Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 130
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو ایمان لائے (ایمان والے)
لَا تَاْ كُلُوا
: نہ کھاؤ
الرِّبٰٓوا
: سود
اَضْعَافًا
: دوگنا
مُّضٰعَفَةً
: دوگنا ہوا (چوگنا)
وَاتَّقُوا
: اور ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تُفْلِحُوْنَ
: فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ اور خدا سے ڈرو تاکہ نجات حاصل کرو
ترہیب وتحذیر از نار آخرت وترغیب براعمال جنت۔ قال اللہ تعالی۔ یا ایھا الذین امنو لا تاکلو۔۔۔۔۔ الی۔۔۔۔ العالمین۔ (ربط) ظاہر میں ان آیات کا ماقبل سے کوئی تعلق معلوم ہوتا ہے اس لیے بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ جداگانہ اور مستقل کلام ہے جس میں اللہ نے امرونہی اور ترغیب وترہیب کو جمع کیا ہے مکارم اخلاق اور محاسن اعمال کو بیان فرمایا ہے اور بعض علماء نے ان آیات کا ماقبل کے ساتھ اتصال اور ربط بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ گزشتہ آیات میں صبر اور تقوی کا حکم تھا اور کفار کے ساتھ دوستی اور خلط ملط اور ان کو راز دار بنانے کی ممانعت تھی اب ان آیات میں پھر صبر اور تقوی کو بیان کرتے ہیں کہ صبر اور تقوی کیا چیز ہے اور صابر اور متقی کون لوگ ہیں اور ان کے کیا اوصاف ہیں جن میں سے سب سیپہلی سود کی ممانعت فرمائی کہ اکل حلال تقوی کی جڑ اور بنیاد ہے نیز کفار سودی کاروبار کرتے ہیں اور جو نفع حاصل ہوتا اسے لڑائیوں میں خرچ کرتے ہیں چناچہ احد کی لڑائی میں جو مال خرچ کیا وہ وہی مال تھا جو اس قافلہ کی تجارت سے نفع حاصل ہوا جو بدر کے سال شام سے آیا تھا اب اللہ مسلمانوں کو سود سے ڈراتے ہیں کہ تم کفار کی طرح یہ خیال نہ کرنا کہ ہم بھی سودی کاروبار سے جنگوں میں مدد لیں خوب معلوم ہوا کہ جس طرح انفرادی ضرورت کی بنا پر قرض دے کر سود لینا حرام ہے اسی طرح اجتماعی تجارت میں بھی سودی کاروبار حرام ہے زمانہ جاہلیت میں دونوں طرح کا سود مروج تھا۔ لوگ انفرادی طور پر بھی تجارت کرتے تھے اور اجتماعی طور پر بھی پورا قبیلہ مل کر تجارتی کاروبار کرتا تھا اس زمانہ میں اس کا نام کمپنی اور بنک ہوگیا باقی حقیقت وہی ہے جو پہلے زمانہ میں تھی نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی قرآن کریم میں نازل ہوا جس نے ہر قسم کے سود کو حرام قرار دیا خواہ وہ انفرادی تجارت پر ہو یا اجتماعی یعنی کمپنی کی تجارت پر ہو جیسا کہ کتب تفاسیر میں انفرادی اور قبائلی ربا کے واقعات باالتفصیل مذکور ہیں قرآن نے مطلق سود کو حرام قرار دیا ہے خواہ وہ کسی صورت سے ہو کیونکہ رہا شریعت میں اس مالی زیادتی کا نام ہے جس کے عوض اور مقابلہ میں مال نہ ہو مثلا ایک شخص کسی کو سوروپیہ قرض دیتا ہے اور یہ شرط لگاتا ہے کہ اگر چھ ماہ کے بعد ادا کرو گے تو اس پر پانچ روپے زائد لوں گا اور اگر ایک سال کے بعد ادا کرو گے تو دس روپیہ لوں گا پس جب اس شخص نے سور روپیہ کے بدلہ میں ایک سو دس روپیہ دیا تو سورپیہ تو اصل رقم کے عوض اور مقابلہ میں ہوگئے اور یہ دس روپیہ کسی مال کے عوض اور مقابلہ میں نہیں یہ سود ہوا کیونکہ یہ زیادتی کسی مال کے عوض اور بدلہ میں نہی رہی چھ مہینہ یا سال کی مدت سو وہ کوئی مال نہیں جس کے عوض میں مال لیاجاسکے بنک کے سود میں یہی ہوتا ہے اس لیے جس طرح زمانہ جاہلیت اولی کا سود حرام تھا اسی طرح اس جاہلیت ثانیہ یعنی اس متمدن اور مہذب جاہلیت کا سود بھی قطعا حرام ہوگا لہذا کسی جدت پسند کا یہ کہنا کہ شخصی ضروریات کے لیے تو سودی کاروبارحرام ہے اور اجتماعی تجارت کے لیے حلال ہے یہ قرآن و حدیث میں تحریف ہے اور یہ کہنا کہ زمانہ جاہلیت میں صرف انفرادی ضرورتوں کے لیے سود ہوتا تھا اور اجتماعی تجارت پر سود کارواج نہ تھا اول تو یہ غلط ہے اس لیے کہ آیت کے شان نزول سے معلوم ہوچکا کہ زمانہ جاہلیت میں دونوں قسم کے سود رائج تھے اور اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیا بھی جائے کہ اس زمانہ میں اجتعمای تجارت پر سود رائج نہ تھا تو اس خاص صورت کا اس زمانہ میں موجود نہہونا ہمارے لیے مضر نہیں شریعت نے مطلق ربا کو حرام قرار دیا ہے جس معاملہ پر ربا کی تعریف صادق آئے گی وہ حرام ہوگا چوری اور زنا کو شریعت نے حرام قرار دیا اگر وہ گزشتہ زمانہ کے طرح غیر مہذب ہو یا موجودہ تہذیب اور تمدن کے طریقہ پر کسی بڑے ہوٹل میں ہو ہر حال میں حرام ہے حلت اور حرمت کا مدار اصل حقیقت پر ہے نہ کہ کسی خاص صورت پر۔ (ربط دیگر) ۔ گزشتہ آیات میں، اذ ھمت طائفتان منکم ان تفشلا۔ آیت۔ میں قبیلہ بنوحارثہ اور بنی سلمہ کی بزدلی کا ذکر ہے کہ جہاد کے موقع پر نامردی دکھائی اب اس آیت میں سود کی ممانعت بیان فرماتے ہیں اشارہ اس طرف ہے کہ سود کھانے یعنی حرام مال کھانے سے نامردی اور بزدلی پیدا ہوتی ہے۔ جاہلیت میں سود کا دستور ایسا تھا جس طرح ہندوستان کے بنیے اور لالہ لوگ لیتے ہیں کہ جب قرض دار مدت معینہ پر روپیہ ادا نہ کرسکا تو قرض خواہ سود کو اصل میں شامل کرکے قرض کی مدت بڑھا دیتا اور چند روز کے لیے اس کو مہلت دے دیتا پھر اگلی قسط پر سود اور بڑھ جاتا اور قرض دار وقت پر بوجہ مجبوری نہ ادا کرسکتا تو پھر سود خوار سود کو اصل میں جمع کرکے اس پر سود لگاتا اور اسی طرح بڑھاتا رہتا یہاں تک کہ سو روپیہ قرض کے بدلہ میں ایک ہزار کی جائداد کا مالک بن جاتا اس لیے ارشاد فرمایا اے ایمان والو مت کھاؤ سود دو نے پر دونا تو برتو کہ اصل سے کئی گنا زیادہ ہوجائے مطلب یہ ہے کہ اصل قرض سے ایک پائی بھی زائد لینا جرم ہے اور صریح ظلم ہے اور کھلا ہوا بخل ہے کہ خدا کے لیے ذرہ برابر بلامعاوضہ کسی کی ہمدردی بھی گوارا نہیں۔ اور اصل قرض سے کئی گنا زائد لے لینا اس کی قباحت اور شناعت کی تو کوئی حد نہیں اضعافا مضاعفہ سود تو قساوت قلبی اور بےرحمی کی آخری منزل ہے۔ آیات قرآنیہ اور بیشمار احادیث نبویہ سے مطلق ربا کی کلیتا ممانعت اور حرمت ثابت ہے اور اس آیت میں جو اضعافا مضاعفہ کا لفظ آیا ہے وہ قید احتراز ہی نہیں بلکہ توبیخ اور سرزنش کے لیے جو اس زمانہ میں رائج تھی جیسے کوئی نیک دل اور دین دار حاکم کسی موقعہ پر اپنے عملہ کے ان لوگوں سے جو رشوت خوار ہوں یہ کہے کہ صاحبو زیادہ حرام نہ کھاؤ اور حد سے نہ بڑھو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ تھوڑا حرام کھانا تو جائز ہے اور زیادہ حرام کھانا ناجائز ہے۔ ایسے الفاظ مزید تقبیح اور تشنیع کے لیے بولے جاتے ہیں جیسے، فلا تجعلو اللہ اندادا۔ آیت۔ فرمایا یعنی خدا کے لیے متعدد شریک نہ ٹھہراؤ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا کے لیے ایک دو شریک ٹھہرانا جائز ہے اور تین چار ناجائز ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ خدائے برتر کا تو ایک بھی شریک نہیں مگر تم ایسے ظالم ہو کہ تم نے خدا کے لیے بہت سے شریک ٹھہرا رکھے ہیں کماقال تعالی۔ وتجعلون لہ اندا، ومن الناس من یتخذ من دون اللہ اندادا۔ وجعلوللہ شرکاء، ویوم ینادیھم این شرکائی۔ آیت۔ ان سب آیات کا یہی مطلب ہے کہ نزول قرآن کے وقت سود خواروں کی یہی عادت تھی کہ اضعافا مضاعفہ سود لیتے اس لیے ان کی عادت کی بنا پر اس آیت میں ان کی توبیخ اور سرزنش کے لیے اضعافا مضاعفہ کا لفظ بڑھا دیا گیا ورنہ احل اللہ البیع وحرم الربو۔ آیت۔ جیسی آیات سے بصراحت مطلق ربا کی حرمت ثابت ہے اگر کسی جھوٹے کو کوئی شخص یہ کہے کہ میاں پیٹ بھر کر جھوٹ نہ بولوتو اس کا مطلب نہیں کہ جھوٹ بقدر ذائقہ تو جائز ہے اور پیٹ بھر کرنا جائز ہے بلکہ جھوٹ کی قباحت اور شناعت کے واضح کرنے کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے لاتشتروا بایاتی ثمنا قلیلا۔ آیت۔ میری آیتوں کے بدلہ میں تھوڑی قیمت نہ لو سو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آیات قرآنیہ میں تحریف کرکے زیادہ قیمت لینا تو جائز ہے اور کم قیمت لینا حرام اور ناجائز ہے آیات الیہ کے مقبالہ میں ہفت اقلیم کی دولت بھی ہیش ہے پس جس طرح اس آیت میں ثمن قلیل کی قید عار دلانے کے لیے اسی طرح آیت ربوا میں اضعافا مضاعفہ کی قید عار دلانے کے لیے خوب سمجھ لو خلاصہ کلام یہ کہ اضعافا مضاعفہ کی قید احترازی نہیں بلکہ اس زمانہ کے رسم و رواج کے مطابق جو ظالم اور بےرحم اضعافا مضاعفہ سود لیتے تھے ان کی توبیخ اور سرزنش کے لیے اور ان کو عار دلا کے لیے بڑھائی گئی ورنہ اگر یہ قید احترازی لی جائے تو مطلب آیت کا یہ ہوجائے گا کہ جب تک سود اصل رقم سے کم ازکم سہ چند ہوجائے اس وقت تو حلال ہے یعنی جب تک سو کا سو دو سو ننانوے تک رہے اس وقت تک تو وہ سود حلال ہے اور جب سود پوراتین سو ہوجائے تب حرام ہوگا غرض یہ کہ از روئے قرآن و حدیث ربا مطلقا اور کلیہ حرام ہے اور اضعافا یاغیراضعافا ہو قلیل ہو یا کثیر اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہو اور کامیابی سود نہ لیتے میں ہے اور ڈرو اس آگ سے جو خاص کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے سود خوار جہنم کے اس طبقہ میں رکھے جائیں گے جو خاص کافروں کے لیے تیار کیا گیا ہے اور فرمانبرداری کرو خدا کی اور پیغمبر جو تم کو سود خوری سے منع کرتے ہیں تاکہ تم پر رحم کیا جائے یعنی اگر تم اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق حاجت مندوں کو بلاسود قرض دو گے تو اللہ تم پر رحم کرے گا دنیا میں بھی اور آخر تمہیں بھی اور اے ایمان والو اس آگ سے تو بھاگو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے اور اپنے پروردگار کے سامان مغفرت کی طرف دوڑو اور بہشت کی طرف دوڑو جس کا عرض یعنی پھیلاؤ آسمان اور زمین ہے یعنی اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کی طرف دوڑو جن سے حسب وعدہ خداوندی جنت ملتی ہے تیار کی گئی ہے یہ جنت متقی اور پرہیزگاروں کے لیے اللہ نے اعدت للمتقین بصیغہ ماضی فرمایا یعنی جنت متقیوں کے لیے تیار ہوچکی ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ تعد للمتقین کہ جنت آئندہ زمانہ میں متقیوں کے لیے تیار کی جائیگی تاکہ معلوم ہوجائے کہ جنت تیار ہوچکی ہے انسان کی فطرت میں ہے کہ رغبت اور میلان موجود شی کی طرف ہوتا ہے معدوم کی طرف نہیں ہوتا اس لیے ماضی کا صیغہ استعمال فرمایا تاکہ جنت کی طرف کشش ہو اور تقوی اور پرہیزگاری کو دل چاہے۔ اب آئندہ آیت میں متقین کی دو قسمیں بیان فرماتے ہیں کہ ایک محسنین اور دوسرے تائبین۔ قسم اول۔ اعلی درجہ کے متقی وہ لوگ ہیں کہ جو آسائش اور سختی خوشی اور تکلیف میں خدا کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں یعنی بڑے سخی اور کریم ہیں اور غصہ پی جانے والے یعنی صابر اور حلیم اور بردبار ہیں اور لوگوں کی تقصیر کو معاف کرنے والے بلکہ مزیدبرآں اور نیکی سے پیش آنے والے اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے کہ جنہوں نے اپنی قوت شہویہ اور قوت غضبیہ کو قوت روحانیہ اور عقلیہ کے تابع کردیا ہے۔ قسم دوم۔ اور دوسرے درجہ کے متقی وہ لوگ ہیں کہ جب کبھی وہ کوئی براکام کربیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر کوئی ظلم کر گزرتے ہیں تو فورا اللہ کی عظمت و جلال کو یاد کرتے ہیں اور اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی اور بخشش چاہتے ہیں کیونکہ ان کو خوب معلوم ہے کہ کون ہے جو اللہ کے سوا گناہوں کو معاف کرسکے اور جو گناہ ان سے صادر ہوجاتا ہے جان بوجھ کر اس پر اصرار نہیں کرتے بلکہ نادم اور شرمسار رہتے ہیں ایسے لوگوں کی جزا بخشش اور معافی ہے ان کے پروردگار کی جانب سے اور باغات ہیں کہ جن کے نیچے سے نہریں جاریں ہیں اور یہ لوگ ان میں ابدالا آباد تک رہیں گے اور نیک کام کرنے والوں کا کیا ہی اچھا اجر اور ثواب ہے یہ اجر اور بدلہ تائبین کا ہے قسم وال کے متقی یعنی محسنین کو مقاممحبوبیت حاصل ہے اس لیے محسین کے لیے کسی اجر اور ثواب کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ فقط واللہ یحب المحسنین۔ آیت۔ پر آیت کو ختم کردیا مقام محبوبیت کے بعد اجروثواب کا کیا ذکر۔ حکایت۔ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی بادشاہ کے غلام سے کوئی نازیبا حرکت صادر ہوئی جس پر بادشاہ کو غصہ آگیا اور غلام کو سزا دینے کا ارادہ کیا تو غلام نے عرض کیا کہ اے امیر المومنین اللہ متقین کی صفات میں فرماتا ہے، والکاظمین الغیظ۔ یعنی غصہ کو پی جانے والے، بادشاہ نے کہا کظمت غیظی۔ میں اپنے غصہ کو پی گیا۔ پھر غلام نے کہا اے امیر المومنین پھر اللہ یہ فرماتا ہے والعافین عن الناس۔ یعنی لوگوں کی خطائیں معاف کرنے والے بادشاہ نے کہا عفوت عنک میں نے تیرا قصور معاف کیا بعد ازاں غلام نے عرض کیا اے امیر المومنین اللہ اس کے بعد فرمایا ہے واللہ یحب المحسنین۔ یعنی اللہ احسان کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے بادشاہ نے کہا احسنت الیک فاعتقک۔ میں نے تیرے ساتھ احسان کیا اور تجھے آزاد کیا جاتو اللہ کے لیے آزاد ہے۔ فائدہ۔ 1 علماء نے لکھا ہے کہ صغیرہ پر اصرار کرنے صغیرہ کبیرہ ہوجاتا ہے رفتہ رفتہ طبیعت گناہ سے مانوس ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے بڑے گناہوں پر دلیر ہوجاتا ہے۔ اللھم احفظنا من ذالک۔ آمین۔ فائدہ 2 بمقتضائے بشریت اگر 70 مرتبہ بھی گناہ سرزد ہوجائے مگر سرزد ہوجانے کے بعد اس سے بیزار اور شرمسار ہوجائے اور الہ سے استغفار کرے تو اللہ اس کو معاف کردے گا اور اصرار یہ ہے کہ بےکھٹکے گناہ کرتا رہے اور خدا کی نافرمانی پر ایسا بےباک ہوجائے کہ معصیت سے اس کو ندامت حجالت بھی نہ ہو تو یہ حالت خطرناک ہے جس طرح اپنی عبادت اور زاہد تقوی پر غزہ اور ناز تباہی کا سامان ہے اسی طرح گناہوں پر بےباکی اور دلیری بھی تباہی کا سامان ہے۔
Top