Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 172
اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ١ۛؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌۚ
اَلَّذِيْنَ
: جن لوگوں نے
اسْتَجَابُوْا
: قبول کیا
لِلّٰهِ
: اللہ کا
وَالرَّسُوْلِ
: اور رسول
مِنْۢ بَعْدِ
: بعد
مَآ
: کہ
اَصَابَھُمُ
: پہنچا انہیں
الْقَرْحُ
: زخم
لِلَّذِيْنَ
: ان کے لیے جو
اَحْسَنُوْا
: انہوں نے نیکی کی
مِنْھُمْ
: ان میں سے
وَاتَّقَوْا
: اور پرہیزگاری کی
اَجْرٌ
: اجر
عَظِيْمٌ
: بڑا
جنہوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا و رسول (کے حکم) کو قبول کیا جو لوگ ان میں نیکوکار اور پرہیزگار ہیں ان کے لئے بڑا ثواب ہے
قصہ غزوہ حمراء الاسد۔ قال تعالیٰ الذین استجابوا۔۔۔۔ الی۔۔۔ مومنین۔ ربط) گزشتہ آیات میں غزوہ احد کا قصہ بیان ہوا اب ان آیات میں غزوہ احد ہی کے متعلق ایک دوسرے سے غزوے کا ذکر فرماتے ہیں جو غزوہ حمراء الاسد کے نام سے مشہور ہے اور غزوہ احد سے متصل واقع ہے یا یوں کہو کہ گزشہ آیات میں شہداء احد کا ذکر تھا اب ان آیات میں شہداء احد کے ان اخوان مخلصین کا ذکر فرماتے ہیں جو، الذین لم یلحقوا بھم من خلفھم۔ آیت۔ کا مصداق ہیں یا یوں کہو کہ گزشتہ آیات میں اللہ کی نعمت اور اس کے فضل کی بشارت کا ذکر تھا اور اس آیت میں بھی غزوہ حمراء الاسد کے مجاہدین کے لیے انقلاب بنعمۃ من اللہ وفضل لم یمسسھم سوء۔ آیت۔ کی بشارت کا ذکر ہے اور اہل ایمان کی مدح فرماتے ہیں کہ وہ کسی کی دھمکی میں نہیں آتے بلکہ ان کو اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ ہے وہ ڈرپوک اور بزدل نہیں۔ اس آیت کے شان نزول کے متعلق علماء کے دو قول ہیں۔ پہلا قول۔ یہ ہے کہ یہ آیت غزوہ حمراء الاسد کے متعلق نازل ہوئی جس کی مختصر کیفیت یہ ہے کہ جب ابوسفیان اور اس کا لشکر احد سے مکہ کو واپس ہوا تو راستہ میں خیال آیا کہ ہم نے بڑی غلطی کی کہ ایسی بڑی کامیابی کے بعد مسلمانوں کو زندہ چھوڑ کر کیوں چلے آئے ہم کو چاہیے کہ ہم مدینہ واپس چلیں اور جا کر مسلمانوں کی جڑہی اکھاڑ کر پھینک دیں جب یہ خبر نبی ﷺ کو پہنچی تو یہ اعلان فرمایا کہ صرف وہ لوگ جو احد میں میرے ساتھ شریک تھے وہ دشمن کے تعاقب کے لیے تیار ہوجائیں حاضرین احد کے علاوہ اور کسی کو میں اپنے ساتھ لے جانا نہیں چاہتا مسلمان مجاہدین باوجودیکہ تازہ زخم کھائے ہوئے تھے اور زخموں کی مرہم پٹی کا ارادہ کررہے تھے آپ کا اعلان سنتے ہی زخموں کو بھول گئے اور آپ کے ساتھ ہوئے حضور پرنور ﷺ اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ جن کی تعداد ستر تھی روانہ ہوئے اور مقام حمراء الاسد پہنچے جو مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے ابوسفیان کو جب یہ خبر ملی کہ مسلمان اس کے تعاقب میں چلے آرہے ہیں تو اس پر من جانب اللہ ایسا رعب اور ایسی دہشت طاری ہوئی کہ مسلمانوں پر دوبارہ حملہ کا ارادہ فسخ کیا اور مکہ کی طرف بھاگا اس سفر میں حضور ﷺ کے ہمراہ، حضرت ابوبکر وعمر، عثمان وعلی وطلحہ وزبیر وسعد وعبدالرحمن بن عوف اور عبداللہ بن مسعود، حذیفہ بن یمان اوبوعبیدہ جراح ؓ اجمعین وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔ دوسرا قول۔ اس آیت کے شان نزول کے متعلق یہ روایت ہے کہ یہ آیت غزوہ بدرصغری کے بارے میں نازل ہوئی جس کی مختصر کیفیت یہ ہے کہ جنگ احد سے فارغ ہو کر جب ابوسفیا نے مکی کی واپسی کا ارادہ کیا تو یہ کہا اے محمد ﷺ اگر آپ چاہیں تو ہماری اور تمہاری آئندہ سال موسم بدر میں پھر لڑائی ہو ابوسفیان کا مقصد یہ تھا کہ مقام بدر میں ہمارے بڑے بڑے سردار مارے گئے تھے اب ابوسفیان یہ چاہتا تھا کہ سال آئندہ پھر اسی سال مقام بدر پر دوبارہ جنگ ہو اور ہم احد کی طرح وہاں بھی مسلمانوں کے بڑے بڑے سرداروں کو ماریں تاکہ بدر کا بدلہ ہوجائے۔ نبی ﷺ نے منظور فرمایا اور جب سال پورا ہوگیا تو ابوسفیان دو ہزار کفار قریش کے ساتھ مکہ سے جنگ کے ارادہ سے نکلا پچاس گھوڑے ہمراہ تھے۔ ادھر نبی ﷺ نے صحابہ کو ساتھ چلنے کا حکم دیا صحابہ سنتے ہی رفاقت کے لیے تیار ہوگئے اور مقام بدر پر پہنچ گئے تو ابوسفیان مکہ سے نکل کر ابھی مقام مرالظہران تک پہنچا تھا کہ یکایک دل میں مسلمانوں کا خوف پیدا ہوگیا چاہتا یہ تھا کہ حضور پر نور سے وعدہ پر نہ آئیں تو الزام آپ پر رہے اور میں لڑائی سے بچ جاؤں اس لیے اس کو مناسب یہ معلوم ہوا کہ میں لشکر کو لے کر مکہ واپس جاؤں اتفاق سے اسے نعیم بن مسعود اشجعی مل گیا جو مکہ سے عمرہ کرکے واپس آرہا تھا ابوسفیا نے کہا میں محمد اور اس کے اصحاب سے یہ وعدہ کر آیا تھا کہ کہ بدر کے میلے کے ایام میں سال آئندہ ہماری اور تمہاری جنگ ہوگی لیکن یہ سال خشک سالی کا ہے ایسے وقت میں لڑنا مناسب نہیں اب مجھے یہی بہتر معلوم ہوتا ہے کہ میں مکہ میں واپس چلا جاؤں اور لیکن میں اس بات کو بھی ناپسند کرتا ہوں کہ محمد تو وعدے پر پہنچیں اور میں نہ پہنچوں اس سے مسلمانوں کو اور زیادہ جرات ہوگی تو بہتر یہ ہے کہ اے نعیم تم مدینہ جا کر مسلمانوں پر یہ خبر مشہور کرو کہ قریش مکہ نے تمہارے مقابلہ کے لیے ایک لشکر عظیم تیار کیا ہے جس کا تم مقابلہ نہیں کرسکو گے لہذا تمہارا لڑائی کے لیے نکلنا بہتر نہیں ہے تاکہ مسلمان اس قسم کی خبروں سے خوف زدہ ہوں اور ان کی ہمتیں ٹوٹ جائیں اور ڈر کے مارے جنگ کے لیے نہ نکلیں اور ابوسفیان نے نعیم بن مسعود سے یہ کہا کہ اس کام کی اجرت میں تم کو دس اونٹ دوں گا جسے آج کل کی اصطلاح میں پروپیگنڈا کہتے ہیں جس کی حقیقت سوائے اس کے کچھ نہیں کہ جھوٹ کو سچائی کے پیرائے میں اس طرح پیش کرو کہ سننے والے کو اس کے جھوٹ ہونے کا شبہ بھی نہ ہو۔ لعنۃ اللہ علی الکاذبین۔ آیت۔ یہ پروپیگنڈا یورپ کے ائمہ تہذیب و تمدن کی عجیب و غریب ایجاد ہے مگر اسلام جیسا پاک مذہب اپنے پیروں کو ایک لمحہ کے لیے بھی اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے دشمنوں پر جھوٹ بولیں یا ان پر جھوٹی تہمت لگائیں قرآن کریم پروپیگنڈا کرنے والے کو شیطان بتلاتا ہے جیسا کہ آئندہ آیت میں، انما ذالکم الشیطان یخوف اولیاء۔ آیت۔ نعیم، انعام کالالچ پا کر مدینہ پہنچا دیکھا کہ مسلمان، ابوسفیان کے وعدہ پر جانے کی تیاری کررہے ہیں نعیم نے کہا کہ مکہ کے لوگوں نے تمہارے مقابلہ کے لیے بڑی جمعیت تیار کی ہے تم کو لڑنا بہتر نہیں نعیم نے کہا دیکھو احد کے سال قریش تمہارے گھر پر چڑھ کر آئے اور تمہیں قتل کیا اور کوئی گھر قتل اور زخم سے خالی نہ رہا اور اس پر بھی اگر تم اپنے گھر سے نکل کر ان سے لڑنے جاتے ہو تو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم میں سے ایک شخص بھی جان بچا کر مدینہ واپس نہ آئے گا یہ سن کر مسلمانوں کے دلوں میں بجائے خوف کے جوش ایمانی بڑھ گیا اور کہنے لگے، حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔ آیت۔ اللہ ہمیں کافی ہے اور بہترین کارساز ہے اور خدا جس کا کارساز ہو تو بڑی سے بڑی جمعیت بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور نبی ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا قسم ہے اس خدا کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں ضرور ان کے مقابلہ کے لیے نکلوں گا خواہ مجھ کو تنہاہی جاناپڑے پھر آپ بدر کی طرف روانہ ہوئے اور ستر صحابہ آپ کے ہمراہ ہوئے جو حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔ کہتے ہیں جاتے تھے آپ بدر پر پہنچے اور وہاں آپ نے ابوسفیان کا آٹھ روز تک انتظار فرمایا لیکن ابوسفیان نہ آیا اور لڑائی کچھ نہیں ہوئی اور ان دونوں بدر کا میلہ لگا ہوا تھا مسلمانوں نے اس میں خریدوفروخت کی اور خوب نفع کمایا اور خوب نفع کما کرخیریت کے ساتھ مدینہ واپس آئے اس واقعہ کو غزوہ بدر صغری کہتے ہیں اور احد سے پہلے جو بدر میں لڑائی ہوئی تھی اس کو غزوہ بدر کبری کہتے ہیں۔ اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت پہلے قول کے مطابق غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں نازل ہوئی اور سی کو ابن جریر اور ابن کثیر نے راجح قرار دیا اور صحیح بخاری کی روایت کا سیاق بھی اسی کو مقتضی ہے کہ ان آیات کا نزول غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں ہوا جو غزوہ احد سے متصلا واقع ہوا۔ اور اس آیت کا سیاق بھی اسی کو مقتضی ہے کیونکہ الہ جل شانہ نے الذین استجابوا للہ۔۔ الی۔۔ القرح۔ آیت۔ میں ان حضرات کا یہ وصفبیان کیا ہے کہ یہ لوگ باوجود زخموں کی تکلیف پہنچنے کے رسول کی فرمانبرداری میں جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوئے جو ظاہرا اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ احد کے متصل اور فورا بعد میں پیش آیا کہ غزوہ احد کے زخموں کی تکلیف ابھی باقی تھی مگر پھر بھی جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوئے سو یہ حالت غزوہ حمراء الاسد میں پیش آئی جو غزوہ احد کے متصل واقع ہوا اور غزوہ بدر صغری تو احد کے سال بھر بعد پیش آیا جس وقت مسلمان تندرست ہوچکے تھے اس پر من بعد مااصابھم القرح کا صادق آنا محتاج تاویل ہوگا۔ اس لیے امام فخرالدین رازی نے یہ اختیار فرمایا کہ الذین استجابو۔۔۔ الی۔۔۔۔۔ اجرعظیم۔ یہاں تک کہ آیت غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں نازل ہوئی اور آیت الذین قال لھم الناس۔۔ الی۔۔۔ الوکیل۔ آیت۔ الی قولہ تعالیٰ وخافون ان کنتم مومنین۔ یہاں تک کہ تمام آیتیں غزوہ بدرصغری کے بارے میں نازل ہوئیں غرض یہ کہ اللہ نے دونوں آیتوں میں ان مسلمان کی مدح فرمائی جو ان دونوں غزوں میں شریک ہوئے پہلی آیت میں غزوہ حمراء الاسد کا ذکر ہے اور دوسری آیت یعنی قال لھم الناس الی آخرہ میں غزوہ بدرصغری کا ذکر ہے اور ان دونوں غزوں کے درمیان ایک سال کا فاصلہ ہے اور اس ناچیز کے نزدیک بھی یہی قول ظاہر آیت کے مطابق ہے کہ پہلی آیت یعنی الذین استجابوا، غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں نازل ہوئی اور دوسری آیت یعنی الذین قال لھم الناس۔ غزوہ بدر صغری کے بارے میں نازل ہوئی اس تفصیل کے سمجھ لینے کے بعد اب آیات کی تفسیر سنیے، اللہ نے شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے احد میں زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانا حضور پرنور کے بلانے پر جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوئے اور زخمون کی تکلیف کی پرواہ نہ کی تو بلا شبہ ان لوگوں کے لیے جو ان میں سے نیکو کار اور پرہیزگار ہیں اجر عظیم ہے اس آیت میں یہ اشکال ہے کہ جن لوگوں نے احد میں زخم کھانے کے بعد حمراء الاسد میں جانے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانا تھا وہ سب ہی نیکو کار اور متقی اور پرہیزگار تھے پھر اللہ کے اس فرمانے کے کیا معنی کہ جو ان میں سے نیکوکار اور متقی ہیں ان کے لیے اجر عظیم ہے۔ جواب۔ صاحب کشاف فرماتے ہیں کہ اس جگہ من تبین کے لیے ہے تبعیض کے لیے نہیں اور نیکوکاری اور تقوی کی صفت مدح اور تعلیل کے لیے ہے نہ کہ تقلید کے لیے مقصود ان کی مدح سرائی اور تنویہ شان ہے ورنہ وہ سب ایسے ہی تھے اور مطلب آیت کا یہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے احد میں زخم کھانے کے بعد اللہ اور رسول کا حکم مانا چونکہ یہ سب لوگ نیکوکار اور پرہیزگار ہیں اس لیے ان کے لیے اجرعظیم ہے یعنی یہ لوگ اجرعظیم کے اس لیے مستحق ہوئے کہ یہ لوگ صفت احسان اور تقوی کے ساتھ موصوف ہیں۔ یا یوں کہو کہ منہم کی ضمیر عام مومنین کی طرف راجع ہے جیسا کہ گزشتہ آیت وان اللہ لایضیع اجر المومنین۔ میں عام مومنین کا ذکر ہے جن میں ضعیف الایمان بھی داخل ہیں پس غزوہ حمراء الاسد میں جو چند مسلمان باوجود تازہ زخم کھائے ہوئے ہونے کے آپ کے ہمراہ کافروں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے وہ عام مومنین میں کے بعض مخصوص افراد تھے اور اعلی درجہ کے نیکوکار اور پرہیزگار تھے اس تفسیر پر من تبعیضیہ بھی بےتکلف ہوسکتا ہے۔ اور یہی محسین اور متقین ایسے مخلص ہیں کہ جب ان سے قبیلہ عبدالقیس کے لوگوں نے آکر یہ کہا کہ تحقیق مکہ کے لوگوں نے تمہارے مقابلہ کے لیے لڑائی کا بڑا سامان جمع کیا ہے پس تم ان سے ڈرتے رہنا اور اندیشہ اور خطرہ کو پیش نظر رکھنا بےدھڑک ان کے مقابلہ کے لیے نہ نکل کھڑے ہونا پس یہ بات ان کے ایمان اور زیادتی کا سبب بن گئی یعنی مشرکین کے خوف دلانے سے مسلمان سست نہ پڑے اور نہ ان کی بات کی طرف التفات کیا بلکہ جوش ایمانی میں اور اضافہ ہوگیا اور سمجھے کہ خدا کی راہ میں جس قدر بھی جانبازی اور سرفروشی دکھلائیں گے اسی قدر مدارج قرب سے بہر ور ہوں گے اور جوش میں آکر یہ بولے کہ بس کافی ہے ہم کو اللہ اور بہترین کارساز ہے جو اپنے آپ کو خدا کے حوالے سے اور سپرد کردے دشمن اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ گزشتہ آیات میں غزوہ احمرالاسد سے متعلق تھیں جو غزوہ احد کے متصل واقع ہوا تھا اور یہ آیتیں غزوہ بدر صغری کے متعلق ہیں جو کہ غزوہ احد کے ایک سال بعد واقع ہوا پس یہ لوگ اللہ کے خاص نعمت اور اس کے خاص فضل کو لے کر اپنے گھر واپس ہوئے اور اس سفر میں ان کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچی نعمت سے سلامتی اور عافیت مراد ہے اور فضل سے وہ نفع مراد ہے جو اللہ کے ان برگزیدہ بندوں نے بدر میں آٹھ روز تک بذریعہ تجارت حاصل کیا اور لم یمسسھم سوء سے یہ مراد ہے کہ اس سفر میں نہ کوئی آدمی قتل ہوا اور نہ کسی کو کوئی زخم آیا اور ان سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی رضامندی اور خوشنودی کی پیروی کی یعنی سب سے بڑی چیز جو ان کو اس سفر میں ملی وہ یہ ہے کہ اللہ ان سے راضی ہوا جو فلاح دارین کی کنجی ہے اور اللہ بڑا فضل والا ہے اس کا فضل وانعام وہم و گمان سے بڑھ کر ہوتا ہے جز این نیست کہ یہ خبر دینے والا کہ اہل مکہ نے تمہارے مقابلہ کے لیے بڑا سامان جمع کیا ہے شیطان ہے تم کو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے پس اے مسلمانوں تم ان سے نہ ڈرنا یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور صرف مجھ سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو اور ضرور رکھتے ہو جیسا کہ تمہاری جاں نثاری اس کی شاہد ہے تو پھر تم کیوں فکر مند ہوتے ہو۔ ہر کہ ترسید از حق وتقوی گزید ترسد از دے جن وانس وہر کہ دید خلاصہ کلام یہ کہ اللہ نے ان آیات میں ان مومنین مخلصین کی مدح فرمائی کہ جو غزوہ حمراء الاسد اور غزوہ بدر صغری میں رسول اللہ کے ایک اشارہ پر نکل کھڑے ہوئے پہلی آیت، یعنی الذین استجابوا، الخ۔ غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں نازل ہوئی اور جو غزوہ احد سے متصلا واقع ہوا اور دوسری آیت یعنی الذین قالھم الناس، الخ۔ یہ آیت غزوہ بدر صغری اور نعیم بن مسعود اشجعی کے قصہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ لطائف ومعارف۔ آیت مذکورہ بالا فزادھم ایمانا سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان میں زیادتی اور کمی ہوسکتی ہے اور امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ ایمان کے کم وزیادہ ہونے میں علماء کا اختلاف ہے امام اعظم کوفی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں خہ الایمان لایزید ولاینقص ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے اور نہ کم اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ یزید وینقص یعنی ایمان زیادہ اور کم ہوتا ہے اس میں شک نہیں کہ ایمان جس کے معنی تصدیق قلبی اور یقین دلی کے ہیں اس میں زیادت اور نقصان کی گنجائش نہیں اس یے کہ جس چیز میں زیادتی کمی کا احتمال ہو وہ دائر ظن میں داخل ہے نہ دائرہ یقین میں ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اعمال صالحہ کا بجالانا اس یقین کو منور اور روشن کردیتا ہے اور برے اعمال کا ارتکاب اس یقین کو مکدر اور تاریک اور سیاہ کردیتا ہے پس اعمال کی کمی اور زیادتی سے ایمان کی نورانیت اور روشنی میں کمی اور زیادتی ہوتی ہے نہ کہ نفس ایمان اور نفس یقین میں لہذا بعض لوگوں نے یقین کی نورانیت اور انجلاء کی کمی اور زیادتی پر نظر کرکے نفس یقین کو زائد اور ناقص کہہ دیا اور جن حضرات کی نظر دقیق اور عمیق تھی انہوں نے جب یہ دیکھا کہ یہ زیادتی اور کمی صفات یقین کی طرف راجع ہے نہ کہ نفس یقین کی طرف اس بنا پر انہوں نے یقین کو غیر زائد اور غیر ناقص کہہ دیا جیسے حضرات انبیاء کرام کہ نفس نبوت میں سب برابر ہیں جیسا کہ لانفرق بین احد من رسلہ۔ آیت۔ اس کی طرف مشیر ہے کہ مگر مراتب اور درجات عالیہ میں متفاوت ہیں کمال قال تعالیٰ تلک الرسل فضلنا۔۔۔ الی۔۔ درجات۔ آیت۔ اور جیسے تمام انسان کہ نفس انسانیت میں تو سب برابر اور حقیقت وذات میں متحد ہیں مگر کمالات انسانیت میں متفاضل ہیں اور بعض بعض سے افضل ہیں پس جس طرح یہ تفاضل اور تفاوت صفات اور کمالات کے اعتبار سے ہے نفس ذات کے اعتبار سے نہیں نفس حقیقت اور نفس ذات کے اعتبار سے نفس نبوت اور نفس انسانیت میں کوئی کمی اور زیادتی نہیں۔ اسی طرح حقیقت ایمان کو سمجھو کہ تمام مومنین میں نفس ایمان برابر مشترک ہے اور اسی قدر مشترک کی وجہ سے تمام مومنین اخوت ایمانیہ کی سلک میں منسلک ہیں کما قال تعالیٰ انما المومنون اخوۃ۔ آیت۔ اور اس قدر مشترک میں کوئی کمی اور زیادتی نہیں البتہ اعمال صالحہ کی کمی اور زیادتی کی وجہ سے ایمان کی صفت نورانیت اور انجلاء وصفاء اور روشنی میں کمی اور زیادتی ہوتی ہے۔ جس طرح دو آئینے جو باہم برابر ہوں لیکن انجلاء اور نورانیت میں تفاوت رکھتے ہوں تو ایک شخص اس کو آئینہ کو جو دوسرے آئینہ سے زیادہ روشن ہے دیکھ کر یہ کہے کہ یہ آئینہ دوسرے آئینہ سے زائد ہے اور دوسرا شخص یہ کہے کہ دونوں آئنہ برابر ہیں اور ان میں کسی قسم کی زیادتی اور نقصان نہیں فرق صرف نورانیت اور انجلاء کا ہے جو آئینہ کی صفات ہیں پس دورے شخص کی نظر سائب اور ثاقب ہے اور حقیقت تک نافذ ہے اور شخص اول کی نظر کوتاہ ہے صفت سے بڑھ کر ذات تک نہیں پہنچی اور صفت اور ذات میں فرق نہیں کرتی، یرفع اللہ الذین آمنو منکم والذین اوتوالعلم درجات۔ اس تحقیق سے مخالفین کا وہ اعتراض جو ایمان کے کم وبیش نہ ہونے پر کیا کرتے تھے انشاء اللہ زائل ہوجائے گا اور عام مومومنوں کا ایمان تمام وجوہ میں حضرات انبیاء کرام کے ایمان کی طرح نہ ہوگا کیونکہ انبیاء کرام کا ایمان آفتاب اور ماہتاب کی طرح روشن ہوگا اور کامل طور پر منجلی اور نورانی ہوگا اور عام مومنوں کا ایمان کامل طور پرنورانی نہ ہوگا بلکہ اپنے اندر بہت سی ظلمتیں اور کدورتیں لیے ہوئے ہوگا عوام مومنین کا ایمان، حضرات انبیاء کے ایمان کے گرد کو بھی نہیں پہنچتا گویا کہ عامہ مومنین نفس انسانیت میں انبیاء کرام کے ساتھ شریک ہیں مگر کمالات اور درجات عالیہ میں کوئی نسبت نہیں، چہ نسبت خاک رابا عالم پاک اسی طرح ایمان کی شرکت سمجھو، حضرات انبیاء کا ایمان کمال اطاعت خداوندی کے اقتران کی وجہ سے ذرہ علیا کو پہنچا ہوا ہے اور مومنین کا ایمان ایک ذرہ بےمقدار ہے اور اسی طرح حضرت ابوبکر کا ایمان جو وزن میں امت کے ایمان سے زیادہ ہے اس کو بھی انجلاء اور نورانیت کے اعتبار سے سمجھنا چاہیے نفس انسانیت میں زیادتی اور نقصان کا کوئی دخل نہیں اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانیت زیادتی اور نقصان کے قابل ہے تمام افراد انسانی حقیقت اور ذات کے اعتبار سے متحد اور برابر ہیں اور باقی تفاضل یعنی ایک کا دوسرے سے افضل ہونا وہ صفات کاملہ اور کمالات فاضلہ کے اعتبار سے ہے واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔ دیکھو مکتوب 266 از دفتر اول مکتوبات امام ربانی۔ ومکتوب 67 از دفتر دوم اوردیکھو حجۃ اللہ البالغہ۔
Top