Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 76
اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى فَبَغٰى عَلَیْهِمْ١۪ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَةِ اُولِی الْقُوَّةِ١ۗ اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ
اِنَّ : بیشک قَارُوْنَ : قارون كَانَ : تھا مِنْ : سے قَوْمِ مُوْسٰي : موسیٰ کی قوم فَبَغٰى : سو اس نے زیادتی کی عَلَيْهِمْ : ان پر وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے دئیے تھے اس کو مِنَ الْكُنُوْزِ : خزانے مَآ اِنَّ : اتنے کہ مَفَاتِحَهٗ : اس کی کنجیاں لَتَنُوْٓاُ : بھاری ہوتیں بِالْعُصْبَةِ : ایک جماعت پر اُولِي الْقُوَّةِ : زور آور اِذْ قَالَ : جب کہا لَهٗ : اس کو قَوْمُهٗ : اس کی قوم لَا تَفْرَحْ : نہ خوش ہو (نہ اترا) اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْفَرِحِيْنَ : خوش ہونے (اترانے) والے
قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا اور ان پر تعدی کرتا تھا اور ہم نے اسکو اتنے خزانے دئیے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو اٹھانی مشکل ہوتیں جب اس سے اس کی قوم نے کہا کہ اترائیے مت کہ خدا اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا
ذکر قصہء قارون برائے عبرت مغرور ان مال ودولت قال اللہ تعالیٰ ان قارون کان من قوم موسیٰ ۔۔۔ الی۔۔۔ ویکانہ لا یفلح الکفرون۔ (ربط) شروع سورت میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کے تکبر اور فساد کا ذکر کیا۔ ان فرعون علا فی الارض اور انہ کان من المفسدین اب اخیر سورت میں ایک دوسرے متکبر اور مفسد یعنی قارون کا ذکر کرتے ہیں کہ فرعون کی طرح قارون بھی تکبر اور فساد فی الارض کی وجہ سے تباہ اور برباد ہوا۔ یا یوں کہو کہ گزشتہ آیات میں یہ بتلایا کہ متاع دنیا ہیچ ہے اور چند روزہ ہے اور فانی ہے اور گزرگاہ ہے اور آرائش ہے اور اس کے شیدائی گمراہ ہیں اور بقول حافظ شیرازی۔ مرا در منزل جاناں چہ امن وعیش چوں ہر دم جرس فریادمی دارد کہ بربندید محمل ہا دنیا کی بےثباتی کو دیکھ رہے ہیں اور پھر نہیں سمجھتے۔ اب ان آیات میں سر دفتر اہل ضلال یعنی قارون کا قصہ ذکر کرتے ہیں کہ وہ حیات دنیوی کے مال ومنال کے نشہ میں کس درجہ مغرور تھا تاکہ اہل دنیا اس سے عبرت پکڑیں کہ دنیا کے چند روزہ مال و دولت پر تفاخر اور تکبر کا اور دنیاوی زندگی پر اطمینان کا انجام کیا ہوتا ہے۔ یا یوں کہو کہ جس طرح فرعون کا قصہ موسیٰ (علیہ السلام) کے دلائل نبوت اور براہین رسالت پر مشتمل تھا اسی طرح قارون کا قصہ بھی موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت کی دلیل ہے اس لئے کہ قارون کا مع گھر کے اور مع خزانوں کے زمین میں دھنسنا موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا سے ہوا جس کو تمام شہر نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ معجزہ عصا کی طرح یہ معجزہ بھی سب کے سامنے ظاہر ہوا جس سے موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور رسالت روز روشن کی طرح واضح ہوگئی۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) خدا کے دو برگزیدہ رسول اور درویش تھے جن کا مقابلہ فرعون اور قارون سے تھا اول الذکر صاحب اقتدار اور فرمانروائے سلطنت تھا اور دوسرا دولت و ثروت کے خزانوں کی کنجیوں کا مالک تھا۔ خدا وند عالم نے اپنی قدرت کاملہ سے دنیا کے سب سے بڑے دو متکبروں اور دو مفسدوں کو اپنی بارگاہ کے دو درویشوں کے ہاتھ سے ایسا تباہ اور برباد کیا کہ دنیا نے دیکھ لیا کہ دنیا کا جاہ و جلال اور دنیا کا مال ومنال سب ہیچ ہے۔ اصل چیز آخرت کی لازوال نعمتیں ہیں۔ پہلا متکبر اور مغرور جو سلطنت کے نشہ میں چور تھا یعنی فرعون۔ وہ قبطی تھا۔ اور دوسرا مغرور جو مال و دولت کے نشہ میں چور تھا یعنی قارون۔ وہ سبطی تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا۔ پہلا مغرور دریا میں غرق ہوا اور دوسرا مغرور زمین میں دھنسا یا گیا۔ فرعون کا غرق ہونا موسیٰ (علیہ السلام) کا بحری معجزہ تھا اور قارون کا خسف موسیٰ (علیہ السلام) کا بری معجزہ تھا۔ فرعون نے سلطنت کے زعم میں قبول ہدایت سے انحراف کیا اور قارون نے مال و دولت کے نشہ میں اتباع ہدایت سے گریز کیا۔ دیکھ لو کہ دونوں کا کیا انجام ہوا۔ اللہ کے قہر اور عذاب سے نہ سلطنت بچا سکتی ہے اور نہ مال و دولت۔ لہٰذا اس کی حرص اور طمع میں پڑنا بڑا برا ہے اور دنیاوی مال و دولت کو خوش نصیبی سمجھنا بھی غلط ہے جیسا کہ آئندہ آیت میں اہل علم کی نصیحت سے واضح ہوتا ہے۔ قارون موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا۔ سامری کی طرح منافق تھا بڑا مالدار تھا۔ کثرت مال کی وجہ سے غرور اور تکبر میں مبتلا ہوگیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر حسد کرنے لگا۔ ایک عورت کو رشوت دے کر اس پر آمادہ کیا کہ مجمع عام میں موسیٰ (علیہ السلام) پر زنا کی تہمت لگائے۔ چناچہ اس عورت نے جب موسیٰ (علیہ السلام) پر تہمت لگائی۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) کانپ گئے اور اس عورت کو خدا تعالیٰ کی قسم دے کر کہا کہ سچ بتا بات کیا ہے اس عورت نے سچ سچ کہہ دیا کہ قارون نے مجھے اس قدر مال دے کر اس پر آمادہ کیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) سجدہ میں گر پڑے اور قارون کے حق میں بددعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ہم نے زمین کو تیرے لئے مسخر کردیا ہے قارون کے بارے میں جو تو زمین کو حکم دے گا وہ تیری فرمانبرداری کرے گی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے زمین کو حکم دیا کہ وہ اس کو نگل لے۔ لوگوں نے اس کو مضحکہ اور جادو سمجھا یہاں تک کہ زمین نے اس کو گھٹنوں تک نگل لیا تو قارون چلانے لگا اور قرابت کا واسطہ دینے لگا مگر موسیٰ (علیہ السلام) نے شدت غضب اور بغض فی اللہ کی وجہ سے کچھ التفات نہ کیا یہاں تک کہ پورا زمین میں دھنس گیا اور ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ وہ اسی طرح ساتویں زمین تک دھنستا چلا جائے گا۔ قارون موسیٰ (علیہ السلام) کا قریبی رشتہ دار تھا مگر قرابت کام نہ آئی۔ ایمان لاتا تو عزت پاتا۔ اشارہ اس طرف ہے کہ ہدایت اور ضلالت سب من جانب اللہ ہے قرابت اور اجنبیت پر موقوف نہیں۔ غرض یہ کہ آئندہ آیت میں ایک مغرور دولت مند کا قصہ سناتے ہیں کہ ان کو یہ خوف تھا کہ اگر ہم نے اسلام اختیار کرلیا تو قوم ہم سے برسر پر خاش ہوجائے گی اور جو کچھ مال ومنال اور ج اگر وغیرہ اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے وہ سب چھین لیں گے اور ہم مفلس اور فقیر ہوجائیں گے گویا کہ ان کی دولت مندی ایمان لانے میں ان کی سد راہ بنی۔ قارون کا قصہ سنا کر یہ بتلا دیا کہ مال وزر کے لالچ میں حق کی دعوت کو رد کرنے کا انجام ایسا ہوتا ہے جیسا کہ قارون کا ہوا۔ چناچہ فرماتے ہیں تحقیق قارون (ف 1) موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے تھا اور بقول ابن عباس ؓ وغیرہ موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا۔ یہی اکثر مفسرین کا قول ہے۔ اور توریت کو نہایت خوش آوازی سے پڑھتا تھا لیکن سامری کی طرح یہ کمبخت بھی منافق تھا پس کثرت مال کی وجہ سے بنی اسرائیل پر سرکشی کرنے لگا اور یہ چاہنے لگا کہ سب پر حاکم بن جائے۔ اور اس کی مال و دولت کا یہ حال تھا کہ ہم نے اس کو اس قدر خزانے دئیے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک صاحب قوت جماعت پر بھاری ہوتی تھیں یعنی اس کے خزانوں کی کنجیاں اتنی کثیر تھیں کہ ایک جماعت کو ان کا اٹھانا گراں تھا اس لئے وہ اترایا پھرتا تھا اتنے میں اس کی قوم کے صالح اور نیک لوگوں نے کہا اترا مت۔ اس لئے کہ تحقیق اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ بنی اسرائیل کے صالحین نے اس کو نصیحت کی کہ مال و دولت پر اترانا اچھا نہیں اور ان ناصحین نے یہ کہا کہ اللہ نے جو مال و دولت تجھ کو عطا کیا ہے اس کے ذریعے دار آخرت کو طلب کر۔ یعنی اس دار فانی پر مطمئن نہ ہو اور اس مال فانی پر نازاں ہو بلکہ اس کو دار آخرت کا ذریعہ بنا۔ بدنیا توانی کہ عقبیٰ خری بخر جان من ورنہ حسرت بری اور دنیا میں سے اپنا حصہ نہ بھول جا۔ یعنی دنیا میں سے بقدر ضرورت و راحت اپنے اوپر خرچ کر اور باقی مال خدا کی راہ میں خرچ کر اور اس سے آخرت کما۔ کیونکہ دنیا میں سے آدمی کا حصہ وہی ہے جو اس نے آگے بھیج دیا اور جو چھوڑ دیا وہ دوسروں کا ہے۔ انسان کا دنیا سے حصہ صرف اتنا ہے جو نیک کام کر کے اور خدا کی راہ میں خرچ کر کے آخرت کے خزانہ میں جمع کرا دے جو مرنے کے بعد اس کے کام آئے۔ سعدی (رح)۔ ف۔ اگر گنج قاروں بچنگ آوری نماند مگر آنکہ بخشی بری 1 قارون عجمی نام ہے علمیت اور عجمہ کی وجہ سے غیر منصرف ہے وزن اس کا فاعول ہے زجاج کہتے ہیں کہ اگر یہ لفظ عربی ہوتا اور قرنت سے مشتق ہوتا تو منصرف ہوتا۔ اور بعض علماء نے نصیبک من الدنیا کی یہ تفسیر کی ہے کہ انسان کا حصہ دنیا سے کفن ہے جب اس جہان سے جانے لگے گا تو اتنا ہی نصیب ہوگا لہٰذا انسان کو چاہئے کہ اس پر نظر رکھے کہ میرا حصہ دنیا سے صرف کفن کی دو چادریں ہیں اسی خیال کو پیش نظر رکھے اور دنیا کے مال ومنال پر گھمنڈنہ کرے اسی بناء پر کسی شاعر کا قول ہے۔ نصیبک مما تجمع الدھر کلہ رداء ان تلوی فیھما وحنوط یعنی جو کچھ تو ساری عمر جمع کرے گا۔ اس میں سے تیرا حصہ صرف کفن کی دو چادریں ہیں جن میں تو لپیٹا جائے گا۔ اور حنوط یعنی خوشبو ہے جو کفن پر لگائی جاتی ہے۔ نظم گر ملک تو شام تا یمن خواہد بود وزسرحد روم تاختن خواہد بود آنروز کزیں جہان کنی عزم سفر ہمراہ تو چند گز کفن خواہد بود اگر پہلوانی اگر تیغ زن ! نخواہی بدر بردن الا کفن (سعدی ) اور بندگان خدا کے ساتھ احسان کر۔ جیسے خدا نے تیرے ساتھ احسان کیا یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ہے جس سے اللہ کی نعمتیں اور زیادہ ہوں گی۔ اور خدا کی نافرمانی کر کے زمین میں فساد مت پھیلا اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ اللہ کی معصیت اور اس کی نافرمانی اور خدا کے دئیے ہوئے مال و دولت کو خدا کی نافرمانی میں خرچ کرنا بھی فساد ہے۔ بالجملہ جب نیک لوگوں نے قارون کو یہ نصیحتیں کیں جن کا ذکر ہوا تو قارون یہ سن کر جواب میں بولا کہ مجھ کو جو کچھ مال و دولت ملا ہے وہ میری علمی قابلیت اور فہم و فراست کا نتیجہ ہے خدا کے نیک بندوں نے قارون کو یہ نصیحت کی کہ یہ مال و دولت خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت ہے اس کو آخرت کا توشہ بنا۔ وہ مغرور بولا کہ یہ مال ومتاع تو مجھ کو اپنے علم و دانش اور حسن تدبیر سے ملا ہے۔ دن رات جدو جہد کر کے اپنے کاروبار سے کمایا ہے یہ مال میرا کمایا ہوا ہے۔ میں اس کا مالک ہوں جس طرح چاہوں خرچ کروں جو حاجت مند ہیں وہ آپ کمائیں۔ آج کل کے مغرور اور سنگدل دولت مند بھی اسی قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ یا یوں کہو کہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری لیاقت اور قابلیت اور صلاحیت دیکھ کر مجھ کو یہ دولت دی ہے اور میں اس کا مستحق ہوں فضیلت اور استحقاق کی بناء پر مجھ کو دولت و ثروت ملی ہے اور پھر میں نے اس میں بڑی محنت کی ہے بلا مشقت اور بلا محنت کے یونہی نہیں مل گئی۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم اور تمہارے مشورہ کے مطابق کس طرح خدا کے نام پر اس دولت کو خرچ کرڈالوں۔ (جی ہاں) جس علم و دانش اور قابلیت اور صلاحیت پر اترا رہے ہو اور جس پر اکڑ رہے ہو وہ بھی خدا ہی کی دی ہوئی ہے اور جن اعضاء اور جوارح سے آپ نے اس مال و دولت کے کمانے میں دوڑ دھوپ کی ہے وہ بھی خدا ہی کی پیدا کردہ اور عطا فرمودہ ہیں اور محنت اور مشقت کی قدرت اور قوت بھی خدا ہی کی دی ہوئی ہے تم تو اپنے وجود کے بھی مالک اور مختار نہیں اور تمہاری تندرستی اور بیماری بھی تمہارے اختیار میں نہیں پھر خدا کے مقابلہ میں یہ تکبر اور غرور کیا اور جب خدا کا رسول (موسیٰ علیہ السلام) تم کو خدا کا پیغام پہنچاتا ہے کہ ہماری عطا فرمودہ نعمتوں کے یہ حقوق اور فرائض ہیں ان کو ادا کرو اور فقرا و مساکین پر صدقہ اور خیرات کرو تو حکم خداوندی سن کر یہ تمہارا سر ہلانا کیسا۔ غرض یہ کہ جب قارون نے ناصحین کی نصیحتیں سن کر یہ جواب دیا تو خدا تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کیا اس نادان کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے بہت سی گزشتہ امتوں کو غارت کرچکا ہے جو قوت و طاقت میں اور مال کے جمع کرنے میں اس سے کہیں زیادہ تھیں اور قوت اور مال و دولت ان کو ہلاکت سے نہ بچا سکی۔ ان کے مقابلہ میں قارون کی کیا ہستی ہے۔ قارون کو چاہئے کہ ان سے عبرت پکڑے کہ جس طرح پہلی امتیں مال و دولت کے نشہ میں منعم حقیقی کو بھول گئیں اور اس کے احکام سے سرتابی کے جرم میں ہلاک اور تباہ ہوچکی ہیں۔ اسی طرح مال و دولت کے غرہ میں منعم حقیقی کے حکم سے سرتابی میری ہلاکت اور تباہی کا بھی سبب بن سکتی ہے پہلی امتوں کی تباہی سے قارون کو سمجھ لینا چاہئے کہ قوت و طاقت اور مال و دولت اللہ کی رضا اور محبت کی دلیل نہیں ورنہ اللہ ان کو ہلاک نہ کرتا معلوم ہوا کہ اصل جرم کفر اور ناشکری اور ناسپاسی ہے اور قیامت کے دن اہل جرم سے ان کے جرائم کے متعلق تحقیق حال یعنی علم حاصل کرنے کے لئے سوال نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو مجرمین کے ذنوب کی کیفیت خوب معلوم ہے اس کو سوال کرنے اور پوچھنے کی ضرورت نہیں البتہ توبیخ اور سرزنش کے لئے ان سے سوال اور باز پرس ہوگی۔ کما قال اللہ تعالیٰ فو ربک لنسأ لنہم اجمعین عما کانوا یعملون۔ (یا یہ معنی ہیں) کہ قیامت کے دن فرشتے مجرموں سے سوال نہ کریں گے ان کی پیشانی کے نشان سے پہچان لیں گے کیونکہ یہ لوگ سیاہ رو اور نیلگوں چشم محشور ہوں گے اپنی علامت سے پہچانے جائیں گے۔ یعرف المجرمون بسیماہم۔ (یا یہ معنی ہیں) کہ قیامت کے دن اس قسم کے مجرموں سے کوئی سوال نہ ہوگا بغیر سوال اور بغیر حساب کے دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے یعنی ان کے گناہ اور جرم اس قدر کثیر تعداد میں ہوں گے کہ پوچھنے کی ضرورت نہ ہوگی۔ (یا یہ معنی ہیں) کہ ہماری سنت جاریہ یہ ہے کہ ایسے مجرمین کو بغیر پوچھ گچھ کے ہی دنیا میں کیفر کردار کو پہنچا دیا جاتا ہے اور آخرت کے سوال اور وہاں کی پوچھ گچھ الگ رہی۔ فی الحال دنیا میں ایسے مجرموں کو یکلخت عذاب سے ہلاک کردیا جاتا ہے اور آخرت کا سوال اپنے وقت پر ہوگا۔ (یا یہ معنی ہیں) کہ جب وقت آجاتا ہے تو مجرموں سے کچھ نہیں پوچھا جاتا یعنی ان کا کوئی عذر نہیں سنا جاتا۔ اس آیت کی تفسیر میں ہم نے مختلف اقوال ہدیہ ناظرین کر دئیے ہیں۔ تفصیل کے لئے روح المعانی ص 105 ج 20 و تفسیر قرطبی ص 316 ج 13 دیکھیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ قارون نے نہ تو گزشتہ اہل دولت و ثروت کی تباہی اور ہلاکت سے عبرت پکڑی اور نہ اپنی قوم کے ناصحین کی نصیحت سنی اور اپنے غرور اور نخوت پر قائم رہا پس نوبت بایں جار سید کہ ایک روز قارون اپنی قوم بنی اسرائیل پر زیب وزینت کے ساتھ آراستہ ہو کر نکلا تاکہ لوگوں کے سامنے اپنی شان و شوکت کا مظاہرہ کرے چناچہ جب وہ اس زیبائش اور آرائش کے ساتھ نکلا تو دیکھنے والوں کی آنکھیں متحیر ہونے لگیں تو جو لوگ دنیا کے طالب اور راغب تھے وہ اس شان و شوکت اور دبدبہ کو دیکھ کر کہنے لگے۔ کاش ہم کو بھی ایسا ہی مال ومنال اور جاہ و جلال ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے بیشک قارون بڑے نصیبہ والا ہے کہ اس کو یہ بخت اور دولت حاصل ہے ان لوگوں کی نظر آخرت کی نعمت سے چوک گئی اور اس دنیائے فانی کی ظاہری زینت کی تمنا کرنے لگے اور جن لوگوں کو صحیح علم اور فہم عطا کیا گیا تھا اور صبر اور قناعت اور توکل وغیرہ کی حقیقت کو جانتے تھے جیسے حضرت یوشع (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب انہوں نے ان جہال تمنا کرنے والوں سے کہا۔ افسوس اور صد افسوس تم پر اے طالبان دنیا اور گرفتاران حرص وطمع اس دنیائے فانی پر کیا للچاتے اور رال ٹپکاتے ہو۔ خدا کا ثواب اس دنیا کے مال و دولت اور اس کی شان و شوکت اور زیب وزینت سے لاکھوں درجہ بہتر ہے اور یقین رکھو کہ اللہ کا ثواب اس دنیا کے اس شخص کے واسطے ہے جو خدا اور رسول پر ایمان لائے اور نیک کام کرے ایمان اور عمل صالح کے مقابلہ میں دنیا کی کچھ ہستی نہیں اور قارون کے پاس جو ہے وہ توہیچ در ہیچ ہے ایمان اور عمال کا اجر قیاس اور گمان سے باہر ہے اور نہیں اترتا علما کا یہ کلمہ نصیحت کسی دل میں مگر صبر کرنے والوں کے دل میں جنہوں نے دنیا کی حرص اور طمع سے صبر کیا۔ (یا یہ معنی ہیں) کہ ایمان اور عمل صالح کی دولت صبر کرنے والوں ہی کو ملتی ہے (یا یہ معنی ہیں) کہ آخرت کی لازوال نعمتیں دنیا سے صبر کرنے والوں ہی کو ملتی ہیں۔ اہل صبر از جملہ عالم برترند صابراں ازاوج گردوں بگذر ند ہر کہ کا رد تخم صبر اندر جہاں بدرود محصول عیش صابراں پس جب قارون دنیا سے صبر نہ کرسکا اور دل سے ایمان بھی نہ لایا اور علماء وصلحا کی نصیحت بھی نہ سنی۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے حسد میں گرفتار ہوگیا تو ہم نے قارون کو مع اس کے مکان کے جس میں اس کے تمام خزانے تھے زمین میں دھنسا دیا۔ ساری بڑائی یکلخت خاک میں مل گئی۔ قارون مع خزانوں کے زمین میں دھنسا دیا گیا اگر فقط قارون کو دھنسایا جاتا اور خزانے بطور مال غنیمت چھوڑ دئیے جاتے تو ممکن تھا کہ کوئی بدباطن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جناب میں مال کی حرص اور طمع کا گمان کر بیٹھتا۔ قصہ یہ ہوا کہ قارون کو موسیٰ (علیہ السلام) پر بڑا حسد تھا۔ درپے ایذا رہتا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) صبر فرماتے جیسا کہ قرآن کریم میں اجمالا اس ایذا کا ذکر ہے۔ یایھا الذین امنوا لا تکونوا کالذین اذوا موسیٰ ۔ یہاں تک کہ قارون جوش حسد میں اعلانیہ طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کی تحقیر وتذلیل پر اتر آیا۔ ایک روز موسیٰ (علیہ السلام) نے قارون سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر زکوٰۃ کا حکم نازل کیا ہے اور مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تجھ سے زکوٰۃ لوں۔ قارون نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا کہ زکوٰۃ خواہ کتنی ہی قلیل ہو مگر پھر بھی مجموعہ مل کر ایک کثیر رقم ہوجاتی ہے۔ زکوٰۃ دینے سے صاف انکار کردیا اور کہنے لگا کہ اے بنی زکوٰۃ خواہ کتنی ہی قلیل ہو مگر پھر بھی مجموعہ مل کر ایک کثیر رقم ہوجاتی ہے۔ زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا کہ زکوٰۃ خواہ کتنی ہی قلیل ہو مگر پھر بھی مجموعہ مل کر ایک کثیر رقم ہوجاتی ہے۔ زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا اور کہنے لگا کہ اے بنی اسرائیل یہ شخص (یعنی موسیٰ (علیہ السلام) نماز کا حکم لے کر آیا ہے اور اس کے علاوہ اور احکام لے کر آیا ہے تم نے برداشت کرلیا۔ اب یہ زکوٰۃ کا حکم لے کر آیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ تمہارے مال ہضم کر جائے اور (اپنے خاص مجمع میں) بولا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو قوم میں رسوا کروں کہ اس کی کوئی بات نہ سنے اور تدبیر یہ کی کہ ایک بدکار عورت کو ایک کثیر رقم دے کر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ بھرے مجمع میں موسیٰ (علیہ السلام) پر زنا کی تہمت لگائے یہ بات اندرونی طور پر طے پا گئی۔ دوسرے یا تیسرے دن موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو امرونہی بیان فرما رہے تھے اسی میں یہ بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ جو شادی شدہ شخص زنا کرے گا اس رجم (سنگسار) کیا جائے تو قارون کا کوئی آدمی کھڑا ہوا اور بولا اگرچہ تو ہی ہو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا۔ ہاں۔ اس پر قارون کے لوگوں نے اس عورت کو بلوایا۔ اس عورت نے بھرے مجمع میں موسیٰ (علیہ السلام) پر زنا کی تہمت لگائی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس عورت سے کہا کہ میں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کہ سچ سچ بتلا اس عورت پر ہیبت الٰہی غالب ہوئی اور بولی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) جب تم نے مجھے اللہ کی قسم دی ہے تو میں سچ سچ بتلائے دیتی ہوں کہ قارون نے مجھ کو اتنی رقم دے کر اس پر آمادہ کیا ہے کہ میں تجھ پر تہمت لگاؤں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ تم اس سے بالکل بری ہو اور میں گواہی دیتی ہوں کہ تم اللہ کے رسول ہو۔ (اس طرح قارون کا سارا مکر بنی اسرائیل پر کھل گیا) ۔ موسیٰ (علیہ السلام) یہ سن کر سجدہ میں گرگئے اور زارو قطار رو کر دعا مانگنے لگے اور کہنے لگے کہ اے اللہ اگر میں تیرا رسول برحق ہوں تو میرے لئے اس پر اپنا قہر اور غضب نازل فرما۔ اللہ کی طرف سے وحی آئی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ہم نے زمین کو حکم دے دیا ہے کہ قارون کے بارے میں تم زمین کو جو حکم دو گے وہ اس کی اطاعت کرے گی چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے زمین کو حکم دیا کہ قارون کو مع اس کے گھر کے نگل جائے۔ زمین نے فورا اس کو پکڑ لیا اور وہ دھنسنا شروع ہوگیا یہاں تک کہ وہ لوگوں کی نظروں سے غائب ہوگیا۔ دیکھو تفسیر روح المعانی ص 106 ج 20 و تفسیر ابن کثیر ص 401 ج 3۔ نکتہ : حدیث میں ہے کہ وہ قیامت تک زمین میں دھنستا رہے گا۔ حافظ عسقلانی (رح) فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین قارون کے جسم کو نہیں کھائے گی۔ پس ممکن ہے کہ اس سے ایک معمی بنایا جائے اور یہ کہا جائے کہ بتلاؤ وہ کون سا کافر ہے کہ مرنے کے بعد جس کا جسم بوسیدہ نہ ہوگا اور وہ قارون ہے۔ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ قارون ملعون بقدر اپنے قد کے روزانہ زمین میں دھنستا رہے گا۔ یہاں تک کہ جب قیامت کے لئے نفخ صور ہوگا۔ تب بالکل زمین کے نیچے پہنچ جائے گا۔ تفسیر ابن کثیر ص 401 ج 3۔ و تفسیر قرطبی ص 318 ج 13۔ جس طرح فرعون کی غرقابی موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ تھا اسی طرح قارون کا موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے زمین میں دھنسنا بھی موسیٰ (علیہ السلام) کا دوسرا معجزہ تھا۔ پہلا معجزہ بحری تھا اور یہ معجزہ بری تھا۔ گنج قاروں کہ فرومی رود از قہر ہنوز خواندہ باشی کہ ہم از غیرت درو یشانست پس جب قارون اس ذلت و خواری کے ساتھ زمین میں دھنسا تو کوئی ایسی جماعت اور پارٹی نہ ہوئی جو اس کی مدد کرتی اور اللہ کے عذاب سے اس کو بچاتی اور نہ وہ بذات خود اپنے سے عذاب کو روکنے والوں میں سے ہوا خدا کے انتقام کو کون روک سکتا ہے یعنی وہ نہ خود اپنے سے عذاب کو روک سکا اور نہ اس کی پارٹی روک سکی اور اس ذلت و خواری کی ابتداء اس سے ہوئی کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے قارون کو زکوٰۃ دینے کا حکم دیا تو قارون نے انکار کردیا اور یہ کہا کہ یہ خزانہ میں نے اپنی قابلیت اور صلاحیت اور جدوجہد سے حاصل کیا ہے میں کیوں اس کی زکوٰۃ دوں۔ انکار زکوٰۃ کے بعد تمرد اور سرکشی کا مادہ بڑھتا گیا۔ نوبت بایں جا رسید کہ زمین میں مع خزانوں کے دھنسا دیا گیا۔ صدیق اکبر ؓ نے جو منکرین زکوٰۃ کے ساتھ معاملہ فرمایا غالبا قارون کا واقعہ ہی ان کی نظروں کے سامنے ہوگا امت محمدیہ کو اس فتنہ اور وبال سے محفوظ رکھنے کے لئے منکرین زکوٰۃ کے ساتھ مرتدین جیسا معاملہ فرمایا پورے دین سے ارتداد یا دین کے کسی جز سے ارتدادو کفر میں سب برابر ہے افتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض۔ اور جب صبح ہوئی تو ان لوگوں کی بھی خواب غفلت سے آنکھ کھلی جو کل گزشتہ قارون کے مکان اور جاہ کے آرزو مند تھے۔ قارون کے دھنستے ہی ہوش میں آگئے اور آپس میں کہنے لگے وائے اور ہائے افسوس ہم نے جو سمجھا تھا وہ غلط تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ رزق کو فراخ کرتا ہے جس کے لئے چاہے اپنے بندوں میں سے اور تنگ کرتا ہے جس کے لئے چاہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم سمجھے ہوئے تھے کہ رزق کی وسعت اور فراخی کرامت اور بزرگی کی دلیل ہے اور تنگی اور تنگدستی ذلت اور خواری کا نشان ہے۔ قارون جیسے دولت مند کے خسف کو دیکھ کر ہماری سمجھ میں آگیا کہ ہمارا خیال غلط تھا۔ صحیح حقیقت یہ ہے کہ رزق کی فراخی اور تنگی بمقتضائے مشیت الٰہی ہے اور اس خوب جانتا ہے۔ اس میں عزت وذلت کا کچھ لحاظ نہیں۔ سعادت اور شقاوت کا دارومدار ایمان اور کفر پر ہے۔ امیری اور فقیری پر نہیں۔ رزق کی فراخی اور تنگی اس کی مشیت کے کرشمے ہیں دنیاوی عزت ووجاہت کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرلینا کہ یہ شخص اللہ کے نزدیک مقبول ہے غلط ہے اور ایک فقیر اور درویش کو دیکھ کر یہ رائے قائم کرلینا کہ یہ شخص ذلیل اور خوار ہے یہ بھی غلط ہے۔ دیکھ لو کہ موسیٰ (علیہ السلام) خدا کے ایک درویش تھے اور قارون اس زمانہ کا سب سے بڑا دولت مند تھا۔ ایک درویش کی دعا سے کس طرح ذلت و خواری کے ساتھ زمین میں دھنسایا گیا جس ذلت و خواری کا تماشہ دنیا نے دیکھا۔ جملہ قرآن ہست وقطع سبب عزدرویش وہلاک بولہب غرض یہ کہ کل گزشتہ جو لوگ قارون کے مکان اور رتبہ جیسی آرزو کر رہے تھے۔ قارون کی اس ذلت و خواری کو دیکھ کر ان آنکھیں کھلیں اور سمجھے کہ معاملہ تو برعکس ہے اور یہ ہماری تنگی اللہ کی نعمت ہے تو مال و دولت کی حسرت کو چھوڑ کر اپنی تنگی کے شکر میں مشغول ہوگئے اور کہنے لگے کہ اگر اللہ کا ہم پر احسان نہ ہوتا تو ہم کو بھی قارون کی طرح زمین میں دھنسا دیتا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہم کو مال و دولت کے فتنہ سے بچایا کیونکہ مال کی کثرت تکبر اور غرور اور فسق وفجور کی تمنا کی تھی وہ اس نے پوری نہیں کی۔ ہائے خرابی اللہ ہم کو اس قسم کی تمنا اور آرزو سے پناہ میں رکھے۔ حقیقت یہ ہے کہ منکروں اور ناشکروں کے لئے فوزو فلاح نہیں۔ الحمد للہ ہم اگرچہ مفلس ہیں مگر خوش نصیب ہیں اور قارون اگرچہ دولت مند تھا مگر بدنصیب تھا کیا برا انجام ہوا مال وزر کی ترقی سے حقیقی فلاح اور کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ حقیقی فلاح اور کامیابی ایمان عمل صالح سے حاصل ہوتی ہے۔ فائدہ علمیہ ونحویہ دربارہ تحقیق کلمہء ویکان کلمہ ویکان جو اس رکوع کے آخر میں دو مرتبہ آیا ہے اس کے بارے میں ایمہء نحو کا اختلاف ہے بصر یین اور خلیل بن احمد اور سیبویہ کا مذہب یہ ہے کہ یہ لفظ ویے مستقل کلمہ ہے اور اسم فعل ہے۔ بمعنی اعجب اور یہ کلمہ تعجب اور ندامت اور حسرت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی شخص کسی بات پر نادم اور پشیمان ہوتا ہے تو اظہار ندامت و حسرت کے لئے یہ لفظ بولتا ہے اور لفظ کان تشبہ کے لئے ہے یا تعلیل کے لئے ہے اور معنی یہ ہے۔ اعجب لان اللہ یبسط الرزق لمن یشاء اس صورت میں لفظ ویے پر وقف ہوگا اور یہی قراءت کسائی کی ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی زبان سے اتفاقا جو یہ تمنا نکل گئی تھی۔ یا لیت لنا مثل ما اوتی قارون۔ جب ان کو تنبہ ہوا تو اپنی اس تمنا اور آرزو پر نادم اور پشیمان ہوئے اور بصد حسرت وندامت کہنے لگے کہ ہائے افسوس ہم سے غلطی ہوئی ہم نے جو خیال کیا تھا وہ غلط تھا ہم نے قارون کی ظاہری شان و شوکت کو دیکھ کر یہ خیال کیا کہ رزق کی وسعت عزت و کرامت کی علامت ہے اور تنگی ذلت و خواری کی علامت ہے ہمارا یہ خیال غلط ہے بلکہ فراخی اور تنگی بمقتضائے مشیت الٰہی ہے جس کی حکمت سوائے خدا تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں۔ اور کو فیین یہ کہتے ہیں کہ ویک ایک کلمہ ہے جو اصل میں ویلک تھا۔ کثرت استعمال کی وجہ سے لام تخفیفا حذف کردیا گیا اس صورت میں اصل کلمہ ویل ہوگا اور کاف حرف خطاب کا ہوگا اور لفظ ویک پر وقف ہوگا جیسا کہ ابو عمرو (رح) کی قرات میں ہے اور یہ کلمہ بطور بددعا زجر اور توبیخ کے لئے مستعمل ہوتا ہے اور لفظ ان اللہ بفتح ہمزہ اعلم مقدر کا مفعول یہ ہے اور اور اس صورت میں آیت کا مطلب ان لوگوں کی زجرو توبیخ ہوگی جنہوں نے اپنی جہالت سے مال فراخی کو عزت اور تنگدستی کو ذلت سمجھا اور اس بات پر تنبیہ مقصود ہوگی کہ رزق کی وسعت اور تنگی محض اللہ کی مشیت اور حکمت کے تابع ہے عزت اور ذلت کی دلیل نہیں۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ لفظ ویکان پورا ایک کلمہء بسیط ہے دو حرفوں سے مل کر نہیں بنا بلکہ ایک مستقل کلمہ ہے جس کے معنی الم تر اور الم تعلم ان اللہ یبسط الرزق۔ کے ہیں یعنی کیا تو نے نہیں دیکھا اور کیا تو نے نہیں جانا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے روزی کھولتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کرتا ہے رزق کی فراخی اور تنگی کسی بزرگی کی وجہ سے نہیں بلکہ محض اس کے ارادہ اور مشیت سے ہے۔ حضرات اہل علم ویکان کی تحقیق کے لئے حاشیہ شیخزادہ علی تفسیر البیضاوی ص 523 ج 3۔ اور حاشیہ صاوی علی تفسیر الجلالین ص 228 ج 3 دیکھیں۔
Top