Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 128
لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ اَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَاِنَّهُمْ ظٰلِمُوْنَ
لَيْسَ لَكَ : نہیں ٓپ کے لیے مِنَ : سے الْاَمْرِ : کام (دخل) شَيْءٌ : کچھ اَوْ يَتُوْبَ : خواہ توبہ قبول کرے عَلَيْھِمْ : ان کی اَوْ : یا يُعَذِّبَھُمْ : انہیں عذاب دے فَاِنَّھُمْ : کیونکہ وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
(اے پیغمبر ﷺ اس کام میں تمہارا کچھ اختیار نہیں (اب دو صورتیں ہیں) یا خدا ان کے حال پر مہربانی کر کے یا انہیں عذاب دے کہ یہ ظالم لوگ ہیں
رجوع بقصہ احد۔ قال اللہ تعالی۔ لیس لک من الامرشئی۔۔ الی۔۔ واللہ غفور رحیم۔ غزوہ احدم میں جب آپ کا دندان مبارک شہید ہوا تو آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ کیسے فلاح پاسکتے ہیں جنہوں نے اپنے پیغمبر کے چہر کو زخمی کیا ہو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی بخاری کی روایت میں ہے کہ آپ نے چند کفار کے لیے جنہوں نے مسلمانوں کو شہید کیا تھا نام بنام صبح کی نماز میں بدعا کی تھی اور لعنت شروع فرمائی اس پر آیت نازل ہوئی (اے محمد ﷺ آپ کو اس کام میں کچھ اختیار نہیں لعنت اور رحمت اور ہدایت اور ضلالت سب اسی کے اختیار میں ہے وہ جو چاہے کرے یا تو وہ ان پر توجہ فرمائے کہ ان کو توبہ کی توفیق دے اور جو لوگ آج آپ کے اور آپ کے دین کے دشمن ہیں وہ کل کو خدا کی قدرت اور مشیت سے آپ کے عاشق جانثار اور دین اسلام کے محافظ اور پاسبان بن جائیں یا ان کو اللہ نے عذاب دے دنیا میں یا آخرت میں کہ دنیا میں قتل ہوں اور کفر پر جمے رہیں اور کفر ہی مریں اور دوزخ کا ایندھن بنیں کیونکہ تحقیق یہ لوگ بڑے ظالم ہیں ایسی ہی سزا کے مستحق ہیں لہذا آپ ان پر دعا نہ کریں چونکہ اللہ کو معلوم تھا کہ ان میں کے اکثر افراد آئندہ چل کر مشرف باسلام ہوں گے اس لیے یہ آیت نازل ہوئی آپ نے ان پر بددعا کرنی چھوڑ دی اور اللہ ہی ملک ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور مالک کو اختیار ہے کہ جس کو چاہے معاف کرے اور جس کو چاہے عذاب دے کوئی شے اس پر واجب نہیں اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے لہذا تم بددعا میں عجلت نہ کرو چناچہ اللہ کی رحمت اور مغفرت غالب آئی اور آپ کے دشمنوں کو اسلام کی ہدایت ہوئی نبی پر حق جل شانہ کی محبت اور کفر وشرک کی عداوت کا غلبہ تھا اس لیے کہ آپ دشمنانان خدا پر لعنت فرماتے مگر پردہ قضاء وقدر میں کیا مستور ہے اس کا آپ کو علم نہ تھا اس لیے حکم نازل ہوا کہ آپ ان پر لعنت نہ فرمائیں عنقریب یہ لوگ دین کے خدمت گار اور جان نثار بنیں گے۔ فائدہ۔ اس آیت کے شان نزول میں مختلف روایتیں ہیں ایک روایت میں ۃ ے کہ احد کی لڑائی میں جن لوگوں نے آپ کو زخمی کیا آپ نے ان کے حق میں بددعا کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ایک روایت میں ہے کہ جب قبیلہ رحل اور ذکوان نے ستر صحابہ کو شہید کرڈالا جس کو واقعہ بیر معونہ کہتے ہیں جب آپ نے ان قبائل پر بددعا کی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور امام احمد اور امام بخاری کی روایت میں ہے کہ آپ صبح کی نماز میں قومہ کے بعد دوسری رکعت میں یہ دعا کرتے اے اللہ لعنت کر، صفوان بن امیہ پر اور لعنت کر سہیل بن عمرو پر اور لعنت کر حارث بن ہشام پر اور چند قریش کے سرداروں کے نام لے کر بددعا فرماتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی حافظ عسقلانی فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ یہ واقعات احد ہی کے سال میں پیش آئے اور بیر معونہ کا واقعہ احد کے چارماہ بعد صفر 4 ہجری میں پیش آیا اس لیے یہ کہنا صحیح ہے کہ اس آیت کا نزول ان تمام واقعات میں ہوا۔ فائدہ نمبر 2۔ اللہ کے دو انتظام ہیں ایک تشریعی اور ایک تکوینی تشریعی انتظام کا تعلق انبیاء کرام سے ہے اور تکوینی انتظام کا تعلق ملائکہ سے ہے یعنی قضاء قدر کے حکم کے مطابق انتظام ہوتا ہے اور خضر کے انتظام کا تعلق بھی امور تکوینیہ سے ہے اور موسیٰ نے جو خضر (علیہ السلام) پر اعتراض فرمایا وہ اسباب شرعیہ کی بناء پر تھا، اسی طرح نبی اکرم کا خاص خاص دشمنان اسلام پر نام بنام، بددعا کرنا اسباب شرعیہ کی بنا پر تھا کہ یہ دشمنان اسلام اسی قابل ہیں کہ ان پر بددعا کی جائے مگر چونکہ قضاء وقدر میں یہ طے چکا تھا کہ ان لوگوں میں سے اکثر مشرف باسلام ہوں گے اس لیے حق تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرما کر نبی ﷺ کو ان لوگوں کے حق میں بددعا کرنے سے منع فرمایا یہ تکوینی انتظام تھا۔
Top