ وہ حس تقریر اور خوبی تعبیر سے میری میری تصدیق اور تائید کرے تحقیق مجھ کو ڈر ہے کہ وہ لوگ یعنی فرعون اور اس کے درباری میری تکذیب کریں گے اس لئے ضرورت ہے کہ میری دلیل اور برہان کی تقریر اور تفصیل کے لئے ایک فصیح اللسان میرا معین اور مددگار ہو کہ جو فصاحت لسانی سے حق کو ایسا واضح کرے کہ اس میں شک اور شبہ کی گنجائش نہ رہے اور وہ مصدق ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) ہیں معلوم ہوا کہ تصدیق سے یہ مراد نہیں کہ جو کچھ موسیٰ (علیہ السلام) کہیں ہارون (علیہ السلام) اس پر آمنا وصدقنا کہتے جائیں بلکہ تصدیق سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی طاقت لسانی اور فصاحت بیانی سے حجت اور دلیل کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) کی باتوں کی تائید اور توثیق کریں اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا اے موسیٰ ہم تیرے بھائی کے ذریعہ ضرور تیرا بازو قوی کریں گے یعنی اے موسیٰ ہم نے تیری درخواست قبول کی اور تمہارے بھائی کو درباب تبلیغ تمہارا قوت بازو بنائیں گے اور تم دونوں کے لئے ہم ایک خاص غلبہ اور خاص عظمت وہیبت عطا کریں گے پس وہ فرعون والے تم تک نہیں پہنچ سکیں گے قتل تو بڑی بات ہو وہ تمہیں کوئی ایذا اور گزند بھی نہیں پہنچا سکیں گے اور برے ارادے سے تمہارے پاس بھی نہ آسکیں گے ْ پس تم بےفکر ہو کر ہماری نشانیاں لے کر فرعون کے پاس جاؤ اور اس کو حق کی دعوت دو اور مطمئن رہو تم دونوں اور تمہارے پیرو ہی غالب رہیں گے اور وہ تمہیں کوئی ایذا نہیں پہنچا سکیں گے پس جس موسیٰ (علیہ السلام) ہماری کھلی نشانیاں لے کر فرعونیوں کے پاس آئے اور توحید کی دعوت دی تو فرعونیوں نے کہا کہ یہ تو تراشیدہ جادو ہے جسے خواہ مخواہ خدا کی طرف منسوب کردیا گیا ہے یہ سب جادو کی باتیں ہیں جو خود اسی کی اختراع کردہ ہیں اور کہتا ہے کہ خدا نے مجھ کو یہ معجزات دے کر بھیجا ہے اور ہم نے اپنے پچھلے باپ دادوں میں کبھی یہ بات نہیں سنی کہ آسمان و زمین کا اور اس دنیا کا کوئی خالق ہے اور آئندہ چل کر وہ اس جہان کو فنا کر دے گا اور دوبارہ زندہ کر کے حساب لے گا اور نہ کبھی یہ سنا کہ خدا نے کسی کو اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں کہا میرا پروردگار خوب جانتا ہے اس شخص کو جو اس کے پاس سے ہدایت اور دین حق لے کر آیا ہے اور خوب جانتا ہے اس کو جس کا انجام آخرت اچھا ہے میرا یا تیرا مگر خوب یاد رکھو کہ بیشک ظالم لوگ فلاح نہیں پاتے جو شخص اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے گا وہی ظالم ہوگا اور ذلیل و خوار ہوگا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو معلوم ہے کہ میں حق پر ہوں اور تم باطل پر ہو اور تمہارا انجام خراب ہے۔ تم میرے مقابلہ میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے عنقریب تم کو اپنا انجام معلوم ہوجائے گا۔ اور فرعون کو موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ جواب باصواب سن کر یہ اندیشہ ہوا کہ اہل دربار اور ارکان دولت اس شخص کی طرف مائل نہ ہوجائیں تو بغرض تلبیس وتدلیس فرعون بولا اے اشراف قوم یہ شخص کہتا ہے کہ ایک خدا ہے جس نے اس کو رسول بنا کر بھیجا ہے میں تو تمہارے لئے اپنے سوا کسی کو معبود نہیں جانتا مجھے معلوم نہیں کہ میرے سوا بھی کوئی خدا ہے۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ فرعون کی مراد یہ نہ تھی کہ وہ آسمان و زمین کا اور اس جہان کا خالق ہے کیونکہ یہ بات تو ہدایتہ محال ہے جو کسی پر بھی مخفی نہیں اور نہ کوئی ادنیٰ عقل والا اس بات کو مان سکتا ہے کہ فرعون نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ فرعون سرے سے وجود خالق کا قائل نہ تھا وہ دہری تھا اور منکر خدا تھا اس کا خیال یہ تھا کہ افلاک اور نجوم اور کواکب کی حرکات اس عالم سفلی کے تغیرات اور تنوعات اور اختلاف احوال کی علت ہیں اس کے لئے کسی صانع کے اثبات کی حاجت نہیں اس لئے اس نے یہ کہا ما علمت لکم من الہ غیری۔ بہرحال دعوائے الوہیت سے فرعون کا یہ مطلب نہ تھا کہ میں آسمان و زمین کا خالق ہوں بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس عالم کا کوئی خالق اور خدا نہیں جس کی اطاعت واجب ہو۔ ہر خطہ کا فرمانروا ہی اس کا خدا اور معبود اور واجب الاطاعت ہے اور وہ میں ہوں جو تمہارے سامنے موجود ہوں اور موسیٰ (علیہ السلام) جو کہتا ہے کہ کوئی خدا ہے جس نے آسمان اور زمین پیدا کئے سو یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ دیکھو تفسیر کبیر ص 478 ج 6۔ وہ خدا کہاں ہے جو نہ محسوس بحواس ہے اور نہ میرے نزدیک ثابت بعقل ہے۔ فرعون دہری تھا۔ دہر ہی کو مسبب الکل اور علت العلل جانتا تھا اور خالق قدیر اور خدائے عظیم کا قائل نہ تھا اور کہتا تھا کہ خدا ہے ہی نہیں جس کی پرستش کی جائے ہر خطہ کا بادشاہ وہاں کے لوگوں کا خدا ہے اور وہی پرستش اور اطاعت کے لائق ہے اور وہ میں ہوں اور بس لہٰذا مجھ ہی کو اپنا خدا سمجھو اور میری اطاعت کرو۔ پھر اس نے لوگوں کو مغالطہ دینے کے لئے اور موسیٰ (علیہ السلام) کا کذب ظاہر کرنے کے لئے اور موسیٰ (علیہ السلام) کی باتوں کو ہنسی میں اڑانے کے لئے کہا اے ہامان تو میرے لئے گارے پر آگ جلا یعنی پکی اینٹیں بنا اور اسے میرے لئے ایک محل اور بلند عمارت تیار کر کہ میں اس پر چڑھ کر اور آسمان کے قریب ہو کر موسیٰ (علیہ السلام) کے معبود کی طرف جھانکوں کہ اس کا معبود کہاں ہے اور کیسا ہے زمین میں تو مجھے اپنے سوا کوئی معبود دکھائی نہیں دیتا شاید آسمان کی طرف جھانکنے سے موسیٰ (علیہ السلام) کا خدا نظر آجائے ذرا اس کی بھی تحقیق کرلوں تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی بات کا جواب ہوجائے جو یہ کہتا ہے کہ اوپر سے مجھ پر وحی آتی ہے اس لعین کو یہ وہم ہوا کہ اگر آسمان میں کوئی معبود ہوگا تو جسم ہوگا اور اس کی طرف چڑھنا ممکن ہوگا اور بولا کہ تحقیق میں موسیٰ (علیہ السلام) کو جھوٹوں میں سے گمان کرتا ہوں جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آسمان و زمین کا کوئی رب ہے جس نے اس کو رسول بنا کر بھیجا ہے یہ سب غلط ہے وجود صانع پر کوئی دلیل نہیں اگر ہوتی تو مجھے معلوم ہوتی فرعون چونکہ دہری تھا۔ سرے سے صانع عالم کے وجود کا قائل نہ تھا اس لئے وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کا رسول ہونے کا بھی قائل نہ تھا اس لئے اس نے یہ کہا کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو جھوٹا خیال کرتا ہوں کہ خدا نے اس کو رسول بنا کر بھیجا ہے اگر فی الواقع کوئی خدا ہوتا تو اس تک چڑھنا بھی ممکن ہوتا۔ بلند مکان بنانے سے فرعون کی غرض یہ تھی کہ لوگوں پر موسیٰ (علیہ السلام) کا کذب (جھوٹ) ظاہر ہوجائے کہ فرعون کے سوا زمین اور آسمان میں کوئی خدا نہیں جس نے اس کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ (دیکھو تفسیر (ف 1) ابن کثیر ص 390 ج 3) عجیب احمق تھا کہ جب ایک مختصر سی عمارت بلکہ ایک چھپر بھی بغیر کسی معمار اور بانی کے نہیں بن سکتی تو آسمان سے لے کر زمین تک یہ سارا کون ومکان بغیر کسی بانی اور صانع کے خود بخود کیسے بن کر تیار ہوگیا اور یہ کارخانہ عالم خود بخود کیسے چل رہا ہے پھر یہ کہ فرعون طرح طرح کی حاجتوں میں اور قسم قسم کی آفتوں میں گھرا ہوا تھا وہ کیسے خدا ہوسکتا ہے۔ اس احمق نے یہ گمان کیا کہ حق تعالیٰ جسم اور جسمانی ہے اور آسمان اس کا مکان ہے اور اس تک جانا اور پہنچنا ممکن ہے اور اسے یہ معلوم نہ تھا۔ با مکان آفرین مکان چہ کند آسماں گر با آسماں چہ کند نہ مکاں رہ برد برد نہ زماں نہ بیاں زوخبر دہد نہ عیاں 1 قال ابن کثیر قال اللہ تعالیٰ وقال فرعون یاھامان ابن لی صرحا لعلی ابلغ الاسباب اسباب السموات فاطلع الی الہ موسیٰ وانی لاظنہ کا ذبا وذلک ان فرعون بنی ھذا الصرح الذی لم یرفی الدنیا بناء اعلی منہ وانما اراد بھذا ان یظھر لوعیتہ تکذیب موسیٰ فیما زعم من دعوی الہ غیر فرعون ولھذا قال وانی لاظنہ من الکاذبین ای فی قولہ ان ثم ربا غیرہ لا انہ کذبہ فی ان اللہ ارسلہ لانہ لم یکن یعترف بوجود الصانع جل وعلاف نہ قال وما رب العالمین وقال لئن اتخذت الھا غیری لا جعلنک من المسجونین۔ وقال یایھا الملا ما علمت لکم من الہ غیر وھذا قول ابن جریر۔ تفسیر ابن کثیر ص 390 ج 3۔ فرعون کی ان بےسروپا باتوں سے صانع عالم کی نفی تو ثابت نہیں البتہ اس کی غباوت اور حماقت اور جہالت خوب ثابت ہوگئی۔ غرض یہ کہ فرعون نے اس طرح ایک بلند عمارت بنوائی جب وہ محل بن چکا تو فرعون اس کی چھت پر چڑھا اس کے خیال میں یہ تھا کہ آسمان کے نزدیک پہنچ جائے گا جب اس نے دیکھا کہ آسمان تو اتنا ہی دور ہے جتنا پہلے دیکھا تھا تو شرمندہ ہو کر بولا کہ ایک تیر آسمان کی طرف مارو لوگوں نے تیر مارا اوپر سے وہ تیر خون میں بھرا ہوا واپس آیا تو فرعون بولا کہ میں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو مار دیا۔ غضب الٰہی سے وہ عمارت تین ٹکڑے ہو کر گر پڑی جس سے بہت سے آدمی تباہ ہوگئے۔ دیکھو زاد المسیر لابن الجوزی ص 223 ج 6۔ فرعون یہ باتیں دیکھ کر ناامید ہوگیا اور سمجھ گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) حق پر ہیں مگر ظاہر داری اور بھرم بندی کے لئے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے چکنی چپڑی باتیں کرتا رہا۔ نکتہ : سلیمان (علیہ السلام) نے بلقیس کے امتحان کے لئے اپنے محل میں شیشہ کا ایک حوض بنوایا اور اس میں طرح طرح کی مچھلیاں ڈال دیں اور اوپر سے شیشہ پاٹ دیا اور بلقیس کو کہا کہ اندر آجاؤ۔ بلقیس نے یہ سمجھ کر کہ یہ سب پانی بھرا ہوا ہے اپنے پائنچے اٹھا لیے۔ سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ شیشہ کا فرش ہے۔ پانی نہیں یہ دیکھ کر بلقیس ایمان لے آئی تو بلقیس کے لئے یہ صرح ممرد من قواریر موجب ہدایت ہوگیا اور فرعون نے جو صرح من طین بنوایا تھا وہ اس کے لئے مزید گمراہی اور تکبر اور عناد کا سبب ہوگیا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اور فرعون نے اور اس کے لشکروں نے بڑا ہی تکبر کیا۔ اور دعویٰ الوہیت کا کیا۔ حالانکہ زمین میں رہتے تھے اور پستی اور ذلت و خواری میں گھرے ہوئے تھے اور ناحق سر اٹھایا اور بلاوجہ اپنے آپ کو بڑا سمجھا۔ اور دعویٰ خدائی کا کیا اور یہ گمان کر بیٹھے کہ اب ہمارے پاس لوٹ کر آنا نہیں۔ غرض یہ کہ فرعون نے تکبر کیا اور دعویٰ الوہیت کا کیا اور حشر ونشر اور قیامت کا بی منکر ہوا۔ اور اس کی قوم نے بھی اس کو قبول کیا اور ہماری کوئی پرواہ نہ کی پس ہم نے پکڑا فرعون کو اور اس کے لشکروں کو اور اپنی قدرت کی مٹھی میں لے کر سب کو دریا میں پھینک دیا۔ سب غرق ہوگئے اور ان کا تکبر بھی غرق ہوگیا سو دیکھ لو کہ کیا انجام ہوا ظالموں کا اور دیکھ لو کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ کہا ہوا من تکون لہ عاقبۃ الدار انہ لا یفلح الظالمون۔ کس طرح آنکھوں کے سامنے آگیا۔ اور ان لوگوں کو ہم نے اس جہان میں کفر اور ضلالت کا پیشوا بنایا کہ لوگوں کو آگ کی طرف بلاتے ہیں یعنی کفر اور معصیت کی طرف بلاتے ہیں اسی طرح اس جہان میں بھی ان کو دوزخیوں کا امام بنائیں گے کہ یہ آگے آگے ہوں گے اور دوسرے دوزخی ان کے پیچھے پیچھے ہوں گے یقدم قومہ یوم القیامۃ فاوردہم النار وبئس الورد المورود۔ اور قیامت کے دن کوئی مدد نہیں دئیے جائیں گے وہاں کوئی لشکر نہ ہوگا ہر ایک بےکس اور بےبس ہوگا اور کوئی ان کو عذاب سے نہیں بچا سکے گا اور ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لگا دی ہے لعنت اور پھٹکار۔ قیامت تک فرعون اور اس کے رؤسا گرفتار لعنت رہیں گے اور قیامت کے دن تو وہ بہت ہی بروں میں سے ہوں گے جس برائی اور خرابی کی کوئی حد نہیں۔ اللہ پناہ میں رکھے۔ حاصل کلام یہ کہ بارگاہ خداوندی میں بجائے سرافگندگی کے تکبر اور غرور اور حضرت انبیاء کرام کی تکذیب اور عداوت کا انجام عذاب اور لعنت ہے۔
Top