Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 51
وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَؕ
وَلَقَدْ وَصَّلْنَا : اور البتہ ہم نے مسلسل بھیجا لَهُمُ : ان کے لیے الْقَوْلَ : (اپنا) کلام لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم پے درپے ان لوگوں کے پاس (ہدایت کی) باتیں بھیجتے رہے ہیں تاکہ نصیحت پکڑیں
بیان حکمت درتکریر موعظت ومدح مومنین اہل کتاب وپیران حق وصواب قال اللہ تعالیٰ ولقد وصلنا لہم القول لعلہم یتذکرون۔۔۔ الی۔۔۔ افلا تعقلون۔ (ربط) گزشتہ آیات میں اس بات کا ذکر تھا کہ اللہ نے رسول بھیج کر اور کتاب ہدایت نازل کر کے لوگوں پر حجت پوری کردی اب اس آیت میں یہ بتلاتے ہیں کہ ہم نے حق اور ہدایت کو خوب واضح کردیا اور مفصل اور مکرر اور سہ کرر بیان کر کے بھی لوگوں پر حجت پوری کردی ہے اور قرآن کریم کو ہم نے بتدریج نازل کیا ہے تاکہ لوگوں کو سمجھنے کا موقع ملے اور یاد رکھنے میں سہولت ہو اگر سارے قرآن کو یکبارگی نازل کردیتے تو تذکر کا فائدہ حاصل نہ ہوتا نیز گزشتہ آیات میں ان ظالموں اور نفس پرستوں کی مذمت فرمائی کہ جو ہدایت خداوندی کے مقابلہ میں نفسانی خواہشوں کو مقدم رکھتے ہیں اب ان آیات میں گزشتہ کے مقابل انصاف پسند اور حق پسند اہل کتاب کی مدح فرماتے ہیں کہ جنہوں نے حق اور ہدایت کے سامنے سر تسلیم خم کردیا جیسا کہ سعید بن جبیر ؓ سے مروی ہے کہ ستر علماء نصاریٰ جن کو نجاشی شاہ حبشہ نے آپ کی خدمت میں بھیجا تو آپ ﷺ نے ان پر سورة یٰسین پڑھی تو وہ لوگ سنتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے اور وہ لوگ مسلمان ہو گے ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی یعنی الذین اتیناہم الکتاب من قبلہ ہم بہ یومنون۔۔ الی قولہ تعالی۔۔۔ سلام علیکم لا نبتغی الجاھلین۔ (دیکھو تفسیر ابن کثیر ص 393 ج 3) چناچہ فرماتے ہیں اور البتہ تحقیق ہم نے ان کے لئے وقتا فوقتا حسب ضرورت ومصلحت ہدایت کی بات کو پے در پے اور بار بار اور لگاتار بیان کیا ایک آیت کے بعد دوسرے آیت اور ایک سورت کے بعد دوسری سورت اور ایک نصیحت کے بعد دوسری نصیحت۔ حتی کہ ان پر حجت پوری کردی تاکہ وہ نصیحت پکڑیں اور ہدایت کی بات کو مانیں۔ (یا یہ معنی ہیں) کہ ہم نے حق بات کو نہایت واضح اور مفصل کردیا کہ جس شک اور شبہ کی گنجائش نہیں رہی۔ (یا یہ معنی ہیں) کہ ہم نے قرآن میں جگہ جگہ اور بار بار ان امتوں کا ذکر کیا ہے کہ جو رسولوں کی نافرمانی کی وجہ سے ہلاک ہوئیں تاکہ ان کا حال سن کر ان سے عبرت پکڑیں۔ اس آیت میں مشرکین کے اس اعتراض کا جواب بھی ہوگیا۔ جو یہ کہتے تھے کہ اگر قرآن مجید کلام الٰہی اور منزل من اللہ ہے تو توریت کی طرح دفعتہ کیوں نازل نہیں ہوا۔ جواب یہ ہوا کہ ہم نے قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے بتدریج اس لئے نازل کیا تاکہ لوگ اس کو اچھی طرح سمجھ جائیں اور یاد رکھنے میں ان کو سہولت ہو اور اس تدریجی نزول سے وقتا فوقتا ان پر ایک نئی حکمت اور نئی موعظت منکشف ہوتی رہے اور گزشتہ امتوں کی ہلاکت کا حال سن کر عبرت پکڑیں کہ مبادا جو عذاب اگلوں پر نازل ہوا ہے وہ ہم پر بھی نازل نہ ہوجائے اس لئے ہم نے انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کے حالات اور کفار کی ہلاکت اور تباہی کے واقعات کو بار بار وبتکرار۔۔۔ بیان کیا تاکہ حق اور حقیقت کو خوب سمجھ جائیں اور بار بار سن کر قہر الٰہی سے ڈر جائیں اور نصیحت پکڑیں اور ایک فائدہ یہ ہے کہ بار بار کی فہمائش اور تذکیر سے حجت پوری ہوجاتی ہے اور کسی قسم کے عذر کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور کیا یہ مشرکین عرب اس بات پر نظر نہیں کرتے کہ آنحضرت ﷺ کی رسالت انبیاء سابقین کی بشارت اور علماء اہل کتاب کی تصدیق اور اعتراف سے بھی ظاہر ہوچکی ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں جن لوگوں کو ہم نے محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے یا نزول قرآن سے پہلے کتاب توریت اور انجیل دی تھی وہ تو اس نبی پر یا اس قرآن لاتے ہیں اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے اور ہم نے یقین کیا کہ یہ کلام الٰہی ہے بیشک اور بلاشبہ یہ حق ہے ہمارے پروردگار کے پاس سے آیا ہے۔ تحقیق ہم تو اس کو پہلے ہی سے مانے ہوئے تھے کیونکہ توریت اور انجیل اور کتب سابقہ میں اس کی بابت پیشین گوئیاں مذکور ہیں۔ ہم انبیاء سابقین کی بشارتوں کی وجہ سے پہلے ہی سے توحید کے اور نبی آخر الزمان ﷺ کی رسالت اور قرآن کی حقانیت کے قائل نہ تھے اور اس کے منتظر تھے۔ علماء اہل کتاب کے ایمان کے ذکر سے اہل مکہ پر حجت قائم کرنا ہے کہ جو لوگ شریعت سابقہ کے علم سے واقف تھے انہوں نے تو اس قرآن کو سنتے ہی کہہ دیا کہ ہم اس پر ایمان لے آئے اور بیشک یہ برحق ہے اور خدا کی طرف سے ہے اور یہ وہی کتاب ہے جس کے نزول کی انبیاء سابقین نے خبر دی ہے اور یہ نبی وہی نبی آخر الزمان ﷺ ہیں جن کے ظہور کی انبیاء سابقین خبر دیتے آئے۔ ہم تو اس کے مشتاق اور منتظر تھے جیسا کہ سورة اعراف میں گزرا۔ النبی الامی الذی یجد ولہ مکتوبا عندہم فی التورۃ والانجیل اور سورة شعراء میں گزرا۔ اولم یکن لہ ایۃ ان یعلمہ علمؤا بنی اسراء یل۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ایسے منصف اور حق پرست اہل کتاب کو دوہرا اجر ملے گا اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا کہ حق کے قبول کرنے کی وجہ سے ان کو جو مشقتیں پیش آئیں اور ان کو برداشت کیا اور دنیاوی اغراض اور منافع کی وجہ سے قبول حق سے گریز نہیں کیا دنیا پر لات ماری اور حق کے سامنے گردن جھکا دی اور اس راہ میں جو ایذائیں اور تکلیفیں پہنچیں ان پر صبر کیا جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ثلاثۃ لہم اجران رجل من اھل الکتاب امن بنبیہ ثم امن بی والعبد المملوک اذا ادی حق اللہ وحق ھو الیہ ورجل کانت عندہ امۃ فادبھا فاحسن تادیبھا وعلمھا فاحسن تعلیمھا ثم اعتقھا ثم تزوجھا فلہ اجران۔ (تین شخصوں کو اپنے عمل کا دوہرا اجر ملے گا ان میں سے ایک وہ شخص ہے کہ جو اہل کتاب میں سے ہے پہلے اپنے نبی یعنی موسیٰ یا عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لایا اور پھر محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لایا الخ ) نکتہ : شیخ الاسلام عثمانی (رح) کہتے ہیں کہ شیخ اکبر (رح) نے فتوحات میں لکھا ہے کہ ان اہل کتاب کا ایمان اپنے نبی پر دو مرتبہ ہوا۔ اول بالاستقلال دوبارہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم پر ایمان لانے کے ضمن میں۔ کیونکہ حضور پر نور ﷺ تمام انبیاء سابقین کے مصدق ہیں اور ان پر ایمان رکھنا ضروری قرار دیتے ہیں اور حضور پر نور ﷺ پر بھی ان کا ایمان دو مرتبہ ہوا ایک بالذات وبالاستقلال۔ دوسرا پہلے اپنے پیغمبر پر ایمان لانے کے ضمن میں۔ کیونکہ ہر پیغمبر حضور ﷺ کی بشارت دیتے اور پیشگی تصدیق کرتے چلے آئے ہیں اسی لئے ان لوگوں کو اجر بھی دو مرتبہ ملے گا۔ (تفسیر عثمانی) حق جل شانہ نے ان آیات میں مومنین اہل کتاب کی مدح فرمائی اول ان کے اعتقاد اور ایمان کا ذکر فرمایا اس کے بعد ان کے اخلاق فاضلہ کو بیان کیا جس میں سب سے پہلے ان کی صفت صبر کو بیان کیا اور بما صبروا کہا کیونکہ صبر ہی تمام اخلاق فاضلہ کی جڑ ہے اب ان کی دوسری صفت بیان کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ برائی کا جواب بھلائی سے دیتے ہیں کوئی ان کے ساتھ برائی کرتا ہے تو وہ اس کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔ بدی راہ بدی سہل باشد جزاء اگر مروی احسن الیٰ من اساء اور تیسری صفت ان کی یہ ہے کہ ہم نے جو ان کو رزق دیا ہے اس میں سے میری راہ میں خرچ کرتے ہیں اور چوتھی صفت ان کی یہ ہے کہ وہ جب کافروں اور منافقوں سے کوئی لغو اور بےہودہ بات سنتے ہیں یعنی ان کی طعن وتشنیع کو سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں یعنی اس سے الجھتے نہیں بلکہ کنارہ کشی کرتے ہیں اور سلامت ردی کے طور پر یہ کہہ دیتے ہیں ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں۔ ہر ایک کا عمل اس کے سامنے آجائے گا پس تم پر ہمارا سلام ہے ہم جاہلوں سے واسطہ رکھنا نہیں چاہتے۔ اس جگہ سلام سے سلام تحیت مراد نہیں بلکہ سلام متارکت اور سلام اعراض ومفارقت مراد ہے تم ہماری طرف سے امن اور سلامتی میں ہو اور ہم تمہاری طرف سے امن اور سلامتی میں ہیں۔ یعنی ہم تم سے لڑنا نہیں چاہتے اور تمہارے لغو کا لغو سے مقابلہ نہیں کرتے جاہلوں سے مقابلہ بےسود ہیں خاص کر جو جہل مرکب اور جہالت عناد میں مبتلا ہو اس کی ہدایت اور اصلاح تو نہایت دشوار ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ تحقیق اے نبی باوجود اس کے کہ اللہ نے آپ ﷺ کو ہادی عالم اور رحمت مجسم بنا کر بھیجا ہے مگر ہدایت اور توفیق آپ کے قبضہء قدرت میں نہیں کہ جس کو چاہیں ہدایت دے دیں لیکن اللہ ہی اس بات پر قادر ہے کہ وہ جس کو چاہے راہ دکھا دے اور راہ پر چلا دے اور منزل مقصود پر پہنچا دے اور وہی خوب جانتا ہے راہ پانے والوں کو۔ اللہ ہی کو معلوم کہ کون ہدایت پائے گا۔ غیب کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں اور تمام خزانے اسی کے دست قدرت میں ہیں۔ زجاج (رح) کہتے ہیں کہ یہ آیت باجماع مفسرین ابو طالب کے حق میں نازل ہوئی۔ حضرت شاہ عبدالقادر (رح) لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب کے لئے بڑی کوشش کی کہ مرتے وقت ایک مرتبہ کلمہ پڑھ لے مگر اس نے قبول نہ کیا اس پر یہ آیت اتری۔ (موضح القرآن) نبی کے اختیار میں صرف اتنا ہے کہ یہ بتلا دے کہ حق کی راہ یہ ہے باقی حق کا دل میں اتار دینا یہ اللہ کا کام ہے۔ آنحضرت ﷺ ہدایت پر مامور تھے مگر ہدایت دینے پر قادر نہ تھے۔ ابراہیم (علیہ السلام) آزر کو ہدایت نہ دے سکے اور نوح (علیہ السلام) اپنے بیٹے کو ہدایت نہ دے سکے۔ اور لوط (علیہ السلام) اپنی بیوی کو ہدایت نہ دے سکے، مطلب یہ ہے کہ ہدایت دعوت اور ہدایت بیان تو آپ ﷺ کی قدرت میں ہے۔ مگر ہدایت توفیق آپ ﷺ کی قدرت میں نہیں دیکھو تفسیر کبیر (ف 1) ص 485 ج 6۔ خلاصہ کلام یہ کہ اس آیت کے نازل کرنے سے آنحضرت ﷺ کی تسلی مقصود ہے کہ آپ ﷺ رنجیدہ اور غمگین نہ ہوں ہدایت اللہ ہی کے اختیار میں ہے اور اسی کو معلوم ہے کہ کس میں ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت اور استعداد ہے اور کس میں نہیں۔ انک لا تھدی من احببت۔ میں قدرت اور اختیار کی نفی کی گئی کہ ہدایت کسی کے قدرت اور اختیار میں نہیں اور وھو اعلم بالمھتدین۔ میں کی نفی کی گئی کہ کسی کو اس کا علم بھی نہیں کہ کون راہ یاب ہوگا۔ 1 قال الامام الرازی۔ قال اللہ تعالیٰ انک لا تھدی من احببت وقال تعالیٰ فی ایۃ اخری وانک لتھدی الی صراط مستقیم ولاتنا فی بینھما فان الذی اثبتہ واضافہ الیہ الدعوۃ والبیان والذی نفی ھدایۃ التوفیق وشرح الصدر وھو نور یقذف فی القلب فیحیابہ القلب کما قال تعالیٰ او من کان میتا فاحییناہ وجعلنا لہ نورا یمشی بہ فی الناس۔ (تفسیر کبیر ص 485 ج 6)
Top