Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 190
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں خَلْقِ : پیدائش السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاخْتِلَافِ : اور آنا جانا الَّيْلِ : رات وَالنَّھَارِ : اور دن لَاٰيٰتٍ : نشانیاں ہیں لِّاُولِي الْاَلْبَابِ : عقل والوں کے لیے
بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
دلائل الوہیت ووحدانیت و کمال قدرت و حکمت وبیان حال دانشمنداں ودعا ہائے گوناگوں ایشاں۔ قال تعالیٰ ان فی خلق السماوات۔۔۔ الی۔۔۔۔ تفلحون۔ آیت۔ ربط) گزشتہ آیات میں یعنی وللہ ملک السماوات۔۔ الی۔۔۔ قدیر۔ آیت۔ میں اللہ کی بادشاہت اور کمال قدرت کو بیان فرمایا اب ان آیات میں اللہ کی الوہیت اور اس کی واحدانیت اور کمال قدرت اور کمال حکمت کے دلائل بیان فرماتے ہیں اور اہل عقل اور اہل دانش کی مدح فرماتے ہیں کہ جنہوں نے مخلوقات کو دیکھ کر خالق کا پتہ چلالیا اور مصنوعات کو دیکھ کر صانع کو پہچان لیا اور دن رات اپنے پروردگار کے ذکر اور فکر میں سرشار ہیں اور اسی کی تسبیح اور دعا اور استغفار میں مشغول ہیں قرآن کریم کی اصطلاح میں اولوالالباب (عاقل کامل) وہی لوگ ہیں جو مصنوعات اور مخلوقات میں غوروفکر کرکے خالق صانع کی صحیح معرفت تک پہنچ گئے اور خدا کی یاد اور آخرت کی کفر میں لگ گئے اور سمجھ گئے کہ یہ دنیا فانی ہے اور اس کے بعد ایک اور عالم کی طرف کوچ ہونا ہے باقی جو مادہ پرست مخلوقات اور مصنوعات کی تحقیقات اور دقیقات کے تاروں اور زنجیروں میں الجھ کر رہ گئے اور صانع برحق کی معرفت تک ان کی رسائی نہیں ہوئی خواہ دنیا ان کو کتنا ہی بڑا محقق اور فلاسفر اور سائنس دان کہا کرے وہ قرآن کی زبان میں اولوالالباب عاقل اور دانش مند نہیں بلکہ پرلے درجہ کے جاہل اور احمق ہیں۔ شاہی محل میں بادشاہ کا مہمان بھی داخل ہوتا ہے اور چور بھی مگر مہمان محل کے عجائب کو اس لیے دیکھتا ہے کہ وہ بادشاہ کی شان و شوکت اور اس کے جاہ جلال کا مظہر اور آئینہ ہیں اور چور شاہی محل کو نہایت غور سے دیکھتا ہے تاکہ اس کے خزینے اور دفینے چرانے میں اس کو مددملے اور عمر بھی کی عیش و عشرت کا سامان اس کو مل جائے۔ پس خوب سمجھ لو کہ کائنات قدرت میں سائنس دانوں کی غور اور فکر اور تحقیقات سارقانہ نظر کا حکم رکھتی ہے کہ اپنے فوائد اور منافع کے لیے تحقیق میں سرگرداں اور حیران ہیں ان کو صانع اور خالق سے کوئی مطلب نہیں۔ اور اصحاب دانش کا حال ان کے بالکل برعکس ہے وہ آسمان اور زمین اور دیگر مصنوعات الہیہ میں غوروفکر کرتے ہیں تاکہ خالق کائنات کی صحیح معرفت تک پہنچ جائیں سائنس دانوں کا مقصد صرف مخلوقات کے فوائد اور منافع کا معلوم کرنا ہے تاکہ ان سے دل خواہ مستفیف اور متمع ہوسکیں خالق سے ان کو کوئی سروکار نہیں کائنات قدرت میں سائنس دانوں کی نظر، سار قانہ نظر ہے اور حضرات انبیاء کرام اور ان کے وراثین کی نظر عاشقانہ اور والہانہ اور عاقلانہ اور دانش مندانہ ہے چناچہ فرماتے ہیں تحقیق آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں رات اور دن کے آنے جانے میں اللہ کے وجود باجود اور اس کے کمال علم اور کمال قدرت اور کمال حکمت اور اس کی وحدت کی بہت سی نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے جن کی عقل وہم اور نفسانی اور شیطانی وسوسوں کی آمیزش سے پاک ہے اہل عقل آسمان اور زمین کی عجیب و غریب خلقت اور لیل ونہار کے عجیب و غریب چکر کو دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ یہ عجیب و غریب کارخانہ خود بخود نہیں چل رہا ہے بلکہ کسی علیم و حکیم اور قدیر بصیر کے ہاتھ میں اس کی باگ ہے اور ان عقلاء کے عاقل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ یہ لوگ یاد کرتے ہیں اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور بناوٹ میں غوروفکر کرتے ہیں اور سمجھ جاتے ہیں کہ ان کو کسی بڑے علیم و حکیم اور قدرت والے نے بنایا ہے آسمان و زمین میں غوروفکر کرنے سے ان کا مقصود اللہ کی معرفت حاصل کرنا ہے اور جب مصنوعات میں غورفکر کرنے سے خالق کی معرفت ان کو حاصل ہوجاتی ہے اور اس کی عظمت اور اس کی عظیم قدرت اور علم و حکمت معلوم ہوجاتی ہے اور اس کے عجائب قدرت کو دیکھ کر دل اس کی محبت اور عظمت سے لبریزہوجاتا ہے تو اس خداوند قدوس کی تسبیح و تقدیس اور ایمان ودعا اور استغفار میں لگ جاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ی کارخانہ عبث اور بےکار نہیں بنایا عالم کا ہر ہر جز اور ہر ہر ذرہ حکمتوں اور مصلحتوں سے لبریز ہے تمام عالم کے عقلاء کی عقلیں جن کے ادراک سے قاصر اور درماندہ ہیں تو پاک ہے اے میرے پروردگار ہر عیب اور نقص سے بیشک تو نے اس کارخانہ کو یونہی بےفائدہ نہیں بنایا اور اس کی ہر حرکت اور سکون سے تغیر اور زوال ٹپکتا ہوا نظر آتا ہے اور یوں دکھلائی دیتا ہے کہ جس طرح یہ سارا کارخانہ عدم سے وجود میں آیا ہے اسی طرح ایک دن پھر عدم کے گھاٹ اتار دیا جائے گا اور نمرود اور فرعون جیسے مجرم جنہوں نے دنیا میں اودھم مچارکھا ہے اور تیرے سفراء اور وزراء یعنی انبیاء ومرسلین کی تذلیل وتوہین اور تیری نازل کردہ شریعت کے قوانین اور احکام کی پامالی پر تلے ہوئے ہیں ایک دن یہ سب مجرم نہایت ذلت اور رسوائی کے ساتھ جہنم میں دھکیل دیے جائیں گے پس اے پروردگار تو ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا مطلب یہ ہے کہ اے پروردگار جب تو نے یہ کارخانہ بچوں کے کھیل کی طرح بےفائدہ نہیں بنایا بلکہ اسکے بنانے سے مقصود ایک اور زندگی ہے جسے آخرت کہتے ہیں اور جہاں اس کے بنانے کا نتیجہ ظاہر ہوگا تو ہمیں اس زندگی میں دوزخ کے عذاب سے بچانا بایں طور کہ ہم کو عمل صالح اور اپنی مرضیات پر چلنے کی توفینق دینا ہمارے پروردگار بلاشبہ جس کو تو نے دوزخ میں داخل کردیا تو تحقیق تو نے اس کو خوب رسوا کیا اور ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں جو ان کو خدا کے عذاب سے بچا سکے اے ہمارے پروردگار ہم نے ایک منادی کو سنا جو علانیہ طور پر باآواز بلند ایمان کی منادی کررہا تھا کہ اے لوگو اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ پس ہم دل وجان سے ایمان لائے ایمان کے منادی سے نبی صل اللہ علیہ وسلم مراد ہیں جنہوں نے ساری دنیا کو پکارا اور للکارا اور ایمان کی دعوت دی اے ہمارے پروردگار ہم ایمان تو لے آئے اور اطاعت کے لیے کمر بستہ بھی ہوگئے مگر ہم عاجز اور ناتواں ہیں کماحقہ اطاعت بہت مشکل ہے ہمارا کوئی عمل بھی تقصیر سے خالی نہیں پس ہمارے گناہ بخش دیجئے اور ہماری برائیوں کو دور فرمادیجئے اور نیک بختوں کے ساتھ ہمیں موت دے یعنی نیکوں کے طریقہ پر ہم کو موت دے جیسے محاورہ میں کہتے ہیں انا مع فلاں میں فلانے کے ساتھ ہوں یعنی اس کے طریقہ اور مذہب اور عقائد پر ہوں اسی محاورہ کے مطابق توفنا مع الابرابر۔ کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین کے طریقہ اور مذہب اور اعتقاد پر ہم کو موت دے اے پروردگار ہمارا ایمان اور ہما عمل تو آخرت کی رسوائی سے بچانے کے لیے کافی نہیں لیک ہم آپ کے نام لیوا نابکار آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ ہم کو وہ چیزعطا کر جو آپ نے اپنے پیغمبرون کی زبانی ہم سے وعدہ کیا ہے کہ ایمان لانے والوں کو یہ نعمتیں ملیں گی ہم آپ سے اپنے استحقاق کی بنا پر درخواست نہیں کرتے بلکہ آپ کے کریمانہ وعدہ کے ایفاء کی فقیرانہ اور گدایانہ اور شرمسار انہ درخواست کرتے ہیں کہ بیشک ہمارا ایمان اور عمل اس قابل نہیں خہ اس پر انعام دیا جاسکے لیکن آپ کریم مطلق ہیں بمقتضا کرام اپنے وعدہ کو پورا فرمادیجئے مطلب یہ ہے کہ اپنی توفیق اور عنایت اور لطف وکرم سے ہم کو اس وعدہ کا مستحق بنا اور اہم سے ایسی حرکات سرزد نہ ہوں جن کی وجہ سے ان انعامات کے وعدہ کے مستحق نہ رہیں اور اہم ایمان لانے والوں کو قیامت کے دن ذلیل اور رسوانہ کیجئے تحقیق آپ تو بلاشبہ وعدہ خلافی نہیں کرتے بےوفائی کا احتمال تو ہماری ہی طرف سے ہوسکتا ہے اور آپ کی بارگاہ تو وعدہ خلافی سے پاک اور منزہ ہے اور اے پروردگار ہم صدر ہزار بار اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم تیرے پورے وفادار اور فرمانبردار اور اطاعت شعار نہیں بن سکے اور عہد الست کو ہم پورا نہیں کرسکے ہم اپنی اس وعدہ خلافی پر نادم اور شرمندہ ہیں لیکن دل وجان سے ارادہ پوری ہی وفاداری کا ہے وعدہ خلافی ہماری طرف سے ہے نہ کہ تیری طرف سے۔ انک لاتخلف المیعاد۔ آیت۔ خلاصہ کلام یہ کہ اہل عقل وہ لوگ ہیں جو اہل ذکر اور اہل فکر ہیں اور مخلوقات میں غوروفکر کرکے اللہ کی الوہتی اور وحدانیت اور قدرت اور حکمت کو پہچان لیتے ہیں اور اللہ کی طرف عاجزی اور گریہ وزاری اور آخرت کی تیاری میں لگ جاتے ہیں اور عاقل اور دانا وہ ہے جو آسمان اور زمین کی خلقت میں غوروفکر کرکے ان کے خالق تک پہنچ جائے اور ربنا ماخلقت ھذاباطلا۔ آیت۔ میں مست ہوجائے باقی وہ لوگ جو دن ارات اجرم علوی اور سفلی کے تحقیقات میں سرگرداں ہیں مگر خالق کی معرفت اور اس کے ذکر اور فکر اور آخرت کی تیاری سے غافل ہیں اور اس دنیا کو محض کھیل تماشہ اور تفریح اور لذت کا ذریعہ سمجھے ہوئے ہیں دنیا ایسے لوگوں کو اگرچہ بڑا محقق اور بڑا فلاسفر اور سائنس دان کہے مگر اللہ کے نزدیک وہ اولوالالباب میں سے نہیں ہوسکتے جس نے اپنے مالک کو نہ پہچانا وہ جانور سے بھی بدتر ہے جانور بھی پہچانتا ہے کہ مجھے گھاس دانہ کون ڈالتا ہے جب مالک سامنے آتا ہے تو یہ جانور اس کے سامنے گردن جھکا دیتا ہے مگر اس فلسفی اور سائنس دان کی گردن خدا کے سامنے نہیں جھکتی۔ اولئک کالانعام۔۔۔ الی۔۔ الغافلون۔ آیت۔ بشارت قبولیت دعا۔ گزشتہ آیات میں اہل ذکر واہل فکر کی دعا مذکور ہوئی اب آئندہ آیت میں اس کی قبولیت کی بشارت دی جاتی ہے چناچہ فرماتے ہیں کہ پس ان کے پروردگار نے ان کی تمام دعائیں قبول کیں اور بتلا دیا کہ میر اقانون اور ضابطہ یہ ہے کہ میں تم میں سے کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا مرد ہو یا عورت ہو تم آپس میں ایک ہو اعمال کی جزاء میں دونوں برابر ہیں پس جب کسی عمل کرنے والے کا چھوٹا موٹا عمل بھی رائیگاں نہیں جاتا تو مردان خدا کا تو پوچھنا ہی کیا ہے جنہوں نے منادی پر حق کی نداء ایمان قبول کرنے کے بعد ہجرت کی اور خدا کے لیے خویش اوراقارب اور وطن چھوڑا اور مال ومنال کو خیرباد کہہ کر دارالاسلام کی راہ لی اور محض میرا کلمہ پڑھنے اور میرا نام لیوا ہونے کی وجہ سے طرح طرح سے ستا کر اپنے گھروں سے نکالے گئے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے، یخرجون الرسول وایاکم ان تو منوا باللہ ( سورة ممتحنہ) آیت۔ اور وما نقموا منھم الا ان یومنوا بااللہ العزیز الحمید ( سورة بروج) آیت۔ اور میری راہ میں ان کو طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں اور پھر انہوں نے میری راہ میں جہاد قتال کیا اور بہت سے ان میں سے شہید بھی ہوئے ان مردان خدا کا خدا کی راہ میں ان ہوش ربا تکلیفوں اور مصیبتوں کو برداشت کرنا ان کے کمال ایمان کی دلیل ہے لہذا میں ایسے لوگوں کی برائیوں اور گناہوں کو ضرور ضرور معاف کروں گا اور ضرور ان کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی یہ بدلہ ملے گا ان کو اللہ کے یہاں سے اور اللہ تعالیٰ کے پاس ہے نہایت عمدہ بدلہ جس پر سوائے اس کے کسی کو قدرت نہیں اور یہ عمدہ بدلہ انہیں عقلاء کو ملے گا جن کا اوپر ذکر ہوچکا ہے۔ ایک شبہ اور اس کا ازالہ۔ اوپر کی آیت میں مومنین کا حال اور ان کے اخروی درجات کا بیان تھا اب اس آیت میں کافروں کا حال بیان فرماتے ہیں کہ کوئی مسلمان دنیا میں کافروں کو خوش حال اور خوش وخرم دیکھ کر یہ خیال نہ کرے کہ یہ کمبخت خدا کے دشمن ہیں تو بظاہر عیش اڑاتے ہیں اور ہم مصیبت جھیلتے ہیں اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی (اے ظاہر بین) یہ دنیاوی عیش و عشرت بہت ہی تھوڑی پونجی ہے انکی اس چند روزہ بہار سے مسلمان کو دھوکہ نہ کھانا چاہیے یہ دولت و ثروت کی دلیل نہیں اگر کسی شخص کو چند روز پلاؤ اور قورمہ کھلا کر حبس دوام کی سزا دی جائے تو وہ کیا خوش عیش اور خوش نصیب ہوگا خوش عیش اور خوش نصیب تو وہ ہے کہ چند روزہ محنت اور تکلیف اٹھا کر اعلی درجہ کی دائمی عیش اور آسائش کا سامان مہیا کرلے کافروں کی یہ عیش و عشرت محض چند روزہ ہے پھر ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور بہت ہی برا ٹھکانہ ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے لہذا مومنوں کو ان کی حالت سے دھوکہ میں نہ پڑنا چاہیے بلکہ ان کو اللہ کے ثواب ابدی اور دائمی پر نظر رکھنی چاہیے۔ 1۔ دنیا کی کوئی نعمت ضرر اور الم سے خالی نہیں۔ 2۔ نیز دنیا کی کوئی نعمت ضرر اور الم سے خالی نہیں۔ 3۔ نیز آخرت کی نعمتوں کے مقابلہ میں دنیا کی تمام نعمتیں، ہیچ اور محض بےحقیقت ہیں علاوہ ازیں انسان دنیاوی نعمتوں میں پڑ کر خدا کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ دائمی عذاب ہے لیکن ان میں سے بھی جو لوگ خدا سے ڈریں اور ایمان لا کر متقی اور پرہیزگار بن جائیں ان کے لیے بہشت کے باغات ہیں۔ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ کی طرف سے ان کی مہمانی ہے اور جو چیزیں اللہ کے یہاں ہیں سو وہ اس متاع قلیل سے نیک بختوں کے لیے کہیں بہتر ہیں کیونکہ خدا کے پاس جو ہے وہ بےمثال ہے اور لازوال ہے۔ (ف) ۔ جاننا چاہیے کہ متقین اور ابرار کے درمیان فرق ہے اور ابرار کا درجہ متقیوں سے بڑھا ہوا ہے کیونکہ متقی اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے آپ کو اللہ کی ناراضگی کے اسباب سے بچائے اور یہ بات صرف محرمات کو چھوڑنے اور فرائض اور واجبات کے بجالانے سے حاصل ہوسکتی ہے اور ابرار بر بمقابلہ بحر سے مشتق ہے جس کے مفہوم میں وسعت داخل ہے لہذا ابراب کے مفہوم میں تمام نیکیوں کا بجالانا داخل ہے خواہ فرائض ہوں یا نوافل پس مطلب یہ ہوا کہ جنت تجری من تحنہا الانھرا۔ آیت۔ متقین کی مہمانی ہے اور ابرار کے لیے جو الطاف و عنایات ہوں گی وہ اس سے کہیں درجہ بہتر ہوں گی لہذا تمہیں اس کی فکر کرنی چاہیے۔ مدح مومنین اہل کتاب۔ گزشتہ آیات میں اہل کتاب کی مذمت کا بیان تھا اب آئندہ آیات میں اہل کتاب کی ایک خاص جماعت کی مدح فرماتے ہیں کہ جو مشرف باسلام ہوئی۔ 1۔ اور بلاشبہ اہل کتاب میں سے بعضے لوگ ایسے ہیں جو اللہ پر صحیح ایمان رکھتے ہیں۔ جس میں نفاق اور شرک کی آمیزش نہیں۔ 2۔ اور اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو ہماری طرف سے نازل کی گئی یعنی قرآن کریم۔ 3۔ اور ان کتابوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو ان کی طرف اتاری گئیں یعنی توریت وانجیل۔ 4۔ حالت ان کی یہ ہے کہ اللہ کے لیے عاجزی اور فروتنی کرنے والے ہیں خشوع اور خضوع اس اثر کا نام ہے جو دل میں خوف خدا پیدا ہونے کی وجہ سے تمام اعضاء اور جوارح پر پڑتا ہے جس کے باعث نظر نیچی ہوجاتی ہے اور آواز دب جاتی ہے یہ خشوع مومنین اہل کتاب کا چوتھا وصف ہے جو ایمان کا صحیح ثمرہ ہے۔ 5۔ اور پانچواں وصف ان کا یہ ہے کہ ان کے دل حب مال اور حب جاہ سے پاک ہیں اس لیے کہ وہ اللہ کی آیتوں کے بدلے میں تھوڑا مول نہیں خریدتے جیسا کہ دوسرے اہل کتاب مال وجاہ کی طمع میں خدا کی آیتوں میں تحریف کرکے تھوڑے داموں بیچ دیتے ہیں ایسے اہل کتاب کے لیے جو قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہوں اور کتب سابقہ پر بھی ایمان رکھتے ہوں اللہ کے یہاں ان کے لیے مخصوص اجر ہے یعنی ان اہل کتاب کا اجر اور ثواب اور لوگوں سے زیادہ ہے یعنی دگنا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے، اولئیک یوتون اجرھم مرتین۔ آیت۔ اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ ایسے اہل کتاب کو دھرا اجر ملے گا اور بہت جلد ملے گا جس میں دیر نہ ہوگی اور اس لیے کہ تحقیق اللہ جلد حساب کرنے والا ہے سب کے اعمال کا حساب بےباق کردیا جائے گا۔ خاتمہ سورت اور ایک جامع مانع نصیحت۔ ربط) اب اللہ جل شانہ اس سورت کو ایک جامع مانع نصیحت پر ختم فرماتے ہیں کہ جو کہ تمام سورت کا خلاصہ اور لب لباب ہے اے ایمان والو تمہارے ایمان کا مقتضی یہ ہے کہ جب تم کو کوئی تکلیف پہنچے خواہ کافروں کی طرف سے ہو یا کسی اور طرف سے تو تم اس پر صبر کرو اور جب کافروں سے تمہارا مقابلہ آپڑے اور تکلیف میں تم اور وہ مشترک ہوں تو تم ان کے مقابلہ میں مضبوطی دکھلاؤ اور کوشش کرو کہ صبر تمہارا صبر کافروں کے صبر پر غالب رہنا چاہیے اور ظاہری اور باطنی دشمنی کے بچاؤ کے لیے ہر وقت تیار اور آمادہ رہو، اورا للہ کی رضا اور اطاعت اور استقامت سے قلب کو مربوط رکھو مبادا دشمن تمہیں غافل پا کر تم پر حملہ نہ کردے مرابط کے لفظی معنی دشمن کے مقابلہ کے لیے سرحد پر گھوڑے باندھے رکنا اور ہر وقت اپنے مورچہ پر دمن کی مدافعت اور اس سے حفاظت کے لیے تیار رہنا ہے لہذا مطلب یہ ہوا کہ ہر وقت ظاہری اور باطنی دشمنی کی تاک میں رہو کہ مبادا تمہیں غافل پاکر کوئی کافر یا نفس یا شیطان تم پر کوئی وار نہ کردے حدیث میں ہے کہ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے لیے منتظر رہنا یہی رباطہ ہے نبی ﷺ کے اس ارشاد مبارک میں اشارہ اس طرف ہے کہ رباطہ کا حکم اعداء ظاہری کے ساتھ ہی مختص نہیں بلکہ جیسے اعداء ظاہری کے مقابلہ میں رباط ہے اسی طرح کبھی اعداء باطنی یعنی نفس شیطان کے مقابلہ میں بھی رباطہ ہوتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے مقابلہ میں جہاد کرے۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو امید ہے کہ تم کامیاب ہوگے اور مراد کو پہنچو گے مطلب یہ کہ اگر دنیا اور آخرت کی فلاح اور کامیابی چاہتے ہو تو شدائد اور مصائب میں صبر کرو اور نفس کو معصیت سے ہٹا کر طاعت پر روکو۔ (یہ معنی ہوئے اصبروا کے) اور دشمن کے مقابلہ میں مضبوطی اور ثابت قدمی دکھلاؤ (یہ معنی ہوئے وصابرو کے) اور دشمن پر حملہ آور ہونے کے خطرہ سے ہر وقت ہوشیار رہو اور چوکنے رہو مبادا کوئی ظاہری یا باطنی دشمن تمہارے حدود اسلام میں نہ گھس آئے (یہ معنی ورابطوا کے ہوئے) اور ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہو یہ معنی واتقواللہ کے ہوئے ایسا کیا تو انشاء اللہ کامیابی ہی کامیابی ہے۔ اللھم اجعلنا من عباک الصالحین واولیاءک المتقین وحزبک المفلحین۔ امین یارب العالمین برحمتک یا ارحم الراحمین ویارب صل وسلم وبارک علی سیدنا ومولانا محمد نبیک ورسولک الذی انزلت علیہ ھذا الکتاب المبین واعلی الہ و اصحابہ وازواجہ وذریتہ اجمعین وعلینا معھم یا ارحم الراحمین۔ الحمدللہ آج بروز شنبہ بوقت اشراق یکم صفر الخیر 1381 ھ کو بمقام جامعہ اشرفیہ لاہور تفسیر آل عمران سے فراغت ہوئی۔ فللہ الحمد والمنۃ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم وتب علینا انک انت التواب الرحیم۔
Top