Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 172
اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ١ۛؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌۚ
اَلَّذِيْنَ : جن لوگوں نے اسْتَجَابُوْا : قبول کیا لِلّٰهِ : اللہ کا وَالرَّسُوْلِ : اور رسول مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَآ : کہ اَصَابَھُمُ : پہنچا انہیں الْقَرْحُ : زخم لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو اَحْسَنُوْا : انہوں نے نیکی کی مِنْھُمْ : ان میں سے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کی اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
جنہوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا و رسول (کے حکم) کو قبول کیا جو لوگ ان میں نیکوکار اور پرہیزگار ہیں ان کے لئے بڑا ثواب ہے
قصہ غزوہ حمراء الاسد۔ قال تعالیٰ الذین استجابوا۔۔۔۔ الی۔۔۔ مومنین۔ ربط) گزشتہ آیات میں غزوہ احد کا قصہ بیان ہوا اب ان آیات میں غزوہ احد ہی کے متعلق ایک دوسرے سے غزوے کا ذکر فرماتے ہیں جو غزوہ حمراء الاسد کے نام سے مشہور ہے اور غزوہ احد سے متصل واقع ہے یا یوں کہو کہ گزشہ آیات میں شہداء احد کا ذکر تھا اب ان آیات میں شہداء احد کے ان اخوان مخلصین کا ذکر فرماتے ہیں جو، الذین لم یلحقوا بھم من خلفھم۔ آیت۔ کا مصداق ہیں یا یوں کہو کہ گزشتہ آیات میں اللہ کی نعمت اور اس کے فضل کی بشارت کا ذکر تھا اور اس آیت میں بھی غزوہ حمراء الاسد کے مجاہدین کے لیے انقلاب بنعمۃ من اللہ وفضل لم یمسسھم سوء۔ آیت۔ کی بشارت کا ذکر ہے اور اہل ایمان کی مدح فرماتے ہیں کہ وہ کسی کی دھمکی میں نہیں آتے بلکہ ان کو اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ ہے وہ ڈرپوک اور بزدل نہیں۔ اس آیت کے شان نزول کے متعلق علماء کے دو قول ہیں۔ پہلا قول۔ یہ ہے کہ یہ آیت غزوہ حمراء الاسد کے متعلق نازل ہوئی جس کی مختصر کیفیت یہ ہے کہ جب ابوسفیان اور اس کا لشکر احد سے مکہ کو واپس ہوا تو راستہ میں خیال آیا کہ ہم نے بڑی غلطی کی کہ ایسی بڑی کامیابی کے بعد مسلمانوں کو زندہ چھوڑ کر کیوں چلے آئے ہم کو چاہیے کہ ہم مدینہ واپس چلیں اور جا کر مسلمانوں کی جڑہی اکھاڑ کر پھینک دیں جب یہ خبر نبی ﷺ کو پہنچی تو یہ اعلان فرمایا کہ صرف وہ لوگ جو احد میں میرے ساتھ شریک تھے وہ دشمن کے تعاقب کے لیے تیار ہوجائیں حاضرین احد کے علاوہ اور کسی کو میں اپنے ساتھ لے جانا نہیں چاہتا مسلمان مجاہدین باوجودیکہ تازہ زخم کھائے ہوئے تھے اور زخموں کی مرہم پٹی کا ارادہ کررہے تھے آپ کا اعلان سنتے ہی زخموں کو بھول گئے اور آپ کے ساتھ ہوئے حضور پرنور ﷺ اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ جن کی تعداد ستر تھی روانہ ہوئے اور مقام حمراء الاسد پہنچے جو مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے ابوسفیان کو جب یہ خبر ملی کہ مسلمان اس کے تعاقب میں چلے آرہے ہیں تو اس پر من جانب اللہ ایسا رعب اور ایسی دہشت طاری ہوئی کہ مسلمانوں پر دوبارہ حملہ کا ارادہ فسخ کیا اور مکہ کی طرف بھاگا اس سفر میں حضور ﷺ کے ہمراہ، حضرت ابوبکر وعمر، عثمان وعلی وطلحہ وزبیر وسعد وعبدالرحمن بن عوف اور عبداللہ بن مسعود، حذیفہ بن یمان اوبوعبیدہ جراح ؓ اجمعین وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔ دوسرا قول۔ اس آیت کے شان نزول کے متعلق یہ روایت ہے کہ یہ آیت غزوہ بدرصغری کے بارے میں نازل ہوئی جس کی مختصر کیفیت یہ ہے کہ جنگ احد سے فارغ ہو کر جب ابوسفیا نے مکی کی واپسی کا ارادہ کیا تو یہ کہا اے محمد ﷺ اگر آپ چاہیں تو ہماری اور تمہاری آئندہ سال موسم بدر میں پھر لڑائی ہو ابوسفیان کا مقصد یہ تھا کہ مقام بدر میں ہمارے بڑے بڑے سردار مارے گئے تھے اب ابوسفیان یہ چاہتا تھا کہ سال آئندہ پھر اسی سال مقام بدر پر دوبارہ جنگ ہو اور ہم احد کی طرح وہاں بھی مسلمانوں کے بڑے بڑے سرداروں کو ماریں تاکہ بدر کا بدلہ ہوجائے۔ نبی ﷺ نے منظور فرمایا اور جب سال پورا ہوگیا تو ابوسفیان دو ہزار کفار قریش کے ساتھ مکہ سے جنگ کے ارادہ سے نکلا پچاس گھوڑے ہمراہ تھے۔ ادھر نبی ﷺ نے صحابہ کو ساتھ چلنے کا حکم دیا صحابہ سنتے ہی رفاقت کے لیے تیار ہوگئے اور مقام بدر پر پہنچ گئے تو ابوسفیان مکہ سے نکل کر ابھی مقام مرالظہران تک پہنچا تھا کہ یکایک دل میں مسلمانوں کا خوف پیدا ہوگیا چاہتا یہ تھا کہ حضور پر نور سے وعدہ پر نہ آئیں تو الزام آپ پر رہے اور میں لڑائی سے بچ جاؤں اس لیے اس کو مناسب یہ معلوم ہوا کہ میں لشکر کو لے کر مکہ واپس جاؤں اتفاق سے اسے نعیم بن مسعود اشجعی مل گیا جو مکہ سے عمرہ کرکے واپس آرہا تھا ابوسفیا نے کہا میں محمد اور اس کے اصحاب سے یہ وعدہ کر آیا تھا کہ کہ بدر کے میلے کے ایام میں سال آئندہ ہماری اور تمہاری جنگ ہوگی لیکن یہ سال خشک سالی کا ہے ایسے وقت میں لڑنا مناسب نہیں اب مجھے یہی بہتر معلوم ہوتا ہے کہ میں مکہ میں واپس چلا جاؤں اور لیکن میں اس بات کو بھی ناپسند کرتا ہوں کہ محمد تو وعدے پر پہنچیں اور میں نہ پہنچوں اس سے مسلمانوں کو اور زیادہ جرات ہوگی تو بہتر یہ ہے کہ اے نعیم تم مدینہ جا کر مسلمانوں پر یہ خبر مشہور کرو کہ قریش مکہ نے تمہارے مقابلہ کے لیے ایک لشکر عظیم تیار کیا ہے جس کا تم مقابلہ نہیں کرسکو گے لہذا تمہارا لڑائی کے لیے نکلنا بہتر نہیں ہے تاکہ مسلمان اس قسم کی خبروں سے خوف زدہ ہوں اور ان کی ہمتیں ٹوٹ جائیں اور ڈر کے مارے جنگ کے لیے نہ نکلیں اور ابوسفیان نے نعیم بن مسعود سے یہ کہا کہ اس کام کی اجرت میں تم کو دس اونٹ دوں گا جسے آج کل کی اصطلاح میں پروپیگنڈا کہتے ہیں جس کی حقیقت سوائے اس کے کچھ نہیں کہ جھوٹ کو سچائی کے پیرائے میں اس طرح پیش کرو کہ سننے والے کو اس کے جھوٹ ہونے کا شبہ بھی نہ ہو۔ لعنۃ اللہ علی الکاذبین۔ آیت۔ یہ پروپیگنڈا یورپ کے ائمہ تہذیب و تمدن کی عجیب و غریب ایجاد ہے مگر اسلام جیسا پاک مذہب اپنے پیروں کو ایک لمحہ کے لیے بھی اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے دشمنوں پر جھوٹ بولیں یا ان پر جھوٹی تہمت لگائیں قرآن کریم پروپیگنڈا کرنے والے کو شیطان بتلاتا ہے جیسا کہ آئندہ آیت میں، انما ذالکم الشیطان یخوف اولیاء۔ آیت۔ نعیم، انعام کالالچ پا کر مدینہ پہنچا دیکھا کہ مسلمان، ابوسفیان کے وعدہ پر جانے کی تیاری کررہے ہیں نعیم نے کہا کہ مکہ کے لوگوں نے تمہارے مقابلہ کے لیے بڑی جمعیت تیار کی ہے تم کو لڑنا بہتر نہیں نعیم نے کہا دیکھو احد کے سال قریش تمہارے گھر پر چڑھ کر آئے اور تمہیں قتل کیا اور کوئی گھر قتل اور زخم سے خالی نہ رہا اور اس پر بھی اگر تم اپنے گھر سے نکل کر ان سے لڑنے جاتے ہو تو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم میں سے ایک شخص بھی جان بچا کر مدینہ واپس نہ آئے گا یہ سن کر مسلمانوں کے دلوں میں بجائے خوف کے جوش ایمانی بڑھ گیا اور کہنے لگے، حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔ آیت۔ اللہ ہمیں کافی ہے اور بہترین کارساز ہے اور خدا جس کا کارساز ہو تو بڑی سے بڑی جمعیت بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور نبی ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا قسم ہے اس خدا کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں ضرور ان کے مقابلہ کے لیے نکلوں گا خواہ مجھ کو تنہاہی جاناپڑے پھر آپ بدر کی طرف روانہ ہوئے اور ستر صحابہ آپ کے ہمراہ ہوئے جو حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔ کہتے ہیں جاتے تھے آپ بدر پر پہنچے اور وہاں آپ نے ابوسفیان کا آٹھ روز تک انتظار فرمایا لیکن ابوسفیان نہ آیا اور لڑائی کچھ نہیں ہوئی اور ان دونوں بدر کا میلہ لگا ہوا تھا مسلمانوں نے اس میں خریدوفروخت کی اور خوب نفع کمایا اور خوب نفع کما کرخیریت کے ساتھ مدینہ واپس آئے اس واقعہ کو غزوہ بدر صغری کہتے ہیں اور احد سے پہلے جو بدر میں لڑائی ہوئی تھی اس کو غزوہ بدر کبری کہتے ہیں۔ اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت پہلے قول کے مطابق غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں نازل ہوئی اور سی کو ابن جریر اور ابن کثیر نے راجح قرار دیا اور صحیح بخاری کی روایت کا سیاق بھی اسی کو مقتضی ہے کہ ان آیات کا نزول غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں ہوا جو غزوہ احد سے متصلا واقع ہوا۔ اور اس آیت کا سیاق بھی اسی کو مقتضی ہے کیونکہ الہ جل شانہ نے الذین استجابوا للہ۔۔ الی۔۔ القرح۔ آیت۔ میں ان حضرات کا یہ وصفبیان کیا ہے کہ یہ لوگ باوجود زخموں کی تکلیف پہنچنے کے رسول کی فرمانبرداری میں جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوئے جو ظاہرا اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ احد کے متصل اور فورا بعد میں پیش آیا کہ غزوہ احد کے زخموں کی تکلیف ابھی باقی تھی مگر پھر بھی جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوئے سو یہ حالت غزوہ حمراء الاسد میں پیش آئی جو غزوہ احد کے متصل واقع ہوا اور غزوہ بدر صغری تو احد کے سال بھر بعد پیش آیا جس وقت مسلمان تندرست ہوچکے تھے اس پر من بعد مااصابھم القرح کا صادق آنا محتاج تاویل ہوگا۔ اس لیے امام فخرالدین رازی نے یہ اختیار فرمایا کہ الذین استجابو۔۔۔ الی۔۔۔۔۔ اجرعظیم۔ یہاں تک کہ آیت غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں نازل ہوئی اور آیت الذین قال لھم الناس۔۔ الی۔۔۔ الوکیل۔ آیت۔ الی قولہ تعالیٰ وخافون ان کنتم مومنین۔ یہاں تک کہ تمام آیتیں غزوہ بدرصغری کے بارے میں نازل ہوئیں غرض یہ کہ اللہ نے دونوں آیتوں میں ان مسلمان کی مدح فرمائی جو ان دونوں غزوں میں شریک ہوئے پہلی آیت میں غزوہ حمراء الاسد کا ذکر ہے اور دوسری آیت یعنی قال لھم الناس الی آخرہ میں غزوہ بدرصغری کا ذکر ہے اور ان دونوں غزوں کے درمیان ایک سال کا فاصلہ ہے اور اس ناچیز کے نزدیک بھی یہی قول ظاہر آیت کے مطابق ہے کہ پہلی آیت یعنی الذین استجابوا، غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں نازل ہوئی اور دوسری آیت یعنی الذین قال لھم الناس۔ غزوہ بدر صغری کے بارے میں نازل ہوئی اس تفصیل کے سمجھ لینے کے بعد اب آیات کی تفسیر سنیے، اللہ نے شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے احد میں زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانا حضور پرنور کے بلانے پر جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوئے اور زخمون کی تکلیف کی پرواہ نہ کی تو بلا شبہ ان لوگوں کے لیے جو ان میں سے نیکو کار اور پرہیزگار ہیں اجر عظیم ہے اس آیت میں یہ اشکال ہے کہ جن لوگوں نے احد میں زخم کھانے کے بعد حمراء الاسد میں جانے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانا تھا وہ سب ہی نیکو کار اور متقی اور پرہیزگار تھے پھر اللہ کے اس فرمانے کے کیا معنی کہ جو ان میں سے نیکوکار اور متقی ہیں ان کے لیے اجر عظیم ہے۔ جواب۔ صاحب کشاف فرماتے ہیں کہ اس جگہ من تبین کے لیے ہے تبعیض کے لیے نہیں اور نیکوکاری اور تقوی کی صفت مدح اور تعلیل کے لیے ہے نہ کہ تقلید کے لیے مقصود ان کی مدح سرائی اور تنویہ شان ہے ورنہ وہ سب ایسے ہی تھے اور مطلب آیت کا یہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے احد میں زخم کھانے کے بعد اللہ اور رسول کا حکم مانا چونکہ یہ سب لوگ نیکوکار اور پرہیزگار ہیں اس لیے ان کے لیے اجرعظیم ہے یعنی یہ لوگ اجرعظیم کے اس لیے مستحق ہوئے کہ یہ لوگ صفت احسان اور تقوی کے ساتھ موصوف ہیں۔ یا یوں کہو کہ منہم کی ضمیر عام مومنین کی طرف راجع ہے جیسا کہ گزشتہ آیت وان اللہ لایضیع اجر المومنین۔ میں عام مومنین کا ذکر ہے جن میں ضعیف الایمان بھی داخل ہیں پس غزوہ حمراء الاسد میں جو چند مسلمان باوجود تازہ زخم کھائے ہوئے ہونے کے آپ کے ہمراہ کافروں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے وہ عام مومنین میں کے بعض مخصوص افراد تھے اور اعلی درجہ کے نیکوکار اور پرہیزگار تھے اس تفسیر پر من تبعیضیہ بھی بےتکلف ہوسکتا ہے۔ اور یہی محسین اور متقین ایسے مخلص ہیں کہ جب ان سے قبیلہ عبدالقیس کے لوگوں نے آکر یہ کہا کہ تحقیق مکہ کے لوگوں نے تمہارے مقابلہ کے لیے لڑائی کا بڑا سامان جمع کیا ہے پس تم ان سے ڈرتے رہنا اور اندیشہ اور خطرہ کو پیش نظر رکھنا بےدھڑک ان کے مقابلہ کے لیے نہ نکل کھڑے ہونا پس یہ بات ان کے ایمان اور زیادتی کا سبب بن گئی یعنی مشرکین کے خوف دلانے سے مسلمان سست نہ پڑے اور نہ ان کی بات کی طرف التفات کیا بلکہ جوش ایمانی میں اور اضافہ ہوگیا اور سمجھے کہ خدا کی راہ میں جس قدر بھی جانبازی اور سرفروشی دکھلائیں گے اسی قدر مدارج قرب سے بہر ور ہوں گے اور جوش میں آکر یہ بولے کہ بس کافی ہے ہم کو اللہ اور بہترین کارساز ہے جو اپنے آپ کو خدا کے حوالے سے اور سپرد کردے دشمن اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ گزشتہ آیات میں غزوہ احمرالاسد سے متعلق تھیں جو غزوہ احد کے متصل واقع ہوا تھا اور یہ آیتیں غزوہ بدر صغری کے متعلق ہیں جو کہ غزوہ احد کے ایک سال بعد واقع ہوا پس یہ لوگ اللہ کے خاص نعمت اور اس کے خاص فضل کو لے کر اپنے گھر واپس ہوئے اور اس سفر میں ان کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچی نعمت سے سلامتی اور عافیت مراد ہے اور فضل سے وہ نفع مراد ہے جو اللہ کے ان برگزیدہ بندوں نے بدر میں آٹھ روز تک بذریعہ تجارت حاصل کیا اور لم یمسسھم سوء سے یہ مراد ہے کہ اس سفر میں نہ کوئی آدمی قتل ہوا اور نہ کسی کو کوئی زخم آیا اور ان سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی رضامندی اور خوشنودی کی پیروی کی یعنی سب سے بڑی چیز جو ان کو اس سفر میں ملی وہ یہ ہے کہ اللہ ان سے راضی ہوا جو فلاح دارین کی کنجی ہے اور اللہ بڑا فضل والا ہے اس کا فضل وانعام وہم و گمان سے بڑھ کر ہوتا ہے جز این نیست کہ یہ خبر دینے والا کہ اہل مکہ نے تمہارے مقابلہ کے لیے بڑا سامان جمع کیا ہے شیطان ہے تم کو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے پس اے مسلمانوں تم ان سے نہ ڈرنا یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور صرف مجھ سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو اور ضرور رکھتے ہو جیسا کہ تمہاری جاں نثاری اس کی شاہد ہے تو پھر تم کیوں فکر مند ہوتے ہو۔ ہر کہ ترسید از حق وتقوی گزید ترسد از دے جن وانس وہر کہ دید خلاصہ کلام یہ کہ اللہ نے ان آیات میں ان مومنین مخلصین کی مدح فرمائی کہ جو غزوہ حمراء الاسد اور غزوہ بدر صغری میں رسول اللہ کے ایک اشارہ پر نکل کھڑے ہوئے پہلی آیت، یعنی الذین استجابوا، الخ۔ غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں نازل ہوئی اور جو غزوہ احد سے متصلا واقع ہوا اور دوسری آیت یعنی الذین قالھم الناس، الخ۔ یہ آیت غزوہ بدر صغری اور نعیم بن مسعود اشجعی کے قصہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ لطائف ومعارف۔ آیت مذکورہ بالا فزادھم ایمانا سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان میں زیادتی اور کمی ہوسکتی ہے اور امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ ایمان کے کم وزیادہ ہونے میں علماء کا اختلاف ہے امام اعظم کوفی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں خہ الایمان لایزید ولاینقص ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے اور نہ کم اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ یزید وینقص یعنی ایمان زیادہ اور کم ہوتا ہے اس میں شک نہیں کہ ایمان جس کے معنی تصدیق قلبی اور یقین دلی کے ہیں اس میں زیادت اور نقصان کی گنجائش نہیں اس یے کہ جس چیز میں زیادتی کمی کا احتمال ہو وہ دائر ظن میں داخل ہے نہ دائرہ یقین میں ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اعمال صالحہ کا بجالانا اس یقین کو منور اور روشن کردیتا ہے اور برے اعمال کا ارتکاب اس یقین کو مکدر اور تاریک اور سیاہ کردیتا ہے پس اعمال کی کمی اور زیادتی سے ایمان کی نورانیت اور روشنی میں کمی اور زیادتی ہوتی ہے نہ کہ نفس ایمان اور نفس یقین میں لہذا بعض لوگوں نے یقین کی نورانیت اور انجلاء کی کمی اور زیادتی پر نظر کرکے نفس یقین کو زائد اور ناقص کہہ دیا اور جن حضرات کی نظر دقیق اور عمیق تھی انہوں نے جب یہ دیکھا کہ یہ زیادتی اور کمی صفات یقین کی طرف راجع ہے نہ کہ نفس یقین کی طرف اس بنا پر انہوں نے یقین کو غیر زائد اور غیر ناقص کہہ دیا جیسے حضرات انبیاء کرام کہ نفس نبوت میں سب برابر ہیں جیسا کہ لانفرق بین احد من رسلہ۔ آیت۔ اس کی طرف مشیر ہے کہ مگر مراتب اور درجات عالیہ میں متفاوت ہیں کمال قال تعالیٰ تلک الرسل فضلنا۔۔۔ الی۔۔ درجات۔ آیت۔ اور جیسے تمام انسان کہ نفس انسانیت میں تو سب برابر اور حقیقت وذات میں متحد ہیں مگر کمالات انسانیت میں متفاضل ہیں اور بعض بعض سے افضل ہیں پس جس طرح یہ تفاضل اور تفاوت صفات اور کمالات کے اعتبار سے ہے نفس ذات کے اعتبار سے نہیں نفس حقیقت اور نفس ذات کے اعتبار سے نفس نبوت اور نفس انسانیت میں کوئی کمی اور زیادتی نہیں۔ اسی طرح حقیقت ایمان کو سمجھو کہ تمام مومنین میں نفس ایمان برابر مشترک ہے اور اسی قدر مشترک کی وجہ سے تمام مومنین اخوت ایمانیہ کی سلک میں منسلک ہیں کما قال تعالیٰ انما المومنون اخوۃ۔ آیت۔ اور اس قدر مشترک میں کوئی کمی اور زیادتی نہیں البتہ اعمال صالحہ کی کمی اور زیادتی کی وجہ سے ایمان کی صفت نورانیت اور انجلاء وصفاء اور روشنی میں کمی اور زیادتی ہوتی ہے۔ جس طرح دو آئینے جو باہم برابر ہوں لیکن انجلاء اور نورانیت میں تفاوت رکھتے ہوں تو ایک شخص اس کو آئینہ کو جو دوسرے آئینہ سے زیادہ روشن ہے دیکھ کر یہ کہے کہ یہ آئینہ دوسرے آئینہ سے زائد ہے اور دوسرا شخص یہ کہے کہ دونوں آئنہ برابر ہیں اور ان میں کسی قسم کی زیادتی اور نقصان نہیں فرق صرف نورانیت اور انجلاء کا ہے جو آئینہ کی صفات ہیں پس دورے شخص کی نظر سائب اور ثاقب ہے اور حقیقت تک نافذ ہے اور شخص اول کی نظر کوتاہ ہے صفت سے بڑھ کر ذات تک نہیں پہنچی اور صفت اور ذات میں فرق نہیں کرتی، یرفع اللہ الذین آمنو منکم والذین اوتوالعلم درجات۔ اس تحقیق سے مخالفین کا وہ اعتراض جو ایمان کے کم وبیش نہ ہونے پر کیا کرتے تھے انشاء اللہ زائل ہوجائے گا اور عام مومومنوں کا ایمان تمام وجوہ میں حضرات انبیاء کرام کے ایمان کی طرح نہ ہوگا کیونکہ انبیاء کرام کا ایمان آفتاب اور ماہتاب کی طرح روشن ہوگا اور کامل طور پر منجلی اور نورانی ہوگا اور عام مومنوں کا ایمان کامل طور پرنورانی نہ ہوگا بلکہ اپنے اندر بہت سی ظلمتیں اور کدورتیں لیے ہوئے ہوگا عوام مومنین کا ایمان، حضرات انبیاء کے ایمان کے گرد کو بھی نہیں پہنچتا گویا کہ عامہ مومنین نفس انسانیت میں انبیاء کرام کے ساتھ شریک ہیں مگر کمالات اور درجات عالیہ میں کوئی نسبت نہیں، چہ نسبت خاک رابا عالم پاک اسی طرح ایمان کی شرکت سمجھو، حضرات انبیاء کا ایمان کمال اطاعت خداوندی کے اقتران کی وجہ سے ذرہ علیا کو پہنچا ہوا ہے اور مومنین کا ایمان ایک ذرہ بےمقدار ہے اور اسی طرح حضرت ابوبکر کا ایمان جو وزن میں امت کے ایمان سے زیادہ ہے اس کو بھی انجلاء اور نورانیت کے اعتبار سے سمجھنا چاہیے نفس انسانیت میں زیادتی اور نقصان کا کوئی دخل نہیں اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانیت زیادتی اور نقصان کے قابل ہے تمام افراد انسانی حقیقت اور ذات کے اعتبار سے متحد اور برابر ہیں اور باقی تفاضل یعنی ایک کا دوسرے سے افضل ہونا وہ صفات کاملہ اور کمالات فاضلہ کے اعتبار سے ہے واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔ دیکھو مکتوب 266 از دفتر اول مکتوبات امام ربانی۔ ومکتوب 67 از دفتر دوم اوردیکھو حجۃ اللہ البالغہ۔
Top