Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 61
اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِیْهِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰهُ مَتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ثُمَّ هُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا جو وَّعَدْنٰهُ : ہم نے وعدہ کیا اس سے وَعْدًا حَسَنًا : وعدہ اچھا فَهُوَ : پھر وہ لَاقِيْهِ : پانے والا اس کو كَمَنْ : اس کی طرح جسے مَّتَّعْنٰهُ : ہم نے بہرہ مند کیا اسے مَتَاعَ : سامان الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی ثُمَّ : پھر هُوَ : وہ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مِنَ : سے الْمُحْضَرِيْنَ : حاضر کیے جانے والے
بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا اور اس نے اسے حاصل کرلیا تو کیا وہ اس شخص کا سا ہے جس کو ہم نے دنیا کی زندگی کے فائدے سے بہرہ مند کیا ؟ پھر وہ قیامت کے روز ان لوگوں میں ہو جو (ہمارے روبرو) حاضر کئے جائیں گے
ظہور ثمرات ایمان وہدایت ونتائج کفر وضلالت در روز قیامت قال اللہ تعالیٰ افمن وعدنہ وحدا حسنا۔۔۔ الی۔۔۔ الہ الحکم والیہ ترجعون۔ (ربط) گزشتہ آیات میں ایمان وہدایت کی ترغیب اور کفر وضلالت سے ترہیب کا ذکر تھا۔ اب آئندہ آیات میں یہ بتلاتے ہیں کہ ایمان اور ہدایت کے ثمرات اور کفر وضلالت کے نتائج کا ظہور قیامت کے دن ہوگا۔ اول۔ افمن وعدنہ وعدا حسنا کی آیت میں اجمالی طور پر اہل دنیا اور اہل آخرت کے تفاوت کو بیان کیا بعد ازاں اس تفاوت کی تفصیل فرمائی کہ قیامت کے دن اہل ضلالت سے قیامت کے دن بطور زجر و توبیخ تین سوال ہوں گے۔ پہلا سوال : این شرکای الذین کنتم تزعمون۔ یعنی بتلاؤ کہ وہ کہاں ہیں جن کو تم نے میرا شریک سمجھ رکھا تھا۔ یعنی کہاں ہیں وہ لوگ جنہوں نے تم کو گمراہ کیا۔ دوسرا سوال : وقیل ادعوا شرکاء کم فدعوہم فلم یستجیبوا لہم۔ یعنی تم اپنے ان معبودوں کو بلاؤ جن کو تم اپنا معین اور مددگار سمجھتے تھے تاکہ وہ تمہاری فریاد رسی کریں۔ تیسرا سوال : ما ذا اجبتم المرسلین۔ انبیاء کرام کی اطاعت اور متابعت کے متعلق ہوگا۔ چناچہ فرماتے ہیں کیا اے بےعقلو جو تم کفر وضلالت کو ایمان اور ہدایت پر اور دنیا کو آخرت پر فضیلت دیتے ہو یہ نہیں سمجھتے کہ یہ دونوں ہرگز برابر نہیں سو جس سے ہم نے نیک وعدہ کیا جس میں نہ ضرر کا احتمال ہے اور نہ غلط بیانی کا امکان ہے سو جس مومن سے ہم نے ایمان لانے اور ہدایت قبول کرنے پر دنیا اور آخرت کا جو وعدہ کیا ہے وہ ضرور اس کو پانے والا ہے تو کیا ایسا شخص اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جس کو ہم نے دنیاوی زندگی کا چند روزہ سامان دیا اور ختم ہوا اور پھر قیامت کے دن وہ ان لوگوں میں سے ہوگا جو عذاب کے لئے حاضر کئے جائیں گے۔ ذرا عقل سے کام لو اور بتاؤ کہ کیا یہ دونوں شخص برابر ہوسکتے ہیں چند روز خوب مزے اڑائے اور قانون حکومت کی کوئی پرواہ نہ کی بالآخر گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوا اور پھانسی پر لٹکا دیا گیا کیا تم کو اتنی عقل نہیں کہ ان دونوں میں کون اچھا رہا اور تمہیں کس زمرہ میں شامل ہونا چاہئے اور ایسے مال ومتاع اور سامان عیش و عشرت سے کیا جس کے بعد تم کو مجرموں کی صف میں کھڑا کر کے تم سے باز پرس کی جائے اس لئے تم اس دن کو یاد کرو یا اے نبی ان کو وہ دن یاد لاؤ کہ جب یہ مجرمین آخرت میں عذاب کے لئے ہمارے حضور میں پکڑے ہوئے آئیں گے تو اس دن خدا تعالیٰ ان کو پکارے گا پھر کہے گا کہاں ہیں وہ میرے شریک جن کو تم اپنے زعم میں میرا شریک قرار دیتے تھے جو ملتیں کفر اور شرک میں مبتلا ہیں وہ محض اپنے گمان اور خیال پر چلتی ہیں۔ دلیل عقلی کسی کے پاس بھی نہیں جو یہ ثابت کرسکے کہ یہ چیز الوہیت میں خدا کی شریک ہے اس جگہ شرکاء سے رؤسا ضلالت مراد ہیں جن کے کہنے سے ان لوگوں نے کفر اور شرک کیا کیونکہ بدون کسی دلیل شرعی اور بغیر حکم الٰہی کے کسی شخص کے کہنے کو بےچون وچرا مان لینا بھی شرک ہے اسی طرح کسی کی اطاعت کرنا گویا کہ اس کو اپنا رب بنانا ہے کما قال اللہ تعالیٰ اتخذوا احبارہم ورھبانہم اربابا من دون اللہ والمسیح بن مریم۔ چناچہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو عدی بن حاتم ؓ نے سوال کیا کہ ہم نے تو احبار اور رہبان کو اپنا رب نہیں بنایا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا جب احبارو رہبان جو تم کو حکم دیتے تھے کیا تم اس پر (بےچون چرا) نہیں چلتے تھے۔ عدی ؓ نے عرض کیا۔ ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا بس یہی شرک ہے (رواہ الترمذی وغیرہ) معلوم ہوا کہ بےچون چرا کسی کے حکم کو واجب الاطاعت سمجھنا اور کسی کو واجب الاطاعت جاننا یہی شرک کی حقیقت ہے۔ غرض یہ کہ قیامت کے دن مشرکین سے سوال کیا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ میرے شریک جن کو تم نے میرا شریک سمجھ رکھا تھا۔ سوال تو مشرکین سے ہوگا مگر وہ رؤسا ضلالت اور ائمۃ الکفر جنہوں نے ان کو بہکایا تھا وہ سمجھ جائیں گے کہ یہ سوال زجروتوبیخ درحقیقت ہم سے ہے اس لئے وہ لوگ بولیں گے جن پر بوجہ اضلال یعنی دوسروں کو گمراہ کرنے کی وجہ سے جن پر عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہے اور مستوجب سزا ہوچکے ہیں بطور عذر یہ کہیں گے اے ہمارے رب یہ وہی لوگ ہیں جن کو ہم نے اغوا کیا اور دنیا میں ان کو راہ حق سے گمراہ کیا لیکن ہم نے ان کو گمراہ کیا جس طرح ہم باختیار خود غاوی اور گمراہ بنے ہم نے ان کو مجبور نہ کیا تھا اور نہ ہم کرسکتے تھے یہ لوگ باختیار خود اپنی خوشی اور رغبت سے غوایت اور گمراہی میں پڑے اپنی گمراہی کا الزام ہمارے سر لگانا غلط ہے کیونکہ اگر ایک طرف ہم نے ان کو بہکایا اور گمراہی کی طرف بلایا تو دوسری طرف تیرے احکام اور ہدایت موجود تھی ان کو اختیار تھا کہ دونوں طرف میں سے جس کو چاہتے اختیار کرتے ان لوگوں نے ہدایت کے مقابلہ میں بصد شوق ورغبت باختیار خود ہماری باتوں کو اختیار کیا اور ہدایت اور نصیحت سے اعراض کیا اور اب الزام ہمیں دیتے ہیں یہ کہنے والے گمراہوں کے رئیس اور ان کے پیشوا ہوں گے اور رؤسا ضلالت کا یہ جواب بالکلیہ ایسا ہی جواب ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کی طرف سے حکایت کیا ہے۔ وقال الشیطن لما قضی الامر ان اللہ وعدکم وعد الحق ووعدتکم فاخلفتکم وما کان لی علیکم من سلطان الا ان دعوتکم فاستجبتم لی فلا تلومونی ولوموا انفسکم۔ غرض یہ کہ رؤسا ضلالت اپنے کو الزام سے بری کرنے کے لئے یہ کہیں گے کہ ہم نے ان لوگوں کو گمراہی پر مجبور نہ کیا یہ لوگ اپنی خواہشوں کے بندے ہیں ہم ان کے فعل کے ذمہ دار نہیں ہم تیرے سامنے ان سے بری اور بیزار ہیں یہ لوگ فی الحقیقت ہماری پرستش نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی خواہشوں کی پرستش کرتے تھے۔ اور رؤسا ضلال کی اس بیزاری اور بےتعلقی کے بعد ان مشرکین سے بطور تہکم اور استہزائیہ کہا جائے گا اپنے شرکا کو اپنی مدد کے لئے پکارو یعنی جن کو تم ہمارا شریک قرار دیتے تھے ان کو بلاؤ کہ وہ تم سے عذاب کو دفع کریں سو وہ ان کو پکاریں گے پس وہ جواب بھی نہ دیں گے اس کے بعد عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے پھرجائے گا اور عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ اور اس وقت تمنا کریں گے کہ کاش ہم دنیا میں راہ یاب ہوتے اور ایمان لانے والوں اور ہدایت قبول کرنے والوں میں سے ہوتے تو یہ روز بدہم کو نہ دیکھنا پڑتا۔ اور اس دن کو یاد کرو جس دن اللہ انہیں پکارے گا پس کہے گا بتلاؤ کہ تم نے ہمارے پیغمبروں کو کیا جواب دیا تھا۔ جب انہوں نے تم کو حق کی طرف بلایا تھا پس اس روز ان پر تمام باتیں تاریک اور مشتبہ ہوجائیں گی پھر دہشت کی وجہ سے ایسے بدحواس ہوجائیں گے کہ ایک دوسرے سے پوچھ بھی نہ سکیں گے کہ کیا جواب دیں یعنی دنیا میں انبیا کی نورانی حجتوں کے مقابلہ میں اپنی ظلمانی اور شیطانی اور نفسانی حجتیں بیان کیا کرتے تھے سو آج کے روز اس حالت میں ان پر حجتیں تاریک ہوجائیں گی پس باہم ایک دوسرے سے کچھ سوال بھی نہ کرسکیں گے جو یہاں اندھا تھا وہاں بھی اندھا ہوجائے گا یہ تو ان گمراہوں کا حال ہے جو گمراہی میں حق سے اندھے بنے رہے یہاں تک کہ مرگئے۔ ہاں مگر وہ جس نے کفر اور شرک سے توبہ کی اور خدا اور رسول پر ایمان لایا۔ اور رسول کی ہدایت کے مطابق نیک کام کیا پس امید ہے کہ وہ فلاح پانے والوں سے ہوا اور اس دن کی باز پرس اور ذلت سے نجات پا جائے بغیر دین اسلام قبول کئے فلاح اور کامیابی ممکن نہیں۔ مزن بےرضائے محمد ﷺ نفس رہ رستگاری ہمین است وبس اور تیرا پروردگار جس چیز کو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے پسند کرتا ہے اور برگزیدہ بناتا ہے اور ان لوگوں کو کوئی اختیار نہیں۔ خلق اور اختیار سب اللہ کے لئے مخصوص ہے کسی کے لئے اس میں شرکت اور منازعت ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ پاک اور بلند اور برتر ہے ہر اس چیز سے جس کو مشرکین خدا کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں یہ تو خدا تعالیٰ کی قدرت اور اختیار کا حال ہے اور تیرے پروردگار کے علم کی شان یہ ہے کہ وہ ان کے سینہ کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں اس کو بھی خوب جانتا ہے اور وہی اللہ اور خدائے برحق ہے جو عبادت کا مستحق ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں جو لائق عبادت ہو اسی کے لئے حمدوثنا ہے دنیا اور آخرت میں۔ اس لئے کہ دنیوی اور اخروی نعمتوں کا وہی مالک ہے وہی منعم حقیقی اور محسن حقیقی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اسی کے لئے حکم قضا اور فرمانرائی ہے حکومت اور قدرت اور اختیار سب اسی کے لئے ہے حاکم حقیقی وہی ہے اور تیسری وجہ یہ ہے کہ تم اس جہان میں چند روز ہو۔ پھر قیامت کے دن اسی کی طرف لوٹا دئیے جاؤ گے اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اسی کا حکم قضا نافذ ہوگا اور کسی کو کوئی اختیار نہ ہوگا۔ پس ایسے معبود برحق کی عبادت کرو تاکہ اس دن کی ذلت سے نجات پاؤ۔
Top